پاکستان: گرتی معیشت اور اُبھرتی عوامی مزاحمت

|تحریر: ولید خان|

موجودہ صورتحال

موجودہ نگران حکومت اور نام نہاد SIFC (خصوصی سرمایہ کاری معاون کونسل) کے تمام بلندوبانگ دعوے اور جھوٹے وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ اس سے پہلے تیرہ چور پارٹیوں کا اکٹھ PDM (پاکستان ڈیموکریٹک الائنس) اپنی حکومت کے اٹھارہ مہینوں میں جھوٹ اور فریب کی آڑ میں قانونی چالبازیوں کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور ملکی و عوامی وسیع تر مفاد کی گھٹیا اصطلاح کے پیچھے چھپ کر عوام پر بدترین معاشی حملے کرتا رہا۔ PDM حکومت نے اس سال بجٹ پیش ہونے سے پہلے IMF کے ساتھ انتہائی سخت شرائط پر ایک 3 ارب ڈالر کا ایمرجنسی سٹینڈ بائی معاہدہ کیا تھا۔ یہ معاہدہ IMF کے ساتھ 2019ء میں کئے جانے والے تین سالہ معاہدے کے اہداف پورے نہ کر پانے اور دیوالیہ سے بچنے کے لئے کیا گیا اور ماضی کی طرح اس معاہدے کے تحت بھی پاکستانی عوام پر بدترین معاشی حملے کئے جا چکے ہیں۔

اگر صرف اس ایک سال 2023ء میں ریاست کی جانب سے عوام پر ہوشرباء معاشی حملوں کا جائزہ لیا جائے تو اب تک بجلی کی فی یونٹ قیمت 9 روپیہ بڑھائی جا چکی ہے جبکہ دیگر ٹیکسوں کی بھرمار علیحدہ ہے۔ اس کے ساتھ گیس کی قیمتوں میں 193 فیصد تک اضافہ کیا جا چکا ہے۔ یکم جنوری سے اب تک پیٹرول کی قیمتیں 214.80 روپیہ فی لیٹر سے بڑھ کر 281.34 روپیہ فی یونٹ ہو چکی ہیں جبکہ ستمبر میں یہ قیمتیں تاریخی 331 روپیہ فی لیٹر تک بھی پہنچ گئی تھیں۔ دسمبر 2022ء میں ایک ڈالر 226 روپیہ کا تھا جبکہ آج اس شرح تبادلہ کو انتظامی اقدامات کے ذریعے مصنوعی طور پر 285 روپے پر قائم رکھا جا رہا ہے۔ جبکہ کچھ مہینوں پہلے یہ شرح تبادلہ تاریخی 345 روپیہ فی ڈالر تک جا پہنچی تھی۔

ان عوامل نے مہنگائی کا ایسا طوفان برپاء کر رکھا ہے جس میں عوام کو ایک لمحہ سکھ کا سانس میسر نہیں ہے۔ اس وقت مانگے تانگے، رول اوور اور دیگر ذرائع سے جمع شدہ زر مبادلہ کے ذخائر 12 ارب ڈالر کی سطح پر اکھڑی سانسیں لے رہے ہیں۔ حکومت کے اپنے مطابق سارا سال اوسط افراط زر 30-35 فیصد رہا ہے اور اب حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پچھلے مہینے CPI انڈیکس 42 فیصد رہا ہے۔ یعنی محتاط اندازوں کے مطابق بھی اشیائے خوردونوش اور دیگر بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں صرف اس ایک سال میں کئی سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ مجموعی طور پر توانائی اور اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافوں، بالواسطہ ٹیکسوں، بے لگام افراط زر، کرنسی کی قدر میں گراوٹ وغیرہ نے مجموعی طور پر عوام کی جیبوں سے ہزاروں ارب روپیہ لوٹ لیا ہے اور عوام کی ایک وسیع آبادی کی زندگی تباہ و برباد کر کے رکھ دی ہے۔ خود سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 35 فیصد پاکستانی انتہائی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ اس میں آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن بیروزگاری، صحت و تعلیم کی گرانی، اجرتوں میں افراط زر کے مطابق اضافہ نہ ہونا اور دیگر معاشی عوامل کو مدنظر رکھا جائے تو 80 فیصد سے زیادہ پاکستانی عوام سخت معاشی حالات، غربت اور لاچارگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ پچھلے 76 سالوں میں IMF کے 23 پروگراموں اور حالات زندگی میں بہتری کے دعوؤں کی یہ اصل حقیقت سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقے کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

