بلوچستان کا محنت کش طبقہ، جدوجہد اور مستقبل

|تحریر: کریم پرھر|

سرمایہ داری کا عالمی نامیاتی بحران پوری دنیا کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر کے ترقی یافتہ و پسماندہ ممالک میں یہ بحران اپنے معاشی، سیاسی اور سماجی اثرات مرتب کررہا ہے۔ سرمایہ داری کے اس نامیاتی بحران کے زیر اثر دنیا بھر میں محنت کش طبقے کی ایک نئی اٹھان جنم لے چکی ہے۔ دنیا بھر میں نت نئی ہڑتالوں اور تحریکوں کا سلسلہ فروغ پا رہا ہے۔ احتجاجوں اور ہڑتالوں کا یہ سلسلہ یورپ اور امریکہ کے ساتھ ساتھ ایشیا میں بھی کافی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ چین کے اندر ریکارڈ ہڑتالیں ہو رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے اندر ماہ ستمبر میں محنت کش طبقہ پچھلے تین سالوں سے مسلسل عام ہڑتالوں میں حصہ لے رہا ہے اور پچھلے سال کی عام ہڑتال انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عام ہڑتال تھی۔

جہاں تک سرمایہ داری کے اس نامیاتی بحران کا تعلق ہے تو یہ بحران پاکستان کے اندر بھی پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس بحران کی شدت کی وجہ سے پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو رہا ہے، حالیہ ہڑتالیں اور احتجاج اس کی واضح مثالیں ہیں۔ پچھلے سال پی آئی اے کی ایک احتجاجی تحریک جس نے عیش و عشرت میں ڈوبے پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے حکمرانوں اور قنوطی دانشوروں کو سکتے میں ڈال دیا کہ کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ہم جب عہد کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو یہ ایک رسمی منطق یا رٹی رٹائی بات نہیں ہے بلکہ یہ معاشرے کے اندر اس بدلتی ہوئی کیفیت کا اظہار ہے جس نے ان قنوطی دانشوروں اور ڈرائنگ روم کی سیاست کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ رسید کیا کہ واقعی عہد تبدیل ہو چکاہے۔ اس کے علاوہ پورے پاکستان میں نرسز، پیرامیڈیکس، ینگ ڈاکٹرز، واپڈا، ٹیچرز سمیت دوسرے اداروں کے محنت کشوں کی متعدد ہڑتالوں نے حکمران طبقے کی نیندیں اڑا دیں۔ یہ سب انتشار اور بے چینی اس عالمی معاشی بحران کی عکاسی کرتی ہے جس نے محنت کش طبقے کی پرانی حاصلات پر ضرب لگاتے ہوئے اسے جدوجہد کے میدان میں اترنے پر مجبور کردیا ہے۔

اس صورتحال میں اگر ہم پاکستان کے پسماندہ ترین صوبے بلوچستان میں محنت کش طبقے کی کیفیت کا جائزہ لیں، جس کے حوالے سے ڈرائنگ روم کے قنوطی دانشور اور بورژوا سیاستدان کہتے ہیں کہ بلوچستان کے اندر محنت کش طبقہ وجود نہیں رکھتا، تو بلوچستان کے اندر صرف اپریل 2016ء سے لے کر اب تک محنت کش طبقے کے احتجاجوں اور ہڑتالوں پر نظر دوڑانے سے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلوچستان کے اندر محنت کش طبقہ نہ صرف وجود رکھتا ہے بلکہ جدوجہد کے میدان میں بھی سرگرم عمل ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے کوئٹہ پریس کلب کے علاوہ صوبہ بھر کے دیگر پریس کلب سیاسی پارٹیوں کے احتجاجوں سے زیادہ محنت کشوں کی ہڑتالوں، احتجاج اور مظاہروں کی زد میں رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بلوچستان کے محنت کش طبقے کے احتجاجوں، حاصلات اور مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے تفصیل سے لکھنے کی کوشش کریں گے۔ اس ضمن میں ہم ہر اس احتجاجی تحریک کا تنقیدی جائزہ لیں گے جو بلوچستان کے اندر گذشتہ ڈیڑھ سال میں برپا ہوئی۔

ینگ ڈاکٹرز کی احتجاجی تحریک اور حاصلات

اپریل 2016ء میں جب ینگ ڈاکٹرز ورلڈ ہیلتھ ڈے کے موقع پر ایک ریلی کی شکل میں جا رہے تھے تو وہ صوبائی اسمبلی پہنچنے سے پہلے ریاستی تشدد اور جبر کا نشانہ بن گئے، جس میں متعدد ینگ ڈاکٹرز شدید زخمی ہوئے جن کو بعد ازاں کراچی منتقل کرنا پڑا۔ واضح رہے اس ریلی سے پہلے ینگ ڈاکٹرز صوبے کے نااہل حکمرانوں اور کرپٹ بیوروکریسی کو اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کر چکے تھے، مگر حکمرانوں کی بے حسی کی وجہ سے وہ یک دم مسترد ہو چکا تھا۔ مگر ینگ ڈاکٹرز نے پیرامیڈیکس سٹاف فیڈریشن کے ساتھ مشترکہ طور پر احتجاجی تحریک شروع کی جس میں انہوں نے ٹوکن ہڑتال کے ساتھ آغاز کیا جو کہ بعد میں ماسوائے ایمرجنسی کے ہسپتالوں کے باقی تمام شعبوں میں پھیل گئی۔ مگر پھر بھی جب حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی تو ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس سٹاف فیڈریشن کے محنت کشوں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا دینا شروع کیا۔ تب جا کر حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور ینگ ڈاکٹرز کے چند مطالبات کی منظوری کے حوالے سے پریس کانفرنس کر کے دھرنا ختم کرادیا۔ 

ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس سٹاف فیڈریشن کی ہڑتال کے نتیجے میں حکمرانوں نے وقتی طور پر ان کے مطالبات تسلیم کر لیے مگر نوٹیفیکیشن کا اجرا اور اس پر عمل درآمد ایک قصہ کہانی بن گیا۔ اس نوٹیفیکیشن کا اجراء اور پھر عمل درآمد کرنے کے حوالے سے ایک بار پھر ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس سٹاف فیڈریشن کو احتجاج پر مجبور ہونا پڑا۔ مگر جب نوٹیفیکیشن جاری ہوا تو اس میں پیرامیڈیکس سٹاف کے مطالبات کا کہیں پر بھی ذکر نہیں تھا۔ اس کے نتیجے میں پیرامیڈیکس سٹاف کے محنت کشوں میں مایوسی پھیل گئی جبکہ دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز کو ضلعی سطح پر بیوروکریسی اور ضلعی انتظامیہ کے تابع بنا دیا گیا۔ اور یوں ایک طویل محنت اور جدوجہد کے بعد یہ تحریک محض چند حاصلات ہی جیت پائی۔ 

اس تحریک کی چند کمزوریوں میں سے سب سے نمایاں محکمہ صحت کے مختلف شعبوں کے محنت کشوں میں طبقاتی جڑت کی کمی تھی۔ طبقاتی جڑت کی اس کمی کے باعث بہت سے محنت کش تذبذب کا شکار رہے اور بھرپور قوت کے ساتھ ہڑتال کا حصہ نہ بن پائے۔ اسی لیے حکومت بغیر کسی پریشانی کے ہڑتال توڑنے میں کامیاب رہی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ہی محکمے سے منسلک مختلف شعبہ جات جس میں ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس اور فارماسسٹس کی طبقاتی جڑت کے علاوہ دوسرے اداروں کے محنت کشوں اور ٹریڈ یونینز سے بھی جڑت بنانا بہت ضروری ہے۔ تحریک کی اس کمزوری کے اصل ذمہ دار ٹریڈ یونینز اور ایسو سی ایشنز کی قیادتیں ہیں جو کہ ایک ریڈیکل طبقاتی پروگرام پر تمام محنت کشوں کو ایک طبقاتی اتحاد میں پرونے کے بجائے اپنے مخصوص گروہی مفادات اور شعبہ جاتی تنگ نظری کا شکار ہو کر محنت کشوں کی جڑت میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

کنٹریکٹ ملازمین کی جدوجہد

یوں تو پورے ملک میں کنٹریکٹ ملازمین کی بھر مار ہے جس میں ہر شعبے میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے ملازمین اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کنٹریکٹ ملازمین کا یہ سلسلہ اسی سرمایہ داری کے بحران سے جا کر ملتا ہے کیونکہ قومی اداروں کو اونے پونے داموں بیچا گیا اور وہاں کے مستقل ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے نام پر تھوڑی بہت رقوم دے کر فارغ کردیا گیا اور ان کے بدلے میں کنٹریکٹ ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ مثال کے طور پر ’’پی ٹی سی ایل‘‘ کے اندر اکثر ملازمین کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کنٹریکٹ ملازمین کی موجودہ قومی اداروں کے اندر بڑی تعداد وجود رکھتی ہے جیسا کہ واپڈا، واسا، ریلوے، ٹیچرز، کلیریکل سٹاف، پیرامیڈیکس۔ بلوچستان کے اندر بی ڈی اے، کیو ڈی اے، بی اینڈ آر، سی اینڈ ڈبلیو، ایریگیشن وغیرہ میں بہت سارے ایسے کنٹریکٹ ملازمین ہیں جو کہ ملک بھر کے اندر دوہرے استحصال کا شکار ہیں۔ ایک طرف تو وہ اعلیٰ حکام، بیوروکریسی اور عدلیہ کی طرف سے استحصال کا شکار ہیں تو دوسری طرف اپنے متعلقہ محکموں کی ٹریڈ یونین قیادتوں کی بے توجہی کا شکار ہیں۔

بلوچستان ڈویلیپمنٹ اتھارٹی کے احتجاجی محنت کشوں کو پولیس گرفتار کرتے ہوئے

مثال کے طور پرہم بلوچستان کے اندر صرف ان کنٹریکٹ ملازمین کا ذکر کرتے ہیں جو کہ صرف اپنے بنیادی حق یعنی مستقل ہونے کے حوالے سے برسرِ احتجاج ہیں۔ ان میں بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے وہ 402 کنٹریکٹ ملازمین ہیں جو کہ گذشتہ 6 سے7 سالوں کے طویل دورانیے سے مستقل ہونے کے لیے لڑائی لڑ رہے ہیں مگر حکومت، بیوروکریسی اور عدلیہ کے ناروا سلوک کیوجہ سے وہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ان ملازمین کی تنخواہ سرکاری طور پر اعلان کردہ کم ازکم تنخواہ سے بھی کم ہے۔یہ ملازمین ماہانہ 10 ہزار روپے تک کی فکسڈ تنخواہ لیتے ہیں اور یہ تنخواہ بھی باقاعدگی سے نہیں ملتی بلکہ تین سے چار مہینوں کے وقفے سے ملتی ہے۔ ان ملازمین کی 7 سال پر محیط سروس ہے جبکہ حکام بالا اور بیوروکریسی ان کو بوگس قرار دے چکی ہے جن میں سی اینڈ ڈبلیو کے 368 ملازمین بھی شامل ہیں۔ سی اینڈ ڈبلیو کے محنت کش بھی پچھلے کئی سالوں سے اپنی مستقلی کے حوالے سے مسلسل بنیادوں پر جدوجہد کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف حکومت ان سب ملازمیں کو نکالنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ شعبوں میں مستقل ملازمین کی اپ گریڈیشن اور پروموشن کا سلسلہ بھی برسوں سے رکا ہوا ہے۔ 

