فن اور طبقاتی جدوجہد ۔ حصہ اول

|تحریر: ایلن ووڈز|

(ہم فن اور طبقاتی جدوجہد کے موضوع پر ایلن ووڈز کے خطاب کا ٹرانسکرپٹ شائع کر رہے ہیں۔ یہ خطاب جولائی 2001ء میں بارسلونا، سپین میں منعقدہ مارکسی سکول میں کیا گیا۔)

دی پوٹیٹو ایٹرز- وان گو

ہم اپنے کسی بین الاقوامی اجلاس میں پہلی بار اس موضوع کو زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ اور شائد آپ میں سے کچھ لوگوں کے سامنے اس کا جواز پیش کرنا بھی ضروری ہو۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ فن ایک ضمنی سا معاملہ ہے اور زیادہ اہم نہیں ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ انسانوں کے لئے انتہائی بنیادی نوعیت کا حامل ہے۔ یہ اس قدر بنیادی چیز ہے کہ بعض ماہرین بشریات کا خیال ہے کہ نوعِ انسانی کی شروعات کی وضاحت فن کے ظہور کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہماری انسانی نسل (یعنی ہومو سیپئین سیپئین) کے ظہور کی پہلی سنجیدہ علامات میں سے ایک فن کا وجود ہے۔ یعنی جمالیاتی حس کا ٹھوس اظہار۔ یہ نظریہ حال ہی میں متنازعہ بن گیا ہے، جس کی وجہ چند ایسی اشیاء کی دریافت ہے جن کا تعلق ہماری انسانی نسل سے پہلے کے نیم انسان نیندر تھال سے ہے۔ بلاشبہ ان میں بھی ایک مخصوص قسم کی جمالیاتی خوبی پائی جاتی ہے۔ لیکن اسے فن نہیں کہا جا سکتابلکہ یہ محض ایسی ابتداء ہے جس سے فن فروغ پا سکتا تھا۔

در حقیقت یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ اس قسم کے عناصر نہ صرف دیگر بلکہ کمتر نوعیت کے جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔مثال کے طور پر بعض پرندے (جیسا کہ Bower Birds) ایسے تعمیراتی ڈھانچے بناتے ہیں جو گھونسلے نہیں ہوتے۔ ان کی بظاہر کوئی بھی عملی افادیت نہیں ہوتی اور انہیں تعمیر کرنے والے پرندے ان کو انتہائی غیر معمولی انداز میں سجاتے ہیں۔وہ رنگوں کی مخصوص تراتیب کا انتخاب کرتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ غالباٌ ان پرندوں میں بھی جمالیاتی حس موجود ہے۔

لیکن درحقیقت یہ پرندے ان ڈھانچوں کی بلا مقصد ہی تعمیر نہیں کرتے۔ یہ ڈھانچے واقعتابہت عملی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ نر پرندے یہ ڈھانچے مادہ کو متوجہ کرنے کے لئے بناتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ جنسی اختلاط کے مقصد سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کے مظاہرے ہمیں تمام حیوانی دنیا میں ملتے ہیں۔ عام طور پر نر ہی شوخ رنگوں کی مدد سے بن سنور کر مادہ کی توجہ حاصل کرتا ہے جو اکثر اوقات کافی غیر پرکشش ہوتی ہے۔لیکن بہر صورت بہت سے جانوروں میں پائی جانے والی ان خصوصیات اور انسانی فنون میں ایک بنیادی فرق موجود ہے۔ ادنیٰ حیوانات کی یہ سرگرمیاں جبلی ہیں جن کا تعین جینیاتی طور پر ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس صورت میں جب یہ جنسی اختلاط کی غرض سے کی جاتی ہیں۔

فن رابطے کی ایک شکل

پتھر سے بنا ہو کلہاڑا

یہ حیوانی سرگرمی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ہی جبلی اور انفرادی ہے جبکہ انسانی فن کا کردار بالکل مختلف ہے۔ یہ جبلی نہیں ہے بلکہ اسے سیکھنا پڑتا ہے اور یہ بنیادی طور پر اجتماعی سرگرمی ہے۔ اگرچہ اس کی ہیئت بہت عجیب و غریب ہے لیکن دراصل فن حقیقت میں انسانی رابطے کی ہی ایک شکل ہے۔ اور اس کا ظہور انسان کی پیداواری سرگرمی کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے بالخصوص پتھر کے اوزار کی پیداوار کے ساتھ۔ اگر آپ ابتدائی دور کے پتھر کے اوزاروں کا موازنہ بعد کے کسی دور کے پتھر کے اوزاروں سے کریں آپ کو ایک انتہائی غیر معمولی فرق نظر آئے گا۔ بعد میں بنائے جانے والے اوزارزیادہ نفیس و دیدہ زیب اور ابتدائی نمونوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کامل اور پختہ نظر آتے ہیں۔ پتھر کے اوزاروں کی ساخت میں کاملیت کی جانب یہ سفر انسانی دماغ کے ارتقاء کی عکاسی کرتا ہے جس میں ایک مخصوص جمالیاتی حس کی شروعات بھی شامل ہیں۔

جمالیات کے سلسلے میں بہت سی عجیب و غریب قسم کی غیر سائنسی بکواس سننے میں آتی ہے یعنی یہ احساس کہ خوبصورتی اور بدصورتی کیا ہے۔ جسے خوبصورتی کا نام دیا جاتا ہے وہ کیا چیز ہے؟پہلی نظر میں وہ ایک عجیب و غریب اور پر اسرار شے معلوم ہوتی ہے۔ کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ خوبصورتی کیا ہوتی ہے؟ ہم سب سمجھتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ خوبصورتی کیا ہوتی ہے اور بد صورتی کیا ہوتی ہے۔ لیکن کیا ہم واقعی جانتے ہیں؟ لیکن اگر ہم تاریخ کا اور مختلف انسانی سماجوں کا جائزہ لیں تو یہ بات فوراً واضح ہو جاتی ہے کہ خوبصورتی کا ایسا کوئی عمومی تصور موجود نہیں جس کا اطلاق تمام ادوار اور تمام اقسام کے سماجوں پر ہوتا ہو۔ خوبصورتی کے بارے میں انسان کے تصور نے اسی طرح سے ارتقاء پایا ہے جس طرح اخلاقیات اور تمام مذاہب نے ہزاروں نسلوں پر محیط ارتقا کا سفر طے کیاہے۔

یہاں چند الفاظ تاریخی مادیت کے بارے میں کہنا ضروری ہیں۔یہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بالآخر، اور ہم یہاں لفظ ’’بالآخر‘‘ پر زور دینا چاہیں گے، انسانی سماج اور تہذیب و ثقافت ایک مادی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں جسے پیداواری قوتوں کے ارتقاء میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ صورت احوال یہ ہے کہ سماج کی ابتدائی ہئیتوں میں اس تعلق کا ثابت کرنا نسبتاً آسان ہے اور بعد کے زیادہ پیچیدہ سماجوں میں قدرے مشکل ہے۔

سماج کی معاشی بنیاد اور کلچر کے مابین تعلق فن کی ابتدائی ترین اشکال میں انتہائی واضح ہے۔ مثال کے طور پر ہم مشرقی افریقہ کے مسائی قبیلے کا جائزہ لیتے ہیں۔ان کے ہاں اس عورت کو انتہائی پرکشش خیال کیا جاتا تھا جس کی گردن بہت لمبی ہو۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ نوجوان لڑکیوں کی گردنوں کو غیر معمولی حد تک لمبا کر کے زرافے جیسا تاثر پیدا کر دیتے تھے۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کو یہ بہت زیادہ پرکشش معلوم نہیں ہوگا۔ لیکن اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ اس رسم کی شروعات کچھ یوں ہوئی تھیں۔ مسائی سماج کی دولت ایک جانب جانوروں کے گلوں اور دوسری جانب تانبے کی صورت میں ناپی جاتی تھی جو کمیاب ہونے کے باعث مہنگا تھا۔ اگر کوئی خاتون زیبائش کیلئے تانبے کی بہت سی چوڑیاں (بالخصوص گردن میں) پہنتی تھی تو اسے پر کشش خیال کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اپنی گردن کو طوالت دے کر خاتون ان تانبے کی چوڑیوں کی بڑی تعداد پہن سکتی تھی۔

ابتداء تو یوں ہوئی مگر طویل عرصے تک جاری رہنے کے بعد ایسی شروعات کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ تاہم جب یہ رسم و رواج کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو لوگ اس تصور کو قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ گویا ایک لمبی گردن بذاتِ خود کوئی خوبصورت چیز ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بعض افریقی قبائل میں سامنے کے دانت نکلوا دینے کا رواج ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جگالی کرنے والے بعض ایسے جانوروں کو پالتے تھے جو دولت اور حیثیت کی علامت ہوتے تھے۔ وہ خود بھی انہی جانوروں جیسے نظر آنے کی کوشش کرتے تھے۔

تواس سے ہم کیا نتائج اخذ کر سکتے ہیں؟صرف یہ کہ خوبصورتی کا تصور کوئی حتمی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا تاریخی طور پر ارتقاء ہوا ہے اور اس میں بہت مرتبہ تبدیلیاں آئی ہیں۔توہم یہاں ایک اندیشے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔خطرہ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم سوال کو میکانکی انداز میں نہ لینا شروع کر دیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ مذہب اور فنون جیسی چیزوں کو براہِ راست پیداواری قوتوں کی ترقی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔

یہاں ہم مارکس کا ایک حوالہ پیش کرنا چاہیں گے۔اس نے لکھا کہ

’’جہاں تک نظریات کا تعلق ہے تو انکی پرواز اور بھی بلند ہوئی ہے، وہ بہت اونچی پرواز کر سکتے ہیں،وہ اپنی شروعات سے الگ ہو جاتے ہیں اور خود زندگی حاصل کر لیتے ہیں،ایک خود مختار وجود۔‘‘

مارکس یہاں مذہب اور فلسفے کے بارے میں رقم طراز ہے لیکن ہم ان میں فن کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔وہ مزید لکھتا ہے:

’’یہ قبل از تاریخ کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں وہیں ان کی شروعات ہوئی تھیں‘‘۔دوسرے لفظوں میں ان کی جڑیں انسانی شعور میں بہت گہری ہیں اور اگر زیادہ نہیں تو یہ عرصہ لاکھوں برس پر محیط ہے۔’’جب تاریخ کا آغاز ہوا تو یہ پہلے ہی سے موجود تھے جہاں سے یہ سفر مزید آگے بڑھا۔‘‘

اگر ہم نفسیات کی اصطلاح میں بات کریں تو فن کی جڑیں ہمارے اجتماعی شعور میں بہت گہری ہیں۔ یہ مذہب کی طرح تاریخ اور ماقبل تاریخ کے دور افتادہ ادوار کے دھندلکوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اگر ہم فن کی ابتدائی اشکال کو دیکھیں تو پہلی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اس کا بہت کم حصہ افتادزمانہ سے محفوظ رہ سکا ہے۔اس فن کا بہت بڑا حصہ ایسے مواد پر مشتمل تھا جو با آسانی فنا ہو جاتا ہے مثلاً لکڑی، ہڈی اور کھدے ہوئے نقوش کی صورت میں انسانی جلد۔ آپ میں سے بھی چند لوگوں نے یہ نقوش کھدوا رکھے ہیں۔غالباً آپ بھی تاریخ سے پہلے کے دور میں جانا چاہتے ہیں!اس قسم کا فن کم و بیش مکمل طور پر غائب ہو چکا ہے اگرچہ سائبیریا میں تاریخ سے پہلے کے دور کی ایک خاتون کا منجمد جسم برآمد ہوا ہے جس کے بدن پر انتہائی دیدہ زیب نقوش کھدے ہوئے ہیں۔

غار کا فن (Cave Art) 

آج کل جب ہم تاریخ سے پہلے کے فن کے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں غاروں کے اندرملنے والے نقوش کا خیال آتا ہے۔مثلاً فرانس میں دوردونئے اور شمالی سپین میں التا میرا کے علاقوں سے ملنے والی شاندار تصاویر ہیں۔ یہ تصاویریقیناًانسانی تہذیب و ثقافت اور فن کے ایک اعلیٰ مقام کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسکی بعض مخصوص خصوصیات ہیں جو اسے فن سے جدا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر کم و بیش تمام ہی تصاویر جانوروں کی شبیہوں پر مشتمل ہیں۔ انسانوں کی تصویریں نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں ہیں۔ لیکن فرانسیسی تصاویر میں ایک بہت پر اسرار شکل موجود ہے جو نیم انسانی ہے یعنی اسکا دھڑ انسان کا ہے اور سر ہرن کا ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کسی جادوگر وغیرہ کی تصویر ہے۔

اگر ان میں انسان نہیں ہیں تو پھول بھی نہیں اور پودے بھی نہیں ہیں اور جن جانوروں کی تصاویر بنائی گئی ہیں وہ بھی مخصوص قسم کے جانور ہیں اور جس انداز میں ان جانوروں کے نقوش بنائے گئے ہیں وہ انتہائی غیر معمولی ہے۔ ہزاروں برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ آج بھی ہمیں خوبصورت لگتے ہیں۔ وہ ہمیں اپنی حیران کن حقیقت نگاری اور فطری ہونے کی وجہ سے خوبصورت لگتے ہیں اور ان میں اعضاء کے بارے میں زبردست آگہی دیکھنے کو ملتی ہے جو حقیقتاً بہت سائنسی ہے۔ ان میں ہر جوڑ، ہر ہڈی اور ہر رگ کو نہایت صحت کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔

اگرچہ یہ شاندار تصاویر ہمیں خوبصورت لگتی ہیں لیکن یہ اسی حوالے سے خوبصورت نہیں ہیں جس حوالے سے یہ ان لوگوں کے نزدیک خوبصورت تھیں جنہوں نے انہیں بنایا تھا یا جو لوگ اس وقت انہیں دیکھتے تھے۔ہم ابھی اس کی وضاحت بھی کر دیں گے لیکن آئیں ہم اپنے ابتدائی کلمات کی جانب لوٹیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فن اہم نہیں ہے، فن ضروری نہیں اور یہ کہ فن محنت کش طبقے کے لئے نہیں ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔آپ ایک ایسی دنیا کا تصور کرنے کی کوشش کریں جو فن سے محروم ہو، موسیقی، گانے، رقص اور شاعری کے بغیر دنیا، آپ محض ایک لمحے کیلئے یہ تصور ذہن میں لائیں تو آپ کو فوراً احساس ہوگا کہ فنونِ لطیفہ عوام کے لئے کتنے اہم ہیں، صرف دانشوروں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر کسی کے لئے۔ طبقاتی سماج اور خاص طور پر موجودہ مغربی سماج کے حوالے سے یہ بات بالکل درست ہے کہ فن پر مراعات یافتہ طبقات کی اجارہ داری ہے۔ یہ عوام کی پہنچ سے اکثر و بیشتر باہر ہے جو نہ صرف مادی بلکہ روحانی اعتبار سے بھی انتہائی نا گفتہ بہ حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ سرمایہ داری نے عوام کی اکثریت کو گھٹیا، بدصورت اور بیگانگی کے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ اور بد قسمتی سے یہ سچ ہے کہ مرد و زن اس قسم کے حالات کے عادی بھی بن سکتے ہیں۔دراصل انسان کم و بیش کسی بھی چیز کے عادی ہو سکتے ہیں۔

غلام کو اپنی زنجیروں سے پیار ہو سکتا ہے۔لوگ خراب رہائش گاہوں اور بری خوراک کے عادی ہو سکتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں یہ بری خوراک پسند ہے، اور ایسے ہی گھٹیا ٹی وی پروگرام،گھٹیا موسیقی،خاص طور پر گھٹیا موسیقی، گھٹیا فلمیں اور گھٹیا اخبارات۔وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے آزادانہ طور پر ان چیزوں کا انتخاب کیا ہے۔اس سلسلے میں لائی بنتز (Leibnitz) نامی فلاسفر نے کہا تھا کہ اگر مقناطیسی سوئی سوچنے کے قابل ہوتی تو وہ سمجھتی کہ وہ اپنی مرضی سے شمال کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ دراصل ہم مطابقت پذیری کی وجہ سے اس قسم کی دیگر کئی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔

حکمران طبقات کے لئے یہ چیز بہت فائدہ مند ہے۔ عوام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اس مادی و روحانی غربت کے حالات کو قبول کر لیں۔ جبکہ حکمران طبقہ خود خوبصورت گھروں میں رہتا ہے، تھیٹر میں بہت اچھے ڈرامے دیکھتا ہے، (بعض اوقات)بہت بہتر انداز میں لکھی گئی کتابیں پڑھتا ہے، زبردست قسم کی چھٹیاں مناتا ہے اور مہنگے ہوٹلوں میں کھانا کھاتا ہے۔ لہٰذا فطری طور پر وہ سمجھتا ہے کہ عوام کیلئے ہر قسم کی گندگی جائز و مناسب ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ، یہاں تک کہ وہ بھی جو بہت باشعور ہیں، اس بات پر یقین کرنے لگے ہیں کہ یہ معاملات نہ صرف فطری ہیں بلکہ تسلی بخش بھی ہیں۔

میں عام طور پر اپنے خاندانی پس منظر کا ذکر نہیں کرتا لیکن اس موقع پر میں اپنے دادا کے بارے میں چند الفاظ ضرور بیان کروں گا۔ وہ ایک نفیس شخص تھا،ویلز کا رہنے والا، سٹیل مل کا محنت کش اور کمیونسٹ۔ میں نے سوانسی کے مزدوروں کے علاقے میں اسی کے گھر میں پرورش پائی۔ اس گھر میں ہمیشہ کتابیں موجود ہوتی تھیں جن میں اینگلز کی اینٹی ڈوہرنگ جیسی مارکسی کتب بھی شامل تھیں۔ کلاسیکی موسیقی بھی تھی جس میں اطالوی اوپیرا خاص پر قابلِ ذکر ہے جسے ویلز کے مزدور بہت پسند کرتے تھے کیونکہ وہ خود بھی عام طور پر اچھا گاتے تھے۔

میرے دادا نے سکول کے زمانے میں ہی مجھے مارکسزم سے متعارف کروا دیا تھا۔اس نے ایک بار ایسی بات کی تھی جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکا۔ اس نے کہا تھا:’کوئی بھی شے ایسی نہیں جو محنت کش طبقے کیلئے حد سے زیادہ اچھی ہو۔‘‘مجھے ذاتی طور پر اس وقت بہت غصہ آتا ہے جب درمیانے طبقے کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ محنت کشوں کو کلچر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ساری تاریخ گواہ ہے کہ یہ بات غلط ہے اور خاص طور پر انقلابات کی تاریخ جیسا کہ میں ثابت کروں گا۔

