چین کا معمہ: سرمایہ داری یا سوشلزم؟

|تحریر: آفتاب اشرف|

 

آجکل پاکستان کے بائیں بازو کے حلقوں میں چین کی ریاست اور معیشت کا موجودہ کردار ایک بار پھر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ چین کے پاکستانی ریاست، معیشت، سماج اور سیاست میں بھاری عمل دخل کے پیش نظر اس سوال کا مارکسی بنیادوں پر درست جواب دینا اس لئے بھی ضروری ہے تا کہ یہاں کے محنت کش اور انقلابی نوجوان اس حوالے سے درست طبقاتی پوزیشن اختیار کر سکیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بحث پاکستان سمیت دیگر پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی کامیابی کے بعد نوزائیدہ مزدور ریاست کی ممکنہ سیاسی، سماجی اور خصوصاً معاشی و صنعتی پالیسیوں کے حوالے سے بھی اہم ہے۔ بلکہ اگر بحث کے کینوس کو تھوڑا اور وسیع کیا جائے تو یہ نوع انسان کے سوشلسٹ و کمیونسٹ مستقبل کی تعمیر کے حوالے سے بہت سے اہم پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔

عوامی جمہوریہ چین کے طبقاتی کردار کے حوالے سے ہونے والی یہ تمام تر بحث کوئی نیا امر نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر بائیں بازو کے حلقوں، یہاں تک کہ سنجیدہ بورژوا حلقوں میں بھی گزشتہ کم و بیش تین دہائیوں سے یہ مباحثہ جاری ہے۔ اس بحث میں اختلاف رائے کا بنیادی ترین نکتہ یہ ہے کہ آیا کیا آج کا چین بھی ماؤ زے تنگ کے دور کی طرح ایک منصوبہ بند معیشت ہے یا پھر 1978ء سے شروع ہونے والی ”مارکیٹ ریفارمز“ کے نتیجے میں اس کا کردار معیاری اعتبار سے سرمایہ دارانہ ہو چکا ہے؟ حالیہ دہائیوں میں چین کی معاشی ترقی، چین کے موجودہ عالمی معیشت و سیاست میں کردار، چینی سامراج کے مظہر، اور امریکہ و چین کے بڑھتے ہوئے ٹکراؤ سمیت دیگر تمام معاملات کی درست سمجھ بوجھ کا تعلق حتمی تجزئیے میں اسی بنیادی سوال کی درست مارکسی پرکھ اور جواب کے ساتھ جڑا ہو ا ہے۔ لیکن اس حوالے سے درست نتائج اخذ کرنے کے لئے نہ صرف جدلیاتی مادیت پر مبنی مارکسی میتھڈ کی جامع سمجھ بوجھ درکار ہے بلکہ اس کے درست اطلاق کی مہارت رکھنا بھی لازمی ہے کیونکہ اس بارے میں بائیں بازو کے حلقوں میں جتنی بھی غلط فہمیاں اور کنفیوژن موجود ہے، وہ حتمی طور پر مارکسی طریقہ کار کی ناکافی سمجھ بوجھ یا اس کے ناقص اطلاق کا ہی نتیجہ ہے۔ لہٰذا لازمی ہے کہ ہم زندہ حقیقت پر بنے بنائے مجرد فارمولے تھوپنے کی بجائے ٹھوس مظاہر کو ان کے تمام تر تضادات اور باہمی تانوں بانوں کے ساتھ ویسے دیکھنا شروع کریں جیسے کہ وہ ہیں اور یہاں سے اپنے تجزئیے کا آغاز کرتے ہوئے عمومی نتائج اخذ کرنے کی طرف جائیں۔ ایسے ہی کسی بھی مظہر کے گہرے تجزئیے کے لئے جہاں اس کے مختلف پہلوؤں کو الگ الگ کر کے دیکھنا پڑتا ہے وہیں اس مظہر کے معیاری کردار کا درست تعین کرنے کے لئے ان تمام اجزاء کو باہم جدلیاتی ربط میں لاتے ہوئے انہیں ایک کلیت میں دیکھنا بھی ضروری ہے جو معیاری طور پر اپنے اجزاء سے ہمیشہ مختلف وبرتر ہوتی ہے۔ اس کے کسی ایک ذیلی پہلو پر غیر متوازن توجہ مرکوز کر دینا یا کسی جزو کو کل پر حاوی کر دینا ہمیں سنگین غلطیوں کی جانب لے جائے گا۔ اسی طرح یہ بھی یاد رہے کہ تاریخ کا بھی ایک اپنا جدلیاتی تسلسل ہوتا ہے اور ماضی، حال اور مستقبل، سب ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوتے ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے کاٹ کر پرکھنا بھی غلط نتائج اخذ کرنے کا موجب بنتا ہے۔

اس تحریر میں ہمارے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ہم چین کی قدیم تاریخ اور بیسویں صدی کے پہلے نصف میں چین میں برپا ہونے والے تینوں انقلابات (1911ء، 1925-27ء، 1949ء) پر تفصیلی بات رکھ سکیں۔ مگر اتنا کہنا کافی ہو گا کہ ماؤزے تنگ کی تمام تر نظریاتی و سیاسی کمزوریوں، غلطیوں اور محنت کش طبقے کی بھرپور شعوری مداخلت کے بغیر ایک کسان فوج کے بلبوتے پر برپا ہونے والا 1949ء کا انقلاب چین اپنے تمام تر نقائص اور پیدائشی افسر شاہانہ مسخ شدگی کے باوجود انقلاب روس کے بعد انسانی تاریخ کا دوسرا عظیم ترین واقعہ تھا۔ اس عظیم انقلاب کے نتیجے میں جہاں ایک طرف چین پر سامراجی غلبے کا خاتمہ ہوا وہیں دوسری طرف جاگیر داری اور سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ایک جدید صنعتی سماج کی تعمیر کی گئی جو طبقاتی جبر و استحصال سے پاک تھا۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ اپنی تمام تر نظریاتی خامیوں اور ایک مسخ شدہ مزدور ریاست کی تخلیق کے باوجود ایک مخصوص عرصے میں ماؤ ازم نے چین میں ترقی پسندانہ کردار ادا کیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا عین مناسب ہوگا کہ 1949ء میں انقلاب کی فتح کے بعد بھی ماؤزے تنگ مرحلہ واریت پر مبنی اپنے ”نیو ڈیموکریسی“ جیسے طبقاتی مفاہمت کے بیہودہ نظریے کے تحت چین کی ”قومی“ بورژوازی کے گُن گا رہا تھا اور لمبے عرصے تک ”کنٹرولڈ سرمایہ داری“ کے ذریعے چین کو ترقی دینے کا خواہاں تھا جبکہ سوشلزم کا تو نام لینا بھی اس وقت ماؤ کے نزدیک ”مہم جوئی“ تھی۔ کسی نظریاتی پیش بینی کی بجائے یہ ایک بار پھر ”تجربے کی مار“ تھی جس نے سدا کے عملیت پسند ماؤ کو 1952ء تک قائل کر لیا کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر چین کو ترقی نہیں دی جا سکتی اور یوں نام نہاد قومی بورژوازی کی نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے 1953ء میں پہلے پانچ سالہ منصوبے کا آغاز ہوا۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ ثانوی اختلافات اور ”ترمیم پسندی“ کی تمام تر بلیم گیم سے قطع نظر ماؤازم اپنے جوہر میں سٹالن ازم ہی تھا اور سٹالن ازم کے تینوں جوہری خصائص (سیاسی اقتدار و معیشت پر افسر شاہی کی آمرانہ گرفت، قومی تنگ نظری یا ایک ملک میں سوشلزم کا یوٹوپیائی تصور اور مرحلہ وار انقلاب) بدرجہ اتم ماؤازم میں موجود تھے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں ماؤ ازم درحقیقت سٹالن ازم کا چینی ورژن ہی تھا۔ یہاں ہمارے پاس تفصیلات میں جانے کی جگہ نہیں لیکن قصہ مختصر یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ منصوبہ بند معیشت کے تحت چین میں ہونے والی پیدا واری قوتوں کی زبردست بڑھوتری (جو افسر شاہانہ آمریت کے باعث بہت بڑی جانی ومالی قیمت پر حاصل کی گئی) اور ایک جدید صنعتی معیشت کی بڑھتی پیچیدگی اب ماؤاسٹ افسرشاہی کی منصوبہ بند معیشت پر آمرانہ جکڑبندی اور ایک ملک میں سوشلزم کے بیہودہ نظریے کے تحت پیداواری قوتوں پر قومی ریاست کی حد بندی کی مزید متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سب کا نتیجہ 1960ء کی دہائی کے اواخر تک منصوبہ بند معیشت کے بے قابو ہوتے افسر شاہانہ مسائل اور حتمی طور پر انہی سے منسلک سیاسی اتھل پتھل (نام نہاد ثقافتی انقلاب) کی صورت میں نکلا۔ درحقیقت اس وقت تک چینی افسر شاہی میں ایسے طاقتور دھڑے وجود پذیر ہو چکے تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو جلد ہی افسر شاہی سیاسی اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ اور افسر شاہانہ منصوبہ بند معیشت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ان کا محبوب نسخہ مارکیٹ ریفارمز، عالمی تقسیم محنت اور عالمی منڈی میں شراکت پر مبنی تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت صرف ماؤاسٹ چین ہی اس کشمکش سے نہیں گزر رہا تھا بلکہ سٹالنسٹ سوویت یونین سمیت مشرقی بلاک کی افسرشاہانہ منصوبہ بند معیشتیں بھی ایسے ہی تضادات اور مسائل کا شکار تھیں اور وہاں کی افسر شاہیوں میں بھی مارکیٹ ریفارمز کے حامی ایسے رجحانات موجود تھے۔ 1976ء میں ماؤزے تنگ کی وفات کے بعد چینی افسر شاہی کے مارکیٹ ریفارمز کے حامی دھڑے کا پلڑا بھاری ہو گیا اور ڈینگ ژیاؤ پنگ اس دھڑے کے سب سے نمایاں لیڈر کے طور پر ابھرا۔ کچھ داخلی لڑائیوں کے بعد 1978ء تک ریاستی اقتدار پر اس دھڑے کی گرفت مضبوط ہو گئی اور ڈینگ ژیاؤ پنگ عوامی جمہوریہ چین کا ڈی فیکٹو حکمران بن گیا۔ اور یوں مارکیٹ ریفارمز اور چینی معیشت کو ”کھولنے“ پر مبنی اصلاحات کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا جس کا نتیجہ موجودہ سرمایہ دارانہ چین کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے۔

یہ کہنا غلط ہو گا کہ ڈینگ اور اس کا دھڑا شعوری طور پر چین میں سرمایہ داری کی بحالی کے حامی تھے اور ان کی مارکیٹ ریفارمز کا شعوری مقصد یہی تھا۔ بنیادی طور پر وہ بحیثیت مجموعی افسر شاہی کے سیاسی اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر منصوبہ بند معیشت کو افسر شاہانہ جکڑ بندی سے پیدا ہونے والے مسائل و تضادات سے نکالنے کے لئے مارکیٹ ریفارمز کا استعمال کرنا چاہتے تھے اور ایسے ہی معیشت کو قومی ریاست کی حد بندیوں سے نکالنے کے لئے عالمی تقسیم محنت اور عالمی منڈی کا حصہ بننے کے خواہاں تھے۔ لیکن بہرحال تاریخی عمل کی بھی اپنی ایک منطق ہوتی ہے جو افراد کی ذاتی خواہشات اور نیتوں سے بالاتر ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ سمجھنا بھی غلط ہو گا کہ 1978ء میں مارکیٹ ریفارمز کے آغاز کے ساتھ ہی چین ایک سرمایہ دارانہ معیشت و ریاست بن گیا تھا۔ یہ ایک طویل سفر تھا جو کہ ایک سیدھی لکیر میں طے نہیں ہوا بلکہ اس میں بے شمار اتار چڑھاؤ، افسر شاہی کی تجربیت پسندانہ ٹامک ٹوئیاں اور زگ زیگز شامل ہیں۔ خاص کر 1989ء میں تیانامن سکوائر بیجنگ میں ہونے والے عوامی مظاہروں، دیوار برلن کے انہدام اور 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام سے چینی افسر شاہی نے اہم اسباق سیکھے اور سیاسی اقتدار پر مضبوط آمرانہ گرفت کے ساتھ پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے مارکیٹ ریفارمز کے عمل کو آگے بڑھایا۔ لیکن جدلیات کا ہر طالبعلم جانتا ہے کہ کوئی بھی عمل لامتناہی طور پر ایک ہی معیاری کیفیت میں جاری نہیں رہ سکتا۔ تھوڑی تھوڑی کر کے اکٹھی ہونے والی مقداری تبدیلیاں ایک مقام آنے پر ناگزیر طور پر ایک معیاری تبدیلی کو جنم دیتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی چین میں بھی ہوا اور ایک وقت آنے پر سست روی اور اتار چڑھاؤ کیساتھ مگر بتدریج ہونے والی مارکیٹ ریفارمز نے چینی معیشت، ریاست اور کمیونسٹ پارٹی کے کردار کو معیاری طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ راقم الحروف کو فخر ہے کہ اس کا تعلق آئی ایم ٹی کے ساتھ ہے جس نے 1990ء کی دہائی کے وسط میں پہلی مرتبہ چین میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں پر مارکسی نقطہ نظر سے ایک سنجیدہ بحث کا آغاز کیا تھا۔ تقریباً ایک دہائی کے غور و فکر اور بحث مباحثے کے بعد 2006ء میں آئی ایم ٹی کی جانب سے ”چین: سرمایہ داری کی جانب لانگ مارچ!“ کے عنوان سے ایک ڈاکومنٹ شائع کیا گیا جس میں مارکسی نقطہ نظر سے یہ ثابت کیا گیا کہ چین معیاری اعتبار سے ایک سرمایہ دارانہ معیشت و ریاست بن چکا ہے۔ اس وقت آئی ایم ٹی دنیا کی واحد ایسی مارکسی انٹر نیشنل تھی جس نے چین پر ایک دو ٹوک اور واضح مؤقف اختیار کیا۔ موجودہ تحریر آئی ایم ٹی کی جانب سے 2006ء میں اختیار کی جانے والی پوزیشن کا ہی تسلسل ہے جس میں کم و بیش پچھلی ڈیڑھ دہائی میں چین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے مارکسی تجزئیے سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آئی ایم ٹی کا چین کے طبقاتی کردار پر مؤقف وقت کے امتحان پر بخوبی پورا اترا ہے۔

چین کے جی ڈی پی کا سیکٹر وائز بریک ڈاؤن۔۔کتنا کہاں سے؟

ستمبر 2021ء میں چین کے نائب وزیر اعظم لائی ہی، جو صدر شی جن پنگ کے اہم ترین اکنامک ایڈوائزر بھی ہیں، نے ملک میں منعقد ہونے والی ایک ڈیجیٹل اکانومی ایکسپو سے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”معیشت کا نجی شعبہ کل ٹیکس آمدن کا 50 فیصد سے زائد، جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زائد، چین کی تکنیکی اختراعات کا 70 فیصد سے زائد، شہری (urban) روزگار کا 80 فیصد سے زائد اور مارکیٹ میں موجود کمپنیوں کا 90 فیصد سے زائد بنتا ہے۔“ انہی اعداد و شمار کا حوالہ اس سے قبل اور اس کے بعد چین کے دیگر کئی اہم ریاستی عہدیداروں اور سینئر پارٹی رہنماؤں کے مختلف بیانات اور تقاریر میں بھی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر عالمی میڈیا میں جب بھی چین کے جی ڈی پی کا سیکٹر وائز بریک ڈاؤن دیا جاتا ہے تو اس میں نجی شعبے کا حصہ لگ بھگ 60 فیصد بتایا جاتا ہے جو بذات خود ایک بڑا فگر ہے۔ لیکن یہاں جس امر کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ چینی افسر شاہی کی اقتصادی لغت میں ”نجی شعبے“ سے مراد ایک مخصوص حجم سے بڑی ملکی نجی کمپنیاں اور کاروبار ہیں۔ اس میں نہ تو بہت چھوٹے پیمانے کا نجی کاروبار (بشمول نجی زراعت) شامل ہے اور نہ ہی چین میں کام کرنے والی ایسی غیر ملکی کمپنیاں جن میں کنٹرولنگ اسٹیک غیر ملکی سرمایہ کاروں کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مندرجہ بالا اعدادو شمار میں چین کی صنعتی برآمدات میں نجی سرمائے کے رول کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ نجی سرمایہ (ملکی و غیر ملکی کل ملا کر) چین کی صنعتی برآمدات کے تقریباً 90 فیصد کا کارن ہے۔

اس معاملے کو واضح کرنے کے لئے 2019ء میں ورلڈ بینک کی جانب سے ایک تفصیلی ریسرچ پیپر شائع کیا گیا جس میں 2017ء کے چین کے نیشنل بیورو برائے شماریات سے حاصل کردہ اعدادو شمار کو بنیاد بناتے ہوئے دو طرفہ اپروچ یعنی براہ راست اور بالواسطہ، دونوں طرح سے چینی جی ڈی پی کا سیکٹر وائز بریک ڈاؤن کیا گیا۔ اس ریسرچ کے مطابق 2017ء میں چین کے جی ڈی پی کا 23 تا 28 فیصدریاستی انٹر پرائیزز (State Owned Enterprises) یعنی ایس او ایز سے آ رہا تھا۔ واضح رہے کہ یہاں ایس او ای سے مراد ایسی ریاستی انٹر پرائیز ہے جس میں ریاست 50 فیصد یا اس سے زائد کی ملکیت رکھتی ہے۔ مزید برآں صنعتی، معدنی اور مالیاتی، تمام طرح کی ایس او ایز اس میں شامل ہیں۔ اسی تحقیق کے مطابق 2017ء میں ایس او ایز کل روزگار (صرف شہری روزگار نہیں) کا 5 تا 16 فیصد مہیا کر رہی تھیں۔ اب یقینی طور پر چین کے سرکاری اعدادو شمار کبھی بھی مکمل معلومات فراہم نہیں کرتے اور کئی ایک اہم گوشوں کو چھپا لیا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے چند ایک جگہ پر اس ریسرچ میں بھی مناسب شماریاتی اندازوں سے کام لیا گیا ہے لیکن اس کے باوجوداعلیٰ چینی قیادت کے بیانات اور اس ریسرچ سے ملنے والی معلومات کے مطابق انتہائی گنجائش دے کر بھی یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نجی شعبہ (ملکی، غیر ملکی، چھوٹا کاروبار، زراعت سب ملا کر) چین کے جی ڈی پی کا اور کچھ نہیں تو کم از کم 70 فیصد ضرور بناتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نجی شعبہ کل ملکی روزگار کاکم از کم 80 فیصد تو ضرور مہیا کرتا ہے۔

عمومی طور پر بورژوا دانشوروں کے نزدیک چین کے طبقاتی کردار کی بحث چین کے جی ڈی پی کے سیکٹر وائز بریک ڈاؤن کیساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بلاشبہ ایک بہت ہی اہم پیمانہ ہے لیکن جدلیات کی جانکاری رکھنے والا کوئی بھی سمجھدار شخص یہ اعتراض اٹھا سکتا ہے کہ اس معاملے میں تجزیہ کرتے ہوئے صرف مقدار کو مد نظر رکھا گیا ہے اور معیار کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یعنی اگرچہ کہ ایس او ایز اب چینی جی ڈی پی کا واضح طور پر اقلیتی حصہ ہیں لیکن ابھی بھی معیاری اعتبار سے چینی معیشت میں ان کا کردار نہایت ہی اہم ہے کیونکہ ”کمانڈنگ ہائیٹس آف اکانومی“ جیسے کہ بینکاری، بھاری صنعت، معدنی وسائل، توانائی، ٹرانسپورٹ، مشین ٹولز اور انشورنس وغیرہ پر ان کی اجارہ داری ہے۔ اسی طرح چین کی سب سے بڑی مالیاتی و صنعتی انٹر پرائیزز میں ایس او ایز کی تعداد نجی کمپنیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ جیسا کہ 2022ء کی فوربس گلوبل 500 لسٹ سے بھی واضح ہے جس کے مطابق دنیا کی پانچ سو سب سے بڑی کمپنیوں میں سے 145 چینی ہیں۔ اور اگر ان 145 چینی کمپنیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے 25 سب سے بڑی کمپنیوں میں سے 20 ایس او ایز ہیں۔ چینی معیشت میں ایس او ایز کے اس اہم کردار کے پیش نظر اپنی بحث کو آگے بڑھانے کے لئے لازمی ہے کہ ان دیو ہیکل ریاستی کمپنیوں کا گہرائی میں جائزہ لیا جائے۔

چینی معیشت اور ایس او ایز

چین کی ایس او ایز عالمی سطح پر آئے روز معاشی ماہرین سے لے کر سیاسی مبصرین کے حلقوں میں زیر بحث آتی ہیں۔ ایک طرف جہاں بورژوا دانشور چینی ایس او ایز کے دیو ہیکل حجم، ان کو ریاست کی جانب سے ملنے والی معاشی مراعات اور کمانڈنگ ہائیٹس پر ان کی اجارہ داری سے نالاں نظر آتے ہیں وہیں دوسری طرف بائیں بازو کے وہ حلقے جو چین کی معیشت کو ”چینی خصائص کیساتھ سوشلزم“ ثابت کرنے کے درپے ہیں، ان کے اس بارے میں سارے دلائل ایس او ایز کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ آئیے ان ریاستی انٹر پرائیزز کے بارے میں ذرا تفصیل سے بات کرتے ہیں۔

