بلوچ عوامی تحریک۔۔۔آگے کیسے بڑھا جائے؟

|تحریر: ثنا زہری|

بلوچ لانگ مارچ کے قافلے کا اسلام آباد سے واپس کوئٹہ پہنچنے پر جو فقید المثال استقبال ہوا اور اس کے بعد 27 جنوری کے کوئٹہ جلسے نے بلوچستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ 25 جنوری کی صبح کو پہلے کچلاک میں پشتون تحفظ تحریک کے کارکنان نے اس قافلے کا استقبال کیا مگر جب یہ قافلہ ہزار گنجی کے علاقے میں پہنچا تو ان کے استقبال کے لیے ہزاروں لوگ پہلے سے ہی منتظر کھڑے تھے جن میں خواتین کی بھی بہت بڑی تعداد شامل تھی۔

سوشل میڈیا پر مشتہر ہونے والی ویڈیوز میں چاروں اطراف تاحد نگاہ موجود لوگوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ہزاروں لوگ اسلام آباد دھرنے سے آنے والے اپنے بہادر بزرگوں، خواتین اور بچوں کی جرات، اور فولادی عزم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے سڑکوں پر امڈ آئے۔ ہزار گنجی اور سریاب روڈ کے علاقے میں ایک ولولہ انگیز انقلابی جشن کا سماں تھا۔

بلوچ لانگ مار چ کا قافلہ بھلے اپنے فوری مطالبات منوانے میں کامیاب نہیں ہو سکا مگر اس احتجاجی قافلے نے گزشتہ دو ماہ کے اندر پاکستانی ریاست کے قانونی، اخلاقی اور تاریخی جواز کے پر خچے اڑا کر رکھ دیے۔ نہتی خواتین، بزرگوں اور بچوں کی ایک مٹھی بھر تعداد نے پاکستانی ریاست کے دیوہیکل اور وحشیانہ ڈھانچے کی دہشت کو خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے۔

بلوچوں پر ڈھائے جانے والے ریاستی مظالم کی داستانوں کو پہلی بار پاکستان بھر کے غریبوں اور محنت کشوں تک پہنچا دیا ہے اور یوں ریاست کی جانب سے بلوچوں پر لگائے جانے والے وحشی،انتشار پسند اور بیرونی ایجنٹ جیسے غلیظ پروپیگنڈے کے جھوٹ اور فریب کو بھی ننگا کر دیا ہے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ غیر قانونی جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے جاری موجودہ تحریک بلوچوں کی اپنی پوری تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی تحریک بن چکی ہے۔اس تحریک نے مسلح جدوجہد کے حامیوں کے اس دعوے کو بھی ملیا میٹ کر دیا ہے کہ بلوچستان میں سیاسی تحریک نہیں چلائی جا سکتی کیونکہ بلوچ سیاسی کارکنان کو ریاست فوراً قتل کردیتی ہے۔

دوسری جانب اس تحریک کا سب سے شاندار اور حیران کن حد تک انوکھا پہلو یہ ہے کہ خواتین نہ صرف اس کو منظم اور اس کی قیادت کر رہی ہیں بلکہ اس کا ہر اول دستہ اور اس کی حقیقی قوت محرکہ بھی خواتین ہیں۔ اس تحریک نے بلوچ سماج میں سطح کے نیچے ریاستی جبر، سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور محرومیوں کے خلاف مجتمع ہونے والے غم و غصے کے لاوے کو پھٹ کر ایک زبردست سیاسی ابھار کی صورت میں اظہار کا راستہ فراہم کیا ہے۔

یوں تو بلوچوں کی مختلف جابر قوتوں کے خلاف مزاحمتی جدوجہد کی پرانی تاریخ ہے۔مگر جدید سیاسی جدوجہد کی تاریخ 1920ء کی دہائی سے برطانوی سامراج اور اسکے مقامی گماشتوں خلاف جدوجہد سے شروع ہوتی ہے۔ برطانوی سامراج کے خلاف انجمن اتحاد بلوچاں اور بعد ازاں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی مزاحمتی جدوجہد جاری رہی۔

پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بائیں بازو کے نظریات پر،اگرچہ یہ انقلاب کی مرحلہ وار تھیوری پر مبنی زوال پذیر سٹالنسٹ نظریات تھے، نیشنل عوامی پارٹی اور 1960ء سے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے عوام خاص کر نوجو انوں میں قومی و طبقاتی شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بلوچستان میں سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلح جدو جہد بھی ہوتی رہی ہے اور قومی و طبقاتی جبر کے خلاف قوم پرست پارٹیاں بھی تشکیل پاتی رہیں۔ شروع میں سوویت یونین کے اثرات کے تحت ان قوم پرست سیاسی پارٹیوں کا کردار کسی حد تک ترقی پسندانہ تھا اور انہیں عوام کی ایک وسیع اکثریت کی حمایت بھی حاصل رہی مگر 80 ء کی دہائی سے ان کا ترقی پسندانہ کردار کم ہوتے ہوتے سوویت یونین کے انہدام کے بعد بالکل ختم ہو گیا مگر اس کے باوجود کچھ عرصے تک عوام کی امیدیں ان پارٹیوں سے وابستہ رہیں کہ یہی قوم پرست پارٹیاں، بلوچ قوم پر قومی جبر،ظلم، بربریت اور قومی و طبقاتی استحصال کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔ بار بار ان کو آزمانے سے ان پارٹیوں کا نظریاتی وعملی دیوالیہ پن ثابت ہو گیا اور اپنے گروہی مفادات کی خاطر تقسیم در تقسیم کے عمل سے بھی بلوچ عوام بالخصوص مایوس نوجوانوں میں دو رجحانات پنپنے لگے، ایک موقع پرستی اور دوسری انتہا پسندی۔

بالآخر بلوچ سیاست دو کیمپوں میں تقسیم ہوگئی، ایک مسلح جدو جہد دوسری قوم پرست پارلیمانی جمہوری سیاست۔ گراؤنڈ پر موجود پارلیمانی یا نام نہاد قومی جمہوری پارٹیوں کی ناکامی، قیادت کی غداریاں اور موقع پرستی عوام کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہونے سے لازم امر ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت کو مسلح مزاحمت یا جدوجہد کی راہ ہی مؤثر اور کار آمد محسوس ہونے لگی۔لوگوں کی اکثریت کی پارلیمانی پارٹیوں سے بیزار ہو کر مسلح بلوچ تنظیموں کے ساتھ ہمدردیاں بڑھ گئیں جس نے پارلیمانی پارٹیوں کی پوزیشن انتہائی کمزور کر دی۔ انہی کمزوریوں کو چھپانے کی خاطر پارلیمانی پارٹیوں کو مجبوراً 2008ء کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔بعد ازاں مسلح جدو جہد کی تنظیموں کی نظریاتی محدودیت، کمزوریوں، اور غلطیوں کے بنا پر سطح پر موجود قوم پرست پارٹیوں میں دوبارہ کچھ جان آگئی اور وہ دوبارہ میدان میں آگئیں۔

مگر ان نام نہاد قوم پرست پارٹیوں کا خصی پن اور مکروہ چہرہ جلد عوام کے سامنے آگیا اور لوگ یہ جان گئے کہ یہ قومی جمہوری یا نظریاتی پارٹیاں نہیں بلکہ محض مفاد پرست گروپ ہیں اور ان کی ہمدردیاں عوام سے نہیں بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیس ہیں اور قوم و عوام کے مفادات کے برعکس اپنے گروہی مفادات کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتی ہیں۔ دوسری جانب ریاستی جبر و استبداد میں آئے روز اضافہ اور ننگی جارحیت سے بلوچ عوام و بالخصوص نوجوانوں میں ریاستی جبر کے خلاف تحرک اور ہیجانی کیفیت پیدا ہونا شروع ہوگئی اور تحریکیں بننی شروع ہوگئیں اور آہستہ آہستہ خوف کے بادل چھٹنے لگے۔ ویسے تو بلوچستان کی تاریخ ریاستی جبر و استحصال سے بھری پڑی ہے لیکن حالیہ برسوں میں چند ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے بلوچستان سمیت پورے پاکستان کے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کر دیا۔ خاص طور پر بولان میڈیکل یونیورسٹی کے ملازمین و طلبہ کی تحریک، بلوچستان یونیورسٹی کا ہراسمنٹ اسکینڈل، برمش بلوچ کی والدہ ملک ناز کا ریاستی ڈیتھ اسکواڈز کے ہاتھوں قتل، حیات بلوچ کا ریاستی اداروں کے ہاتھوں قتل، بلوچستان کے طول عرض میں ایف سی و دیگر اداروں کی جانب سے بلاو جہ لوگوں کو تنگ کرنے سمیت گوادر میں ماہی گیر محنت کشوں کے ذریعہ معاش پہ قدغن اور پینے کے پانی و بنیادی ضروریات کے فقدان کے خلاف گوادر حق دو تحریک کے ابھار نمایاں ہیں۔ مگر ان سب میں ایک معیاری جست تربت میں نوجوان بالاچ مولابخش کا سی ٹی ڈی کے زیر حراست قتل تھا جس نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا۔ اس قتل کے بعد عوام میں قاتلوں کو سزا دینے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا اور اس سلسلے میں ’بلوچ یکجہتی کمیٹی‘کے زیر اہتمام تربت احتجاجی دھرنا شروع کیا گیا جس کے اثرات آگ کی طرح پورے بلوچستان کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ بعد ازاں دیگر مطالبات کے گرد، جس میں سر فہرست مسنگ پرسنز کی بازیابی کا مطالبہ تھا، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت نے تربت سے اسلام آباد لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔

ویسے تو لاپتہ افراد کے حوالے سے پہلے بھی بلوچستان سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا گیا تھا مگر یہ مارچ معیاری طور پر مختلف تھا۔ جیسے ہی یہ مارچ تربت سے کوئٹہ کی جانب روانہ ہوا تو ریاست کی جانب سے اس مارچ کے شرکا پر پہلا حملہ سوراب کے علاقے میں کیا گیا مگر مارچ کے شرکا بہادری کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ اور جیسے ہی یہ مارچ کوئٹہ پہنچا تو ریاست نے انہیں شہر کے اندر داخل ہونے سے روکا جس کے بعد مارچ کی قیادت نے سریاب روڈ پر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس دھرنے کے بعد مارچ اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا جو بلوچستان کے مختلف علاقوں مثلا کوہلو، رکھنی، بارکھان سے ہوتا ہوا پنجاب کے بلوچ علاقوں ڈیرہ غازی خان، تونسا پہنچا۔ ان تمام علاقوں میں شاندار استقبال نے اس مارچ کے کردار کو یکسر تبدیل کر دیا۔ جیسے ہی یہ مارچ اسلام آباد پہنچا تو ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر مارچ کے شرکا پر حملہ آور ہو گئی۔ مارچ کے شرکا کی اکثریت بچوں اور خواتین پر مشتمل تھی جن پر ریاست نے بدترین ظلم کرتے ہوئے واٹر کینن اور لاٹھی چارج کیا اور خواتین سمیت کافی مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس عمل نے ایک طرف ریاست کے گھناؤنے کردار کو عیاں کیا تو دوسری طرف بلوچستان کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان کے عوام میں غم و غصہ، جوش ولولہ پیدا کیا۔ ریاست کے اس عمل سے بلوچستان کے ہر شہر اور گاؤں میں ریاست اور اس کی سیکورٹی فورسز و اداروں کے خلاف ریلیوں و مظاہروں کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ حالیہ بلوچ تحریک و لانگ مارچ نے نہ صرف پاکستان کے تمام پسے ہوئے مظلوم و محکوم اقوام اور محنت کشوں تک اپنی آواز پہنچائی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ریاست کے جبر و استبداد کو بھی آشکار کیا۔

لانگ مارچ کی کامیابیاں

اس تحریک کی سب بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے خواتین کو بڑے پیمانے پر متحرک کیا بلکہ قیادت کرنے کی جر ات پیدا کی اور بلوچستان کے عوام کو سیاسی طور پر متحرک کرکے ریاست اور اس کے ناکارہ و متروک سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی کو لوگوں کے سامنے آشکار کیا۔ ساتھ ہی ساتھ ریاستی اداروں کے خوف و حراس کا خاتمہ کرتے ہوئے عام لوگوں کو عوامی مزاحمت کے لئے سڑکوں،چوکوں و چوراہوں پر لاکر عوامی یکجہتی کو قائم کیا۔ اس تحریک کی ایک کامیابی یہ ہے کہ اس نے روایتی نام نہاد قوم پرست قیادت، سردار، جاگیردار و سرمایہ داروں کے رجعتی کردار کو عیاں کرتے ہوئے ایک ایسی قیادت کو تراشا جس کا تعلق نچلے درمیانے طبقے سے تھا۔ اور اسی وجہ سے ملک میں پسے ہوئے مظلوم و محکوم اقوام اور جبر کا شکار لوگوں میں امید کی کرن پیدا ہوئی اور جڑت کی نئی بنیاد ڈلی۔

