معاشی بحران اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات کیسے ممکن ہے؟

|تحریر: آدم پال|

حکمران آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط ملنے پر خوشیاں منا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل سے لے کر زرداری، بلاول اور نواز شریف تک سب خوشی سے پھول رہے ہیں۔ بہت سے لوگ آرمی چیف کی کوششوں پر پھول نچھاور کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے مطابق افغانستان میں ہونے والی حالیہ امریکی کاروائیوں کی مدد کے باعث یہ سب کچھ ہوا ہے۔ لیکن آئی ایم ایف سے قرضے کی قسط کے اجرا نے تمام معیشت دانوں، تجزیہ کاروں اور سرمایہ داروں کو خوش کر دیا ہے۔ درحقیقت یہ اس لیے خوش ہیں کیونکہ انہیں لوٹ مار کے لیے مزید رقم مل گئی ہے اور وہ اپنی پر تعیش زندگیوں کو اب مزید کچھ عرصے تک جاری رکھ سکیں گے۔ لیکن سامراجی طاقتوں سے یہ قرض کی رقم لینے کے لیے حکمرانوں کی جانب سے عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں۔ عوام کی ہڈیوں میں سے گودا تک نکال کر آئی ایم ایف کے قدموں میں رکھا گیا ہے اور یہ حکمران اب اپنے کام کا معاوضہ وصول کر رہے ہیں۔ ملک کی معیشت اور انفرااسٹرکچر کا رہا سہا بھانڈا موجودہ سیلاب نے پھوڑ دیا ہے جس میں کم از کم تین کروڑ تیس لاکھ افراد لاکھ متاثر ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہیں۔ ان متاثرین کی ایک بہت بڑی تعداد کئی کئی دن بھوک اور پیاس میں کاٹ رہی ہے اور بہت سے ان حالات کا مقابلہ نہ کرسکنے کے باعث جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ لیکن اس بد ترین آفت میں بھی کسی کا بجلی کا بِل معاف نہیں کیا گیا اور نہ ہی دیگر ٹیکسوں کو ختم کیا گیا ہے۔ بلکہ پٹرول اور دیگر اجناس کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہو چکا ہے۔

بجلی کے بِلوں نے اس ملک کے کروڑوں صارفین کی چیخیں نکلوا دی ہیں جس میں حکمرانوں نے بے تحاشہ اضافہ کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے احکامات پر ہر قسم کے ٹیکسوں اور مہنگائی کو بالواسطہ انداز میں ایک دفعہ پھر بجلی کے بلوں کے ذریعے عوام پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ لاکھوں افراد اب بجلی کے بغیر زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں کیونکہ بجلی جیسی بنیادی ضرورت بھی اب ان کے لیے ایک عیاشی بن چکی ہے۔ مہنگائی کے اثرات اشیائے خوردو نوش سمیت ہر شے پر مرتب ہو رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق انتہائی بنیادی ضروریات کی اشیا پر افراطِ زر (SPI) اگست میں پچھلے سال کے مقابلے میں 45 فیصد زیادہ تھا۔ جبکہ ستمبر میں یہ اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں اور ان کے مقابلے میں حقیقی صورتحال کئی گنا بدتر ہوتی ہے۔ پٹرول، گیس اور دیگر بنیادی ضروریات پر بھی ٹیکسوں، ہوشربا منافعوں اور مصنوعی قلت پیدا کر کے دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے اور حکمران طبقے ان تمام مواقعوں میں ہمیشہ کی طرح لوٹ مار کرنے والوں اور عوام کے بخیے ادھیڑنے والوں کے ساتھ ہیں۔

حکمران طبقے کے گناہوں کا بوجھ ایک دفعہ پھر عوام پر لاد دیا گیا ہے اور ان کے خون سے حکمرانوں کے محلوں کی روشنیاں تیز کر دی گئی ہیں۔ یہ خونی کھیل اس ملک کے جنم سے لے کر اب تک جاری ہے اور دو طبقات کے درمیان خلیج بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اس صورتحال کی تمام تر ذمہ داری ملکی حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں پر بھی آتی ہے۔ آئی ایم ایف اس ملک کو 75 سالوں میں دو درجن کے قریب پیکج دے چکا ہے اور تمام تر پالیسیاں اور بجٹ وہی طے کرتا ہے۔ اسی طرح انفرااسٹرکچر کے بیشتر منصوبوں میں ورلڈ بینک کی مشاورت اور قرضے شامل ہوتے ہیں۔ اگر آج یہ ملک اس نہج تک پہنچا ہے جہاں تعمیرات انتہائی ناقص اور جان لیوا ہیں اور معیشت دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور عوام برباد ہیں تو اس کی ذمہ داری سے یہ سامراجی ادارے ہر گز مبرا نہیں ہیں۔ اس حوالے سے یہ بحث انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ ان طاقتوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے۔

