|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: عبدالحئی|
گزشتہ مہینے جنگ کے ایک مختصر دورانیے کے بعد انڈیا اور پاکستان کے بیچ ایک ناپائیدار امن قائم ہو چکا ہے۔ اگرچہ بم خاموش ہو چکے ہیں لیکن جنگ کے بعد ابھرنے والی حب الوطنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی حکومت اختلاف رائے رکھنے والوں کی گرفتاری، ہراسانی اور (چھتیس گڑھ میں ماؤاسٹ جنگجؤں کو) ماورائے عدالت قتل کروا رہی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
تازہ ترین جنگی صورتحال 22 اپریل کو انڈیا کے زیر کنٹرول کشمیر میں واقع پہلگام حملے کے بعد ہی شروع ہوئی، جو مارچ میں بلوچستان میں ٹرین ہائی جیک کے واقعہ کے رد عمل میں کیا گیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی دوسری پراکسیوں کو ان حملوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے، جس کے نتیجے میں دونوں جانب درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ 7 مئی کو ہندوستان نے جوابی کاروائی میں پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں میزائلوں سے حملہ کیا۔
ایٹمی طاقت رکھنے والے دو ممالک بٹوارے کے بعد سے چوتھی دفعہ ایک متنازعہ علاقے کے لیے خطرناک جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مودی کی کیبنیٹ اور ہندوتوا پریس اس جنگ پر بگلیں بجا رہے تھے کہ پاکستان کے ساتھ وہی حشر کیا جائے جو اسرائیل نے غزا کے ساتھ کیا ہے۔ بی جے پی (BJP) اور آر ایس ایس (RSS) کے غنڈوں کو بھی بے لگام چھوڑا گیا اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کے مطابق 22 اپریل کے بعد ہندوستان بھر مسلمانوں کے خلاف 184 نفرت انگیز جرائم ریکارڈ کیے گئے۔
10مئی کو ہندوتوا کا پاکستان کے ساتھ حساب چکتا کرنے کا خواب خاک ہو گیا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ دونوں ممالک جنگ کے خاتمے کے لیے راضی ہو چکے ہیں۔ دو دن بعد مودی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ جنگ رک گئی ہے۔ لیکن آپریشن سندور اب بھی جاری ہے جو ”دہشتگردی کے خلاف ہندوستان کی ایک پالیسی ہو گی۔ یہ عمل ہمارے لیے ایک نیا سنگ میل ثابت ہوا ہے، جس نے ایک نیا معمول اور معیار قائم کر دیا ہے۔“
’نئے معمول‘کا مطلب آئندہ دنوں میں واضح ہو گیا تھا۔ جب مودی حکومت نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم X (جو پہلے ٹوئٹر کے نام سے مشہور تھا) سے بی بی سی اردو سمیت 8000 اکاؤنٹس کو بلاک کرنے کی اپیل کی۔ اس کے بعد جنگ، مودی حکومت اور انڈیا کی کشمیر سے متعلق پالیسی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز پر جبر کی ایک لہر کا آغاز کیا گیا۔
نیا ’بغاوت کا قانون‘
مودی جبر کے ذریعے حریفوں کو خاموش کرانا بخوبی جانتا ہے۔ بھارت کے ایک خود مختار نیوز آؤٹ لیٹ ’آرٹیکل 14‘ (جس کا نام بھارتی آئین کے اُس آرٹیکل کے تحت رکھا گیا ہے جو بظاہر اظہارِ رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے) کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ دہائی کے دوران بغاوت کے مقدمات میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو زیادہ تر سیاسی حریفوں، دانشوروں، طلبہ اور جرنلسٹوں کے خلاف بنائے گئے ہیں۔