بیگانگی؛ حقیقی زندگی اور فنونِ لطیفہ کے درمیان یہ خلیج بہت سے عام محنت کشوں کو فن کے سلسلے میں مشکوک رویہ اپنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔’’مجھے یہ پسند نہیں ہے۔ مجھے موسیقی پسند نہیں ہے۔ مجھے اوپیرا پسند نہیں ہے۔‘‘ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ اسے سمجھ نہیں پاتے اور انکے نہ سمجھنے کہ وجہ یہ ہے کہ انہیں کبھی ان چیزوں سے آشنا ہونے کا موقع ہی نہیں ملا۔ اس قسم کے فن تک ان کی رسائی یا تو بالکل نہیں ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم فن اور زندگی کے درمیان یہ تقسیم ہمیشہ سے موجود نہیں تھی۔ ابتدائی سماج میں فن زندگی کاحصہ تھا۔ ہر مرد اور عورت کی زندگی کا یہ نہ صرف حصہ تھا بلکہ ایک اہم حصہ تھا۔

آیئے اب ہم ایک ایسے خیال کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں جو انتہائی غلط خیال ہے۔ اسے بورژوا اور پیٹی بورژوا فنکاروں کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔ ’’فن برائے فن‘‘ کا تصور۔ یہ ایک انتہائی عام خیال ہے جو فن کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو خلاء میں معلق ہے، جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، جو محض اپنے لئے وجود رکھتی ہے اور سماج اور حقیقی زندگی سے الگ انتہائی شاندار تنہائی میں اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے۔ جیسا کہ عظیم مادیت پسند فلسفی چرنیشفسکی نے کہا تھا کہ یہ بیان ہی بکواس ہے۔ اس کا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ’’لکڑی کا کام کرنے کا مقصد لکڑی کا کام کرنا ہے‘‘۔

فن کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور ایسا ہمیشہ سے تھا۔ اولین فن کی غرض و غایت کیا تھی؟غاروں میں بنائی جانے والی منقش تصاویر کا مقصد کیا تھا؟ یہاں ہمارا واسطہ ایک اسرار سے پڑتا ہے کیونکہ یہ تصاویر آرائش کی غرض سے نہیں بنائی گئی تھیں جیسے مینٹل پیس کے اوپر پرانی تصویریں لگائی جاتی ہیں۔ یہ قطعاً آرائش کے لئے نہیں ہیں اور اسے آسانی سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہ غار کے انتہائی گہرے اور دشوار گزار کونوں کھدروں میں بنائی گئی تھیں جو مکمل تاریکی میں تھے اور اگر آپ اس دور کی ٹیکنالوجی کو ذہن میں رکھیں تو یہ بات انتہائی نا قابلِ یقین دکھائی دیتی ہے۔ جن لوگوں نے یہ تصاویر بنائی ہیں انہیں انتہائی دشوار حالات میں رینگتے ہوئے اس جگہ جانا پڑتا ہوگا اور پھر جانوروں کی چربی سے بنائے ہوئے دھواں چھوڑتے چراغ کی ٹمٹماتی روشنی میں کام کرنا پڑتا ہوگا۔ اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو بات انتہائی حیران کن لگے گی۔

اور اس کی وجہ کیا ہے؟ جہاں یہ تصویریں بنائی گئی ہیں وہاں لوگ نہیں رہتے۔ غالباً یہ لوگ غاروں میں رہائش پذیر بھی نہیں تھے اور اگر ان غاروں میں رہتے بھی تھے تو بیرونی حصوں میں رہتے ہوں گے جہاں تھوڑی بہت روشنی آتی تھی۔ یہ فن برائے فن نہیں تھا۔ یہ فن انتہائی عملی، سماجی اور معاشی مقصد کے حصول کے لئے تھا۔ در حقیقت اس وقت تک فن، سائنس اور مذہب کم و بیش ایک ہی چیز تھے۔ وہ آپس میں گڈ مڈ تھے۔

یہ وہ سماج تھے جنہیں ’’Hunter Gatherer‘‘ سماج کہا جاتا ہے۔ ان کا دارومدار شکار کرنے اور پھول پھل جمع کرنے پر تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جانور کی تصویر بنانے سے شکاری کو اس جانور پر کسی طور برتری حاصل ہو جاتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہ جادو تھا یا جادو سے ملتی جلتی کوئی چیز، جادو جو سائنس کا قبل از تاریخ ورژن تھا، یعنی مرد وزن کی طرف سے اپنے ماحول کو سمجھنے اور اس پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش۔ 

رقص اور موسیقی کے سلسلے میں بھی یہ بات سچ ہے۔ موسیقی نے رقص سے جنم لیا تھا اور قدیم لوگوں کے رقص اجتماعی ہوتے تھے۔ یہ انفرادی اچھل کود نہیں ہوتی تھی جیسا کہ آج کل ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کی اس انفرادی اچھل کود میں ہمیں جدید سماج کے انتشار کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ رقص کرتے وقت ایک دوسرے کی جانب دیکھتے تک نہیں۔ وہ اپنی چھوٹی سی دنیا میں گم رہتے ہیں لیکن ماضی میں صورتحال ایسی نہیں تھی۔ میں یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ آپ رقص و موسیقی کے بارے میں میرے ذوق سے اتفاق نہیں کرتے مگر میں یہاں ایک اہم نقطے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ نقطہ یہ ہے کہ ابتدائی رقص اجتماعی نوعیت کے ہوتے تھے۔ ان میں سارا قبیلہ یا برادری شامل ہوتی تھی اور ان کا تعلق ہمیشہ پیداواری سرگرمی سے ہوتا تھا۔ امریکہ کے ابتدائی باشندوں کے رقص پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ ان پرندوں،بھینسوں اور دیگر جانوروں کی حرکات و سکنات کی نقالی پر مشتمل ہیں جن کا وہ شکار کیا کرتے تھے۔ یہاں ہمیں ایک اہم اور ضروری نوعیت کی سماجی سرگرمی دکھائی دیتی ہے نہ کہ عیاشی۔ 

اور شاعری کی ابتداء کے بارے میں کیا خیال ہے؟ شاعری فنونِ لطیفہ کی تمام اصناف میں سے غالباً سب سے زیادہ قدیم ہے۔ اسکی جڑیں ان قدیم سماجوں میں ہیں جن کا ہمارے پاس کوئی تاریخی ریکارڈ بھی موجود نہیں۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کیونکہ تحریر ایک نسبتاً حالیہ مظہر ہے جس کی عمر محض پانچ ہزار سال کے لگ بھگ ہے۔ آج کے دور میں کسی ایسے سماج کا تصور بھی محال ہے کہ جہاں ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ، کتابیں یا اخبارات موجود نہ ہوں۔ اس کے باوجود انسانی کلچر کو یا تو اگلی نسلوں تک منتقل کرنا پڑتا ہے یا وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ ہم بحثیت انسان ادنیٰ درجے کے جانوروں سے مختلف ہیں۔ ہم مختلف اس لئے ہیں کیونکہ ہم جو کچھ جانتے ہیں،ہمارا علم اور جمالیاتی حس، مذہب اور سائنس،ہمارے طریقے اور رویے، روایات اور اخلاقیات، یہ تمام وسیع اور پیچیدہ علم جینیاتی طور پر منتقل نہیں ہو سکتا جیسا کہ اکثر جانوروں کے معاملے میں ہوتا ہے۔

ان تمام معلومات پر عبور حاصل کرنا پڑتا ہے اور تحریر کی مدد کے بغیر یہ بہت دقت طلب مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ ان ابتدائی سماجوں کے قوانین جنہیں ہم غلط طور پر پسماندہ کہتے ہیں کافی پیچیدہ ہوا کرتے تھے۔ تحریر موجود نہیں تھی لیکن اس تمام تر روایتی علم، اس انتہائی پیچیدہ قبائلی حکمت اور دیومالا کو اگلی نسل تک منتقل بھی کرنا ہوتا تھا۔ تو پھر اسے کس طرح سرانجام دیا جاتا تھا؟ صرف ایک ہی طریقہ تھا؛ زبانی طور پر۔ عہدِ بربریت میں جو رزمیہ شاعری عام تھی اس کی شروعات اسی طرح ہوئی تھیں۔

ہومر کے نام سے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اسکی انتہائی شاندار مثال ہے حالانکہ یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ اس نام کے کسی شخص کا کوئی وجود بھی تھا۔ یہ انتہائی شاندار شاعری ہے اور اس کا تعلق نا قابلِ یقین حد تک پرانی زبانی روایت سے ہے۔ اس قدیم روایت کا ایک عملی مقصد تھا۔مثال کے طور پر اگر آپ ایلیڈ کی پہلی کتاب کا مطالعہ کریں تو آپ کو وہ قوانین ملیں گے جن کا تعلق جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک سے ہے۔ بعد ازاں آپ کو رتھوں کی دوڑ کے قوانین ملیں گے، آپ کو طبقاتی سماج کی شروعات کی دلچسپ منظر کشی بھی بہت واضح انداز میں پیش کی ہوئی ملے گی۔