کنٹریکٹ ملازمین میں واسا کے ملازمین بھی اپنی مستقلی کی جدوجہد کر رہے ہیں جس کے رستے میں حکومت اور بیوروکریسی آڑے آرہی ہے۔ حال ہی میں کوئٹہ میٹروپولیٹن کے اندر 1100 کنٹریکٹ ملازمین کا کنٹریکٹ پورا ہونے سے قبل ان ملازمین کو بجٹ کا بہانہ کر کے فارغ کرتے ہوئے 1100 کے قریب خاندانوں کے پیٹ پر لات مار دی گئی۔ واضح رہے ان ملازمین کو 16000 کی ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کیا گیا تھا مگر ان کو 8000 سے 10000 تک کی ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ 

کنٹریکٹ ملازمین کی صوبہ بھر میں کوئی نمائندہ تنظیم نہیں ہے جس کی وجہ سے کنٹریکٹ ملازمین ایک منظم جدوجہد کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ کنٹریکٹ ملازمین کو اپنے بنیادی حق یعنی مستقل ہونے کے لیے اپنے متعلقہ محکموں کے اندر ایک منظم جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، جس میں اْنہیں صوبہ بھر کے کنٹریکٹ ملازمین کی جڑت کے علاوہ اپنے متعلقہ محکموں کے دیگر مستقل ملازمین کی جڑت کی اشد ضرورت ہے تاکہ اپنے بنیادی حق کو آسانی سے چھینا جا سکے۔ اس ضمن میں ان محکموں کی ٹریڈ یونین قیادتوں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کنٹریکٹ ملازمین کی طرف سرد مہرانہ اور متعصبانہ رویہ ترک کریں اور انہیں ٹریڈ یونینز میں بھرپور نمائندگی دیں ۔ کنٹریکٹ ملازمین کے مسئلے میں عدلیہ کا کردار بھی مزدور دشمن ہے جہاں وہ ان کنٹریکٹ ملازمین کو انصاف کا جھانسا دیکر ان کی جدوجہد کو سبوتاژ کرتی ہے۔ 

فارماسسٹس کی احتجاجی تحریک اور حاصلات

جیسا کہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ محکمہ صحت کے تمام محنت کشوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے جبکہ یہاں پر صورتحال اس کے برعکس ہے جہاں پر محکمہ صحت سے تعلق رکھنے والے تمام شعبہ جات کے محنت کش تقسیم در تقسیم ہو کر خود کو کمزور اور قابلِ تسخیر بنا چکے ہیں۔ 2017ء کے اوائل میں بلوچستان بھر کے فارماسسٹوں نے اپنے بنیادی حقوق کے لیے پرامن احتجاج کا آغاز کیا۔ شروع میں یہ عمل کالی پٹیوں اور ٹوکن ہڑتال تک محدود تھا مگر جب حکومت نے سنجیدہ نہیں لیا تو فارماسسٹوں نے احتجاجی مظاہروں اور پھر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا لیا۔ اس دوران فارماسسٹس کے ساتھ بیروزگار فارماسسٹوں کی جڑت قابلِ ستائش تھی۔ احتجاجی مظاہروں میں بیروزگار فارماسسٹوں کی اپنی ڈگریاں جلانا اور برسرروزگار فارماسسٹس کی طرف سے ایپرن جلانے کا عمل ابھرتی ہوئی طبقاتی جڑت کا اظہار تھا۔ جوں جوں احتجاج شدید تر ہوتا گیا حکومت نے صوبائی وزیر اور دیگر ایم پی ایز کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی بنا ڈالی جو فارماسسٹوں کے چند مطالبات تسلیم کر کے احتجاجی تحریک ختم کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ مذکورہ منظور شدہ مطالبات کے حوالے سے تاحال نوٹیفیکیشن اور عمل درآمد التوا کا شکار ہے۔ واضح رہے کہ نوٹیفیکیشن کے اجراء اور عمل درآمد کے حوالے سے بیوروکریسی کا کردار انتہائی مزدور دشمن رہا ہے۔

فارماسسٹس کی احتجاجی تحریک ایک واضح طبقاتی پروگرام نہ ہونے کی وجہ سے کئی کمزوریوں کا شکار تھی۔ اس احتجاجی تحریک کے حوالے سے ایک بار پھر ہم اپنی بات دہراتے ہیں کہ فارماسسٹس کی محکمہ صحت کے دیگر شعبہ جات کے ساتھ جڑت نہیں تھی اور نہ ہی صوبے کی دیگر ٹریڈ یونینز اور محنت کشوں کے ساتھ ان کے کوئی روابط تھے جس کی بنیاد پر وہ اپنی اس احتجاجی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے تھے۔ محنت کشوں کی آپس میں جڑت ہی کسی بھی احتجاجی تحریک کو کامیابی کی طرف لے کر جاسکتی ہے بشرطیکہ اس تحریک کی قیادت سچی، نڈر، بیباک اور پر خلوص ہونے کے ساتھ ساتھ درست پروگرام سے لیس ہو۔ 

نرسز کا احتجاج؛ ممکنات اور حاصلات

پاکستان بھر کے اندر نرسز کی تحریک ایک اہم احتجاجی تحریک رہی ہے جس کا پچھلے کچھ عرصے میں پنجاب، سندھ، خیبر پشتونخواہ، کشمیر اور بالخصوص بلوچستان کے اندر بھی اظہار ہوا ہے۔ اس احتجاجی تحریک میں نرسز نے بلوچستان کے اندر اپنے احتجاج کو کامیاب بنانے کے لیے شدید جدوجہد کی جس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی رہیں۔ 

