گلگت بلتستان میں عبوری صوبے کی بحث: محنت کش عوام کی نجات کا راستہ کیا ہے؟

|تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ|

عالمی سرمایہ داری کو لاحق شدید اقتصادی و سیاسی بحران کے موجودہ دور میں دنیا کے مختلف حصوں میں جبر و استحصال اور وسائل دولت پہ قبضوں کے خلاف قومی تحریکیں پھر سے شدت اختیار کر رہی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے سرمایہ دار حکمران طبقات نے بھی اپنے بحران کا بوجھ محنت کش طبقے کے ساتھ چھوٹی اور محکوم اقوام، خطوں اور علاقوں پہ مسلط کرنے کے لئے سامراجی طاقتوں کی آشیرباد اور اقوام متحدہ کی خاموش حمایت سے جموں کشمیر لداخ اور جی بی پہ اپنے قبضے کو مستحکم کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہندوستان کی طرف سے جموں کشمیر اور لداخ کو الگ الگ یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کرکے براہ راست اپنے قبضے میں لیا جا چکا ہے جبکہ پاکستان کی طرف سے اپنے زیر کنٹرول گلگت بلتستان کی موجودہ متنازعہ حیثیت کو بدل کر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے ہر قسم پیش رفت کی جا رہی ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کو پنجاب میں ضم کرنے یا اس کی انتظامی حیثیت کو تبدیل کرنے کے حوالے سے تا حال کوئی اقدامات نہیں کیے جارہے جس کی واحد وجہ پاکستانی حکمران طبقات کا مسئلہ کشمیر کو ایک کم تر سطح پر باقی رکھنے کی ضرورت ہے مگر آنے والے عرصے میں اس جانب بھی پیش قدمی کے امکانات موجود ہیں۔ موجودہ شدید اقتصادی بحران سے اپنے آپ کو نکالنے کیلئے گلگت بلتستان کے کھربوں ڈالر مالیت کے ان گنت وسائل دولت بیرونی سرمایہ داروں کے حوالے کرنے کیلئے جی بی کے عوام کے ساتھ عبوری صوبے کے نام پہ ایک بھیانک فراڈ اور جعل سازی کرنے کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں۔ اس نا جائز قبضے کو اپنے سامراجی قوانین کے تحت جائز بنانے کے لیے نام نہا د آزاد کشمیر کی گماشتہ اسمبلی سے بھی اس عبوری صوبے کے حق میں ایک قرار داد پاس کروائی جا رہی ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حزب مخالف کی بے ضرر سی مخالفت یا کچھ ممبران کے اس کے خلاف ووٹ دینے کے باوجود اس قرار داد کو منظور کر لیا جائے گا۔ اس بات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ ممبران کی زبانی کلامی مخالفت کے بعد ا س کو مکمل اتفاق رائے سے منظور کر دیا جائے۔ پاکستانی آئین کی حدود کے اندر لا کر جی بی کو ایک عبوری صوبے کی شکل دینے کا واحد مقصد یہاں کے بے پناہ وسائل دولت کو سامراجی طاقت چین، ملٹی نیشنلز اور بڑے سرمایہ داروں کی لوٹ مار کے لئے لائسنس جاری کرنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔

پاکستانی سرمایہ دار ریاست کی اس نوآبادیاتی پالیسی کے خلاف مختلف سیاسی و سماجی حلقوں، طلبہ تنظیموں اور نوجوانوں کی طرف سے سخت رد عمل آنا شروع ہوچکا ہے مگر یہاں کے ننانوے فیصد محنت کش عوام کے مفادات سے ہم آہنگ کوئی ٹھوس اور پائیدار سیاسی مؤقف تا حال نہیں پیش کیا جا سکا۔ قوم پرست اور کچھ دیگر حلقے آزاد کشمیرطرز کے نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ کچھ حلقے داخلی خود مختاری کا نیز بعض حلقے مکمل آئینی صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ان تمام نقطہ ہائے نظر کے پیچھے مفاہمت و سمجھوتہ بازی پہ مبنی اصلاح پسندانہ نظریات کارفرما ہیں جن کے تحت اسی وحشی سرمایہ دار ریاست کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں مصالحت کی خواہش نظر آتی ہے۔ ایک یا دوسرے انتظامی ڈھانچے کے اس مباحثے میں سب سے بنیادی اور اہم نقطے پر سب سے کم بحث دکھائی دیتی ہے۔ یہ بنیادی نقطہ اس معاشی و سیاسی نظام کا ہے جس پر ان میں سے کسی ایک انتظامی ڈھانچے کو قائم کیا جائے گا۔ یہ نقطہ شائد جی بی کی حکمران اشرافیہ اور ان کے سیاسی گماشتوں کے لیے اہم نہ ہو کیوں کہ انہوں نے تو ہر حال میں اسلام آباد کے حکمرانوں اور جی بی کے وسائل لوٹنے والی سامراجی کمپنیوں کے کمیشن ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے اپنا چھوٹا موٹا حصہ وصول کرنا ہے۔ مگر یہ سوال جی بی کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کے نقطہ نظر سے اس لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے چونکہ انہیں طویل عرصے کی محرومیوں کے بعد جس جمہوری انتظامی ڈھانچے کا فریب دیا جا رہا ہے کیا وہ جی بی کے عوام کے بنیادی مسائل حل کر پائے گا؟ کیا یہ ڈھانچہ جی بی کے خطے کے آبی وسائل، چراگاہوں، معدنیات اور دیگر قیمتی دھاتوں پر یہاں کے عوام کے حق ملکیت و تصرف کو یقینی بنائے گا یا انہیں اس سے محروم کر دے گا؟ کیا جی بی کے بے پناہ وسائل یہاں کے عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور ترقی دینے کے لیے استعمال ہو پائیں گے یا نہیں؟ ان تمام سوالات کا تعلق اس معاشی و سیاسی نظام کے ساتھ منسلک ہے جو ہمارے اوپر مسلط ہے اور جس کے تحت ہی کسی نئے انتظامی ڈھانچے کو لاگو کیا جائے گا۔ اگر ہم اس بنیادی نقطے کو تمام تر بحث سے خارج کر دیں گے تو باقی ایک یا دوسرے انتظامی ڈھانچے کی بحث انتہائی سطحی اور فضول بکواس پر مبنی رہ جائے گی۔ جی بی کے عوام بخوبی یہ جانتے ہیں کہ 2009ء میں لاگو کیے جانے والے نیم صوبائی طرز کے حکومتی نظام نے بھی جی بی کے عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی بلکہ اس کے بالکل برعکس جی بی کی متنازعہ حیثیت کو کسی حد تک ختم کر کے یہاں کے وسائل کو چینی سامراج اور پاکستانی سرمایہ داروں کی لوٹ کے لیے پیش کرنے کا ایک راستہ ہموار کیا گیا تھا۔ یہی تجربہ ہمیں یہ بتا تا ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے تحت غیر اعلانیہ نیم صوبائی ڈھانچے کی تشکیل کے پیچھے حقیقی مقصد جی بی کے عوام کو جمہوری حقوق دینا نہیں تھا بلکہ اصل مقصد اس خطے کے وسائل کی کھلی لوٹ کا تھا اور اسی عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے اب اس کو اعلانیہ عبوری صوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس عبوری ڈھانچے کی تشکیل کے ذریعے درحقیقت اس خطے پر ایک نئی عالمی سامراجی طاقت کے غلبے کو قانونی نقاب فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ جہاں ایک جانب سات دہائیوں سے چلے آنے والے کشمیر کے تنازعہ کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو بتدریج کم تر کر کے بے وقعت بنانے کی جانب لے جائے گا وہیں دوسری جانب جی بی کے وسائل کی کھلی سامراجی لوٹ کی راہ ہموار کردے گا۔ یوں چینی سامراج سمیت دیگر تمام گدھ اس خطے کے وسائل کو لوٹنے کی واردات کو نیم قانونی تحفظ حاصل کر لیں گے۔

گزشتہ عرصے میں بھی ہم نے چینی سامراج کے بڑے حریف امریکی سامراج اور ہندوستان کی طرف سے سی پیک پر اعتراضات دیکھے ہیں کہ یہ ایک متنازعہ علاقے سے گزرتا ہے اور جب تک مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہوتا تب تک یہاں اس قسم کی بڑی سرمایہ کاری نہیں کی جانی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس حوالے سے ایک بڑی پیش رفت 5 اگست 2019ء کو مودی حکومت کی جانب سے ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کی نیم خومختار ریاستی حیثیت کا خاتمہ تھا۔ ہندوستان نے اپنے زیر قبضہ کشمیر کے تمام علاقوں کو ہندوستان میں ضم کرکے پاکستانی ریاست کے لیے بھی اس جانب بڑھنے کا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ جو کام مودی نے ایک جابرانہ فیصلے کو فوجی طاقت کے زور پر مسلط کر کے کیا تھا وہی کام پاکستانی حکمران طبقات جی بی کے عوام کو ایک نیا طرز حکومت دینے کے نام پر مکارانہ اندازسے کر رہے ہیں مگر اس میں ان کی یہ کوشش بھی ہے کہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے مسئلہ کشمیر مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ پاکستان کے حکمران طبقات کی یہ کوشش ہے کہ وہ اپنے سابقہ منافقانہ مؤقف کی ساکھ کو برقرار رکھ سکیں اور مسئلہ کشمیر کو بھی کم تر سطح پر زندہ رکھا جائے۔ اس حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اسلام آباد کی سرمایہ دارانہ ریاست کے تسلط کے تحت جو بھی طرز حکومت جی بی پر لاگو کیا جائے گا وہ جی بی کے عوام کی زندگیوں کو کبھی بھی بہتری کی جانب نہیں لے جا سکتا اور نہ ہی جی بی کے وسائل پر یہاں کی عوام کے حق ملکیت و تصرف کو قائم رہنے دے گا۔ اس کی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام میں کسی بھی سیاسی اور معاشی پالیسی کے پیچھے ہمیشہ سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے اپنے مفادات کا رفرما ہوتے ہیں نہ کہ عوام کی خوشحالی۔