حکمران طبقے کا انتشار

پاکستان کا بانجھ اور طفیلیہ حکمران طبقہ اور اس کی ریاست اس وقت مکمل طور پر اندرونی خلفشار اور فالج کا شکار ہے۔ عالمی سامراجی قوتوں کی کاسہ لیسی میں سرحدی چوکی اور بھاڑے کے قاتل کا کردار ادا کرنے والی ریاست کی اب سامراجیوں کو کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ ایک طرف امریکی سامراج کی توجہ دیگر عالمی اور اندرونی معاملات میں پھنسی ہوئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس سابق چوکیدار کو خطے میں ابھرتی نئی قوت بھارت کے ماتحت کر کے جان چھڑائی جائے تو دوسری طرف چین بھی اس بھوکے ننگے بھکاری سے تنگ آ چکا ہے۔ پھر مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں اور دیگر نام نہاد دوستوں کو بھی اس ڈوبتی کشتی کی پیوندکاری میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ اس سب کی بنیاد بدلتا عالمی منظر نامہ ہے جس میں ایک طرف شدید عالمی معاشی بحران ہے جو سرمایہ داری کے اپنے حکمت کاروں کے مطابق اگلے سال ایک نیا معیاری مرحلہ عبور کر کے کساد بازاری برپاء کرنے جا رہا ہے اور دوسری طرف اس ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے ورلڈ آرڈر کا انہدام ہے جس میں سامراجیوں اور علاقائی بدمعاشوں کی ترجیحات اور اتحاد مسلسل عدم استحکام اور تبدیلیوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔

اس انتشار کا ایک اظہار ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ سے جاری روس-یوکرین جنگ اور اب دو مہینوں سے زیادہ عرصہ سے جاری فلسطین اسرائیل جنگ میں ہو رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسے تکنیکی، سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ ملک کی کسی کو کوئی خاص ضرورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو بھی نیا وقتی علاقائی اتحاد تشکیل ہو اس میں یہ ریاست ہرکارے یا نائب قاصد کا کردار ادا کرتی رہے۔ اس ضمن میں کوئی ہلکی یا بھاری بیرونی سرمایہ کاری اور تکنیکی مہارت نہیں دی جائے گی بلکہ انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھ کر بس اتنی دوائی دی جاتی رہے گی کہ مریض کا دم نہ ٹوٹ جائے۔ اگرچہ ترجیحات کی تبدیلی کے نتیجے میں مریض کو مرنے یا دوسرے الفاظ میں دیوالہ ہونے بھی دیا جا سکتا ہے تاکہ زیادہ سخت ترین شرائط کے ساتھ زیادہ سے زیادہ غلامی پر مجبور کیا جائے۔ دہشت گردی اور جوہری ہتھیاروں کے ذریعے دنیا کو بلیک میل کرنے کا ہتھیار بھی ناکارہ ہو چکا ہے اور اب کوئی بھی ان معاملات کو سنجیدہ لینے پر تیار نہیں۔ ہاں البتہ اتنی سنجیدگی ضرور ہے کہ اگر پاکستانی ریاست ماضی کی طرح ان دونوں اوزار وں کو استعمال کرنے کی کوشش کرے گی تو ریاست کے گھٹنے توڑ کر اسے تلوے چاٹنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔

یہی کام اس وقت IMF اور دیگر ذرائع سے لیا جا رہا ہے۔ اگر ماضی کو دیکھا جائے تو پاکستان کے ساتھ IMF اور عالمی مالیاتی اداروں کی نرمی کی وجہ ہی یہ تھی کہ ایک وقت میں پاکستان امریکی سامراج اور مشرق وسطیٰ میں موجود اس کے اتحادیوں کے لئے کارآمد تھا۔ اب پورا علاقائی اور عالمی ترجیحات کا نقشہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لئے پاکستان جیسی نحیف و لاغر معیشت اور ریاست ان طوفانی حالات میں ایک ایسی کشتی بن چکی ہے جو ہزاروں چھیدوں کی موجودگی میں مسلسل ڈوب رہی ہے اور اسے کوئی محفوظ ساحل میسر نہیں ہو رہا۔ اس وقت اندرونی طور پر ملکی انفراسٹرکچر اور سماج تیزی ترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے جبکہ سیاسی اور سماجی انتشار مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں کسی بھی سامراجی ملک کے لئے پاکستان کو مکمل طور پر گود میں لینا اپنے لئے ایک انتہائی مہنگی اور ناکام سردردی پالنا ہے۔ ویسے بھی ایسے حالات میں جب پوری دنیا میں تقریباً 75 ممالک دیوالیہ ہونے والے ہوں تو صرف پاکستان پر مہربان ہونا عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام میں نئے مسائل کو جنم دے سکتا ہے جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