کچھ معیشت دان اور حکمران طبقے کے افراد بشمول عمران خان متبادل کے طور پر چین، روس، سعودی عرب یا دیگر سامراجی طاقتوں کی جانب رُخ کرنے کا مشور ہ دیتے ہیں جو سراسر فراڈ ہے۔ سی پیک کے آغاز پر ہی مارکس وادیوں نے واضح کر دیا تھا کہ یہ منصوبہ اس ملک میں خوشحالی اور روزگار لانے کی بجائے معاشی بحران اور بربادی لے کر آئے گا۔ آج واضح طور پر اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ چین کے ان تمام منصوبوں کا مقصد یہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے تیز ترین لوٹ مار ہے اور وہ بھی آئی ایم ایف کے مقابلے میں اپنی لوٹ مار کو تیز کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اسی لیے چین کے قرضوں کی شرح سود سے لے کر کمیشن اور کِک بیکس کا ریٹ بھی زیادہ تھا جبکہ تعمیرات انتہائی ناقص ہوئی ہیں جس کا خمیازہ یہاں کے عوام بھگت رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی صنعت اپنے تکنیکی خصی پن کے باعث چین کی سستی مصنوعات کا مقابلہ نہیں کر سکی جس کے باعث بھی بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ روس سے سستے تیل کی درآمد کے تمام تر دعوے بھی جھوٹ پر مبنی ہیں اور روس نے حالیہ جنگ کے بعد درحقیقت تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اور وہاں کے سرمایہ دار طبقے کے منافع جنگ کے دوران کئی گنا بڑھ چکے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی اپنی معیشتیں بھی بحرانوں کا شکار ہیں اور خطے میں ان کے اپنے سامراجی مفادات بھی موجود ہیں۔ ترکی کی معیشت بھی تاریخ کے بد ترین زوال کا شکار ہے۔ ایسے میں کسی بھی دوسری طاقت یا سامراجی ملک کے ذریعے معیشت کی بحالی یا امداد کی امید رکھنا بیوقوفی ہوگی بلکہ اس کو جرم کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت چین، روس اور دیگر سامراجی طاقتوں کی معیشتوں کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی جکڑ اس وقت پوری دنیا میں موجود ہے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کی معیشت کا بحران کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس ملک کے حکمران بحران کے باعث زیادہ لوٹ مار کرتے ہیں اور اسی لئے وہ اس کے خاتمے کی کوئی خواہش بھی نہیں رکھتے۔ اسی طرح سامراجی مالیاتی اداروں کے سودی قرضوں کا گھن چکر وقت کے ساتھ ساتھ مزید خونریز اور گہرا ہی ہوتا جا رہا ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام میں ختم نہیں ہو سکتا۔ موجودہ مالی سال میں پاکستان کو تقریباً 41 ارب ڈالر کی بیرونی امداد کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو دیوالیہ پن سے بچا سکے۔ اس میں 22.9 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور سود کی قسطیں ادا کرنے کے لیے چاہیے، جبکہ 9 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پوراکرنے کے لیے درکار ہیں۔ اس کے علاوہ 8.4 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر کو مطلوبہ ہدف تک لانے کے لیے چاہیے۔ یہ ذخائر ابھی 7.8 ارب ڈالر کی سطح تک نیچے چلے گئے ہیں اور انہیں مالی سال کے اختتام تک 16.2 ارب ڈالر کے ہدف تک لانے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے جن کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اگر یہ اہداف حاصل ہو بھی گئے تو اگلے مالی سال میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے مزید ایک نئے قرض پروگرام کی ضرورت پیش آئے گی کیونکہ اگلے مالی سال کے اہداف اس سے کہیں زیادہ بڑھ جائیں گے۔ اس دوران معیشت کی بحالی کے امکانات بھی موجود نہیں اور شرح ترقی 3.5 فیصد یا اس سے بھی کہیں کم ہو سکتی ہے۔ اس دوران حکومت کو افراطِ زر کی سالانہ اوسط 20 فیصد تک رہنے کی توقع ہے جبکہ حقیقی افراط ِزر اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں شرح سود کم ہونے کے امکانات موجود نہیں اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاری کے بڑھنے کے کوئی امکان موجود ہیں۔ روزگار کے مواقع بھی مزید کم ہوتے جائیں گے اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ یہ تمام صورتحال محنت کش طبقے کے لیے مزید بد تر حالات پیدا کرے گی۔

