برین ڈرین اور بیروزگاری کا عفریت بے قابو! لاکھوں نوجوان روزگار کے لیے بیرون ملک جانے پر مجبور

|تحریر: ولید خان|

چند دن پہلے ذرائع ابلاغ میں بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پاکستان کی جانب سے پریشان کن اعدادوشمار شائع ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق 7 لاکھ 65 ہزار پڑھے لکھے نوجوان، ہنر مند اور محنت کش صرف ایک سال 2022ء میں بہتر روزگار اور زندگی کے لئے ملک چھوڑ چکے ہیں۔ 2021ء میں 2 لاکھ 25 ہزار اور 2020ء میں 2 لاکھ 88 ہزار کے مقابلے میں یہ تعداد تقریباً تین گنا ہو چکی ہے۔ اس سال ملک سے باہر جانے والوں میں 92 ہزار گریجویٹ، 3 لاکھ 50 ہزار ہنر مند اور تقریباً اسی تعداد میں غیر ہنر مند محنت کش شامل ہیں۔ پیشے کی بنیاد پر اگر بریک ڈاؤن کیا جائے تو ان میں 2 ہزار 500 ڈاکٹرز، 5 ہزار 534 انجینئرز، 18 ہزار ایسوسی ایٹ انجینئرز (انجینئرنگ ڈپلومہ ہولڈر)، 2 ہزار کمپیوٹر ماہرین، 6 ہزار 500 اکاؤنٹنٹ، 2 ہزار 600 زرعی ماہرین، 900 سے زائد اساتذہ، 12 ہزار کمپیوٹر آپریٹرز، 1 ہزار 600 نرسز، 21 ہزار 517 ٹیکنیشین اور 2 لاکھ 13 ہزار ڈرائیور شامل ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد نے مشرق وسطیٰ اور یورپ کا رخ کیا ہے جبکہ کچھ تعداد افریقہ، امریکہ اور دیگر خطوں میں روزگار کی تلاش میں نکل چکی ہے۔ یعنی پچھلے صرف تین سالوں میں پاکستان کی کل مجموعی ہنرمند آبادی میں سے 12 لاکھ سے زائد ہنر مند ملک چھوڑ چکے ہیں جن کے ہنر اور محنت سے یہ معاشرہ اب محروم ہو چکا ہے۔ اس میں وہ نوجوان شامل نہیں جو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر گئے ہیں جن میں سے بہت سے ”دوست“ ممالک کی سرحدوں پر گولیوں اور جبر کا نشانہ بن کر قتل ہو گئے۔

پچھلی ایک دہائی میں مسلسل بگڑتی معاشی اور سماجی ملکی صورتحال میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان تمام نوجوانوں کل تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ آج یہ لمحہ فکریہ ہی نہیں بلکہ لمحہ تباہی ہے۔

برین ڈرین کی وجوہات

روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں اپنی دھرتی چھوڑ کر ہجرت کرنا یا ایک طویل عرصے کے لئے کہیں چلے جانا نیا معاملہ نہیں ہے۔ انسانی نقل و حرکت کی تاریخ لاکھوں سالوں پر محیط ہے۔ لیکن پہلے نقل و حرکت کا دارومدار جانوروں کے لئے بہتر چراہ گاہوں کی تلاش، جنگ و جدل، قحط سالی، قدرتی آفات یا دیگر ایسے مظاہر ہوتے تھے جو انسان کے کنٹرول میں نہیں ہوتے تھے۔

سرمایہ داری کی آمد نے ایک نئے دور کا آغاز کیا جس میں سرمائے اور محنت کی آزادنہ نقل و حرکت کو زیادہ سہل بنا دیا گیا اور خاص طور پر دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک ایسا نظام قائم کیا گیا جس کے تحت نام نہاد ترقی پذیر ممالک سے فارغ التحصیل ہنرمندوں اور محنت کشوں کو ترقی یافتہ ممالک میں مسلسل پھیلتے کاروبار اور بڑھتی منڈیوں کی مانگ کو پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔

اگر ایک فرد بنیادی تعلیم یا ہنر حاصل کر لیتا ہے تو اس کے بعد اسے زیادہ بلند پیمانے کی تعلیم دینا اور ہنر کے لئے تیار کرنا آسان اور کم خرچ کام ہوتا ہے جس کے فوری بعد اسے پیداوار میں کھپا کر بلند شرح منافع حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح غیر ہنرمند محنت کشوں کو ترقی یافتہ ممالک اپنے مقامی محنت کشوں کے مقابلے میں کم اجرتوں پر ملازم رکھتے ہوئے مقامی محنت کشوں کی اجرتوں کو توڑتے ہیں اور بلند شرح منافع حاصل کرتے ہیں۔

ایک طرف غیر قانونی تارکین وطن اور محنت کشوں کا سیاسی واویلا مچایا جاتا ہے تو دوسری طرف اس طریقہ کار سے زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

آبائی ملک میں محدود معیشت، سماجی پسماندگی، روزگار کے کم تر مواقع اور مغرب میں قدرے سہل، پرتعیش اور آزاد زندگی ناگزیر طور پر سب سے زیادہ تعلیم یافتہ افراد اور ہنر مندوں کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں۔ لیکن اس کا ناقابل تلافی نقصان آبائی ملک کو ہوتا ہے کیونکہ عوام کے پیسے اور ماں باپ کی محنت سے کئی سال تعلیم و تربیت اور پرورش کے بعد سماج مستقبل کے ایک فعال ہنر مند سے محروم ہو جاتا ہے۔

یہ مسئلہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر کئی ایشائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کو درپیش ہے جسے اب سماج میں بڑھتے سیاسی و سماجی انتشار، تباہ حال معیشت، مسلسل بڑھتی بیروزگاری، عدم تحفظ اور مستقبل سے مایوسی نے اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس وقت پاکستان کو جس قسم کے برین ڈرین کا سامنا ہے اس کی مثال شاید صرف جنگ سے برباد ممالک میں ہی دیکھی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں نوجوانوں کے مسائل

کسی بھی ملک میں معیشت، صنعت، روزگار اور تعلیم کا آپسی رشتہ ایسا ہے کہ ایک کے بغیر دوسرے کا صحت مند ہونا ناممکن ہے۔ اگر معیشت ترقی یافتہ ہے، شرح نمو صحت مند ہے اور ہنرمندوں کی ضرورت ہے تو تعلیمی معیار بلند تر اور روزگار وافر ہو گا جبکہ سماجی تہذیب اور زندگی بھی معیاری ہو گی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں درحقیقت یہ تاریخی فریضہ سرمایہ دار طبقے کا ہے کہ وہ کس طرح تکنیک اور پیداوار کو ترقی دیتے ہوئے اپنی صنعت کو عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل بناتا ہے اور اس کے لئے درکار ہنرمندوں اور محنت کشوں کو کیسے پیدا کرتے ہوئے بروئے کار لاتا ہے۔

پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اپنے آغاز سے ہی تاریخی طور پر اتنا پسماندہ، طفیلیہ اور کند ذہن تھا کہ اس نے عالمی منڈی میں ایک دلال اور پسو کا کردار ادا کرنے میں ہی عافیت جانی۔ ملکی معیشت اور صنعت ہمیشہ عالمی سامراجیوں اور سرمایہ داروں کے تابع رہی ہے جنہیں عوام کو کھل کر لوٹنے کھسوٹنے کا موقع فراہم کیا گیا اور ساتھ ہی اس میں اپنا حصہ بھی بٹورا گیا جو آج تک جاری ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان کی نام نہاد کار ساز صنعت ہے جس میں آج بھی موٹر سائیکلوں کے تیس پینتیس سال پرانے ماڈل بنا بنا کر مسلط کئے جا رہے ہیں اور پوری صنعت مینوفیکچرنگ کے بجائے اسمبلی پر لگی ہوئی ہے اور کم معیاری گراں قدر اشیاء بیچ بیچ کر عوام کو مسلسل لوٹ رہی ہے۔ غیرملکی کار ساز کمپنیاں اور ان کے مقامی دلال دونوں دولت میں ڈبکیاں لگارہے ہیں اور خوش ہیں۔

