اداریہ: سوشلزم کے نظریات کا دفاع اور انقلاب کی جدوجہد

لینن نے کہا تھا کہ مارکسزم کے نظریات کا دفاع جہاں سیاسی اور معاشی میدان میں کرنا ضروری ہے وہاں نظریاتی میدان میں ان کا دفاع انتہائی اہم ہے۔ مارکسزم کے جنم سے لے کر آج تک سرمایہ دار طبقے کے گماشتے اس نظریے پر ہر طرح کے حملے کرتے آئے ہیں اوراس کو غلط، نان پریکٹیکل اور دیگر بہت سے القابات سے نوازتے آئے ہیں۔ مارکس اور اینگلز کی جدوجہد اور نظریات کو مسخ کرنے کی بہت سی کوششیں ان کی زندگی میں بھی ہوئیں لیکن ان نظریات کو ابھرنے سے نہیں روکا جا سکا۔ مارکس کو کئی دفعہ جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اس کی تحریروں کو محنت کشوں سے دور رکھنے کے لیے نامی گرامی اخبارات نے انہیں شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ انتہائی کٹھن حالات زندگی کے باوجود مارکس اور اینگلز نے اپنی نظریات کی تشکیل اور ترویج کا سلسلہ جاری رکھا اور یہ نظریات دیر سے ہی سہی لیکن پورے دنیا کے انقلابیوں تک پہنچ گئے۔

روس میں جب داس کیپیٹل کا ترجمہ شائع ہوا تو اس وقت مارکس کے نظریات کو تسلیم کرنے والے چند افراد ہی تھے جن میں پلیخانوف نمایاں تھا۔ اس کے بعد لینن اور ٹراٹسکی جیسے مزید کئی نوجوان اس دھارے میں شامل ہوتے گئے۔ ان نظریات سے متاثر ہو کر نہ صرف انہوں نے روس جیسے پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ملک میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد جاری رکھی بلکہ ان نظریات پر دائیں اور بائیں سے کیے جانے والے حملوں کا بھی بھرپور جواب دیا۔ انقلابی پارٹی کی تعمیر کے دوران لینن مسلسل ان نظریات کو مسخ کرنے کی کاوشوں کا مقابلہ کرتا رہا اور قریب ترین دوستوں سے بھی اس لیے علیحدگی اختیار کر لی کیونکہ وہ مارکسزم کے نام پر خیال پرستی، اکانومزم یا دیگر بہت سے نظریات کی ملاوٹ کرنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ دوسری جانب ٹراٹسکی نے روس جیسے پسماندہ ملک میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہونے کے امکانات کو رد کرنے کوشش کا مدلل جواب اپنے نظریہ مسلسل انقلاب سے دیا جو مارکسزم کے نظریاتی اثاثے میں ایک بہت بڑا اضافہ تھا۔ انہیں نظریاتی بحثوں کی فوقیت کے باعث بالشویک پارٹی 1917ء میں روس میں ایک سوشلسٹ انقلاب کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس انقلاب کے بعد مارکسزم کے نظریات کی فوقیت سٹیل، بجلی، سیمنٹ اور صنعتی پیداوار کی شکل میں پوری دنیا پر واضح ہوئی اور یہ نظریات تیزی سے دنیا کے کونے کونے تک پھیل گئے۔

لینن کی وفات کے بعد ان نظریات کے دفاع کے لیے ٹراٹسکی نے سٹالنزم کے جرائم کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کیا۔انتہائی نا مساعد حالات اورمحدود قوتوں کے باوجود ٹراٹسکی اس جدوجہد میں مرتے دم تک مصروف رہا اور ایک لمحے کے لیے بھی ان نظریات کی سچائی پر اس کا یقین متزلزل نہیں ہوا۔ ایک جانب دنیا کی سب سے بڑی سامراجی قوتیں اور سرمایہ دار طبقہ ان نظریات کا قلع قمع کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے تھے اور دوسری جانب مارکسزم اور لینن ازم کے نام پر بننے والی دنیا کی سب سے بڑی مزدور ریاست جہاں ان کو مسخ شدہ انداز میں فروغ دے رہی تھی وہاں سٹالنسٹ زوال پذیری کے بعد ان نظریات کو وقت اور حالات کے مطابق سوویت یونین کی بیوروکریسی کے مفادات کے تابع کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ٹراٹسکی نے ان عظیم نظریات کا بے داغ پرچم نئی نسل کے حوالے کیا اور 1940ء میں آخری سانس تک ان نظریات کا دفاع کرتا رہا۔

