|تحریر: زلمی پاسون|
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی قیادت کی غیر قانونی قید میں مزید 15 دن کا اضافہ کر دیا گیا ہے، جو پہلے ہی تین ماہ سے زائد عرصے سے انگریز سامراج کے بنائے گئے آمرانہ تھری ایم پی او جیسے نو آبادیاتی قانون کے تحت ریاستی جبر کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس قیادت کی طویل غیر قانونی حراست نے نہ صرف تحریک کی تنظیمی سرگرمیوں کو متاثر کیا ہے بلکہ موجودہ بدترین ریاستی جبر کے نتیجے میں تحریک کو وقتی طور پر پسپائی بھی اختیار کرنا پڑی ہے۔
ایسی کیفیت میں قیادت کی رہائی کے لیے نام نہاد عدالتوں کا سہارا لینا ایک محدود اصلاح پسندانہ رجحان کو جنم دے سکتا ہے، جو عوام کو اس خام خیالی میں مبتلا کر سکتا ہے کہ یہ عدالتیں مظلوموں کو انصاف فراہم کریں گی۔ مارکسی نکتہ نظر سے عدالتیں کسی بھی طبقاتی سماج میں غیرجانبدار ادارے نہیں ہوتیں، بلکہ یہ حکمران طبقے کے مفادات کے تحفظ کا آلہ ہوتی ہیں، جو قانون کی بالادستی کے پردے میں طبقاتی جبر کو دوام دیتی ہیں۔ اسی لیے صرف قانونی چارہ جوئی پر انحصار کرنے کی بجائے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک وسیع عوامی سیاسی مہم کا آغاز کیا جائے، جس میں مظاہرے، جلسے، ہڑتالیں، اور طلبہ و محنت کش طبقے کی انقلابی یکجہتی کو بروئے کار لا کر ریاستی جبر کو چیلنج کیا جائے۔ یہی واحد راستہ ہے جو نہ صرف قیادت کی رہائی کو ممکن بنا سکتا ہے بلکہ تحریک کو ایک نئی قوت اور سمت بھی فراہم کر سکتا ہے۔
11مارچ 2025ء کو جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد ریاست نے جس وحشیانہ انداز میں ردعمل دیا، اس نے بلوچ عوام کے زخموں کو مزید گہرا کر دیا۔ جبری گمشدگیاں، فیک انکاؤنٹرز، گھروں پر چھاپے، اجتماعی سزائیں اور لاشوں کی بے حرمتی روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ مگر اس تمام ریاستی جبر کا مرکز ی نشانہ وہ عوامی مزاحمتی تحریک بنی ہے جو بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے گرد ابھری ہے، ایک ایسی تحریک جو بلوچ سماج میں عوامی بیداری، اجتماعی شعور اور سیاسی سوالات کی نئی لہر کی علامت بن چکی ہے۔
بی وائی سی نے اپنی عوامی جڑیں دیہات، شہروں اور تعلیمی اداروں میں مضبوط کی ہیں اور آج یہ تحریک ریاستی پالیسی کی مخالفت اور پرانی قوم پرست قیادت کے زوال کے بیچ ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ وہ قیادتیں جو کبھی عوام کی امید کا مرکز تھیں، اب یا تو ریاستی مفاہمت کا حصہ بن چکی ہیں، یا عسکری مہم جوئی کی بند گلیوں میں گم ہو چکی ہیں۔ بی وائی سی نے اس خلا کو عوامی سیاست، طلبہ مزاحمت اور خواتین کی قیادت کے ذریعے پُر کیا ہے۔ مارکسی نکتہ نظر سے، یہ مرحلہ صرف ”قوم بمقابلہ ریاست“ نہیں، بلکہ اس میں قومی جبر، معاشی استحصال، سیاسی بندش اور صنفی جبر، سبھی کی آمیزش ہے، جو بغاوت کو جنم دیتی ہے۔
