انڈیا: سماجی و معاشی بحران انقلابی طوفانوں کا پیش خیمہ

|تحریر: ایس۔ کمارا سامی، ترجمہ: آصف لاشاری|

بھارت کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں دنیا میں چوتھے نمبر پر آ چکا ہے جہاں تادم تحریر مصدقہ کیسز کی تعداد ساڑھے 8لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ 23ہزار زائد افراد اس وائرس کا شکار ہو کر اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو صحت کی سہولیات یا امداد مہیا کرنے کی بجائے مودی نے اپنے ہاتھ کھڑے کر لیے ہیں۔ ”Unlock India 1.0“ کے خوش کن نام کے تحت مزدوروں اور نوجوانوں کو بلی کا بکرا بناتے ہوئے اس کی تمام تر توجہ بھارتی سرمایہ داری کو بچانے پر مرکوز ہے۔ مودی حکومت کی جانب سے محنت کش طبقے پر ظالمانہ کام کی شرائط لاگو کرنے کی کوششوں کے خلاف دس بڑی ٹریڈ یونینوں نے 3 جولائی کو ایک نئی عام ہڑتال کا اعلان کردیا ہے۔ (یہ آرٹیکل 3 جولائی کی ہڑتال سے قبل تحریر کیا گیا تھا جس میں پورے بھارت میں مودی کی مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف سینکڑوں محنت کشوں نے حصہ لیا۔ ایڈیٹر)

سوا ارب سے زائد آبادی والے ملک میں ہونے والا یہ شٹ ڈاؤن انڈیا کی تاریخ کا سب سے بھیانک لاک ڈاؤن تھا۔ دیوہیکل شہر، جہاں شاہراؤں اور عوامی مقامات ہر وقت لاکھوں لوگوں اپنی زندگیوں میں مصروف نظر آتے تھے، آن کی آن میں ویران ہوگئے۔ لوگ راتوں رات گھروں میں مقید ہوگئے یا اپنے دیہاتوں کی جانب پر خطر مگر طویل سفر پر نکل پڑے اور ان میں سے بہت ساروں کو اپنے بچوں اور بوڑھے والدین کے ساتھ اپنے گھروں کی جانب ہزاروں کلو میٹر کا سفر پیدل طے کرنا پڑا۔ بہت سے لوگ اس اندوہناک سفر کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو کہ 1947ء کے بٹوارے کے وقتوں سے بھی زیادہ تلخ تھا۔68 دنوں پر محیط اس غیر انسانی لاک ڈاؤن میں لوگوں پر جراثیم کش سپرے، گھروں میں قید لوگ اور مہاجر محنت کشوں کی شہر بدری جیسے کئی انسانیت سوز مناظر دیکھنے میں آئے۔ جیسے جیسے بھارت ملک کو کھولنے کے تیسرے اور آخری مرحلے کی جانب بڑھ رہا ہے یہ واضح ہوتا چلا جا رہا ہے کہ شعبہ صحت کے محنت کشوں کے ساتھ دیگر محنت کشوں کے لیے صورتحال مزید تباہ کن ہوتی چلی جائے گی۔

مارچ میں لاک ڈاؤن کے آغاز سے 30مئی تک کرونا وائرس کے کیس 606 سے 138,845 تک جا پہنچے ہیں۔ مودی حکومت نے لاک ڈاؤن کے عرصے کو کسی قسم کے علاج کو دریافت کرنے یا ویکسین بنانے میں سرمایہ کاری کرنے میں استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اس نے مختلف شہروں کے ہسپتالوں کے لیے بستروں یا آلات وغیرہ کے حوالے سے وسائل میں کسی قسم کا کوئی اضافہ کیا۔ یہاں تک کہ مودی سرکار فاقہ کشوں اور بیروزگاروں کی ایک بھاری اکثریت کو معمولی سی ماہانہ امداد بھی فراہم نے کرسکی۔

