چین: بائیں بازو سے وابستہ نوجوان کی غربت کے ہاتھوں موت پر شدید غم و غصہ

|تحریر: سیما ہی، ترجمہ: یار یوسفزئی|

21 جنوری 2021ء کو ایک نوجوان محنت کش، جو ویڈیو شئیرنگ کی مشہور چینی ویب سائٹ ’بیلی بیلی‘ پر ایک چھوٹا سا چینل چلاتا تھا اور خاندانی جھگڑوں، بیماری اور اپنے مالک کے ساتھ تنازعے میں گھرا ہوا تھا، شدید غربت کی حالت میں جان کی بازی ہار گیا۔ وہ اپنے کرائے کے فلیٹ میں فاقہ کشی کی حالت میں مرا اور اس کی موت کا کئی دنوں بعد پتہ چلا جب مالک مکان نے اسے مردہ حالت میں پایا۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

جیسے ہی اس کی موت کی خبر پھیل گئی تو مختلف مشہور ویب سائٹس، جیسے ’بیلی بیلی‘، ’چی ہو‘ (بحث و مباحثے کیلئے مشہور ویب سائٹ) اور ’وائبو‘ (میسینجر ایپ) پر اس حوالے سے بحث چھڑ گئی۔ ایک ہی دن کے اندر بیلی بیلی پر موجود اس کے چینل کے فالوورز کی تعداد 200 سے 5 لاکھ تک پہنچ گئی، جو دو دن بعد 13 لاکھ 10 ہزار ہو گئی۔ ’چی ہو‘ پر اس کا نام سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے موضوعات میں دوسرے نمبر پر آ گیا اور صارفین اس نوجوان کی موت پر رنج و غم کا اظہار کرتے رہے۔ صارفین میں سے ایک نے اس کی المناک زندگی اور موت کا موازنہ بدحال ڈچ فنکار ونسنٹ وین گو کے ساتھ کیا، جس نے غربت اور گمنامی میں زندگی گزاری تھی اور جسے موت کے بعد ہی شہرت نصیب ہوئی تھی۔ صارف کا کہنا تھا کہ:

”وین گو کے غم و غصّے کی تب تک کوئی قدر نہیں تھی، جب تک کہ وہ زمین کے چھے فٹ نیچے دفن نہیں کیا گیا۔“

واقعے کی تفصیل

مختصر یہ کہ سرمایہ داری نے اس نوجوان لڑکے کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور حکمران طبقہ حسبِ معمول لا پرواہی سے دیکھتا رہا۔ اس استحصالی نظام نے موچا کے خاندان، روزگار اور ذاتی زندگی کو بدحالی کا شکار کیا اور اسے بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بقا کی جدوجہد پر مجبور کر دیا۔ ایک لمبے عرصے سے جاری نام نہاد ”شدید غربت کے خاتمے کی مہم“ اور ”بنیادی سوشل سیکیورٹی“ جیسے چینی حکومت کے اقدامات اس بد قسمت نوجوان کو کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے۔

موچا، جس کا اصل نام چن سونگ یانگ تھا، 5 اپریل 1998ء کو صوبہ سیچوان کے گاؤں لیانگ شان میں پیدا ہوا، جو چین کے غریب ترین خطوں میں سے ایک ہے۔ وہ تین سال کا تھا جب اس کے والدین کی آپس میں طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد پالنے کی ذمہ داری قانوناً اگرچہ ماں کو ملی تھی مگر اس نے بچپن کا زیادہ تر حصّہ دادا، دادی کے ساتھ گزارا۔ شروع میں اس کے خاندان کی گزر بسر ہو جاتی تھی، مگر جب اس کی دادی بیمار پڑ گئی تو حالات بدل گئے۔ انٹرنیٹ پر اس کے دوستوں کے مطابق اس کی دادی کے علاج کا خرچہ اٹھاتے اٹھاتے اس کے والدین دیوہیکل قرضوں میں دھنس چکے تھے۔ اس کے بعد موچا اور اس کے والدین کے بیچ دوریاں بڑھنے لگیں اور آخرکار وہ اکیلے زندگی گزارنے لگا۔ کچھ لوگوں کے مطابق اس کے والدین قرض دہندگان سے چھپنے کے لیے الگ ہوئے تھے۔

