بلوچستان: آگ اور خون کی ہولی میں محنت کشوں اور غریبوں کا قتل عام

|تحریر: رزاق غورزنگ|

ہفتے کے روز گوادر کے علاقے پشکان اور گنت میں تعمیراتی کام کرنے والے 10 مزدوروں کے قتل عام نے ایک بار پھر بلوچستان میں ریاستی جبر، عالمی سامراجی قوتوں کی مداخلت اور اس کے نتیجے میں بننے والی صورتحال کی پیچیدگی اور سنگینی کو آشکار کیا ہے۔ اس سے قبل پچھلے مہینے بھی سندھ سے تعلق رکھنے والے چار محنت کشوں کو قتل کیا گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق گوادر کے علاقے پشکان میں تعمیراتی کام کرنے والے مزدوروں پر ہفتے کے دن نامعلوم افراد نے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں 10 مزدور موقع پر جاں بحق اور کئی زخمی بھی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کا تعلق سندھ کے علاقے نوشہرہ فیروز سے تھا۔ جبکہ خاران کے اندر مارنے والے چار محنت کشوں کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تھا۔ گوادر کے محنت کشوں کے اس قتل عام کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی(BLA) نے قبول کی ہے۔ محنت کشوں کے اس قتل عام کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور ان واقعات میں ملوث بلوچ علیحدگی پسند نہ صرف بلوچ قومی آزادی کے دشمن ہیں بلکہ محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کو زک پہنچا کر حکمران طبقے کے مفادات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے اندر اس طرح کے واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں ریاست کی جانب سے 25,000 بلوچ سیاسی کارکنان کا قتل عام، مسخ شدہ لاشیں اور لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا وکلا اور ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کا معاملہ ہو یہ سب بلوچستان کے اندر جابر قوتوں کی جانب سے مسلط کردہ آگ اور خون کا کھیل ہے جو کہ صورتحال کو گھمبیر تر کر رہے ہیں۔

پاکستانی ریاست کا جبر
پاکستان بننے کے بعد پنجاب کی فوجی اشرافیہ اور حکمران طبقات نے جہاں اپنے داخلی کردار میں پنجاب کے محنت کشوں کا شدید استحصال کیا تو دوسری طرف مظلوم قومیتوں پر بھی جبر کی انتہا کردی گئی اور ان کے وسائل کی لوٹ مار کی گئی۔ استحصال کی یہ شکل بلوچستان میں شدیدتر ہے۔ یہاں کے عوام اتھاہ محرومی، غربت اور بیروزگاری کے ذلتوں سے دوچار ہیں۔ شدید پسماندگی جو افریقہ کی نوآبادیات کی یاد دلا دیتی ہے۔ سب سے زیادہ معدنی ذخائر رکھنے والے اس صوبے کے باسیوں کی سماجی حالت سب سے پست ہے ۔ آبادی کی اکثریت انتہائی مشکل اور بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقات بلوچستان میں ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں کبھی بھی سنجیدہ نہیں رہے۔ ایسے میں بلوچ عوام میں جذبۂ آزادی اور اپنے بنیادی حقوق کی لڑائی ایک فطری بات تھی۔ بلوچ عوام نے گزشستہ ستر برسوں میں متعدد بار ریاستی، سماجی اور اقتصادی جبر کیخلاف بغاوتیں کی ہیں۔ خاص طور پر آزادی کے اس جنگ میں نوجوانوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں لیکن کسی بھی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے صرف ہیروازم کافی نہیں ہوتا۔ آزادی کے حصول اور تحریک کی کامیابی کے لیے ایک سائنسی نظریہ، درست لائحہ عمل اور سٹریٹجی کی ضرورت ہوتی ہے؛ جس کے لیے مسلسل عوام کے اندر کام کرنا ہو گا، اپنے ٹھوس پروگرام اور درست نعروں پر انہیں جیتنا ہوگا اور آزادی کی جدوجہد میں عوام کی اکثریت کو شعوری طور پر شامل کرنا ہوگا۔ گذشتہ عرصے میں مسلح جدوجہد کا جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ ایک غلط اور غیر سائنسی طریقہ کار تھا جس نے جابر ریاست کو مزید جبر اور جارحانہ اقدامات کا جواز فراہم کیا۔ کیونکہ بندوق کے سر پر ہونے والی سیاست سماج اور پورے سیاسی عمل سے کاٹ دیتی ہے۔ انفرادی دہشت گردی کے اس غلط طریقہ کار کیوجہ سے انتہائی قیمتی کیڈرز ضائع ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً پوری تحریک برباد ہو جاتی ہے۔ ہزاروں کارکنان اس غلط طریقہ کار کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بلوچستان میں بار بار فوج کشی کی گئی اور آج بھی بلوچستان میں بدترین فوجی آپریشن جاری ہے۔ کارل مارکس نے ہندوستان میں انگریزی سامراج کے کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا ’’انگریز سامراج نے ہندوستان کو ہندوستانی فوج کے ذریعے فتح کیا۔‘‘ کارل مارکس کے یہ الفاظ بلوچستان کی صورتحال پر صادر آتے ہیں۔