ریاستی ردعمل میں بی وائی سی کو عسکریت پسند تحریک کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ہر احتجاج، ہر سوال اور ہر سیاسی عمل کو ”دہشتگردی“ کے دائرے میں لایا جا سکے۔ مگر یہ تاثر جھوٹ اور مفاد پرستی پر مبنی ہے۔ بی وائی سی کی جدوجہد نہ صرف پُر امن اور عوامی ہے، بلکہ وہ ایک سیاسی متبادل کی نمائندگی کرتی ہے، ایسا متبادل جو بلوچ عوام کو سوچنے، بولنے، منظم ہونے اور ریاستی جبر کا شعوری مقابلہ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ بالخصوص بی وائی سی کی قیادت میں شامل خواتین نے بلوچ روایتی معاشرتی رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے جس استقامت، شعور اور قیادت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ریاستی جبر کو مزید بے نقاب کرتا ہے۔
موجودہ صورتحال کا مختصر جائزہ: جبر اور مزاحمت کا چکر
بلوچستان اس وقت ایک کیفیتی بحران سے دو چار ہے جہاں ریاستی جبر اور عوامی ردعمل ایک بار پھر ٹکراؤ کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ 11 مارچ 2025ء کو جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد ریاست نے جس جارحانہ انداز میں عسکری کاروائیاں تیز کیں، وہ کسی وقتی ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ سامراجی طرز کے نو آبادیاتی رویے کا تسلسل ہے۔ یہی رویہ بلوچ عوام کو مشکوک، ناقابلِ اعتماد اور ”قومی سلامتی“ کے بیانیے کے تحت ہمیشہ ایک غیر شہری حیثیت میں رکھتا ہے۔ مگر اس بار محض عسکری کاروائیاں نہیں بڑھیں، بلکہ سیاسی اور عوامی تحریکوں کو بھی منظم طریقے سے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، بالخصوص بی وائی سی جیسی تنظیمیں جو بلوچ سماج میں عوامی شعور، اجتماعی عمل اور سیاسی سوالات کی نئی فضا تشکیل دے رہی ہیں۔
ریاست ان تحریکوں کو محض ایک ”سیکیورٹی تھریٹ“ کی بجائے ایک حقیقی سیاسی چیلنج سمجھنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی وائی سی کی قیادت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف میڈیا، پولیس اور انتظامیہ کے ذریعے ایک مکمل ریاستی مہم چلائی جا رہی ہے۔ خاص طور پر بی وائی سی میں خواتین کا فعال کردار، جو بلوچ معاشرتی حدود کو چیرتے ہوئے سیاسی قیادت کے مقام پر پہنچی ہیں، ریاستی جبر کے نشانے پر ہے۔ متعدد خواتین جبری گمشدگی کا شکار ہو چکی ہیں، جوکہ شاید تاریخ میں پہلی بار ہوا ہوگا۔ یہ خواتین بلوچ سماج پر ہونے والے جبر کے خاتمے اور بالخصوص اپنے پیاروں کی محفوظ بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں جبکہ ان کے خاندانوں کو اجتماعی سزائیں دی جا رہی ہیں، جن میں چھاپے، دھمکیاں، ملازمتوں سے برطرفی، اور بچوں تک کو نشانہ بنانا شامل ہے۔
یاد رہے کہ موجودہ صورتحال میں بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں ریاست جس انداز سے محنت کش طبقے، مظلوم اقوام اور جمہوری عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے، وہ دراصل خود اس کی کمزوری کا اظہار ہے۔ ولادیمیر لینن کا یہ قول کہ، ”ریاست جتنی کمزور ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ وحشی ہو جاتی ہے۔“، آج پاکستان میں عملی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بلوچستان میں پُر امن مظاہروں، طلبہ تحریکوں، جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج اور قومی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں پر تھری ایم پی او جیسے نو آبادیاتی قوانین کے تحت کریک ڈاؤن، گرفتاریاں، تشدد اور پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست نہ تو جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق پر۔ یہی کیفیت پورے ملک میں موجود محنت کشوں، کسانوں، اساتذہ، ڈاکٹروں اور طلبہ پر جاری ریاستی حملوں میں بھی نظر آتی ہے، جہاں مزدور پر تنخواہ مانگنے پر لاٹھی چارج، ہڑتال پر پابندی اور منظم ہونے پر دہشت گردی کے مقدمات بنا دیے جاتے ہیں۔ یہ سب اس بات کی غمازی ہے کہ یہ ریاست بحران کا شکار ہے اور اپنی ناکامیوں کو طاقت اور جبر کے ذریعے چھپانا چاہتی ہے۔
اس کے علاوہ ریاست اس صورتحال کو یوں پیش کرتی ہے گویا عوامی احتجاج اور مسلح مزاحمت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس بیانیے کے تحت ہر طالبِ علم رہنما، ہر احتجاجی خاتون اور ہر سیاسی کارکن کو ”دہشتگرد“ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ پوری تحریک کو بدنام کیا جا سکے۔ مگر یہ تاثر نہ صرف جھوٹ پر مبنی ہے بلکہ خطرناک بھی ہے، کیونکہ یہ عوامی سیاست کو عسکریت کے دائرے میں لا کر دفن کرنے کی کوشش ہے۔ ہم اس گمراہ کن مماثلت کو یکسر رد کرتے ہیں۔ بی وائی سی جیسی تحریکیں ایک عوامی، سیاسی، پرامن اور نظریاتی جدوجہد کی نمائندہ ہیں، جو بلوچ عوام کو جبر کے خلاف منظم ہو کر مزاحمت کرنے کا شعور اور طاقت دیتی ہیں۔
مارکسی مؤقف بالکل واضح ہے کہ ہر سیاسی بغاوت کو عسکری رجحان سے جوڑ دینا، دراصل عوامی تحریک کو غیر سیاسی بنا کر تباہ کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔ ریاست ”قومی سوال“ کو صرف عسکری مسئلہ بناکر پیش کرتی ہے، جبکہ دوسری سمت سے مزاحمت کو اگر محض ”بقا کی لڑائی“ تک محدود کر دیا جائے، تو اس سے نہ قومی آزادی حاصل ہوتی ہے اور نہ عوامی اختیار۔ آج کی مسلح کاروائیاں، اگرچہ ریاستی مظالم کے ردعمل کے طور پر ابھرتی ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ خود سیاسی آزادی کی ضامن بن سکتی ہیں؟ یا کیا یہ عوامی مزاحمت کی جگہ لینے کی کوشش کر رہی ہیں؟ یہی وہ تضاد ہے جسے سمجھنے کے لیے مارکسی تجزیہ ناگزیر ہے۔
آج کا بلوچستان ایک سوشلسٹ متبادل کے ابھرنے کی تاریخی گنجائش فراہم کر رہا ہے۔ مگر یہ متبادل خودبخود جنم نہیں لیتا۔ اگر موجودہ عوامی مزاحمت کو واضح نظریاتی سمت، طبقاتی جڑت اور منظم عوامی قوت نہ ملی، تو یہ بھی ماضی کی تحریکوں کی طرح تھک کر بکھر سکتی ہے، یا کسی نئے سمجھوتے کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ صرف ریاستی جبر کو بے نقاب کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ یہ بنیادی سوال اٹھایا جائے کہ اس جبر کے خلاف مزاحمت کس سیاست، کس نظریے اور کس منزل کی طرف بڑھ رہی ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو ہمیں انقلابی راستے کی طرف لے جا سکتا ہے۔
قوم پرستی کی نظریاتی محدودیت: ایک تجریدی سیاسی شناخت