Muocha grab 1

موچا نامی یہ نوجوان لمبے عرصے سے انتہائی غربت میں زندگی گزار رہا تھ، جس کے نتیجے میں وہ جسمانی طور پر بھی بہت زیادہ کمزور ہو چکا تھا۔ اس کی موت بھی بھوک کی وجہ سے جنم لینے والی بیماری سے ہوئی۔

وہ ٹریڈ سکول میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پایا اور اس کو سکول چھوڑنا پڑا۔ اس نے گزر بسر کے لیے اپنی ماں سے اخراجات مانگے مگر وہ اس کی مدد نہیں کر پائی، جس کے بعد اس نے 2016ء میں 18 سال کی عمر میں خود ہی کام کاج ڈھونڈنا شروع کیا۔ اس دوران وہ لمبے عرصے تک انٹرنیٹ کیفے پر وقت گزار کر روزگار کی تلاش میں لگا رہا۔ ’کیو کیو میسنجر‘ پر وہ چنگ یو نام استعمال کرتا رہا، اور اپنے دوستوں سے قرض لے کر گزارا کرتا رہا، جو وہ مالی مشکلات کی وجہ سے کبھی لوٹا نہیں پایا۔ پورا سال بدحالی میں گزار کر وہ آخرکار 2017ء میں کام کے لیے چینگدو شہر چلا گیا۔

چینگدو میں کام کرتے ہوئے وہ مزید غربت کا شکار ہوا۔ موچا کے پاس نہ تجربہ تھا اور نہ ہی اس کے پاس سکول کا کوئی ڈپلومہ تھا، جس کی وجہ سے اسے شدید استحصال کا سامنا رہا۔ اسے 800 یوان (تقریباً 120 ڈالر) کی ماہانہ اجرت پر بندرگاہ میں سامان لادنے کی مزدوری ملی، جو کہ اس سال چینگدو میں قانونی طور پر کم از کم اجرت کا آدھا حصّہ تھا۔ 500 یوان (تقریباً 80 ڈالر) فلیٹ کے کرائے میں چلے جاتے، جس کے بعد باقی اخراجات کے لیے محض 300 یوان (تقریباً 45 ڈالر) بچ جاتے۔ چینگدو ایک بڑا شہر ہے، جہاں پر اخراجاتِ زندگی دیہات کی نسبت زیادہ ہیں۔ 300 یوان پر تین وقت کا کھانا بھی نہیں کھایا جا سکتا۔ موچا کو ہر روز درکار خوراک حاصل کرنے میں مشکل درپیش تھی۔ فاقہ کشی اور سخت محنت نے اس کی حالت برباد کر دی اور اسے معدے کی بیماری لاحق ہو گئی۔

اپریل اور مئی 2018ء کے دوران موچا اپنے مالک سے لمبے عرصے کی غیر ادا شدہ اجرت حاصل کرنے کی تگ و دو میں رہا۔ اس کے بعد مالک نے اس کا شناختی کارڈ ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے نوکری سے فارغ کر دیا۔ روزگار کھونے کے بعد موچا کو کچھ مجرموں نے بھی ٹھگ لیا۔ ایک انجان شخص نے ہوابی (علی بابا کی ایک ایپلیکیشن، جو کریڈٹ کارڈ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے) پر اس سے 300 یوان دھوکے کے ذریعے چھین لیے۔ وہ ہوابی کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔ ان مشکلات سے گزر کر موچا کا طبقاتی شعور تیزی کے ساتھ جاگنے لگ گیا۔ وہ انٹرنیٹ پر بائیں بازو کے خیالات کا اظہار کرنے لگا۔ اس کی کئی ویڈیوز، مضامین اور کمنٹس کو آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