1990ء کی دہائی کے وسط میں چینی ریاست نے ”بڑے کو پکڑے رکھو اور چھوٹے کو جانے دو“ کے نعرے کے تحت بڑے پیمانے پر ایس او یز میں اصلاحات کا آغاز کیا۔ ان ریفارمز کے تحت ریاست نے بڑی ایس اوایز، خصوصاً وہ جو کمانڈنگ ہائیٹس آف اکانومی سے متعلقہ تھیں، کو مضبوطی سے گرفت میں رکھتے ہوئے چھوٹی اور نسبتاً غیر اہم شعبوں کی ایس او ایز کی ایک بڑی تعداد کو یا تو بند کر دیایا پھر ان کی نجکاری کر دی گئی۔ مزید برآں ریاستی ملکیت میں رہ جانے والی ایسی ایس او ایز جو کسی ایک ہی شعبے سے متعلقہ تھیں، کے بڑے پیمانے پر مرجر کرائے گئے جن کے نتیجے میں ایس او ایز کی تعداد تو اگرچہ مزید کم ہو گئی مگر ان کے حجم میں کہیں زیادہ اضافہ ہو گیا (2003ء میں بڑی مرکزی صنعتی ایس او ایز کی تعداد 196 تھی، 2008ء میں یہ 150 سے کچھ زائد تھی جبکہ 2021ء میں یہ تعداد صرف 97 رہ گئی تھی)۔ ان تمام پالیسیوں کا مقصد ایسے ”دیو ہیکل قومی چیمپئین“ تیار کرنا تھا جو نہ صرف ملکی منڈی میں کلیدی کردار ادا کر سکیں بلکہ عالمی منڈی میں موجود بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اجارہ داریوں کا بھی مقابلہ کر سکیں۔ اسی طرح 2003ء میں ان ایس او ایز کو بہتر طور پر چلانے کے لئے اسٹیٹ کونسل آف چائنا کے ماتحت دو ذیلی ادارے قائم کئے گئے یعنی ساسیک (SASAC) اورسنٹرل ہوئی جن انویسٹمنٹ کارپوریشن۔ تمام تر صنعتی ایس او ایز (بشمول معدنیات، توانائی، ٹرانسپورٹ وغیرہ) کو ساسیک کے زیر انتظام کر دیا گیا جبکہ مالیاتی ایس او ایز (بینک، انشورنس، پنشن فنڈ وغیرہ) کو ہوئی جن انویسٹمنٹ کارپوریشن کی عملداری میں دے دیا گیا۔ ان ایس او ایز کو ”سٹریم لائن“ کرنے اور انہیں ملکی و عالمی منڈی میں مسابقت کے لئے تیار کرنے کے لئے ان کی بڑے پیمانے پر ری اسٹرکچرنگ کی گئی جس کا ایک لازمی حصہ قابل ذکر پیمانے کی ورک فورس ڈاؤن سائزنگ بھی تھا۔ مزید برآں ان کی ٹاپ مینیجمنٹ میں بھی تبدیلیاں کی گئیں اور ان کی گورننگ باڈیز میں اعلیٰ پارٹی عہدیداروں کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کے باہر سے آنے والے ٹیکنوکریٹس کو بھی جگہ دی گئی۔ یہاں واضح رہے کہ ساسیک اور ہوئی جن انویسٹمنٹ کارپوریشن مرکزی اور صوبائی، دونوں سطح پر کام کرتے ہیں مگر ہم اپنی بحث کو غیر ضروری پیچیدگی سے بچانے کے لئے اسے زیادہ تر مرکزی لیول کی سب سے بڑی صنعتی و مالیاتی ایس او ایز تک ہی محدود رکھیں گے۔

(i) ایس او ایز کے متعلق چینی افسر شاہی کا ویژن

ایس او ایز کے کردار کا تعین کرنے کے لئے سب سے پہلے تو یہ دیکھنا اہم ہے کہ خود چینی ریاست اور پارٹی قیادت انہیں کس نظر سے دیکھتی ہے۔ 2015ء میں اسٹیٹ کونسل آف چائنا میں منظور ہونے والی ”گائیڈ لائنز آن ایس او ای ریفارمز“ کے مطابق:

”حکومت ایس او ایز کی قابلیت کو بڑھائے گی اور انہیں مکمل طور پر آزاد، منڈی کی کمپنیوں میں تبدیل کرے گی۔“

”ایس او ایز کے منڈی میں آزادانہ کردار اختیار کرنے کے نتیجے میں نہ صرف ان کی مسابقت کرنے کی اہلیت بڑھے گی بلکہ ان کی طاقت و قابلیت میں بھی حقیقی معنوں میں اضافہ ہو گا۔“

ایس او ایز میں نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے یہ گائیڈ لائنز کہتی ہیں:

”ایس او ایز کی قابلیت کو بڑھانے کے لئے مکسڈ اونر شپ ریفارمز سب سے اہم ذریعہ ہیں۔“

”ایس او ایز کو مختلف قسم کے سرمایہ کاروں کے لئے کشش پیدا کرنا ہو گی اور حکومت کو ان (ایس او ایز) کے پبلک ہونے (سٹاک ایکسچینج پر شئیرز فلوٹ کرنے، راقم) کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔“

ایس او ایز کے ملازمین کے متعلق یہ گائیڈ لائنز کہتی ہیں:

”منڈی کے مطابق اجرتوں کا ایک لچکدار نظام تشکیل دیا جائے گا۔ ایس او ایز کے ملازمین کی اجرتیں منڈی کے رجحانات اور کمپنی کی کارکردگی کے مطابق طے ہوں گی۔“

درحقیقت 2015ء کی ان گائیڈ لائنز میں کچھ بھی ایسا خاص نہیں ہے جو بالکل پہلی مرتبہ کہا جا رہا تھا بلکہ یہ 1990ء کی دہائی میں شروع ہونے والی ایس او ای ریفارمز کا ہی تسلسل تھا جن کے تحت ایک بتدریج مگر محتاط انداز میں ایس او ایز میں نجی سرمایہ کاری کو بڑھایا گیا اور انہیں ”منڈی کی کمپنیوں“ میں تبدیل کر دیا گیا۔

(ii) ایس او ایز میں نجی سرمایہ کاری

چینی ایس او ایز کے متعلق غالباً سب سے عمومی غلط فہمی یہی ہے کہ شاید یہ مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں ہوتی ہیں۔ بلاشبہ بڑی ایس او ایز میں سے چند ایک ایسی ضرور ہیں جو مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں ہیں جیسے کہ اسٹریٹیجک یا دفاعی شعبے سے متعلق ایس او ایز یا اسٹیٹ گرڈ کارپوریشن آف چائنا وغیرہ مگر ایسا تو پھر دنیا کی تقریباً تمام بورژوا ریاستوں میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان جیسی پسماندہ بورژوا ریاست میں بھی ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سمیت کئی ایس او ایز فی الحال مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں ہیں۔ چینی ایس او ایز کے متعلق پیدا ہونے والی اس غلط فہمی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سا سیک اور ہوئی جن انویسٹمنٹ کارپوریشن میں رجسٹرڈ زیادہ تر پیرنٹ ایس او ایز واقعی مکمل طور پر ریاستی ملکیت میں ہوتی ہیں لیکن درحقیقت یہ پیرنٹ ایس او ایز زیادہ تر ایک’خالی کھوکھا‘ ہی ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تمام تر یا اکثریتی کاروبار، اثاثے وغیرہ ان کی سبسائیڈری کمپنیوں کے پاس ہوتا ہے اور یہ سبسائیڈری کمپنیاں ہوتی ہیں جو عموماً ملکی و عالمی سٹاک ایکسچینجوں پر لسٹڈ ہوتی ہیں یعنی کہ ان کے شئیرز نجی سرمایہ کاری کے لئے فلوٹ کئے جاتے ہیں۔
ہم نے پہلے 2022 ء کی فوربس گلوبل 500 لسٹ میں شامل 145 بڑی چینی کمپنیوں کا ذکر کیا تھا جن میں سے 25 سب سے بڑی کمپنیوں (صنعتی اور مالیاتی دونوں) میں سے 20 ایس او ایز تھیں۔

جب ہم نے ان 20 سب سے بڑی ایس او ایز کی چھان بین کی تو پتا چلا کہ ان میں سے 18 کی سبسائیڈری کمپنیاں سٹاک ایکسچینج پر لسٹڈہیں جبکہ 16 کی سبسائیڈری کمپنیاں ہانگ کانگ سمیت عالمی سٹاک ایکسچینجوں پر بھی لسٹڈ ہیں یعنی عالمی سرمایہ کاری کے لئے بھی کھلی ہیں۔ یہ کمپنیاں پیٹرولیم، بھاری تعمیرات، بھاری صنعت، کیمیکلز، ریلوے، مواصلات و ٹیلی کمیونیکیشن، معدنی وسائل، میٹالرجی، آٹو انڈسٹری جیسے شعبوں سے متعلقہ ہیں جبکہ چاروں بڑے ریاستی بینک اور ملک کی سب سے بڑی انشورنس کمپنی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ یعنی یہ تمام ایس او ایز ملکی معیشت کی کمانڈنگ ہائیٹس سے متعلقہ ہیں۔

اب یہاں بعض ’سیانے‘ لوگ فوراً سے یہ اعتراض اٹھا سکتے ہیں کہ بھئی لازمی تو نہیں کہ چین کی کسی لسٹڈ ایس او ای کے تمام فلوٹڈ شئیرز نجی سرمایہ کار ہی خریدیں، دیگر ایس او ایز اور ریاستی ادارے بھی تو یہ کام کر سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ ایس او ایز کے شئیرز صرف نجی سرمایہ کار ہی نہیں بلکہ چینی ریاست کے دیگر مختلف ادارے بھی خرید سکتے ہیں مگر بڑے پیمانے پر ایسی خریداری کوئی عمومی رجحان نہیں ہے بلکہ پچھلی ڈیڑھ دہائی میں زیادہ تر ایسا تب ہی کیا گیا ہے جب معاشی گراوٹ یا خراب کارکردگی کے باعث کسی لسٹڈ ایس او ای کے شئیرز کی قیمت تیزی سے گر رہی ہو تو ایسے میں حکومت کے حکم پر کوئی دوسری ایس او ای یا ریاستی ادارہ (پنشن فنڈ وغیرہ) بھاگتے ہوئے نجی سرمایہ کاروں کی جانب سے بیچے جانے والے شئیرز خرید لیتا ہے تا کہ مشکل کا شکار ایس او ای کی معاشی ساکھ برباد نہ ہو اور مناسب وقت آنے پر ان شئیرز کو دوبارہ بیچ دیا جاتا ہے۔ پہلے دی گئی فہرست میں شامل صرف چائنا باؤ سٹیل گروپ کارپوریشن لمیٹڈ ہی ایک ایسی واحد ایس او ای ہے جس کے سٹاک ایکسچینجوں پر فلوٹ کئے جانے والے تمام شئیرز چینی ریاست کے ہی مختلف اداروں نے خرید رکھے ہیں جس کی بڑی وجہ چینی سٹیل انڈسٹری کے بڑے پیمانے کے زائد پیداواری صلاحیت کے بحران کا شکار ہونا اور نتیجتاً ان شئیرز کا نجی سرمایہ کاروں کے لئے بے کشش ہونا ہے۔ اسی طرح یہ اعتراض بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اگر حکومت کسی ایس او ای کے بالفرض 20 فیصد شئیرز سٹاک ایکسچینج پر فلوٹ کر بھی دیتی ہے تو رہے گی تو وہ ریاستی ملکیت میں ہی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ 20 فیصد یا حتیٰ کہ اس سے بھی کم شئیرز فلوٹ ہونے کی صورت میں بھی سٹاک ایکسچینج پرلسٹنگ اس ایس او ای کو براہ راست طور پر ملکی و عالمی منڈی سے جوڑ دیتی ہے اور منڈی کی قوتیں براہ راست طور پر اس پر اثر انداز ہونے لگتی ہیں۔

یہاں قارئین کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ساری بحث چین کی کل معیشت میں نجی سرمائے کے عمل دخل کے بارے میں نہیں ہو رہی (جو ملکی جی ڈی پی کا کم از کم 70 فیصد بناتا ہے) بلکہ صرف کمانڈنگ ہائیٹس پر براجمان ایس او ایز میں نجی سرمائے کی موجودگی و مداخلت کے متعلق ہو رہی ہے۔ یہاں پر یہ بتانا بھی عین مناسب ہو گا کہ 2018ء کے اختتام پر ساسیک کی جانب سے جاری کئے جانے والے اعدادو شمار کے مطابق مرکزی لیول کی صنعتی ایس او ایز کی 2/3 سے زائد سبسائیڈری کمپنیاں ”مکسڈ اونر شپ“ کی حامل ہو چکی تھیں یعنی ان کے 50 فیصد سے زائد شئیرز نجی سرمایہ کاروں (ملکی و غیر ملکی دونوں) کی ملکیت تھے۔

چینی معیشت کے بالکل ٹاپ لیول پر نجی سرمائے کے بڑھتے ہوئے کردار کے حوالے سے 2022ء میں یورپی معاشی تھنک ٹینک بروئیگل کی طرف سے شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپر میں چین کے سرکاری اعدادو شمار کو ہی بنیاد بناتے ہوئے پچھلی کم و بیش ڈیڑھ دہائی میں اس مظہر کے متعلق دلچسپ حقائق بتائے گئے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق 2010ء میں چین کی سٹاک ایکسچینج پر لسٹڈ 100 سب سے بڑی کمپنیوں کی کل مارکیٹ کیپیٹلائزیشن (ان کے آ ؤٹ سٹینڈنگ شئیرز کی کل مارکیٹ ویلیو) کامحض 22 فیصد نجی اور مکسڈ اونر شپ کمپنیوں سے آرہا تھا جبکہ 78 فیصد ایس او ایز (جن میں ریاست 50 فیصد یا اس سے زائد شئیرز کی مالک ہے) سے آ رہا تھا۔ جبکہ 2021ء میں لسٹڈ ٹاپ 100 چینی کمپنیوں کی کل مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کا 62 فیصد نجی اور مکسڈ اونر شپ کمپنیوں جبکہ 38 فیصد ایس او ایز سے آ رہا تھا۔ یہاں یاد رہے کہ ان ایس او ایز کے بھی 10 سے 50 فیصد کے درمیان شئیرز زیادہ تر نجی سرمایہ کاروں کے پاس ہیں۔ واضح رہے کہ زیر تحقیق 12 سالوں میں سے 9 سال شی جن پنگ چین کا صدر تھا جس کے اب سماجی دباؤ اور سیاسی مجبوریوں کے تحت لگائے جانے والے نام نہاد”مشترکہ خوشحالی“ کے نعرے نے پاکستان کے نام نہاد بائیں بازو کے بعض حلقوں کو بالکل اندھا کر دیا ہے۔

(iii) ایس او ایز کا منافع کہاں جاتا ہے؟

یہ بھی اپنی نوعیت میں ایک نہایت اہم سوال ہے کیونکہ یہ ایس او ایز کے موجودہ کردار کے متعلق ہمیں بہت کچھ بتاتا ہے۔ ماؤ کے دور کی منصوبہ بند معیشت میں ریاست پلان کے اہداف کے مطابق پیداوار کے لئے درکار تمام ان پٹس ایس او ایز کو مہیا کرتی تھی جبکہ بدلے میں ایس او ایز کا تمام منافع ریاستی خزانے میں جاتا تھا۔ 1978ء کے سال میں بھی ایس او ایز سے حاصل ہونے والا منافع بجٹ ریونیو کا سب سے بڑا ذریعہ تھا اور اس کا 50 فیصد سے زائد بنتا تھا۔ مگر 1994ء میں ایس او ای ریفارمز کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ ریاست ایس او ایز سے صرف ٹیکس وصول کرے گی جبکہ ٹیکس وصولی کے بعد بچنے والا سارا منافع ایس او ای کے اختیار میں ہو گا کہ وہ اس سے جو چاہے کرے۔ یوں 1994ء سے 2006ء تک کے عرصے میں ریاست نے ایس او ایز سے صرف ٹیکس وصولی کی اور کوئی منافع یا ڈیویڈنڈ نہیں لیا البتہ اس عرصے کے آخر میں جب مختلف ایس اوا یز کی سٹاک ایکسچینجوں پر لسٹنگ کی گئی تو ان کے نجی شئیر ہولڈرز کو ڈیویڈنڈ دیا جانے لگا۔ مگر وقت کیساتھ اس ریاستی پالیسی پر عوامی حلقوں کی جانب سے شدید اعتراض ہونے لگا کہ ایس اوایز ریاست سے خوب معاشی مراعات تو لے لیتی ہیں، جن کا ایک قابل ذکر حصہ عوامی ٹیکسوں کے پیسوں سے آتا ہے، لیکن بدلے میں ریاستی خزانے میں اپنے منافعے نہیں ڈالتیں کہ جنہیں پھر عوامی فلاح پر خرچ کیا جا سکے۔ 2007ء میں عوامی دباؤ کے پیش نظر سٹیٹ کونسل آف چائنا نے ایس او ایز کی ڈیویڈنڈ پالیسی کو تبدیل کیا اور ایس او ایز سے ڈیویڈنڈ لینے کا فیصلہ کیا مگر اس کے باوجود صورتحال 2013ء تک کم و بیش جوں کی توں رہی کیونکہ جو تھوڑا بہت ڈیویڈنڈ ایس او ایز سے لیا بھی جانے لگا، اس کا 90 فیصد سے زائد ریاستی بجٹ سے باہر ہی سبسڈیوں کی صورت میں ایس او ایز کو لوٹا دیا جاتا تھا۔ 2013ء میں کمیونسٹ پارٹی کی 18 ویں سنٹرل کمیٹی کے تیسرے پلینری سیشن میں فیصلہ کیا گیا کہ 2020ء تک ایس او ایز سے ریاست کو ملنے والے ڈیویڈنڈ کی شرح 30 فیصد تک بڑھائی جائے گی۔ لیکن چین کی فنانس منسٹری کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق مرکزی سطح کی صنعتی ایس او ایز کا 2012ء سے 2019ء تک اوسطاً 11 فیصدآفٹر ٹیکس پرافٹ بطور ڈیویڈنڈ ریاست کو ملا مگر اس کا ایک نہایت ہی بڑا حصہ ریاست سبسڈیوں کی صورت میں ایس او ایز کو واپس لوٹاتی رہی۔ لہٰذاحقیقی معنوں میں یہ ایس او ایز 2012ء میں آفٹر ٹیکس پرافٹ کا صرف 0.5 فیصدریاست کو بطور ڈیویڈنڈ دے رہی تھیں جبکہ 2019ء تک یہ شرح بڑھ کر بمشکل 2.4 فیصد ہو سکی۔ مرکزی سطح کی مالیاتی ایس او ایز کی صورتحال اس حوالے سے نسبتاً بہتر رہی اور 2014ء سے 2019ء کے عرصے میں صنعتی ایس او ایز کے مقابلے میں ان کا ریاستی خزانے میں ڈیویڈنڈ کے ذریعے کنٹریبیوشن کوئی 20 گنا زیادہ تھا۔ مگر اس کے باوجود 2019ء کے مرکزی بجٹ کا 10 فیصد سے بھی کم ریونیو مرکزی لیول کی صنعتی و مالیاتی ایس او ایز کے آفٹر ٹیکس ڈیویڈنڈ سے آیا تھا۔ اب یقینی طور پر یہ ایس او ایز اپنے پاس جمع ہونے والے اس منافعے کو ملکی و عالمی سطح پر مزید سرمایہ کاری کرنے، اثاثے بنانے اور آر اینڈ ڈی وغیرہ پر خرچ بھی کرتی ہوں گی لیکن یہ اندازہ لگانے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں کہ ان منافعوں کا ایک قابل ذکر حصہ ان ایس او ایز کی ٹاپ افسر شاہی کو بھاری بھر کم معاشی مراعات کی صورت میں ملتا ہے۔

لیکن فی الحال ہم چینی ایس او ایز کے متعلق اس بحث کو یہیں پر چھوڑتے ہیں کیونکہ ان کے طبقاتی کردار کا مکمل تعین محض ان کے تجزئیے سے ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لئے لازمی ہے کہ ہم اس ریاست جس کی یہ ملکیت ہیں اور وہ سماجی و معاشی نظام جس میں یہ آپریٹ کرتی ہیں، کا بطور ایک کلیت کے جائزہ لیں۔