قوم پرستی، خاص طور پر مظلوم اقوام کی قوم پرستی، ایک مخصوص تاریخی مرحلے پر ترقی پسند رجحان رکھتی تھی، جب وہ سامراجی قبضے اور نو آبادیاتی تسلط کے خلاف عوامی مزاحمت کو منظم کرتی تھی۔ پاکستان جیسے سامراجی ریاستی ڈھانچے میں، جہاں فوجی و سویلین اشرافیہ کی بالادستی کے ذریعے بلوچ، پشتون، سندھی، کشمیری، گلگتی اور دیگر محکوم اقوام کو مسلسل جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشنوں اور معاشی استحصال کا سامنا ہے، وہاں اس جبر کے خلاف مزاحمت فطری ہے۔ تاہم اگر یہ مزاحمت صرف مجرد قوم پرستانہ نعروں تک محدود رہے، تو وہ جلد اپنے اندرونی تضادات کا شکار ہو جاتی ہے اور بالآخر خود سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام کے لیے قابلِ قبول ”قومی اپوزیشن“ میں ڈھل جاتی ہے۔
لینن اس حوالے سے واضح مؤقف دیتا ہے کہ: ”جب تک قومی جبر موجود ہے، پرولتاریہ کو مظلوم قوم کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرنی چاہیے؛ لیکن یہ جدوجہد طبقاتی بنیاد سے جڑی ہو، ورنہ بورژوا قوم پرستی ایک رجعتی آلہ بن جاتی ہے۔“ سوویت یونین کے انہدام کے بعد یہ تضاد اور گہرا ہو گیا، کیونکہ مزدور تحریکوں کے زوال نے قومی تحریکوں کو سرمایہ دار ریاستوں، مالیاتی اداروں اور عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ان تحریکوں نے ”قوم“ کو ایک غیرطبقاتی، تجریدی وحدت کے طور پر پیش کرنا شروع کیا، ایسی وحدت جس میں استحصالی و استحصال زدہ طبقوں کا فرق دانستہ مٹایا گیا۔ یہی عمل اب بلوچ قوم پرستی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں ریاستی جبر کے خلاف حقیقی غصے کو ایک ایسی سیاست کی جانب موڑا جا رہا ہے، جو محنت کشوں، خواتین، کسانوں اور طلبہ کے تجربات و مطالبات سے ہم آہنگ نہیں۔
قوم پرستی کی سب سے بڑی نظریاتی کمزوری یہی ہے کہ وہ ایک ”یگانہ قوم“ کا تصور پیش کرتی ہے، آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے، کہ بلوچ یا دیگر مظلوم اقوام ”من حیث القوم“ ایک طبقہ ہیں۔ جبکہ مارکسی تجزیہ واضح کرتا ہے کہ ہر قوم کے اندر دو قومیں ہوتی ہیں: استحصال کرنے والے اور استحصال زدہ۔ بلوچ تحریک کی موجودہ قوم پرست قیادت بھی اسی تجریدی بیانیے کی نمائندگی کرتی ہے، جو قبائلی سرداری، درمیانے طبقے کے مفادات اور بیرونی حمایت کے محور پر قائم ہے۔ اس میں نہ محنت کش طبقے کی طبقاتی حیثیت نمایاں ہوتی ہے، نہ عورت کی صنفی مظلومیت کو کوئی حقیقی سیاسی حیثیت دی جاتی ہے۔ قومی آزادی کی جدوجہد، اگر طبقاتی بنیادوں سے کٹی رہے، تو وہ نہ صرف ناکام ہوتی ہے بلکہ اکثر نئی شکل میں جبر، طبقاتی استحصال اور سامراجی انحصار کو جنم دیتی ہے۔
لہٰذا، لازم ہے کہ بلوچ قومی سوال کو خالص قوم پرستی سے نکال کر طبقاتی سیاست کے تناظر میں سمجھا جائے۔ ایک ایسی سیاست جو سامراجی ریاست اور مقامی استحصالی طبقات، دونوں کے خلاف محنت کشوں، خواتین، طلبہ اور کسانوں کی اجتماعی سیاسی طاقت پر انحصار کرے۔ یہی وہ راستہ ہے جو بلوچ عوام کی جدوجہد کو محض ”بقا“ سے نکال کر ”نجات اور اختیار“ کی سوشلسٹ منزل تک پہنچا سکتا ہے۔
عسکری دائرہ یا عوامی دھارا؟ بی وائی سی، ریاست اور سیاسی امکانات
