انٹرویو: بلوچستان میں کوئلے کے محنت کشوں کی حالتِ زار

| رپورٹ: ریڈورکرزفرنٹ ،کوئٹہ|

سال 2013ء کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں 186 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں، لیکن زیادہ تر ناقص معیار کے ہیں۔ سندھ میں 185.5 ارب ٹن کے کوئلے کے سب سے بڑے ذخائر ہیں، اس کے بعد بلوچستان، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں 0.217 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں (پاکستان کے کل ذخائر کے ایک فیصد سے کم)۔ اس کے باوجود پاکستان میں کوئلے کی کل سالانہ پیداوار میں بلوچستان کا حصہ 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

زیادہ تر کوئلہ اینٹوں کے بھٹوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور ایک چھوٹی مقدار توانائی کے منبع کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔بلوچستان میں کوئلے کے چھ ذخائر ہیں جو صوبے کے شمالی حصے میں واقع ہیں۔ یہاں مچ آبیگم کوئلے کا ذخیرہ ہے جو کہ کوئٹہ سے تقریباً 70 کلو میٹر جنوب مشرق میں ضلع بولان میں پایا جاتا ہے۔ سورینج، سنجیدی، ڈیگھاری کوئلے کا ذخیرہ کوئٹہ کے مشرق میں 28 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جوکہ پاکستان کی سب سے گہری کوئلے کی کان مانی جاتی ہے۔ پیر اسماعیل زیارت،مرگار،نروار کوئلے کا ذخیرہ کوئٹہ کے مشرق میں 60 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اور دکی انیمبر کوئلے کا ذخیرہ ضلع لورالائی میں واقع ہے۔ خوست،شارگ،ہرنائی کوئلے کا ذخیرہ کوئٹہ سے 160 کلو میٹر کی دوری پر ضلع سبی میں واقع ہے ، اور چمالنگ ذخیرہ ضلع لورالائی میں پایا جاتا ہے۔


اس وقت بلوچستان کے پانچ اضلاع میں 2500 کوئلے کی کانیں موجود ہیں جن میں 60 ہزار کے قریب محنت کش کام کرتے ہیں۔ ان محنت کشوں کی اکثریت صوبہ خیبر پختونخوا سے ہے۔ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں اکثر و بیشتر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ سال ستمبر میں ایک ہفتے کے دوران پیش آنے والے تین مختلف حادثات میں 8 کان کن اور 011 2ء میں ایک کان کے اندر ہونے والے گیس کے دھماکے میں 50 مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ چار سالوں میں کان کے اندر گیس بھرنے اور دیگر وجوہات کے باعث دو درجن سے زائد واقعات پیش آچکے ہیں جن میں 48 سے زائد کان کن لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اکثر کوئلہ کانوں میں تازہ ہوا کے اندر آنے، کان کے دھماکہ ہونے یا آگ لگنے یا دیگر ہنگامی صورتحال میں متبادل راستہ نہیں ہوتا جو حادثات کی اہم وجوہات ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران، کوئلے کی کان میں کام کرنے والے318 مزدور بلوچستان میں اپنی مزدوری کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔اس سلسلے میں ریڈورکرزفرنٹ اور ورکرنامہ کے نمائندے نے مچھ کانکن لیبر یونین کے صدر اقبال خان یوسفزئی سے گفتگو کی جس میں اقبال خان سے مختلف سوالات پر بات چیت ہوئی جو ہم اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہے ہیں۔