مثال کے طور پر بغاوت کے دس کیسز تحقیقی نیوز میگزین کاروان (Caravan) کے خلاف بنائے گئے ہیں۔ اس پرچے کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو بھی حکومتی قانونی نوٹس کے بعد عارضی طور پر معطل کر دیا گیا، اس کے ایک فری لانس رپورٹر کو 2021ء میں ایک احتجاج کے دوران ’رکاوٹ ڈالنے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اور 2020ء میں، اس کے چار کُل وقتی رپورٹرز پر اس وقت حملہ کیا گیا جب انہوں نے دہلی میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ زیادتی اور قتل کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی رپورٹنگ کی تھی۔ ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود جوس (Vinod Jose) نے بی بی سی کو بتایا کہ، ”ہم ایک پُر انتشار دور میں جی رہے ہیں جہاں تنقید کو غداری قرار دیا جاتا ہے“۔ یہ ایک پرانا اور آزمودہ حربہ بن چکا ہے۔
آج تک ہندوستان میں بغاوت کا قانون وہی ہے جو برطانیہ نے 1860ء کے پینل کوڈ کے تحت بنایا تھا اور جس کو ہندوستان میں آزادی پسندوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا۔ مودی نے بہت بڑے پیمانے پر نوآبادیاتی دور کے اس ہتھیار کو عوامی تحریکوں کے خلاف استعمال کیا ہے جس میں 2020-21ء کی کسان تحریک اور 2019ء میں مسلم مخالف سٹیزن شپ امینڈمیٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے 2022ء میں بھارت کا پرانا بغاوت کا قانون ’دوبارہ جائزہ‘ لینے تک معطل کر دیا تھا۔ 2023ء میں نئے فوجداری قانون بھارتیہ نیایا سنہیتا (Bharatiya Nyaya Sanhita) متعارف کروایا گیا، جس میں دفعہ 152 نے پرانے بغاوت کے قانون کی جگہ لے لی۔ اگرچہ اب اس میں بغاوت کا لفظ استعمال نہیں ہوتا، لیکن یہ دفعہ ریاست کو اختلافِ رائے کچلنے کے لیے ممکنہ طور پر اور بھی زیادہ سخت اور جابرانہ ہتھیار فراہم کرتی ہے۔
اس دفعہ میں کسی بھی ایسے عمل کو جرم قرار دیا گیا ہے جو علیحدگی پسندی، مسلح بغاوت یا تخریبی سرگرمیوں کو ہوا دے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اُن اقدامات کو بھی نشانہ بناتی ہے جو علیحدگی کے جذبات کو فروغ دیں یا بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو خطرے میں ڈالیں۔ یہ الفاظ جارج آرویل کے ناول 1984ء سے لیے گئے کسی اقتباس جیسے لگتے ہیں، جہاں انڈیا کے قومی اتحاد کے خلاف سوچ رکھنے والوں کو بھی سزا دی جاتی ہے۔ دفعہ 152 کے تحت سزا کی مدت بھی تین سال سے بڑھا کر سات سال کر دی گئی ہے۔
مودی کی انفلواینسرز اور لیکچرارز کے خلاف جنگ
مودی نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر ہی پہلگام حملے کے بعد اس قانون کو بہت وسیع پیمانے پر لاگو کیا ہے، خاص طور پر ان سوشل میڈیا پوسٹوں کے خلاف جو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھے جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر لکھنؤ پولیس نے 23 اپریل کو نیہا سنگھ راٹھور، جو کہ ایک فوک سنگر ہے، کے خلاف ایک کیس درج کیا تھا، جس نے X پر ایک پوسٹ کی تھی کہ مودی اس دہشتگردانہ حملے کے ذریعے بیہار کے آنے والے الیکشن میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