ایلیڈ اور اوڈیسی میں جس سماج کی منظر کشی کی گئی ہے اس پر پہلے ہی سے اگامیمنان جیسے قبائلی سرداروں کا غلبہ ہے لیکن اس میں ابھی تک قدیم قبائلی جمہوریت کے عناصر بھی موجود ہیں۔ آپ کو ان کے اندر اس قسم کے مباحث ملیں گے جن میں بالکل سیدھی اور غیر پارلیمانی قسم کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مثلاً اخیلیس اپنے آقا اور بادشاہ کو ’’کتے کے منہ والا‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتا ہے۔ اس سماج میں ایسا کردار بھی پایا جاتا ہے جسے شاعر اور قصہ گو (Bard) کہا جاتا تھا۔

قبائلی قصہ گو یا شاعر کا کام یہ تھا کہ وہ معلومات کے اس زبردست خزانے کو زبانی یاد کرے اور خصوصی مواقع پر سارے قبیلے یا برادری کے سامنے اسے تلاوت کی شکل میں پیش کرے۔ آج کے دور میں شائد بہت اچھی یاداشت رکھنے والے لوگ بھی ان کو زبانی یاد نہ کر سکیں۔ لیکن اس دور میں بعض لوگوں کے لئے ایسا کام کرنا معمول تھا۔ اس قدر طویل معلومات کو یاد رکھنے کے لئے وہ کچھ کرتب استعمال کرتے تھے۔ وہ لے، مخصوص اعادے، ایک جیسی آواز والے حروف کی تکرار، استعارے اور تشبیہات وغیرہ استعمال کرتے تھے جن سے انہیں یہ معلومات یاد رکھنے میں مدد ملتی تھی۔یہ ہے شاعری کی شروعات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم پہلے ہی طبقاتی سماج کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ اور فنون و ثقافت کی نوعیت میں تبدیلی آ چکی ہے۔ ہم کسی اور جگہ وضاحت کر چکے ہیں کہ قدیم اشتراکی نظام کا تختہ کیسے الٹا گیا تھا اور کس طرح سماج کی طبقات میں تقسیم کا عمل شروع ہوا تھا۔اور اس کی وجہ سے ہر چیز میں بنیادی تبدیلی واقع ہوئی۔ چاہے وہ عورت کی حیثیت ہو یا مرد کی ۔ اگر آپ یونانی دیومالا کا محتاط مطالعہ کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ اکثر یونانی قصوں کی بنیاد ایک ہی چیز پر ہے۔ مادر سری نظام کا دھڑن تختہ اور اس کی جگہ پدر شاہی نظام کا قیام۔

ابتدائی سماجوں میں دیوتا نہیں بلکہ دیویاں ہوتی تھیں۔ قدیم ترین مجسموں کا موضوع عورت ہے جیسے کہ قدیم حجری دور کی وینس۔ دوسری جانب اولمپس کے دیوتا نر ہیں جو اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ سماج پر مردوں کا غلبہ تھا۔

غلام داری اور کلچر

طبقاتی سماج کی پہلی قسم غلام داری سماج ہے جس میں عوام کو غلامی کی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہونا پڑا۔ ہمیں غلامی بری چیز لگتی ہے، ایک انتہائی قابل نفرت چیز۔ لیکن ہیگل جیسے گہرے فلسفی نے غلامی کے بارے میں یہ رائے دی ہے کہ ’’ بات اتنی سی ہے کہ انسان غلامی سے آزاد نہیں ہوتا ہے بلکہ انسان غلامی کے ذریعے آزاد ہوتا ہے۔‘‘ یہ بہت گہرے الفاظ ہیں۔ کیونکہ اگر ہم انسانی سماج کے ارتقاء کے بارے میں سوچیں تو ہمیں جو چیز بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ ابتدائی ترقی کی انتہا درجے سست رفتاری ہے۔ لاکھوں برس کے عرصے پر محیط ایک انتہائی سست رفتار، تکلیف دہ حد تک سست رفتار ارتقاء اور پھر تیز رفتار عمل شروع ہو جاتا ہے۔ کس کے ساتھ؟ غلام داری سماج کے ساتھ، ہماری تہذیب نے غلامی سے جنم لیا ہے۔

تقریباً اڑھائی ہزار سال پہلے ارسطو نے کہا تھا کہ انسان غور وخوض اس وقت شروع کرتا ہے جب اسے ضروریاتِ زندگی دستیاب ہوں۔ یہ ایک انتہائی اہم مشاہدہ ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ مصر میں علم الحساب اور علمِ فلکیات کی دریافت کی وجہ یہ تھی کہ پروہتوں کو کام دھندہ نہیں کرنا پڑتا تھا۔وہ کام کاج کی ضرورت سے آزاد تھے۔ ایک مارکسی مصنف پال لافارگ نے کہا ہے کہ سوشلزم کے تحت مرد و زن سب سے اہم حق حاصل کر لیں گے۔ بے کار رہنے کا حق، کچھ نہ کرنے کا حق۔ اس وقت یہ حق چند امیر استحصالیوں کی مراعت ہے جسے وہ خوب اچھی طرح استعمال کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ساحل سمندر پرلیٹ کر وقت گزارتے ہیں۔لیکن سبھی نہیں۔ اکثر لوگ اپنے فارغ وقت کو بہتر انداز میں گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہی فن، سائنس اور سارے کلچر کی ترقی کی بنیاد ہے۔

قدیم مصر کے پروہتوں کے پاس سوچنے کیلئے ضروری وقت تھا اور وہ ستاروں کو دیکھتے رہتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے اہم دریافتیں کیں۔ یہ مصری کلچر کی بنیاد ہے۔ اس کا ظہور سماج کے طبقات میں بری طرح تقسیم ہو جانے سے ہوا اور پہلی بار فن عوام سے اور زندگی سے بالکل کٹ گیا۔ مصری فن کی بنیاد کیا ہے؟ ایک طرف تو یہ تمام سابقہ فن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے لیکن یہ بھی فن برائے فن نہیں ہے۔ یہ یقینی طور پر کسی مقصد کے لئے ہے۔ لیکن وہ مقصد اور وجہ کیا ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مذہب کے متعلق فن ہے اور اس وجہ سے یہ انتہائی قدامت پرست فن ہے۔ علاوہ ازیں یہ گمنام فن ہے۔ وہاں عظیم الشاں فنکارانہ تخلیقات وجود میں آئیں لیکن ہم انکے خالقوں کے ناموں سے نا واقف ہیں۔ ہمیں کوئی مصری ریمبراں کوئی مصری پکاسو نظر نہیں آتا اور اسکی وجہ یہ ہے کہ فن بھی اجتماعی اور سماجی تھا نہ کہ انفرادی۔ پروہت طبقے کا کام یہ تھا کہ وہ فن پر اپنی گرفت مضبوط رکھے۔ وہی اس کے تمام اصولوں کا حتمی طور پر تعین کرتے تھے اور فنکار ان میں سرِمُو تبدیلی کا مجاز نہیں تھا۔اس احمقانہ صورتحال سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ مصری فنون میں ہزار سال تک کسی قسم کا ارتقاء کیوں نہ ہو سکا۔ اگرچہ اسکے فن پارے انتہائی نفیس ہیں، ہاں ان میں یونانی فن جیسی حیات و توانائی نہیں ہے۔

اس فن کا مقصد ایک شخص، فرعون، جسے خدا سمجھا جاتا تھا، کی شبیہ تخلیق کرنا ہے۔ عظیم الشاں اہرام اور دیو قامت مجسمے بھی اسی کی شان و شوکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ برٹش میوزیم میں آپ کو فرعون کا ایک بازو ملے گا جو انسان جتنا بڑا ہے بلکہ شائد اس سے بھی کچھ بڑا ہو۔ یہ فن آپ کو کچھ بتاتا ہے۔ اور یہ آپ سے کہتا ہے کہ ’’میں بادشاہ ہوں، میں قادر و مطلق ہوں، تم کچھ بھی نہیں ہو، اس لئے تم ہمیشہ میری اطاعت اور عبادت کرو گے۔‘‘

اسیری فن میں بھی آپ کو یہی پیغام ملے گا۔ یہ زیادہ تر مٹی کی لوحوں اور دیواروں پر ابھرے ہوئے نقوش کی شکل میں موجود ہے۔کیونکہ دجلہ و فرات کے خطے میں پتھر ناپید تھا۔ ان فن پاروں کے موضوعات انتہائی تشدد آمیز ہیں۔ لیکن پیغام وہی ہے۔ یہ جیتی جاگتی زندگی سے مشابہہ تصویریں ہیں جن میں بادشاہ کو رتھ پر سوار ہو کر شیروں کو مارتے دکھایا گیا ہے۔ ان کو بنانے والے علم الاعضاء پر کامل عبور رکھتے تھے۔ ان میں آپ کو بادشاہ کے طاقتور بازوؤں کے تمام رگ و ریشے دکھائی دیتے ہیں اور وہ انتہائی بے رحمی سے شیر کو ہلاک کر رہا ہوتا ہے۔ کسی زخمی شیر کے زخموں سے خون بہہ رہا ہے اور کوئی تیروں سے چھلنی ہے۔ یہ بے لگام اور بے رحم قوت کی تصویر ہے۔