جیسے جیسے فلیٹ کا غیر ادا شدہ کرایہ بڑھتا رہا اور موچا مزید جسمانی مشقت کے قابل نہیں رہا، اس نے واپس گاؤں میں اپنے گھر جانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہاں سے کچھ امداد حاصل کر سکے۔ البتہ اس کے پاس سفر کے اخراجات نہیں تھے اور اس کے لیے اس نے انٹرنیٹ پر اپنے دوستوں سے مدد مانگی۔ آخرکار وہ گھر جانے کا خرچہ جمع کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے یہ پیسے قرضے کے طور پر لیے تھے اور اپنی بچی کھچی عزت بچانے کی خاطر دوستوں سے وعدہ کیا تھا کہ اسے جوں ہی کوئی روزگار ملا تو وہ یہ پیسے واپس کر دے گا۔ ظاہر ہے کہ وہ اس قرض کو کبھی نہیں لوٹا پایا۔ کئی دوستوں کو علم تھا کہ وہ یہ قرض کبھی واپس نہیں کر پائے گا مگر اس کے باوجود انہوں نے اس کی مالی امداد کی۔ پھر بھی کچھ دوست ایسے تھے جنہوں نے قرض واپس نہ کرنے پر موچا سے دوستی ختم کر دی۔

Hospital records Imae public domain

ہسپتال کا ریکارڈ جو موچا نے شیئر کیا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’’1. Fibrosarcoma carina (nose) – hospitalised – recovered 2. Diabetes mellitus type 2 – clinically unconfirmed – unrecovered 3. liver functionality damage – clinically unconfirmed – unrecovered‘‘

لمبے عرصے تک موچا کو معدے کی بیماری لاحق تھی اور دوستوں کے کہنے پر اس نے مقامی ہسپتال میں علاج کروانے کا فیصلہ کیا۔ مگر کچھ غیر ادا شدہ قرضوں کی وجہ سے اسے چین کے نیشنل ہیلتھ کیئر سیکیورٹی کے تحت علاج کروانے کی اجازت نہیں ملی۔ چنانچہ اسے اپنی جمع پونجی اور دوستوں کی امداد کے ذریعے علاج کروانا پڑا۔ مقامی ہسپتال سے پتہ چلا کہ اسے گیسٹرائٹس اور السر کی بیماری ہے۔ وہ زیادہ عرصے تک ہسپتال کے خرچے برداشت نہیں کر سکتا تھا اور کچھ دنوں ڈرپ لگوانے کے بعد جلد ہی گھر لوٹ گیا۔ خوش قسمتی سے گاؤں والوں نے اس سے قرض واپس کرنے کا مطالبہ نہیں کیا۔

اس کے دوستوں نے بنیادی ضروریات کے لیے ریاستی امداد حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔ موچا نے جواباً وضاحت کی کہ اس نے خود ہی یہ بات دریافت کی تھی کہ وہ یہ امداد حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ ظاہری لحاظ سے جسمانی طور پر ٹھیک بندہ ہے۔ وہ بیماری کی وجہ سے مزید غربت میں گرتا جا رہا تھا مگر اس کی مدد کرنے کوئی نہیں آیا۔ اس کے علاوہ ریاستی امداد حاصل کرنے کے لیے گاؤں کی کمیٹی اور پولیس سٹیشن کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے (جہاں گھرانوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے)، جس کے لیے شناختی کارڈ چاہیئے ہوتا ہے، جو اس کے پچھلے مالک نے پھاڑ دیا تھا۔

2019 ء کے اندر موچا کو پتہ چلا کہ وہ ایک زمانے میں جس گھر میں رہا تھا، اسے گرایا جا رہا تھا (چینی قوانین کے مطابق دادا، دادی کا گھر اسے وراثت میں ملنا چاہیئے تھا)، اور یہ کہ حکومت اسے 3 لاکھ یوان (تقریباً 46 ہزار ڈالر) کا ہرجانہ دے گی۔ وہ سوچنے لگا کہ اب مشکل دن ختم ہونے جا رہے ہیں مگر اس کے رشتے دار وہاں پر وارد ہوئے اور اسے گھر سے نکال باہر کیا، جو اس کی واحد رہائش تھی۔ اس کے خاندان (اس کے والد سمیت) نے آ کر کچھ لوگوں کی مدد سے اسے مارا پیٹا۔