سرمایہ داری۔۔یونیورسل کموڈٹی پروڈکشن کا نظام

مارکس نے سرمایہ داری کو یونیورسل کموڈٹی پروڈکشن کا نظام کہا تھا۔ مطلب کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر شے کی پیداوار، منڈی میں تبادلے کی غرض سے، بطور کموڈٹی کی جاتی ہے۔ یقیناً کموڈٹی پروڈکشن کا مکمل خاتمہ تو کمیونزم میں ہی ہو سکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کسی ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد کموڈٹی پروڈکشن ویسے ہی آفاقی طور پر قائم رہے گی جیسے کہ سرمایہ داری میں ہوتی ہے۔ خاص کر کسی ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک میں تو سوشلسٹ انقلاب کے بعد سماج کی منصوبہ بند سوشلسٹ تنظیم نو کا آغاز کرتے ہوئے مختصر عرصے میں ہی کم از کم معیشت کے اہم ترین شعبوں یا کمانڈنگ ہائیٹس کی پیداوار کا کموڈٹی کریکٹر ختم کرتے ہوئے اسے سماج کی منصوبہ بند تعمیر کی ضروریات کے تابع کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ زبردست صنعتی و تکنیکی پسماندگی، جنگوں کی تباہ کاری، انقلاب کی تنہائی، عالمی سامراجی ناکہ بندی اور شدید افسر شاہانہ بد انتظامی کے باوجود انقلاب روس کے بیس برس بعد، یعنی 1937ء میں دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے اختتام تک سوویت معیشت میں کمانڈنگ ہائیٹس کی پیداوار کا کموڈٹی کریکٹر تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ ریاستی ملکیت میں موجود قدرتی ذرائع اور زرعی فارمز سے پیدا ہونے والے خام مال، ہیوی انڈسٹری کی تقریباً تمام پیداوار، کوآپریٹو اجتماعی فارمز اور تھوڑی بہت ایکسپورٹ کے لئے بننے والی کیپیٹل مشینری کو چھوڑ کر باقی تما م کیپیٹل گڈز کی پیداوار کموڈٹیز کے طور پر نہیں بلکہ قدر استعمال کے طور پر ہوتی تھی اور پلان کی ضروریات کے مطابق اس کی مختلف شعبوں کو ڈائریکٹ ایلوکیشن ہوتی تھی۔ اور ابھی سوویت یونین تو ایک سوشلسٹ معیشت بھی نہیں تھی (اور نہ ہی ایک ملک کی حدود میں ہو سکتی تھی) بلکہ سرمایہ داری اور سوشلزم کے بیچ عبوری عہد میں موجود ایک منصوبہ بند معیشت تھی جہاں سماج کی سوشلسٹ تعمیر کا محض آغاز کیا گیا تھا۔

اب اگر مندرجہ بالا بحث کی روشنی میں موجودہ چین کا تجزیہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ انقلاب کے 73 سال بعد آج چین میں کموڈٹی پروڈکشن ایک آفاقی مظہر کے طور پر موجود ہے۔ ملکی جی ڈی پی کا 70 فیصد بنانے والے نجی شعبے کی پیداوار تو بطور کموڈٹی ہوتی ہی ہے مگر کیا کمانڈنگ ہائیٹس پر براجمان ایس او ایز کی بھی یہی صورتحال نہیں ہے؟ کیا ان کی بھی تمام پیداوار کموڈٹی کریکٹر نہیں رکھتی؟ کیا ملکی و عالمی منڈی کے تقاضوں کے تحت اور اس کے لئے پیداوار کرنے والی، منڈی کے منافع جاتی رجحانات کو مد نظر رکھ کر آپریٹ کرنے والی، چین سمیت دنیا بھر کی سٹاک ایکسچینجوں پر اپنے شئیرز فلوٹ کرنے والی اور ان شئیرز کے نجی مالکان کو ڈیویڈنڈ دینے والی، مکسڈ اونر شپ رکھنے والی، نجی سرمائے کی بڑے پیمانے پر مداخلت رکھنے والی، ملکی و عالمی سطح پر بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کرنے والی یہ ایس او ایز منافع خوری کے لئے کموڈٹی پروڈکشن کے علاوہ اور کچھ کر نے کی متحمل ہو سکتی ہیں؟ یہاں تک کہ کمانڈنگ ہائیٹس سے متعلقہ 100 فیصد ریاستی ملکیت رکھنے والی ایس او ایز، جن میں نجی سرمائے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، ان کی گڈز یا سروسز کی پیداوار بھی ملکی و عالمی منڈی میں بیچنے اور منافع حاصل کرنے کی غرض سے بطور کموڈٹیز کے ہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر صرف کوئی احمق یا عقل سے عاری شخص ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ چائنا باؤ سٹیل گروپ کارپوریشن (دنیا کی سب سے بڑی فولاد ساز کمپنی) اور سٹیٹ گرڈ کارپوریشن آف چائنا (دنیا کی سب سے بڑی یوٹیلیٹی کمپنی) کی گڈز یا سروسز کموڈٹی کریکٹر نہیں رکھتیں۔ یہ بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں بھی کئی ایک ڈیمز اور پاور پلانٹس گو کہ سو فیصد ریاستی ملکیت میں ہیں لیکن ان میں بجلی بطور ایک کموڈٹی پیدا کی جاتی ہے اور منڈی میں بیچی جاتی ہے۔

چینی معیشت میں قیمتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

آئیے اب اس سارے معاملے کو ایک دوسرے زاویہ نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ چینی معیشت میں قیمتوں کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

مختصر ترین الفاظ میں اس کا جواب ہے کہ چین میں تمام اشیاء کی قیمتوں کا تعین منڈی کے ذریعے یعنی مارکیٹ میکینزم کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن ہم اتنی جلد بازی نہیں کرتے اور ذرا پس منظر میں جاتے ہیں کہ صورتحال کن مراحل سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچی۔

چین میں پرائس ڈی ریگولیشن کا آغاز 1981ء میں زرعی اجناس سے ہوا تھا جب مارکیٹ ریفارمز کے تحت دیہاتوں میں کمیون سسٹم کے خاتمے کے بعد دیہی کولیکٹیوز کی زمین کاشت کے لئے انفرادی کسان گھرانوں کو لیز پر دی جانے لگی (ہاؤس ہولڈ رسپانسیبلٹی سسٹم)۔ چونکہ یہ کسان گھرانے کاشت کے لئے کولیکٹیوز کے پاس موجود ریاست کی فراہم کردہ مشینری و زرعی آلات استعمال کرتے تھے لہٰذا پیداوار کا ایک طے شدہ حصہ انہیں ریاست کو دینا ہوتا ہے لیکن اس سے زائد ہونے والی تمام پیداوار ان کسانوں کی ملکیت ہوتی تھی جسے وہ نوزائیدہ آزاد منڈی میں بیچ سکتے تھے جہاں اب زرعی اجناس کی قیمتیں ریاست کی بجائے مارکیٹ میکینزم کے تحت طے پاتی تھیں۔ گزرتے سالوں کے ساتھ پرائس ڈی ریگولیشن کا دائرہ کار وسیع ہونے لگا یہاں تک کہ 1985ء میں ڈیوئل (dual) ٹریک پرائسنگ سسٹم متعارف کرایا گیا۔ اس کے تحت مخصوص اقسام کی کنزیومر گڈز (اشیائے صَرف) بنانے والی ایس او ایز کی افسر شاہی کو اجازت دی گئی کہ اگر وہ پلان کی طرف سے دیے گئے ٹارگٹ سے زیادہ پیداوار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو فالتو پیداوار کو منڈی میں فروخت کر سکتے ہیں جہاں اس کی قیمت کا تعین مارکیٹ میکینزم کے تحت ہو گا۔ یوں ایک ہی کنزیومر گڈ کی پیداوار اگر پلان کوٹے کے تحت ہوئی ہے تو اس کی قیمت ریاست کی طرف سے متعین کی جاتی تھی جبکہ اسی کی فالتو پیداوار کی قیمت مارکیٹ میکینزم سے طے ہوتی تھی جو عموماً (تیز دستیابی کے باعث) پلان کوٹے سے خاصی زیادہ ہوتی تھی۔ مگر جلد ہی پرائس ڈی ریگولیشن کا یہ عبوری نظام افسر شاہی کی اندھا دھند کرپشن کا گڑھ بن گیا۔ ہوتا یہ تھا کہ متعلقہ ایس او ایز کی افسر شاہی پلان کوٹے کی پیداوار کو چوری کرتی تھی اور اسے فالتو پیداوار ظاہر کر کے بلند مارکیٹ پرائس پر منڈی میں بیچ دیتی تھی۔ اس امر نے بڑے پیمانے پر ”پلان لیکجز“ کو جنم دیا جنہوں نے پھر متعلقہ اشیاء کی قلت کو بڑھا کر ان کی مارکیٹ پرائس کو مزید مہمیز دی جس کے نتیجے میں افسر شاہی کی لوٹ کھسوٹ میں مزید کئی گنا اضافہ ہوا۔ محتاط اندازوں کے مطابق 1987ء سے 1989ء تک متعلقہ کنزیومر گڈز کا 1/3 پلان کوٹا آؤٹ پٹ افسر شاہی کے ہاتھوں چوری ہو کر منڈی میں بکا جو کہ اس وقت کے سالانہ جی ڈی پی کے اوسطاً 10 فیصد کے برابر تھا۔ یہاں یہ بتانا عین مناسب ہو گا کہ چین کے ملکی سرمایہ دار طبقے کے جنم کے لئے درکار ”سرمائے کے ابتدائی ارتکاز“ کا ایک بڑا حصہ اسی لوٹ مار سے آیا تھا اور یہ امر چینی افسر شاہی اور سرمایہ دار طبقے کے مابین گہرے رشتے کی بڑی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ 1989ء میں تیانامن سکوائر پر ہونے والے عوامی احتجاج کے پیچھے کارفرما عوامل میں ایک اہم عنصر اس ڈیوئل ٹریک پرائسنگ سسٹم کیخلاف اُبلنے والا غم و غصہ بھی تھا۔ اسی لئے نومبر 1989ء میں افسر شاہی نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے اس کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد دیوار برلن کے انہدام اور پھر سوویت یونین کے زوال نے چینی افسر شاہی کو اور زیادہ خوفزدہ کر دیا اور چند سالوں کے لئے مارکیٹ ریفارمز کے عمل کو نہ صرف روک دیا گیا بلکہ انہیں تھوڑا بہت رول بیک بھی کیا گیا۔ 1993-94ء میں ہی جا کر کہیں افسر شاہی کی خود اعتمادی بحال ہوئی اس نے محتاط انداز میں ایک بار پھر مارکیٹ ریفارمز بشمول پرائس ڈی ریگولیشن کے عمل کو آگے بڑھانا شروع کیا۔ آخر کار دسمبر 1997ء میں پرائسنگ کے متعلق ایک نیا قانون پاس کیا گیا جس کے تحت قیمتوں کو تقریباً مکمل طور پر ڈی ریگولیٹ کر کے ان کا تعین منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا (اگرچہ اس کے مکمل عملی اطلاق میں مزید کئی سال لگے)۔ اس قانون کے مطابق:

”قیمتوں کا تعین قدر کے قانون کے مطابق ہونا چاہئے، زیادہ تر کموڈٹیز اور سروسز کی قیمتوں کا تعین منڈی کرے گی اور ایک نہایت ہی قلیل مقدار میں کموڈٹیز اور سروسز کی قیمتوں کا تعین یا ان کی راہنمائی ریاست کرے گی۔“ (جیسا کہ دیگر بے شمار بورژوا ریاستیں بھی کرتی ہیں۔ مصنف کا نوٹ)

مگر کیا ریاست بھی یہ تعین یا راہنمائی منڈی سے بالاتر ہو کر کرے گی؟ ہر گز نہیں۔۔

”حکومت کی طرف راہنمائی کردہ یا متعین کردہ قیمتوں کا تعین متعلقہ کموڈٹیز یا سروسز کی اوسط لاگت، منڈی میں سپلائی اور ڈیمانڈ کی صورتحال (ضروری تاکید۔ راقم)، قوم کی معاشی و سماجی ترقی کی ضروریات، کمیونٹی کی قوت برداشت۔۔۔۔کے تحت کیا جائے گا۔“

مگر سب سے اہم بات تو اس قانون کے پہلے پیراگراف میں لکھی ہے:

”اس قانون کو لاگو کرنے کا مقصد۔۔۔قیمتوں کووسائل کی تعقلی تقسیم میں کردار ادا کرنے کا موقع دینا۔۔۔ہے۔“

آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ معیشت میں ریسورسز (خام مال، مشینری، لیبریعنی حتمی طور پر سرمائے) کی ایلوکیشن منڈی کے میکینزم کے تحت ہو گی۔ یعنی تھوڑی سپلائی اور زیادہ ڈیمانڈ کی وجہ سے منڈی میں جس کموڈٹی کی قیمت (قدر نہیں) بڑھ جائے گی، سرمایہ زیادہ منافعے کے حصول کے لئے اس کی پیداوار میں لگنا شروع ہو جائے گا تاوقت یہ کہ سپلائی ڈیمانڈ سے بڑھ جائے اور متعلقہ کموڈٹی کی قیمت کم ہونے لگے۔ تب پھر سرمایہ اس کموڈٹی کی پیداوار سے نکل کر کسی اور منافع بخش شعبے کا رُخ کر لے گا اور یہ سارا سائیکل ریورس میں چلنا شروع ہوجائے گا۔

مارکس کے مطابق منڈی میں اشیاء کا تبادلہ ان کی قدر تبادلہ کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ اشیاء کی قدر اصل ہی ہوتی ہے (جس کا تعین اس شے کو بنانے کے لئے درکار سماجی لازمی وقت محن سے ہوتا ہے) جو تبادلے کے عمل میں قدر تبادلہ کے طور پر اپنا اظہار کرتی ہے۔ اسے مارکسی سیاسی معاشیات میں ”قدر کا قانون“ کہتے ہیں۔ لیکن مارکس کے مطابق حقیقت میں کسی بھی منڈی میں کسی بھی کموڈٹی کی سپلائی اور ڈیمانڈ کی صورتحال کبھی بھی مکمل توازن میں نہیں ہوتی لہٰذا عملی طور پر کسی بھی کموڈٹی کی قیمت (قدر نہیں) کا تعین صرف اس پر لگے وقت محن (یا آسان الفاظ میں لاگت پیداوار) سے ہی نہیں ہوتا بلکہ اس پر مارکیٹ کی سپلائی اور ڈیمانڈ کی صورتحال بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے تحت اشیاء کی قیمتیں اپنی قدر سے کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہیں۔ منڈی میں سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے مطابق (حتمی طور پراشیاء کی قدر کے گرد ہی ہونے والے) قیمتوں کے اس اُتار چڑھاؤ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی سرمایہ زیادہ منافع بخش شعبوں کا تعین کرتے ہوئے ان کا رُخ کرتا ہے۔ یعنی سرمایہ دارانہ معیشت میں ریسورسز کی ایلوکیشن منڈی میں ”قدر کے قانون“ کے عملی اطلاق کے ذریعے ہوتی ہے۔ اسی لئے مارکس قدر کے قانون کو سرمایہ دارانہ معیشت کا آفاقی ریگولیٹری قانون کہتا تھا۔ یہ وہی چیز ہے جسے عرف عام میں منڈی کا”خفیہ جادوئی ہاتھ“ بھی کہا جاتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ایک اضافی نوٹ کے طور پر یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اگر کسی سرمایہ دارکی کموڈٹی اپنی قدر تبادلہ پر بھی بکتی ہے تو بھی مزدور سے قدر زائد نچوڑنے کی وجہ سے اسے منافع ہو گا مگر اگر سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کے تحت یہ کموڈٹی اپنی قدر تبادلہ سے زائد قیمت پر بک جائے تو وہ سرمایہ دار سپر پرافٹ حاصل کرے گا۔

اب یہاں کوئی سمجھدار شخص ہم سے سوال کر سکتا ہے کہ محض پرولتاریہ کی آمریت کے قیام کے ذریعے قدر کے قانون کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس مقصد کے لئے جو پیداواری افراط چاہئے وہ صرف کمیونزم میں ہی ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوشلزم میں بھی قدر کا قانون کارفرما رہے گا۔ یہاں تک کہ سوشلزم کا نعرہ ”ہر ایک سے اہلیت کے مطابق کام لو اور اہلیت کے مطابق دو“ بھی تقسیم کار کے معاملے میں قدر کے قانون کا اطلاق ہی ہے۔ ایسے ہی سوویت یونین کی منصوبہ بند معیشت میں بھی قدر کا قانون آپریٹ کرتا تھا۔ یہاں تک کہ سٹالن جیسے شخص نے بھی ایسے پارٹی ممبران پر تنقید کی تھی جو اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ سوویت معیشت میں قدر کے قانون کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ گو کہ سٹالن کا سوویت یونین کے معاشی مسائل کا عمومی تجزیہ بالکل غلط تھا اور ٹراٹسکی اپنی شاہکار تصنیف ”انقلاب سے غداری“میں ان معاشی مسائل اور دیگر کا درست تجزیہ پیش کر چکا تھا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قدر کا قانون دونوں جگہ موجود ہے توپھر ایک منصوبہ بند معیشت اور سرمایہ داری میں اس حوالے سے فرق کیا ہے؟ ایک اہم فرق تو یہ ہے کہ سرمایہ داری میں قدر کے قانون کا اطلاق آفاقی طور پر ہوتا ہے جبکہ ایک منصوبہ بند معیشت میں کمانڈنگ ہائیٹس سے آغاز کرتے ہوئے جن جن شعبوں میں پیداوار کا کموڈٹی کریکٹر ختم ہوتا جاتا ہے وہاں ان پروڈکٹس کے حوالے سے قدر کے قانون کا آپریشن بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ایک منصوبہ بند معیشت میں قدر کے قانون کا اطلاق محدود ہو کر صرف ان شعبوں تک رہ جاتا ہے جن کی پیداوار ابھی تک بطور کموڈٹی ہو رہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ سوویت یونین میں بھاری صنعتوں اور کیپیٹل گڈز کی پیداوار کا کموڈٹی کریکٹر ختم ہونے کے نتیجے میں ان پروڈکٹس کے حوالے سے قدرکے قانون کا آپریشن بھی بند ہو گیا تھا اور لاگت پیداوار کے حساب سے ان پروڈکٹس کی قیمتوں کا تعین (جو اگرچہ افسر شاہانہ جکڑ بندی کے باعث درست نہیں ہو پاتا تھا) صرف پیداوار کے موثر پن اور افزودگی محن کی صورتحال کو جاننے کی غرض سے ہوتا تھا نہ کہ کسی تبادلے کے لئے۔ مگر قدر کے قانون کے اس محدود آپریشن سے بھی بڑا اور اہم معیاری فرق یہ ہے کہ ایک منصوبہ بند معیشت میں قدر کا قانون معیشت کا ریگولیٹری قانون نہیں ہوتا اور معیشت میں ریسورس ایلوکیشن شعوری منصوبہ بندی کی ضروریات کے تحت ہوتی ہے نہ کہ قدر کے قانون یا منڈی کے میکینزم کے ذریعے۔ جیسا کہ سوویت یونین میں قدرتی وسائل، بھاری صنعت کی پیداوار، کیپیٹل گڈز وغیرہ کی معیشت کے مختلف شعبوں کو پلان کی ضروریات کے مطابق ڈائریکٹ ایلوکیشن کی جاتی تھی۔ مزید برآں کموڈٹی کریکٹر رکھنے کے باوجود لائٹ انڈسٹری اور کوآپریٹیو اجتماعی فارمز کی پیداوار بھی سماجی ضروریات کے تخمینے کے مطابق پلان کے شعوری طور پر متعین کردہ آؤٹ پٹ ٹارگٹس کے تحت ہوتی تھی اور چونکہ تمام ہول سیل اور زیادہ تر ریٹیل ٹریڈ بھی ریاستی ملکیت میں تھا لہٰذا ان کموڈٹیز کی قیمت کا تعین بھی ریاست کی جانب سے لاگت پیداوار کی مناسبت سے ہوتا تھا اور سپلائی اینڈ ڈیمانڈ کا اس میں کوئی کردار نہ تھا۔ یعنی یہاں بھی قدر کا قانون صرف جزوی اور محدود انداز میں ہی لاگو ہو تا تھا اور ریسورس ایلوکیشن میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ واضح رہے کہ سوویت معیشت میں منصوبہ بندی کے تحت ریسورس ایلوکیشن میں جو بھی مسائل درپیش تھے وہ مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی اور افسر شاہانہ جکڑ بندی کا نتیجہ تھے نہ کہ منصوبہ بندی کی کسی نامیاتی خامی کا۔

اب اگر ہم مندرجہ بالا تمام بحث کی روشنی میں چینی معیشت کو پرکھیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ایک ایسی معیشت ہے جہاں یونیورسل کموڈٹی پروڈکشن ہوتی ہے، تقریباً تمام اشیاء کی قیمتوں کا تعین منڈی کے میکینزم کے تحت ہوتا ہے اور جہاں ریاست یہ کام کرتی بھی ہے وہاں بھی منڈی کی صورتحال کو مد نظر رکھا جاتا ہے، معیشت میں ریسورس ایلوکیشن اگر بالفرض مکمل طور پر نہیں تو غالب ترین طور پر قدر کے قانون یا منڈی کے میکینزم کے تحت ہوتی ہے لہٰذا یہ قانون چینی معیشت میں آفاقی ریگولیٹری قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر ریاست کی طرف سے ایس او ایز کو معاشی مراعات سے نوازا جاتا ہے، تو یہ کام بھی منڈی کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے چینی سرمایہ داری کو توانا بنانے کی خاطر ہی کیا جاتا ہے۔ اور اگر کہیں شدید بحرانی کیفیت میں منڈی کے خلاف جاتے ہوئے ریاست نجی شعبے اور بالخصوص ایس اوا یز کو سپورٹ بھی کرتی ہے تو بھی یہ کوئی”سوشلسٹ“ کارنامہ نہیں ہے، کیونکہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور جاپان جیسی”مصدقہ“ سرمایہ دارانہ ریاستیں بھی اپنی نجی و ریاستی کمپنیوں کے لئے ایسے اقدامات اُٹھاتی رہتی ہیں تا کہ بحیثیت مجموعی نظام کو بچایا جا سکے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو حالیہ دہائیوں میں چینی معیشت میں ”پلاننگ“ کا کیا کردار ہے اور کیا چین کے حالیہ پانچ سالہ منصوبے اپنے جوہر میں سوویت پانچ سالہ منصوبوں جیسے ہی ہیں؟

