تحریر:| یاسر ارشاد|
محکمہ صحت راولاکوٹ کے ملازمین کی جرات مندانہ اور غیر مصالحانہ جدوجہد نے ریاستی جبر کے تمام ہتھکنڈوں کو شکست دے کر حکمرانوں کو نہ صرف اپنے تمام مطالبات ماننے پر مجبور کیا بلکہ اپنے گرفتار قائدین کو غیر مشروط رہائی بھی دلوائی۔ حکمرانوں نے ہڑتال کو توڑنے کے لئے پیرامیڈیکل سٹاف ایسوسی ایشن کی مرکزی اور ضلعی قیادت کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کردیا تھا لیکن اس جبر نے محنت کشوں کے حوصلوں کو پست کرنے کے بجائے مزید آہنی بنا دیا۔ دیگر اداروں کے محنت کشوں نے بھی ریاست کے اس حملے کو ناکام بنانے کے لئے محکمہ صحت کے ملازمین کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے مکمل ہڑتال کر دی۔ ہڑتال کے وسعت اختیار کرنے کے باعث دیگر سیاسی تنظیموں اور سماجی حلقوں میں بھی ہڑتال کی سرگرم حمائیت میں اضافہ ہو رہا تھا اسی لئے حکمرانوں نے خوفزدہ ہو کر ملازمین کے تمام مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے گرفتار قائدین پر قائم تمام جھوٹے مقدمات واپس لے کر انہیں غیر مشروط طو ر پر رہا کر دیا۔ محکمہ صحت کے ملازمین کی یہ فتح دیگر تمام اداروں کے محنت کشوں کی بھی فتح ہے جس کا جشن تمام ملازمین تنظیموں نے مشترکہ طورپر 19 جون کوایک افطار پارٹی منعقد کر کے منایا۔ اس فتح نے عمومی طور پر محنت کشوں کے اتحاد کی اہمیت اور طاقت کے احساس اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے محنت کشوں کو اپنی اجتماعی طاقت پر انحصار کرتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھانے کے حوالے سے زیادہ پر اعتماد کیا ہے۔
محنت کشوں کی یہ جیت ایک ٹھوس بنیاد ہے جس پر آنے والے دنوں میں زیادہ بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ محنت کشوں کو اس بات کا واضح ادراک رکھنا ہو گا کہ اس نظام کے اندر محنت کشوں کی کسی بھی کامیابی کو حکمران لمبے عرصے تک برداشت نہیں کر سکیں گے اور وہ پھر کسی نئی پالیسی کی صورت میں جلد نیا حملہ کریں گے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ نظام عالمی سطح پر زوال کا شکار ہو چکا ہے اور اس لئے جو مراعات محنت کشوں نے ماضی میں اپنی جدوجہد اور قربانیوں کے ذریعے حاصل کی تھیں اب حکمران اپنے منافعوں اور عیاشیوں کو برقرار رکھنے کے لئے محنت کشوں سے وہ مراعات بھی واپس چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لئے ہر ملک کے حکمران محنت کشوں کی تنخواہوں، پنشنوں اور دیگر سہولیات پر کٹوتیاں لگانے کی پالیسیاں نافذ کر رہے ہیں جن کے خلاف محنت کشوں کی بڑی بڑی ہڑتالیں دنیا بھر میں ابھر رہی ہیں۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران جو درحقیقت حکمران کم اور اسلام آباد کے ملازم زیادہ ہیں وہ اپنے ان آقاؤں کے حکم پر اس خطے کے محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ نچوڑنے کے لئے بھی تیار ہیں اور اسلام آباد میں بیٹھے ڈاکو بھی IMFاورعالمی بینک کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے پاکستان کے محنت کشوں پر اسی قسم کے حملے کر رہے ہیں۔ حکمرانوں کے محنت کشوں کے خلاف یہ حملے آنے والے دنوں میں کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کریں گے چونکہ اس نظام کا معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ جوں جوں بحران شدت اختیار کرے گا یہ ڈاکو نما حکمران اس بحران کا تمام بوجھ محنت کشوں کے کاندھوں پر منتقل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس صورتحال میں محنت کشوں کو اپنی حاصل کردہ مراعات کے تحفظ کے لئے ایک زبردست لڑائی لڑنا پڑے گی۔ محنت کشوں کو یہ بھی سمجھنا پڑے گا کہ وہ دن ماضی کا قصہ بن چکے ہیں جب اس نظام میں اتنی گنجائش موجود تھی کہ حکمران اپنی عیاشیوں کو بھی جاری رکھ سکتے تھے اور محنت کشوں کی ہڑتالوں اور تحریکوں کے دباؤ کی وجہ سے محنت کشوں کو کچھ رعائتیں دینے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے لیکن اب اس نظام کے بحران کی وجہ سے حکمرانوں کے پاس وہ مالیاتی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔ حکمرانوں کے پاس اس بحران کی وجہ سے دو ہی راستے باقی ہیں پہلا یہ کہ وہ اپنی لوٹ مار کو کم کرتے ہوئے محنت کشوں کو مراعات دیں اور دوسرا یہ کہ محنت کشوں کی حاصل کردہ مراعات پر کٹوتیاں لگاتے ہوئے اپنی تجوریوں کو بھرنے کا عمل جاری رکھیں۔ یہ سادہ سی حقیقت تمام محنت کش اپنے تجربے کی بنیا د پر اچھی طرح جانتے ہیں کہ کبھی بھی حکمران محنت کشوں کی اجرتوں میں اضافے کے لئے اپنی عیاشیوں کو کم نہیں ہونے دیتے۔ اس کے برعکس حکمران وحشیانہ ریاستی جبر کا استعمال کرتے ہوئے بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کریں گے اس لئے محنت کشوں کو ان لڑائیوں کے لئے تیار ہونا ہو گا۔
حکمران محنت کشوں کی مراعات پر حملے سے پہلے محنت کشوں کی تنظیموں اور ان کے ہڑتال اور احتجاج کرنے جیسے بنیادی حقوق پر حملے کریں گے۔ پہلے ہی نیشنل ایکشن پلان کے نام پر ایک کالے قانون کے ذریعے محنت کشوں اور عوام سے احتجاج کا حق چھینا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کی اپنی پالتو دہشت گردی تنظیموں کے خلاف ایک نام نہاد جنگ کا بہانہ بنا کر اس قسم کے کالے قوانین بنائے جا رہے ہیں جن کے نفاذ سے دہشت گردی تو کم نہیں ہوگی(چونکہ دہشت گردی ریاست کی پشت پناہی سے پلتی ہے) ہاں حکمرانوں کو کسی بھی احتجاج یا ہڑتال پر ریاستی جبر کا جواز ضرور مل جائے گا۔ اس کے ساتھ محنت کشوں کے اتحاد کو توڑنے کے لئے بھی مذہبی، علاقائی، ذات پات ، رنگ ونسل سمیت قومی و نسلی ہر قسم کے تعصبات کو استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی چونکہ جب تک محنت کشوں کی متحرک تنظیمیں موجود ہیں حکمرانوں کے خلاف ان تنظیموں کے پلیٹ فارم پر متحد محنت کش ہر حملے کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔ محکمہ صحت کے محنت کشوں کی فتح کا تجربہ حکمرانوں کو ان تنظیموں کے خلاف زیادہ جارحانہ حملے کرنے پر مجبور کرے گا اس لئے آنے والے دنوں میں محنت کشوں کو زیادہ بڑی لڑائی لڑنی پڑے گی۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے محنت کشوں کو اپنی اس جدوجہد کو پاکستان کے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس نظام کی تبدیلی کے فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے آگے بڑھنا ہو گا جس میں دنیا بھر کے محنت کش ان کے عملی ساتھی اور رفیق ہوں گے۔ اس خطے میں ایک مزدور راج کے قیام سے ہی محنت کشوں کے تمام مسائل اور ہر قسم کے استحصال کا حتمی طور پر خاتمہ ممکن ہے۔ محنت کشوں کے لئے یہ جدوجہد ان کی اپنی اور اس سماج کی زندگی اور بقاء کی جنگ ہے جس میں فتح محنت کشوں کا مقدر ہے۔