Muocha Image

بائیں جانب: ہسپتال کے بلز، جن میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک ایک کر کے گولیاں خرید رہا تھا کیونکہ اکٹھی خریدنے کے پیسے اس کے پاس موجود نہیں تھے۔ دائیں جانب: بلی بلی ایپ پر موچا موچا کی پوسٹس (پہلی میں لکھا ہے: آج رات میں نے صرف آدھا گھنٹہ سٹیرمنگ کی ہے۔ درمیان میں مجھے کمپیوٹر سکرین کئی بار حد سے زیادہ چمکتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر میرا سر میز پر جا گرا۔ کچھ دیر کے لیے میں بے ہوش ہوگیا۔ خیر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اگلی بار میں زیادہ محتاط رہوں گا)۔ دوسری پوسٹ میں لکھا ہے: (میں اپنی زندگی کے آخری دن کھل کر جی رہا ہوں)۔

اس صورتحال میں موچا نے مجبوراً وہاں کے کاروباری علاقے میں کرائے پر فلیٹ لے لیا۔ وہ دن کو دس گھنٹے کام کرتا اور شام کو اپنے ’بیلی بیلی‘ کے چینل پر دو سے چار گھنٹوں تک لائیو آتا (اس عرصے میں وہ زیادہ تر ویڈیو گیمز کے متعلق ویڈیوز بناتا)۔ اس عرصے میں وہ صرف نوڈلز پر ہی گزارا کرتا رہا کیونکہ وہ سستے ہوتے ہیں۔ 2020ء میں پابندی لگنے سے پہلے اس کے فالوورز کی تعداد 10 ہزار تک پہنچ چکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے حالات بدل جائیں گے۔ اس عرصے میں اس نے اپنا قرض چکانا شروع کر دیا تھا۔ البتہ اس پر بعد میں پابندی لگائی گئی، کیونکہ اس نے روس کے اکتوبر انقلاب کی یاد میں اور بائیں بازو سے متعلق دیگر ویڈیوز اپلوڈ کی تھیں، جس کے بعد اسے نئے سرے سے شروع کرنا پڑا۔ جنوری 2020ء میں موچا روزگار کے لیے صوبہ سیچوان کے شہر شیکچانگ منتقل ہو گیا۔

وباء شروع ہونے کے بعد موچا کو کوئی روزگار نہیں ملا۔ دوستوں کے مشورے پر اس نے گزر بسر کے لیے ورچول لائیو سٹریمر (وی ٹیوبر) بننے کا فیصلہ کیا۔ دوستوں کی مدد سے موچا نے کمپیوٹر اور دیگر لوازمات کا اہتمام کیا اور ’بیلی بیلی‘ پر وی ٹیوبنگ کا آغاز کر دیا۔ اپنی بقا کی خاطر اس نے بائیں بازو سے متعلق مواد اپلوڈ کرنا چھوڑ دیا اور محض مشہور ویڈیو گیمز تک خود کو محدود کیے رکھا۔ اسے ماضی کی نسبت بہت کم مقبولیت اور فالوورز ملے۔ وہ کھانے میں نوڈلز، چاول اور فروٹ کا استعمال کرتا رہا اور کبھی کبھار وہ منڈی میں پھینکی گئی سبزیاں بھی اٹھا لاتا۔ جلد ہی اس کی صحت بگڑنے لگی اور وہ بھاری جسمانی مشقت کے قابل نہیں رہا۔ یہ کافی قابلِ غور بات ہے کہ اس قسم کی سخت محنت اور مسلسل جدوجہد کے باوجود بھی یہ نوجوان جیسے جیسے مزید محنت کرتا گیا، ویسے ویسے وہ غریب سے غریب تر ہوتا گیا۔