ایک اور مثال یہاں کا آئی ٹی سیکٹر (ٹیکنالوجی سیکٹر) ہے جس کا ایک ہی کام ہے یعنی مغربی ممالک کی جانب سے فراہم کردہ آؤٹ سورسنگ پر کام کرنا، کیونکہ یہاں لیبر انتہائی سستی ہے اور مغربی سرمایہ دار یہ کام کر کے اربوں ڈالر منافع کما رہے ہیں۔

یہی حال ہر صنعتی سیکٹر کا ہے۔ کیونکہ یہاں کا سرمایہ دار طبقہ ایک دلال طبقہ ہے اور تکنیکی، سماجی، تہذیبی اور شعوری طور پر ترقی نہیں دے سکتا اس لئے ریاست نے عوام کو شعوری طور پر پراگندہ رکھنے اور تقسیم در تقسیم رکھنے کے لئے مسلسل لسانی، نسلی اور فرقہ وارانہ منافرتوں کو استعمال کیا ہے۔ یعنی اسے ایسا سماجی اعتبار سے پسماندہ ہنر مند اور محنت کش چاہیے جو دوائی دے سکتا ہو، پیچ کس کا استعمال جانتا ہو، سارا دن مشین چلا سکتا ہو، کھاتے سیدھے رکھ سکتا ہو لیکن معاشی یا سماجی مسائل پر غور و فکر نہ کرے اور سوال کرنے کی اہلیت سے بالکل عاری ہو۔ اس کی سب سے ہولناک جھلک ہمیں نظام تعلیم میں ملتی ہے جس میں منطق نامی چیز دور دور تک نہیں، معیاری اور مسابقتی ہونا تو دور کی بات ہے۔

اس ساری صورتحال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف یہاں کا سرمایہ دار طبقہ معیشت، پیداوار، تکنیک اور دیگر جدید لوزامات کو ترقی نہیں دے سکا تو دوسری طرف ایک ایسا ہنر مند اور محنت کش طبقہ پیدا ہوا ہے جو ملک کی پسماندہ معیشت میں کچھ کردار تو ادا کر سکتا ہے لیکن جدید تکنیک، مشینری اور تحقیق پر کام کرتے ہوئے عالمی منڈی کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

انہی وجوہات کی بنا پر کچھ لبرل حضرات کی خوش فہمی اور معیشت دانوں کی غلط فہمی کے باوجود کوئی ترقی یافتہ ملک یہاں صنعت اور سروسز سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے کو بھی تیار نہیں کہ جس کی بنیاد پر روزگار کے حالات کچھ بہتر ہوں۔

آج سے تیس چالیس سال پہلے جب اس تنگ نظر اور پسماندہ طرز معیشت کے نتائج آنا شروع ہوئے تو ریاست نے پھر انتہائی گھٹیا پالیسی اپنائی جس سے سماج کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس پالیسی کے تحت ایک طرف پاکستان کے ہنر مندوں اور محنت کشوں کو مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک برآمد کرنے کی پالیسی اپنائی گئی تاکہ وہ اپنی کمائی سے پیسے واپس ملک اپنے خاندانوں کو بھیجیں تاکہ زر مبادلہ کمایا جاسکے تو دوسری طرف سامراجی آقاؤں سے قرضوں (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، مشرق وسطیٰ کے ممالک سے قرضہ جات وغیرہ) اور سامراجی خدمات (افغان جنگ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، مشرق وسطیٰ کے ممالک کو سیکورٹی فراہم کرنا، سی پیک وغیرہ) کے نتیجے میں پیسے بٹورنے کی ایسی ڈرپ لگوائی گئی کہ یہ مریض آج تک اس نشے کی لت پر لگا ہو اہے۔ رہی سہی کسر قومی اداروں کو تباہ و برباد کر کے نجی صنعت اور شعبوں کو بے مثال مراعات دے کر پوری کر دی گئی تاکہ سرمایہ دار کھل کر منافع لوٹیں اور ریاستی مشینری کا قابل ذکر حصہ اس لوٹ مار سے فیض یاب ہو۔ معیشت اس وقت اتنی بگڑ چکی ہے کہ اب یہ قرضوں کے حصول اور قرضوں کی ادائیگی کے گھن چکر میں مسلسل پس رہی ہے۔