رواں سال کے اوائل میں نرسز نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی تحریک کی ابتدا روایتی انداز میں کالی پٹیاں باندھنے کے ساتھ کی اور پھر رفتہ رفتہ اپنے اداروں جن میں بی ایم سی، سول ہسپتال اور لیڈی ڈفرن ہسپتال کے اندر مظاہرے شروع کیے۔ حکومتی رسپانس نہ آنے کیوجہ سے نرسز نے اوپی ڈیز سے بائیکاٹ کا عمل شروع کیا جو کہ بعد میں وارڈوں تک پھیل گیا۔اور یوں صرف ایمرجنسی کی حد تک وہ ڈیوٹیاں دینے لگیں، جبکہ اسی دوران ان کے احتجاجی مظاہروں میں شدت آگئی اور حکومت نے ان کے احتجاج کو سیکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر ہسپتال تک محدود کردیا جہاں پر انہوں نے اپنا احتجاجی دھرنا شروع کیا۔ نرسز کی اس احتجاجی تحریک میں ینگ نرسز کا کردار قابلِ ذکر ہے جنہوں نے اس تحریک کو انتہائی پْرجوش بنا دیا۔ نرسز کا یہ دھرنا کئی دنوں تک جاری رہا۔ صوبہ بھر کے مریضوں کو حکومتی بے حسی اور ناروا رویے کی وجہ سے تکالیف اٹھانی پڑیں، جس کا دھرنے کے اندر بار بار ذکر ہوتا رہا۔ صوبائی وزیر نے ایک دن خود آکے نرسز کے مطالبات کی منظوری کے حوالے سے یقین دہانیاں کرتے ہوئے دھرنے کو ختم کروا دیا، جس میں مطالبات کی منظوری، نوٹیفیکیشن کے اجراء اور پھر عمل درآمد کے حوالے سے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا گیا۔ مگر ہمیشہ کی طرح نوٹیفیکیشن کے اجراء کے لیے نرسز کو 4 ماہ تک صبر کرنا پڑا جبکہ اس کے علاوہ نرسز کو کرپٹ بیوروکریسی کے سامنے روزانہ کی بنیاد پر سیکرٹریٹ میں چکر لگانے پڑے مگر نوٹیفیکیشن کا سلسلہ طوالت اختیار کرتا گیا۔ اس صورتحال میں نرسز کو ایک بار پھر جون کی گرمی اور رمضان کے باوجود سڑکوں پر نکلنا پڑا اور اْنہوں نے ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے شروع کیے اور ہسپتال کے اندر دھرنا دینا شروع کیا۔ اس ہڑتال، دھرنے، بائیکاٹ اور احتجاج کی وجہ سے حکومت اور بیورو کریسی بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی اور احتجاج میں اہم کردار ادا کرنے والی درجنوں نرسز کو کوئٹہ سے باہر ٹرانسفر کردیا گیا اور درجنوں نرسز کو معطل بھی کیا گیا۔ اس دوران نرسز نے بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جس پر اعلیٰ عدلیہ ’’برہم‘‘ ہوگئی کہ یہ احتجاج کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ بہر کیف نرسز نے اعلیٰ عدلیہ کی یقین دہانی پر احتجاجی دھرنے کو ختم کیا اور تاحال نوٹیفیکیشن کے اجراء کا انتظار کر رہی ہیں۔ 

اس ساری صورتحال میں ایک اہم چیز سامنے آئی کہ نرسز کے اندر نیچے سے بغاوت موجود تھی جنہوں نے نرسز کی موجودہ صوبائی قیادت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے صوبائی قیادت کو برطرف کر دیا۔ اب تک نرسز اس بے چینی کی کیفیت سے گزر رہی ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے مطالبات اب تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ 

نرسز کا احتجاج جو کہ اپنی نوعیت کی ایک شاندار احتجاجی تحریک تھی مگر ہم جو بار بار ایک طبقاتی جڑت کی بات کررہے ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ محکمہ صحت کے اندر سارے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے محنت کش طبقاتی بنیادوں پر ایک سائنسی اور شعوری جڑت کے بغیر ایک دوسرے سے الگ ہو کر کچھ بھی نہیں ہیں، جس کی واضح مثال ہمارے سامنے ان احتجاجی تحریکوں میں ملتی ہے جو کہ گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں رونما ہوئی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ محکمہ صحت کے اندر تمام شعبوں کے محنت کشوں کی آپس میں جڑت کے ساتھ ساتھ باہر کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت ان کو حتمی منزل پر پہنچا سکتی ہے۔ 

پیرامیڈیکس کی احتجاجی تحریک اور حاصلات

پیرامیڈیکس کا شعبہ صحت کے شعبے میں ایک کلیدی کردار کا حامل ہے۔ پاکستان بھر کی طرح بلوچستان کے پیرامیڈیکس بھی انتہائی مشکل ترین اوقاتِ کار کے ساتھ ساتھ انتہائی کم تنخواہوں پر کام کرتے ہیں۔ بلوچستان کے اندر پیرامیڈیکس سٹاف کی تعداد کم و بیش 24ہزار کے لگ بھگ ہے۔ پیرامیڈیکس سٹاف ایک طویل عرصے سے حکومت، عدلیہ اور بیوروکریسی کیخلاف مسلسل لڑتے آرہے ہیں، جس کے لیے انہوں نے مختلف ادوار میں مختلف نوعیت کی ہڑتالیں اور احتجاج کیے۔ 2014ء میں جب پیرامیڈیکس نے اپنے حقوق کے لیے آواز اْٹھائی تو 13 مئی 2014ء کو صوبائی وزیرصحت نے پریس کانفرنس کر کے پیرامیڈیکس کے تمام مطالبات منظور کیے، اور نوٹیفیکیشن کے سہارے پر پیرامیڈیکس کے احتجاجی تحریک کو ختم کروانے میں کامیاب ہوا۔ مگر ڈھائی سال کے طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی نوٹیفیکیشن کا اجراء نہ ہوسکا ، اور یوں پیرامیڈیکس کے مطالبات جوں کے توں سردخانے میں پڑے رہے۔ 