ممبئی، دہلی اور چنائی جیسے بڑوں شہروں میں صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ نئی دہلی میں شہری انتظامیہ کے اہلکاروں نے پیش گوئی کی ہے کہ وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد موجودہ تعداد سے بیس گنا زیادہ بڑھے گی جس کا مطلب ہے کہ دہلی کے تقریباً پانچ لاکھ شہری اس سے متاثر ہونے کی طرف جائیں گے۔ انڈیا اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.3 فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے۔ پہلے سے تباہ حال صحت کا نظام اور اس میں کام کرنے والے محنت کش کرونا وائرس کے کیسوں میں ہونے والے اس بڑے اضافے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیسٹ کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔تا دم تحریر، انڈیا کا شمار دنیا بھر میں ٹیسٹوں کے لحاظ سے کم ترین شرح والے ملکوں میں ہوتا ہے۔

جون کے پہلے ہفتے کے دوران ”آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“(AIIMS)، جو کہ نئی دہلی کا ایک بڑا ہسپتال ہے، میں کام کرنے والی نرسیں لمبی شفٹوں، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات اور حفاظتی سامان کی کمی خلاف احتجاج کرتی رہیں

اپریل سے ملک کے مختلف حصوں میں نرسیں سراپا احتجاج ہیں۔ نرسیں، جن کی تنخواہیں پہلے ہی کم اور کام کے اوقاتِ زیادہ ہیں، کو انتہائی کم حفاظتی سامان کے ساتھ بے سروسامانی کے عالم میں کرونا وبا سے لڑنے کے لیے اگلے محاذوں پر بھیج دیا گیا۔ جون کے پہلے ہفتے کے دوران ”آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز“(AIIMS)، جو کہ نئی دہلی کا ایک بڑا ہسپتال ہے، میں کام کرنے والی نرسیں لمبی شفٹوں، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات اور حفاظتی سامان کی کمی خلاف احتجاج کرتی رہیں۔ جب کبھی ان کو حفاظتی لباس ملتا ہے تو انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ طویل شفٹ میں یہ کٹس پہن کر بنا کسی وقفے کے کام کریں اور وہ بھی ایسے وارڈوں میں جہاں اے سی کی سہولت بھی دستیاب نہیں۔ نرسز یونین، جو کہ 5ہزار نرسوں کی نمائندگی کرتی ہے، کی یونین سیکرٹری فامیر سی۔کے نے بتایا کہ نرسیں گرمی کی وجہ سے بے ہوش ہو رہی ہیں۔ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کو ہسپتالوں میں مخصوص مقامات پر مناسب طریقے سے قرنطینہ کرنے میں ناکامی کی وجہ سے AIIMS میں کام کرنے والے 350 سے زائد طبی محنت کش اور 150 سے زائد اہل خانہ اس وائرس کا شکار ہوگئے۔

ڈاکٹروں کو بھی اپنی تنخواہیں وقت پر نہیں مل رہیں اور ان کو ہسپتالوں میں اوقات کار سے کئی گھنٹے زیادہ کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر راجن شرما کا کہنا تھا:

”ڈاکٹروں کو اجرتیں نہیں دی جا رہی ہیں اور بنیادی الاؤنس میں بھی کٹوتی کردی گئی ہے۔ کئی ریاستوں میں ہمیں قانونی تحفظ حاصل میسر نہیں۔ انڈیا میں کام کرنے والے طبی محنت کشوں کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی ہدایات موجود نہیں ہیں۔ ہر ریاست کا اپنا الگ ایجنڈا ہے۔ ڈاکٹرز سیاسی دھینگا مشتی اور بے سر وپا احکامات کا شکار بن رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں مزید تھکاتا اور ہمارے حوصلے پست کرتا ہے۔ اور کوئی بھی صفائی کے محنت کشوں کی بات نہیں کرتا جو اس نظام کا اہم ترین جزو ہیں۔ وہ دن رات کام کرتے ہیں مگر ان کی اجرتیں انتہائی کم ہیں۔ ایسے حالات میں ہم ان سے کام جاری رکھنے کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں؟“

یقینا، بھارتی عوام کی بھاری اکثریت جس کرب سے گزر رہی ہے، مودی کو اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے جس نے 30 مئی کو اپنے خطاب میں کروڑوں انسانوں کی تکالیف کا منہ چڑھاتے ہوئے کہا کہ عوام کو یوگا سے حاصل ہونے والے فوائد کو فیص یاب ہونا چاہیے کیونکہ یوگا کی طاقت ”معاشرے، اتحاد اور قوت مدافعت“(community, immunity and unity) کی تعمیر میں مدد دیتی ہے۔

