گلگت بلتستان: گندم سبسڈی کے خاتمے کے خلاف ٹھٹھرتی سردی میں ہزاروں کے احتجاج

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، گلگت بلتستان|

گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے پچھلے مالی سال 2023ء میں درجنوں اشیاء پر بھاری ٹیکسز عائد کیے گئے۔ اس کے خلاف انجمن تاجران، ہوٹل ایسوسی ایشن اور ٹرانسپورٹ یونین نے اپنے اپنے پلیٹ فارمز پر ان ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کیا۔ مگر حکومت کے ان ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف کوئی موثر تحریک نہ ابھر سکی، جس سے موجودہ مخلوط حکومت کے حوصلہ بڑھ گیا۔ اور پچھلے سال اکتوبر میں مالی بحران اور فیڈرل گورنمنٹ کی طرف سے گندم سبسڈی ختم کرنے کیلئے جاری دباؤ کو جواز بنا کر گندم سبسڈی میں کٹوتی کرکے قیمت میں تقریباً 60 فیصد اضافہ کر یا گیا۔ بہر حال اس اضافے کے خلاف گلگت بلتستان کے غریب محنت کش عوام، چھوٹے دکاندار، چھوٹے ملازم اور عام شہری جو پہلے ہی کمر توڑ مہنگائی اور نت نئے ٹیکسوں کے بوجھ تلے پسے ہوئے تھے، نے بھرپور احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا۔

قبل ازیں 2014ء میں بھی گلگت بلتستان کے عوام نے گندم سبسڈی میں کٹوتی کے خلاف مختلف سیاسی مذہبی پارٹیوں اور سماجی انجمنوں نے مل کر عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک اتحاد قائم کرکے ایک شاندار تحریک چلا کر اس وقت کی ن لیگی حکومت کی طرف سے گندم قیمت میں اضافہ کو واپس کروایا تھا۔ مگر گندم سبسڈی کی بحالی اور مختلف ٹیکسوں میں کمی کرانے کے بعد 2017ء سے یہ عوامی تحریک ٹوٹ پھوٹ اور اندرونی اختلافات کا شکار ہو گئی تھی۔

پچھلی خالد خورشید کی پی ٹی آئی حکومت نے 2023ء کے آغاز میں عوام کو فراہم کی جانے والی گندم کی کوالٹی بہتر کرنے اور فی کس گندم کی مقدار بھی بڑھانے کے بلند بانگ دعوے کرکے گندم کی قیمت میں 8 روپے فی کلو اضافہ کیا۔ مگر حکومت کے بلند بانگ دعووں اور دوسری طرف عوام میں کسی موثر تنظیم کے نہ ہونے کی وجہ سے کوئی موثر عوامی رد عمل سامنے نہ آ سکا۔ جولائی 2023ء میں سابق وزیر اعلیٰ کی نااہلی کے بعد قائم ہونے والی مخلوط حکومت نے آتے ہی گندم کی قیمت 20 روپے فی کلو سبسڈی ریٹ سے بڑھا کر 52 روپے فی کلو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تو شدید عوامی رد عمل شروع ہو گیا۔

اس عوامی رد عمل کے دباؤ میں آ کر حکومت نے اپنے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔ اس دوران حکومتی پارٹیوں اور انتظامیہ کی طرف سے عوامی ایکشن کمیٹی کے کچھ افراد اور تنظیموں کو مزاکرات کا جھانسا دے کر عوامی ایکشن کمیٹی کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ حکومتی سطح پر ایک جرگہ بلوایا گیا اور اس کے ذریعے گندم کی سابقہ قیمت 20 روپے فی کلو سے بڑھا کر 36 روپے فی کلو کر دی گئی۔ پھر یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس جرگے کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ مگر عوام نے اسے مسترد کیا اور عوامی ایکشن کمیٹی کو از سر نو منظم کرکے ایک 15 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کے ساتھ حکومت کے خلاف اکتوبر میں احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔

اس چارٹر میں شامل بنیادی مطالبات میں گندم سبسڈی کو 2022ء کے ریٹ پر مقرر کرنا، جی بی فنانس ایکٹ 2023ء کو واپس لے کر تمام ٹیکسوں کو ختم کرنا، عوام کی غیر آباد اور بنجر اراضیات کو حکومت کی طرف سے زبردستی قبضہ کرنے کی پالیسی کو ختم کرنا، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کو انڈسٹری کا درجہ دے کر اسے خصوصی مراعات دینا تاکہ اس خطے میں ٹورازم انڈسٹری کو فروغ مل سکے، حکومت کی طرف سے بڑی غیر مقامی کمپنیوں اور افراد کو مختلف قسم کے معدنیات پر دی گئی کو منسوخ کرکے مقامی آبادی کی اجتماعی ملکیت کی بنیاد پہ معدنیات کی تمام لیزز صرف مقامی آبادی کے نام پہ جاری کرنا، گلگت بلتستان میں موجودہ انتظامی حکم نامہ گورنمنٹ آف گلگت بلتستان آرڈر 2018ء کو ختم کرکے اس کی جگہ ایک با اختیار آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لانا اور گلگت بلتستان میں انجینئرنگ اور میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں لانا شامل ہیں۔

