مزدور تحریک اور سوشلسٹ نظریات

|تحریر:آفتاب اشرف|

اس وقت پاکستان کے محنت کشوں پر عالمی مالیاتی اداروں اور ملکی سرمایہ دار طبقے کے دلال حکمرانوں اور ریاستی اشرافیہ کی جانب سے ملکی تاریخ کے بدترین معاشی، سماجی اور سیاسی حملے کیے جا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہے جبکہ ملکی وعالمی سرمایہ داروں کے منافعوں اور ریاستی اشرافیہ کی عیاشیوں میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ مستقبل میں بھی ان حملوں میں مزید شدت آئے گی کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے چاہے کسی بھی پارٹی کی سیاسی حکومت ہو یا فوجی آمریت، وہ سرمائے کے مفادات کا تحفظ ہی کرتی ہے۔ اسی طرح عدلیہ، افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ سمیت سرمایہ دارانہ ریاست کا ہر ادارہ بھی سرمایہ دار طبقے کا ہی محافظ ہوتا ہے۔ ایسے میں حکمران طبقات کی اس یلغار کا سامنا کرنے کے لیے محنت کش طبقہ صرف اور صرف اپنے قوتِ بازو پر ہی بھروسہ کر سکتا ہے۔ صرف طبقاتی جڑت کی بنیاد پر پروان چڑھنے والی ایک مضبوط مزدور تحریک ہی حکمرانوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن سکتی ہے۔ اگرچہ کہ حکمران طبقے کے تمام تر جبر کے باوجود پچھلے عرصے میں محنت کشوں نے اپنے حقوق کے دفاع میں بڑی شاندار جدوجہد کی ہے جس میں مختلف عوامی اداروں اور نجی صنعتوں میں ہونے والے بے شمار احتجاجوں اور بکھری ہوئی ہڑتالوں سے لے کر پچھلے سال اسلام آباد میں ہونے والے بڑے مشترکہ احتجاج بھی شامل ہیں۔ اگرچہ اس تمام تر جدوجہد کے نتیجے میں کچھ کامیابیاں بھی ملی ہیں لیکن مزدور قیادتوں کی موقع پرستی و کوتاہ نظری، مناسب پروگرام کی عدم موجودگی، تنظیم کاری اور منظم ڈھانچوں کے فقدان کے کارن مزدور تحریک آگے کی سمت میں ایک بڑی جست نہیں لگا سکی۔

مزدور تحریک کی ان تمام موضوعی خامیوں کی جڑ حتمی تجزئیے میں تحریک کی مزدور نظریات یعنی سائنسی سوشلزم کے نظریات سے دوری ہے۔ 1960-70ء کی دہائیوں میں سوشلسٹ نظریات مزدور تحریک میں خاصے مقبول تھے اور تحریک پر ان کے واضح اثرات نظر آتے تھے۔ مگر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام نے پوری دنیا میں بائیں بازو کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا جس کے نتیجے میں مزدور تحریک بھی عالمی سطح پرکوسوں پیچھے دھکیلی گئی۔ پاکستان میں ان عالمی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی رجعت میں ملفوف ضیا الباطل کے جابرانہ ردِ انقلاب کے سیاسی، سماجی و ثقافتی اثرات اور پھر پیپلز پارٹی، جو پاکستان کے محنت کش طبقے کی سیاسی روایت تھی، کی زبردست غداری نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس سب کا نتیجہ 1990ء کی دہائی میں مزدور تحریک کے سوشلسٹ نظریات سے تقریباً مکمل طور پر کٹ جانے کی صورت میں نکلا۔ اس نظریاتی بے راہ روی نے ہی مزدور تحریک میں مفاد پرستی، موقع پرستی، مذہبی و لسانی تعصبات، طبقاتی نقطہ نظر کے خاتمے اور ٹریڈ یونین تنگ نظری جیسی مہلک بیماریوں کی سرائیت کے لیے راہ ہموار کی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