جنگ کے مناظر میں بھی یہی تصور کارفرما ہے۔ بادشاہ فوج لے کر کسی شہر پر چڑھائی کر رہا ہے۔ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے۔ عورتوں، بچوں اور جانوروں کو مالِ غنیمت کے طور پر لے جایا جا رہا ہے جبکہ مرد جنگی قیدی بادشاہ کے تخت کے سامنے دوزانو ہو کر رحم کی درخواست کر رہے ہیں۔ لیکن رحم ناپید ہے۔ تخت شاہی کے پہلو میں کٹے ہوئے سروں کا ڈھیر لگا ہے جبکہ دیگر زندہ جنگی قیدیوں کی کھالیں کھینچی جا رہی ہیں۔ یہ فن ایک مخصوص سماج کی دستاویز ہے۔ ایک انتہائی عسکریت پسند آمرانہ ریاست کی، جس کا حکمران انسان کے روپ میں ایک دیوتا ہے اور وہ اپنے دشمنوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے قہقہے لگاتا ہے۔ اس فن میں تناسب یا موزونیت کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ایک شبیہ باقی تمام سے بلند و بالا ہے اور وہ بادشاہ کی ہے۔

زمانہ قدیم میں ہمیں کلاسیکی یونانی فن میں انتہائی اہم پیش رفت نظر آتی ہے۔ قدیم ایتھنز میں ذرائع پیداوار، سائنس اور تکنیک اس سطح تک پہنچ چکے تھے جہاں اس قدیم دور میں پہنچا جا سکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تمام حاصلات غلاموں کی محنت کی مرہونِ منت تھیں لیکن ایتھنز کی آزاد افراد پر مشتمل آبادی حقیقی جمہوریت سے بہرہ مند ہوئی تھی۔ اور کسی نہ کسی طور آزادی کی یہ روح اس فن میں بھی شامل ہے خصوصاً اس دور کے شاندار مجسموں میں۔

یہ فن مصری فن جیسا نہیں ہے۔ یہ ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ یہاں ہمیں پہلی بار انسانی اظہار، انسانی کلچر اور انسانی فنون کی زبردست نشونما دیکھنے کو ملتی ہے۔اگرچہ یہ بالکل ابتدائی نوعیت کے ہیں لیکن ان میں ہمیں اس مستقبل کی ہلکی سی جھلک ضرور دکھائی دیتی ہے جو سوشلزم کے تحت ہوگا۔ یہاں پہلی بار فن مواد کے حوالے سے حقیقی معنوں میں انسانی بن جاتا ہے۔ لوگوں کے ذہن مذہب کی تنگ حدود سے آگے نکل گئے ہیں۔ یونانی فلسفہ کائنات کی وضاحت کے لئے دیوتاؤں کا محتاج نہیں ہے۔ یونانی فلسفہ دیوتاؤں کی مدد کے بغیر کائنات کی وضاحت کرنے کی ایک کاوش ہے۔

ذرا یونانی مجسمہ سازی کی حیرت انگیز حاصلات پر نظر دوڑایئے۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ انسان کے فنکارانہ ارتقاء کی معراج ہے۔بدقسمتی سے اس فن کے زیادہ تر نمونے ضائع ہو گئے ہیں۔وحشیوں کی ہاتھوں نہیں بلکہ عیسایوں کے ہاتھوں جنہوں نے دیدہ و دانستہ اس کا بڑا حصہ برباد کر دیا۔ لیکن اس شاندار فن کا اتنا حصہ ضرور محفوظ ہے کہ ہم اسکی خوبصورتی اور معانی کو داد دے سکیں۔

میں آپ سب لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں، ان کو بھی جو کہ آرٹ گیلریوں میں جانے کے عادی نہیں ہیں، کہ وہ کسی آرٹ گیلری میں جائیں اور کچھ دیر کیلئے ان میں سے کسی مجسمے کے آگے محض کھڑے رہیں۔ آپ کو یہ احساس ہوگا کہ آپ کے سامنے حقیقی انسانی تخلیق، انسانی فن موجود ہے۔ یوں لگتا ہے گویا یہ مجسمے آپ سے ہمکلام ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ مکمل حقیقت نگاری نہیں ہے۔ ہمارے سامنے جو کچھ موجود ہے وہ انسانی ہیئت ہے، مردوں اور عورتوں کے برہنہ اجسام کی خوبصورتی۔ لیکن حقیقت میں یہ خیال پرستانہ فن ہے۔ یہ یونانی فکر و فلسفے کی جزوی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں افلاطون اور فیثا غورث کے افکار کے سبب خیال پرستی ایک بہت بڑا کردار ادا کرتی تھی۔ فیثا غورث کا خیال تھا کہ ہندسوں کی بنیاد پر قائم حساب اور ہم آہنگی ہر شے کی بنیاد تھی اور اس سوچ کے اثرات یونانی فکر پر طویل عرصے تک قائم رہے۔ اسی وجہ سے یونانی فن بہت ہم آہنگ ہے جس میں تناسب کو برقرار رکھنے میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے۔ یونان کے کلاسیکی فن تعمیر کے بارے میں بھی یہی بات صادق آتی ہے۔

رومن آرٹ یونانی آرٹ کا ہی تسلسل ہے لیکن یہ کہیں زیادہ حقیقت پسندانہ ہے۔ اس مقام پر ہم ایک بنیادی تبدیلی واقع ہوتے دیکھتے ہیں۔ فن کی تاریخ انسانی تاریخ کے ارتقاء کی ہوبہو عکاسی نہ تو کرتی ہے اور نہ ہی کر سکتی ہے۔ یہ ایک غلط تصور ہے جس کا مارکسزم سے کوئی تعلق نہیں۔مثال کے طور پر یہ قطعاً لازمی نہیں ہے کہ اگر پیداواری قوتیں آگے بڑھتی ہیں تو فن کا احیاء بھی یقینی طور پر ہوگا (جیسا کہ پچھلے پچاس برس کی تاریخ واضح طور پر ثابت کرتی ہے) اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ بحران اور معاشی زوال کے دور میں عظیم فن تخلیق نہیں ہو سکتا۔

بعض اوقات سماج میں زوال کے دور میں ایک عجیب و غریب جدلیاتی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ انسانی شعور اپنے آپ پر ہی مرکوز ہو جاتا ہے اور نتیجے میں انتہائی اہم فلسفیانہ اور فنکارانہ تخلیقات جنم لے سکتی ہیں۔ تا ہم یہ بات درست ہے کہ آخری تجزیے میں تمام تر انسانی کلچر کا انحصار پیداواری قوتوں کی ترقی پر ہوتا ہے اور پیداواری قوتوں کے عمومی انہدام کا نتیجہ بالآخر انسانی کلچر کے عمومی زوال کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

تاریک دور

امریکی سوشلسٹ مصنف جیک لندن نے ایک شاندار کہانی لکھی ہے جو کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی پسندیدہ کہانی ہے۔ اس کا نام ہے ’’The Scarlet Plague‘‘۔ اس میں مستقبل کی خوفناک منظر کشی کی گئی ہے۔ اس میں ایک ایسا سماج دکھایا گیا ہے جہاں تمام بیماریوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ اچانک ایک نئی بیماری وجود میں آتی ہے جس کے لئے کوئی دوا کار گر ثابت نہیں ہوتی اور وہ کرۂ ارض کی بیشتر آبادی کا صفایا کر دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تہذیب کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

یہ ایک انتہائی پر بصیرت افسانہ ہے کیونکہ اس میں پیداواری قوتوں اور کلچر کے درمیان تعلق ظاہر کیا گیا ہے۔ اکثر لوگوں کے نزدیک یہ طے شدہ بات ہے۔ تاہم پیداواری قوتوں یعنی سائنس، صنعت اور ٹیکنالوجی کے زوال کے اثرات ڈرامائی ہوتے ہیں۔ کسی بھی تباہی کی محض ایک نسل کے بعد جو بچے بڑے ہوئے ان کے خیال میں ان کا دادا، ایک سائنس دان جو اس بڑی تباہی سے بچ نکلا تھا، جو کاروں اور ریل گاڑیوں والے سماج کی باتیں کرتا تھا، محض ایک لغو کہانی تھی۔ تہذیب کی یاداشت کا بھی قصہ تمام ہو رہا تھا۔ اگرچہ دادا ابھی بھی نہایت شستہ انگریزی بولتا تھا لیکن پوتے جو زبان بولتے تھے وہ زیادہ قابل فہم نہیں تھی۔ وہ ایک دوسرے سے بے ہنگم آوازوں میں گفتگو کرتے تھے کیونکہ ایک پیچیدہ زبان کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔

تاریخ کی لکیر اگر اوپر کی جانب جاتی ہے تو نیچے کی جانب بھی آتی ہے جیسا کہ سلطنت روم کی تباہی کے وقت ہوا تھا۔ روم کو بھی آخر کار وحشیوں نے تباہ نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے محض اسے آخری دھکا دیا تھا۔ وہ اپنے داخلی تضادات کے باعث تباہ ہوا تھا۔ غلام داری کے داخلی تضادات کی وجہ سے پیداواری قوتوں کا انہدام ہو گیا تھا۔ اولین عیسائی ایک انقلابی اور اشتراکی تحریک کی نمائندگی کرتے تھے جسے زوال پذیر نظام کے رکھوالے بڑی حقارت سے عورتوں اور غلاموں کا مذہب کا قرار دیتے تھے جیسا کہ غریبوں اور محروموں کی انقلابی تحریکوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابتدائی عیسائیوں نے دنیا کو بدی قرار دیتے ہوئے اس سے منہ موڑ لیا۔ وہ روم کے دولت مند طبقات کی عیاشانہ زندگی کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ روم کو دنیا بھر کی غلاظتوں اور فاخشاؤں کی ماں قرار دیتے تھے۔ ان کے دلوں میں سادگی کا جو جذبہ جا گزین تھا وہ آرٹ، کلچر اور سائنس کے سخت خلاف تھا۔