اس سے جنم لینے والے حالات میں موجودہ عالمی معاشی بحران اور افراطِ زر نے صورتحال اتنی مایوس کن کر دی ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کو باہر جانے کے علاوہ اور کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔

اگر پاکستان کا بجٹ دیکھا جائے تو اس کا دیوہیکل حصہ داخلی اور بیرونی قرضہ جات کی واپسی میں صرف ہو جاتا ہے۔ ایک اور بڑا حصہ نام نہاد دفاعی اخراجات کی نظر ہو جاتا ہے۔ باقی پیسہ پاکستان کے سرمایہ دار طبقے پر سبسڈیوں، ٹیکس چھوٹ اور دیگر مراعات کی شکل میں نچھاور کر دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر معمول کے ریاستی اخراجات پوری کر دیتے ہیں۔ صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر، عوامی فلاح و بہبود، زراعت اور روزگار کی فراہمی کے لئے بڑے پیمانے پر تعمیری کاموں کے لئے کوئی پیسہ بچتا ہی نہیں کہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ جو افراد پہلے ہی برسر روزگار ہیں ان کی قوت خرید اس قدر گر چکی ہے اور حالات اتنے ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں کہ وہ بھی اپنے تمام حاصل کردہ تجربے کا کسی بیرونی منڈی میں بہتر مول لگوا کر یہاں سے نکلنے کے چکر میں ہیں۔

اس کے ساتھ سماج میں شدید گھٹن اور رجعت کا بھی ایک غلیظ کردار ہے جس کے تحت عام نوجوانوں کے لئے جسمانی و ثقافتی نشوونما اور تفریح کے لئے کوئی مواقع نہیں ہیں۔ ایک صحت مند معاشرہ دیگر سماجی فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے پارکس، جمز، کھیل، اسٹیج ڈراموں، فلموں اور موسیقی سے لطف اندوزی وغیرہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ معیاری تفریحی مقامات کی موجودگی اور ان تک سستی رسائی بھی اس کا حصہ ہے۔ لیکن ریاست پاکستان نے جہاں ان شعبوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے وہیں پراپرٹی مافیا نے تمام پارکس اور تفریحی مقامات کو اجاڑ کر ان پر قبضہ کر لیا ہے۔ محنت کش طبقے کی کیا بات کی جائے اب تو یہ سہولیات درمیانے طبقے کی پہنچ سے بھی دور ہو چکی ہیں۔

مندرجہ بالا حالات نوجوانوں اور ہنر مندوں کو ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور کر رہے ہیں لیکن ملک کے غیر پیداواری سرمایہ دار طبقے اور ریاست کو اس صورتحال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