آگے کیسے بڑھا جائے؟

موجودہ تحریک کو تقریباً دو ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور قیادت نے دھرنے کو اسلام آباد سے ختم کرکے واپس بلوچستان جاکر تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ اس ضمن میں 27 فروری 2024 ء کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ایک زبردست جلسہ عام بھی کیا گیا جس میں بلوچستان کے ہر خطے سے بلوچ ودیگر مظلوم اقوام کے عوام نے شرکت کی۔ لیکن اس جلسے میں مستقبل کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں دیا گیا۔ یاد رہے کہ اس تحریک کی اصل قوت محرکہ اور طاقت عوام کی متحرک شمولیت ہے اور بلوچستان سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنے نے تحریک کی حمایت میں نہ پورے بلوچ سماج کو متحرک کرتے ہوئے بلکہ اسے پاکستان بھر سے محنت کش عوام کی ہمدردی دلاتے ہوئے تحریک کو ایک نئے اور بلند مرحلے پر پہنچا دیا ہے۔

تحریک کی حمایت میں عوام کو متحرک کرنا کسی بھی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے سب سے اولین اور ضروری مرحلہ ہوتا ہے جو اس تحریک نے شاندار کامیابی سے عبور کر لیا ہے۔ عوام کی تحریک میں متحرک شمولیت کے بعد تحریک کو مزید آگے بڑھانے کا کام زیادہ سنجیدہ نوعیت کا ہوتا ہے اور اس مرحلے پر تحریک کی قیادت کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ تحریک کو مزید آگے بڑھانے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔ بلوچ محنت کش عوام کی تحریک کے مستقبل کا خاکہ بنانے کے لیے چند بنیادی سیاسی سوالات کے ساتھ قیادت کے نظریاتی رجحانات کا سنجیدہ تجزیہ بے حد ضروری ہے۔

اولین طور پر ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ محنت کش عوام کی اپنے قومی ودیگر حقوق کی یہ تحریک اس وقت عالمی سطح پر اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ابھرنے والی دیگر بے شمار تحریکوں کا ہی ایک حصہ ہے۔ باقی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات کو چھوڑ بھی دیا جائے تو پاکستانی ریاست کے اندر ہی اس وقت ہمیں نام نہاد آزادکشمیر میں بجلی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور آٹے پر سبسڈی کی بحالی کے لیے سات ماہ سے جاری تحریک،پشتون عوام کی ریاستی جبر کے خلاف تحریک،پنجاب میں حالیہ عرصے میں چھوٹے سرکاری ملازمین کی شاندار جدوجہد اور گلگت بلتستان میں آٹے کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک دیکھنے کو ملتی ہے جن سب کا بلوچستان کی موجودہ تحریک کے ساتھ ایک نامیاتی تعلق ہے۔

یہ درست ہے کہ ان تحریکوں کی وجوہات اور مطالبات میں فرق ہے لیکن یہ فرق ان تحریکوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتا بلکہ گہرائی میں جائزہ لیا جائے تو یہ تمام تحریکیں پاکستانی ریاست اور زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے بڑھتے ہوئے ریاستی اور معاشی جبر کے خلاف ابھرنے والی محنت کش عوام کی بغاوتیں ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اس مرحلے پر ان تمام تحریکوں میں کوئی حقیقی جڑت عملی طور پر موجود نہیں ہے لیکن پاکستانی ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت اور بغاوت ان تحریکوں کا مشترکہ پہلو ہے جس کی بنیاد پر ان تحریکوں کی باہمی جڑت ناگزیر ہوتی جا رہی ہے۔ان تحریکوں کا ایک اور مشترکہ پہلو یہ ہے کہ ان تمام خطوں کے مقامی حکمران پاکستانی ریاست کی گماشتگی کر رہے ہیں جبکہ غریب و محکوم محنت کش عوام اس ریاست اور اس نظام کے خلاف بغاوت کر چکے ہیں۔