موجودہ چین میں “منصوبہ بندی“ کی حقیقت

2013ء میں منعقد ہونے والی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 18 ویں سنٹرل کمیٹی کے تیسرے پلینم میں بڑے واضح الفاظ میں اعلان کیا گیا کہ ”اب منڈی ریسورس ایلوکیشن میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔“ دراصل یہ اعلان ایک بڑی حد تک تکمیل شدہ حقیقت کا محض حتمی سرکاری اظہار تھا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 1980ء میں 120 مختلف اقسام کی صنعتی پروڈکٹس کی پیداوار چینی سٹیٹ پلاننگ کمیشن کی طرف سے دیے جانے والے آؤٹ پٹ ٹارگٹس کے مطابق ہوتی تھی جو اس وقت چین کی کل صنعتی آؤٹ پٹ ویلیو کا 40 فیصد تھی جبکہ 2002ء میں ان صنعتی پروڈکٹس کی تعداد گھٹ کر صرف 5 رہ چکی تھی اور یہ چین کی کل صنعتی آؤٹ پٹ ویلیو کا 4 فیصد سے بھی کم بنتی تھی۔ پلاننگ کے بدلتے کردار کیساتھ 2003ء میں سٹیٹ پلاننگ کمیشن کا نام بھی تبدیل کر کے ”نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن“ رکھ دیا گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا 2006ء میں شروع ہونے والے 11 ویں پانچ سالہ منصوبے سے ”پلان“ کی بجائے ”گائیڈ لائن“ کی اصطلاح استعمال کی جانے لگی۔

درحقیقت موجودہ چین میں ہونے والی نام نہاد پلاننگ اور ماؤ زے تنگ کے دور یا سوویت یونین میں رائج منصوبہ بندی میں کچھ بھی مشترک نہیں ہے۔ یہ دونوں اپنے جوہر ی خصائص میں بالکل مختلف ہیں۔ ایک ایسا سماج جہاں ریسورس ایلوکیشن میں منڈی کا میکینزم بنیادی کردار ادا کرے اور پیداوار منڈی کی قوتوں کے تابع ہو وہاں حقیقی معنوں میں منصوبہ بند ی ہو ہی نہیں سکتی، چاہے موجودہ چین کی طرح کمانڈنگ ہائیٹس پر ایس او ایز ہی براجمان کیوں نہ ہوں، کیونکہ منصوبہ بند معیشت کا بنیادی خاصہ ہی یہ ہے کہ اس میں منافعے کی خاطر نہیں بلکہ معیشت و سماج کی انسان دوست متوازن تعمیر کی ضروریات کے مطابق شعوری طور پر ریسورس ایلوکیشن کی جاتی ہے جیسا کہ سوویت یا ماؤاسٹ منصوبہ بندی میں ہوتا تھا گو کہ افسرشاہانہ مسخ شدگی اور بد انتظامی کیساتھ۔ یہاں تک کہ سنجیدہ بورژوا معیشت دان بھی اس بنیادی فرق کو بخوبی سمجھتے ہیں اور ان کی لغت میں سوویت یونین جیسی منصوبہ بندی کے لئے”مینڈیٹری پلاننگ“ (لازمی منصوبہ بندی) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جہاں ریاست سماجی و معاشی ضروریات کے شعوری تخمینے کے بعد پانچ سالہ منصوبے کے آؤٹ پٹ ٹارگٹس مقرر کرتی ہے (جن کو پورا کرنا لازمی ہوتا ہے) اور ان کے لئے معیشت کے مختلف شعبوں کو درکار اِن پٹس بھی مختص کرتی ہے۔ جبکہ موجودہ چین کے جیسی منصوبہ بندی کے لئے”انڈیکیٹیو پلاننگ“ (اشارہ جاتی پلاننگ یا عمومی گائیڈ لائنز) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جہاں ریاست معیشت کی عمومی سمت اور ضروریات کا جائزہ لیتے ہوئے کار پوریٹ سیکٹر (چاہے ایس اوا یز ہوں یا نجی شعبہ) کے سامنے اپنی ترجیحات پیش کرتی ہے اور انہیں اس سمت میں گامزن کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ریاست منڈی کے تقاضوں کے تحت پیداوار کرنے والے کارپوریٹ سیکٹر کو کوئی مقداری یا معیاری آؤٹ پٹ ٹارگٹس نہیں دیتی اور نہ ہی انہیں کوئی اِن پٹس مختص کرتی ہے (آسان الفاظ میں انہیں پابند نہیں کرتی) بلکہ انہیں ریاستی ترجیحات کی طرف مائل کرنے کے لئے سبسڈیوں، ٹیکس چھوٹ، سستے قرضوں کی فراہمی، زمین کی فراہمی یا آسان لیز، جرمانوں اور قانون سازی جیسے ٹولز استعمال کرتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ایسی”پلاننگ“ صرف موجودہ چین کا ہی کوئی اچھوتا خاصہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں یہ فرانس، جاپان، نازی جرمنی، فاشسٹ اٹلی، نہروین انڈیا، جنوبی کوریا یہاں تک کہ پاکستان جیسی بیکار ترین بورژوا ریاست میں بھی رائج رہی ہے۔

اسی طرح چین میں ریاست کی جانب سے فزیکل انفراسٹرکچر منصوبوں کی تعمیر اور آر اینڈ ڈی (ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ) میں سرمایہ کاری کو بھی چینی ”منصوبہ بند معیشت“ اور ”سوشلزم“ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔لیکن بڑے پیمانے کے انفراسٹرکچر منصوبے تو تمام سکہ بند سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی ریاست کے ہی مرہون منت ہوتے ہیں۔ جرمنی کے آٹو بان نیٹ ورک سے لیکر امریکہ کے انٹر اسٹیٹ ہائی وے نیٹ ورک تک تمام بورژوا ممالک میں بڑا فزیکل انفراسٹرکچر ریاست ہی تعمیر کرواتی ہے اور ریاست ہی ایسا کروا سکتی ہے کیونکہ نجی شعبہ تو منڈی کے تقاضوں کے تحت فوری منافعے کے پیچھے بھاگتا ہے اور اس میں کبھی بھی طویل المدت اور غیر یقینی ریٹرن رکھنے والی بڑی سرمایہ کاری کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر آر اینڈ ڈی کے حوالے سے دیکھا جائے تو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، جاپان، فرانس جیسے سکہ بند بورژوا ممالک میں ہونے والی جدید ترین یعنی (cutting edge) آر اینڈ ڈی بھی براہ راست یا بالواسطہ طور پر ریاست کی آشیر باد اور فنڈنگ سے ہی ہوتی ہے۔ ہمارے ارد گرد موجود کمپیوٹر، انٹرنیٹ، جیٹ انجن، ایٹمی توانائی، خلائی ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل کیمرہ، موبائیل فونز جیسی بے شمار ایجادات جن کے بغیر آج کی جدید زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، نجی شعبے کی دین نہیں بلکہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر بورژوا ریاست کی کوششوں اور فنڈنگ کا ہی نتیجہ ہیں۔ تو پھر کیا اس کارن ان تمام بورژوا ریاستوں کو بھی منصوبہ بند معیشتیں قرار دے دیا جائے؟ لہٰذا بائیں بازو کے وہ دوست جو چین کے حوالے سے صرف”پلاننگ“ کا لفظ سن کر اسے منصوبہ بند معیشت قرار دے دیتے ہیں، ان سے ہماری گزارش ہے کہ برائے مہربانی کسی بھی مظہر کے صرف سطح پر پھسلتے رہنا مارکسی تجزیہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ظاہریت کے پیچھے چھپے اس مظہر کے جوہر کو گرفت میں لانا پڑتا ہے۔ 

چین کی سٹاک مارکیٹ

کوئی بھی ایسی معیشت جس میں ریسورس ایلوکیشن میں منڈی کا میکینزم بنیادی کردار ادا کرتا ہو وہاں سٹاک ایکسچینج کا ہونا ناگزیر ہے کیونکہ یہی وہ جگہ ہے جہاں لسٹڈ کمپنیوں کے شئیرز کی قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ سے سرمایہ کار معیشت و پیداوار کے زیادہ منافع بخش شعبوں کا تعین کر تے ہوئے وہاں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور کم منافع بخش شعبوں سے اپنا سرمایہ نکالتے ہیں۔ جو سرمایہ دارانہ معیشت جتنی بڑی اور ترقی یافتہ ہو گی عمومی طور پر اس کی سٹاک مارکیٹ کا حجم بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ چینی معیشت اس وقت نومینل جی ڈی پی (19.9 ٹریلین ڈالر) کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی سرمایہ دارانہ معیشت ہے اور یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کے لحاظ سے امریکی سٹاک ایکسچینجوں کے بعد دنیا کی دوسری بڑی سٹاک ایکسچینجز چین کی ہیں۔ 2022ء میں مین لینڈ چائنا میں واقع شنگھائی اور شین زین سٹاک ایکسچینج کی مجموعی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 12.2 ٹریلین ڈالر تھی اور اگر اس میں ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج (مارکیٹ کیپ 4.5 ٹریلین ڈالر) کو بھی شامل کر لیا جائے تو 2022ء میں چینی سٹاک ایکسچینجوں کی مجموعی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 16.7 ٹریلین ڈالر بنتی ہے جو چین کے جی ڈی پی سے محض 3.2 ٹریلین ڈالر ہی کم ہے۔ یہاں ہم قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ سوویت یونین میں کوئی سٹاک ایکسچینج نہیں تھی اور چین میں بھی انقلاب کے بعد بند کی جانے والی شنگھائی سٹاک ایکسچینج کو 1990ء میں واپس کھولا گیا تھا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو سوویت یونین اور نہ ہی ماؤاسٹ چین میں کسی قابل ذکر پیمانے پر ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت تھی اور نہ ہی معیشت میں ریسورس ایلوکیشن کے حوالے سے قدر کے قانون کا کوئی ریگولیٹری کردار تھا۔ بلکہ ان ریاستوں میں تو منڈی کا وجود ہی نہایت محدود پیمانے پر رہ گیا تھا اور تقسیم کار کا زیادہ تر سیٹ اپ بھی ریاستی ملکیت میں تھا۔ جبکہ آج چین میں ساری صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے اور اسی لئے آج کا چین دنیا کی دوسری بڑی سٹاک مارکیٹ رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا سرمایہ دارانہ ملک ہے۔

چینی سٹاک مارکیٹ کا یہ ڈیٹا ہمیں چین کے سرمایہ دار طبقے کی دولت و ملکیت کے بارے میں بھی ایک خام سا اندازہ دیتا ہے۔ یاد رہے کہ شنگھائی اور شین زین سٹاک ایکسچینج میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں کر سکتے (ماسوائے سخت ریگولیشنز کے تحت محدود پیمانے پر) اور یہاں شئیرز کی خریدو فروخت کے لئے چینی شہری ہونا لازمی ہے۔ یعنی ان دو سٹاک ایکسچینجز کی 12.2 ٹریلین ڈالر کی مجموعی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب اگر ہم انتہائی گنجائش دیتے ہوئے یہ فرض کر لیں کہ اس مارکیٹ کیپیٹلائزیشن کا 1/3 ایسے فلوٹڈ شئیرز پر مشتمل ہے جو ریاست کے ہی مختلف ذیلی اداروں اور ایس او ایز نے خرید رکھے ہیں تو بھی اس کا مطلب ہے کہ نجی ملکیت میں موجود شئیرز کی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 8 ٹریلین ڈالر ہے۔ اب ظاہر ہے کہ کوئی مزدور، کسان یا عام آدمی تو سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ ویسے بھی چین میں پیٹی بورژوازی اور درمیانے طبقے کی جانب سے سٹاک ایکسچینج میں کی جانے والی سرمایہ کاری مغربی سرمایہ دار ممالک کے مقابلے میں نہایت ہی کم ہے اور یہ سٹاک ایکسچینج کی بجائے اپنی بچتوں کو رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تو پھر اس 8 ٹریلین ڈالر کے خطیر سرمائے کے غالب ترین حصے کا مالک کون ہے؟ جی ہاں، آپ درست سمجھے۔۔۔اس کا مالک ہے چین کا ”قومی“ سرمایہ دار طبقہ۔ مگر اس ملکیت میں کوئی اور بھی ڈھکے چھپے انداز میں ان کا حصے دار بن رہا ہے۔ وہ کون ہے؟ اس پر ہم مزید کچھ آگے چل کر بات کریں گے۔

نجی ملکیت کا تقدس

اگرچہ 1978ء سے شروع ہونے والی مارکیٹ ریفارمز کے تحت وقتاً فوقتاً ہونے والی آئینی ترامیم میں بتدریج نجی ملکیت کے لئے گنجائش پیدا کی جا رہی تھی جیسا کہ ”شہریوں کو قانونی طور پر حاصل کی گئی آمدن، بچتوں، رہائش گاہوں اور دیگر قانونی پراپرٹی کی ملکیت کا حق حاصل ہے۔“ مگر 2004ء میں منعقد ہونے والی 10 ویں نیشنل پیپلز کانگریس میں ہونے والی آئینی ترامیم میں پہلی دفعہ ”نجی ملکیت“ کے الفاظ استعمال کئے گئے اور اسے واشگاف الفاظ میں قانونی تقدس دیا گیا:

”شہریوں کی قانونی نجی ملکیت ناقابل تنسیخ (Inviolable) ہے۔“

”ریاست قانون کے مطابق، شہریوں کے نجی ملکیت رکھنے اور اس کی وراثت کے حق کا دفاع کرتی ہے۔“

اس وقت چین میں کسی بھی شکل میں نجی ملکیت رکھنے کی اجازت ہے سوائے زمین کے۔ زمین، چاہے شہری ہو یا زرعی، ابھی بھی ریاست کی ملکیت ہے اور یہ غالباً 1949ء کے انقلاب کی آخری یادگار ہے جو ابھی تک جزوی طور پر محفوظ ہے۔ لیکن زمین کو مختلف نوعیت کے استعمال (زرعی، صنعتی، رہائشی) کی مناسبت سے ریاست کو مقرر کردہ فیس کی ادائیگی کے بعد 30/50/70 سالوں کے لئے لیز پر لیا جا سکتا ہے۔ یہ لیز اکثر صورتوں میں اپنے ہولڈر کی نجی ملکیت تسلیم کی جاتی ہے اور وہ اسے آگے بیچ سکتا ہے، ٹرانسفر کر سکتا ہے اور وراثت میں منتقل کر سکتا ہے۔ اگرچہ ابھی اس حوالے سے کوئی جامع قانون موجود نہیں ہے لیکن ابھی تک کے ورکنگ لاز کے مطابق زیادہ تر صورتوں میں لیز کی مدت کے خاتمے کے بعد یہ خود بخود بغیر کسی اضافی ادائیگی کے ری نیو کر دی جائے گی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ زمین پر تعمیر کی جانے والے کسی بھی نوعیت کی عمارت لیز ہولڈر کی نجی ملکیت تسلیم کی جاتی ہے۔ بائیں بازو کے بعض حلقوں میں زمین کی اس ریاستی ملکیت پر بہت واویلا مچایا جاتا ہے اور اسے چین کے سوشلسٹ ہونے کے حق میں ایک مضبوط دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ لوگ شاید اس حقیقت سے بالکل نابلد ہیں کہ مارکس سے لے کر لینن تک سب مارکسی اساتذہ کے نزدیک زمین کی قومی ملکیت ایک ریڈیکل بورژوا جمہوری اقدام تھا نہ کہ سوشلسٹ۔ اور چونکہ چین میں 1911ء میں برپا ہونے والا بورژوا جمہوری انقلاب اپنے فرائض کی تکمیل میں ناکام ہو گیا تھا لہٰذا ان کی تکمیل کا فریضہ بھی 1949ء کے انقلاب کے نتیجے میں تخلیق ہونے والی مسخ شدہ مزدور ریاست کو ہی ادا کرنا پڑا۔

چینی ریاست اور محنت کش طبقہ

کسی بھی سرمایہ دارانہ سماج میں قوت محنت بھی ایک کموڈٹی ہوتی ہے جسے منڈی میں خریدا اور بیچا جاتا ہے۔ اور چونکہ سرمایہ داری یونیورسل کموڈٹی پروڈکشن کا نظام ہے لہٰذا اس میں قوت محنت کی بھی یونیورسل کموڈیفیکیشن ہوتی ہے یعنی محنت کش طبقے کی تمام تر قوت محنت کموڈٹی کریکٹر رکھتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ چین میں کل روزگار کا کم از کم 80 فیصد نجی شعبے (بشمول زرعی شعبہ جہاں اُجرتی محنت کے استعمال کی پوری اجازت ہے) سے آتا ہے جس کا ویسے ہی بدترین استحصال ہوتا ہے جیسے کہ کسی بھی مغربی یا دیگر سرمایہ دارانہ ممالک میں ہوتا ہے اور بعض صورتوں، جیسے کہ سپیشل اکنامک زونز میں، میں تو استحصال کی شدت اور اس کیساتھ ننگے ریاستی جبر کی دہشت ایسی ہے کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ایس او ایز بھی چونکہ منڈی کے لئے پیداوار کرنے والی کارپوریٹ انٹرپرائیزز ہیں، لہٰذا ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کی قوت محنت بھی کموڈٹی کریکٹر ہی رکھتی ہے جن کی اُجرتوں وغیرہ کا تعین ”منڈی کے رجحانات اور انٹر پرائیز کی کارپوریٹ کارکردگی“ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں ایس اوایز میں کی جانے والی بڑے پیمانے کی لیبر ری اسٹرکچرنگ نے ماؤ دور کی ”آئرن رائس باؤل“ پالیسی کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے اور اب ریاست کی جانب سے محنت کشوں کو روز گار کی مستقلی کے حوالے سے کوئی گارنٹی حاصل نہیں ہے۔ البتہ یہ کہنادرست ہے کہ آج بھی ایس او ایز میں محنت کشوں کے حالات نجی شعبے کے مقابلے میں نسبتاً کچھ بہتر ہیں مگر اس کی بنیادی وجہ آئرن رائس باؤل پالیسی کی یاد داشت رکھنے والے محنت کشوں کی جانب سے بڑے پیمانے کی مزاحمت کا خوف ہے نہ کہ ریاست کی کوئی مزدور دوستی، جو کہ انہیں مکمل طور پر نجی شعبے جیسا کرنے کی مسلسل کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔ مزید برآں یہ کوئی ایسا امر نہیں ہے جو کہ صرف چین کا ہی خاصہ ہو۔ یہاں تک کہ پاکستان جیسی ریاست میں بھی پبلک سیکٹر کے محنت کشوں اور سرکاری محکموں کے ملازمین کے اوقات کار، اُجرتیں اور روزگار کی صورتحال نجی شعبے کے مقابلے میں تو کچھ بہتر ہی ہے۔ لیکن اگرا بھی بھی پاکستان کے بائیں بازو کے کچھ حلقوں کو ایس او ایز کے حوالے سے کوئی غلط فہمی ہے تو ہم انہیں یہ مشورہ دیں گے کہ وہ ادھر کام کرنے والی چینی ایس او ایز کے محنت کشوں (چاہے چینی ہوں یا مقامی) سے اس بارے میں بات چیت تو کر کے دیکھیں، حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔

اسی طرح چین کے ٹریڈ یونین قوانین کا سرسری مطالعہ بھی ان کی مزدور دشمن نوعیت کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔ پورے لیبر لاز میں کہیں پر بھی محنت کشوں کے احتجاج اور ہڑتال کے قانونی حق کا کوئی تذکرہ نہیں اور صنعتی تنازعے کی صورت میں یونینز محض مالکان اور انتظامیہ کو اپنی ”سفارشات“ پیش کر سکتی ہیں یا پھر لیبر کورٹ کا رُخ کر سکتی ہیں۔ یہاں پر کوئی یہ درست اعتراض کر سکتا ہے کہ ماؤ کے دور یا سوویت یونین میں بھی عملی طور پر یہی صورتحال تھی، جو کہ بلاشبہ انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے، لیکن وہاں پر بڑے پیمانے کی نجی ملکیت اور محنت کی یونیورسل کموڈیفیکیشن بھی موجود نہیں تھی۔ ایسے ہی تمام ٹریڈ یونینز کے لئے لازمی ہے کہ وہ ”آل چائنا فیڈریشن فار ٹریڈ یونینز“ کے ساتھ رجسٹر ہوں جو کمیونسٹ پارٹی کا ہی ذیلی ادارہ ہے اور پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کو براہ راست جواب دہ ہے۔ اس کا واحدمقصد چینی افسر شاہی، ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار طبقے کے جبر و استحصال کے لئے چین کے محنت کش طبقے کو بے دست و پا رکھنا ہے۔ اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارکیٹ ریفارمز کی ابتدائی دہائیوں میں تو پھر ایسی اِکا دُکا مثالیں مل جاتی تھیں جس میں پارٹی کی نچلے درجے کے عہدیدار احتجاج یا ہڑتال کرنے والے محنت کشوں کیساتھ یکجہتی دکھاتے نظر آتے تھے مگر پچھلی دو دہائیوں میں تو ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی اور جہاں کہیں محنت کشوں نے کچھ جیتا ہے، وہ اپنی جرات اور جدوجہد کی بنیاد پر حاصل کیا ہے (سورس: ہانگ کانگ بیسڈ چائنا لیبر بلیٹن)۔ ایسے ہی سخت ترین سنسر شپ کے باوجود آئے روز اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے والے محنت کشوں اور ان کے طلبہ و سماج کی دیگر پرتوں میں موجود ہمدردوں پر ریاستی جبر، پولیس کریک ڈاؤنز اور گرفتاریوں کی خبریں بھی سوشل میڈیا پر سامنے آتی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے چین کی ”لیبر مارکیٹ“ میں عالمی سرمایہ داروں کو کچھ تو کشش نظر آتی تھی جو انہوں نے سات سمندر پار سے اپنی فیکٹریاں چین منتقل کیں۔ اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب چینی ریاست ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے کی نجی ملکیت اور منافع خوری کی محافظ بنی ہوئی ہے اور اس مقصد کے لئے محنت کش طبقے پر اپنی بساط کے مطابق کوئی بھی جبر کرنے سے نہیں چوکتی تو پھر مارکسزم لینن ازم کی رو سے ایسی ریاست کو کیسے ایک ”مزدور ریاست“ قرار دیا جا سکتا ہے۔

