اداریہ: دنیا بھر میں بحران اورپھیلتی جنگیں، ابھرتی تحریکیں اور کمیونزم کے نظریات کی مقبولیت

نئے سال کے آغاز پر دنیا پہلے سے کہیں زیادہ غیر مستحکم، پر انتشار اور بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال پوری دنیا کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر لا چکا ہے۔ صرف غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں پر اسرائیل کی صیہونی ریاست نے بربادی کی ایک نئی داستان رقم کر دی ہے۔ 30 ہزار سے زائد لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ 23 لاکھ کی آبادی بے سر و سامانی اور شدید قحط سالی کا شکار ہے۔

نئے سال کے آغاز پر یہ جنگ ختم ہونے کی بجائے پھیلتی جارہی ہے۔ امریکی اور برطانوی سامراج نے اسرائیل کی گماشتہ ریاست کے دفاع کے لیے اب یمن پر براہ راست بمباری کا آغاز کر دیا ہے اور وہاں پر رہنے والے حوثیوں کو فلسطینیوں کا ساتھ دینے کی سزا دی جارہی ہے تا کہ بحیرہ احمر میں تجارتی گزرگاہ کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تجارت کے لیے محفوظ بنایا جا سکے۔ اسی طرح لبنان اور خطے کے دیگر ممالک بھی اس جنگ کی لپیٹ میں آرہے ہیں جبکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں اضافے سے پوری دنیا کی لڑکھڑاتی اور ڈگمگاتی کمزور معیشتیں دیوالیہ پن کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔

حالیہ تاریخ کی بدترین تباہی اور بربادی پھیلانے کے باوجود بھی اس جنگ کے رکنے کے امکان دکھائی نہیں دے رہے اور ایران سے لے کر سعودی عرب تک خطے کے تمام ممالک اس خونی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مصر میں نہر سوئز سے گزرنے والی دنیا کی بارہ فیصد تجارت متاثر ہو چکی ہے اور شپنگ کمپنیاں لمبے روٹ کے ذریعے سامان کی ترسیل پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال مزید بدتر ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔

اس تمام تر بحران اور خونریزی کے خلاف مشرقِ وسطیٰ سمیت پوری دنیا میں احتجاجی تحریک موجود ہے اور ہر ملک میں لاکھوں کی تعداد میں عوام اپنے اپنے حکمران طبقات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ 14جنوری کو اتوار کے روز دنیا کے 45 سے زیادہ ممالک میں احتجاج ہوئے جن میں لاکھوں افراد نے حصہ لیا۔ سب سے بڑا حتجاج لندن میں ہوا جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے حصہ لیا۔ اس کے علاوہ واشنگٹن اور نیویارک سمیت ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے درجنوں شہروں میں لاکھوں افراد ان احتجاجوں میں شریک تھے اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ان احتجاجوں نے ان ممالک کی سیاست کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور سامراجی طاقتوں کی اسرائیل کی گماشتہ ریاست کی پشت پناہی کا پردہ چاک کر دیا ہے۔

سب سے زیادہ دھماکہ خیز صورتحال عرب ممالک کی بنتی جا رہی ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں عام لوگ حکمرانوں سے اسرائیل کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ ان تمام ممالک کے حکمران امریکی سامراج کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالے اپنے ہی عوام پر بد ترین جبر کر رہے ہیں۔

اردن میں حالیہ تاریخ کی سب سے طاقتور ہڑتال ہو چکی ہے اور اس ملک میں رہنے والے لاکھوں فلسطینی اور مقامی افراد پہلی دفعہ مل کر حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔

مصر میں رہنے والے کروڑوں عوام پہلے ہی جنرل سیسی کے بد ترین جبر کا شکار ہیں اور اب سرحد کے پار اپنے فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کو اسرائیلی حکمرانوں کے ہاتھوں قتل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ مصر پہلے ہی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور افراطِ زر، مہنگائی اور بیروزگاری تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔

خود اسرائیل کا مالیاتی اور سیاسی بحران گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت سماجی دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔

اس وقت پورا مشرق وسطیٰ ایک آتش فشاں کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور آنے والے عرصے میں 2011ء کے عرب انقلابات سے بھی بڑی تحریکیں نظر آسکتی ہیں۔ حکمران طبقات جنگوں، خانہ جنگیوں اور خونریزیوں کے ذریعے ان عوامی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کریں گے لیکن ان میں تاخیر تو ہو سکتی ہے لیکن انہیں ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔

ایران میں پہلے ہی گزشتہ چند سالوں میں تاریخ کی سب سے بڑی انقلابی تحریکیں ابھر چکی ہیں۔ آنے والے عرصے میں یہ تحریکیں زیادہ وسیع تجربے اور گہری بنیادوں کے ساتھ دوبارہ ابھریں گی۔

مغربی ممالک میں جاری فلسطین کی یکجہتی کی تحریک بھی وہاں پر سیاسی و سماجی تبدیلی کا آغاز بن رہی ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں جاری اس تحریک نے پچھلے بہت سے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے سال میں ہورہا ہے جب امریکہ میں تاریخ کے سب سے منفرد صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ سابقہ صدر ٹرمپ کو انتخابی مہم سے باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور تاریخ میں پہلی دفعہ کسی سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی اور اب اس کو گرفتار کیے جانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ٹرمپ کو ریپبلکن پارٹی کے امیدواروں کی ریس سے بھی باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن ان سب حملوں کے باوجود ٹرمپ کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے حامی ہر قسم کے حملے کا جواب دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ درحقیقت امریکہ کے صدارتی انتخابات ایک سیاسی خانہ جنگی کا نقشہ پیش کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس دوران بائیں بازو کا کوئی واضح نمائندہ موجود نہیں اور گزشتہ انتخابات میں جو لوگ خود کو سوشلسٹ کہہ کر منتخب ہوئے تھے وہ بھی بائیڈن حکومت کا حصہ بن گئے اور اس کی سامراجی پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے۔

کسی واضح امیدوار کے نہ ہونے کے باوجود اس وقت لاکھوں نوجوان کمیونزم کے نظریات کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور خود کو کمیونسٹ کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ کینیڈا سے لے کر یورپ اور آسٹریلیا تک یہی صورتحال ہے اور کمیونسٹ نظریات نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی مارکسی رجحان (آئی ایم ٹی) نے دنیا بھر میں ایک نئی کمپین کا آغاز کیا ہے جس میں ہر ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے پوسٹر اور سٹیکر شائع کیے گئے ہیں جن میں نوجوانوں سے پوچھا گیا ہے کہ کیا وہ کمیونسٹ ہیں؟ اگر ہاں تو پھر انہیں فوری منظم ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کمپین کے شاندار نتائج نکلے ہیں اور ہر ملک میں ہزاروں لوگ رابطہ کرتے ہوئے آئی ایم ٹی کے ممبر بن رہے ہیں۔

انقلابی کمیونسٹوں کو حالیہ تاریخ میں کبھی بھی اتنی پذیرائی نہیں ملی اور نہ ہی کبھی اتنی تیزی سے ان کی ممبرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ، کینیڈا، سویڈن اور دنیا کے دیگر بہت سے ممالک میں کمیونسٹ نئی انقلابی پارٹیوں کے باقاعدہ اعلان کرنے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور آنے والے سال میں ہر ملک میں ہزاروں کی ممبر شپ کے ساتھ خود کو منظم کرنے کا ٹارگٹ لے رہے ہیں۔

یہ یقیناً معیاری جست ہے۔ معروضی حوالے سے دنیا کے تمام ممالک میں صورتحال انقلابی تبدیلی کی جانب بڑھ رہی ہے گو کہ اس میں رد انقلاب کے حملے بھی جاری رہیں گے۔ لیکن سب سے دلچسپ صورتحال موضوعی حوالے سے ہے جہاں انقلابی کمیونسٹ نہ صرف تیزی سے پھیل رہے ہیں بلکہ ان کا نظریاتی اور سیاسی معیار بھی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بلند ہے۔ آنے والے سال انقلاب اور رد انقلاب کی کشمکش کے حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں انقلابی پارٹی کی تعمیر فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو سکتی ہے اور محنت کش طبقے کی تحریکوں کو ساتھ جوڑتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کی جانب واضح پیش قدمی کر سکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ٹی نے 2024ء کو لینن کا سال قرار دیا ہے اور اس حوالے سے پوری دنیا میں لینن کے نظریات کے فروغ کے لیے سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی۔ اس سال لینن کی وفات کو ایک صدی مکمل ہو جائے گی لیکن ایک سو سال بعد بھی لینن کے نظریات دنیا بھر کے محنت کشوں کی راہنمائی کرتے ہوئے سرمایہ داری کے خلاف فیصلہ کن جنگ جاری رکھیں گے۔

Comments are closed.