برباد ملکی معیشت اور تاریک مستقبل

اس وقت پاکستانی معیشت اور سماجی معاملات کے حوالے سے جو بھی اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں ان پر یقین کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ ہر حکومت اپنی مرضی اور سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اعدادوشمار کا ایک ایسا ڈھونگ رچاتی ہے کہ سچائی کی تلاش جوئے شیر لانا بن چکا ہے۔ اس کے باوجود کچھ ایسے حقائق موجود ضرور ہیں جو حالات کی نازکی کا پتہ دے رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق اس مالی سال میں پاکستان کی شرح نمو 2 فیصد کے آس پاس ہو گی۔ اگر پاکستان میں شرح پیدائش (2.1-2.2 فیصد) کو مد نظر رکھا جائے تو حقیقی معنوں میں شرح نمو منفی رہے گی۔ محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں شرح نمو اگر مسلسل 7 فیصد تک رہے تو بھرپور روزگار کے ساتھ دیگر بنیادی عوامی لوازمات زندگی پورے کیے جا سکتے ہیں۔ افراط زر مسلسل 25 فیصد کے آس پاس درمیان ہچکولے کھا رہا ہے جبکہ ماہرین کے مطابق حقیقی شرح اس سے زیادہ ہے۔

پاکستان پسماندہ معیشت اور صنعت کی بنیاد پر ایک مجموعی درآمدی ملک ہے جس میں روزمرہ زندگی کی اشیاء سے لے کر صنعتوں کا خام مال، پیٹرول، گیس، دوائیاں وغیرہ سب شامل ہے۔ اب اس میں بہت ساری زرعی اجناس بھی شامل ہو چکی ہیں جن میں گندم اور کپاس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یعنی اب ہر ایک کلو جنس ملک میں آتے ہوئے اپنے ساتھ عالمی افراط زر بھی ساتھ لے کر آتی ہے۔

جتنی عالمی اجارہ داریاں اس وقت ملک میں کام کر رہی ہیں وہ دہائیوں سے مزید سرمایہ کاری کرنے کے بجائے مسلسل منافع بٹور کر بیرون ملک بھیج رہی ہیں۔ اس میں مقامی سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ کوئی بھی جج، جرنیل، بیوروکریٹ، پولیس افسر وغیرہ ہو، اس کی بھی تمام جائیداد، دولت اور اولاد بیرون ملک ہوتی ہے جبکہ ریٹائرمنٹ کے فوری بعد خبر آتی ہے کہ صاحب بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ یعنی کسی عالمی یا مقامی سرمایہ دار اور ریاستی اہلکار کو اس ملک کے مستقبل پر یقین نہیں رہا اور ملک کو صرف لوٹ مار کا ذریعہ بنا کر رکھا ہوا ہے۔

حال ہی میں پاکستان کی سب سے بڑی صنعتوں کارسازی اور ٹیکسٹائل میں جزوی بندشوں کی خبریں آئی ہیں جبکہ ریاست کے اپنے اعداوشمار کے مطابق پچھلے دو سالوں میں ڈھائی کروڑ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں۔ ملک کے سٹیٹ بینک کے پاس زر مبادلہ 6 ارب ڈالر رہ گیا ہے جو ویسے بھی ناقابل استعمال ہے کیونکہ یہ پیسہ سعودی عرب اور چین کا ہے جو صرف دکھانے کے لئے رکھوایا گیا ہے۔ درحقیقت ملک اس وقت دیوالیہ ہے بس مردے کی موت کا اعلان باقی ہے۔ اگلے تین مالی سالوں میں کم از کم 75 ارب ڈالر کی بیرونی قرضہ جات کی ادائیگیاں واجب ہوں گی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ابھی اس کے علاوہ ہے۔ یہ تمام بوجھ بھی یہاں کے نوجوانوں اور محنت کشوں پر ہی لادا جائے گا۔

ان حالات میں کسی سیاسی پارٹی، سماجی شخصیت یا فرد کے پاس کوئی ٹھوس پروگرام اور حل موجود نہیں ہے۔ صرف ایک ہی حل پیش کیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کی غلامی اور غربت اور لاچاری کی چکی میں پسنا ناگزیر ہے۔

نوجوان نسل کا روشن مستقبل۔۔ سوشلسٹ انقلاب!