دوسرے دن لکھنؤ یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر مدری کاکوٹی (جو سوشل میڈیا پر مس میڈوسا (Ms Medusa) کے نام سے جانی جاتی ہیں) کو ایک طنزیہ ویڈیو کی بِناء پر طلب کر لیا کیا گیا تھا جس میں اس نے پہلگام حملے کی وجہ سیکیورٹی کی ناکامی بتائی تھی۔ اس نے سوشل میڈیا پر ایسی بہت سی پوسٹیں بھی لگائی تھیں جن میں اس نے حملے کے بعد کشمیریوں کے خلاف ہونے والے جابرانہ اقدام کی مذمت کی تھی، جس میں اس نے ”ہندوتوا دہشتگردوں“ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ اس اصطلاح کی اس کے خلاف ’مذہبی تعصب‘ کے طور پر نشاندہی کی گئی۔
مودی اُن محبِ وطن شہریوں پر انحصار کر رہا ہے، جنہیں جنگی جنون کے ذریعے جوش دلایا جاتا ہے تاکہ وہ اختلاف رائے رکھنے والوں کی مخبری میں حکومت کی مدد کریں۔ کاکوٹی کی پوسٹوں نے اخل بھارتیہ ودھیارتی پریشاد Akhil Bharatiya Vidyarthi Parishad) (کو کیمپس کے اندر احتجاج کرنے پر اکسایا جو کہ ہندو بنیاد پرست تنظیم آر ایس ایس (RSS) کا ہی ایک طلبہ ونگ ہے، طلبہ کے رجعت پسند گروہ نے وائس چانسلر کو ایک نوٹس پیش کیا، جس میں کاکوتی کے تبصروں کو ملک دشمن قرار دیا گیا اور اُس کی برطرفی کا مطالبہ کیا گیا۔ وہ اِس وقت ضمانت پر ہے اور اپنی یونیورسٹی کی جانب سے تادیبی کاروائی کا سامنا کر رہی ہے۔
آپریشن سندور کے بعد اس طرح کے کیسز کا ڈھیر لگ چکا ہے۔ علی خان محمود آباد جو ایک استاد ہے، اشوکا یونیورسٹی ہریانہ میں پولیٹیکل سائنس پڑھاتا ہے، کو 18 مئی گرفتار کیا گیا۔ یہ مقدمہ ایک فیس بک پوسٹ سے متعلق تھا، جس میں اُس نے دو خواتین فوجی افسران ایک ہندو اور ایک مسلمان کی ایک پریس بریفنگ پر تبصرہ کیا تھا، جس میں انہوں نے بھارت اور پاکستان کی جنگ پر گفتگو کی تھی۔
محمود آباد کی پوسٹ نے ظاہری تاثر اور زمینی حقائق کے درمیان فرق پر بحث کی تھی کہ اس جنگ سے بی جے پی حکومت فرقہ وارانہ زہر پھیلا رہی ہے۔ اس کی اس پوسٹ کو کمیشن فار ویمن ہریانہ (جس کی چیئر پرسن رینو بھاٹیہ عرصہ دراز سے بی جے پی کی رکن ہے) کی جانب سے جنس تعصب اور قومی فوجی کاروائیوں کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دے کر رپورٹ کیا گیا۔
چند دن بعد، اداکار اور دلت حقوق کے سرگرم کارکن ویرا ستھی دار (جو 2021ء میں کرونا کے باعث وفات پا گئے تھے) کی یاد میں منعقدہ ایک یادگاری تقریب کے منتظمین کو بھی دفعہ 152 کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ مدعی نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستانی انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی نظم کا پڑھا جانا حکومت کے لیے براہِ راست خطرہ تھا۔ گرفتاری میں جس مصرعے کا حوالہ دیا گیا کہ ”تخت ہلانے کی ضرورت ہے“، دراصل ان کی گرفتاری کی حقیقی وجہ تھی۔