اقلیت کے لیے منافع اور سٹہ بازی جبکہ اکثریت کے لیے بربادی

مودی نے چھ سال قبل 2 کروڑ نوکریاں دینے کے وعدے کے ساتھ اقتدار حاصل کیا۔ لیکن پچھلے کئی سالوں کی سست معاشی نمو کے بعد، یہ سال بھارتی تاریخ کا بدترین سال ثابت ہوگا جب بیروزگاری کی شرح پچھلے 45سالوں میں سب سے بلند ہے۔ اپریل کے کے مہینے میں، بھارت میں بے روزگاری کی شرح 7.4 فیصد سے 27.1 فیصد تک جا پہنچی۔ اس کا اظہار ہمیں 122 ملین نوکریوں کے خاتمے میں نظر آتا ہے۔

ورلڈ بینک کی پیش گوئی کے مطابق 21-2020ء میں بھارتی معیشت 3.2 فیصد تک سکڑ جائے گی۔ ورلڈ بینک کے مطابق کرونا وبا کے باعث انڈیا میں 40کروڑ افراد شدید ترین غربت میں دھکیل دیے جائیں گے۔ آنے والے عرصے میں بھارت پر اس سب کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

اس بحران کے جواب میں مودی نے ایک فیاض دلانہ معاشی پیکج کا اعلان کیا۔ اس نے اعلان کیا کہ معیشت کی بحالی کے اور کروڑوں لوگوں کو معاشی ریلیف پہنچانے کے لیے 267 ارب ڈالرز (جی ڈی پی کے دس فیصد کے برابر) خرچ کیے جائیں گے۔ تاہم اس اعلان کے تھوڑی ہی دیر بعد معیشت دانوں نے اس بھاری بھر کم رقم کے حصے بخرے کر دیے اور واضح کیا کہ سٹیمولس پیکج جی ڈی پی کے 1 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔

بڑے پیمانے کی بے روزگاری، کم ہوتی نوکریوں اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے ساتھ ایک سرمایہ دار نواز اور مزدور دشمن مودی سرکار نوجوانوں کو کیا مستقبل دے سکتی ہے؟ آج نوجوان، مودی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے انتہائی مایوس ہیں۔

جب مارچ کے آخر میں لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو وزارت برائے محنت و روزگار نے نجی کاروباروں کو مزدوروں کو نوکریوں سے برطرف نہ کرنے اور تمام ورکروں کو 45 دن کے لیے تنخواہوں میں کٹوتیاں کرکے رخصت پر بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔ لیکن بہت سارے بڑے پیمانے کے کاروباروں اور گروپوں نے ان احکامات کو نظر انداز کر دیا اور بہت کم یا بغیر کسی معاوضے کے محنت کشوں کی برطرفیاں جاری رکھیں۔ بھارت کی کل آبادی کا نصف 25 سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور 65 فیصد سے زیادہ آبادی 35 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ 2کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ نوجوان اپنی زندگی کے دوسرے عشرے کے دوران ہی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ حکومت کی پچھلے سال کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے ہنر مند نوجوانوں کا 33 فیصد نوکریوں سے محروم ہے اور اسی سال ایک انتخابی سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا درد سر بیروزگاری ہے۔

بھارتی نوجوانوں کے لیے کرونا وبا سے پہلے ہی عمومی صورتحال انتہائی خستہ تھی۔ مثال کے طور پر 2016ء میں ایک ریاستی بینک کی 15 سو آسامیوں کے لیے 15 لاکھ نوجوانوں نے درخواستیں جمع کرائیں۔ اسی طرح، ریلوے کی ایک لاکھ سے کم آسامیوں کے لیے 90 لاکھ سے زیادہ نے داخلہ امتحان دیا اور بلدیہ میں 114 خاکروبوں کی آسامیوں کے لیے 19 ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے درخواستیں دیں۔ جنوبی کوریا کے 96 فیصد کے مقابلے میں بھارت کی کل ورک فورس کا صرف 2.3 فیصد رسمی طور پر تربیت یافتہ ہے۔ بھارت کے کل ڈگری ہولڈرز کا 5فیصد سے بھی کم ڈگری مکمل ہونے کے بعد روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔

بڑے پیمانے کی بے روزگاری، کم ہوتی نوکریوں اور گرتے ہوئے معیارِ زندگی کے ساتھ ایک سرمایہ دار نواز اور مزدور دشمن مودی سرکار نوجوانوں کو کیا مستقبل دے سکتی ہے؟ آج نوجوان، مودی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ سے انتہائی مایوس ہیں۔ اس سب کا واضح اظہار ملک بھر کے اندر اور بہت ساری یونیورسٹیوں میں جنوری 2020ء میں ابھرنے والے شہریت بل مخالف احتجاجوں کے دوران دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ، یہ احتجاج پر امن تھے اور مظاہرین نے کسی قسم کے تشدد کا مظاہرہ نہیں کیا، لیکن ان احتجاجوں کا جواب پولیس کی لاٹھیوں، آنسو گیس اور پالتو غنڈوں کی صورت میں دیا گیا۔ فروری کے آخر میں ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران دہلی میں ہونے والے احتجاجوں میں مظاہرین پر پولیس کے ظالمانہ کریک ڈاؤن کے دوران 45 سے زائد افراد مارے گئے۔

برصغیر سے غربت، بھوک کے خاتمے اور کرونا وبا سے مقابلے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے درکار دولت اور سائل مٹھی بھر لوگوں کی ملکیت میں ہیں۔ بھارت کے ایک فیصد امیر ترین افراد کے پاس 70 فیصد آبادی سے چار گنا زیادہ دولت موجود ہے۔ بھارت کے سارے ارب پتیوں کی کل دولت پورے ملک کے ایک سال کے بجٹ سے زیادہ بنتی ہے۔ یہ ہوشربا دولت محنت کشوں کے خون اور پسینے سے نچوڑی گئی ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ اس نابرابری کو قائم و دائم رکھنے کی خاظر ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔

غیر مقامی محنت کشوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت

آج ملک کی کل ورک فورس کا 90 فیصد غیر رسمی روزگار سے منسلک ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس کسی قسم کا کوئی کنٹریکٹ نہیں ہے اور اگر انہیں کام مل جائے تو ان کو روزانہ نقد ادائیگی کی جاتی ہے۔ جب 25 مارچ کی رات لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو ایک اندازے کے مطابق ایک سے تین کروڑ غیر مقامی محنت کش محض چند دنوں کے اندر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے کیونکہ ان میں سے اکثریت کے پاس ان بڑے شہروں میں مزید قیام کے لیے کوئی پھوٹی کوڑی بھی موجود نہیں تھی۔ نتیجتاً 1947ء میں برطانوی سامراج کی مسلط کردہ خونی تقسیم کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی نقل مقانی دیکھنے میں آئی۔

25 مارچ کی رات لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تو ایک اندازے کے مطابق ایک سے تین کروڑ غیر مقامی محنت کش محض چند دنوں کے اندر اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے۔تیجتاً 1947ء میں برطانوی سامراج کی مسلط کردہ خونی تقسیم کے بعد سے اب تک کی سب سے بڑی نقل مقانی دیکھنے میں آئی۔

غیر مقامی محنت کشوں کے 150 سو زائد چھوٹے بڑے احتجاج ہوئے جن میں یہاں پھنسے سینکڑوں سے ہزاروں کی تعداد میں غیر مقامی محنت کشوں نے حصہ لیا۔ وہ کروڑوں لوگ جنہوں نے مودی کے نوکریوں اور مالی امداد کے وعدوں پر یقین کیا تھا اس کی بجائے انہیں فاقہ کشی، ریلوے اسٹیشنوں پر گزاری کئی بے خواب راتوں اور پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

10 اپریل کو انڈیا کی ریاست گجرات میں سینکڑوں غیر مقامی محنت کشوں نے احتجاج کیا کہ انہیں گھر بھیجنے کا انتظام کیا جائے۔ سورت کے مضافات میں واقع ہزیرہ بیلٹ کی صنعتوں کے 500 سے زیادہ محنت کشوں نے احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ حکام انہیں ریل گاڑیوں کے ذریعے گھروں کو روانہ کریں۔ ان غیر مقامی محنت کشوں کو حکومتی امداد تو دور کی بات کھانے اورپانیتک فراہم نہ کیا گیا۔ پولیس نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور آنسو گیس کے گولے داغے۔