سرمایہ داری نظام کے وجود کا انحصار ہی قدرتی وسائل کے ساتھ محنت کش عوام کی محنت سے پیداکردہ دولت کی مسلسل، بلا رکاوٹ اور زیادہ سے زیادہ لوٹ مار پر ہے اور جب تک یہ نظام قائم رہے گا تب تک کسی بھی خطے کے عوام کی قوت محنت اور ان کے خطے کے قدرتی وسائل اس لوٹ مار سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ یوں سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی بحث کو چھوڑ دیا جائے تو جی بی کے نئے طرز حاکمیت کی تمام تر بحث انتہائی بے معنی اور لغو ہو جاتی ہے۔ سرمایہ داری نظام کے تحت پارلیمانی جمہوریت ہو یا صدارتی نظام، بادشاہت ہو یا کوئی فوجی آمریت، سب کا بنیادی فریضہ اس نظام کا تحفظ ہوتا ہے۔ اور اس نظام کے تحفظ کا صرف ایک مطلب ہے، سرمایہ داروں کے منافعوں اور لوٹ مار کو تحفظ فراہم کرنا۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم آمریت اور جمہوریت کے مابین فرق کو نظر انداز کر دیں۔ ہمارے نقطہ نظر سے آمریت کے جابرانہ نظام کے مقابلے میں ہمیشہ لولی لنگڑی جمہوریت نسبتاً بہتر ہوتی ہے جس میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے بنیادی جمہوری و سیاسی حقوق کسی حد تک موجود ہوتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی اس مشروط حمایت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ حکمران طبقے کے نقطہ نظر کو اپناتے ہوئے لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت کے گُن گانے شروع کر دیے جائیں۔ کسی بھی خطے کے محنت کش طبقے کے حقیقی سیاسی نمائندوں کی جمہوریت کی حمایت ہمیشہ محنت کش طبقے کے نقطہ نظر پر قائم ہوتی ہے جس کے مطابق ان نام نہاد جمہوری آزادیوں کو سرمایہ دارانہ جمہوری فریب، جھوٹ، اور دھوکہ دہی کے پیچھے چھپے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنے اور محنت کش طبقے کو مزدور جمہوریت کے قیام کی جدوجہد میں منظم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ہم جی بی پر مسلط کیے جانے والے کسی طرز حکومت کی بحث کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور ساتھ ہی اس راستے کا واضح تعین بھی کر سکتے ہیں کہ محنت کش عوام کو کس سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ جی بی میں مختلف طرز کے انتظامی ڈھانچوں کے درمیان موازنے کی جو بحث اس وقت جاری ہے، سب سے پہلے اس کی کچھ خامیوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ جیسے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ جس نظام کے اندر رہتے ہوئے ان میں سے کسی انتظامی ڈھانچے کو مسلط کیا جائے گا وہ سب سے کلیدی نقطہ ہے۔ سرمایہ داری نظام عالمی سطح پر زوال پذیر ہو کر بحرانوں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ عالمی سطح پر اس نظام کے بڑھتے ہوئے بحرانات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ نظام بھی ماضی کے غلام داری اور جاگیرداری نظام کی طرح اپنی طبعی عمر پوری کر چکا ہے اور اب اس میں مختلف خطوں کے محنت کش عوام کے مسائل کو حل کرنے یا ان کو ترقی دینے کی گنجائش و صلاحیت کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے کسی بھی خطے کے استحصال زدہ محکوم و مظلوم عوام کے مسائل حل نہیں کیے جا سکتے بلکہ اس نظام کا زوال حکمران طبقات کو پہلے سے زیادہ وحشیانہ استحصال، جبر اور لوٹ مار کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اس نظام کو قائم رکھنے کی کوشش میں حکمران طبقات محکوم اقوام کے وسائل کو پہلے سے زیادہ بے دردی کے ساتھ لوٹتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب لوٹ مار کے اس عمل میں بڑی سامراجی طاقتوں کے باہمی تضادات بھی شدت اختیار کر رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے زوال کا یہ عمل آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کرے گا اور اس کے نتیجے میں حکمران طبقات محنت کشوں اور مظلوم و محکوم اقوام پر زیادہ جبر کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس بنیاد پر دیکھا جائے تو موجودہ زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے اندر رہتے ہوئے جی بی کے عوام پر جو بھی طرز حاکمیت مسلط کیا جائے گا وہ یہاں کے عوام کے استحصال اور وسائل کی لوٹ مار میں اضافہ ہی کرے گا اور کسی بھی قسم کی بہتری کے کوئی امکانات موجود نہیں۔ اس لیے محض یہ بحث کہ پاکستانی ریاست کے زیر تسلط اور اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے جی بی کے عوام کو کس قسم کا انتظامی ڈھانچہ ملنا چاہیے، درحقیقت محنت کش عوام کے شعور پر حکمران طبقات کے نظریات مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ ہمیں یہ واضح مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جو بھی طرز حکمرانی رائج کیا جائے گا وہ محنت کش عوام کے استحصال، ان پر حکمران طبقات کے جبر اور وسائل کی لوٹ مار میں اضافہ ہی کرے گا۔ دوسری بڑی خامی اس پہلو کو نظر انداز کرنا ہے کہ ایک یا دوسری حاکمیت کو لاگو کرنے کے لیے انہی غاصب حکمران طبقات پر انحصار کیا جا رہا ہے جو گزشتہ سات دہائیوں سے جی بی کے محنت کش عوام کے تمام تر مسائل کے ذمہ دار اور مجرم ہیں۔ جی بی کی موجودہ پسماندگی، صحت و تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محرومی، روزگار کے مواقعوں کی عدم دستیابی سمیت تمام مسائل اسی نظام اور حکمران طبقات کے پیدا کردہ ہیں۔ پھر کس طرح آج انہی حکمرانوں کے کسی ایک یا دوسرے طرز حاکمیت کے ذریعے ان مسائل کے خاتمے کی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں؟ اس نظام کے تحت جو حکمران طبقہ دو تہائی صدی کے عرصے میں بھی پورے پاکستان کے محنت کش عوام کا جب کوئی ایک بنیادی مسئلہ حل نہیں کر پایا تو اس خوش فہمی کا کیا مطلب ہے کہ جی بی کو مستقل آئینی صوبہ بنا کر یا کسی دوسرے طرز حاکمیت کے ذریعے یہاں کے عوام کی زندگیوں میں کوئی بہتری لے آئے گا؟ دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جس قسم کے انتظامی ڈھانچوں کے ساتھ ہماری خوش فہمیاں وابستہ ہیں، کیا جن خطوں میں یہ رائج ہیں وہاں کے عوام کے مسائل حاکمیت کے ان مختلف طریقوں سے حل ہو چکے ہیں۔

جہاں تک آزاد کشمیر طرز کے نظام کا تعلق ہے تو پچھلے 74 سالوں میں اس طرز حکومت کے تحت وہاں کے محنت کش عوام کی زندگیوں میں کیا بہتری لائی گئی ہے؟ صرف کشمیر کی ایک چھوٹی سی مراعات یافتہ اشرافیہ کی پرت کو اقتدار میں شراکت کے ذریعے نوازا گیا ہے جبکہ باقی ننانوے فیصد کشمیری عوام تو، جی بی والوں کو دلکش نظر آنے والے اس ریاستی نظام میں آج بھی غربت، بے روزگاری اور پسماندگی کا شکار ہیں۔

جہاں تک آزاد کشمیر طرز کے نظام کا تعلق ہے تو پچھلے 74 سالوں میں اس طرز حکومت کے تحت وہاں کے محنت کش عوام کی زندگیوں میں کیا بہتری لائی گئی ہے؟ صرف کشمیر کی ایک چھوٹی سی مراعات یافتہ اشرافیہ کی پرت کو اقتدار میں شراکت کے ذریعے نوازا گیا ہے جبکہ باقی ننانوے فیصد کشمیری عوام تو، جی بی والوں کو دلکش نظر آنے والے اس ریاستی نظام میں آج بھی غربت، بے روزگاری اور پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہ نام نہاد آزاد حکومتی نظام کشمیر کے وسائل دولت کی حفاظت کرنے میں اسی طرح ناکام ہے جس طرح جی بی پہ مسلط ریموٹ کنٹرول نظام ناکام ہے۔ کشمیر کی جعلی آزاد حکومت سے بالا تمام معاشی، اقتصادی اور سیاسی پالیسیاں براہ راست اسلام آباد کے حکمران بناتے ہیں۔کشمیر کے طلبہ، نوجوانوں، مزدوروں اور چھوٹے ملازموں کی طرف سے اپنے بنیادی حقوق کیلئے اُٹھنے والی تحریکوں کو اسی طرح ہی کچل دیا جاتا ہے جس طرح جی بی میں یہاں کی عوامی تحریکوں کو کچلا جاتا ہے۔ کشمیر کے صدر و وزیر اعظم اسلام آباد کے اسی طرح مہرے بنے ہوئے ہیں جس طرح جی بی کے گورنر اور وزیر اعلیٰ۔ نیز آزاد کشمیر کا عبوری آئینی ایکٹ 1974ء بھی اسلام آباد کے حکمرانوں نے کشمیری عوام پہ اسی طرح مسلط کیا ہوا ہے جس طرح جی بی پہ ایگزیکٹو آرڈرز مسلط کیے گئے ہیں۔ کشمیر کونسل اور جی بی کونسل دونوں کا غیر منتخب چیئرمین وزیر اعظم پاکستان ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کشمیر کے تمام قوم پرست اور ترقی پسند پارٹیاں اس نام نہاد عبوری آئینی ایکٹ 1974ء کو ختم کرکے خودمختار آئین ساز اسمبلی اور خودمختار حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہی ہیں، حتیٰ کہ کبھی کبھار حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی بھی اس کی دبے الفاظ میں مخالفت کر دیتے ہیں، اگرچہ ان کی مخالفت کا مقصد محض اپنے مفادات اور نوکری کو تحفظ فراہم کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔
ایسے میں جی بی کے قوم پرست حلقوں کی طرف سے آزاد کشمیر طرز کا نو آبادیاتی نظام حکومت کا مطالبہ نہایت ہی کمزور، مبہم اور یہاں کی عوامی امنگوں کے یکسر منافی نعرہ ہے جو کہ نو آبادیاتی نظام کی ایک شکل کی جگہ دوسری شکل اپنے اوپر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ داخلی خودمختاری کا نعرہ بھی اسی آزاد کشمیر طرز کے نظام جیسا ہی نعرہ ہے اور اس نعرے میں بھی سرمایہ داری نظام کی لوٹ مار اور جبر و استحصال سے گلو خلاصی کا کوئی راستہ نہیں۔

جہاں تک مکمل آئینی صوبے کے نعرے کا تعلق ہے تو اس کے لیے خود پاکستان کا حکمران طبقہ اس وجہ سے تیار نہیں کہ جی بی کو مستقل آئینی صوبہ بنانے کی صورت میں بقایا کشمیر پہ اس کا دعویٰ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر اس پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ کیا مستقل صوبہ بنائے جانے سے جی بی کے وسائل کی لوٹ مار نہیں ہو گی اور ان وسائل دولت پر جی بی کے عوام کی اجتماعی ملکیت کا حق تسلیم کر لیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے اگر ہم پاکستان کے مختلف صوبوں کے محنت کش عوام کے حالات زندگی پر سر سری سی نظر ڈالیں تو ہمیں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے مختلف صوبوں یا نام نہاد آزادکشمیر کے اکثریتی عوام کی غربت، پسماندگی اور استحصال کی صورتحال یہ واضح کر دیتی ہے کہ سوال ایک یا دوسرے طرز کے انتظامی ڈھانچے کا نہیں بلکہ اس نظام کا ہے جس کے تحت ان مختلف حکومتی ڈھانچوں کو ایک ہی استحصالی اور لوٹ مار کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے الگ الگ خطوں کے محنت کش عوام پر مسلط کیا جاتا ہے۔ اگر باقی تمام صورتحال کو جوں کا توں رکھتے ہوئے انہی سرمایہ دارانہ قوانین اور آئین کے دائرہ کار کے اندرہی جی بی کے عوام کو بنیادی جمہوری حقوق اور وسائل پر کنٹرول فراہم کرنے کا سوال ہو تو اس میں خود پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 کو بھی زیر بحث لایاجا سکتا ہے۔ اس آرٹیکل میں واضح کیا گیا ہے کہ جب کشمیر اور جی بی کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں گے تو یہ الحاق کشمیر اور جی بی کے عوام کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کے تحت ہو گا۔ اگر جی بی کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی کا جی بی کے عوام کو بنیادی جمہوری حقوق فراہم کرنے سے ذرہ برابر بھی تعلق ہوتا تو اس کے لیے کسی نئی آئینی ترمیم یا صدارتی آرڈیننس کی ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ اسی آرٹیکل کے تحت جی بی کے عارضی الحاق کے معاملے کو طے کیا جا سکتا تھا۔ لیکن درحقیقت سامراجی جکڑ بندی کی شکل کو تبدیل کرنے کا ہر گز مقصد یہ نہیں کہ پاکستان کے حکمران طبقات جی بی کے عوام کو کوئی جمہوری حقوق دینا چاہتے ہیں یا جی بی کے خطے کو ترقی دی جائے گی۔ اس انتظامی حیثیت میں تبدیلی کا بنیادی مقصد چینی اور پاکستانی سامراجی گدھوں کو جی بی کے قدرتی وسائل لوٹنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہے۔ جی بی میں اسلام آباد کے گماشتے بھی عبوری صوبے کے حوالے سے عوام میں بے شمار خوش فہمیاں پھیلا نے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ جی بی کے عام عوام اور نوجوان بھی سات عشروں تک کسی قانونی و آئینی نظام حکومت سے محروم رہنے کی وجہ سے اس بحث میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی لیے ہمیں مستقل آئینی صوبے، داخلی خودمختاری اور آزدکشمیر طرز کے انتظامی ڈھانچے جیسی مختلف آراء نظر آ رہی ہیں۔