31مئی کو انسٹاگرام کی ایک انفلواینسر، شرمشٹا پنولی کو گُروگرام سے ایک پوسٹ کرنے کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا تھا، اس پوسٹ میں اس نے آپریشن سندور پر بالی ووڈ اداکاروں کی خاموشی پر تنقید کی تھی، باوجود اس کے کہ اس نے شدید عوامی رد عمل کے بعد اس پوسٹ کو ختم کر کے معافی بھی مانگ کی تھی۔
تنقید کے لیے عدم تحمل رویہ
سیکشن 152 کے علاوہ مودی نے تنقید کرنے والوں کو سزا دینے اور خاموش کرانے کے اور راستے تلاش کر لیے ہیں۔
19 مئی کو لندن کی یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں تعینات بھارتی نژاد برطانوی پروفیسر نتاشا کول نے دعویٰ کیا کہ ان کی اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (OCI) کی حیثیت منسوخ کر دی گئی ہے۔ اس نے بھارتی حکومت کی طرف سے بھیجا گیا ایک مراسلہ پیش کیا، جس میں اس پر الزام لگایا گیا تھا کہ، ”آپ اپنی متعدد وطن دشمن تحریروں، تقاریر اور صحافتی سرگرمیوں کے ذریعے بین الاقوامی فورمز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھارت اور اس کے اداروں کو بھارت کی خودمختاری سے متعلق معاملات میں باقاعدگی سے نشانہ بناتی ہیں۔“
یہ عمل واضح طور پر نتاشا کول کے خلاف انتقامی کاروائی کے طور پر کیا گیا، کیونکہ وہ امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے ایک اہم گواہ کے طور پر پیش ہوئی تھی، جہاں اس نے 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خودمختار حیثیت کے خاتمے کے بعد وہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گواہی دی تھی۔
پھر 2 جون کو چھتیس گڑھ پولیس نے درگ (Durg) کے حلقے سے رکنِ اسمبلی ارون تیواری کو گرفتار کر لیا، اس پر دفعہ 296 (’فحش حرکات‘) اور دفعہ 352 (’جان بوجھ کر کی گئی توہین‘) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ یہ کاروائی آپریشن سندور سے متعلق ایک پوسٹ میں نریندر مودی کی علیحدہ رہنے والی اہلیہ جشودا بین کے بارے میں کیے گئے تبصرے کے سلسلے میں کی گئی۔
اس سے قبل، کانگریس کے سیاسی رکن برج موہن سنگھ کو دفعہ 296 اور دفعہ 353 (’عوامی شر انگیزی‘) کے تحت اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ اس نے سوشل میڈیا پر مودی کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے تھے۔ لگتا ہے کہ طاقتور لیڈر مودی کی قوتِ برداشت کچھ زیادہ ہی کمزور ہے۔
ماؤاسٹ جنگجوؤں کا قتل عام
لیکن آپریشن سندور کے بعد مودی حکومت کی پالیسی کا سب سے خونریز ثبوت 21 مئی کو سامنے آیا، جب چھتیس گڑھ میں کالعدم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤاسٹ) کے نیکسلائٹ (Naxalite) جنگجوؤں کے خلاف اچانک چھاپوں کی ایک لہر شروع کی گئی۔ حکومتی فورسز نے اس نام نہاد آپریشن، جسے آپریشن کاگر (’زیرو‘) کا نام دیا گیا، میں 27 باغیوں کو ہلاک کر دیا، جن میں پارٹی کے سیکرٹری جنرل این کیسوا راؤ (اور کئی عام شہری بھی) شامل تھے۔
مزید 54 باغیوں کو بھی گرفتار کیا گیا اور 84 باغیوں نے چھتیس گڑھ، تیلنگانا اور مھاراشٹرا میں ہتھیار ڈال دیے۔ مودی حکومت میڈیا کے ذریعے جھوٹ پر جھوٹ بول کر اعلان کر رہی تھی کہ ”اسے اس غیر معمولی کامیابی کے لیے اپنی قوتوں پر فخر ہے“ اور اس بات کا عہد کیا کہ، ”2026ء تک ہندوستان میں ایک بھی ماؤاسٹ نہیں رہے گا۔“