1948ء سے لے کر آج تک بلوچستان پر ظلم،جبر اور استحصال میں پاکستانی حکمران طبقات کے ساتھ بلوچستان کی سیاسی قیادت بھی شریک رہی ہے۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ظلم اور جبر کی راہ ہموار کرنے میں ان کی مدد شامل حال رہی ہے۔ بلوچستان میں قوم پرستوں کی موجودہ حکومت پنجابی سرمایہ داروں کے سب سے رجعتی دھڑے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد پر مشتمل ہے۔ اسی طرح صوبے میں اتنے ظلم اور جبر کی موجودگی میں اخترمینگل سمیت دوسری تمام سیاسی پارٹیوں کی سیاست ایک انتہائی نان ایشو کے گرد گھومتی رہتی ہے اور وہ یہ کہ مردم شماری کے عمل میں افغان مہاجرین کو دور رکھا جائے۔ مارکسسٹ اس پیٹی بورژوا اور تنگ نظر قوم پرستی کیخلاف ایک بے رحمانہ جنگ کا اعلان کرتے ہیں اور بلوچستان کے اندر سوشلسٹ نظریات کی سیاست کرنے والے تمام کارکنوں کی یہ تاریخی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان تنگ نظر اور مراعات یافتہ طبقے کی قوم پرستی کاپردہ چاک کرتے ہوئے مزدوروں کی طبقاتی یکجہتی اور اتحاد کے لیے سنجیدہ جدوجہد کریں۔ مارکسزم کے عظیم استاد کامریڈ لینن محکوم اور مظلوم قوم کے سوشلسٹوں کے تاریخی کردار کے بارے میں لکھتا ہے، ’’محکوم قوموں کے سوشلسٹوں کو خاص طور پر محکوم اقوام اور حاکم قوم کے مزدوروں کے درمیان مکمل اور قطعی اتحاد (بشمولِ تنظیمی اتحاد) کے لئے جدوجہد کرنا چاہیے۔ اس طرح کے اتحاد کے بغیر بورژوازی کی چالبازیوں، دھوکوں اور حیلوں کی موجودگی میں ایک آزاد پرولتاری پالیسی اور دوسری قوم کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی یکجہتی ناممکن ہے۔ کیونکہ محکوم قوموں کی بورژوازی ہمیشہ قومی آزادی کے نعرے کو مزدوروں کو دھوکہ دینے کے آلہ میں تبدیل کرتی ہے۔ اندرونی سیاست میں وہ ان نعروں کو حاکم قوم کی بورژوازی کے ساتھ رجعتی معاہدے کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ خارجہ سیاست کے میدان میں وہ اپنے غارتگری کے مفادات کی خاطر حریف سامراجی طاقتوں میں سے ایک کے ساتھ معاہدے کرتے ہیں۔ خاص حالت میں ایک سامراجی طاقت قومی آزادی کی جدوجہد کو دوسری بڑی طاقتوں کیخلاف اپنے سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہے۔‘‘

عالمی طاقتوں کی مداخلت

معدنیات کی بیش بہا دولت اور صوبے کی جغرافیائی اور سٹریٹیجک اہمیت بلوچستان کے لوگوں کے لیے ایک عذاب بن چکی ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بلوچستان میں ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر کی معدنیات موجود ہیں۔ سرمایہ داری نظام کے بحران اور اس سے جنم لینے والی شرحِ منافع کی گراوٹ نے عالمی وعلاقائی سامراجی قوتوں اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کو انتہائی خونخوار کر دیا ہے۔ اپنے منافعوں کو بڑھانے کے لیے عالمی و علاقائی سامراجی طاقتیں پسماندہ علاقوں کے وسائل کو لوٹتے ہیں اور وہاں پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے اندر سب سے زیادہ سرمایہ کاری چینی اجارہ داریوں کی ہے۔ سینڈک پروجیکٹ پر قابض چینی کارپوریشن پندرہ ہزار ٹن روزانہ کے حساب سے کچ دھات نکالتی ہے۔ افغانستان اور ایران کے بارڈر کے نزدیک ریکوڈک فیلڈ میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن خالص تانبے اور دو کروڑ دس لاکھ اونس سونے کی موجودگی کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ رپورٹوں کی مطابق اس میں بھی زیادہ تر سرمایہ کاری چینی اجارہ داریوں کی ہے۔