بلوچستان میں حالیہ عرصے میں عوامی جدوجہد کی جو نئی لہر ابھری ہے، اس کی سب سے نمایاں شکل بی وائی سی (بلوچ یکجہتی کمیٹی) کی تحریک ہے، جس نے نہ صرف جبری گمشدگیوں اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کی بلکہ سیاسی مزاحمت کے ایک نئے، غیر مسلح اور واضح طور پر پُر امن عوامی جدوجہد کے رجحان کو متعارف کروایا۔ یہ تحریک عسکریت پسندی کے بیانیے سے مکمل طور پر متصادم ہے، جہاں بلوچ خواتین پہلی صفوں میں نظر آئیں اور سیاسی مطالبات کا مرکز فرد، وقار اور آزادی کی انسانی شکلیں بنیں، جہاں پہلی بار پنجاب کے محنت کش عوام نے کھل کر اس تحریک کی حمایت کی۔
ریاستی اسٹیبلشمنٹ کو ایسے عوامی اور سیاسی رجحانات سے ہمیشہ خوف رہا ہے، کیونکہ جہاں عسکریت پسندی کو وہ ایک قابو پانے والی سیکیورٹی پرابلم کے طور پر ڈیل کرتی ہے، وہیں ایک غیر مسلح، سیاسی تحریک ریاستی بیانیے کے لیے ایک خطرناک سیاسی بحران بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی وائی سی کو فوری طور پر کچلنے کی کوشش کی گئی، اسلام آباد میں مظاہرین پر پولیس گردی، میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ اور تنظیمی سرگرمیوں پر پابندیاں دراصل ریاست کی اسی بوکھلاہٹ کا اظہار تھیں۔
اس کے برعکس، بلوچ عسکریت پسندی جو گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف شکلوں میں جاری ہے، ریاستی حکمتِ عملی میں ایک مخصوص مقام رکھتی ہے۔ اگرچہ ریاست اس پر عوامی سطح پر مذمت ظاہر کرتی ہے، مگر عملی طور پر عسکریت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بجائے ایک محدود، کنٹرولڈ دائرے میں برداشت کرنے کا سوچتی ہے۔ یہ تضاد خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست کسی نہ کسی درجے میں عسکری مزاحمت کو بطور ’قابو پانے کے قابل مسئلہ‘ زندہ رکھنا چاہتی ہے تاکہ عوامی سیاست کو عسکری بیانیے کے ساتھ خلط ملط کر کے بدنام کیا جا سکے۔
تاہم آج یہ بات صرف داخلی پالیسی سے نہیں جڑی، بلکہ ایک وسیع سامراجی تناظر بھی رکھتی ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی و تزویراتی چپقلش نے بلوچستان کو ایک نئی سرد جنگ کا ممکنہ میدانِ کار زار بنا دیا ہے جس میں انڈیا بھی ایک فریق کے طور پر موجود ہے۔ سی پیک جیسے منصوبے چین کی سرمایہ کاری کے کلیدی مراکز ہیں، جنہیں نشانہ بنانے والی بلوچ عسکریت پسندی کے مخصوص دھڑوں میں امریکی حمایت یا پراکسی رجحانات کی موجودگی کی علامات بڑھتی جا رہی ہیں۔ بیرونی فنڈنگ، پراپیگنڈا نیٹ ورکس اور خطے میں سامراجی اتحادوں کے نئے نقشے یہ اشارہ دیتے ہیں کہ بلوچ عسکری مزاحمت، اگر نظریاتی سمت سے عاری رہی، تو وہ ایک بار پھر سامراجی شطرنج کا مہرہ بن سکتی ہے۔
اسی تناظر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ بی وائی سی اور عسکریت پسندی معروضی طور پر دو متضاد رجحانات ہیں۔ ایک طرف بی وائی سی عوامی سیاست کو وسعت دینے کی جدوجہد کر رہی ہے، عوامی حمایت اکٹھی کر رہی ہے اور ریاستی جبر کے خلاف سیاسی محاذ قائم کر رہی ہے۔ دوسری طرف، عسکری گروہ نہ صرف سیاسی افق کو محدود کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات عوام، خاص طور پر غیر بلوچ محنت کشوں کو بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ریاستی آلہ کار بنا کر پیش کرتے ہوئے ان پر حملہ کر کے بی وائی سی جیسی تنظیموں کو مزید تنہا اور غیرمحفوظ بنا دیتے ہیں۔