اس کا اظہار عالمی طور پر سفارتی تعلقات میں سرد مہری، بیرونی سرمایہ کاری کی عدم موجودگی، عالمی مالیاتی اداروں کی شدید سختی اور اندرونی طور پر سیاسی، معاشی اور سماجی انتشار میں ہو رہا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی ہر نئی قیادت نے ہمیشہ اپنی لوٹ مار بڑھانے کے لئے نئے طور طریقے متعارف کرائے ہیں جن میں SIFC سب سے جدید حربہ ہے یعنی پورے ملک میں کوئی ایسا ٹھیکہ، نجکاری یا ٹیکس لاگو نہیں ہو گا جس میں فوجی اشرافیہ کا اپنا حصہ شامل نہ ہو۔ سیاسی پارٹیاں مکمل طور پر سماج میں اپنی حمایت کھو چکی ہیں اور کسی کے پاس IMF کے پروگرام اور کسی سامراجی آقا کی مہربانی کے علاوہ کوئی پروگرام موجود نہیں ہے۔ ایسے میں ممکنہ طور پر فروری میں ہونے والے انتخابات کو امید کی کرن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جا رہا کہ آخر ان انتخابات میں ایسا کیا چمتکار ہو گا کہ ملکی معیشت ترقی کرنا شروع ہو جائے گی اور عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری آئے گی۔ سب کے پاس ایک ہی موضوع زیر بحث ہے اور وہ یہ کہ ہم تو چور ہیں لیکن تم ہم سے بڑے چور ہو۔ ان حالات میں عوام تمام سیاست اور ریاست سے بیزار ہیں اور خود حکمران طبقہ شدید پریشان ہے کہ ان انتخابات کو کس طرح سے عوام میں قابل قبول بنایا جائے۔ اس لئے بھی دو مہینوں بعد ہونے والے انتخابات کے حوالے سے کوئی سیاسی سرگرمی، عوامی جوش و خروش یا گہما گہمی نظر نہیں آتی۔ اس تمام دباؤ کی موجودگی میں ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی تیز ہو رہا ہے اور دوسری طرف مفادات کے تحفظ میں دھڑے بازی بھی بڑھ رہی ہے جس سے مجموعی عدم استحکام میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔

نئے معاشی حملے اور نجکاری

ابھی سے عوام کی ذہن سازی کی جا رہی ہے کہ فروری میں انتخابات کے بعد نئی حکومت کو فوری طور پر ایک نئے IMF پروگرام میں جانا پڑے گا جس کی ممکنہ شرائط اور بھی شدید ہوں گی۔ اگر صرف پچھلے IMF پروگرام پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو بجلی کی قیمتوں میں تمام تر اضافے کے باوجود مجموعی گردشی قرضہ 2600 ارب روپیہ ہو چکا ہے، گیس کا گردشی قرضہ 2000 ارب روپیہ ہو چکا ہے، زرعی گردشی قرضہ 1000 ارب روپیہ ہو چکا ہے، عوامی اداروں کا کل قرضہ 2300 ارب روپیہ ہو چکا ہے جبکہ اگلے سال فروری یا مارچ تک پاکستان کو 10-12 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے بھی واپس کرنے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ علیحدہ ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں ٹیکسٹائل سے لے کر کار سازی تک تمام صنعتیں شدید مسائل کا شکار ہو چکی ہیں جن کے نتیجے میں روزانہ بندشیں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ منافع بخش سیکٹر یعنی پراپرٹی اس وقت نئی گراوٹوں کی جانب گامزن ہے۔ روپیہ کی قدر کو شدید کریک ڈاؤن، بڑی ایکسچینج کمپنیوں اور پشاور جیسی کرنسی منڈیوں کو بند کر کے مصنوعی طور پر قائم رکھا گیا ہے جبکہ درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندیاں لگی ہوئی ہیں۔ پاکستان تکنیکی طور پر ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے جسے ہر قسم کی پیداوار کے لئے ٹیکنالوجی،مشینری اور خام مال درآمد کرنا پڑتا ہے۔ جیسے ہی درآمدات شروع ہوں گی تو ایک طرف کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تیزی کیساتھ بڑھنا شروع ہو جائے گا تو دوسری طرف فارن ایکسچینج کی کمی کے کارن روپے کی قدر میں مزید گراوٹ ہو گی۔