اس وقت سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے گہرے اور ہولناک بحران میں ڈوبی ہوئی ہے۔ پچھلی ڈیڑھ دہائیوں میں مغرب میں بیٹھے اس نظام کے حکمت کار اور سیانے مسلسل گہرے ہوتے بحران کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکے ہیں۔ ایسے میں اس نظام کی سب سے کمزور گلی سڑی کڑی پاکستان میں کسی قسم کی خوشحالی یا روشن مستقبل کی بات کرنا دھوکہ دہی، فراڈ اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کو دوام دینے کی سازش ہے۔

پوری دنیا میں محنت کش طبقہ اور خاص طور پر نوجوان ان حالات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اس نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ سری لنکا میں شاندار عوامی انقلاب اور ایران میں جاری روح پرور انقلابی جدوجہد اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر نوجوان اور محنت کش اپنے مستقبل کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہی صورتحال ہمیں برطانیہ، فرانس، اٹلی، امریکہ اور دیگر ممالک میں نظر آتی ہے۔

نوجوانوں کو ایک روشن مستقبل کے لئے اس سماجی و معاشی نظام ’’سرمایہ داری‘‘ کا خاتمہ کرنا ہو گا تاکہ اس کے ظلم و استحصال سے چھٹکا را حاصل کیا جاسکے۔ اگر ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے محنت کش طبقہ تمام صنعت و حرفت کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے اپنی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لے لے تو پھر تمام پیداوار منافع کے بجائے فلاح انسانی اور ضروریات زندگی کے لئے ہو گی۔ تمام نوجوانوں کو روزگار میسر کر کے کم از کم اوقات کار کو چار گھنٹوں پر مقید کیا جا سکتا ہے۔ تمام لوگوں کو ایک معیاری اجرت کے ساتھ مفت صحت، تعلیم، رہائش، ٹرانسپورٹ، انٹرنیٹ، بجلی وغیرہ فراہم کئے جا سکتے ہیں۔ ہنر مندوں کے لئے جدید تکنیک اور ضروریات سے ہم آہنگ ٹریننگ اور تکنیکی سنٹر، یونیورسٹیاں اور کالج بنائے جا سکتے ہیں۔ محلوں اور شہروں میں پارکس، جمز، کھیلوں کے میدانوں، سینما، تھیٹر، اوپن ائر کنسرٹ وغیرہ کی سہولیات کا ایک پورا جال بچھایا جا سکتا ہے۔ ریاستی ملکیت میں تفریحی مقامات اور ان تک معیاری رسائی تعمیر کئے جا سکتے ہیں جہاں ہر شخص کو آرام، سکون اور آرائش میں چھٹیاں گزارنے کی سہولت موجود ہو گی۔ حکمران طبقے کی کل دولت پر قبضہ کر کے اور تمام داخلی و بیرونی قرضہ جات کو منسوخ کرتے ہوئے یہ تمام پیسہ عوامی فلاح و بہبود اور صنعت کاری کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سماج اور انفراسٹرکچر کی از سرنو تعمیر کے لئے کروڑوں نوجوانوں، ہنر مندوں اور محنت کشوں کی اشد ضرورت ہے جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے بیروزگاری کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ جو نوجوان ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور پچھلے عرصے میں مغربی معاشروں میں جدید تکنیک اور صنعت میں کام کرتے ہوئے گراں قدر تجربہ حاصل کر چکے ہیں انہیں تمام سہولیات فراہم کرتے ہوئے واپس لا کر ان سے مستفید ہوا جا سکتا ہے۔

یہ تمام کام آج ممکن ہے لیکن اس کی شرط سوشلزم کے درست پروگرام سے لیس ایک انقلابی پارٹی کی قیادت میں سماج کی انقلابی تبدیلی ہے جو اس سماج کو ہر قسم کی پراگندگی، ظلم و جبر اور تفریق سے پاک کرے۔ اس تاریخی کام کے لئے عالمی مارکسی رجحان پاکستان میں انتھک جدوجہد کر رہی ہے اور ہم مستقبل کے امین تمام نوجوانوں کو اس جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہیں۔

Comments are closed.