مگر ہم محنت کش طبقے اور خصوصاً اس کی ہر اول پرتوں کو واضح الفاظ میں یہ بتائے دیتے ہیں کہ مزدور تحریک کو لاحق ان تمام بیماریوں کا واحد علاج سوشلسٹ نظریات کے ساتھ واپس ناطہ جوڑنے میں ہے۔ صرف اور صرف سوشلسٹ نظریات اور ان سے اخذ کردہ معروضی مطابقت رکھنے والا ایک پروگرام ہی مزدور تحریک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ آج عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کے اس عہد میں دیرپا مزدور اتحادکی تعمیر اور آنے ٹکے کی حاصلات کی لڑائی میں بھی مزدور نظریات کے بغیر کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یاد رہے کہ سرمایہ داری کے پاس بھی معیشت، سیاست، سماجیات اور تاریخ کے متعلق اپنے نظریات موجود ہیں جنہیں بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں ”اعلیٰ تعلیم“ کے نام پر پڑھایا جاتا ہے، میڈیا و اخبارات میں دانشوری اور تجزیہ کاری کے نام پر ان کی ترویج کی جاتی ہے اور مسجد، مندر اور کلیسا سے انہیں مذہب کے پردے میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان نظریات کا واحد مقصد سرمایہ دارانہ نظام کے جبر و استحصال اور سرمایہ دار طبقے کی منافع خوری کو ”قانونِ فطرت“ بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ سرمائے کے جبر کے سامنے محنت کش عوام سر تسلیم خم کر لیں اور بغاوت کا نہ سوچیں۔ جیسے لوہا، لوہے کو کاٹتا ہے ویسے ہی سرمایہ داری کی نظریاتی یلغار کا جواب بھی صرف مزدور نظریات کے ذریعے ہی دیا جا سکتا ہے۔ اگر محنت کش طبقے کو غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، بے گھری اور ایسے دیگر تمام مسائل سے مستقل نجات چاہیے تو اسے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنا پڑے گا اور سرمایہ داری کا خاتمہ اس کی تمام حرکیات و تضادات اور واحد ممکنہ متبادل یعنی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کو سمجھے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ایک مزدور انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کے خاتمے کو عملی جامہ کیسے پہنایا جا سکتا ہے؟ مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کیسے کی جاسکتی ہے؟ عالمی مزدور تحریک کی کم و بیش دو سو سالہ تاریخ کے لازمی اسباق کیا ہیں؟ انقلابِ روس سمیت ماضی کے مزدور انقلابات کیسے برپا ہوئے تھے، ان کی حاصلات کیا تھیں؟ دنیا کی پہلی مزدور ریاست یعنی سوویت یونین کا انہدام کیونکر ہوا؟ سامراج کیا ہے؟ تاریخ کا مادی نقطہ نظر کیا ہے؟ اور اس کے علاوہ بے شمار دیگر اہم ترین سوالات کا جواب بھی محنت کش طبقے کو صرف سوشلسٹ نظریات کے ذریعے ہی مل سکتا ہے۔