اس تحریک کو منظم کرنے کیلئے عوامی ایکشن کمیٹی کو دوبارہ آرگنائز کرتے ہوئے ایک 42 رکنی کور کمیٹی مقرر کی گئی اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما احسان علی ایڈووکیٹ کو عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کا چیف کو آرڈی نیٹر بنایا گیا۔ اس کور کمیٹی میں ہر ضلع سے دو دو ممبران کے ساتھ ساتھ انجمن تاجران، ہوٹل ایسوسی ایشن اور ٹرانسپورٹ یونین کو بھی مرکزی کور کمیٹی میں نمائندگی دی گئی۔ نئی عوامی ایکشن کمیٹی نے انجمن تاجران، ہوٹل ایسوسی ایشن اور ٹرانسپورٹ یونین کے تعاون سے ایک باقاعدہ احتجاجی تحریک کا آغاز کیا اور مختلف اضلاع میں احتجاجی جلسے اور جلوس نکالنا شروع کے۔

نومبر 2023ء میں پورے گلگت بلتستان میں ایک کامیاب شٹر ڈاؤن ہڑتال کرکے احتجاجی تحریک کو تیز تر کر دیا گیا اور حکومت کے ساتھ کسی بھی سطح پہ مزاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دسمبر 2023ء کے آخری ہفتے سے باقاعدہ احتجاجی تحریک کو منظم انداز میں سکردو بلتستان سے تیز کیا گیا جبکہ گلگت اور دیگر اضلاع میں 2 دسمبر سے احتجاجی دھرنے دینا شروع کیے گئے۔

اس عوامی تحریک میں سکردو بلتستان میں عوامی احتجاجی تحریک میں زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے اور جنوری کے اس خون جمانے والی منفی 12 ڈگری کی سردی میں روزانہ دس ہزار سے زیادہ عوام احتجاج میں شرکت کرتے ہیں۔ جبکہ دیگر اضلاع میں روزانہ کبھی کم اور کبھی زیادہ لوگ احتجاج کرتے ہیں۔

عوام کو احتجاج میں شریک ہونے سے روکنے کیلئے حکومت کی طرف سے بار بار مزاکرات کی دعوتیں دی جانے لگیں، مگر عوامی ایکشن کمیٹی نے کسی بھی سطح پر حکومت کے ساتھ مزاکرات کا بائیکاٹ کیا اور اس احتجاجی تحریک کو منظم کرکے تمام اضلاع کے ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی دھرنے دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے تحت آج سکردو میں احتجاجی دھرنے کو 26 روز ہو گئے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے ہیڈ کوارٹر گلگت اور دوسرے اضلاع میں احتجاجی دھرنوں کو شروع کئے 17 روز ہو گئے ہیں۔

وقت کے ساتھ احتجاجی دھرنوں میں عوام کی شمولیت بڑھتی جا رہی ہے مگر حیران کن بات ہے کہ پورے گلگت بلتستان کی سطح پر جاری اس احتجاجی تحریک میں عوام کی بھرپور شرکت کے باوجود حکومت نے ابھی تک گندم سبسڈی اور دیگر مطالبات کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ حکومت کی اس ہٹ دھرمی کا جواب دینے کیلئے عوامی ایکشن کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب اپنی احتجاجی تحریک کو یکجا کرکے اسے زیادہ موثر بنانے کیلئے حکومتی ہیڈ کوارٹر گلگت اور سکردو میں باقی اضلاع کے احتجاجی عوام کو بھی شامل کیا جائے گا۔

احتجاج کے اس نئے پلان پر عمل درآمد ایک ہفتے کے اندر شروع ہو گا۔ اس نئے احتجاجی پروگرام کے تحت گلگت اور دیامر ڈویژن کے چھ اضلاع کے احتجاجی عوام گلگت ہیڈ کوارٹر تک لانگ مارچ کرکے جائیں گے۔ جبکہ بلتستان ڈویژن کے چار اضلاع کے عوام سکردو تک لانگ مارچ کریں گے۔

اس طرح عوامی تحریک کو دونوں انتظامی و تجارتی مراکز میں مجتمع کرنے سے موجودہ مخلوط حکومت پر سیاسی دباؤ میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گا اور حکومت کی انتظامی و سیاسی سرگرمیاں معطل ہو جائیں گی۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اس عوامی احتجاجی تحریک میں شریک ہے اور ان عوامی مطالبات کے گرد عوام کو منظم کرنے کے عمل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

Comments are closed.