یہ سب کچھ عوام کی تقدیر نہیں بلکہ حکمرانوں کی مسلط کردہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے بہت سے ایسے اقدامات بھی کیے جا سکتے تھے جن سے یہ بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کرنے کی بجائے سرمایہ داروں پر ڈالا جاتا۔ فوجی اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کی جا سکتی تھی اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں سمیت تعمیرات کے ایسے بہت سے منصوبے ختم کیے جا سکتے تھے جن کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔ اس ملک کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے تین سے چار ہزار ارب روپے سالانہ کی معاشی مراعات اور ٹیکسوں کی چھوٹ فوری طور پر ختم کی جا سکتی تھی اور اس مزدور دشمن طبقے کی لوٹ مار کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ وزیروں اور مشیروں کی فوج کے لیے مراعات اور پر تعیش طرز زندگی کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا اور انہیں عام انسانوں کی طرح رہنے پر مجبور کیا جا سکتا تھا۔ یہی کچھ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں کے طرزِ زندگی کے حوالے سے بھی کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ مافیا سے لے کر دیگر شعبوں کے امیر ترین افراد کی دولت، جائیدادوں اور منافعوں پر ٹیکس لگایا جا سکتا تھا اور اس پیسے کو معاشی بحران سے نپٹنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں پر بھاری ٹیکس عائد کیا جا سکتا تھا یا پہلے سے موجود ٹیکسوں کی مکمل ادائیگی ہی حاصل کی جا سکتی تھی۔ مہنگی بجلی کے عذاب سے عوام کو نجات دلانے کے لیے نجی بجلی گھروں کے ساتھ کیے گئے عوام دشمن معاہدوں کو ختم کیا جا سکتا تھا اور انہیں ریاستی تحویل میں لے کر چلایا جا سکتا تھا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا اور معاشی بحران کا تمام بوجھ پٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس کی قیمتوں اور دیگر اقدامات کے ذریعے عوام کے کندھوں پر منتقل کر دیا گیا۔

ایسے میں پاکستان کی صورتحال جہاں درد دل رکھنے والے شخص کو خون کے آنسو رلاتی ہے وہاں ایک طرف انتہائی مضحکہ خیز بھی نظر آتی ہے۔ جس ملک کے حکمران پوری دنیا میں ہر طرف بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں اور آرمی چیف سے لے کر وزیروں اور مشیروں تک ہر کوئی دوسرے ملکوں اور سامراجی اداروں سے قرضوں کے لیے منت اور ترلے کرتا نظر آتا ہے وہاں ان سب افراد کا طرز ِزندگی اور مراعات اور آسائشیں دیکھ کر بھی ہر کوئی دنگ رہ جاتا ہے۔ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو ہی دیکھ لیں جو اس غریب ملک کے کروڑوں افراد تک انصاف کی فراہمی کے دعوے دار ہیں۔ ان کا رہن سہن اور مراعات دیکھ لیں اور دوسری جانب سیلاب سے متاثرہ افراد کی زندگیاں دیکھ لیں جنہیں انہوں نے مبینہ طور پر انصاف فراہم کرنا ہے، زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ یہی کچھ جرنیلوں کے حوالے سے بھی درست ہے۔ ان کے وسیع و عریض بنگلے، کروڑوں روپے مالیت کی لگژری گاڑیوں کے قافلے اور دنیا کی بہترین اشیا کھانے اور پینے کے لیے موجود ہیں۔ رائے ونڈ محل کو دیکھیں اور تونسہ اور راجن پور میں جن افراد کی غربت کا مذاق اڑانے کے لیے مریم نواز شریف نے وہاں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ان کی زندگیوں کا فرق دیکھ لیں۔ بنی گالا اور بلاول ہاؤسز کو دیکھیں اور سندھ اور پختونخواہ کے سیلاب زدگان کے کچے گھروں، پھٹے پرانے کپڑے اور بھوک اور بیماری سے بدحال جسموں کو دیکھ لیں۔ یہی حال مذہبی پیشواؤں اور علما کا ہے اور قوم پرست لیڈران کی صورتحال بھی مختلف نہیں۔ جو لوگ عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوے دار ہیں ان کی زندگیاں تو پرانے زمانوں کے بادشاہوں سے بھی زیادہ پر تعیش اور پر آسائش ہیں۔ انہیں عوام کی زندگی سے کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ ان کے لیے عوام کی زندگیوں کا مقصدنسل در نسل ان کی غلامی کرنا اور ان کے تعیش کے لیے قربان ہوجانا ہے۔