کمزوروں کا خیال رکھنے کی بابت بی جے پی معذرت خواہان کی بیان بازیوں سے قطع نظر، سچ تو یہ ہے کہ بھوک، خود کشی، تھکاوٹ، ریل کی پٹریوں پر روندے جانے اور پولیس تشدد کے ہاتھوں 300 سے زائد غیر محنت کش اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔

لیکن دکھوں کا یہاں انت نہیں ہوجاتا۔ جب ان غیر مقامی محنت کشوں کا بڑا حصہ پر ہجوم ریل گاڑیوں اور بسوں کے ذریعے اپنے گھروں کو لوٹا تو وہ اپنے ساتھ وائرس بھی لے آیا۔ دیہی علاقوں میں اس وبا سے مقابلے کے لیے کسی قسم کی صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اڑیسہ کی ریاست میں 80 فیصد سے زیادہ کرونا کیسوں کا تعلق غیر مقامی محنت کشوں سے ہے۔

آج یہ محنت کش مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کے آگے خود کو لاوارث اور حقیر محسوس کرتے ہیں۔ انڈیا کے محنت کشوں کی اس سب سے بڑی پرت کی پولیس اور ریاست کے ہاتھوں اٹھائی جانے والی تذلیل، کرونا وبا کے بعد ان کے شعور میں تبدیلی کے اندر ایک اہم کردار ادا کرے گی۔

محنت کش طبقے کیخلاف ننگی جارحیت

محنت کشوں پر مزید حملوں کے لیے وبا کی صورت میں مودی کے ہاتھ میں ایک سنہری موقع آیا ہے۔ قومی اتحاد اور بھارت کو معاشی انہدام سے بچانے کے نام پر مودی اور بے جے پی کی ریاستوں نے مزید مزدور دشمن اور ٹریڈ یونین مخالف قوانین پاس کرنے شروع کر دیے ہیں

مودی اس وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مزدور قوانین کی دھجیاں بکھیر رہاہے تاکہ معیشت کو تیزی سے ترقی کے راست پر گامزن کیا جاسکے۔ یہ، یقینا، مودی کی قبل از وبا پالیسیوں کا تسلسل ہی ہے۔ تاہم، محنت کشوں پر مزید حملوں کے لیے وبا کی صورت میں مودی کے ہاتھ میں ایک سنہری موقع آیا ہے۔ قومی اتحاد اور بھارت کو معاشی انہدام سے بچانے کے نام پر مودی اور بے جے پی کی ریاستوں نے مزید مزدور دشمن اور ٹریڈ یونین مخالف قوانین پاس کرنے شروع کر دیے ہیں۔

پچھلے چند سالوں کے دوران مودی سرکار نے موجودہ مزدور قوانین کو ختم کرنے اور یونینوں کو کمزور کرنے کے لیے کئی بل پاس کروائے ہیں۔ 2018ء سے لے کر 2019ء تک، مودی سرکار نے تین اہم مزدور قوانین، جن میں ٹریڈ یونین ایکٹ مجریہ 1926ء؛ صنعتی ملازمت ایکٹ مجریہ1946ء اور صنعتی تنازعات کے قانون مجریہ1947ء شامل ہیں، کی جگہ انڈسٹریل ریلیشن کوڈ (IRC) کو پوری قوت سے لاگو کروایا جو لازمی طور مالکان کو محنت کشوں کے مزید استحصال کی آزادی دے گا اور ٹریڈ یونین بنانے اور احتجاج کرنے کی حقوق سلب کر لیے جائیں گے۔

اور اب، زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری لانے کے چکر میں گجرات، پنجاب، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش جیسی بڑی ریاستوں نے تمام لیبر قوانین کو مکمل طور پر معطل کر دیا ہے۔ اس میں سے بیشتر ریاستوں میں بی جے پی برسر اقتدار ہے اور وہ کام کے دن کو آٹھ گھنٹے بڑھا کر بارہ گھنٹے کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ کئی دیگر ریاستیں بھی کم از کم اجرت کے قوانین کو معطل اور کام پر رکھنے اور نکالنے کے قواعد و ضوابط کو نرم کر رہی ہیں۔