لیکن اس سے پہلے اپریل میں، نیکسلائٹ (جنہیں نکسل باڑی نامی قصبے کے نام پر یہ لقب دیا گیا، جہاں 1960ء کی دہائی میں ان کی بغاوت کا آغاز ہوا تھا) پہلے ہی دشمنی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی پیش کش کر رہے تھے۔ گزشتہ سال مودی نے اس دعوے کے ساتھ چھتیس گڑھ میں 40 ہزار فوجی تعینات کیے، کہ وہ معدنی وسائل سے مالامال اس خطے سے باغیوں کا مکمل صفایا کرے گا، وہ خطہ جہاں کے مقامی قبائلی آدیواسی (Adivasis) کئی دہائیوں سے ریاستی جبر اور دو طرفہ فائرنگ کی زد میں زندگی گزار رہے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز کے نئے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں گزشتہ سال ہی 287 نیکسلائٹ باغی مارے جا چکے تھے اور حالات کے مسلسل مایوس کن ہو جانے کے پیشِ نظر جنگ بندی کے مطالبات میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اپریل میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤاسٹ) کی قیادت نے اعلان کیا کہ، ”عوامی مفاد میں، ہماری پارٹی ہمیشہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہے۔“
پارٹی ٹوٹ چکی تھی، لہو لہان تھی، گھٹنوں کے بل آ چکی تھی اور غالباً پُرامن طریقے سے ہتھیار ڈالنے کی خواہاں تھی۔ مودی نے اس کے جواب میں انہیں بے رحمی سے درجنوں کی تعداد میں گولیوں سے بھون دیا۔ یہ سب کچھ یقیناً بڑی کان کن کارپوریشنز کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جو اس خطے کے معدنی وسائل پر بھرپور قبضہ جمانے کے لیے بے تاب ہیں۔ لیکن مودی کو اس سے یہ امید بھی ہے کہ یہ سب کچھ اس کے ایک ’ناقابلِ شکست طاقتور لیڈر‘ ہونے کے تصور کو مزید مضبوط کرے گا۔
مودی نے انڈیا کی ’جمہوریت‘ کو ننگا کر دیا
اسی بات کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہمیں مودی کے آزادیِ اظہار رائے کے خلاف کیے جانے والے نئے جبر کو سمجھنا چاہیے۔ وزیرِاعظم 2014ء میں منتخب ہونے کے بعد سے اس وقت اپنی کمزور ترین پوزیشن میں ہے۔ حالیہ قومی انتخابات میں اسے اکثریت حاصل نہیں ہو سکی، پہلگام میں سیکیورٹی کی ناکامی نے اسے مزید شرمندہ کیا اور اب اسے اپنی کابینہ کے سخت گیر عناصر کے دباؤ کا سامنا ہے، جنہیں لگتا ہے کہ مودی نے پاکستان کے ساتھ قبل از وقت جنگ بندی کر لی۔ وہ تو اپنے ہی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان بھی نہیں کر سکا، کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا اور اسے اُس کی اوقات یاد دلا دی تھی۔
انڈیا کی سیاست کی سطح کے نیچے طبقاتی غصے کا ایک آتش فشاں اُبل رہا ہے۔ اگرچہ بین الاقوامی سرمایہ دارانہ میڈیا میں انڈیا کی معاشی ترقی کا مسلسل چرچا ہوتا رہتا ہے، جسے کئی ایسی سرمایہ دار حکومتیں حسرت سے دیکھتی ہیں جو کساد بازاری کے دہانے پر کھڑی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دولت انڈیا کے محنت کش طبقے کے خون اور پسینے سے نچوڑی گئی ہے۔