صحت، تعلیم اور رہائش

ایک منصوبہ بند معیشت میں کم از کم ان تین شعبوں میں تو نجی سرمائے کی مداخلت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ لیکن چین میں تو صورتحال اس حوالے سے یکسر مختلف ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں چین میں 21 ہزار نجی ہسپتال اور 4.5 لاکھ کے قریب دیہی نجی کلینک تھے جبکہ پبلک پرائمری ہیلتھ کئیر اداروں کی تعداد تقریباً 5 لاکھ اور پبلک ہسپتالوں کی تعداد 12 ہزار تھی۔ اسی طرح اگر ہم فی کس ہیلتھ کئیر اخراجات کا بریک ڈاؤن کریں تو اوسطاً 28 فیصد اخراجات شہری براہ راست اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، 44 فیصد اخراجات پبلک فنڈڈ ہیلتھ انشورنس (جس میں ایک حصہ شہری اور ایک حصہ ریاست ڈالتی ہے) اور نجی ہیلتھ انشورنس سے پورے ہوتے ہیں جبکہ صرف 28 فیصد اخراجات براہ راست مرکزی، صوبائی اور مقامی حکومت کی طرف سے ادا کئے جاتے ہیں۔ یوں چین میں نجی سرمائے کی شعبہ صحت میں مداخلت برطانیہ، فرانس، اسکینڈے نیویا جیسے سکہ بند سرمایہ دارانہ ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔

ایسے ہی اگر ہم شعبہ تعلیم کی بات کریں تو وہاں نجی سرمائے کی بڑے پیمانے پر موجودگی نظر آتی ہے۔ 2003ء میں نجی تعلیم کے متعلق پہلا بِل پاس کیا گیا تھا جس میں شعبہ تعلیم میں ملکی سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ اس کے بعد نجی سکولوں کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی یہاں تک کہ 2020ء میں 1/3 سے زیادہ سکول نجی شعبے سے تھے جن میں کل طلبہ کی 20 فیصد سے زائد تعداد زیر تعلیم تھی۔ اسی طرح پرائیویٹ ٹیوشن بھی اس عرصے میں 100 ارب ڈالر سے زائد کا بزنس بن گیا۔ مگر 2021ء میں ریاست نے ”مشترکہ خوشحالی“ کے نعرے کے تحت تعلیم کے نجی شعبے پرکر یک ڈاؤن کیا اور کچھ نئے قوانین پاس کئے جن کے تحت منافع کے لئے تعلیم کے کاروبار اور اس شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری پر بہت سی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ یقیناً پاکستان میں بائیں بازو کے کچھ حلقے اس سے بہت متاثر نظر آ رہے ہیں اور ”چینی سوشلزم“ کے ڈھنڈورے پیٹ رہے ہیں۔ مگر اس سب کے پیچھے ایک طرف تو چین میں امارت اور غربت کے بڑھتے تفاوت کیخلاف پیدا ہونے والے عوامی غصے کو زائل کرنے کی حالیہ ریاستی کوشش ہے، جس پر آگے چل کر ہم کچھ مزید بات کریں گے، اور دوسری طرف چینی ریاست، افسر شاہی اور بحیثیت مجموعی سرمایہ دار طبقے کے لانگ ٹرم بورژوا مفادات ہیں جو چین جیسی ایک صنعتی معیشت میں پاپولیشن گروتھ کے سلو ڈاؤن (جس کی اہم وجہ بچے پالنے کے بڑھتے اخراجات ہیں) اور نتیجتاً مستقبل میں استحصال کا ایندھن بننے والی سستی ہنر مند لیبر کی وافر سپلائی کے خاتمے کے امکان سے پریشان ہیں۔ یہاں یاد رہے کہ چینی ریاست نے انہی خدشات کے کارن جنوری 2016ء میں اپنی ”ون چائلڈ پالیسی“ کا بھی خاتمہ کر دیا تھا۔ اب اس سب میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو خاص چین تک ہی محدود ہو۔ 19 ویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں بر طانوی ریاست کی جانب سے لاگو کئے جانے والے فیکٹری ایکٹس سے لے کر بعد از دوسری عالمی جنگ مغربی یورپ میں پبلک ایجوکیشن کے فروغ تک ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جس میں بورژوا ریاست اور سرمایہ دار طبقے کے سنجیدہ دھڑے کو بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور فائدے کے لئے بورژوا طبقے کے ہی کچھ حصوں پر ضرب لگانی پڑی اور ایسے ”عوام دوست“ اقدامات کرنے پڑے۔

اگر ہم رہائش کے شعبے کی بات کریں تو یہاں ہمیں نجی شعبے کی مکمل اجارہ داری نظر آتی ہے۔ 2021ء میں سیلز ریونیو ڈیٹا کے مطابق چین کی پانچ سب سے بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنیوں میں سے چار کا تعلق نجی شعبے سے تھا۔ مزید برآں اس شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کا بھی ایک بڑا کردار ہے اور یہ شعبہ براہ راست اور بالواسطہ طور پر کل ملا کر جی ڈی پی کا تقریباً 25 فیصد بناتا ہے۔ اس شعبے میں ڈی ریگولیشن کا یہ عالم ہے کہ چینی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں ہونے والی سٹہ بازی اور نتیجتاً بننے والے پراپرٹی کے بلبلے پوری دنیا میں بد نام ہیں۔ حال ہی میں چین کی دوسری بڑی رئیل اسٹیٹ کمپنی ایور گرانڈ گروپ کا ڈیفالٹ بھی سستے قرضوں اور سٹے بازی کا ہی منطقی نتیجہ تھا جس نے چین سمیت پوری دنیا کی سٹاک مارکیٹوں میں زلزلہ برپا کر دیا اور آخر کار چینی ریاست کو پورے رئیل اسٹیٹ اور لامحالہ طور پر بینکنگ سیکٹر کو اس ڈیفالٹ کے اثرات سے بچانے کے لئے مداخلت کرنا پڑی۔

چین۔۔امارت اور غربت کا تفاوت

چین کی سرمایہ داری کی طرف واپسی نے سماج میں امارت اور غربت کے بیچ ایک ہولناک تفاوت کو جنم دیا ہے اور کسی بھی بورژوا سماج کی طرح دولت مندوں کی ایک انتہائی چھوٹی سی اقلیت ہر گزرتے دن کیساتھ امیر سے امیر تر ہوتی جا رہی ہے جبکہ باقی سارا سماج محض زندہ رہنے کی جدوجہد میں غرق ہے۔ فوربس ورلڈ بلینیرز 2022ء رپورٹ کے مطابق چین ارب پتیوں (امریکی ڈالر میں) کی تعداد میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور اس کے 607 ارب پتی 2.3 ٹریلین ڈالر کی دولت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 2018ء میں چین 658 ارب پتیوں کیساتھ دنیا بھر میں سر فہرست ہونے کا ”اعزاز“ بھی حاصل کر چکا ہے۔ ایسے ہی کریڈٹ سوئس کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق چین 35 لاکھ ملینیرز کیساتھ اس حوالے سے دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر تھا۔ فوربس ورلڈ بلینیرز لسٹ کے مطابق 2021ء میں چین کے ارب پتیوں کی دولت ملکی جی ڈی پی کے 15 فیصد کے برابر تھی جبکہ اسی سال امریکی ارب پتیوں کی دولت ملکی جی ڈی پی کے 19 فیصد کے برابر تھی۔

کریڈٹ سوئس ویلتھ رپورٹ 2021ء میں مختلف ممالک میں سماج میں آمدن و دولت میں تفاوت کی عکاسی کرنے والے جنی کو آفیشینٹ کے حوالے سے دلچسپ حقائق دیے گئے ہیں۔ یار رہے کہ جنی کو آفیشینٹ جتنا زیادہ ہو گا، سماج میں آمدن و دولت کا تفاوت بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ اس رپورٹ کے مطابق 2000ء میں چین کا جنی کو آفیشینٹ 59.9 تھا جو 2020ء تک بڑھ کر 70.4 ہو گیا۔ جبکہ اسی عرصے میں فرانس میں یہ 69.7 سے بڑھ کر 70، اٹلی میں یہ 60.1 سے بڑھ کر 66.5 اور برطانیہ میں یہ 70.7 سے بڑھ کر 71.7 ہو گیا۔ یعنی چین میں نہ صرف امارت اور غربت کے بیچ تفاوت مغربی یورپ کے ان ”سکہ بند“ سرمایہ دارانہ ممالک کی نسبت زیادہ ہے (برطانیہ کے علاوہ) بلکہ پچھلی دو دہائیوں میں اس تفاوت کے بڑھنے کی رفتار بھی ان ممالک سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2000ء میں چین کے 1 فیصد امیر ترین افراد کی دولت، کل قومی دولت کے 20.9 فیصد کے برابر تھی جبکہ 2020ء تک یہ بڑھ کر 30.6 فیصد کے برابر ہو چکی تھی۔ جبکہ اسی عرصے میں فرانس میں یہ 25.7 فیصدسے کم ہو کر 22.1 فیصد، جرمنی میں 29.3 فیصدسے کم ہو کر 29.1 فیصد، جاپان میں 20.6 فیصد سے کم ہو کر 18.2 فیصد، جبکہ برطانیہ میں 22.5 سے بڑھ کر 23.1 فیصد اور امریکہ میں 32.8 فیصد سے بڑھ کر 35.3 فیصد ہو گئی۔

چین کے محنت کش عوام میں سماج میں موجود اس بے تحاشہ اونچ نیچ کیخلاف زبردست غصہ بھی موجود ہے جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے گو کہ سخت سنسر شپ کے باعث اس کی زیادہ رپورٹنگ نہیں ہو پاتی۔ زبردست ریاستی جبر کے باوجود پچھلی ڈیڑ ھ دہائی میں چین کے محنت کش طبقے نے بہت زبردست صنعتی لڑائیاں لڑی ہیں جس میں انہیں طلبہ سمیت سماج کی دیگر پرتوں کی طرف سے بھی حمایت ملی ہے۔ اسی طرح طلبہ اور کسانوں کے احتجاج بھی ہوتے رہتے ہیں۔ 2020-21ء میں کرونا وبا اور اس کے کارن ہونے والے لاک ڈاؤنز نے جہاں عوام کی مشکلات میں بے تحاشہ اضافہ کیا وہیں اس عرصے میں سرمایہ دار طبقے کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جس نے اس حوالے سے پہلے سے سماج میں موجود غم و غصے کو ایک نئی مہمیز دی۔ اسی بڑھتے ہوئے سماجی دباؤ سے خوفزدہ ہو کر اور اسے زائل کرنے کی خاطر صدر شی جن پنگ اور چینی کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ”مشترکہ خوشحالی“ کا نعرہ لگایا اور سرمایہ دار طبقے کی ”حد سے بڑھتی ہوئی دولت مندی“ اور سماج میں بڑھتے معاشی تفاوت کو قابو میں لانے کے حوالے سے پُر جوش اعلانات کئے۔ اس حوالے سے بورژوازی کے کچھ حصوں پر ایک جزوی کریک ڈاؤن بھی کیا گیا، کئی نجی کمپنیوں اور انفرادی سرمایہ داروں کو مختلف قوانین توڑنے کے جرم میں جرمانہ بھی کیا گیا جو ان سے ”ڈونیشنز“ کی صورت میں وصول کیا گیا، نجی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ریاستی اثرورسوخ بڑھانے کے لئے کچھ نئے قوانین بنائے گئے اور ریگولیشنز کو سخت کیا گیا، تعلیم میں نجی شعبے پر خاصی پابندیاں عائد کی گئیں، افسر شاہی کے بد نام زمانہ کرپٹ عناصر کو سزائیں دی گئیں وغیرہ۔ پاکستان سمیت عالمی سطح پر بائیں بازو کے کچھ حلقوں میں چینی افسر شاہی کے ان اقدامات کے حوالے سے خاصی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور انہیں ”چینی خصائص کیساتھ سوشلزم“ کے حق میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کی تھی کہ چینی افسر شاہی نے دیوار برلن کے انہدام اور سوویت یونین کے زوال سے بہت اہم اسباق سیکھے اور مارکیٹ ریفارمز کے پُر خطر راستے پر انتہائی پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھایا تا کہ کسی بھی سماجی دھماکے سے بچا جا سکے۔ اس حوالے سے تیانامن سکوائر کے واقعے کے بعد مارکیٹ ریفارمز کے عمل کو وقتی طور پر روک دینے سے لے کر آج تک بے شمار زیگ زیگز (Zig Zags) لئے گئے ہیں اور یہ ”مشترکہ خوشحالی“ کا نعرہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ماضی میں ڈینگ ژیاؤ پنگ سے لے کر جیانگ زیمن اور ہو جن تاؤ تک تمام چینی قیادت سماجی غصے کو زائل کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً ایسی نعرے بازی اور جزوی اقدامات اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن حتمی طور پر سفر ہمیشہ منڈی کی سمت میں ہی آگے بڑھتا رہا۔ اور اب جبکہ چین ایک سرمایہ دارانہ معیشت، سماج و ریاست ہے تو افسر شاہی کے ان ڈھکوسلوں سے سوشلزم برآمد ہونے کی توقع رکھنا نری ہی حماقت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ”مشترکہ خوشحالی“ کے اس حالیہ نعرے کا صدر شی جن پنگ (اور اس کے ٹولے) کے صدارت کی تیسری ٹرم کے لئے سماج میں حمایت جیتنے کی کوششوں کیساتھ بھی براہ راست تعلق ہے۔ مزید برآں اگر اس نعرے بازی کے کچھ ثانوی اور لانگ ٹرم مقاصد ہیں تو وہ بھی حتمی طور پر چینی سرمایہ داری کے مستقبل میں عالمی مسابقت کے حوالے سے تیاری کے متعلق ہی ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے شعبہ تعلیم کے حوالے سے وضاحت کی تھی۔ اسی طرح ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ریگولیشنز کی سختی کا حتمی مقصد بھی یہی ہے کہ کسی طرح انہیں منڈی میں فوری منافع کے حصول کے لئے پروڈکٹس (جیسے کہ ویڈیو گیمز وغیرہ) کی تیاری کے ساتھ ساتھ چینی سرمایہ داری کو عالمی مسابقت کے لئے درکار ٹیکنالوجی کی تیاری کی جانب بھی مائل کیا جا سکے۔ قصہ مختصر یہ کہ چینی قیادت کی اس حالیہ شعبدے بازی سے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کچھ ریڈیکل پروفیسر حضرات اور نونہال قسم کے دانشور تو ضرور متاثر ہو سکتے ہیں لیکن اس سب سے چین کی معیشت، سماج اور ریاست کے طبقاتی کردار میں رتی برابر بھی معیاری فرق نہیں پڑنے والا۔

چینی افسر شاہی اور سرمایہ دار طبقہ

یہ بات بالکل درست ہے کہ چین میں سیاسی اقتدار اعلیٰ افسر شاہی کی حکمران پرت کے پاس ہے اور چین کا سرمایہ دار طبقہ انتہائی دولت مند اور بڑے پیمانے پر ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت رکھنے کے باوجود فی الحال سیاسی اقتدار سے محروم ہے۔ مگر اس سے چین کے طبقاتی کردار پر کوئی معیاری فرق نہیں پڑتا اور ماضی میں نازی جرمنی، فاشسٹ اٹلی، میجی ریسٹوریشن کے بعد شاہی جاپان، کومنتانگ چائنا، زار شاہی روس سمیت کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں بورژوازی (مارکسی معنوں میں) حکمران طبقہ ہونے کے باوجود سیاسی اقتدار اعلیٰ سے محروم تھی مگر یہ سماج سرمایہ دارانہ ہی تھے۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بھی ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت رکھنے کی بدولت حکمران طبقہ بورژوازی ہی ہے لیکن اس کی تاریخی و نامیاتی کمزوریوں کے کارن سیاسی اقتدار اعلیٰ کم و بیش ہمیشہ ہی سول ملٹری ریاستی افسر شاہی کے پاس رہا ہے۔

مگر ہم یہاں جس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ چینی افسر شاہی اور سرمایہ دار طبقے کے بیچ میں گہرے دو طرفہ تعلقات ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ چین کا موجودہ سرمایہ دار طبقہ پیدا ہی چینی افسر شاہی کی پالیسیوں کی بدولت ہوا ہے۔ مغرب کے بورژوا دانشور جب بھی اس تعلق پر بات کرتے ہیں تو ہمیشہ عدم توازن کا شکار ہو کر ایک ہی سمت میں زور ڈالتے ہیں اور یکطرفہ انداز میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ چینی ریاست کی ساری نوازشات تو صرف ایس او ایز کے لئے ہوتی ہیں اور نجی شعبے کو تو خالصتاً اپنی ”قابلیت“ کے بل پر اپنی جگہ بنانی پڑتی ہے، اور چینی افسر شاہی اور سرمایہ دار طبقے میں کوئی ناقابل مصالحت تضادات موجود ہیں جن کا ناگزیر نتیجہ کسی بڑے تصادم کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ اپنے مؤقف کی حمایت میں وہ ”مشترکہ خوشحالی“ جیسی حالیہ پالیسیوں اور نجی کمپنیوں میں ریاست کی مداخلت جیسے دلائل دیتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہماری نظر میں چینی افسر شاہی اور سرمایہ دار طبقے کے بیچ کوئی آقا اور غلام کے رشتے کی بجائے باہمی مفادات پر مبنی ایک دو طرفہ رشتہ موجود ہے۔ اگر بورژوازی کے کچھ حصوں پر کبھی کبھی ریاستی افسر شاہی کی جانب سے جزوی کریک ڈاؤنز کئے گئے ہیں تو اسی افسر شاہی نے نہ صرف اس بورژوازی کو جنم دیا ہے بلکہ بحیثیت مجموعی اسے بے تحاشہ معاشی و سماجی مراعات سے نوازتے ہوئے اسے دنیا کی دوسری سب بڑی ”قومی“ بورژوازی بھی بنایا ہے۔

2001ء میں سرمایہ دار طبقے کے لئے کمیونسٹ پارٹی کے دروازے کھول دیے گئے تھے جس کے نتیجے میں وقت کیساتھ سینکڑوں ارب پتی مختلف لیولز پر حکومتی اداروں کا حصہ بن گئے۔ 2013ء میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ریونیو کے لحاظ سے چین کی 100 سب سے بڑی نجی کمپنیوں میں سے 95 کے فاؤنڈرز یا اہم ترین شخصیات صوبائی یا مرکزی حکومتی اداروں کا حصہ تھے۔ ایسے ہی نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں یا ان کے نمائندوں کو ایس او ایز کی ٹاپ باڈیز میں بھی جگہ دی گئی۔ مگر اسی طرح افسر شاہی کے اعلیٰ عہدیداران بھی بے شمار نجی کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز کا حصہ ہیں اور ان سے بھاری معاشی مراعات لیتے ہیں۔ ایسے ہی بے شمار سینئر کمیونسٹ پارٹی عہدیداران اور اعلیٰ ریاستی افسر شاہی کی اولادیں، ان کے دیگر قریبی عزیز وغیرہ نجی شعبے میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں جہاں انہیں ریاستی افسرشاہی کیساتھ ایک پُل کا کردار ادا کرنے کے کارن ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی خود نجی کمپنیوں کے سی ای او ہیں یا ان میں قابل ذکر اسٹیکس رکھتے ہیں۔ یہاں پر قارئین کو سوویت افسر شاہی اور آج کی چینی افسر شاہی کے حالات کار میں ایک انتہائی اہم فرق کو لازمی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔ وہ یہ کہ سوویت یونین میں اس کے انہدام تک بھی نجی ملکیت رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ لہٰذا سوویت افسر شاہی قانونی و غیر قانونی طور پر جو بھی معاشی مراعات لیتی تھی یا غبن کرتی تھی، اس دولت سے وہ ذاتی اشیائے تعیش تو خرید سکتی تھی مگر نجی ملکیت نہیں۔ مگر چینی افسر شاہی کیساتھ تو یہ معاملہ نہیں ہے۔ باقی سماج کی طرح انہیں بھی نجی ملکیت رکھنے کا حق حاصل ہے۔ تو پھر کیا افسر شاہی کی اعلیٰ پرتیں قانونی طور پر ملنے والی معاشی مراعات (ایس او ایز اور نجی شعبے دونوں میں) اور غیر قانونی ذرائع یا غبن کے ذریعے اکٹھی ہونے والی دولت سے کھلے عام یا زیادہ تر ڈھکے چھپے انداز میں (فرنٹ مینوں کے ذریعے) نجی ملکیت حاصل نہیں کر رہیں؟ یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ جب نجی کمپنیوں اور ایس او ایز کے شئیرز سٹاک ایکسچینج پر فلوٹ کئے جاتے ہیں تو افسر شاہی کے اوپری دولت مند حصے ان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے، وغیرہ؟ درحقیقت پچھلی تین دہائیوں میں ایسے بے شمار مالی اسکینڈلز سامنے آئے ہیں جو اسی سمت میں اشارہ کرتے ہیں۔ ان اسکینڈلز میں اس تمام عرصے میں چین کی ساری اعلیٰ قیادت (بشمول موجودہ صدر شی جن پنگ) کے براہ راست یا بالواسطہ طور پر (اپنے فرنٹ مینوں یا قریبی عزیزوں کے ذریعے) ملوث ہونے کی جانب اشارے ملتے ہیں اگرچہ معاملے کی حساسیت کے پیش نظر تفصیلی معلومات کی کمی ہے۔ چینی افسر شاہی میں آئے روز چلنے والی ”اینٹی کرپشن مہمات“ بھی چند بیوروکریٹوں کو قربانی کا بکرا بنا کر اس ضمن میں پڑنے والے سماجی دباؤ کو زائل کرنے کا ہی ایک بہانہ ہوتی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر افسر شاہی اپنی قانونی معاشی مراعات سے اکٹھی ہونے والی دولت سے قانونی طور بھی نجی ملکیت حاصل کرتی ہے تو بھی اس امر کو سماجی قبولیت حاصل نہیں ہے کیونکہ دوسری طرف یہی افسر شاہی عوام کی ”محافظ“ بن کر ”چینی خصائص کیساتھ سوشلزم“ کے گُن گا رہی ہوتی ہے۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ جہاں ایک طرف چین کا سرمایہ دار طبقہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر بن کر حکومتی اداروں کا حصہ بن رہا ہے وہیں دوسری طرف اگرچہ کہ بحیثیت مجموعی افسر شاہی، سرمایہ دار طبقے سے جدا سیاسی اقتدار اعلیٰ رکھنے والی ایک حکمران سماجی پرت کے طور پر وجود رکھتی ہے، لیکن اس کے بالائی حصے براہ راست یا بالواسطہ طور پر بھاری نجی ملکیت کے مالک بن کر بتدریج سرمایہ دار طبقے میں بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں۔