جون کے مہینے میں معلوم ہوا کہ اس کی ناک میں ٹیومر ہے۔ اگست میں ٹیومر کی وجہ سے اس کی آنکھیں متاثر ہونے لگیں، جو شدید تکلیف کا باعث بنا۔ اس کے دوست میساکا ایلییچ نے سوشل میڈیا پر لوگوں سے اس کی مدد کرنے کی درخواست کی۔ اکتوبر اور نومبر کے بیچ موچا پر اکثر بے ہوشی طاری ہو جاتی اور اسے شدید ذیابیطس کی وجہ سے مسلسل پیاس لگی رہتی اور بڑے پیمانے پر پانی پینے کی ضرورت پڑتی۔ اس کے باوجود وہ ہر دم روزگار کی تلاش میں لگا رہا مگر ناکامی کی صورت میں آخرکار دوستوں سے مالی امداد لینے پر مجبور ہو گیا۔ پھر اس نے سیچوان کے پنچیہوا ہسپتال (Panzhihua) میں ناک کی ٹیومر کا علاج کروایا، جس پر اس کی ساری جمع پونجی خرچ ہو گئی۔ یہاں تک کہ وہ اپنی دوائیوں کی محض ایک ایک گولی خرید پاتا اور ہسپتال کو ابھی 2 ہزار یوان ادا کرنا باقی تھا۔ بعض ریاستی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے باپ نے آپریشن کی فیس جمع کرا دی تھی، اگر یہ سچ ہے تو پھر اس کا اکاؤنٹ بیلنس منفی میں کیوں تھا؟ یہ بات بھی ناممکن دکھائی دیتی ہے کہ وہی باپ مشکل وقت میں موچا کی مدد کرنے آئے گا جس نے اسے غنڈوں کے ذریعے مار پیٹ کر گھر سے بے دخل کر دیا تھا۔

موچا کی زندگی کی آخری سردی خاص کر بہت مشکل گزری۔ اس کے پاس نہ گرم کپڑے تھے اور نہ ہی کافی خوراک، اور وہ شدید بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے چند سستی دوائیاں ہی خرید پاتا جن کی قیمت 1.8 یوان (تقریباً 0.28 ڈالر) تھی۔

Residence Image public domain

موچا کی رہائش۔

دسمبر میں آخرکار موچا ہمت ہارنے لگا۔ ہر جانب تہواروں، دعوتوں اور کھانوں کا دور تھا، جو اس کی استطاعت سے باہر تھا۔ موسم سرما کی تہواروں کے دوران اس نے لکھا کہ اسے اس سے پہلے علم نہیں تھا کہ کوئی شخص ایسا بھی ہوگا جو شمالی چین میں ڈمپلنگ (ایک قسم کی خوراک) کھانے کے رواج کا خرچہ بھی نہ اٹھا پائے۔ مر جانے سے ایک ہفتہ قبل اس نے لکھا کہ اس کا سٹرابیری کھانے کا بہت دل کر رہا ہے مگر اسے خرید نہیں پا رہا۔ سب سے بری بات یہ تھی کہ 17 دسمبر کے بعد وہ جو کچھ بھی کھاتا پیتا، اس کے بعد اسے الٹی ہو جاتی کیونکہ وہ کھانا ہضم نہیں کر پاتا۔ بالآخر 22 سال کی عمر میں غربت کی بیماری سے وہ اپنی جان گنوا بیٹھا، یہ عمر انیسویں صدی کے برطانوی محنت کشوں کی اوسط عمر کا آدھا حصّہ ہے۔ اس کی موت کی وجہ ڈائیبیٹک کیٹو ایسیڈوسس بتائی گئی، جو فاقہ کشی کے سبب لاحق ہوئی تھی۔ بہ الفاظ دیگر وہ فاقہ کشی کی حالت میں مرا۔

Muocha kitten 2 Image

موچا کی موت سے پہلے کی چند پوسٹس (بائیں جانب: میں نے آپ سب کو سوشل میڈیا پر پکوڑے کھاتے دیکھا ہے۔ مگر میں ان سردیوں کے سولسٹائس میں پکوڑے نہیں کھا پایا۔ بلکہ مجھے پہلی بار اس روایت کا پتہ چلا۔)۔۔۔(دائیں جانب: میرا سٹرابریز کھانے کا بہت دل کر رہا تھا۔ مگر اس منہوس بیماری کی وجہ سے میں جو کچھ بھی کھاتا ہوں وہ الٹی کی صورت میں نکل جاتا ہے۔ میرا بہت ہی زیادہ دل کر رہا تھا سٹرابریز کھانے کو۔ افسوس کہ میں انہیں خرید نہیں سکتا۔ ۔۔ایک کمنٹ میں لکھا ہے: میں نے موچا کو سٹرابریز بذریعہ پوسٹ بھجوائی تھیں مگر افسوس کہ وہ اسے وقت پر نہ مل پائیں)۔