ان تمام تحریکوں کا جائزہ لیا جائے تو ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ تمام تحریکیں اس ملک میں جاری سامراجی اور سرمایہ دارانہ لوٹ مار اور ریاستی جبر کے خلاف ابھرنے والی بغاوتیں ہیں۔ ان میں سے کسی بھی تحریک کو الگ تھلگ کسی قوم کی کوئی اپنی انفرادی یا انوکھی لڑائی سمجھنا ان تحریکوں کے لیے ایک زہر قاتل ہوگا۔ بلوچ محنت کش عوام کی تحریک کی موجودہ قیادت کے تمام عملی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو دو انتہائی اہم پہلو سامنے آتے ہیں۔ لانگ مارچ کے راستے کا انتخاب کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا گیا کہ بلوچ آبادیوں والے علاقوں سے سفر کیا جائے۔ تحریک کے ابتدائی مرحلے کے حوالے سے اگرچہ یہ انتہائی ضروری اقدام تھا کہ سب سے پہلے بلوچ عوام کی حمایت حاصل کی جائے لیکن ایسا کرتے ہوئے دیگر اور بالخصوص پنجاب کے محنت کشوں کو یکسر نظر انداز کر دینا قیادت کے تنگ نظر قوم پرستانہ رحجان کو ظاہر کرتا ہے۔

مزید برآں قیادت نے دو ماہ کے دوران اقوام متحدہ جیسے قاتل اور سفاک ادارے اور مغربی سامراجیوں سے تو حمایت کی بہت درخواست کی لیکن کبھی غلطی سے بھی نام لے کر ملک کے محنت کش طبقے سے حمایت و یکجہتی کی اپیل نہیں کی جو کہ عیاں کرتی ہے کہ یہ قیادت بھی محنت کشوں کے خلاف قوم پرستی کا روایتی تعصب رکھتی ہے

اسی طرح25 جنوری کو کوئٹہ پہنچنے پر بھی شہر کے پشتون اکثریتی علاقوں سے گزرنے سے اجتناب کیا گیا۔ قیادت کا یہ طرز عمل واضح کرتا ہے کہ امریکی یا مغربی سامراجی ممالک کے حکمران طبقے اور اقوام متحدہ جیسے سامراج کے دم چھلہ اور خصی اداروں سے یہ امیدیں وابستہ کی جا رہی ہیں کہ وہ پاکستانی ریاست پر کسی قسم کا دباؤ ڈال کر بلوچوں پر جاری ریاستی جبر کا خاتمہ کرائیں گے۔

قیادت کے نظریات کے یہ دو پہلو اس تحریک کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہیں اس لیے تحریک کے سبھی باشعور حصوں کو اس قسم کے سیاسی اور نظریاتی سوالات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے تحریک کو درست پروگرام کی بنیاد پر آگے بڑھانا ہوگا۔ یہ انتہائی غلط تصور ہو گا کہ تحریک کو غیر سیاسی رکھنے کے نام پر ایسے نظریات تحریک پر مسلط کیے جائیں جو اس تحریک کو آگے بڑھانے کی بجائے بند گلی کی جانب لے جانے کا باعث بنیں جبکہ ہم ماضی قریب میں پشتون تحفظ تحریک کیساتھ یہی سب کچھ ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ کوئی بھی تحریک کبھی بھی غیر سیاسی نہیں ہو سکتی۔ احتجاج کے ذریعے کسی بھی مطالبے کو منوانے کی کوشش سب سے متحرک سیاسی عمل کا نام ہے۔ اس عمل کے دوران یہ موقف کہ کون سی قوتیں آپ کی دوست ہیں اور کون سی دشمن؟ اس کا تعین آپ کے سیاسی نظریات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

اس حوالے سے موجودہ تحریک انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہو چکی ہے جہاں پر اس کے سیاسی نظریات اور پروگرام اس کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔پاکستانی ریاست کے جبر کے خلاف تمام مظلوم و محکوم محنت کشوں اور عوام کی جڑت فیصلہ کن کردار کی حامل ہے اور اس جڑت کے بغیر اس قاتل ریاست کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ہمیں پشتونوں کی تحریک سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کی کون سی ایسی کمزوریاں تھیں جن کے باعث یہ تحریک پیچھے کی جانب گئی ہے۔