بحیرۂ عرب کے مشرقی کنارے پر واقع بلوچستان، نے استعماری قوتوں کے لئے اس کی سٹریٹیجک اہمیت کو مزید بڑھادیا ہے۔ مکران کوسٹل لائن سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر آبنائے ہرمز واقع ہے جہاں سے دنیا کے چالیس فیصد تیل کی تجارت ہوتی ہے۔ سی پیک سے منسلک چینی سامراج کی 55 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ چینی سامراج گوادر بندرگاہ کے ذریعے مشرق وسطی اور یورپ کی منڈیوں تک رسائی چاہتاہے۔ لیکن خطے میں اس تمام تر سرمایہ کاری کو تحفظ دینے اور اپنے سامراجی مفادات کی نگہبانی کے لئے گوادر میں چینی سامراج بحری اڈہ بنا رہا ہے جو کہ خطے کی دوسری سامراجی قوتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ گوادر کے علاوہ چینی سامراج بحرِہند پر واقع مختلف بندرگاہوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پورے بحرِہند میں چین ایک ابھرتے ہوئے سامراج کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس خطے میں تاریخی طور پر قابض امریکی سامراج اور اس کے اتحادی بھارت کے ساتھ سامراجی مفادات کا ٹکراؤ آرہا ہے۔

ایران کو بلیک میل کرنے کے لیے سعودی سامراج بھی بلوچستان کے اندر فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے اور پچھلے سالوں میں فرقہ واریت کی بنیاد پر ہزارہ آبادی کو نشانہ بنایا گیا اور بڑے پیمانے پر ان کا قتل عام کیا گیا۔ آج بھی انہیں قیدیوں کی طرح اپنے گھروں میں محصور کیا گیا ہے۔ ریاست کے کچھ حصوں نے بھی اس فرقہ واریت کو بلوچستان میں جاری جبر اور اس کے خلاف مزاحمت سے توجہ ہٹانے کے لیے خوب استعمال کیا۔

بلوچستان میں متضاد سامراجی قوتوں کی مداخلت اور ان کی آپسی گریٹ گیم نے صورتحال کو مزید خونریز بنادیا ہے۔اپنے سامراجی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے ان باہم متصادم سامراجی قوتوں نے صوبے کے اندر اپنے اپنے پراکسیز بھی بنائی ہیں۔ آنے والے عرصے میں ان سامراجی قوتوں کے تضادات شدت اختیار کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں پراکسی وار بھی شدت اختیار کرے گی۔

تناظر
بلوچستان میں کے اندر قومی سوال اور اس کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ساتھ مزدورطبقہ اور تحریک بھی موجود ہے۔حالیہ دنوں میں کوئٹہ اور صوبے کے دیگر شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر احتجاج، مظاہرے اور ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ینگ ڈاکٹرز، اساتذہ، فارماسسٹ، پیرامیڈیکس،واپڈا اور دوسرے متعدد محنت کش مسلسل احتجاج پر ہیں۔ اگرچہ یہ ہڑتالیں اور احتجاج ابھی ابتدائی شکل میں ہیں اورصرف معاشی مطالبات تک محدود ہیں لیکن مستقبل میں یہ شدت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی کردار بھی اپنائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے پاکستان اور خطے میں مزدور تحریک نئی اٹھان لے رہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی قومی آزادی کی جدوجہد کو نہ صرف صوبے میں آباد پشتون،ہزارہ اور دیگر قومیتوں بلکہ پاکستان اور خطے کے محنت کشوں کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔ پورے پاکستان اور دنیا کے محنت کشوں کیساتھ مارکسی بین القوامیت کے انقلابی نظریات کی بنیاد پر سوشلسٹ تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ مزدور طبقے اور مزدوروں کی طبقاتی جڑت کو نقصان پہنچانے والے خواہ کسی بھی طرف کھڑے ہوں پورے محنت کش طبقے کے دشمن ہیں۔ قومی آزادی کی جدوجہد کی کامیابی طبقاتی جڑت کے ساتھ ہی یقینی ہے۔

Comments are closed.