یقینی طور پر محنت کش طبقہ، خصوصاً اس کی ہر اول پرتیں حالات کے جبر اور اپنی جدوجہد کے تلخ اسباق پر غور و فکر کرتے ہوئے لازمی نتائج اخذ کر رہے ہیں لیکن مارکس وادیوں کا اولین فریضہ ہے کہ وہ سائنسی سوشلزم یعنی مارکسزم لینن ازم کے نظریات تیز ترین بنیادیوں پر محنت کش طبقے میں اتاریں تاکہ محنت کش طبقہ جلد از جلد اس علم سے مسلح ہو سکے، جس کی سرمائے کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکنے کے لیے اسے ضرورت ہے۔ یہاں پر بعض ساتھی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ سوشلزم تو بہت مشکل فلسفہ و سائنس ہے اور یہ محنت کشوں کو کیسے سمجھ آسکتا ہے جبکہ اچھے خاصے یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات بھی اس کے مشکل ہونے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ تو عرض یہ ہے کہ مادیت پسندی کے فلسفے کا بنیادی قضیہ ہے کہ یہ سماجی وجود ہوتا ہے جو حتمی تجزئیے میں شعور کا تعین کرتا ہے۔ لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام پیداوار کے پیداواری رشتوں میں بطور پیداکار اپنے معروضی مقام کے کارن محنت کش طبقے میں وہ پوٹینشل بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے کہ اگر انہیں آسان الفاظ میں، مجرد کی بجائے ایک ٹھوس انداز میں، ان کی زندگی سے مثالیں لیتے ہوئے سوشلسٹ نظریات سے روشناس کرایا جائے تو وہ کسی یونیورسٹی پروفیسر کی نسبت کہیں آسانی اور تیزی کے ساتھ ان نظریات کو سمجھ لیتے ہیں۔ محنت کش طبقہ اپنے تئیں بھی اپنی زندگی اور جدوجہد کے اسباق سے لازمی نتائج اخذ کرتے ہوئے اسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہوتا ہے لہٰذا سوشلسٹ نظریات اسے کوئی باہر سے مسلط کردہ بیگانی چیز نہیں لگتے بلکہ یہ محنت کشوں کے ذہنوں میں نیم شعوری اور خام انداز میں پنپنے والے خیالات کو بھرپور شعوری اظہار دیتے ہوئے اس کے لازمی نتائج اخذ کرنے کے عمل کو تیز، نسبتاً ہموار اور سہل بنا دیتے ہیں۔

مگر یقینی طور پر مارکس وادی کارکنان محض لیکچر بازی کے ذریعے ان نظریات کو محنت کش طبقے تک نہیں پہنچا سکتے۔ انہیں محنت کشوں کی فوری حاصلات کے لیے لڑی جانے والی ہر ایک چھوٹی بڑی لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہ کر ان کا اعتماد جیتنا ہو گا۔

مگر یقینی طور پر مارکس وادی کارکنان محض لیکچر بازی کے ذریعے ان نظریات کو محنت کش طبقے تک نہیں پہنچا سکتے۔ انہیں محنت کشوں کی فوری حاصلات کے لیے لڑی جانے والی ہر ایک چھوٹی بڑی لڑائی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہ کر ان کا اعتماد جیتنا ہو گا۔ صرف اسی عمل کے دوران اور اس کے ذریعے وہ اس پوزیشن میں آ سکتے ہیں کہ محنت کشوں کو سوشلسٹ نظریات سے روشناس کرا سکیں۔ یقینی طور پر مزدور تحریک میں پہلے سے موجود لڑاکا ٹریڈ یونینز کو مضبوط کرنا، موقع پرست قیادتوں کے مقابلے میں نیچے سے نئی لڑاکا قیادت کو تراشنے میں اپنا کردار ادا کرنا، جہاں کوئی یونین موجود نہیں وہاں فیکٹری کمیٹیاں اور نئی یونینز تعمیر کرنا، مختلف عوامی اداروں اور نجی صنعتوں کی یونینز کے بیچ ایک پل کا کردار ادا کرتے ہوئے طبقاتی اتحاد کو بڑھوتری دینا، یہ سب ہمارے اہم فرائض ہیں مگر ہمیں کبھی بھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم سوشلسٹ انقلاب کے سپاہی ہیں نہ کہ محض ریڈیکل ٹریڈ یونین کارکنان۔ لہٰذا مزدوروں کے سٹڈی سرکلز چلانا، ان میں سوشلسٹ نظریات کی ترویج کرنا، انہیں انقلابی تنظیم کا ممبر بنانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ مارکسزم لینن ازم کے نظریات ہمارے پاس محنت کش طبقے کی امانت ہیں، یہ انہی کی ہی میراث ہیں اور اسے واپس لوٹانے کا وقت آ چکا ہے۔ جتنی تیزی کے ساتھ ہم یہ امانت محنت کش طبقے کو واپس لوٹائیں گے، اتنی ہی تیزی کے ساتھ مزدور تحریک کا انقلابی بنیادوں پر منظم ہونے کا کام آگے بڑھے گا، اتنی ہی سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری سے حتمی چھٹکارے کی منزل قریب آتی جائے گی۔

Comments are closed.