اس خونی چکر کا خاتمہ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب کے بعد ملک میں موجود تمام ذرائع پیداوار اور معیشت کے تمام کلیدی شعبے مزدور طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں آ جائیں گے۔ تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو مزدور ریاست کے مرکزی بینک میں ضم کر کے عوام کے جمہوری کنٹرول میں دے دیا جائے گا۔ تمام سامراجی قرضے دینے سے انکار کر دیا جائے گا اور اس ملک میں پیدا ہونے والی تمام دولت عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی اور پیداوار کی ترقی اور جدت کے لیے استعمال ہوگی۔ رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر غیر پیداواری شعبوں کو ختم کر کے عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے تمام وسائل مہیا کیے جائیں گے۔ اس تمام عمل سے ملک میں تمام افراد کو روزگار دیا جائے گا اور ملک کی جی ڈی پی میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔ بیرون ملک ہونے والی تمام تجارت مزدور ریاست کے کنٹرول میں ہوگی اور نجی کمپنیوں کی اس عمل میں ہونے والی منافع خوری اورلوٹ مار کا مکمل خاتمہ ہوگا۔

بہت سے لوگ سامراجی طاقتوں کے قرضے ادا نہ کرنے کی پالیسی کے بعد لگنے والی پابندیوں سے ڈرانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ابھی تو یہ پابندیاں موجود نہیں اور اس ملک کے کروڑوں محنت کش فاقے کرنے اور قابل علاج بیماریوں سے مرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان پابندیوں سے صرف امیر طبقے کے افراد ہی ڈر سکتے ہیں جبکہ عوام پہلے ہی انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دوسری جانب ایک انقلاب کے بعد جب کروڑوں لوگ سامراجی طاقتوں کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہو کر کمر بستہ ہوجائیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ ان پابندیوں کے خلاف سب سے پہلے دنیا بھر کے محنت کشوں سے مدد کی اپیل کی جائے گی اور انہیں اس مزدور ریاست کے دفاع کی ضرورت کا پیغام پہنچایا جائے گا۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے اپنے ملک کے حکمران طبقات کے خلاف ایسا ہی عوام دوست انقلاب کرنے کی اپیل کی جائے گی۔ درحقیقت سرمایہ داری ایک عالمگیر نظام ہے اور اس کے خلاف جدوجہد بھی عالمی سطح پر ہی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے ایک ملک میں ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کو خطے کے دیگر ممالک تک پھیلانا انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے اور آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں اس انقلاب کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلے گی۔ اس لیے عالمی سطح پر سامراجی طاقتوں کی عسکری برتری یا معاشی پابندیوں کے خوف سے ایک متبال کی جدوجہد کو ترک کر دینا اور بھوک اور ذلت کی چکی میں پستے رہنابیوقوفی ہے۔

اس وقت پورے ملک کے مارکس وادیوں اور انقلابی نوجوانوں کو یہ بحث زیادہ سے زیادہ لوگوں تک لے کر جانے کی ضرورت ہے اور انہیں ایک انقلابی متبادل کے لیے منظم کرنے یعنی ایک سوشلسٹ انقلابی پارٹی تعمیرکرنے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی اس غلامی سے ہمیشہ کے لیے چھٹکاراحاصل ہو سکتا ہے اور اس ملک کے عوام کی بربادی کا انت ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.