اتر پردیش کی ریاست، جس کی آبادی پورے برازیل کے برابر ہے اور جہاں بی جے پی برسر قتدار ہے، نے تین سال تک کے لیے تمام فیکٹریوں اور کام کی جگہوں کو کم از کم اجرت کے قوانین کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے لیبر قوانین سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔ اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ چائلڈ لیبر اور مراعات کے قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا لیکن وہ ٹریڈ یونین بنانے، ممبر سازی اور احتجاج کرنے کے حق کو ختم کر رہے ہیں۔

ریاست مدھیہ پردیش میں ایسی کام کی جگہیں جہاں 300 سے کم محنت کش کام کرتے ہیں، کو مزدور قوانین سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے اور کام پر موجود محنت کشوں کی تعداد سے قطع نظر مالکان کو محنت کشوں کو بھرتی یا فارغ کرنے کے حوالے سے مزید آزادی دی جا رہی ہے۔

بھارتی محنت کش طبقے پر گھناؤنے حملوں کے لیے مودی کے لیے یہ سنہرا موقع ہے جب ملک کے طول و عرض میں ابھرنے احتجاجوں کو وبا کا سہارا لے کر کچلا اور خاموش کرایا جائے گا کیونکہ(سفری پابندیوں اور دیگر وجوہات کا باعث) یہ احتجاج چھوٹے اور بکھرے ہوئے ہوں گے۔

یقینی طور پر مودی اور اس کی حکومت بھارتی محنت کش طبقے کو سو سال سے پیچھے دھکیلنے کے درپے ہے۔ جہاں محنت کش طبقے نے عالمی سطح پر ان گنت دکھ اور تکلیفیں اٹھا کر اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر آٹھ گھنٹے کے کام کے دن کا حق حاصل کیا تھا، وہیں مودی ایک بار پھر بھارت کے مزدوروں کو استحصال اور اجرتی غلامی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

مودی کو شکست دینے کے لیے مزدوروں کو منظم ہونا ہوگا!

اس سب کے جواب میں بھارت کی دس بڑی ٹریڈ یونین فیڈریشنز نے تمام یونینوں اور محنت کشوں کو ایک ملک گیر احتجاج اور 3 جولائی کو عام ہڑتال کی تیاری کرنے کی کال دی ہے۔ بڑی ٹریڈ یونینیں، درست طور پر، مودی سرکار کو ریلوے، دفاع، پورٹ، کوئلے، ائیر انڈیا، بینکوں اور انشورنس کمپنیوں جیسے اہم عوامی اداروں کی ہول سیل نجکاری اور محنت کشوں پر حملے کرنے کے لیے کرونا وبا کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگا رہی ہیں۔ کوئلے کی عوامی صنعت کی نجکاری کے ردِ عمل میں کوئلے کے سیکٹر کی بڑی یونینیں بھی جولائی کے اندر تین دن کے لیے ہڑتال کریں گی۔ یونینوں کی تجویز ہے کہ ملک گیر ہڑتال چھ ماہ تک جاری رکھی جائے اور تمام صنعتی سیکٹرز میں احتجاجوں اور مظاہروں کو جاری رکھا جائے۔ یہ دو ماہ سے بھی کم کے عرصے میں دوسری ملک گیر عام ہڑتال ہے۔

محنت کشوں کی طاقت کے اظہار کے لیے احتجاج اور ہڑتالیں بہت اہم ہیں یہ محنت کشوں کو اعتماد بہم پہنچاتی ہیں کہ وہ عوام کو منظم کر سکتے ہیں اور اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ متحد محنت کشوں کی تحریکیں کتنی طاقت رکھتی ہیں لیکن صرف مسلسل ہڑتالیں جاری رکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ پچھلے چند سالوں سے بھارت کا محنت کش طبقہ بہادری کے ساتھ احتجاج اور ہڑتالیں کر رہا ہے اور مودی حکومت کے خلاف متحرک ہے۔ انڈیا کی ٹریڈ یونینیں پہلے ہی 9-8 جنوری 2020ء کو تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال منظم کر چکی ہیں، لیکن وہ اس کے ذریعے نجکاری اور محنت کشوں پر حملوں کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یہ واضح ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک یا دو روزہ عام ہڑتالیں نہیں ہیں بلکہ مودی سرکار کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے تمام اہم شعبوں پر مشتمل ایک غیر معینہ عام ہڑتال کی ضرروت ہے۔