اس دوران تقریباً پانچویں صدی کے لگ بھگ انسانی تاریخ کی عظیم ترین نقل مکانی واقع ہوئی۔ سلاف اور جرمن قبائل کی مغرب کی جانب حرکت کی وجہ سے پرانا غلام داری سماج منہدم ہو گیا۔ اگرچہ یہ انہدام بہر صورت ہو ہی رہا تھا۔ اور اس انہدام کے ساتھ کلچر بھی مکمل طور پر منہدم ہو گیا۔ میرا خیال ہے کہ زوال کی گہرائی کا تصور کرنا بھی بہت مشکل ہے۔ میں صرف ایک حقیقت بیان کروں گا جس سے قرونِ وسطیٰ کے بارے میں بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔ 1500ء میں، یعنی دیکھ بھال ترک ہونے کے ایک ہزار سال بعد بھی، رومنوں کی تعمیر کردہ سڑکیں یورپی براعظم کی بہترین سڑکیں تھیں۔ باقیوں میں سے اکثر اتنی ٹوٹی پھوٹی حالت میں تھیں کہ ناقابل استعمال تھیں۔ یورپ کی بندرگاہوں کا بھی آٹھویں صدی عیسوی تک یہی حال تھا جب تجارت کا دوبارہ احیاء ہوا۔

جن فنون کا خاتمہ ہوا ان میں اینٹوں کے استعمال کا فن بھی شامل تھا۔ دس صدیوں تک جرمنی، ہالینڈ، انگلینڈ اور سیکنڈے نیویا کے علاقوں میں گرجا گھروں کے علاوہ پتھروں سے بنی ہوئی عمارتیں کم ہی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں پیداواری قوتوں کے انہدام کے سبب کلچر کو مکمل طور پر گرہن لگ چکا تھا۔ ایسے خوفناک زوال کے حالات میں عوام کے حالاتِ زندگی پر کیا گفتگو کی جائے؟ایلفریک نامی ایک راہب نے ونچسٹر میں لاطینی زبان سکھانے کے لئے ایک کتاب تحریر کی تھی۔میں اس میں سے محض ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔

استاد: کسان، تم کیا کرتے ہو اور تم اپنا کام کیسے کرتے ہو؟

شاگرد: جناب میں بہت سخت مشقت کرتا ہوں،میں طلوعِ سحر کے وقت اٹھ کر بیلوں کو کھیتوں میں لے جاتا ہوں۔ اور انہیں ہل میں جوتتا ہوں۔ سردی کتنی بھی شدید کیوں نہ ہو میں مالک کے خوف کی وجہ سے گھر پر نہیں ٹھہرتا۔ اور بیلوں کو جوتنے اور ہل تیار کرنے کے بعد میں ہر روز ایک ایکڑ یا اس سے زیادہ زمین پر ہل چلاتا ہوں۔

استاد: تمہارے ساتھ اور بھی کوئی ہوتا ہے؟

شاگرد: میرے ساتھ بیلوں کو چھڑی سے ہانکنے کے لئے ایک لڑکا بھی ہوتا ہے اور اس کا گلا شدید سردی اور چلانے کے باعث بیٹھ گیا ہے۔

استاد: تم دن میں مزید کیا کام کرتے ہو؟

شاگرد: بہت سا کام کرتا ہوں۔ میں بیلوں کو چارہ ڈالتا ہوں،انہیں پانی پلاتا ہوں اور ان کا گوبر باہر لے جاتا ہوں۔

استاد: اور کیا یہ سخت کام ہے؟

شاگرد: ہاں یہ سخت کام ہے کیوں کہ میں آزاد نہیں ہوں۔

جاگیر داری سماج کا ابھار اپنے ساتھ ثقافتی جمود کا ایک طویل دور بھی لے کر آیا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک کوئی حقیقی ایجاد سامنے نہیں آئی۔ اس میں پن چکی اور ہوائی چکی کی ایجاد کو استثناء کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں سارے کلچر پر کیتھولک چرچ کا غلبہ تھا۔ میں بلاشبہ یورپی کلچر کی بات کر رہا ہوں۔ کیونکہ بدقسمتی سے میرے پاس عالمی کلچر پر گفتگو کے لئے وقت نہیں ہے۔ ہم ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کلچر پر گفتگو کسی اور موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ یہاں اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ اسلامی دنیا میں قرونِ وسطیٰ کے یورپ جیسے ثقافتی جمود کی کیفیت نہیں تھی۔ جب عیسائی یورپ بربریت میں ڈوبا ہوا تھا، مسلم سپین اور مشرقِ وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں شاندار سائنسی اور ثقافتی پیش رفت ہو رہی تھی جس نے بعد ازاں یورپ کے کلچر کو جلا بخشنے میں مدد دی۔ دوسری جانب عربوں اور ایرانیوں نے جو ایجادات کیں ان کا ماخذ ہندوستان تھا۔

یہاں ہمارے پیش نظر بنیادی طور پر سرمایہ داری کا ارتقاء ہے جس کی شروعات غالب طور پر ایک یورپی مظہر کے طور پر ہوئی تھیں۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ کی بنیادی خصوصیت چرچ کی ثقافتی آمریت تھی جو کہ کلاسیکی کلچر کی مکمل نفی کرتا تھا۔ یونانی اور رومن آرٹ میں انسانی جسم مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ جاگیردارانہ عیسائی آرٹ نہ صرف انسانی ہیئت بلکہ دنیا اور تمام انسانی سرگرمیوں کو مسترد کرتا تھا۔ وہ انسانوں کی نظروں کو آسمان کی جانب پھیرتا تھا۔ وہ ہمیں بتاتا تھا کہ یہ دنیا جنوں اور شیطانوں کی دنیا ہے۔یہ دنیا بھی بدی ہے اور جسم بھی۔

مرد اور عورت کے درمیان تعلق بھی بدی ہے۔ عورتیں بطورِ خاص بدی کی علامت سمجھی جاتی تھیں کیونکہ کتاب تخلیق کے پہلے باب میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تمام تر انسانی خرابیاں عورت کی وجہ سے ہیں۔

پہلے پہل کلیساؤں میں موسیقی پر پابندی تھی۔ میں سینٹ تھامس کی کتاب’’Summa Theologica‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں ہمیں آلات موسیقی کی بدی کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ’’آلات(موسیقی) کو کلیساؤں اور عبادت سے اس لئے خارج کیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک جسم رکھتے ہیں۔ وہ دماغ میں خلل ڈالتے ہیں اور یہاں تک کہ نفسانی لطف کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘کسی کو نفسانی لطف کی طرف مائل کر سکتے ہیں، کیا خوفناک تصور ہے۔

قرونِ وسطیٰ کے گرجے، گوتھک گرجا گھر، اس کلچر اس آرٹ کا نقطۂ نظر عروج ہیں۔ یہ بھی فرعون کے مصری مجسموں کی طرح ایک بیان ہے جو پتھر کی زبان میں رقم ہے۔ ان گرجا گھروں میں داخل ہوتے ہی آپ آواز دھیمی کر لیتے ہیں۔ یہاں تاریکی ہے، یہاں آنے والی روشنی بھی اکثر اوقات رنگدار شیشوں والی کھڑکیوں سے گزر کر آتی ہے۔ یہاں جو بھی تھوڑا بہت رنگ ہوتا ہے اسی کے سبب سے ہوتا ہے۔ یہ روح کی تاریکی کا اسرار ہے اور یہ دیو قامت عمارتیں جو آسمان کی طرف منہ کیے کھڑی ہیں اس لیے یوں تعمیر کی گئی ہیں تاکہ مرد و زن خود کو چھوٹا اور غیر اہم محسوس کریں۔ کچھ لوگوں کو یہ آرٹ پسند ہے۔ میرے خیال میں یہ انتہائی غیر انسانی آرٹ ہے۔ انسانیت کا خود اپنے حالات سے بیگانگی کا اظہار پتھر کی شکل میں۔

جاگیرداری کا بحران

اس تمام عرصے میں کروڑوں انسان اس روحانی آمریت کے تحت پیدا ہوئے اور مر گئے۔ انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ گرجا گھروں میں کیا کہا جاتا ہے کیونکہ یہ باتیں لاطینی زبان میں کی جاتی تھیں۔ اس کے باوجود چرچ کے باہر سورج طلوح ہوتا تھا، پرندے گاتے تھے، مرد اور عورتیں پیار و محبت کے کھیل کھیلتے تھے، رقص و موسیقی کا جادو جاری تھا۔ اور پھر آخر کار سماج کے طبقاتی مواد میں تبدیلی پیدا ہوئی جس کے فن پر نہایت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔

دی ڈیتھ اینڈ مزر

قرونِ وسطیٰ کے دور کے آخری مراحل میں یعنی کم و بیش تیرھویں صدی کے بعد سماج ایک گہرے بحران میں داخل ہو گیا۔ اور جب کوئی سماج اس قسم کے بحران میں داخل ہو جاتا ہے تو یہ کیفیت بہت عرصے تک قائم رہ سکتی ہے۔یہ عمل ایک سیدھی لکیر میں نہیں ہوتا، اس میں اتار چڑھاؤ آ سکتے ہیں لیکن اس کا عمومی رخ نیچے کی جانب ہی رہتا ہے۔