موچا کی وفات کے بعد عوامی ردعمل اور ریاستی جبر

موچا جنوری 2021ء میں مر گیا۔ اس وقت اس کے فالوورز کی تعداد چند سو تھی۔ مگر 25 فروری تک اس کے فالوورز 15 لاکھ تک پہنچ چکے تھے۔ ’چی ہو‘ کے جس تھریڈ میں اس کی موت سے قبل والی حالت پر بحث کی گئی تھی، اسے 2 کروڑ لوگوں نے دیکھا۔

1000 followers

100 فالورز ہو جانے کے بعد موچا کا ردعمل۔

چین میں انٹرنیٹ کے صارفین موچا کی موت پر بحث مباحثے کرنا شروع ہو گئے، جسے ریاست نے شاید اپنی نام نہاد ”غربت ختم کرنے والی پالیسیوں“ کی توہین سمجھا۔ بلاشبہ اس واقعے نے اس جھوٹ کا پردہ چاک کر دیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت میں لوگ دن بہ دن خوشحال ہوتے جا رہے ہیں۔ موچا کو مرنے سے پہلے حکومت کی جانب سے پابندیوں، اکاؤنٹس کے خاتمے اور جبری طور پر خاموش کرائے جانے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس کی موت کی تصدیق کے چند دنوں بعد، جب لوگوں نے اس کے حق میں آواز بلند کرنا شروع کی تو حکومت کے نمائندہ نجی میڈیا نے مرنے سے قبل موچا کی حالت کے بارے میں جھوٹ پھیلانے کی کوشش کی۔

کچھ ریاستی میڈیا نے اس المناک حادثے کو دھندلانے کی کوشش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ غربت کے خاتمے کی پالیسیاں اب بھی جاری ہیں اور یہ کہ موچا کا خاندان اچھی صحت کے ساتھ خوشحالی کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ چین میں عموماً سب کچھ خوش آئند اور ٹھیک ٹھاک ہے؛ یہ تو مرحوم کی شخصیت دنیا سے باغی تھی جو ”جرائم“ میں بھی ملوث رہا تھا (جرم سے مطلب شاید اپنی اجرت کا مطالبہ کرنا تھا)، اور اپنا گھر چھوڑ کر بھاگ گیا تھا جس کا پتہ اس حادثے کے بعد چلا۔ کچھ دیگر ذرائع نے موچا کی موت کی سماجی وجوہات سے توجہ ہٹانے کے لیے اس کے ذاتی خاندانی مسائل کو اچھال اچھال کر پیش کیا۔

کچھ رپورٹوں میں اتنی واہیات غلط بیانی کی گئی (خاص کر سیچوان آبزرور نیوز کی رپورٹ) کہ ان مقامات کو ہی تبدیل کر دیا گیا جہاں پر یہ واقعات پیش آئے تھے۔ دیگر، جیسا کہ ایج نیوز، نے اتنی لاپرواہی سے غلط بیانی کی کہ ان کے بیانات دوسرے مقامی اور ریاستی میڈیا کی رپورٹس کے بھی بالکل مخالف تھیں۔

Screengrabs Image public domain

موچا مخالف پراپیگنڈہ۔۔شہہ سرخی: موچا کی زندگی کو دوسرا پہلو؛ وہ مختلف جرائم میں ملوث تھا اور اس چکر میں کئی بار گرفتار ہو چکا تھا۔

موچا پر لگائے گئے بہتان بے بنیاد ہیں۔ اس کے دوستوں اور اس کی بنائی گئی ویڈیوز کے مطابق وہ بالکل بھی دنیا ترک کرنے والا باغی انسان نہیں تھا، بلکہ وہ محض اپنے خاندان کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنانے میں ناکام رہا تھا۔ وہ ایک بیس سالہ جوان لڑکا تھا جس نے سکول کی تعلیم بھی پوری نہیں کی تھی، اور اسے کئی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس کے باوجود وہ خاندان کی مدد کے بغیر زندہ رہنے کی جدوجہد کرتا رہا۔