ٹراٹسکی کے بعد ٹیڈ گرانٹ نے انتہائی مشکل حالات میں اس جدوجہد کو جاری رکھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک جانب امریکہ سمیت تمام سامراجی طاقتیں کہیں زیادہ طاقتور ہو کر ابھریں تھی اور سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے طویل اور بڑا ترقی کا دور دیکھنے میں آیا تھا۔ دوسری جانب سوویت یونین عالمی سطح پر ایک سپر پاور بن گیا تھا۔ اس دوران چین اور دیگر کئی ممالک میں سوشلسٹ انقلابات ابھرے تھے لیکن وہاں بھی سٹالنسٹ نظریات ہی حاوی ہو گئے تھے۔ ایسے عہد میں مارکسزم کی حقیقی قوتیں انتہائی کم تعداد میں رہ گئیں تھیں اور ٹراٹسکی کے نظریات کو تاریخ سے مٹانے کی کوششیں بظاہر کامیاب ہوتی نظر آرہی تھیں۔

1990ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد وقت اور حالات کا پانسہ ایک دفعہ پھر پلٹا اور سٹالنزم کے جرائم پر کھڑی عمارت زمین بوس ہو گئی۔ پوری دنیا کے سرمایہ دار اس وقت جشن منا رہے تھے جبکہ مزدور تحریک عالمی سطح پر پسپائی اور زوال کا شکار ہو گئی تھی اور خود کو کمیونسٹ کہلانے والے لاکھوں لوگ مایوس تھے۔ لیکن اس تاریک دور میں بھی ٹیڈ گرانٹ اور عالمی مارکسی رجحان امید کی کرن بن کر ابھرے اور سوویت یونین کے انہدام کی سائنسی توجیہہ پیش کر کے مارکسزم کی قوتوں کی تعمیر کے سلسلے کو آگے بڑھانے کی جدوجہد جاری رکھی۔

2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سرمایہ دار طبقے کا جشن بھی ختم ہوا اور وہ بھی ایک طویل بحران اور زوال کی جانب بڑھنے لگے۔ اس دوران پوری دنیا میں عوامی تحریکیں ابھرنے لگیں اور سرمایہ دار اور مزدور کی طبقاتی کشمکش دوبارہ شدت اختیار کر گئی۔ مارکسزم کے نظریات کی پیاس ایک دفعہ پھر بڑھنے لگی اور ساتھ ہی سرمایہ داروں نے اپنے حملوں کو بھی تیز کر دیا۔ آج یہ عمل زیادہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کا بحران اب تاریخ کے سب سے بڑے زوال اور گراوٹ کی جانب بڑھ رہا ہے اور مارکسزم کے حقیقی نظریات کو زائل کرنے کے لیے پوسٹ ماڈرن ازم سے لے کر پوسٹ کالونیل ازم تک بیہودہ فلسفے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں اور میڈیا کے ذریعے مسلط کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسا ہر نظریہ اور سوچ پروان چڑھائی جا رہی ہے جو دنیا بھر میں موجود بھوک، بیماری اور لاعلاجی سے توجہ ہٹا سکے اور محنت کش طبقے کو آپس میں جوڑنے کی بجائے تقسیم کر سکے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دار طبقے کی منافع خوری، بینکوں کی حاکمیت اور سرمائے کی ڈکٹیٹر شپ کو بحث میں لائے بغیر سماج کا تجزیہ کرنے والے ہر رجحان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اسے اعزازات سے نوازا جا رہا ہے۔

لیکن اس کے باوجود کمیونزم کے نظریات دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق آج امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں کمیونزم کو پسند کرنے والے اور خود کو کمیونسٹ کہلانے والے نوجوانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا بھر کی ریاستیں اور حکمران طبقات کمیونزم کے خلاف غلیظ ترین پراپیگنڈہ کر رہے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا سے لے کر تعلیمی نصاب، سیاست اور عوام تک رسائی کے تمام راستوں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔

تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ جس نظریے کا وقت آگیا ہو اسے دنیا کی کوئی بھی طاقت ابھرنے سے نہیں روک سکتی۔ آج کمیونزم کے نظریات بھی تاریخ کی کسوٹی پر عہد حاضر کا سب سے بڑا سچ ثابت ہوئے ہیں۔ آج پوری دنیا سے سرمایہ داری کو اکھاڑ کر ہی دنیا کو اس بربریت، بھوک اور خونریزی سے نجات دلائی جا سکتی ہے اور عالمی سوشلسٹ انقلاب ہی نسل ِانسان کی نجات کا واحد رستہ ہے۔ اس نظریے کادفاع کرنا اور اس کے فروغ کے لیے ہر قسم کی قربانی دینا آج کے انقلابیوں کا سب سے اہم فریضہ ہے۔

Comments are closed.