چینی سامراج

دنیا بھر کے محنت کشوں کے عظیم قائد اور نظر یہ دان لینن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”سامراج: سرمایہ داری کی آخری منزل“ میں سامراج کے پانچ بنیادی خصائص بتائے تھے یعنی سرمائے اور پیداوار کے ارتکاز کے نتیجے میں اجارہ داریوں کاظہور، بینکاری سرمائے اور صنعتی سرمائے کے ادغام کے نتیجے میں مالیاتی سرمائے کی تشکیل، محض اشیاء کی برآمد ہی نہیں بلکہ سرمائے کی برآمد اور اس کا غیر معمولی اہمیت اختیار کر جانا، عالمی سرمایہ دارانہ اجارہ داریوں کا قیام جنہوں نے دنیا کو آپس میں تقسیم کیا ہوا ہے اوربڑی عالمی سرمایہ دارانہ طاقتوں کے بیچ دنیا کی تقسیم (آج کے دور میں براہ راست قبضے کی بجائے مالیاتی، اسٹریٹیجک اور سیاسی دائرہ اثر۔ مصنف کا نوٹ)۔ اب اگر ہم سامراج کے ان پانچ بنیادی خصائص کے حوالے سے موجودہ چین کو پرکھیں تو یہ پانچوں خصائص ہمیں بدرجہ اتم اس میں نظر آتے ہیں۔ یہاں ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے کہ ہم چین کے حوالے سے علیحدہ علیحدہ ان سب پر بات رکھ سکیں لہٰذا ہم اپنی بحث کو ان میں سے ایک خصوصیت یعنی سرمائے کی برآمد تک ہی محدود رکھیں گے۔

امریکہ کے بیورو برائے اقتصادی تجزیہ، جو کہ ایک سرکاری ادارہ ہے، کی جانب سے کمپائل کئے گئے ڈیٹا کے مطابق 2005ء سے لے کر 2019ء تک چین نے دنیا بھر میں 1245 ارب ڈالر کی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی جس میں سے 51 فیصد یعنی 624 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری صرف شمالی امریکہ اوریورپ میں کی گئی۔ یاد رہے کہ یہ صرف براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی بات ہو رہی ہے اور اس میں نہ تو فارن پورٹ فولیو انویسٹمنٹ شامل ہے (بیرونی بانڈز اور سٹاکس میں سرمایہ کاری) اور نہ ہی انفراسٹرکچر کی مد میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری (جیسے کہ سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ کے دیگر منصوبے)۔ اگر ہم فارن پورٹ فولیو انویسٹمنٹ کی بات کریں تو چین کا شمار اس معاملے میں دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اس حوالے سے مکمل ڈیٹا تو موجود نہیں لیکن اگست 2022ء میں امریکہ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق چین نے 970 ارب ڈالر مالیت کے امریکی بانڈز خرید رکھے تھے اور وہ اس حوالے سے جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ اسی طرح اگر انفراسٹرکچر منصوبوں کے حوالے سے سرمائے کی برآمد کی بات کی جائے تو یونیورسٹی آف شنگھائی کی ایک ریسرچ کے مطابق 2013ء سے لے کر 2022ء تک چین بیلٹ اینڈ روڈپراجیکٹس کی مد میں 931 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے دے چکا ہے۔ 2022ء میں شائع ہونے والی آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 74 کم آمدنی رکھنے والے ممالک کے کل بیرونی قرضے کا 37 فیصد چین سے لیا گیا تھا۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بھی 30 فیصد بیرونی قرضہ چین سے لیا گیا ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی ورلڈ بنک کی ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چند سالوں سے چین کم آمدن والے ممالک کو انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لئے قرضے دینے کی بجائے ان کے مالیاتی خسارے پورے کرنے کے لئے قرضے دینے کو ترجیح دے رہا ہے اور اس وقت چین کی طرف سے دیے جانے والے بیرونی قرضوں کا 60 فیصد ایسے ممالک کو جا رہا ہے جنہیں ماضی میں (چین سمیت مختلف ذرائع سے) لئے گئے بیرونی قرضے اتارنے کے لئے نئے قرضے چاہئے ہیں۔ اسی حوالے سے اگست 2022ء میں بلوم برگ میگزین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان اور سری لنکا کو پچھلے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لئے 26 ارب ڈالر کے شارٹ اور میڈیم ٹرم قرضے دیے۔

اس بارے میں بات کو سمیٹتے ہوئے ہم جنوری 2021ء میں انسٹیٹیوٹ آف انٹر نیشنل فنانس کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا حوالہ دیں گے جس کے مطابق 2020ء کے وسط تک چین کی جانب سے دنیا بھر کو دیے جانے والے قرضوں (یعنی سرمائے کی برآمد) کا کل حجم 5.6 ٹریلین ڈالر ہو چکا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تقریباً یہ تمام سودی قرضے ریاست، ایس او ایز اور مکسڈ اونر شپ کمپنیوں کی جانب سے دیے گئے تھے۔ یہاں واضح رہے کہ ابھی اس خطیر رقم میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری اور بیرونی سٹاکس میں ہونے والی فارن پورٹ فولیو انویسٹمنٹ شامل نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان چینی قرضوں کا سود پوری دنیا کے محنت کشوں سے قدر زائد نچوڑ کر حاصل نہیں کیا جاتا؟ کیا جہاں چین نے براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کی ہے یا بیرونی سٹاکس خریدے ہیں، ان کمپنیوں کا منا فع وہاں کے محنت کشوں کے استحصال سے نہیں آتا؟ کیا اس منافع خوری سے چینی افسر شاہی اور سرمایہ دار طبقہ بھر پور انداز میں مستفید نہیں ہوتے؟ اور جب ایساہی ہوتا ہے تو پھر کیا کوئی مارکس وادی چین کو سامراج کے علاوہ کچھ اور کہہ سکتا ہے؟

چین کا طبقاتی کردار۔۔معاملے کی کُلیت

ہمارے خیال میں موجودہ چین کی ریاست، سماج اور معیشت کے مختلف پہلوؤں اور جزئیات پر کافی بحث ہو چکی ہے اور اب وقت ہے کہ ہم اس تمام تر بحث کو سمیٹتے ہوئے پورے معاملے کو ایک کلیت میں دیکھیں۔

ہمارے سامنے ایک ایسا سماج ہے جہاں واضح طور پر معیشت کا بہت بڑا حصہ نجی شعبے پر مشتمل ہے اور محنت کش طبقے کی ایک بھاری اکثریت کا روزگار بھی اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ کمانڈنگ ہائیٹس پر اگر چہ ایس او ایز کی اجارہ داری ہے مگر ان میں بھی اب نجی سرمائے کی قابل ذکر پیمانے پر مداخلت موجود ہے۔ مزید برآں یہ ایس اوایز بھی کوئی نام نہاد ”سوشلسٹ سیکٹر“ نہیں بلکہ کارپوریٹ کمپنیاں ہی ہیں جو منڈی کے تقاضوں کے مطابق آپریٹ کرتی ہیں۔ تقریباًتمام پیداوار کموڈٹی کریکٹر رکھتی ہے اور منڈی میں بیچنے اور منافع حاصل کرنے کی غرض سے کی جاتی ہے۔ قوت محنت کی بھی یونیورسل کموڈیفیکیشن موجود ہے۔ تمام قیمتوں کا تعین مارکیٹ میکینزم کے ذریعے ہوتا ہے اور معیشت میں ریسورس ایلوکیشن میں بھی قدر کا قانون یا مارکیٹ میکینزم کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ سماج میں امارت اور غربت کے بیچ زبردست تفاوت موجود ہے جو کہ کئی مغربی سرمایہ دارانہ ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ صحت، تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی انسانی ضروریات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر نجی سرمائے کی مداخلت ہے۔ نجی ملکیت رکھنے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اسے قانونی تقدس حاصل ہے۔ ریاست سرمائے اور محنت کے درمیان کسی بھی تنازعے میں ہمیشہ سرمائے کا ساتھ دیتی ہے اور پورے جبر کیساتھ سرمایہ دار طبقے کے مجموعی مفادات کی نگہبانی کرتی ہے۔ افسرشاہانہ حکمران پرت اور سرمایہ دار حکمران طبقے میں باہمی طور پر فائدہ مند گہرے دو طرفہ تعلقات موجود ہیں۔ جہاں ایک طرف سرمایہ دار طبقے کو ریاست کی جانب سے زبردست معاشی و سماجی مراعات سے نوازا جاتا ہے اور وہ مختلف سطحوں پر حکومتی فیصلہ سازی کا حصہ بھی بن چکا ہے وہیں افسر شاہی کے بالائی حصے بھی نجی شعبے میں براہ راست یا بالواسطہ طورپر موجود ہیں اور اس موجودگی سے قانونی و غیر قانونی معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ گو کہ بحیثیت مجموعی افسر شاہی ایک سماجی پرت ہے نہ کہ طبقہ لیکن اپنی سیاسی حاکمیت کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے افسر شاہی کے بالائی حصے قانونی و غیر قانونی طور پر بتدریج قابل ذکر پیمانے کی نجی ملکیت کے مالک بنتے جا رہے ہیں۔ آج کا چین سامراج کے پانچوں بنیادی خصائص رکھتا ہے اور خاص کر سرمائے کی برآمد ا ور نتیجتاً دنیا بھر میں محنت کشوں کے استحصال کے معاملے میں وہ اس وقت کئی ایک ”سکہ بند“ عالمی سرمایہ دارانہ طاقتوں سے بھی آگے کھڑا ہے۔

اب اگر ہم مندر جہ بالا تمام خصائص کو ایک مربوط کلیت میں دیکھیں تو موجودہ چین کو ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کسی صورت نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے ہی ”مکسڈ اکانومی“ جیسی پر فریب اصطلاحات کا استعمال دانشورانہ خصی پن کا شکار ”ریڈیکل“ پروفیسر حضرات کو تو زیب دیتا ہے لیکن مارکس وادیوں کو نہیں کیونکہ مارکسزم لینن ازم کے مطابق کوئی بھی مظہر چاہے جتنی بھی ”مکسڈ“ جزئیات رکھتا ہو، اس کی کلیت کے معیاری کردار کا تعین کرنا ہمیشہ ممکن ہوتا ہے۔ مگر چین کے معاملے میں تو جزئیات بھی واضح طور پر سرمایہ دارانہ ہیں۔ موجودہ چین کی صرف معیشت و سماج ہی سرمایہ دارانہ نہیں ہیں بلکہ ریاست بھی واضح طور پر بورژوا اور سامراجی کردار رکھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ گنجائش دی جا سکتی ہے کہ چین ایک سرمایہ دارانہ معیشت یا مارکیٹ اکانومی تو ہے لیکن امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسی ایک لبرل یا فری مارکیٹ اکانومی نہیں کیونکہ اس میں کلیدی شعبوں پر ابھی بھی ریاست کی اجارہ داری ہے، اگرچہ یاد رہے کہ ایک ”مکمل“ فری مارکیٹ اکانومی صرف ایم اے اکنامکس کی درسی کتب میں وجود رکھتی ہے نہ کہ حقیقی دنیا میں۔ لہٰذا اوپر کی تمام بحث کو نچوڑتے ہوئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ چینی معیشت ملکی و عالمی منڈی کے تقاضوں کے مطابق چلنے والی ریاستی سرمایہ داری ہے جس کی سیاسی حاکمیت ایک بورژوا اور سامراجی ریاست کے پاس ہے۔

چینی سرمایہ داری۔۔کچھ دیگر نکات

i۔) چین کا ”معاشی معجزہ“۔۔کیا واقعی؟

مارکیٹ ریفارمز کے بعد چینی معیشت کی تیز بڑھوتری نے بہت سے سنجیدہ بورژوا حلقوں کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی ایک بڑی تعداد کو بھی اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ ابھی ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کیا یہ تیز ترقی صرف مارکیٹ ریفارمز کا نتیجہ تھی یا اس میں منصوبہ بند معیشت سے ورثے میں ملی صنعتی، تکنیکی و ثقافتی بنیاد کا بھی ایک کلیدی کردار تھا۔ ہم فی الحال اس سے بھی زیادہ بنیادی سوال پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ 1978ء کے بعد چین کی معاشی ترقی کیا واقعی ایسی غیر معمولی ہے کہ اسے ”معجزہ“ کہا جا سکے۔ یہ سوال بورژوا حلقوں میں تو بہت ہی کم موضوع بحث بنتا ہے کیونکہ ان کے نزدیک تو 1978ء سے قبل کا چین ایک قحط زدہ ملک تھا جسے مارکیٹ ریفارمز نے ایک دیو ہیکل معاشی قوت بنا دیا۔ لیکن چینی افسر شاہی بھی اپنے تبدیل شدہ طبقاتی کردار کے کارن یہ سوال اٹھانے سے گریزاں نظر آتی ہے اور بائیں بازو کے ”چین پرست“ حلقے بھی کبھی اس پر توجہ نہیں دیتے۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے لازمی ہے کہ ہم انقلاب کے بعد 1949ء سے لے کر 1978ء اور پھر 1978ء کے بعد چین میں ہونے والی صنعتی و معاشی ترقی کا تقابلی جائزہ لیں۔ اس حوالے سے اعدادو شمار کی اگرچہ خاصی کمی ہے لیکن پھر بھی عرق ریزی سے کھنگالنے پر چین کی اپنی سرکاری دستاویزات اور کچھ مغربی تحقیقات میں کافی کچھ مل جاتا ہے۔

2017ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے چھپنے والے ایک ریسرچ آرٹیکل ”چین میں صنعتکاری“ کے مطابق 1952-65ء کے عرصے میں چین کے کل صنعتی آؤٹ پٹ کا اوسط سالانہ گروتھ ریٹ 12.3 فیصد رہا۔ 1965-78ء کے عرصے میں یہ 10.2 فیصد تھا جبکہ 1978-95ء کے عرصے میں یہ 11.6 فیصد اور 1995-2008ء کے عرصے میں یہ 13.8 فیصد تھا۔ اسی طرح اگر ہم چند ایک اہم صنعتی شعبوں کی بات کریں تو بجلی کی پیداوار 1952ء میں 7.3 بلین کلو واٹ آور سے بڑھ کر 1978ء میں 257 بلین کلو واٹ آور ہو گئی یعنی اس میں 35 گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ 1978ء سے لے کر 2008ء تک کے عرصے میں یہ 257 سے بڑھ 3496 بلین کلو واٹ آورہو گئی یعنی اس میں 13.6 گنا اضافہ ہوا۔ اسی طرح سٹیل کی پیداوار 1952ء میں 1.4 ملین ٹن سے بڑھ کر 1978ء میں 32 ملین ٹن ہو گئی یعنی اس میں 23 گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ 1978ء سے لے کر 2008ء تک کے عرصے میں اس کی پیداوار 32 سے بڑھ کر 503 ملین ٹن ہو گئی یعنی اس میں 16 گنا اضافہ ہوا۔ ایسے ہی اگر ہم سیمنٹ کی پیداوار کی بات کریں تو یہ 1952ء میں 3 ملین ٹن سے بڑھ کر 1978ء میں 65 ملین ٹن ہو گئی یعنی اس میں 22 گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ 1978ء سے لے کر 2008ء تک کے عرصے میں یہ 65 سے بڑھ کر 1424 ملین ٹن ہو گئی یعنی اس میں 22 گنا اضافہ ہوا۔ اسی تحقیق کے مطابق 1952ء میں چین میں مینوفیکچرنگ سے متعلقہ صنعتوں میں 5.3 ملین محنت کش کام کرتے تھے جبکہ 1978ء تک یہ تعداد بڑھ کر 53.3 ملین ہو چکی تھی یعنی اس میں 10 گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ 1978ء سے لے کر 2008ء تک کے عرصے میں یہ تعداد 53.3 سے بڑھ کر 126.3 ملین ہو گئی یعنی اس میں صرف 2.4 گنا اضافہ ہوا۔ ایسے ہی 1978ء تک چین میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سے وابستہ 700 سے زائد ادارے کام کر رہے تھے جن میں 5 لاکھ سے زائد سائنسدان اور انجینئرز کام کرتے تھے جن کا معیار تو یقیناً کم تر تھا لیکن ان کی تعداد کم وبیش امریکہ کے مقابلے پر تھی۔ ایسے ہی اگر سماجی ترقی کے حوالے سے دیکھا جائے تو 1949ء سے 1978ء تک کے عرصے میں چین میں اوسط متوقع عمر 36 سال سے بڑھ کر 66 سال ہو گئی جبکہ جنوبی کوریا میں یہ 65 سال، انڈیا میں 53 سال اور ایران میں 56 سال تھی۔

ایسے ہی چین کے نیشنل بیورو برائے شماریات سے حاصل کردہ اعدادوشمار پر مبنی ایک اور ریسرچ کے مطابق 1952ء سے لے کر 1978ء تک کے عرصے میں کیمیکل، پیٹرولیم اور کول مائننگ کے شعبے میں 14 فیصد اوسط سالانہ اضافہ ہوا جبکہ 1978ء سے لے کر 1997ء تک کے عرصے میں یہ 8 فیصد سالانہ رہا۔ اسی طرح مشینری اور ٹرانسپورٹ سازو سامان کی تیاری کے شعبے میں 1952ء سے لے کر 1978ء تک کے عرصے میں 19.2 فیصد اوسط سالانہ اضافہ ہوا جبکہ 1978ء سے لے کر 1997ء تک کے عرصے میں یہ 10 فیصد سالانہ رہا۔ بحیثیت مجموعی اگر بھاری صنعت کے شعبے کو دیکھا جائے تو 1952ء سے لے کر 1978ء تک کے عرصے میں اس میں 15.5 فیصد کا اوسط سالانہ اضافہ ہوا جبکہ 1978ء سے لے کر 1997ء تک کے عرصے میں یہ 9.34 فیصد سالانہ رہا۔ اسی طرح بحیثیت مجموعی کان کنی کے شعبے میں 1952ء سے لے کر 1978ء تک کے عرصے میں 12.3 فیصد اوسط سالانہ اضافہ ہوا جبکہ 1978ء سے لے کر 1997ء تک کے عرصے میں یہ صرف 3.56 فیصد سالانہ رہا۔ ایسے ہی چین کے اپنے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1949ء میں چین میں پکی سڑکوں کی کل لمبائی صرف 81 ہزار کلومیٹر تھی جو کہ 1978ء تک تقریباً 9 لاکھ کلومیٹر ہو چکی تھی یعنی ان کم و بیش تین دہائیوں میں اس میں 11 گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ 1978ء سے 2018ء تک کی چار دہائیوں میں یہ بڑھ کرتقریباً 49 لاکھ کلومیٹر ہو گئی یعنی اس میں 5.4 گنا اضافہ ہوا۔ اسی طرح 1949ء میں چین میں ریلوے ٹریک کی کل لمبائی محض 22 ہزار کلومیٹر تھی جس میں سے آدھا بالکل تباہ حال اور ناقابل استعمال تھا۔ 1978ء تک ریلوے ٹریک کی کل لمبائی 52 ہزار کلومیٹر ہو چکی تھی یعنی ان تین دہائیوں میں اس میں 4.7 گنا اضافہ ہوا۔ 1978ء سے 2018ء تک کی چار دہائیوں میں یہ بڑھ کر 1 لاکھ 32 ہزار کلومیٹر ہو گئی یعنی اس میں 2.5 گنا اضافہ ہوا۔ یہاں یہ بتانا بھی متعلقہ ہوگا کہ 1949ء سے لے کر آج تک چینی معیشت نے اپنے بلند ترین سالانہ حقیقی جی ڈی پی گروتھ ریٹ 21.3 فیصد (1958ء)، 18.2 فیصد (1964ء)، 16.9 فیصد (1969ء) اور 19.3 فیصد (1970ء) منصوبہ بند معیشت کے دور میں ہی حاصل کئے جبکہ مارکیٹ ریفارمز کے آغاز کے بعد چینی معیشت کی جانب سے حاصل کیا جانے والا بلند ترین گروتھ ریٹ 15.2 فیصد (1984ء) تھا۔ مزید برآں یہ بھی واضح رہے کہ منصوبہ بند معیشت کے دور میں چین کے جی ڈی پی گروتھ ریٹ کا دار و مدار کُلی طور پر حقیقی پیداوار پر تھا جس کے ٹارگٹس کا تعین بڑی حد تک عمومی سماجی و عوامی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جاتا تھا جبکہ سرمایہ دارانہ چین کے گروتھ ریٹ میں سٹاک ایکسچینج پر ہونے والی سٹے بازی سے لیکر پراپرٹی کے بلبلوں، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں نجی سرمایہ کاری، چین میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری، چین کی جانب سے سرمائے کی برآمد اور کینیشئین تجربے کے تحت قرضوں کا پہاڑ کھڑا کر کے پایہ تکمیل تک پہنچنے والے عوامی ترجیحات سے کٹے ہوئے (مثلاً انتہائی نگہداشت یونٹس والے ہسپتالوں کی شدید کمی کے باوجود ہائی اسپیڈ ریلوے نیٹ ورک کو ترجیح دینا) بے ہنگم انفراسٹرکچر منصوبوں کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ اور حتمی تجزئیے میں بورژوا چین کی یہ ساری ”ترقی“ چینی محنت کشوں اور عالمی مزدور طبقے کے زبردست استحصال کی بنیاد پر حاصل کی گئی ہے۔