خود سنجیدہ بورژوا معیشت دان اگلے سال کے وسط تک ممکنہ طور پر شرح تبادلہ کے 500 روپیہ فی ڈالر تک پہنچ جانے کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ عوام پر شدید معاشی حملوں اور سخت بندشوں کے باوجود ابھی تک مالی سال 2023-24ء کی پہلی سہ ماہی میں بجٹ خسارہ 963 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اندرونی اور بیرونی قرضہ جات کی واپسی کے لئے پاکستان مسلسل نئے قرضے لے رہا ہے اور کیونکہ دگرگوں معاشی حالات ہیں تو ہر نیا قرضہ زیادہ شرح سود اور زیادہ سخت شرائط پر حاصل ہو رہا ہے۔ پھر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو نظرانداز کر بھی دیا جائے تو پاکستان کو 2025ء تک سالانہ 25 ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات واپس کرنا ہیں۔ پھر ریاست کا IMF سے دیرینہ معاہدہ بھی ہے کہ روپے کو منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا اور ایک لیٹر پیٹرول کی قیمت ایک ڈالر کے برابر کر دی جائے۔ اس ساری صورتحال میں واضح ہے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہوئے عرصہ ہو چکا ہے بس سرکاری اعلان باقی ہے جو آج نہیں تو کل ہو ہی جائے گا۔

اس ساری کیفیت میں اشرافیہ ذخیرہ اندوزی، کرپشن، وسائل کی لوٹ مار، بھتہ خوری، اسمگلنگ، قیمتوں میں بے قابو اضافے اور دیگر ہزار طریقوں کے ذریعے لوٹ مار میں بے تحاشہ اضافہ کرتے ہوئے امیر سے امیر تر ہو رہی ہے اور عوام پر اس ساری لوٹ مار کا بوجھ مسلسل بڑھا رہی ہے۔ عوام اس وقت دہرے تہرے استحصال کا شکار ہے۔ IMF کا پروگرام، عالمی اور مقامی اشرافیہ کی لوٹ مار اور ریاستی عیاشیوں کے بوجھ نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ لیکن حکمران طبقے اور ریاست کے پاس اس استحصال اور بربادی میں اضافے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ بھی موجود نہیں ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات یا خوشحالی کے امکانات اب ختم ہو چکے ہیں۔

ایسے میں عوامی اداروں کی نجکاری اور پینشنوں کے خاتمے کو تریاق بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ پالیسی دیگر ممالک بھی لاگو کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جس کے ذریعے حکمران طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کا تمام تر بوجھ عوام پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے ملکی قرضوں میں کمی، عوامی اداروں کے مسلسل خساروں سے چھٹکارا اور نجکاری کے بعد اداروں میں بہتری کو نجکاری کرنے کی وجہ بتایا جاتا ہے جبکہ پینشنوں کے خاتمے کو بھی ریاستی بوجھ میں کمی بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلی تین دہائیوں میں تمام کلیدی معاشی شعبہ جات میں 172 نجکاریاں کی جا چکی ہیں جن سے 11 ارب ڈالر حاصل کئے گئے۔ لیکن اس دوران پاکستان کا قرضہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھ کر 126 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ ماضی کی روشنی میں نئی نجکاری کر کے کتنا پیسہ حاصل ہو گا اور قرضوں میں کتنی کمی واقع ہو گی یہ واضح ہے۔

عوامی اداروں میں خسارے کا رونا دھونا کیا جاتا ہے لیکن انہی شعبوں میں حکمران طبقے کے اپنے کاروباروں کے منافعے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح سرکار کے مطابق اب تک جتنی نجکاری کی جا چکی ہے ان میں سے زیادہ تر ادارے بند ہو چکے ہیں اور جو چند ایک فعال ہیں وہ بھی خساروں کا شکار ہیں۔ پھر اداروں میں موجود محنت کش ساری عمر پینشن اور دیگر مد میں تنخواہیں کٹاتے رہتے ہیں جنہیں اب ریاست ضبط کرنے کے چکروں میں ہے۔ لیکن ریاستی اشرافیہ جس میں فوجی و سول بیوروکریسی، عدلیہ، ممبر قومی و صوبائی پارلیمان وغیرہ کی مراعات و عیاشیوں کے خاتمے کا کوئی ذکر نہیں کیا جاتا۔ پھر شدید معاشی تباہی میں اتنے بڑے ادارے جنہیں نسلوں نے تعمیر کیا ہے انہیں منافعوں کے حصول کے لئے فعال کرنے کے لئے جتنی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اس سے زیادہ آسان ان کی گراں قدر زمینوں کو تکہ بوٹی کر کے بیچنے یا ان پر شاپنگ سنٹر اور مہنگی سوسائیٹیاں بنانا ہے اور اسی منصوبے پر خریدنے والے کاربند ہیں۔ پہلے ہی کروڑوں بیروزگاروں کی فوج ملک میں ذلیل و خوار ہو رہی ہے جس میں ان اداروں کی نجکاری کے نتیجے میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور عوام بھی رہی سہی عوامی سہولیات سے محروم ہو رہی ہے۔

