ملازمین کی تنخواہوں میں مجوزہ 10 فیصد کٹوتی نامنظور! بحران کا بوجھ سرمایہ داروں پر ڈالا جائے، ریڈ ورکرز فرنٹ

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

25 جنوری 2023ء کو نیشنل آسٹیریٹی کمیٹی (NAC) نے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کیلئے وزیر اعظم شہباز شریف کو چند سفارشات بھیجیں۔ ان سفارشات میں ایک یہ تھی کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کی جائے۔

نیشنل آسٹیریٹی کمیٹی کو بنانے کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ بڑھتے مالیاتی خسارے کو کم کرنے کیلئے حکومت کی مدد کرے گی۔

یہ پیشرفت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ موجودہ پروگرام کے نویں جائزے کے تحت اپنی 1.18 ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔

اس کے برعکس حکومت نے 25 جنوری کو پارلیمنٹیر ئنز کے صوابدیدی اخراجات کو 90 ارب روپے تک بڑھانے کی منظوری دی جبکہ۔ ججوں کی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش کے لیے 844 ملین روپے مختص کیے۔

اس وقت بدترین مہنگائی کے طوفان، جس میں بالخصوص بنیادی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں خوفناک حد اضافہ ہو چکا ہے، نے محنت کشوں کی کمر توڑ ڈالی ہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں تیز ترین گراوٹ ہو رہی ہے۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 290 روپے تک میں فروخت ہو رہا ہے۔ سونے کی قیمتوں میں بھی ریکارڈ ساز اضافہ ہو چکا ہے، جس کی قیمت 2 لاکھ روپے فی تولہ کے قریب ہے۔ جس سے واضح ہے کہ محنت کشوں کی قوت خرید میں بڑے پیمانے پر کمی ہو چکی ہے۔ لیکن اس دوران مزدور کی کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو محنت کشوں کی حقیقی اجرتوں میں بڑے پیمانے پر کمی ہو ئی ہے۔ تعلیم اور صحت پر ہونے والے اخراجات سے لے کر بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ اور دیگر تمام تر اخراجات میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے واضح ہے کہ محنت کشوں کے معیار زندگی میں بھی بڑے پیمانے پر مزید کمی ہو چکی ہے۔

مزدور دشمن حکمرانوں کی جانب سے عارضی روزگار اور ٹھیکیداری نظام کی بیہودگی پھیلائی جا رہی ہے۔ جہاں پہلے گھر کا ایک فرد اپنے روزگار کے ذریعے خاندان کا پیٹ پالتا تھا اب تمام افراد بھی نوکری کر کے بمشکل اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھ پاتے ہیں۔ مہنگائی کی نئی لہر نے اس معیار زندگی کو برقرار رکھنا بھی ناممکن کر دیا ہے اور اب محنت کشوں کو بچوں کی تعلیم یا بزرگوں کے علاج میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑرہا ہے۔ دو وقت کی روٹی میں سے بھی ایک وقت کا کھانا ختم کرنا پڑرہا ہے۔ پرانے کپڑوں اور جوتوں کی پیوند کاری کے ذریعے ہی شدید سردی اور گرمی کا مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ چھوٹی موٹی بیماری کا مقابلہ تو مجبوراً علاج کروائے بغیر ہی کرلیا جاتا ہے لیکن بیماری کے بڑے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری ہسپتالوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ گزشتہ سال سیلاب کی تباہ کاریوں نے جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو کُھلے آسمان تلے بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جو تا حال جاری ہے۔

اس ذلت اور محرومی سے چھٹکارے ایک ہی راستہ ہے اور وہ جدوجہد کا راستہ ہے۔ اپنے آپ کو اور اپنے مزدور ساتھیوں کو منظم کرنے کا راستہ ہے۔

ان حکمرانوں سے کسی بھی قسم کی رعایت ملنے کی توقع کرنا بیوقوفی ہے۔ مہنگائی کم نہیں ہو گی بلکہ بڑھتی چلی جائے گی۔ حکمران محنت کشوں پر مزید حملے کریں گے اور ان سے ان کا رہا سہا روزگار بھی چھیننے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ہمیشہ بحران کا بوجھ محنت کشوں پر ہی ڈالا جاتا ہے اور سرمایہ داروں کو ریلیف دی جاتی ہے۔ ان سے تعلیم اور علاج کی سہولت تو وہ تقریباً چھین ہی چکے ہیں، اب ان کے تن سے لباس اور منہ سے نوالا بھی چھیننے کی طرف جا رہے ہیں۔ یہ اپنے منافعوں میں کبھی کمی نہیں ہو نے دیں گے اور اپنی عیش و عشرت کی زندگی سے کبھی رضاکارانہ طور پر دستبردار نہیں ہو ں گے۔ ان کے محلات محنت کشوں کے خون سے ہی منور ہیں۔ ان کے ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں محنت کشوں کا ہی خون پسینہ بطور ایندھن استعمال ہوتا ہے۔ ان کے گالف کلبوں اور کھیل کے دیگر میدانوں کی خوشنما گھاس، ان کے گالوں پر لالیاں اور قہقہے، خوشبو دار بدن، مرغن کھانے اور قیمتی لباس و زیورات سب اسی وقت تک قائم و دائم رہ سکتے ہیں جب تک محنت کشوں کا استحصال جاری رہے اور ان کو تنگ و تاریک بد بو دار گلیوں میں سڑنے اور مرنے کے لیے مجبور رکھا جائے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ نے بجٹ 2022-23ء میں تمام محنت کشوں و ملازمین کی تنخواہوں میں 100 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہم نے واضح کیا تھا کہ پاکستانی ریاست بھی دنیا کی باقی ریاستوں کی طرح ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے، جو سرمایہ داروں کے منافعوں کے دفاع اور ان کو فروغ دینے کے لیے محنت کشوں پر مہنگائی کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ ایک طرف اگر ہر سال افراط زر میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف صحت، تعلیم اور عوام کو ملنے والی دیگر بنیادی سہولیات میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ اس سب کے باوجود حکمران ایک طرف محنت کشوں کی تنخواہوں کو کو بڑھانے سے انکار کرتے ہیں، تو دوسری طرف فوجی اشرافیہ اور سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتے ہوئے ان کو 3800 ارب روپے کی سبسڈیاں دیتے ہیں۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کا مطالبہ ہے کہ فوجی بجٹ میں کمی کرتے ہوئے تمام عسکری اور سول اشرافیہ پر ٹیکس لاگو کیے جائیں۔ اسی طرح آئی ایف کے قرضے ضبط کیے جائیں یا پھر انہیں وہ حکمران خود اپنی لوٹی ہوئی اربوں ڈالروں کی جائیدادوں سے ادا کریں جنہوں نے یہ قرضے لیے ہیں۔ یہ قرضے نہ تو محنت کشوں نے لیے ہیں اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے ہیں، تو پھر ان کا بوجھ محنت کشوں پر کیوں؟ وقت آ گیا ہے کہ ملک بھر کے محنت کش ایک ملک گیر ہڑتال کی جانب بڑھیں۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال نہ صرف سماج میں محنت کشوں کی طاقت کا بھرپور اظہار ہوگا بلکہ محنت کشوں کو ان کی اس طاقت کا احساس بھی دلائے گی کہ وہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ بھی کر سکتے ہیں۔

Comments are closed.