بلوچ محنت کش عوام کے موجودہ تحرک کو برقرار رکھنے کے لیے اس کو باقاعدہ طور پر منظم کرنا یعنی تنظیم سازی کرنا انتہائی ضروری ہے لیکن اس تنظیم سازی کو ایک درست سائنسی نظریے اور پروگرام کی بنیاد پر ہی کیا جا سکتا ہے جو آج کے عہد میں صرف سوشلزم کا نظریہ ہی ہوسکتا ہے جو تمام محنت کشوں اور مظلوموں کو ایک مشترکہ پروگرام کے تحت متحد کر کے سرمایہ دارانہ نظام،ریاست اور سامراجی جبر سے نجات کی راہ دکھاتا ہے۔ایک انقلابی پروگرام اور تنظیم کے بغیر محنت کش عوام کے اس تحرک کو زیادہ عرصے تک قائم رکھنا اور اسے مزید مضبوط کرنا یعنی اسے دیگر علاقوں کے محنت کشوں سے جوڑنا ممکن نہیں ہو گا۔ بلوچ محنت کش عوام کا یہی تحرک اس کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اس کو مزید مضبوط کرنے کا بھی واحد طریقہ یہ ہے کہ اسے دیگر خطوں کے محنت کشوں سے جوڑا جائے۔ سامراجی قاتلوں، لٹیروں اور ان کے دلال اداروں سے امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے پاکستان، اس خطے اور دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بغیر محنت کش عوام کے تحرک کو لمبے عرصے تک قائم رکھنا ممکن نہیں ہو گا اور جب عوامی تحریک پسپائی کی جانب جائے گی تو ریاستی جبر پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر جائے گا۔

بلوچ محنت کش عوام کی یہ تحریک دیگر علاقوں کے لیے بھی انتہائی تقویت کا باعث ہے اور اس نے قابل تقلید مثال قائم کی ہے لیکن اگر اس تحریک کو درپیش خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیا جاتا تو تحریک کی پسپائی اور ٹوٹ پھوٹ ناگزیر ہو جائے گی جس کا خمیازہ ریاستی جبر کی ایک نئی لہر کی صورت میں بھگتنا ہوگا۔ تحریک کے ہمدرد وہ لوگ نہیں ہیں جو صرف تحریک اور قیادت کی تعریفیں کرنے میں مصروف ہیں اور اس کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انہیں دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ تحریک میں مکمل جمہوری بحث و مباحثے کے ماحول کو پروان چڑھانا، تعمیری تنقید کو دوستانہ انداز میں رکھنے کی آزادی کو فروغ دینا اور سب سے بڑھ کر تحریک کے سیاسی نظریات کو جمہوری مباحثوں کے ذریعے واضح کرنا انتہائی کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی داخلی جمہوریت کے ذریعے ہی تحریک کی قیادت کو بھی تحریک کے سامنے جوابدہ بناتے ہوئے تحریک کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ آگے بڑھنے کے لئے اس امرکی ضرورت ہے کہ تحریک کو نسل پرستی جیسے منفی رجحانات سے دور رکھنے کے لئے دیگر مظلوم اقوام اور محنت کش طبقے کے ساتھ یکجہتی قائم کرتے ہوئے مشترکہ دشمن کے خلا ف جدو جہد کی بنیاد رکھی جائے اور یہ سب قوم پرستانہ نظریات کے تحت نہیں بلکہ صرف سوشلسٹ نظریات کے تحت ہی ہو سکتا ہے۔

قومی و طبقاتی جبر سے نجات کے لئے بلوچستان کے ساتھ دیگر اقوام کے محنت کش طبقے ساتھ جڑت قائم کرکے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھا کر ہی اس ریاست کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عالمی و علاقائی سامراجی قوتوں اور اقوام متحدہ جیسے سامراجی اداروں کے متعلق تحریک میں موجود خوش فہمیوں کا خاتمہ کرنا بھی اشد ضروری ہے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی محنت کشوں کی تحریکیں وقتاً فوقتاً اٹھتی رہتی ہیں جن کے ساتھ مل کر اس ظالم جابرانہ ریاست کو منہدم کرکے اس ملبے پر طبقات و قومی جبر سے پاک سماجی برابری کا نظام رائج کرکے ظلم و جبر کی تمام اشکال کا خاتمہ کر تے ہوئے اس خطے کو انسانوں کے لئے جنت نظیر بنایا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.