عالمی سرمایہ داری کو عظیم کساد بازاری کے بعد سے لے کر اب تک کے ایک گہرے ترین بحران کا سامنا ہے اور بھارت جیسے ممالک اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ یہ گہرا بحران محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑی تحریکوں کو جنم دے گا۔ اس عرصے میں، مودی مزدوروں کے بڑھتے ہوئے احتجاجوں و ہڑتالوں کو توڑنے کے لیے اور ان کا رخ موڑنے کے لیے مذہبی اور قومی جبر پہلے سے زیادہ شدت سے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔

ایک عام ہڑتال، جو مودی اور بھارتی سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے اور مزدوروں کی حکومت اور سوشلسٹ ایشیا کے انقلابی پروگرام پر مبنی ہو، اس تمام تر اذیت کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔ بھارت کی کل ورک فورس 52کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ صرف چھ سے سات فیصد ہی رسمی روزگار سے منسلک ہیں اور صرف 2 فیصد یونینوں میں منظم ہیں۔ لیکن یونینوں میں منظم اور رسمی روزگار سے وابستہ محنت کشوں کی کم تعداد کے باوجود اگر یہ پرتیں پورے ملک کو جام کرنے کے لیے غیر مقامی محنت کشوں اور کسانوں کی قیادت کرتی ہیں تو مودی کو آسانی سے شکست دی جا سکتی ہے۔

اگر بھارتی سرمایہ داری کے بڑے کلیدی شعبوں کو قومی ملکیت میں لے لیا جاتا اور انہیں محنت کشوں کے کنٹرول میں دے دیا جاتا تو بھوک، اذیت، استحصال، جہالت، اور حکمران طبقے کی جانب سے تھوپی جانے والی دیگر تمام تر ذلتوں کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ اس سب کو عالمی سوشلسٹ انقلاب کے عالمی پروگرام سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔

ایسے کسی پروگرام کی غیر موجودگی میں ہم وقتاً فوقتاً بھارتی محنت کشوں کی بڑے پیمانے کی صلاحیت کا اظہار تو دیکھیں گے لیکن اس سب کے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔ ہم دن بدن محنت کشوں پر بڑھتے ہوئے حملے دیکھیں گے۔ کانگریس بھی سرمایہ داروں کی پارٹی ہے اور کسی متبادل کی نمائندگی نہیں کرتی اور باقی دیگر جماعتوں کی طرح بستر مرگ پر موجود اس نظام میں اصلاحات کے ذریعے نئی روح پھونکنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔

سب سے بڑھ کر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا میں مارکسزم کی حقیقی قوتوں کی تعمیر کی جائے تاکہ سوشلزم کی جدوجہد کے لیے قیادت تعمیر کی جا سکے۔ عالمی مارکسی رجحان(IMT) ان نظریات کو محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکوں میں پھیلانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔

• تین جولائی کو ہونے والی ایک روزہ ملک گیر عام ہڑتال کو ایک غیر معینہ عام ہڑتال میں تبدیل کیا جائے!

• تمام مزدور دشمن اور یونین دشمن قوانین کا خاتمہ کیا جائے!

• صحت کے نظام کو قومیایا جائے اور سب کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کی جائیں!

• تمام غیر مقامی اور غیر منظم محنت کشوں کو ایک معیاری زندگی کے لیے ضروری اجرت دی جائے!

• بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے کر مزدوری کے جمہوری کنٹرول میں دیا جائے!

• مذہبی جبر اور زہریلی قوم پرستی کا خاتمہ کیا جائے!

• مودی کی مزدور دشمن حکومت اور بھارتی سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکا جائے!

• ایک سوشلسٹ ہندوستان اور جنوبی ایشیا اورسوشلسٹ دنیا کی جدوجہد کے لیے آگے بڑھو!

Comments are closed.