اسی قسم کے ادوار میں لوگ محسوس کرتے ہیں کہ سماج بحران کا شکار ہے، محض معاشی وجوہات کے سبب نہیں، بلکہ میں یہاں کہوں گا کہ بنیادی طور پر معاشی وجوہات کی بنا پر نہیں۔ زوال کا ایک عمومی احساس موجود ہوتا ہے، اخلاقیات کا بحران، خاندان کا بحران، چرچ کا بحران، عقیدے کا بحران، سائنس کا بحران، آرٹ کا بحران اور قرونِ وسطیٰ کے آخری ایام میں یہی صورتحال تھی۔ قحط، وباؤں، جنگوں، زوال اور عمومی ذلت و محرومی کے درمیان ایک زبردست تبدیلی جنم لے رہی تھی۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے اور در حقیقت یہ خاتمہ ہو رہا تھا۔ بذاتِ خود دنیا کا خاتمہ تو نہیں البتہ جاگیر داری کا خاتمہ ہو رہا تھا۔ جاگیر دارانہ نظام کا انہدام ہو رہا تھا۔ دنیا کے خاتمے کے تصور کا اظہار فن کی دنیا میں Breugel the Elder اور خاص کر Hyeronimus کی شاندار پینٹنگز کی صورت میں ہوا جنہیں میڈرڈ کے پرادو میوزیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔

بورژوازی کا ابھار 

بلاشبہ یہاں فیصلہ کن سوال نئے انقلابی طبقے کے ابھار کا تھا جو پرانے سماج، اسکے سماجی نظام، اس کے عقائد اور اس کے مذہب کو دعوت مبارزت دے رہا تھا۔ اسی طرح جیسے جدید محنت کش طبقہ مزدور تنظیموں کے ذریعے رفتہ رفتہ سماج میں اپنے لیے جگہ بناتا ہے۔

سرمایہ دار طبقے نے شہروں کو بالکل مختلف بنیادوں پر قائم کیا۔ انکی بنیاد زراعت اور پرانے جاگیردارانہ تعلقات پر نہیں تھی بلکہ تجارت، خرید و فروخت، پیسے اور سود کے کاروبار پر تھی۔ انہوں نے ایک نئے طرزِ زندگی کو ترویج دی اور پھر اس کے ساتھ ساتھ بتدریج نئے ذوق اور نئے فنکارانہ تصورات ابھرے اور سب سے بڑھ کر ایک نئے مذہب پروٹسٹنٹ ازم نے جنم لیا۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مذاہب میں بنیادی نظریاتی فرق کیا ہے؟زیادہ تر لوگ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ بہت آسان ہے۔ کیتھولک مذہب عملی کاموں کے ذریعے نجات کا درس دیتا ہے جبکہ پروٹسٹنٹ مذہب ایمان یا عقیدے کے ذریعے نجات دلاتا ہے۔ اگر ہم ایک غیر نفیس انداز میں اس فرق کی طبقاتی نوعیت کو بالکل واضح طور بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایمان بہت سستا ہے۔ اس پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا جبکہ عملی کاموں کو سر انجام دینا مہنگا پڑتا ہے۔ اس کا طبقاتی مفہوم کیا ہے؟ یہ بورژوازی اور جاگیر دار اشرافیہ کے مابین فرق کی تہہ تک پہنچتا ہے۔ زراعت پر مبنی جاگیر داری نظام میں نئی ایجادات کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی جیسی کسی چیز (اگر وہ دستیاب بھی ہوتی) میں سرمایہ کاری کی ضرورت تھی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جاگیر داروں کے پاس مزارعوں کی شکل میں بے شمار افرادی قوت موجود تھی جو عملاً غلام تھے۔ اگرچہ وہ رسمی طور پر آزاد تھے لیکن زمین کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ اور اگر آپ کو محنت انتہائی سستے داموں دستیاب ہو تو آپ کو پیداواری کارکردگی میں اضافے کے لئے مشینری کی چنداں ضرورت نہیں۔ غلام داری سماج میں بھی اس قسم کی صورتحال موجود تھی۔ سکندریہ کے یونانیوں نے دخانی انجن ایجاد کر لیا تھا جو کام بھی کرتا تھا لیکن وہ محض ایک کھلونا اور عجوبہ ہی رہا۔ اس کا عملی اطلاق نہیں ہو سکا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دوبارہ سرمایہ لگانے کہ ضرورت نہیں تھی تو پھر حکمران طبقہ زائد پیداوار کو کہاں کھپاتا تھا؟ ظاہر ہے کہ آپ اسے دوسروں کو بھی دے سکتے ہیں اور ان میں سے کچھ حضرات ایسا کرتے بھی تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ بہت سخی بھی تھے۔ان کے پاس سخاوت دکھانے کی گنجائش موجود تھی۔ آپ اسے مہنگے لباس، زیورات اور اس قسم کی دوسری چیزوں پر خرچ کر سکتے ہیں جیسا کہ جاگیر داراشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کرتے تھے۔ آپ اسے چرچ کے حوالے بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ نے بدی کی زندگی گزاری ہو جیسا کہ ان میں اکثر گزارتے تھے تو اس پیسے کے عوض پادری اگلے پانچ سو سال کے لئے آپ کی روح کے ایصالِ ثواب کے لئے دعا کر سکتا تھا تا کہ آپ کو جنت کے فرسٹ کلاس ٹکٹ کی ضمانت فراہم کر سکے۔

یہی وجہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں جاگیر دار اشرافیہ سے حاصل شدہ دولت کے ذریعے عظیم الشاں گرجا گھر تعمیر کیے جا سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بائبل میں چرچ کے عمارت کی شکل میں ہونے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ حضرت عیسیٰ نے کسی جگہ فرمایا ہے کہ ’’تم میں سے دو تین جہاں بھی میرے نام سے جمع ہو جائیں گے میں وہیں ہوں۔‘‘ لاطینی زبان کے لفظ ’Ecclesia‘ (جس سے کلیسا ماخوذ ہے) کا مطلب اجتماع ہے،عمارت ہرگز نہیں۔

مارٹن لوتھر

پھر لوتھر نام کا ایک شخص وارد ہوا جس نے بائبل کا ترجمہ جرمن زبان، نہایت اچھی جرمن زبان میں جو کہ جدید ادبی زبان کے لئے بنیاد بنی، میں کیا اور لوگوں نے اس کا مطالعہ شروع کر دیا جس سے انقلاب کا آغاز ہو گیا۔ پروٹسٹنٹ فرقے کا مقصد یہ تھا کہ بائبل کے علاوہ کسی چیز کو بنیاد نہ بنایا جائے۔یہ خدا کے ا لفاظ تھے جنہیں اس نے براہِ راست انسان پر اتارا تھا۔ ’’اگر ہمارا ایمان پختہ ہو،اگر ہم بائبل کے وسیلے سے یسوع مسیح پر ایمان لے آئیں تو ہم بخشے جائیں گے۔‘‘اس دور کے حوالے سے یہ ایک انتہائی انقلاب آفرین پیغام تھا۔

یہ چرچ کے خلاف براہِ راست حملہ تھا۔اس کی روحانی آمریت کے خلاف، اس وسیع و عریض نوکر شاہی کے خلاف جس پر بے پناہ اخراجات اٹھتے تھے، جو زیاں کا باعث تھی اور جو ہر حوالے سے بد عنوان تھی۔ اس قابلِ نفرت روحانی اشرافیہ کے خلاف جو بلاوجہ ان پر ٹیکس عائد کرتی رہتی تھی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اس دور کا ذکر رہے ہیں جسے مارکس سرمائے کے ابتدائی ارتکاز کا دور کہتا ہے۔ بورژوا طبقہ اپنی دولت سرمایہ کاری کی غرض سے پس انداز کرنا چاہتا تھا۔ دو صدیوں کے بعد امریکی انقلابیوں کا نعرہ تھا کہ ’’نمائندگی کے بغیر ٹیکس نہیں دیں گے‘‘جبکہ انیسویں صدی کے لبرل ’’سستی حکومت‘‘ کا مطالبہ کرتے تھے۔ لیکن بورژوا طبقے کا اولین نعرہ ’’سستے مذہب‘‘ کا تھا۔اس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ ہمیں ان چرچوں، پادریوں، بشپوں اور پوپ کی کوئی ضرورت نہیں اور بلاشبہ اس بات کا ایک جمالیاتی فنکارانہ اظہار بھی موجود تھا۔

بورژوا انقلاب

برطانوی Puritan فرقے کے لوگ انتہائی سادہ سیاہ لباس زیب تن کرتے تھے۔ یہ چیز بذاتِ خود ایک انقلابی بیان تھا۔ امیروں کے خلاف،نمود و نمائش کے خلاف،لباس پر بے جا توجہ کے خلاف،زیورات اور بد عنوانی کے خلاف،اس میں ایک واضح انقلابی مفہوم پنہاں تھا۔ غلام داری سماج اور جاگیر داری کے برعکس سرمایہ داری نظام نے تاریخ میں پہلی بار انسان کے حقوق کی تبلیغ کی، فرد کے حقوق کی تبلیغ کی۔ حقیقت میں انفرادیت اور سرمایہ داری ناقابل علیحدگی ہیں اور آرٹ پر اس کا ایک اہم اثر یہ ہوا کہ انسانی تاریخ میں پہلی بار انفرادی فنکاروں کے شاہکار سامنے آئے کیونکہ اس سے پہلے تمام یا تقریباً تمام آرٹ گم نام آرٹ تھا۔