6 نومبر 2016ء سے پیرامیڈیکس سٹاف ایسوسی ایشن کے محنت کشوں نے ایک بار پھر اپنے منظور شدہ مطالبات کے حوالے سے منظم طور پر جدوجہد شروع کی۔ اس دوران بھی حکومتی نمائندوں کی طرف سے مطالبات کی منظوری کے حوالے سے یقین دہانیاں کرائی گئیں، مگر پیرامیڈیکس کے محنت کشوں نے پریس کانفرنس کر کے 17 اپریل کولانگ مارچ کی کال دی جس میں صوبہ بھر سے پیرامیڈیکس کے محنت کشوں نے لانگ مارچ کر کے کوئٹہ پہنچنا تھا۔ 17 اپریل کو لانگ مارچ کے شرکاء نے صوبہ بھر سے مارچ شروع کیا جس میں خضدار، قلات، سبی، جعفرآباد، ژوب، پشین، چمن اور قلع سیف اللہ شامل تھے۔ جونہی لانگ مارچ کے شرکاء دونوں اطراف سے کوئٹہ کے قریب پہنچے تو حکومتی مشینری حرکت میں آگئی۔ مستونگ اور کچلاک کے قریب لانگ مارچ کو روکنے کے لیے پیرا میڈیکس پر بہیمانہ تشدد کیا اور شرکاء کو کوئٹہ سے باہر سیکیورٹی خدشات کی بنیاد بنا کر روک دیا۔ مگر یومِ مئی کے آتے ہی پیرامیڈیکس کے محنت کشوں نے اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخی ریلی نکالی جس میں ہزاروں محنت کشوں نے شرکت کی۔ اور یوں پیرامیڈیکس کے محنت کش کوئٹہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ یومِ مئی کے جلسوں کے اختتام کے بعد پیرامیڈیکس کے مزدوروں نے میٹرو پولیٹن کوئٹہ کے سبزہ زار میں دھرنا دے دیا۔ حکومت ایک بار پھر جبر پر اتر آئی۔ پولیس کے تشدد سے سینکڑوں محنت کش زخمی ہوئے اور متعدد کو گرفتار کرلیا گیا،جن کو اگلے روز رہا کیا گیا اور دھرنے کو ایک بار پھر شہر سے دور مستونگ روڈ پر منتقل کر دیا گیا۔ دھرنے کے دن بڑھنے کے ساتھ ساتھ پیرامیڈیکس کے محنت کشوں نے صوبہ بھر کے ضلعی پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی کیمپ لگا دیے، جس کی وجہ سے حکومت مزید دباؤ کا شکار ہوتی گئی۔ اس سے گھبرا کر پیرامیڈیکس کے محنت کشوں کو بلیک میل کرنے کے لیے اوچھے حربے استعمال کرنے شروع کیے، جن میں دوسرے محنت کشوں کے ساتھ پیرامیڈیکس کی بدسلوکی کو دکھانے کی ناکام کوشش شامل تھی، جبکہ دوسری طرف حکومت کی طرف سے احتجاجی مظاہرین کو معطل کرنے کا الٹی میٹم دیا جاتا تھا کہ احتجاج ختم کریں۔ مگر پیرامیڈیکس کے غیور محنت کش اپنے مطالبات پر بدستور قائم تھے۔ بالآخر حکومت نے 7 جون کو کمیٹی تشکیل دے کر پیرامیڈیکس کے مطالبات کا جائزہ لیا اور ایک پریس کانفرنس کے ذریعے احتجاجی کیمپ اور دھرنے کا اختتام کیا۔ 17 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ میں چند اہم مطالبات تسلیم کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ 

پیرامیڈیکس کے اس احتجاجی تحریک میں دیگر تحریکوں کی طرح طبقاتی جڑت اور اتحاد کی کمی تھی۔ پیرامیڈیکس کے دو کیمپوں میں واضح تقسیم تھی جس کا حکومت نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پیرامیڈیکس سٹاف ایسوسی ایشن کے پاس اکثریت ہونے کے باوجود پیرامیڈیکس کی فیڈریشن اپنی خدمات سرانجام دے رہی تھی، یہاں تک کہ وہ احتجاجی پیرامیڈیکس کیخلاف حکومت کی مدد کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ پیرامیڈیکس کے ملازمین کی صوبے کی دوسرے ٹریڈ یونینز کے ساتھ جڑت موجود نہیں تھی۔ 

دیگر محنت کشوں کی احتجاجی تحریکیں

ان تمام تحریکوں کے علاوہ صوبہ بھر کے پریس کلب سیاسی پارٹیوں کے احتجاجوں کے برعکس محنت کشوں کی احتجاجی مظاہروں سے بھرے ہوتے ہیں جس میں واپڈا، ریلوے، واسا، بی اینڈ آر، نادرا، پی ٹی سی ایل، سی اینڈ ڈبلیو، ایپکا اور ٹیچرز کی بہت اہم احتجاجی تحریکیں رہی ہیں۔ ان تمام تحریکوں کا محور فی الحال معاشی مانگوں تک محدود ہے۔ پورے صوبے میں آئے دن محنت کشوں کی کوئی نہ کوئی ہڑتال یا مظاہرہ ہوتا ہے، جو کہ اس نیم مردہ سرمایہ داری نظام کی متروکیت کو ثابت کرتا ہے۔ ہر اس ادارے میں جہاں پر محنت کش وجود رکھتے ہیں وہاں ہڑتال اور احتجاج کا نہ ہونا ایک انہونی سی بات ہے۔ واپڈا کے اندر محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو کہ بلوچستان کے محنت کش طبقے کی تحریک میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس کے علاوہ ٹیچرز یونین، جس میں 35 سے 40 ہزار کے قریب افرادی قوت موجود ہے اور جو اس نظام کے پے در پے حملوں سے ایک وائٹ کالر مزدور میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ 