یہ ایک انتہائی اہم سیاسی مباحثہ ہے جس کے جی بی کے عوام کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے جی بی کے عوام کو تمام بنیادی جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا لیکن اس تمام تر عرصے میں جی بی کے خطے میں موجود معدنیات اور دیگر وسائل کی بڑے پیمانے پر لوٹ مار کا عمل نہیں تھا۔ لیکن اب صورتحال تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے اور جی بی کے تمام قدرتی وسائل سمیت وہاں کے عوام کی زمینوں پر قبضوں کا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ ان قبضوں اور لوٹ مار کو قانونی شکل دینے کے لیے جی بی کو ایک عبوری صوبہ بنایا جا رہا ہے اور اس عمل کے خلاف نوجوانوں اور سیاسی حلقوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ جی بی کے عوام کے یہ خدشات درست ہیں کہ اس عمل میں ان کو آزادی، جمہوری حقوق یا ترقی کے مواقع تو نہیں ملیں گے البتہ وہ اپنے خطے کے وسائل سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ تمام تر بحث کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جی بی کے عوام کو کس قسم کا انتظامی ڈھانچہ ملنا چاہیے جس کے ذریعے ان کا اپنے خطے کے قدرتی وسائل پر کنٹرول باقی رہے اور ان وسائل کو جی بی کے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے اور اس خطے کو ترقی دینے کے لیے تصرف میں لایا جا سکے۔ جی بی کے عوام اور سیاسی حلقوں میں انتظامی ڈھانچے کے حوالے سے جو مختلف تجاویز زیر بحث ہیں ان کے پیچھے بھی یہی خواہش ہے۔ اگر پاکستان کے مختلف صوبوں یا اس کے زیر انتظام علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ انتظامی ڈھانچے کی نوعیت کوئی بھی ہو حاکمیت بحرحال سرمایہ داروں اور ان کے گماشتوں کی ہی ہوتی ہے۔ آزادکشمیر کے نام نہاد اپنے صدر اور وزیر اعظم والا انتظامی ڈھانچہ بھی سرمایہ داروں اور سامراجی کمپنیوں کے مفادات کاا سی طرح تحفظ کرتا ہے جیسے بلوچستان کا مستقل صوبائی انتظامی ڈھانچہ۔ بلوچستان کے عوام بھی جی بی کی طرح وسائل سے مالا مال خطے کے باسی ہیں اور بلوچستان پاکستا ن کا مستقل صوبہ بھی ہے مگر پھر بھی وہاں کے عام عوام نہ تو اپنے وسائل پر کوئی کنٹرول رکھتے ہیں اور نہ صوبائی اور قومی اسمبلی میں ان کے نام نہاد نمائندے ان وسائل سے پیدا ہونے والی دولت کو بلوچستان کے غریب عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے پر خرچ کرانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ اسی طرح نام نہاد آزاد کشمیر کا مبینہ طور پر آزاد حکومتی ڈھانچہ اس خطے کے وسائل کو سامراجی لوٹ مار سے محفوظ رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اگر بلوچستان کا مستقل صوبہ اور آزاد کشمیرکا اپنا حکومتی ڈھانچہ ان خطوں کے وسائل کو سامراجی لوٹ سے محفوظ نہیں رکھ سکا تو جی بی میں ان جیسا یا ان سے مختلف کوئی انتظامی ڈھانچہ کیسے یہ ضمانت فراہم کر سکتا ہے کہ یہاں کے وسائل پر یہاں کے لوگوں کا کنٹرول رہے گا۔ دوسری جانب کسی بھی قسم کا انتظامی ڈھانچہ رائج کر لیا جائے اس میں حاکمیت اسلام آباد کے گماشتوں کی ہی رہے گی۔ پاکستانی ریاست اور سرمایہ داری نظام کوئی بھی ایسا انتظامی ڈھانچہ تشکیل نہیں دے سکتے جو جی بی کے عام عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکے یا جی بی کے وسائل کو سامراجی لوٹ مار سے محفوظ رکھ سکے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ ایک یا دوسرے طرز کے حکومتی ڈھانچوں کا نہیں اور نہ آئین کی کسی شق کا ہے۔ حکمران طبقات آئین اور قانون کو اپنی حکمرانی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے بناتے اور استعمال کرتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق اس کو تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے جی بی کے مستقبل کی بحث میں ہمیں ان ظالم حکمرانوں کے وحشیانہ قوانین، جو صرف عوام پر جبر کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، اور ایسی آئینی شقوں جن پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا جاتا، کی بحث میں جانے سے اجتناب کی ضرورت ہے۔