ایک فرانسیسی لکھاری رومین رولینڈ نے لکھا تھا کہ: ”دنیا میں حقیقی بہادری محض یہی ہے کہ دنیا کو اسی طرح دیکھا جائے جیسی کہ وہ ہے اور اس سے محبت کی جائے۔“ بے پناہ مشکلات کے دوران زندگی کی جانب موچا کا رویہ بالکل اس قسم کی بہادری کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید برآں وہ محض سرمایہ داری کا خاموش شکار نہیں بنا بلکہ بائیں بازو سے وابستہ ایک انقلابی تھا۔ ’بیلی بیلی‘ پر اس کے سات اکاؤنٹس تھے، جس میں سے چھے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ان میں سے ایک اکاؤنٹ کا نام تھا: ”ورکر آف دی ریڈ سٹار ریپبلک فیڈریشن“۔ آج بھی ہم اس کے مرکزی اکاؤنٹ ’ٹی‘ پر اس کے بیدار ہوتے طبقاتی شعور، سرمایہ دارانہ سماج سے شدید نفرت اور سرمایہ داری کے حامیوں سے گہری دشمنی واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

موچا کے سانحے کی اہمیت

مارکس وادی انقلابیوں کے لیے موچا کی کیا اہمیت ہے؟ ظاہری بات ہے کہ محنت کش طبقہ اور دیگر لوگ موچا کے ساتھ اس کی تکلیفوں کی وجہ سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں چین کے اندر موچا جیسے سخت محنت کرنے والے مزدوروں کا انجام زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے۔ دسمبر کے مہینے میں بجلی کی مصنوعات تیار کرنے والے کارخانے چانگ شو میں محنت کشوں نے اجرتوں کے حوالے سے مطالبہ کیا۔ جنوری میں پنڈوڈو (زرعی ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی کمپنی) کے عملے کا رکن 60 گھنٹے مسلسل کام کرنے کے بعد اچانک مر گیا۔ جنوری میں ڈیلیوری کرنے والے محنت کش نے سوژوو (شنگھائی کے قریب واقع شہر) کے اندر اجرت کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجاً خود سوزی کر لی۔

مذکورہ واقعات ان جرائم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جن میں چینی سرمایہ داری ملوث ہے۔ چین کے نوجوانوں کو انہی مسائل کی بنیاد پر اس نظام پر سوال اٹھانا پڑے گا کہ اس قسم کے واقعات آخر کیوں رونما ہو رہے ہیں؟ وہ ریاست جو خود کو آئین کے پہلے آرٹیکل میں سوشلسٹ ظاہر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتی ہے کہ یہاں پر عوام کی جمہوری آمریت قائم ہے، جس کی قیادت مزدور طبقہ کر رہا ہے اور جس کی بنیاد مزدور کسان اتحاد پر مبنی ہے، اتنی رجعتی کیسے بن گئی؟ کیا مزدور یونینز اور مزدور قوانین محض نمائش کے لیے بنائے گئے ہیں؟ منافعے افسر شاہی اور سرمایہ داروں کی جیبوں میں ہی کیوں جاتے ہیں، جبکہ محنت کش فاقوں پر مجبور ہو رہے ہیں؟ اگر محنت کش واقعی میں سماج کی قیادت کر رہے ہیں اور ریاست ان کی محافظ ہے، تو پھر وہ کسی قسم کی سماجی امداد سے محروم کیوں ہیں؟

Screengrabs 2 Image public domain

موچا کی وفات سے پہلے اس کی کی گئی چند باتیں۔ ٹی اس کا اصل اکاؤنٹ تھا۔ ’’جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ سادہ سی بات ہے جسے ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ ’استحصال جائز ہے جبکہ اس کے خلاف بغاوت جرم‘ کیا آپ کو لگتا ہے کہ کوئی ہمیشہ غلام رہ سکتا ہے؟ کیا آپ یہ بھول گئے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام ہمیشہ کچھ عرصے بعد معاشی بحرانوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس بات پر اتنا یقین کیوں ہے کہ آپ کی حالت ان ایک چوتھائی امریکیوں جیسی نہیں ہوگی جو گریٹ ڈپریشن میں انتہائی تباہ حال زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ جرمنی اور جاپان نے معاشی بحران سے نکلنے کیلئے جنگ کا استعمال کیا، آپ کو اس بات پر اتنا یقین کیوں ہے کہ آپ بھی ان کی طرح بلا وجہ میدان جنگ میں نہیں مارے جائیں گے؟ کیا آپ کو واقعی لگتا ہے کہ غلام رہنے سے ہی استحکام ممکن ہے؟‘‘