سوال: بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں محنت کشوں کی ہلاکتوں کی وجوہات کیا ہیں؟
جواب: کوئلے کی کانوں کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کی ہلاکتوں کی مختلف وجوہات ہیں جن میں چند ایک اہم ہیں:
۔ بلوچستان کے اندر کوئلے کی کانیں بہت گہری ہوتی ہیں جن میں میتھین گیس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے اس گیس کی موجودگی میں برقی آلات کے استعمال کی وجہ سے سپارک سے دھماکے ہوتے ہیں۔ جوکہ ہمیشہ جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔
۔ مائینز سیفٹی ایکٹ 1923ء کے نفاذ کی عدم موجودگی میں سیفٹی تدابیر کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس ایکٹ کے تحت جہاں پر محنت کشوں کو کانوں کے اندر حفاظتی تدابیر کے آلات مہیا کیے جانے ضروری ہیں، جبکہ دوسری طرف ہر تین مہینے بعد حفاظتی تدابیر کے حوالے سے تربیتی پروگرامز کا انعقاد بھی جن میں محنت کشوں کو کوئلے کی کانوں کے اندر مختلف صورتحال میں حفاظتی تدابیر سکھائی جائیں۔
۔ مائنز سے متعلق جو تین مختلف شعبہ جات ہوتے ہیں ان میں مائنز انسپکٹر ، منیجر اور انچارج شامل ہوتے ہیں، ان کا کام دراصل کانوں کے اندر کام کرنے کے امکانات، زہریلی گیس کی موجودگی، کانوں کے گرنے کی نوبت وغیرہ کو معلوم کرکے پھر مزدوروں کو کام کرنے کی اجازت دینا ہے جبکہ بلوچستان کے اندر اس حوالے سے کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی یہ سب کام کرنے والا۔ مائینز سیفٹی ایکٹ 1923ء کے عدم نفاذ کی وجہ سے ان عہدوں اور عہدیداروں کا کوئی وجود نہیں ہے۔
۔ کوئلے کی کانوں کے اندر پہلے کیکر کی لکڑیوں کا استعمال کیا جاتا تھا جو کہ کوئلے کے اندر کسی بھی کان کے گرنے کی حالت کو اپنے مخصوص آوازوں کی بدولت واضح کرتا تھا مگر اب سفیدہ کی لکڑیاں استعمال ہوتی ہیں جن میں یہ خصوصیت قدرتی طور پر موجود نہیں ہے۔
۔ ٹھیکیداری کا نظام ان تمام تر کانوں کے میں لاگو ہے اور ٹھیکیدار اپنی منافع خوری کے لئے ناقص آلات کا استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کے ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
۔ کانوں کے اندر کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہونے کی صورت میں ابتدائی طبی امداد کیلئے کسی بھی کان کے پاس نہ کوئی ڈسپنسری ہے، نہ کوئی ڈاکٹر اور نہ ہی ایمبولنس کا انتظام ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات محنت کش معمولی زخموں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
سوال: مائنز ڈپارٹمنٹ کا اس سلسلے میں کردار کیا ہے؟
جواب: بلوچستان کے اندر تمام کوئلے کے کانوں کے مالکان انتہائی بااثر شخصیات ہیں جن کے اثر ورسوخ کی وجہ سے سرکاری شعبہ اس سلسلے میں ان کے مفادات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ نہیں لے سکتا۔ جب کہ ان تمام تر مسئلوں سے ہٹ کر یہی سرکاری شعبے کے ذمہ داران مائنز مالکان سے کمیشن لیتے ہیں جس کی وجہ سے محنت کشوں کے مسائل اور ایشوز پر کوئی بھی دھیان نہیں دیا جاتا۔ اس کے علاوہ مائنز مالکان مزدوروں کو دبانے کیلئے یا ان کے حقوق کو چھیننے کے لیے بھی اپنا اثررسوخ بروئے کار لاتے ہیں، جسکی وجہ سے مائنز ڈپارٹمنٹ کچھ نہیں کرسکتا۔
سوال: حادثات کا شکار ہونے والے محنت کشوں کے لواحقین کی مالی معاونت کے حوالے سے بتائیں؟
جواب: اس وقت حادثات کا شکار ہونے والے محنت کشوں کے لواحقین کو دی جانے والی مالی امداد کے حوالے سے بلوچستان سب سے نچلے درجے پر آتا ہے جو کہ اگر کبھی دی بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ دو لاکھ روپے ہوتی ہے۔ جب کہ یہ رقم وفاق اور پنجاب میں چار لاکھ، سندھ میں 5 لاکھ اور کے پی کے میں تین لاکھ ہے۔ اس رقم کے حصول کیلئے بھی لواحقین کو مختلف مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے جن میں بعض اوقات اس مالی معاونت کے رقم کے حصول کے لئے نام نہاد عدالتوں کا بھی رخ کرنا پڑتا ہے جس میں پھر وہی مائنز مالکان کا اثرورسوخ آڑے آ جاتا ہے۔
سوال: اجرتوں کی کیا صورتحال ہے؟
جواب: کانوں کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کی اجرتوں کا پیمانہ پیمائش اور نکالے گئے کوئلے کی حساب سے ہوتا ہے، جس میں اوسطاً ایک مزدور کی دیہاڑی روزانہ کی بنیاد پر 700 روپے سے لے کر 800 روپے تک بن جاتی ہے۔ جوکہ انتہائی کم ہے، حالانکہ یہی مزدور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرتے ہیں مگر خود کے لیے بمشکل ماہانہ 17ہزار سے 18ہزار کما پاتے ہیں۔
سوال: بلوچستان کی کول مائینز میں ٹریڈ یونین کا کیا کردار ہے؟
جواب: اس وقت کوئٹہ کے علاقے سورینج میں متحدہ ورکرز یونین اور مچھ بولان میں مچھ بولان کان کن لیبر یونین کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں کول مائینز کی ٹریڈ یونینز کو ٹھیکیداروں اور مائنز مالکان نے مل کر بنایا ہے۔ جوکہ مزدوروں سے بڑھ کر ان مائینز مالکان اور ٹھیکیداروں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکٹ یونینز کی بھی بھرمار ہے جس کی وجہ سے مزدوروں کی نمائندگی کرنے میں دوسرے حقیقی یونینز کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


اقبال خان نے مزید بتایا کہ اس وقت بلوچستان کے اندر کول مائینز میں کام کرنے والے محنت کشوں کے لیے EOBI اور سوشل سکیورٹی کے سہولیات سرے سے وجود ہی نہیں رکھتیں جس کی وجہ سے محنت کش جب کانوں کے اندر دورانِ کام حادثات کا شکار ہوتے ہیں اور کئی ہمیشہ کے لئے اپاہج ہو جاتے ہیں تو انکو کوئی مالی سہولت نہیں ملتی۔ جسکی وجہ سے وہ باقی کی زندگی بھکاری بن کر گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے اندر کول مائنز کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کشوں کے ان تمام مسائل کی موجودگی کی وجہ سے جو حادثات واقع ہوتے ہیں ان کے ذمہ دار بلاواسطہ نااہل حکمران طبقات، مائنز ڈیپارٹمنٹ، ان کے حواری ٹھیکیدار اور مائینز مالکان ہیں جو کہ صرف اور صرف اپنی منافع خوری کی ہوس میں محنت کشوں کی زندگی سے کھلے عام کھلواڑ کرتے ہیں۔اور یہ کھلواڑ نہ صرف ان کے جیتے جی کیا جاتا ہے بلکہ مرنے کے بعد ان کی لاشوں کو بھی چین سے دفنانے نہیں دیا جاتا۔
ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد بلوچستان میں مائنز کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لئے ضروری حفاظتی اقدامات کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے، تاکہ محنت کشوں کی زندگیوں کو بچایا جاسکے۔ بصورتِ دیگر ہم اس مانگ کے حصول کے لیے ہر طرح کے سیاسی طریقہ کار کے استعمال کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

Comments are closed.