ذیل میں ہم ان تمام تر احتجاجی تحریکوں میں ریاست، عدلیہ، بیوروکریسی اور بالخصوص محنت کش طبقے کی قیادت کے حوالے سے جائزہ لیں گے، جس کے باعث یہ تحریکیں کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکیں۔ 

ریاست

چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست سرمایہ دار طبقے کے تحفظات کی نمائندگی کرتی ہے، اور اس ضمن میں ریاست اپنے آقاؤں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی ہر اس مشینری کو استعمال میں لاتی ہے جو کہ ٹھیک سے اْن کے مفادات کی نگرانی کرسکتے ہوں۔ 

اسی ریاست کے اندر محنت کش طبقہ ایک طرف ریاست کے تمام امور کو چلاتا ہے جبکہ دوسری طرف انکے طبقے کے اپنے بھی مفادات ہوتے ہیں جو ان اْمور کو سرانجام دینے کے عوض صرف انکی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے زر کی شکل میں ملتے ہیں۔ جدلیاتی طور پر ریاست کا حکمران ٹولہ یعنی سرمایہ دار اور محنت کش کا ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی تضاد رہا ہے۔ اس تاریخی تضاد کی بنیاد پر محنت کش طبقہ ہمیشہ سے حکمران طبقے کو للکارتا ہے، کیونکہ انکے درمیان جو تعلق ہے اس میں ایک کا نقصان دوسرے کا فائدہ اور اسکے برعکس ہے۔ بلوچستان جو کہ کوئی دنیا سے الگ تھلگ یا کوئی دوسرے سیارے کی ریاست نہیں ہے جہاں کے حالات پاکستان یا پوری دنیا سے یکسر مختلف ہوں۔ بلوچستان کے اندر ریاست کا وہی کردار ہے جو کہ پوری دنیا میں ریاست کا عمومی کردار ہے۔ ہاں اپنے معروضی حالات کے مطابق اس ریاست کا کردار تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ بلوچستان کے اندر جو بھی حکومت بنتی ہے اس میں نواب، سردار اور دوسرے قبائلی القابات کے سہارے کے بغیر حکومت کی تشکیل ناممکن ہوتی ہے۔ یہ لوگ محنت کش طبقے کے درد کو سمجھنا تو دور کی بات ہے، دیکھتے بھی نہیں ہیں۔ محنت کشوں کے حوالے سے ریاست کا عمومی کردار یہ ہے کہ یہ محنت کشوں کو تقسیم کرنے کی پالیسی پر کاربند رہتی ہے اور محنت کشوں کو کمزور کرنے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ 

عدلیہ

سرمایہ داری کے اندر جیسا کہ ریاست کا کردار عمومی ہوتا ہے بالکل اسی طرح عدلیہ کا کردار بھی ایک ہی طرح کا ہوتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ یعنی مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عدلیہ بھی ریاست کے ادارے کی حیثیت سے حکمران طبقے کے مفادات کی نگرانی اپنے طریقے سے کرتی ہے۔ یہاں پر ہم عدلیہ کا صرف اور صرف محنت کشوں کے حوالے سے ذکر کریں گے۔ 

بلوچستان کے اندر عدلیہ کا کردار انتہائی مضحکہ خیز اور دشمنی پر مبنی ہے، یعنی کہ حالیہ چند عرصے میں صوبے کی اعلیٰ عدلیہ محنت کش طبقے کے ہر یونین سے کسی بھی قسم کی کوئی احتجاج یا ہڑتال نہ کرنے کی یقین دہانی تحریری طور پر لے رہی تھی جس میں صوبے کے اندر اکثریت ٹریڈ یونینز نے مخالفت کرتے ہوئے نہ صرف انکار کیا بلکہ اسکے خلاف احتجاج بھی کیا، البتہ چند ٹریڈ یونینز نے ریاستی دباؤ یا ریاست کی طرف سے کسی بہکاوے میں آکر تحریری طور پر کسی بھی قسم کا احتجاج نہ کرنے کی یقین دہانی کر وائی، جو کہ اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ عدلیہ کا محنت کشوں کے احتجاج یا ہڑتال کے حوالے سے یہ موقف ہوتا ہے کہ آپ لوگ احتجاج سے گریز کریں بلکہ ہمارے پاس آئیں ہم آپکے دکھوں کا مداوا کرینگے۔ مگر محنت کش طبقے کی جو پرتیں بھی عدالت کے پاس اپنا کیس لیکر گئیں انہیں تاریخوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ملا ہے۔ 

بیوروکریسی

موجودہ نظام کے اندر چونکہ ہر ادارہ اپنی مخصوص شکل میں حکمران طبقات کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ پاکستان میں باقی جگہوں ہر جس طرح بیوروکریسی کا محنت کش طبقے کے ساتھ ناروا اور جانبدار رویہ ہے، بلوچستان کے اندر بھی اس کا وہی اظہار ملتا ہے۔ بلوچستان کے اندر محنت کشوں کے احتجاج اور ہڑتال کے حوالے سے سب سے بڑی رکاوٹ بیوروکریسی ہی ہے، بلکہ یوں کہیے کہ بیوروکریسی بلاواسطہ محنت کشوں کے استحصال میں شریک ہوتی ہے۔ ایک طرف جب محنت کش طبقہ اپنے مخصوص مطالبات کو حکومت سے منواتا ہے تو بیوروکریسی رکاوٹیں ڈالتی ہے جبکہ نوٹیفیکیشن کے اجرا اور پھر اسکے او پر عمل درآمد کے سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیتی ہے۔ اور انکا سب سے بڑا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے، جبکہ دوسری طرف انہی کرپٹ بیوروکریسی کے نمائندوں کے گھروں کی ٹینکیوں سے کروڑوں روپے نکلتے ہیں اور پھر نام نہاد ادارے ’’نیب‘‘ کے ساتھ انکی پلی بارگیننگ ہوتی ہے جس کے بعد یہی ادارہ ان کو دودھ کا دھلا ثابت کرتا ہے۔ محنت کشوں کے مطالبات صرف اور صرف معاشی ہوتے ہیں جن کے سامنے یہ کرپٹ بیوروکریسی سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ نوٹیفیکیشن کے اجرا اور عمل درآمد کے سلسلے میں رکاوٹ بن کر محنت کشوں کو بار بار احتجاج پر مجبور کرتے ہیں۔ 