بی وائی سی کی موجودہ قیادت، اپنی استقامت کے باوجود، اس وقت ایک واضح سیاسی پروگرام، طبقاتی تناظر اور انقلابی تنظیم سازی کی سمت میں واضح پیش رفت سے محروم ہے۔ اگر یہ خلا برقرار رہا تو خطرہ ہے کہ یہ تحریک ریاست کے جبر میں تحلیل ہو جائے یا نوجوان مایوسی میں دوبارہ عسکریت کی جانب رجوع کریں۔ ریاست کی پالیسی اسی دوہری حکمت عملی پر مبنی ہے: ایک طرف عسکریت پسندی کو کنٹرولڈ حدود میں برداشت کرنا، دوسری طرف سیاسی تحریک کو کچل دینا۔
مارکسی نقطہ نظر سے یہ صورتحال صرف قومی سوال نہیں، بلکہ طبقاتی سوال ہے۔ سوال یہ نہیں کہ بلوچ تشخص کیا ہے اور ریاست اس کا خاتمہ چاہتی ہے، بلکہ ریاست اور حکمران طبقے کو مسئلہ بلوچ شناخت سے نہیں ہے، انہیں تو بلوچستان کے خطے کی جیو سٹریٹجک اور وسائل کی لوٹ مار سے سروکار ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ بلوچ محنت کش، کسان، خواتین، طلبہ اور مزدور کہاں کھڑے ہیں؟ جب تک بی وائی سی جیسے عوامی رجحانات طبقاتی بنیادوں پر اپنے اتحاد، پروگرام اور تنظیمی ڈھانچے کو تعمیر نہیں کرتے، وہ ریاستی جبر، عسکریت پسندی اور سامراجی سازشوں کے بیچ پِسنے کے خطرے سے دو چار رہیں گے۔
ریاستی جبر، احتجاجی سیاست اور طبقاتی متبادل: ایک انقلابی ضرورت
بلوچستان میں جبری گمشدگیاں، فیک انکاؤنٹرز، اجتماعی سزائیں اور مسخ شدہ لاشیں کوئی انفرادی واقعات نہیں بلکہ سامراجی ریاست کی پالیسی کا تسلسل ہیں، جو دہائیوں سے محکوم قوموں کو دبانے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ ان مظالم کے خلاف ابھرنے والی موجودہ تحریکیں، جیسے دھرنے اور علامتی مظاہرے، مزاحمت کی قابلِ قدر شکلیں ضرور ہیں، مگر وہ ریاستی جبر کی مادی بنیادوں کو چیلنج کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان تحریکوں کی قیادت کی نظریاتی کمزوری اور طبقاتی ساخت ہے، جو زیادہ تر مڈل کلاس پرتوں پر مشتمل ہے۔
یہ قیادتیں عمومی طور پر مزاحمت کو آئینی دائرے، قانونی چارہ جوئی اور ریاست سے ”جوابدہی“ کی امید سے مشروط رکھتی ہیں، ایک ایسی ریاست سے جس کا وجود ہی سامراجی، جابرانہ اور نو آبادیاتی اصولوں پر قائم ہے۔ مڈل کلاس کی غیرمستحکم معاشی حیثیت، سیاسی تذبذب اور مفاہمت پسند رجحانات، اسے ایک مستقل انقلابی قوت نہیں بننے دیتے؛ یہی وجہ ہے کہ یہ پرت یا تو ریاست کے ساتھ سمجھوتے کرتی ہے یا پھر مہم جوئی پر مبنی محدود قوم پرستی کی آغوش میں پناہ لیتی ہے۔
اسی لیے ضروری ہے کہ مزاحمتی تحریک کی قیادت محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں ہو، جو پیداواری عمل میں اپنی مرکزی حیثیت اور اجتماعی طاقت کے باعث اس نظام کو حقیقتاً مفلوج کر سکتا ہے۔ بلوچستان کا مزدور، کسان، ماہی گیر، بے روزگار نوجوان اور دیہی خاتون، یہ وہ پرتیں ہیں جو نہ صرف جبر کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہیں بلکہ ان کی زندگی خود اس نظام کی تبدیلی سے مشروط ہے۔ مگر بدقسمتی سے انہیں یا تو نظر انداز کیا جاتا ہے یا ان کی معاشی جدوجہد کو ”قومی تحریک“ سے الگ اور غیر سیاسی تصور کیا جاتا ہے۔