یہاں واضح رہے کہ 1952-78ء یعنی منصوبہ بند معیشت کے عرصے میں چین کی یہ زبردست صنعتی ومعاشی بڑھوتری ذرائع پیداوار پر افسر شاہانہ جکڑ بندی، بد انتظامی اور ماؤ کی ”گریٹ لیپ فارورڈ“ جیسی حماقتوں کے باوجود حاصل کی گئی تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مندرجہ بالا اعدادو شمار کی روشنی میں 1978ء کے بعد چین کی معاشی و صنعتی ترقی کو کسی بھی طرح کوئی معجزہ کہا جا سکتا ہے؟ ان ٹھوس حقائق کی روشنی میں تو ہر گز نہیں۔ یہاں واضح رہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں بلاشبہ چین میں 1978ء کے بعد بھی بڑے پیمانے پر معاشی بڑھوتری ہوئی ہے مگر یہ کوئی ایسا معجزہ نہیں ہے جیسا کہ عموماً بتایا جاتا ہے اور منصوبہ بند معیشت نے بھاری صنعتوں، کیپیٹل گڈز کی پیداوار، کان کنی اور فزیکل انفراسٹرکچر جیسے شعبوں کو اس سے کہیں زیادہ بڑھوتری دی تھی۔ جبکہ 1978ء کے بعد ہونے والی معاشی بڑھوتری کا زیادہ تر دارومدار زراعت، کنزیومر گڈز بنانے والی لائٹ انڈسٹری (ٹیکسٹائل، لیدر گڈز، فوڈ پراڈکٹس، گھریلو الیکٹرانکس، پرسنل کمپیوٹرز کی اسمبلنگ وغیرہ)، بیرونی سرمایہ کاری کے تحت پنپنے والی صنعتوں جیسے کار سازی وغیرہ، رئیل اسٹیٹ کنسٹرکشن، ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ، اور سروسز (بینکاری، انشورنس وغیرہ) پر ہے۔ اسی طرح گو کہ 1978ء کے بعد چین کی معاشی ترقی متاثر کن ہے اور وہاں ذرائع پیداوار کی بڑے پیمانے پر بڑھوتری بھی ہوئی ہے لیکن عالمی معیشت کے نقطہ نظر سے اس بڑھوتری کا کردار بنیادی طورپر مقداری ہے معیاری نہیں کیونکہ چینی ریاست کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی بھی چین سائنس و ٹیکنالوجی (فزکس، بائیو میڈیکل سائنس، میٹالرجی، سیمی کنڈکٹرز، ایڈوانسڈ پروگرامنگ وغیرہ) میں مغربی سرمایہ دارانہ ممالک سے سالوں نہیں بلکہ دہائیوں پیچھے ہے اور ایسے ہی چینی معیشت کی مطلق افزودگی محن بھی دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔ اب یہ درست ہے کہ 1978ء سے قبل کا منصوبہ بند معیشت رکھنے والا چین سائنس، ٹیکنالوجی اور افزودگی محن میں مغربی سرمایہ دارانہ ممالک سے آج کے مقابلے میں بھی کہیں پیچھے تھا لیکن اس کے باوجود منصوبہ بند معیشت (جو واضح رہے کہ ابھی سوشلزم نہیں بلکہ اس کی جانب محض پہلا قدم تھی) موجودہ چینی سرمایہ داری کے مقابلے میں تاریخی طور پر ایک بلند تر سماجی و معاشی تشکیل تھی کیونکہ اس نے تمام تر ترقی ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت اور شعوری منصوبہ بندی (گو کہ افسر شاہانہ مسخ شدگی کیساتھ) کی بنیاد پر سماج میں طبقاتی استحصال کا خاتمہ کرتے ہوئے دی تھی۔

اسی طرح بائیں بازو کے بعض نوزائیدہ دانشور اُچھل اُچھل کر یہ دلیل دیتے نظر آتے ہیں کہ اگر چینی معیشت و ریاست سرمایہ دارانہ ہے تو پھر اس نے سرمایہ داری کے عالمی نامیاتی بحران کے باوجود اتنی تیز ترقی کیسے کر لی؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ چین نے مارکیٹ ریفارمز کا آغاز 1978ء میں کیا تھا جبکہ عالمی سرمایہ داری کے موجودہ نامیاتی بحران کا آغاز اس کے کوئی تین دہائیوں بعد 2008ء کے کریش سے ہوا تھا۔ اس بحران کے نتیجے میں چین کیسے متاثر ہوا؟ اس نے اپنے آپ کو بحران سے بچانے کے لئے کیا اقدامات کئے اور وہ کس حد تک کامیاب رہے؟ اس سب پر تفصیلی بحث ہم مزید آگے چل کر کریں گے لیکن اہم حقیقت یہ ہے کہ اگر چین کو 1978ء سے لیکر 2008ء تک کے عمومی سرمایہ دارانہ ابھار کی تین دہائیاں میسر نہ آتیں تو وہ کبھی ”دنیا کی فیکٹری“ بننے کا اعزاز حاصل نہ کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ اگر سرمایہ دارانہ چین حقیقی معنوں میں، یعنی صرف نومینل جی ڈی پی کی حد تک نہیں بلکہ فی کس سالانہ آمدن، تکنیکی برتری اور عالمی سامراجی اثر و رسوخ کے معنوں میں، امریکہ کو اوور ٹیک کرنا چاہتا ہے تو اسے عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کا ایک اور طویل ابھار درکار ہو گا جس کے فی الحال تو مستقبل بعید میں بھی کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔

ii۔) چین نے غربت کا خاتمہ کر دیا ہے

چینی قیادت کا یہ دعویٰ ہے کہ 1978ء میں شروع ہونے والی مارکیٹ ریفارمز کے نتیجے میں اب تک 80 کروڑ افراد کو انتہائی غربت سے باہر نکالا جا چکا ہے۔ واضح رہے کہ ورلڈ بنک بھی چینی قیادت کے اس دعوے کی بھر پور تائید کرتا ہے اور 80 کروڑ کایہ فگر ورلڈ بنک کی طرف سے مقرر کردہ (ستمبر 2022ء سے قبل) غربت کی انتہائی لکیر کے پیمانے، یعنی 1.90 ڈالرفی کس یومیہ سے کم آمدن، کے مطابق ہی نکالا گیا ہے۔ چینی افسر شاہی ان اعداد وشمار کو پوری دنیا میں اپنی پالیسیوں کی کامیابی کے حق میں ایک دلیل کے طور پر پیش کرتی ہے، بورژا دانشور مارکیٹ ریفارمز کے بعد غربت میں اتنی بڑی کمی پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ ”مارکس تو غلط ثابت ہو گیا!“ وہیں پاکستان جیسے ملکوں میں چین پرست بائیں بازو کے دانشور بھی بغیر سو چے سمجھے ”چینی سوشلزم“ کے حق میں یہی دلیل دیتے نظر آتے ہیں۔

اب پہلی بات تو یہ ہے کہ مارکس نے کبھی بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ایک ترقی کرتے سرمایہ دارانہ سماج میں مطلق غربت لازمی طور پر بڑھے گی بلکہ اس کا کہنا تھا کہ اگر ایسے سماج میں مطلق غربت میں کمی بھی واقع ہوتی ہے تو بھی محنت کش طبقے کی نسبتی غربت میں اضافہ ہو گا یعنی نئی تخلیق کردہ دولت میں جتنا حصہ محنت کش طبقے کو ملے گا، اس سے کہیں زیادہ سرمایہ دار طبقے کو ملے گا۔ چین میں امارت اور غربت کے تفاوت پر پہلے دیے گئے اعدادو شمار مارکس کے اس دعوے کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ موضوع تو ہمارے زیر بحث ہے ہی نہیں۔ ہمارا تو ماننا ہے کہ چین میں مطلق غربت میں کمی کے متعلق کیا جانے والا دعویٰ بھی اگر مکمل طور پر نہیں تو بڑی حد تک غلط ضرور ہے۔ واضح رہے کہ یہاں ہم چینی قیادت اور ورلڈ بنک کی جانب سے دیے جانے والے اعدادوشمار کی صحت و درستگی پر اعتراض ہر گز نہیں کر رہے۔ بلکہ ہمارا اعتراض تو اس یک رخے پیمانے پر ہے جس کے تحت مطلق غربت کو ماپا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسے ہی یک رخے پیمانوں کے تحت سوویت یونین میں غربت کی شرح کو امریکہ سے زیادہ ثابت کرنے کی بھی بے شمار کوششیں کی گئی تھیں۔ یہاں مسئلہ کیا ہے؟ اب مثال کے طور پر چین میں منصوبہ بند معیشت کے دور میں (کرنٹ ڈالر ایکسچینج ریٹ پر) کوئی مزدور 1 ڈالر یومیہ کماتا تھا تو وہ ورلڈ بنک کے اس پیمانے کی رو سے انتہائی غریب تصور ہو گا قطع نظر ان حقائق کے کہ اس کا روزگار مستقل تھا، کام کے اوقات کار کم تھے، وہ اور اس کے خاندان کی صحت، تعلیم اور رہائش ریاست کی ذمہ داری تھی، ریٹائر منٹ کے بعد اسے تمام عمر پنشن ملتی تھی، روز مرہ کی اشیائے صرف اور خوراک کی قیمت ریاست کی طرف سے متعین کردہ اور نہایت کم تھی، ٹرانسپورٹ اور تفریح جیسی سہولیات نہایت سستی تھیں، اور وہ ایک ایسے سماج کا باسی تھا جہاں روز اس کا جی جلانے کے لئے اس کی محنت کے استحصال سے امیر ہونے والے سرمایہ دار اپنی دولت کی نمائش نہیں کرتے پھرتے تھے۔ مگر اس کے برعکس آج کے چین میں 2 ڈالر یومیہ کمانے والا مزدور غریب نہیں مانا جائے گا، قطع نظران حقائق کے کہ اس کے روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، اوقات کار انتہائی طویل ہیں، اپنی اور اپنے خاندان کی صحت اور تعلیم جزوی طور پر اور رہائش مکمل طور پر اس کی ذاتی ذمہ داری ہے، ریٹائر منٹ کے بعد اسے یا تو کوئی پنشن نہیں ملے گی یا ملے گی بھی تو وہ دوران ملازمت اسی کی اجرت سے کاٹی گئی رقم پر مشتمل ہو گی، روز مرہ کی اشیائے صرف اور خوراک کی قیمتیں اب ماضی کے مقابلے میں نہایت بلند ہیں کیونکہ ان کا تعین منڈی کے میکینزم کے تحت ہوتا ہے جہاں ”جائز“ منافع خوری کے علاوہ ذخیرہ اندوزی اور سٹے بازی بھی بھر پورکردار ادا کرتے ہیں، ٹرانسپورٹ بھی ماضی کی نسبت مہنگی ہے کیونکہ ایس او ایز بھی اب کارپوریٹ ادارے ہیں جو منڈی کے مطابق چلتے ہیں، تفریح کا تو خیر ذکر ہی چھوڑیں، اور وہ ایک ایسے سماج کا باسی ہے جہاں امارت اور غربت کا تفاوت آسمان کو چھو رہا ہے اور اپنی کم مائیگی کا احساس اسے رات کو سونے نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نظر میں چین میں سرمایہ داری کے تحت غربت میں کمی کا نعرہ بھی ویسے ہی کھوکھلا ہے جیسے کہ سرمایہ داری کے تحت چین کا ”معاشی معجزہ“۔

iii۔) سرمایہ داری کا عالمی بحران اور چین

بائیں بازو کے ایسے حلقے جو چین کو ”سوشلسٹ“ سمجھتے ہیں، وہ تو سرے سے ہی اس بات کے انکاری ہیں کہ 2008ء سے شروع ہوکر اتار چڑھاؤ کیساتھ آج تک جاری عالمی سرمایہ دارانہ بحران نے چینی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ لیکن وہ جنہیں ”مکسڈ اکانومی“ جیسی اصطلاحات بہت پسند ہیں، ان کے نزدیک بھی کمانڈنگ ہائیٹس پر ایس او ایز کی اجارہ داری کوئی ایسی جادو کی چھڑی ہے جس نے چین کو عالمی معاشی بحران سے بڑی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔ لیکن چین نہ صرف دنیا کی دوسری بڑی سرمایہ دارانہ معیشت ہے بلکہ بحران سے قبل کے طویل عرصے میں اس کی معاشی ترقی کا بنیادی انحصار ہی صنعتی برآمدات پر رہا ہے یہاں تک کہ آج بھی یہ دنیا کی سب سے بڑی برآمدی معیشت ہے۔ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چینی معیشت سرمایہ داری کے عالمی بحران سے بڑے پیمانے پر متاثر نہ ہو۔ اس کا ایک اندازہ یہاں سے لگا یا جا سکتا ہے کہ عالمی بحران کے آغاز سے قبل 2007ء میں چینی جی ڈی پی کا سالانہ حقیقی گروتھ ریٹ 14.2 فیصد تھا جو کہ 2008ء سے کم ہوتے ہوئے 2019ء تک 6 فیصد تک آ چکا تھاجو کہ چینی معیشت کے حجم کے لحاظ سے بہت بڑی کمی ہے۔

اب پچھلی کم و بیش ڈیڑھ دہائی سے اتار چڑھاؤ کیساتھ جاری اس عالمی بحران کے دوران چین کی ریاستی سرمایہ داری اور امریکہ، یورپی یونین، جاپان وغیرہ جیسی لبرل فری مارکیٹ اکانومیز، دونوں نے ہی اپنے اپنے انداز اور صورتحال کے مطابق معیشت میں بڑے پیمانے پر ریاستی مداخلت کا سہارا لیا۔ اس کے نتیجے میں دونوں کو کسی حد تک اپنی اپنی طرز کے خمیازے بھگتنے پڑے لیکن یہ ریاستی مداخلت کہیں بھی بحران کا خاتمہ نہیں کر سکی۔ مثال کے طور پر برطانیہ، یورپی یونین اور بالخصوص امریکہ نے اپنی کرنسیوں کے انٹرنیشنل ٹریڈنگ اور ریزرو کرنسیاں ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے پیمانے پر ”مقداری آسانی“ (آسان ترین الفاظ میں نوٹ چھاپنے) اور تاریخی طور پر کم ترین شرح سود کا سہارا لیا جو ”فری مارکیٹ“ میں ریاستی مداخلت نہیں تو اور کیا ہے۔ مگر اس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف ان کے کل قرضوں (قومی/ریاستی/حکومتی، کارپوریٹ، گھریلو قرضہ جات سب ملا کر) میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، جیسے 2022ء میں امریکہ کا کل قرضہ جی ڈی پی کے 283 فیصد کے برابر ہو چکا ہے، وہیں دوسری طرف ان معیشتوں کو آج بلند افراطِ زر کا سامنا ہے۔ ایسے ہی چین نے بھی بحران سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے کی ریاستی مداخلت کا سہارا لیا اور غالباً تاریخ کے سب سے بڑے کینیشئین تجربے (جیسا کہ 1930ء کی دہائی میں ”گریٹ ڈپریشن“ کے دوران امریکہ، جرمنی، اٹلی سمیت کئی ممالک نے کیا تھا) کے تحت ریاست نے بڑے پیمانے پر فزیکل انفرا سٹرکچر کے منصوبوں کا آغاز کیا (زیادہ تر ایس او ایز کے ذریعے جو کہ پھر نجی کمپنیوں کو ذیلی ٹھیکے دیتی تھیں) تا کہ گروتھ ریٹ میں کمی کو روکا جا سکے اور یہ سلسلہ وقفے وقفے سے آج تک جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے نجی شعبے کو بھی سستے قرضوں سے نوازا گیا جبکہ چھوٹے و درمیانے نجی شعبے اور مقامی حکومتوں کی مالی ضروریات کے نتیجے میں ”شیڈو بنکنگ“ جیسا مظہر وجود میں آیا۔ ایسے ہی داخلی کھپت بڑھانے کی کوششوں کے نتیجے میں گھریلو قرضہ جات میں بھی بڑا اضافہ ہوا۔ اس سب کے نتیجے میں چین کے کل قرضوں کے حجم میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور وہ 2008ء میں چین کے جی ڈی پی کے 138 فیصد کے برابر ہونے سے بڑھ کر آج کم و بیش اس کے 290 فیصد کے برابر ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل چین کا کل قرضہ 1996ء میں جی ڈی پی کے 105 فیصد کے برابر ہونے سے بڑھ کر بمشکل 2008ء میں 138 فیصد کے برابر پہنچا تھا۔ ہاں، لیکن مغربی سرمایہ دارانہ معیشتوں کے برعکس چین کو آج بلند افراط ِزر کا سامنا نہیں ہے مگر اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ان معیشتوں کے برعکس چونکہ چینی جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ داخلی کھپت کی بجائے پیداوار اور برآمدات پر منحصر ہے لہٰذا چینی معیشت میں قومی بچتوں کی شرح مغربی معیشتوں کے مقابلے میں کہیں بلند ہے، لہٰذا چینی ریاست کو قرضے اٹھانے کے لئے زیادہ نوٹ نہیں چھاپنے پڑے اور اس نے زیادہ تر مجتمع شدہ قومی بچتوں سے یہ قرضے اٹھائے۔ یاد رہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ ممالک کے برعکس جاپان میں بھی تمام تر مقداری آسانی کے باوجود آج بھی افراط ِزر نہایت کم ہے اور اس کے قلابے بھی جاپان کے صنعتی پیداوار، برآمدات اور قومی بچتوں کی بلند شرح رکھنے والے معاشی ماضی میں پیوست ہیں۔ مزید برآں یہ بھی واضح رہے کہ عالمی منڈی کی گرتی کھپت اور تجارتی جنگوں جیسے عوامل کے کارن چینی برآمدات کو پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر اب چینی قیادت بھی گروتھ ریٹ بڑھانے کے لئے پچھلے کئی سالوں سے داخلی کھپت بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان مخصوص عوامل کے کارن چینی معیشت بے تحاشہ قرض اٹھانے کے باوجود بلند افراطِ زر سے تو بچ گئی مگر اسے اس بے ہنگم کینیشئین تجربے کی قیمت، خصوصاً بھاری صنعت کے شعبے میں، زائد پیداواری صلاحیت کے بحران کے مزید شدت اختیار کرجانے کی صورت میں چکانی پڑی جس کا ایک نتیجہ 2013ء سے 2018ء کے دوران صنعتی ایس او ایز میں 30 لاکھ نوکریوں کے خاتمے (یعنی 16 فیصد کی کمی) کی صورت میں بھی نکلا۔