بلوچستان کا محنت کش طبقہ اور مستقبل کا لائحہ عمل

جیسا کہ ہم بار بار ذکر کر چکے ہیں کہ بلوچستان کے اندر محنت کش طبقے کی حالیہ احتجاجی تحریکوں نے قنوطی دانشوروں اور ان بورژوا سیاستدانوں کی اس منطق کو مسترد کر دیا کہ بلوچستان میں محنت کش طبقے کا وجود نہیں ہے۔ جبکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ صوبہ بھر کے پریس کلبز کے سامنے محنت کش طبقے کی مسلسل احتجاج اور ہڑتالیں ریکارڈ ہورہی ہیں، جہاں محنت کش طبقے کی احتجاجی جدوجہد ہوتی ہے وہاں محنت کش طبقے کی اس جدوجہد میں چند بنیادی چیزوں کے فقدان کا سامنا کرنا پرتا ہے ، جن میں ہم چند چیزوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

i) قیادت کا فقدان
پوری دنیا کے اندر محنت کش طبقہ اس وقت درست نظریات سے مسلح، نڈر، باشعور، مخلص اور بیباک قیادت کے بحران کا شکار ہے۔ یہی صورتحال پاکستان کے اندر محنت کش طبقہ کو بھی درپیش ہے۔ اگر ہم بلوچستان کے اندر محنت کش طبقے کی قیادت پر نظر ڈالیں تو یہاں پر بھی عام سیاسی پارٹیوں کی طرح موروثی قیادت کا مسئلہ درپیش ہے، جو کہ محنت کش طبقے کے اندر موجود مستعد اور توانا نئی پرت کو سامنے نہیں آنے دیتی۔ جبکہ پورے پاکستان میں محنت کش طبقے کی قیادت اس براجمان ٹولے کے ہاتھوں میں ہوتی ہے جو متعلقہ شعبے سے ریٹائر ہونے کے بعد بھی قیادت سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ دوسری اہم بات جو کہ یہاں پر قابلِ ذکر ہے وہ محنت کش طبقے کی قیادت میں شعوری اور سائنسی بنیادوں پر لڑائی لڑنے کی صلاحیت کی کمی ہے، جو کہ اپنے مدِ مقابل چالاک اور زیرک دشمن کی طاقت کے مقابلے میں انتہائی ضروری ہوتی ہے۔ تیسری اہم بات محنت کش طبقے کی قیادت کے اندر خلوص، نڈر اور بیباکی کا ہونا انتہائی لازمی جز ہوتا ہے جسکی شدید کمی محسوس کی جاتی ہے۔ ایک ایسی قیادت جو محنت کش طبقے کی زبوں حالی اور کسمپرسی کی حالت کو اپنے دشمن کے سامنے بنا ڈر اور خوف کے پیش کرے۔ اسکے علاوہ قیادت کے حوالے سے احتساب کے عمل کے نہ ہونے کے باعث قیادتیں ذاتی مفادات میں گر جاتی ہیں اور انہی ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے یہ قیادتیں محنت کش طبقے کیساتھ غداری کر تی ہیں۔ محنت کش طبقے کو ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ خود اپنی صفوں ہی میں سے تراشنا ہو گی، ایک ایسی قیادت جو محنت کش طبقے کو صف اول کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار کر ے۔

ii) محنت کش طبقے کی آپس میں جڑت
جب ہم شعوری اور سائنسی بنیادوں پر محنت کش طبقے کی جدوجہد کی بات کرتے ہیں، اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ محنت کش طبقے کو سائنس یا فلسفے کا ماہر ہونا چاہیے بلکہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ محنت کش طبقے بالخصوص اس کی قیادت کو شعوری طور پر یہ ادراک ہونا چاہیے کہ ہم اپنی لڑائی کو کس طرح لڑ سکتے ہیں، تاکہ منزلِ مقصود کی طرف آسانی سے پہنچا جا سکے۔ اس ضمن میں محنت کش طبقے کی شعوری بنیادوں پر آپس میں جڑت انتہائی لازمی ہوتی ہے کیونکہ جڑت کے بغیر آپ اپنی جدوجہد میں اکیلے رہ جاتے ہو اور محنت کش طبقہ آپسی تضادات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ بلوچستان میں حالیہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں محنت کش طبقے کی احتجاجی تحریکوں میں جڑت کے شدید فقدان دیکھنے میں آیا۔ پیرامیڈیکس، نرسز، ینگ ڈاکٹرز، فارماسسٹس، کنٹریکٹ ملازمین اور دوسرے احتجاجی ملازمین کی تحریکوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی ان محنت کشوں کی آپسی جڑت نہ ہونا تھی۔ محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں کی جدوجہدیں علیحدہ علیحدہ مسلسل چل رہی ہیں لیکن یہ کیفیت طویل وقت تک نہیں چلے گی اور محنت کش طبقے کی ایک اجتماعی جدوجہد کسی بھی قوت جنم لے سکتی ہے کیونکہ سرمایہ داری کا بحران مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے اور یہ محنت کشوں کو کسی بھی قسم کی مراعت دینے کے قابل نہیں رہی۔ ایسی کیفیت میں محنت کش طبقے کا کردار ہی فیصلہ کن ہو گا۔ چاہے یہ بلوچستان یا پاکستان کے کسی بھی کونے سے ابھرے۔ 