مثلاً گوادر میں ماہی گیروں کی مزاحمت ہو یا کوئٹہ میں واسا، تعلیم، صحت اور میونسپل اداروں کے محنت کشوں کی ہڑتالیں، یہ سب تحریکیں واضح طبقاتی بنیادوں پر تھیں۔ لیکن چونکہ یہ ”قوم“ کی تجریدی وحدت میں فِٹ نہیں بیٹھتیں، اس لیے انہیں الگ تھلگ رکھا گیا۔ جبکہ مارکسی نکتہ نظر سے یہی وہ پرتیں ہیں جو انقلابی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہیں۔ اگر انہیں سیاسی قیادت اور سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ جوڑا جائے تو یہی قوت ریاستی جبر کے خلاف فیصلہ کن لڑائی کا آغاز کر سکتی ہے۔
مڈل کلاس کے برعکس، محنت کش طبقہ پیداواری عمل میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا پورے معاشی نظام سے تعلق اس کی اجتماعی طاقت کو جنم دیتا ہے۔ اگر وہ ہڑتال کرے، معیشت رک جاتی ہے۔ اگر وہ منظم ہو، تو پورا نظام لرز اٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف محنت کش طبقے کو اعتماد میں لے کر ایک بڑی ہڑتال یا احتجاجی تحریک چلائی جائے، تو ریاست کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر قوم پرست قیادت محنت کش طبقے کے وجود سے انکاری ہو اور اپنی تحریک کو محض قوم پرستی کے عمومی نعروں تک محدود رکھے، تو یہ طاقت ضائع ہو جاتی ہے اور ریاستی جبر کا تسلسل برقرار رہتا ہے۔ بلوچستان میں موجود محنت کش طبقے کی اجتماعی قوت کو پہچان کر اسے انقلابی جدوجہد میں شامل کرنا ہی حقیقی تبدیلی اور آزادی کی کلید ہے، ورنہ مزاحمت دائرہ دار اور محدود رہتی ہے، جو بالآخر موجودہ جبر کو کمزور کرنے کی بجائے اس کو پختہ کرتی ہے۔
محنت کش طبقے کی ہڑتال معیشت کو روک سکتی ہے، اور اس کی منظم مزاحمت پورے حکومتی نظام کو لرزا سکتی ہے۔ اس لیے اصل سوال صرف یہ نہیں کہ جبر کے خلاف احتجاج ہو، بلکہ یہ ہے کہ یہ احتجاج کس نظریے، کس قوت اور کس منزل کی جانب گامزن ہے۔ طبقاتی سیاست کی عدم موجودگی میں مزاحمت دائرہ دار بن جاتی ہے، جبر کو چیلنج کرنے کی بجائے اسے نئی شکل دے دیتی ہے۔ حقیقی آزادی صرف اسی وقت ممکن ہے جب تحریک کا مرکز محنت کش طبقہ ہو اور اس کی منزل ایک سوشلسٹ انقلابی متبادل کی تشکیل ہو۔
سوشلسٹ متبادل کا نظریاتی و عملی خاکہ
بلوچستان میں قومی جبر کا خاتمہ صرف ایک جذباتی خواہش نہیں بلکہ ایک ایسی انقلابی جدوجہد ہے جو طبقاتی بنیاد پر محنت کش عوام کی نجات سے جڑی ہوئی ہے۔ سوشلسٹ متبادل کا تصور قومی آزادی کو طبقاتی نجات سے جوڑتا ہے اور ایسی تحریک کی تشکیل کا مطالبہ کرتا ہے جو بلوچ محنت کشوں، کسانوں، طلبہ، خواتین اور دیگر مظلوم طبقات کو منظم کر کے ریاستی و سامراجی جبر کے ساتھ ساتھ مقامی سرداری و سرمایہ دار طبقے کی غداری کو بھی بے نقاب کرے۔ اس جدوجہد کی عملی شکل، طبقاتی یونین سازی، عوامی دفاعی کمیٹیوں، طلبہ و مزدور اتحاد اور وسائل و پیداوار پر عوامی کنٹرول جیسے اقدامات میں نظر آ سکتی ہے۔ یہ متبادل ایک رضاکارانہ فیڈریشن کی تشکیل کا نظریہ پیش کرتا ہے جو مظلوم اقوام کو حقیقی خود ارادیت اور استحصال سے پاک مستقبل کی ضمانت دے سکتا ہے۔
طبقاتی جدوجہد کا مشترکہ پس منظر