اولین اہمیت کا سوال یہ ہے کہ جی بی کے محنت کش عوام کی آزادی اور وسائل پر اجتماعی کنٹرول کے حوالے سے ہمیں کن نظریات کی بنیاد پر جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی پہلو پر نتیجہ خیز بحث کے ذریعے ہم اس عبوری پروگرام و مطالبات کو مرتب کر سکتے ہیں جن کے گرد عوام کو منظم کیا جاسکے۔ سرمایہ داری نظام کی دنیا بھر میں عمومی صورتحال کا جائزہ لینے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے جی بی عوام کے بنیادی مسائل کے حل کے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔ جی بی کے عوام کو اپنے خطے کے تمام وسائل پر اپنی اجتماعی ملکیت کا مکمل حق حاصل کرنے کے لیے اس نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ طبقاتی بنیادوں پر اس لیے کہ جی بی کے اندر حکمران اشرافیہ کی ایک چھوٹی سی پرت ایسی موجود ہے جس کے مفادات پاکستانی اور عالمی سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر جی بی کے وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس حکمران اشرافیہ کے مفادات اور جی بی کے عام محنت کش عوام کے مفادات باہمی طور پر نہ صرف متصادم بلکہ مکمل طور پر متضاد ہیں۔ اگر جی بی کے عوام کا اپنے وسائل پر مکمل اجتماعی کنٹرول قائم ہو گا تو اس ڈاکو اور گماشتہ حکمران اشرافیہ کے مفادات اور لوٹ مار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے یہ حکمران اشرافیہ وسائل کی سامراجیوں کے ہاتھوں لوٹ مار کے عمل میں اپنے کمیشن کو یقینی بنانے کے لیے اسلام آباد کے حکمرانوں کی غلامی کر رہی ہے۔ یوں جی بی کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو اپنی مکمل آزادی اور وسائل پر اجتماعی کنٹرول قائم کرنے کے لیے اس حکمران اشرافیہ کے خلاف محنت کش طبقے کی بنیاد پر منظم ہوکر اس ظالمانہ سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی جدوجہد کرنا ہوگی۔ اس نظام کے خاتمے کی طبقاتی جدوجہد میں ان کے اتحادی پاکستان اور نام نہاد آزادکشمیر سمیت دنیا بھر کے محنت کش ہوں گے جو اپنے اپنے خطوں میں اس استحصالی نظام کے خلاف جدوجہد کے میدان میں اتر رہے ہیں۔ گزشتہ عرصے میں ہندوستان کے کسانوں نے اپنے اتحاد اور استقامت کی بنیاد پر ایک سال کی طویل جدوجہد کے ذریعے مودی کی ظالم حکومت کو شکست فاش دے کر وحشیانہ زرعی قوانین کے خاتمے میں بے مثال کامیابی حاصل کی۔ اس سے بھی زیادہ اہم کامیابی خود جی بی کے عوام نے 2014ء میں گندم سبسڈی بحالی تحریک کی فتح کی صورت میں حاصل کی تھی۔ گندم سبسڈی بحالی تحریک میں بھی جی بی کے عوام نے طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر نہ صرف اپنی مقامی اشرافیہ بلکہ اسلام آباد کے حکمران طبقات کو شکست فاش دے کر ایک شاندار فتح حاصل کی تھی۔ گندم سبسڈی بحالی کی تحریک ایک فوری مطالبے کے گرد تھی جس پر یہاں کے عوام نے زبردست اتحاد اور لڑاکا پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس کے مقابلے میں نئے انتظامی ڈھانچے کو لاگو کیے جانے اور جی بی کے وسائل کو سامراجی لوٹ مار سے محفوظ رکھنے کا معاملہ زیادہ بڑا اور نسبتاً پیچیدہ بھی ہے۔ اس میں عوام کی اکثریت کے سامنے فوری طور پر کوئی یک نقاطی ایسا پروگرام نہیں رکھا جا سکتا جو عوام کی اکثریت کو فوری طور پر عمل کے لیے آمادہ کر لے گا۔ اگر ایسا ہو بھی جاتا ہے تو پھر بھی ہمیں واضح طور پر ایک نظریے، پروگرام اور حکمت عملی کی ضرورت پیش آئے گی جو اس لڑائی کو حتمی فتح کی جانب لے جا سکے۔

یہ اس نظام کی تبدیلی کی جدوجہد ہے جسے سب سے پہلے درست انقلابی نظریات کی بنیاد پر استوار کرنا پڑے گا۔ ہمارے عہد میں ایسا واحد نظریہ مارکسزم کا انقلابی نظریہ ہے جو وسائل کی ہر قسم کی لوٹ مار، تمام تر قومی و طبقاتی استحصال اور جبر و استبداد کے خاتمے کا سائنسی پروگرام اور طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ مارکسزم کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ جی بی کے عوام کو اپنے وسائل کے تحفظ کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کے کسی ایک یا دوسرے انتظامی ڈھانچے کی نہیں بلکہ گندم سبسڈی بحالی کی تحریک کی طرح اجتماعی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ یہ بات بھی پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ جس بھی قسم کا انتظامی ڈھانچہ جی بی پر مسلط کیا جاتا ہے اس کے تحت آنے والے عرصے میں ایک بار پھر جی بی کے عوام کی جیتی ہوئی حاصلات یعنی گندم کی سبسڈی پر دوبارہ حملے کے پورے امکانات موجود ہیں۔ پہلے اگر یہ حملہ اسلام آباد کی حکومت نے کیا تھا تو آنے والے عرصے میں یہ حملہ جی بی کے مقامی حکمرانوں کے جانب سے کرایا جا سکتا ہے۔ اس لیے نہ صرف کہ وسائل کی ممکنہ لوٹ کے خلاف بلکہ جو چھوٹی موٹی حاصلات موجود ہیں ان کے تحفظ کے لیے بھی جی بی کے عوام کو جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ پاکستانی سرمایہ دارانہ ریاست کا بڑھتا ہوا بحران اسے مجبور کررہا ہے کہ وہ محنت کشوں، کسانوں اور اپنے زیر قبضہ مظلوم اقوام کی استحصال زدہ پرتوں کا زیادہ سے زیادہ خون نچوڑ کر اس نظام کو کچھ مزید سانسیں فراہم کریں۔ اس کیفیت میں جی بی کے عوام کو اس تمام تر جدوجہد کے لیے ایک ایسے پروگرام کی ضرورت ہے جو ان کے تمام تر مسائل کا حتمی حل فراہم کر سکے۔ ایک یا دوسرے انتظامی ڈھانچے کے حق یا مخالفت میں بے معنی تکرار کی بجائے محنت کش عوام کو جی بی کی زمینوں پر قبضوں کو روکنے کے لیے عوام کی اجتماعی جمہوری کمیٹیوں یا کونسلوں کی بنیاد پر منظم کرتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح جی بی کے معدنی وسائل کو نکالنے کا ٹھیکہ اگر کسی سامراجی کمپنی کو دیا جاتا ہے تو اس میں تمام تر روزگار مقامی لوگوں کو دیے جانے کے ساتھ اس کی فروخت کے عمل تک عوامی کنٹرول اور نگرانی قائم کرنے اور اس سے حاصل ہونے والے منافعوں کے 60 سے 80 فیصد حصے پر اس علاقے کی عوامی کونسل کا حق تسلیم کرانے کی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان عوامی کونسلوں کے ذریعے جی بی کے عوام کے دیگر تعلیم، علاج اور روزگار جیسے مسائل کے حل کی جدو جہد کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

اس تمام تر جدوجہد کو بالخصوص پاکستان اور بالعموم دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے اور پرولتاری انقلابی یکجہتی کی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پھر اس تمام جدوجہد کو مارکسزم کے سائنسی نظریات پر استوار کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس استحصالی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی جانب آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری نظام کا حتمی خاتمہ ہی جی بی کے عوام کی ہر قسم کے استحصال، ان کے وسائل کی لوٹ مار، ان کی مکمل قومی و طبقاتی آزادی اور خوشحالی کی مکمل ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ نام نہا د حقیقت پسند اور عملیت پسند سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کو مستقبل بعید کا ایک خواب قرار دے کر اسے رد کرنے اور”حقیقت پسند ی“ کے نام پر اسی نظام سے ملنے والے بھیک کے چند ٹکڑوں کے لیے کوشش کرنے کا درس دیں۔ مگر ہم بھیک لینے کے اس درس کو مسترد کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ جی بی کے عوام بھکاری نہیں ہیں بلکہ دنیا کی چھت کہلانے والے اس انتہائی حسین و جمیل اور وسیع و عریض خطے کے باسی ہیں، جہاں بہتے ہوئے شفاف پانی کے جھرنے، پہاڑوں کے دامن میں واقع ناقابل یقین حد تک خوبصورت اور دلکش وادیاں، دریا، گلئشیرز اور دنیا کے بلند ترین پہاڑ موجود ہیں اور پھر یہ پورا خطہ بے شمار اقسام کی معدنیات کی فطری دولت سے اس قدر بھرمالا مال ہے کہ اگر ان وسائل کا عشر عشیر بھی یہاں کے محنت کش عوام کی زندگیوں کو بہتر کرنے میں صرف کیا جائے تو اس خطے کو حقیقی معنوں میں ایک جنت ارضی بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس خطے کے کچھ نام نہاد حقیقت پسند اگر سامراجیوں کے پھینکے گئے بھیک کے چند ٹکڑوں پر خوش ہونا چاہتے ہیں تو وہ ضرور ایسا کریں چونکہ یہی ان کا مقدر ہے۔ مگر ہم اس خطے کے محنت کش عوام اور نوجوان اس بھیک میں ملنے والے انتظامی ڈھانچوں کو بھی اپنی توہین سمجھتے ہیں اور ہم اس سرمایہ داری نظام کو اس کی تمام تر لوٹ مار، مظالم اور وحشتوں سمیت اکھاڑ پھینکتے ہوئے ہی اپنی ہر تذلیل اور ظلم کا انتقام لیں گے۔

جی بی کے عوام کی مکمل خو مختاری اور وسائل پر مکمل جمہوری کنٹرول زندہ باد!
جی بی کی زمینوں پر قبضہ اور وسائل کی لوٹ مار کے خلاف محنت کش عوام کی اجتماعی جدوجہد زندہ باد!

Comments are closed.