iii) ریاستی پاکٹ یونینز کی بھرمار

برصغیر سے انگریز تو نکلے مگر انکی غلیظ پالیسیاں آج بھی اس دھرتی کے اندر بڑے زور و شور سے لاگو ہیں۔ انگریزوں نے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے ذریعے ہندوستان کو فتح کیا، ٹھیک اسی طرح پاکستان کا حکمران طبقہ بالخصوص محنت کشوں کے اوپر اس پالیسی کا بخوبی استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کے علاوہ اگر ہم صرف بلوچستان کے اندر محنت کش طبقے کے اوپر اس پالیسی کا اطلاق دیکھیں تو ہمیں ایک ہی شعبے میں بیک وقت 7 سے 8 کے قریب ٹریڈ یونینز دیکھنے کو ملیں گی۔ ان ٹریڈ یونینز کا بننا محنت کش طبقے کے اجتماعی مفادات کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ریاست محنت کش طبقے کی قیادت کو ذاتی مفادات اور انا پرستی کا شکار کروا کر آپس میں تقسیم کرواتی ہے۔ اس کی واضح مثال بلوچستان کے اندر محنت کش طبقے کی حالیہ احتجاجی تحریکوں میں بار بار محنت کشوں کے سامنے آئی ہے۔ یعنی ایک طرف ایک ہی شعبے کے محنت کش احتجاج کر رہے ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف انہی کے شعبے کے دیگر محنت کش اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہاں پر سوال پھر اس قیادت پر آتا ہے جو اپنے ذاتی مفادات کو محنت کش طبقے کے اجتماعی مفادات پر اولیت دیتی ہے۔ 

مستقبل کا لائحہ عمل اور تناظر

2008ء کے عالمی نامیاتی بحران کے بعد محنت کش طبقے کی نئی اٹھان کا طویل وقت تک غیر شعوری اور غیر سائنسی بنیادوں پر چلنا ممکن نہیں ہو گا، کیونکہ بحران کے شدت کے ساتھ سماج میں بھی ہر حوالے سے بحران شدید ہو رہا ہے۔ اور حکمران طبقہ محنت کش طبقے پر کٹوتیاں اور مزید ٹیکس مسلط کر کیاس بحران سے نکلنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ جو ناممکن نظر آرہا ہے کیونکہ اس عمل میں محنت کش طبقہ بھی آرام سے نہیں بیٹھا ہے، بلکہ روزانہ کی بنیادوں پر جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں اپنی احتجاجی تحریکوں کو فعال کرنے میں مصروف عمل ہے۔ جی20 ممالک کے اجلاس کے موقع پر لاکھوں محنت کشوں اور عام عوام کی طرف سے احتجاجی مظاہرے دراصل موجودہ نظام سے بیزاری کا واضح اعلان ہے۔ 
بلوچستان کے اندر چونکہ ایک کلاسیکل پرولتاریہ کا وجود ملک کے دوسرے صوبوں کی نسبت بہت کم ہے، مگر یہاں پر خدمات مہیا کرنے والے سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بڑی تعداد میں محنت کش طبقہ وجود رکھتا ہے جو کہ کافی عرصے سے بے چینی اور اضطرابیت کا شکار ہے۔ ماضی کی احتجاجی تحریکوں میں محنت کش طبقے کے اندر جو خامیاں تھیں، یہ وقت کے ساتھ محنت کش طبقہ دور کریگا کیونکہ محنت کش طبقہ اپنے تجربات سے سیکھتا ہے۔ محنت کش طبقے کو شعوری بنیادوں پرجڑت بنانا ہو گی، جبکہ اسکے ساتھ ساتھ نئی قیادت کو تراشنا ہو گا، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقہ سب سے زیادہ انقلابی طبقہ ہوتا ہے ، لہٰذا اپنی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ان کو حتمی طور پر ایسے اقدامات کرنے ہونگے۔ 

جب محنت کش طبقہ اپنے ذاتی مفادات سے ہٹ کر مجموعی طور پر ایک طبقے کے مفادات کے لیے لڑے گا تب دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے نہیں روک سکتی، 1871ء کا پیرس کمیون اور 1917ء کا بالشویک انقلاب محنت کش طبقے کی عظیم روایات ہیں۔ اس نظام کے اندر اب مزید سکت نہیں رہی کہ وہ محنت کش طبقے کو سہولیات دے یا پھر بالعموم پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دے سے، جس نظام کے اندر پیداواری قوتوں کی ترقی رک جاتی ہے اس نظام کا گرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کے اندر محنت کش طبقے کی لڑائی بنیادی طور پر معاشی مفادات کے گرد چل رہی ہے، جبکہ وہ دن دور نہیں جب یہ معاشی جدوجہد سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہو جائے گی، ایسے صورتحال میں ایک انقلابی پارٹی کی حتمی طور پر ضرورت پڑتی ہے جو کہ اس سیاسی جدوجہد کو درست مارکسی بنیادوں پر استوار کر کے ایک غیر طبقاتی سماج کے قیامِ عمل کو ممکن بنا دے، جہاں پر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا استحصال نہ کر سکے، بلکہ صحیح معنوں میں ایک سوشلسٹ نظام کے اندر رہ کر اصل لڑائی لڑی جا سکے جو یہ ہے کہ اس کائنات کو مسخر کر کے دنیا کے اندر مرنے سے پہلے جنت بنایا جا سکے!

Comments are closed.