اسی طرح بائیں بازو کے بہت سے دوست سٹاک مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لئے چینی ریاست کے مختلف اداروں کی جانب سے مشکلات کا شکار کمپنیوں کے شئیرز کی خریداری، ڈیفالٹ کے خطرے سے دو چار ایس اوایز اور بڑی نجی کمپنیوں کو ملنے والے ریاستی بیل آؤٹس کا بہت تذکرہ کرتے ہیں اور اسے کوئی خاص ہی چینی ریاست کا ”سوشلسٹ“ کارنامہ سمجھتے ہیں۔ مگر کیا ”مقداری آسانی“ کے تحت فیڈرل ریزرو کے ذریعے امریکی ریاست نے بھی بڑے پیمانے پر معیشت میں مداخلت کرتے ہوئے یہی سب نہیں کیااور فینی مے اور فریڈی میک جیسی انتہائی بڑی نیم ریاستی مارگیج کمپنیوں سے لے کر سٹی گروپ اور جنرل موٹرز تک درجنوں بڑے نجی بنکوں اور کمپنیوں کو ڈیفالٹ سے نہیں بچایا۔ ایسے ہی کیا جرمن حکومت نے کرونا وبا کے دوران بیل آؤٹ پیکج کے تحت قومی ائر لائن لفٹ ہنسا کے شئیرز خرید کر اسے ڈیفالٹ سے نہیں بچایا۔ اور ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن کا ذکر جگہ کی کمی کے باعث ہم یہاں نہیں کر سکتے۔اسی طرح بائیں بازو کے بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ چونکہ چین کے کل قرضوں کا ایک غالب ترین حصہ داخلی قرضوں پر مشتمل ہے اور یہ قرضے ریاستی بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور پنشن فنڈز وغیرہ سے اٹھائے گئے ہیں اور ان قرضوں کا لگ بھگ 60 فیصد اٹھایا بھی مرکزی ومقامی حکومتوں اورایس او ایز کی جانب سے گیا ہے لہٰذا ان کی ”خیر“ ہے اور چینی ریاست کو اس حوالے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں۔ لیکن قرضہ اگر کسی ایس او ای یا حکومت نے کسی ریاستی بنک سے بھی لیا ہے تو بھی اس کے سود کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے اور حتمی طور پر اسے واپس بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ریاستی بنک بھی ایک لسٹڈ مالیاتی کارپوریشن ہے اور اپنے ڈیپازٹ ہولڈرز اور شئیر ہولڈرز کو جواب دہ ہے۔ البتہ یہ درست ہے کہ داخلی قرضے اور اگر وہ ریاستی یا نیم ریاستی و حکومتی ذرائع سے حاصل کئے گئے ہوں تو ایک طاقتور بورژوا ریاست کے پاس انہیں ری اسٹرکچر کرنے اور وقتی طور پر بحران کو ٹالنے کی گنجائش موجود ہوتی ہے لیکن اس گنجائش کی بھی حدود وقیود ہیں اور نہ تو ہمیشہ کے لئے ایسا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی پوری معیشت کو ڈیفالٹ کے شدید خطرے سے دوچار کئے بنا اور زبردست سماجی دھماکوں کا خطرہ مول لئے بغیر ان قرضوں کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس ساری بحث کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی سرمایہ دارانہ ممالک کی طرح چین کے ان ریاستی قرضوں (حکومت، ایس او ایز سب ملا کر) اور ان کے سود کی ادائیگیوں کا بوجھ براہ راست اور بالواسطہ طور پر چین کے محنت کش طبقے پر ہی پڑرہا جبکہ ان قرضوں کی بدولت ہونے والی معاشی سرگرمیوں کا سب سے زیادہ فائدہ سرمایہ دار طبقے اور افسر شاہی کے بالائی حصوں نے اٹھایا ہے۔

اب ہمارا مدعا یہ ہے کہ چینی ریاست کی طرف سے اٹھائے گئے ان تمام اقدامات میں سے کیا ایسا ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود سے باہر ہے اور جو ایک مختلف طر یقہ کار سے امریکہ، برطانیہ، جاپان، یورپی یونین وغیرہ نے نہیں کیا۔ ایسے ہی چینی سرمایہ داری میں اس کی بورژوا ریاست کی بڑے پیمانے پر موجودگی اور مداخلت کوئی ایسی جادو کی چھڑی نہیں ہے جو حتمی تجزئیے میں چین کو بحران کے اثرات سے بچا سکتی ہے اور نہ ہی یہ امر صرف چینی ریاست تک محدود ہے۔ یہاں تک کہ آج بھی ریاستی اخراجات یعنی پبلک سپینڈنگ (سوشل سیکیورٹی، صحت، تعلیم، سبسڈیاں، ترقیاتی کام، دفاع وغیرہ) براہ راست اور بالواسطہ طور پر امریکہ جیسے ملک کے جی ڈی پی کا 34 فیصد اور فرانس کے جی ڈی پی کا 56 فیصد بناتے ہیں۔ ایک مکمل ”آزاد منڈی کی معیشت“ صرف بورژوا ماہرین اقتصادیات کے خیالوں میں وجود رکھتی ہے لیکن حقیقی دنیا میں منڈی کے خفیہ ہاتھ کو اکثر و بیشتر، اور خصوصاً بحرانوں میں، قومی ریاست کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہی امر سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کی بھی غمازی کرتا ہے کہ منڈی کی معیشت اس ڈھانچے (قومی ریاست) کے بغیر چل نہیں سکتی جو کب کا ذرائع پیداوار کی بڑھوتری میں ایک مطلق رکاوٹ بن چکا ہے۔

iv۔) لینن اور نیو اکنامک پالیسی (NEP)

بائیں بازو کے بعض حلقوں نے ”چینی خصائص کیساتھ سوشلزم“ کے لئے نظریاتی گنجائش نکالنے کے واسطے ایک نئی توجیح گھڑی ہے اور وہ ہے 1921ء میں لینن اور بالشویک پارٹی کی جانب سے سوویت روس میں لاگو کی جانے والی نیو اکنامک پالیسی۔ ان حضرات کے مطابق چونکہ لینن نے بھی نیپ کے تحت منڈی کی قوتوں اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ دار طبقے کو گنجائش دی تھی لہٰذا 1978ء کے بعد سے لے کر آج تک چینی قیادت کی جانب سے بھی ایسا ہی کیا جانا مارکسزم لینن ازم کے نقطہ نظر سے بالکل ٹھیک ہے۔ یہاں یاد رہے کہ 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین میں گوربا چوف کی جانب سے مارکیٹ ریفارمز کی کوششوں کا تاریخی و نظریاتی جواز بھی نیپ سے ہی لیا گیا تھا۔ یہ حضرات کبھی یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ لینن نے کہا تھا کہ سوویت روس میں سوشلزم تک پہنچنے کا راستہ نیپ کے تحت ریاستی سرمایہ داری سے ہو کر گزرتا ہے۔ درحقیقت لینن کی نیو اکنامک پالیسی کو اس کے تاریخی سیاق و سباق سے کاٹ کر اس کا موازنہ چین میں ہونے والی مارکیٹ ریفارمز اور ریاستی سرمایہ داری کی تخلیق سے کرنا پرلے درجے کی علمی و نظریاتی بد دیانتی ہے۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے لینن کے مطابق نیپ ایک مزدور ریاست کے تحت تخلیق ہونے والی ریاستی سرمایہ داری تھی۔ یعنی دوسرے الفاظ میں انقلاب کے بعد پرانی زار شاہی ریاست کو ملیا میٹ کر تے ہوئے محنت کشوں، چھوٹے کسانوں اور سپاہیوں کی پنچایتوں پر مشتمل ایک نئی ریاست تخلیق ہوئی تھی جس میں سیاسی اقتدار اعلیٰ مسلح پرولتاریہ اور اس کی نمائندہ پارٹی کے پاس تھا۔ مزید برآں اگرچہ یہ مزدور ریاست کچھ بیورو کریٹک خامیاں رکھتی تھی لیکن بحیثیت مجموعی یہ ابھی ایک صحت مند مزدور ریاست تھی جہاں خانہ جنگی کی تمام تر مشکلات و تباہ حالی کے باوجود بڑی حد تک مزدور جمہوریت رائج تھی۔ لینن اس ”مزدور ریاست“ کی عقابی نظر اور سنگین کے سائے تلے ریاستی سرمایہ داری کی تخلیق کی بات کر رہا تھا۔ اب کیا موجودہ چینی ریاست کا طبقاتی کردار بھی وہی ہے جو 1921ء میں سوویت روس کا تھا۔ اس سوال کا جواب ہم پہلے دی گئی بحث میں تفصیل سے دے چکے ہیں۔ لہٰذا موجودہ چین کی سر سے پیر تک بورژوا ریاست کے تحت چلنے والی ریاستی سرمایہ داری کا لینن کے دور کی مزدور ریاست کے تحت تخلیق ہونے والی ریاستی سرمایہ داری کے ساتھ موازنہ کرنا صریح علمی بد دیانتی نہیں تو اور کیا ہے۔ مزید برآں لینن نے کبھی بھی نیپ کو ”۔۔۔خصائص کیساتھ سوشلزم“ نہیں قرار دیا تھا بلکہ اس نے کھل کر اعتراف کیا تھا کہ یہ ایک ”اسٹریٹیجک پسپائی“ ہے اور سماج کی سوشلسٹ تنظیم نو کی طرف بڑھنے سے پہلے مجبوری کے تحت پیچھے کی جانب اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔

لیکن آخر لینن، ٹراٹسکی اور دیگر بالشویک قیادت نیو اکنامک پالیسی لاگو کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟ آج بائیں بازو کے بعض حلقوں میں نیو اکنامک پالیسی کو منصوبہ بند معیشت کے مقابلے میں سماج کی سوشلسٹ تعمیر کے لئے باقاعدہ ایک طے شدہ ”ماڈل“ بنا دیا گیا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ لینن، ٹراٹسکی اور بالشویک قیادت پہلے کسی قبل از وقت طے شدہ پالیسی کے طور پر ”جنگی کمیونزم“ کے تحت بہت بائیں طرف چلے گئے تھے اور پھر انہیں اپنی ”غلطی“ کا احساس ہوا اور انہوں نے ”معتدل“ راستہ اختیار کرتے ہوئے نیپ کو لاگو کیا۔ در حقیقت یہ سب بالکل جھوٹ ہے اور تاریخی حقائق سے نابلد لوگوں کو گمراہ کرنے اور سوشلزم میں سرمایہ داری کی گنجائش نکالنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔ در حقیقت نہ تو جنگی کمیونزم کوئی پہلے سے طے شدہ پالیسی تھی اور نہ ہی نیپ۔ یہ دونوں پالیسیاں بدلتے حالات کے جبر نے مسلط کی تھیں۔ انقلاب کے بعد 1918ء تا 1921ء سامراجی ممالک اور رجعتی شاہ پرست وائیٹ گارڈ کی طرف سے مسلط کی گئی خانہ جنگی کے دوران بالشویک حکومت کو فوجی مجبوریوں کے تحت جنگی کمیونزم کی پالیسی اپنانی پڑی اور اس پالیسی نے نوزائیدہ مزدور ریاست کے دفاع میں بلاشبہ ایک اہم کردار ادا کیا۔ مگر ساتھ ہی اس ایمر جنسی پالیسی کے کارن بہت سے سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل بھی پیدا ہوئے (جن کی تفصیل ہم اپنی دیگر تحریر وں میں دے چکے ہیں) اور خاص کر زرعی پیداوار میں بڑے پیمانے کی گراوٹ ہوئی۔ مزید برآں 1921ء کے وسط تک خانہ جنگی تو تقریباً جیتی جا چکی تھی مگربدقسمتی سے وارسا کے محاذ پر سرخ فوج کی شکست، نوزائیدہ ہنگرین سوویت ریپبلک کے انہدام، 1919ء کے جرمن اور 1920ء کے اطالوی انقلاب کی ناکامی نے عالمی انقلاب کو وقتی تعطل کا شکار کردیا تھا اور انقلاب ایک تباہ حال اور پسماندہ روس میں تنہا رہ گیا تھا، جہاں صنعت اور خصوصاً زراعت مکمل برباد ہو چکی تھی اور ہر طرف قحط اور وبائیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ وہ حالات تھے جن کے جبر کے تحت تباہ حال اور تنہا مزدور ریاست نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے پیداوار کو بحال کرنے اور عالمی انقلاب کی اگلی اٹھان تک خود کو قائم رکھنے کی خاطر نیپ کے تحت منڈی کے رشتوں کو جزوی طور پر بحال کیا اور ریاستی سرمایہ داری کے ذریعے ملکی وعالمی سرمایہ داروں کو کچھ گنجائش دینے کی پالیسی اپنائی۔ اگر کوئی شخص لینن، ٹراٹسکی اور دیگر بالشویک قیادت کے معاشی، زرعی و صنعتی پالیسیوں کی جانب حالات کے جبر کی بجائے شعوری طور پر اختیار کردہ رجحان کو جاننا چاہتا ہے تو یہ اسے جنگی کمیونزم اور نیپ میں نہیں ملے گا۔ یہ اسے اکتوبر 1917ء سے لے کر 1918ء کے وسط میں خانہ جنگی کے آغاز سے پہلے تمام سامراجی و داخلی قرضوں کی ضبطگی، تمام کمانڈنگ ہائیٹس آف اکانومی کی نیشنلائزیشن اور ان پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول، تمام زرعی زمین کی نیشنلائزیشن اور استعمال کے غرض سے اس کی مزارعوں میں تقسیم، فروری 1920ء میں شدید خانہ جنگی کے دوران بھی سوویت روس کی مکمل برق کاری کے منصوبے (گوئیلروپلان) کے آغاز، نیپ کے لاگو کئے جانے سے بھی قبل فروری 1921ء میں سٹیٹ پلاننگ کمیشن (گوسپلان) کے قیام، دسمبر 1922ء میں گوسپلان کے اختیارات میں اضافے، اپریل 1923ء میں رشین کمیونسٹ پارٹی کی بارہویں گانگریس میں ٹراٹسکی کی جانب سے ”تھیسز آن انڈسٹری“ کی صورت میں ایک ہمہ گیر منصوبہ بند معیشت کا پہلا تفصیلی خاکہ پیش کئے جانے جیسے اقدامات اور دستاویزات میں ملے گا۔

نیپ نے اگرچہ سوویت معیشت کو وقتی طور پر سہارا دیا تھا اور اس کے تحت خاص کر زرعی پیداوار میں قابل ذکر اضافہ ہوا تھا مگر لینن اور ٹراٹسکی بخوبی سمجھتے تھے کہ یہ پالیسی (خصوصاً دیہاتوں میں) بورژوا عناصر کی بڑھوتری کا سبب بن رہی ہے اور اگر معاملہ یونہی چلتا رہا تو یہ عناصر بہت جلد طاقتور ہو کر سوویت اقتدار کے لئے خطرہ بن جائیں گے۔ مگر نیپ سے مصنوعی طور پر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے لازمی تھا کہ سوویت ریاست کے صنعتی شعبے کو تیز ترین منصوبہ بند بنیادوں پر تعمیر کیا جائے اور خصوصاً بھاری صنعتوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی جائے۔ گوسپلان کے قیام کے ذریعے لینن اور ٹراٹسکی یہی سب کرنا چاہ رہے تھے۔ مگر 1924ء میں لینن کی وفات کے بعد سوویت یونین کے مخصوص مادی و ثقافتی حالات اور انقلاب کی عالمی تنہائی کے کارن سٹالن کی قیادت میں افسر شاہی کی اقتدار پر گرفت، افسر شاہی کی اپنی مخصوص عملیت پسندانہ کوتاہ نظری کے تحت نیپ کو جاری رکھنے کی حمایت اور منصوبہ بندی کی مخالفت، ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کی جانب سے نیپ کے خاتمے اور منصوبہ بند معیشت کے قیام کی خاطر کی جانے والی جدوجہد، سٹالن اور بخارن (جو 1928ء سے قبل سٹالنسٹ ٹولے کا نظریہ دان تھا) کی جانب سے نیپ کو جاری رکھنے کی حمایت اور ٹراٹسکی پر صنعتی مہم جو ہونے کی الزام تراشی، 1928ء کے اوائل میں ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کو جلا وطن کئے جانا اور اسی سال کے وسط تک نیپ کے تحت تخلیق ہونے والے بورژوا عناصر کا انقلاب کو گردن سے دبوچ لینا، تب کہیں جا کر افسر شاہی کا اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر ہوش میں آنا اور ایک زبردست عملیت پسندانہ یو ٹرن لیتے ہوئے پہلے پانچ سالہ منصوبے کا آغاز کرنا، یہ سب ایک طویل داستان ہے جس کی تفصیلات ہماری دیگر تحریر وں میں موجود ہیں۔ لیکن قصہ مختصر یہ کہ یہ نیپ نہیں بلکہ منصوبہ بند معیشت تھی جس نے دو دہائیوں کے مختصر عرصے میں سوویت یونین کو عالمی سامراجی ناکہ بندی کے باوجود دنیا کی دوسری بڑی صنعتی و فوجی سپر پاور بنا دیا تھا۔

اب ہمارا چین پرست دوستوں سے سوال ہے کہ کیا 1978ء میں چین کے حالات اور 1921ء میں سوویت روس کے حالات، جن کے تحت مجبوراً نیپ لاگو کی گئی، میں کوئی ذرا سی بھی مماثلت ہے جس کی بنیاد پر آپ چینی افسر شاہی کے ڈینگ ژیاؤ پنگ دھڑے کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی مارکیٹ ریفارمز کا جواز لینن کی نیو اکنامک پالیسی میں تلاش کرتے ہیں۔ اچھا چلیں، جو ہوا سو ہوا۔ مگر آج کا چین تو کہیں سے بھی کوئی پسماندہ ملک نہیں ہے، لہٰذا آج تو منڈی اور نجی ملکیت کو گنجائش دینے کا کوئی ذرہ برابر بھی جواز نہیں بچتا تو پھر آج کیوں ہر گزرتے سال کیساتھ یہ مزید سرمایہ دارانہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں کوئی واقعی سمجھدار شخص ہمیں یہ کہہ سکتا ہے کہ بھئی آپ کی یہ ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن آپ خود بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 1970ء کی دہائی تک چین کی منصوبہ بند معیشت افسر شاہانہ جکڑبندی کے کارن بد نظمی سمیت دیگر کئی مسائل کا شکار ہو چکی تھی اور ویسے بھی ایک جدید اور پیچیدہ ہوتی صنعتی معیشت کو چلانا افسر شاہانہ منصوبہ بندی کے تحت ممکن نہیں، تو پھر ایسے میں اگر افسر شاہی کا سنجیدہ دھڑا مارکیٹ ریفارمز کا راستہ اختیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟

مزدور جمہوریت اور عالمی انقلاب

یقینا افسر شاہی کا یہ سنجیدہ دھڑا تو مارکیٹ ریفارمز کے علاوہ اور کچھ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھاکیونکہ ان کے پاس احتیاط کیساتھ بتدریج کی جانے والی مارکیٹ ریفارمز کے علاوہ کوئی اور ایسا طریقہ نہیں تھا جس کے ذریعے وہ اپنی آمرانہ سیاسی حاکمیت کو برقرار رکھتے ہوئے پیداواری قوتوں کو مہمیز دے سکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مارکس وادیوں کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ بلاشبہ ایک اور راستہ تھا۔ مارکس اور اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کا راستہ۔ انقلاب روس 1917ء کی حقیقی روایات کا راستہ۔ ذرائع پیداوار، منصوبہ بندی اور تقسیم کار پر محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول پر مبنی مزدور جمہوریت اور عالمی انقلاب کا راستہ۔ ذرا سوچئے کہ اگر اس وقت چین کے طاقتور محنت کش طبقے کے پاس ایک حقیقی بالشویک قیادت موجود ہوتی تو وہ افسر شاہی کیخلاف ایک سیاسی انقلاب (کیونکہ ذرائع پیداوار ابھی اجتماعی ملکیت میں تھے) برپا کرتے ہوئے ایک صحت مند مزدور ریاست تخلیق کر سکتے تھے جو نہ صرف چین میں جمہوری منصوبہ بند ی کے ذریعے پیداواری قوتوں کو زبردست مہمیز دیتی بلکہ قومی تنگ نظری کو توڑتے ہوئے سوویت یونین سے لے کر مشرقی بلاک اور شمالی کوریااور ویتنام سے لے کر کیوبا تک ہر جگہ افسر شاہیوں کے جبر سے تنگ آئے محنت کشوں سے اپنے نقش قدم پر چلنے کی اپیل کرتے ہوئے ایک متحد رضاکارانہ عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کی جانب آگے بڑھتی جو پھر بقیہ ماندہ سیارے پر ایک سوشلسٹ انقلاب اور عالمی سوشلسٹ سماج کے قیام کی جانب بھی پہلا قدم ہوتا۔ واضح رہے کہ امریکی سامراج یا عالمی سرمایہ دار طبقہ اس راستے کی سب سے آخری رکاوٹ تو تھا مگر پہلی نہیں۔ بلکہ یہ مسخ شدہ مزدور ریاستوں، خصوصاً چین اور سوویت یونین پر قابض افسر شاہیاں تھیں جو اپنے سیاسی و قومی مفادات اور معاشی و سماجی مراعات کے تحفظ کے لئے اس کی سب سے پہلی دشمن ثابت ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مخصوص وقت پر، اپنے آمرانہ اقتدار کو قائم رکھنے ہی کی خاطر، سوویت یونین کی سٹالنسٹ، چین کی ماؤ اسٹ اور دیگر افسر شاہیوں نے منصوبہ بند معیشت رائج کرتے ہوئے ذرائع پیداوار کو بڑھوتری دینے میں جزوی طور پر ایک ترقی پسندانہ کردار ادا کیا مگر جلد ہی یہ افسرشاہانہ جکڑ بندی اور قومی ریاست کی حدود و قیود منصوبہ بند معیشت کی مزید ترقی کی راہ میں مطلق رکاوٹ بن گئیں اور ان افسر شاہیوں کا کردار یکسر اپنے الٹ میں بدل گیا اور انہوں نے مارکیٹ ریفارمز کی راہ لی۔ اسی لیے تاریخی اعتبار سے سٹالنزم اور ماؤ ازم کا کردار رد انقلابی اور مزدور دشمن تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ان دونوں کا حتمی انجام کار سرمایہ داری کی طرف واپسی میں ہوا۔

آج اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں چین دنیا کی دوسری بڑی سرمایہ دارانہ معیشت بن چکا ہے۔ مگر اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ دنیا کے سب سے طاقتور اور دیو ہیکل پرولتاریہ کا ملک ہے۔ چینی افسر شاہی لمبے عرصے تک اس دیو ہیکل پرولتاریہ کو قابو میں نہیں رکھ سکتی۔ جلد یا بدیر یہ انقلابی تحرک میں آئے گا اور اس وقت اگر اس کے پاس مارکسزم لینن ازم کے نظریات و پروگرام اور اکتوبر انقلاب 1917ء کی حقیقی روایات سے لیس ایک بالشویک انقلابی قیادت ہوئی (جسے آج تعمیر کرنا پڑے گا) تو یہ چین میں سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کو بدل کر رکھ دے گا۔

Comments are closed.