بھارت کی فی کس پیداوار دنیا میں سب سے کم ترین سطح پر ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق بھارت کی 90 فیصد تک محنت کش آبادی غیر رسمی معیشت میں کام کرتی ہے (جو کہ مجموعی قومی پیداوار کا نصف بنتی ہے)، جہاں ان کے پاس کام کے قانونی تحفظات میسر ہیں، سہولیات اور نہ ہی باقاعدہ اوقات کار طے ہیں۔ جب اڈانی اور امبانی جیسے چند ارب پتی اپنی دولت کا حساب لگا رہے ہوتے ہیں، تو دوسری طرف اکثریت بھارتی عوام کی روزمرہ زندگی شدید استحصال اور غیر یقینی حالات کا ایک بھیانک خواب بنی ہوتی ہے۔
مودی کا اختلافِ رائے پر کریک ڈاؤن کمزوری کی علامت ہے، طاقت کی نہیں۔ وہ اس سال کے آخر میں بیہار کے اہم ریاستی انتخابات میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لیے بے تاب ہے اور اسی مقصد کے تحت وہ شاونزم اور جبر میں شدت لا رہا ہے۔
محنت کش طبقے کے نام نہاد رہنماؤں کے شرمناک رویے سے اس کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) دونوں نے ”قومی یکجہتی“ کے نام پر آپریشن سندور کے بعد حکومت کا ساتھ دیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی ایک دلیل بھارت کی جمہوریت کا دفاع بتائی گئی، جس کے فوراً بعد مودی نے آزادیِ اظہارِ رائے جیسے بنیادی جمہوری حق کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
ٹریڈ یونین کے رہنماؤں نے بھی مئی میں ایک ملک گیر عام ہڑتال منسوخ کر دی اور اس کے لیے بھی اسی ”قومی یکجہتی“ کو بہانہ بنایا گیا۔ یہ اُس وقت کیا گیا جب مودی پورے برصغیر کو ایٹمی تباہی کے دہانے پر لے جا چکا تھا۔ بیوروکریٹس نے بھی طبقاتی جنگ بندی کی اپیل اُس وقت کی جب سب سے زیادہ شدت اور مزاحمتی جدوجہد کی ضرورت تھی۔
یہ بات بالکل واضح ہونی چاہیے کہ بھارتی یونین کی خوب بڑھا چڑھا کر پیش کی جانے والی ریاست اور آئین نے کبھی بھی حقیقی جمہوریت کی ضمانت نہیں دی۔ یہ سب حکمران طبقے کے ہاتھوں میں ایسے آلات ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی مرضی نافذ کرتے ہیں۔ مودی کی بی جے پی (BJP) حکومت صرف اس حقیقت کو پہلے کی حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ کھلے اور بے باک انداز میں ننگا کر رہی ہے۔
یہ ایک تاریخی سانحہ ہے کہ بھارتی محنت کش طبقہ ایسی پھوہڑ اور نااہل قیادت کے رحم و کرم پر ہے، جبکہ حالات انقلابی جدوجہد کے لیے نہایت سازگار ہیں۔ اگر ایک حقیقی کمیونسٹ پارٹی موجود ہوتی، جو محنت کشوں کی آواز بن سکتی، تو وہ مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی متحدہ جدوجہد کی اپیل کرتی تاکہ جمہوری حقوق کا دفاع کیا جا سکے اور مودی کی بوسیدہ حکومت کو اس کی کمزوری کے عالم میں شکست دینے کی منظم تیاری کی جا سکے۔
یہ جدوجہد بالآخر بھارت کی وسیع پیداواری قوتوں کو قومیا کر عوام کی ضروریات کے مطابق ترقی دینے کی بنیاد رکھتی نہ کہ اُن ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ارب پتی مافیاؤں کے مفادات کے تحت، جن کی نمائندگی بی جے پی اور کانگریس دونوں کرتی ہیں۔ ایسی ایک پارٹی محض خواہش سے وجود میں نہیں آتی، بلکہ اسے جدوجہد سے تعمیر کرنا پڑتا ہے۔ ہم بھارت کی تمام طبقاتی لڑاکا قوتوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس جنگ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں۔