دلچسپ بات یہ تھی کہ موچا کی موت کے بعد ’چی ہو‘ پر ’دن میں آٹھ گھنٹے کام‘ کی بحث سرچ کیے جانے والے موضوعات میں دوسرے نمبر پر پہنچ گئی۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ موچا جیسے سانحے کس طرح محنت کش طبقے کے اوپر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ محنت کش طبقہ مزید بورژوازی کے پنجرے میں مقید نہیں رہ سکتا، نہ ہی وہ جبری طور پر کام کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ جوں جوں بورژوازی کی جانب سے جبر میں اضافہ ہوگا، چین کے اندر بڑے پیمانے پر طبقاتی شعور بھی توں توں بیدار ہوتا جائے گا۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے بورژوازی منہ نہیں موڑ سکتی۔

جہاں تک غربت کے خاتمے کی نام نہاد پالیسیوں کی بات ہے، اس کے پیچھے چین کا یہ مقصد کارفرما ہے کہ چین کے قدر زائد میں سے کچھ حصّہ غریب علاقوں میں انفراسٹرکچر تعمیر کرنے پر لگایا جائے تاکہ زائد پیداوار کے بحران کو ٹالا جا سکے۔ مگر یہ اصلاح پسند پالیسی اس ناگزیر معاشی بحران سے چین کو نہیں بچا سکتی جو سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے امیر افراد کو امیر تر ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ نہ ہی اس طریقے سے غربت کی اصل وجہ یعنی سرمایہ داری کو مٹانا ممکن ہے۔ ان پالیسیوں کے ذریعے بڑھتی ہوئی نا برابری اور غربت کے مسائل کو ختم نہیں کیا جا سکتا جس سے اکثریتی آبادی دو چار ہے، پرولتاریہ کی سماجی حیثیت تبدیل کرنا یا ان کو اجازت دینا کہ سماج کو اپنے مفاد کے تحت چلائے، تو بہت دور کی بات ہے۔

اگر ہم چین کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام حاصل شدہ معاشی، تکنیکی اور تعمیراتی معجزات کے پیچھے تمام شعبوں کے محنت کش ہی تھے، نہ کہ وہ افسر شاہی جو سرمایہ داری کی محافظ بنی ہوئی ہے۔ ان موٹے خنزیروں کو یہ دعویٰ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں کہ ملک کے معاشی معجزات کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا، جنہوں نے امریکی ریاست کے گرین کارڈ حاصل کیے ہوئے ہیں اور جنہوں نے بیرونی ممالک میں دولت کے بڑے بڑے انبار لگا دیے ہیں۔ اس حوالے سے تو یہ حقیقی معنوں میں قوم پرست بھی نہیں ہیں جس کا وہ جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔

بہرحال محنت کش طبقے کا کوئی وطن نہیں ہوتا، افسر شاہی کے ساتھ مشترکہ مفاد تو دور کی بات۔ محنت کشوں کو قومی تجدیدِ نو جیسے سرابوں کا شکار بالکل نہیں ہونا چاہیئے، جو حکمران طبقہ ان کے اوپر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ہم اس سماج کو بدلنا چاہتے ہیں جس پر بورژوازی اور افسر شاہی کی حکمرانی قائم ہے، تو مارکسزم کے نظریات انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کے لیے ایک ضروری ہتھیار ہے۔ ہمیں یکجہتی کے ذریعے متحد ہو کر اس سماج میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی خاطر لڑنا پڑے گا! صرف انقلابی سوشلزم اور مزدور جمہوریت کے ذریعے ہی ایک ایسی دنیا کو تخلیق کیا جا سکتا ہے جہاں پر ان خیالات کو پروان چڑھایا جائے جس کا دفاع موچا اپنی زندگی میں کرتا رہا تھا۔

(اس مضمون کا زیادہ تر حصّہ انٹرنیٹ کے صارفین، جیسا کہ میساکا الییچ، موچا اور دیگر کی مہیا کی گئی معلومات پر مشتمل ہے۔ بعض حوالہ جات مین سٹریم پریس سے اخذ شدہ ہیں۔ انٹرنیٹ کے صارف ”k2e4z7x9“ نے بھی اس مضمون کی تحقیقات کے حوالے سے ضروری مدد فراہم کی ہے۔)

Comments are closed.