ان حالات میں واضح ہے کہ آنے والے دنوں میں ریاست نوجوانوں اور محنت کشوں پر مسلسل خوفناک معاشی حملے بڑھاتی جائے گی اور اپنی لوٹ مار کی ہوس میں عوام کی مسلسل بڑھتی تعداد کو موت کے منہ میں دھکیلتی رہے گی۔

سماج کی انقلابی تبدیلی ناگزیر بن چکی ہے!

انسان ہمیشہ الام و مصائب کی بھٹی سے گزر کر ہی ترقی کی نئی منزلیں طے کرتا آیا ہے۔ آج کا عہد بھی انسان کی گزشتہ تاریخ سے مختلف نہیں ہے۔ تاریخی ارتقائی عمل انقلابات کے ذریعے ہی آگے بڑھتا ہے۔ آج سب سے بڑا مسئلہ کسی فرد کی کرپشن نہیں بلکہ منڈی میں موجود مصنوعات کو خریدنے میں عوام کی لاچارگی اور مٹھی بھر اشرافیہ کی منافعوں کی لوٹ مار ہے جو سماج کو تاراج کر رہے ہیں۔ آئین کا ہر قانون اشرافیہ کی نجی ملکیت اور منافع خوری کا تحفظ کرتا ہے جبکہ اس کے خلاف مزاحمت کرنے پر عوام کو سزا دیتا ہے۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں عوام اپنے حالات سے مجبور ہو کر تحریکوں اور مزاحمت کی راہ پر زیادہ سے زیادہ گامزن ہو رہی ہے جس میں ہمیں نجکاری کے خلاف عوامی اداروں جیسے پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، شعبہ صحت و تعلیم وغیرہ کی تحریکیں، حالیہ صوبائی و فیڈرل ملازمین کی شاندار تحریکیں، کسانوں اور طلبہ کی تحریکیں، خیبر پختونخواہ اور کشمیر میں بجلی بلوں کے خلاف تحریک، ریاستی جبر کے خلاف بلوچستان میں عوامی تحریک اور دیگر مسائل پر عوامی مزاحمت اور بغاوت مسلسل بڑھتے نظر آ رہے ہیں۔

اگرچہ یہ تحریکیں فی الحال متحد نہیں ہیں لیکن ایک دیوہیکل عوامی بغاوت کی تیاری کے لئے یہ دور ناگزیر تھا جس میں محنت کشوں کی ہراول پرتیں ان تجربات سے گزر کر اتحاد اور ملک گیر تحریکوں کی ضرورت کو شعوری طور پر سمجھنا شروع ہو گئی ہیں۔ حکمران طبقے اور عالمی مالیاتی اداروں کے معاشی تازیانے، ریاست اور موجودہ سیاسی پارٹیوں کا بانجھ پن اور خود تبدیلی اور مزاحمت کی خواہش محنت کش طبقے میں معیاری شعوری تبدیلیوں اور اتحاد میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ آنے والا سال عوامی سیاست میں اہم تبدیلیوں کا سال بن سکتا ہے جس میں تحریکوں کی بھٹی میں سے گزر کر محنت کش طبقہ طبقاتی شعور کے اس معیار کو حاصل کر سکتا ہے جو سماج کی ایک انقلابی تبدیلی کا پہلا زینہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں منافعوں، استحصال اور لوٹ مار کی ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ہو گا اور عوامی فلاح و بہبود اور اجتماعی خوشحالی پر مبنی ایک سوشلسٹ سماج تعمیر ہو گا جس میں تمام انسان ایک صحت مند اور پرامن زندگی گزاریں گے۔ آج یہ مقصد انسان کا تاریخی فریضہ بن چکا ہے اور یہی ہمارا ہدف ہے۔ ہم آپ کو سماج کی اس انقلابی تبدیلی اور انسانیت کی حقیقی آزادی کی جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔

Comments are closed.