یہاں ہمیں فنکاروں کا ظہور نظر آتا ہے۔ ایسے لوگ جنہیں ہم افراد کے طور جانتے ہیں۔ چودھویں اور پندرھویں صدی میں پہلے شمالی اٹلی اور پھر ہالینڈ میں اس شاندار عہد کا آغاز ہوا جسے ہم نشاۃِ ثانیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس فن میں انوکھی چیز کیا ہے؟فلانڈرز میں ہمیں وان آٹک برادران، ہوبرٹ اور جان وان آئک مذہبی موضوعات کی ایک انوکھے انداز میں تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ مذہبی تھے لیکن ان تصاویر کا سارا مواد سابقہ آرٹ سے بالکل مختلف تھا۔

سر تھامس مور

اگر آپ اس فلینڈری آرٹ پر نظر ڈالیں تو آپ کو حقیقی مرد و زن نظر آتے ہیں۔ انسان فن کی دنیا میں واپس لوٹ آیا ہے۔ فلسفے میں ہمیں اس قسم کا مظہر انسان دوستی کے فلسفے کے ابھار کی صورت میں نظر آتا ہے جو فرد کے حقوق کے اسی قسم کے بورژوا تصور کا اظہار ہے۔ اس کی نمائندگی اراسمس اور سرتھامس مور جیسے لوگ کرتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ نئے مکاتبِ فکر اٹلی کی پیداوار تھے جہاں آرٹ یونان کے بعد ایک نئی معراج کو پہنچا تھا۔یہ بورژوا طبقے کے ابھار کا براہِ راست اظہار تھا۔

انسان کی انفرادیت کے اس انقلابی تصور کا انتہائی شاندار اظہار ہمیں بوتی چیلی جیسے لوگوں کے فن پاروں میں نظر آتا ہے۔ وینس کی پیدائش تصویر کشی کے فن میں ایک ارفع ترین حیثیت رکھتی ہے۔ اس خوبصورت تصویر کا عیسائیت یا قرونِ وسطیٰ کے دور سے کوئی واسطہ نہیں۔ اس کا موضوع مذاہب کے ظہور سے پہلے کے عہد سے تعلق رکھتا ہے۔ عشق و محبت کی دیوی’Aphrodite‘ لہروں سے جنم لے رہی ہے۔اس کے مرکز میں عورت کی ہیئت ہے، ایک عریاں جسم، یہ ایک ایسا موضوع ہے جو قرونِ وسطیٰ کے کلیسا کے لئے شجرِ ممنوعہ تھا کیونکہ اس کے نزدیک جسم بدی تھا اور عورت اس بنیادی گناہ کا باعث تھی جس کے سبب آدم کو جنت سے نکالا گیا تھا۔ یہاں اس کے برعکس انسانی جسم کا ایک شاندار جشن دیکھنے کو ملتا ہے۔ انسانی جوہر،بذاتِ خود حیات نکھر کر سامنے آئی ہے جیسے وہ قدیم یونان کے دور میں آیا کرتی تھی۔ اس تصویر میں جس انداز میں لہروں اور جسم کے علاوہ جس طرح ہوا کو پہنے کپڑے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے اس میں ایک قسم کی آزادی پائی جاتی ہے۔ یہ ایک انقلابی بیان ہے جس میں پرانے جمود اور پرانی مذہبی مابعد الطبیعیاتی سوچ کی مکمل نفی کی گئی ہے۔ اس میں پرانی تاریکی کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔یہاں ہر طرف روشنی ہی روشنی ہے۔ کچھ بھی ساکت نہیں ہے ہر شے حرکت میں ہے، رقص کر رہی ہے اور قہقہے لگا رہی ہے۔یہاں پہنچ کر بالآخر آرٹ غیر انسانی نہیں رہا۔ یہ حقیقی معنوں میں انسانی آرٹ ہے۔

اس سے انسان کے اندر کائنا ت اور اس میں اس کے مقام کے تصور میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ وہی جرات مندانہ نقطہ نظر ہے جو سائنس کو تجربے اور تحقیق کے نئے عہد میں لے گیا اور سیاست کو براہِ راست جاگیر دارانہ کیتھولک رجعت کے خلاف ابھرتی ہوئی بورژوازی کے انقلابی نوعیت کے تصادم کی طرف لے گیا۔خاص طور پر ہالینڈ میں جہاں بورژوازی سب سے بڑی رجعتی قوت سپین،جسے آج کل کے امریکی سامراج سے مشابہہ قرار دیا جا سکتا ہے، کے خلاف ایک جرات مندانہ جدوجہد میں مصروف تھی۔

ہالینڈ کی بغاوت

ہالینڈ کے ایک گاؤں میں قتل عام کا ایک منظر

ہسپانوی ہالینڈ کی بغاوت کو ویت نام کی جنگ اور روسی انقلاب کے آمیزے سے مشابہت دی جا سکتی ہے۔ یہ ایک انتہائی جدید اور خون ریز جنگ تھی، ایک ایسی انقلابی جنگ جس کے دوران ایک مرحلے پر سپین کے بادشاہ نے چند استثناعات کو چھوڑ کر ہالینڈ کی ساری آبادی کو قابلِ گردن زنی قرار دے دیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب کسی کے گھر سے بائبل کا برآمد ہونا ایک ایسا جرم تھا جس کی سزا انتہائی افسوسناک موت تھی۔ کسی کے منحرف ہو نے یعنی کیتھولک چرچ کے عقیدے سے اتفاق نہ کرنے کی سزا یہ تھی کہ اس شخص کو زندہ جلا دیا جائے۔ لیکن اگر وہ مکمل اعترافِ جرم کر لیتا اور پروٹسٹنٹ ازم سے تائب ہو جاتا تو مقدس ماں(چرچ) اس پر رحم بھی کھا سکتی تھی۔ اس صورت میں مردوں کا سر قلم کر دیا جاتا تھا اور عورتوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد ہالینڈ کی بورژوازی سپین سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اس سے تجارت و خوشحالی کے علاوہ فنون و ثقافت کے فروغ کے دروازے کھل گئے۔ ہالینڈ کا یہ آرٹ کچھ عجیب و غریب خصوصیات کا حامل تھا۔ ان میں سے بہت سے فن پارے مکمل طمانیت،امن اور سکون کے مظہر ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی جڑیں گزشتہ دور میں پیوست ہیں۔ سپین کے خلاف خوفناک جدوجہد کے بعد ہالینڈ کی بورژوازی جو لمبے تڑنگے خوشحالی تاجروں پر مشتمل تھی، سکون کا سانس لینے کی متمنی تھی۔ وہ ایک ایسا دور چاہتی تھی جس میں وہ امن و سکون کی کیفیت سے حظ اٹھا سکے۔ ان میں سے اکثر تصاویر یہی تاثر دیتی ہیں یعنی ایک ایسے سماج کا تاثر جو انتہائی منظم اور مستحکم ہے۔

یہ وہ دور ہے جب تاریخ میں پہلی بار آرٹ حقیقی معنوں میں روز مرہ زندگی کو پیش کرتا ہے یعنی بورژوا طبقے کی روز مرہ کی پرسکون زندگی۔ بالوں میں کنگھی کرتی، چھوٹا پیانو بجاتی یا خط کا مطالعہ کرتی ہوئی خواتین جو اس مکتب کے عظیم ترین نمائندے ورمیر کی تصاویر میں دکھائی دیتی ہیں۔ ان مناظر کی انتہائی عام نوعیت ایک گہری نفسیاتی ضرورت کو پورا کرتی تھی۔ برسبیل تذکرہ یہاں بھی معاشیات اور طبقاتی سماج کی جھلک نظر آتی ہے۔

ایک نئی قسم کی تصویر کشی وجود میں آتی ہے؛ ایک ساکت زندگی۔ عام طور پر اس میں میزوں پر انتہائی اعلیٰ قسم کے کھانے، شراب سے لبریز صراحیاں، سیب اور دیگر انواع و اقسام کے پھل سجے دکھائے جاتے ہیں۔ یہ پھل اتنے خوبصورت انداز میں بنائے جاتے ہیں کہ آپ کا دل چاہتا ہے ہاتھ بڑھا کر ایک سیب اٹھا کر کھانا شروع کر دیں۔ یہی اس خوشحال ولندیزی تاجر کا پیغام ہے جو کہتا ہے کہ ’لو میں آ گیا ہوں‘۔’دیکھو مجھے کیا کیا نعمتیں میسر ہیں‘۔ ’دیکھو میرے باورچی خانے میں کیا کیا کچھ ہے‘۔ یہاں تک کہ پھولوں کی تصاویر بھی ایک معاشی بنیاد رکھتی ہیں کیونکہ یہ قیاس آرائی یا سٹے بازی کے اولین معاشی بحران کا دور ہے۔ ہالینڈ کے گل لالہ (Tulip) کا سکینڈل جب ہر کوئی پھولوں کا دیوانہ تھا اور پھول انتہائی گراں قیمت تھے۔

(جاری ہے)