پاکستان کے تمام خطوں، بلوچستان، خیبر پشتونخوا، پنجاب، کشمیر، گلگت بلتستان اور سندھ میں محنت کش طبقے کی جدوجہد نے طبقاتی سیاست کی جڑیں مضبوط کی ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ مزدور تحریکیں، جیسے بلوچستان گرینڈ الائنس یا گوادر میں ماہی گیروں کی مزاحمت، اس بات کی علامت ہیں کہ طبقاتی شعور تیزی سے ابھر رہا ہے۔ یہ تحریکیں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ مظلوم اقوام کا اتحاد، اگر صرف مشترکہ مظلومیت یا دیگر جذباتی عوامل کی بنیاد پر ہو، تو وہ محدود اور غیر مؤثر ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، طبقاتی بنیاد پر بلوچ، پشتون، پنجابی، سندھی، کشمیری اور گلگتی محنت کشوں کا اتحاد ہی ایک انقلابی قوت بن سکتا ہے۔
طبقاتی اتحاد: امکانات اور رکاوٹیں
طبقاتی اتحاد کا قیام، آج کے عہد میں، سب سے اہم انقلابی ضرورت بن چکا ہے۔ مگر اس راہ میں دو بڑی رکاوٹیں موجود ہیں؛ اول، ملک بھر میں مزدور تحریک کمزور، منتشر اور غیر منظم ہے۔ نجکاری، بیروزگاری، غیر رسمی معیشت اور ریاستی جبر نے محنت کشوں کی اجتماعی طاقت کو منتشر کر دیا ہے۔ دوم، کمیونسٹ تنظیمیں، جو اس جدوجہد کی نظریاتی و تنظیمی قیادت فراہم کر سکتی تھیں، وہ بھی عددی و تنظیمی طور پر کمزور ہیں۔ مگر یہی کمزور بیج مسلسل سیاسی تربیت اور نظریاتی وضاحت سے ایک مضبوط درخت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
قوم پرست قیادتیں اس اتحاد کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ وہ محنت کشوں کو ایک انقلابی طبقہ سمجھنے کی بجائے مجہول سمجھتی ہیں۔ ان کے نعروں میں طبقاتی تضادات غیر حاضر ہوتے ہیں اور ان کا زور صرف قومی جذبات کو ابھارنے پر ہوتا ہے، جو بالآخر تحریک کو ایک محدود دائرے میں قید کر دیتا ہے۔
بلوچ قوم پرستی کا تجربہ 78 برسوں پر محیط ہے۔ اس طویل عرصے میں قوم پرستی، کبھی عسکریت پسندی اور کبھی انتخابی سیاست کے ذریعے جدوجہد کرتی رہی، مگر طبقاتی بنیادوں سے کٹے رہنے کے باعث نہ تو وہ وسیع عوام کو منظم کر سکی اور نہ ہی سامراجی و سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کر سکی۔ اس کے برعکس، سوشلسٹ تناظر ایک ایسی انقلابی تحریک کی بنیاد رکھتا ہے جو ریاستی جبر، سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی مداخلت کو یکجا طور پر نشانہ بناتی ہے۔
انقلابی راستہ: طبقاتی اتحاد، پُر امن جدوجہد اور بین الاقوامی ربط
بلوچستان میں خواتین کی قیادت میں ابھرنے والی حالیہ عوامی تحریک نے ثابت کیا ہے کہ پُر امن مزاحمت ہی حقیقی راہ نجات ہے، مگر ضروری بات یہ ہے کہ جب تحریکیں انقلابی نظریاتی بنیاد پر استوار ہوں، تو وہ جبر کے خلاف مؤثر ہتھیار بن سکتی ہیں۔ لیکن اس تحریک کو نہ صرف ریاستی جبر کا سامنا ہے بلکہ خود اندرونی طور پر نظریاتی ابہام کا بھی۔ ایک طرف سامراجی اداروں سے انصاف کی بھیک مانگنے والے رجحانات اور دوسری طرف قوم پرست عسکریت کے ساتھ رومانویت رکھنے والے عناصر، تحریک کی نظریاتی سمت کو دھندلا کر رہے ہیں۔
مارکسی تجزیہ واضح کرتا ہے کہ نہ تو عسکریت پسندی انقلابی حل ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ یا مغربی سامراجی ادارے کوئی نجات دہندہ بن سکتے ہیں۔ حقیقی نجات پاکستان بھر کے محنت کش طبقے سے جڑت اور عالمی سوشلسٹ تحریک سے ربط کے ذریعے ممکن ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو مظلوم اقوام کو حقیقی آزادی دے سکتا ہے۔