یوم مئی 2016ء: محنت اور سرمائے کی جنگ، فتح ہمارا مقدر ہے!

تحریر: | آفتاب اشرف |
May Day photoسال 2016ء کا یومِ مئی دنیا کے تمام خطوں میں ایک ایسے عہد میں منایا جا ئے گا جب سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے سب سے گہرے اور بدترین بحران کے آٹھویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش سے شروع ہونے والا یہ بحران جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت کی عکاسی کرتا ہے تو دوسری طرف پچھلے آٹھ سالوں میں دنیا کے ہر خطے میں ابھرنے والی محنت کشوں اور نوجوانوں کی تحریکیں اور انقلابات ایک نئے عہد کے آغاز کا عندیہ دے رہے ہیں۔ ایک ایسا عہد جس میں ماضی کی روایات اور تعصبات تیزی سے دم توڑ رہے ہیں اور ہر آنے والا دن عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کے خلاف سلگتی ہوئی بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت کے خلاف اس ابلتے ہوئے لاوے کی حدت اس سال کرۂ ارض پر منعقد ہونے والی یومِ مئی کی ہر تقریب میں محسوس کی جائے گی اور لاکھوں کروڑوں محنت کش ہاتھوں میں سرخ جھنڈے اٹھائے رنگ، نسل، قوم، زبان، مذہب اور فرقے کی ہر تفریق سے بالا تر ہو کر اپنی عالمگیر جڑت اور طاقت کا اظہار کریں گے۔
سرمائے اور محنت کا تضاد سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بنیادی تضاد ہے اور اس نظام کے جنم سے ہی یہ تضاد سرمایہ دار طبقے اور محنت کش طبقے کی طبقاتی لڑائی کی صورت میں اپنا اظہار کرتا چلا آیا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم مزدوروں سے کم از کم اجرت میں زیادہ سے زیادہ کام کرائے تاکہ اپنی شرحِ منافع کو بڑھایا جا سکے لیکن محنت کش طبقہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز سے ہی اپنے اس استحصال کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر منظم ہو کر جدوجہد کرتا چلا آیا ہے۔ ایسی ہی ایک جدوجہد کا آغاز 1880ء کی دہائی کے اوائل میں امریکہ کے محنت کشوں نے کیا جن کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ کام کے اوقات کار کو 12-16گھنٹے سے کم کر کے 8گھنٹے کیا جائے۔ 1884ء میں امریکہ کی بڑی ٹریڈ یونینوں کے ایک مرکزی کنونشن میں اعلان کیا گیا کہ یکم مئی 1886ء سے امریکہ کے تمام محنت کشوں کے کام کے اوقات کار 8گھنٹے یومیہ ہوں گے۔ 1886ء کے آغاز سے امریکی محنت کشوں کی جدوجہد میں تیزی آنا شروع ہو گئی۔ یکم مئی 1886ء کو پورے امریکہ میں ایک عام ہڑتال ہوئی جس میں 13ہزار سے زائد صنعتوں کے لاکھوں محنت کشوں نے شرکت کی۔ شکاگو کے صنعتی شہر میں، جو اس پوری تحریک کا مرکز تھا، 40ہزار سے زائد محنت کشوں نے سڑکوں پر جلوس نکالے۔ 3مئی تک شکاگو کی سڑکوں پر ہونے والے ان مظاہروں میں ایک لاکھ سے زائد مزدور شریک ہو رہے تھے ۔ فیکٹری مالکان اور امریکی ریاست کے حکم پر پولیس نے پرامن مزدوروں پر فائر کھول دیا۔ 6مزدور موقع پر شہید ہو گئے اور بے شمار زخمی ہوئے۔ پورے ملک کے محنت کشوں میں حکومت اور مالکان کی اس درندگی کے باعث غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور اگلے دن پورے ملک میں احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کا اعلان کیا گیا۔4مئی کو شکاگو میں ’ہے مارکیٹ‘ چوک پر ہزاروں مزدور احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے بزورِ طاقت انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اسی اثنا میں پولیس دستے پر ایک بم پھینکا گیا (جو پولیس یا فیکٹری مالکان کے ہی کسی خفیہ ایجنٹ کی کارستانی تھی)۔ بم حملے کو جواز بناتے ہوئے پولیس نے نہتے مزدوروں پر اندھا دھند فائر کھول دیا جس سے آٹھ مزدور موقع پر ہی شہید ہو گئے اور 40سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ حکومت کی ایما پر زر خرید میڈیا نے مزدوروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کر دیا اور 8مزدور راہنماؤں کو قتل اور دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور بنا کسی ثبوت کے ایک بوگس عدالتی کاروائی کے ذریعے ان کو مجرم ٹھہرا دیا گیا۔ 4مزدور راہنماؤں کو فوری طور پر پھانسی دے دی گئی۔ ایک نے جیل میں خودکشی کر لی اور بقیہ 3کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا جنہیں 1893ء میں مزدور تنظیموں کے شدید دباؤ کی وجہ سے رہا کر دیا گیا۔
شکاگو کے مزدوروں کے اس بہیمانہ قتل عام سے پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی انجمنوں اور تنظیموں میں غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور جولائی 1889ء میں پیرس میں منعقد ہونے والی دوسری انٹرنیشنل کی پہلی کانگریس میں یہ قرارداد منظور ہوئی کہ آئندہ سے ہر سال یکم مئی کا دن پوری دنیا میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر پر منایا جائے گا تاکہ شکاگو کے شہیدوں کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے ایک بہتر زندگی کے حصول کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔
آج شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کے 130سال بعد سرمایہ دارانہ نظام پیداواری قوتوں کو مزید ترقی دینے کی اہلیت مکمل طور پر کھو چکا ہے۔ یہ تاریخی طور پر اتنا گل سڑ چکا ہے، اتنا بوسیدہ ہو چکا ہے کہ کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کی ایک وسیع اکثریت کی زندگی میں کسی قسم کی بہتری نہیں لا سکتا۔ لیکن جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے ویسے ہی اس کی سفاکی اور بربریت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اپنی ملکیت اور طبقاتی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے کرۂ ارض کے ہر سماج میں محنت کش طبقے پر شدید حملے کر رہا ہے۔ یورپ اور امریکہ کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک سے لیکر لاطینی امریکہ کے ممالک تک، پاکستان بھارت جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک سے لیکر پیداواری صنعت کے سب سے بڑے عالمی مرکز چین تک، خانہ جنگی کی آگ میں جلتے مشرق وسطیٰ سے لے کر افریقہ تک کوئی بھی سماج ایسا نہیں ہے جہاں پر اپنی بقا کی خاطر سرمایہ دار طبقہ محنت کشوں کی زندگی جہنم نہ بنا رہا ہو۔پوری دنیا میں محنت کشوں کی حقیقی اجرتوں میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے، کام کے اوقات کار کو بڑھایا جا رہا ہے، آسٹیریٹی کے نام پر عوامی فلاح سے متعلق اخراجات میں مسلسل کٹوتی کی جا رہی ہے، محنت کش طبقے کے معیار زندگی پر مسلسل حملے کئے جا رہے ہیں۔ ایک طرف ریاستی اداروں کی نجکاری اور ڈاؤں سائزنگ کی پالیسی کے ذریعے ورکرز کو بیروزگار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف سرمایہ دار طبقے، بینکوں اور بڑی فرموں کے تمام قرضوں کا بوجھ ٹیکسوں کی صورت میں محنت کش عوام کے سروں پر لادا جا رہا ہے۔ محنت کش طبقے کی مزاحمت کو کچلنے کے لئے تمام ریاستی ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ایک طرف کالے مزدور دشمن قوانین بنائے جا رہے ہیں تو دوسری طرف پوری دنیا میں مزدور تنظیموں اور ٹریڈ یونینز کو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سارے کھیل میں محنت کش طبقے کی روایتی پارٹیاں اور ٹریڈ یونین قیادتوں کی بھاری اکثریت بھی سرمایہ دار طبقے کے زر خرید غلام کا کردار ادا کر رہی ہیں اور محنت کش طبقے میں سرمایہ داروں کی دلالی کر رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس وحشیانہ استحصال کے نتیجے میں آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں دولت کی تقسیم نہایت غیر مساویانہ ہے۔ 2014ء کی کریڈٹ سوئس گلوبل ویلتھ رپورٹ کے مطابق دنیا کی امیر ترین 1فیصد اقلیت کے پاس دنیا کی کل دولت کے تقریباً پچاس فیصد کی ملکیت ہے۔ اسی طرح دنیا کی امیر ترین 10فیصد آبادی کل دولت کے تقریباً 87فیصد کی مالک ہے۔ جبکہ غریب ترین 50فیصد آبادی کے پاس دنیا کی کل دولت کا 1فیصد سے بھی کم حصہ ہے۔
دنیا کے تمام ممالک کی طرح پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کے ہاتھوں برباد ہو رہا ہے۔ پسماندگی اور معیشت میں کالے دھن کے بڑے عمل دخل کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ دارانہ استحصال کی اشکال ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے مقابلے میں اور زیادہ وحشیانہ ہیں۔ نجی شعبے میں صنعتوں کی بھاری اکثریت سرے سے رجسٹرڈ ہی نہیں ہے۔ مستقل روزگار کی جگہ ٹھکیداری نظام نے لے لی ہے جس کے تحت مزدوروں کو روزانہ کام ملنے یا نہ ملنے کے حوالے سے ایک مستقل غیر یقینی کیفیت کی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اجرتوں میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے تمام صنعتوں کے لئے کم از کم اجرت 13ہزار ماہانہ مقرر کی گئی ہے جس میں ایک فرد کی ایک ماہ کی خوراک کے اخراجات بھی ٹھیک سے پورے نہیں ہوتے ، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اکثریتی نجی صنعتوں میں ٹھیکیداری نظام کے تحت محنت کشوں کو اس سے بھی کم اجرت پر کام کروایا جا رہا ہے۔ حقیقت میں کام کے کوئی اوقات کار مقرر نہیں ہیں۔ اکثریتی نجی صنعتوں میں مزدوروں سے 12سے 16گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ کام کے دوران سیفٹی کو بہتر بنانے کے لئے مالکان ایک پائی خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے نتیجے میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے درجنوں حادثات سے لے کر بلدیہ ٹاؤن کراچی اور سندر اسٹیٹ رائے ونڈ جیسے سانحات اب ایک معمول بن گئے ہیں۔ پینشن یا گریجوایٹی تو دور کی بات نجی صنعتوں کے ورکرز کی ایک بھاری اکثریت کے سوشل سیکیورٹی کارڈ تک نہیں بنائے جاتے۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ مکمل طور پر فیکٹری مالکان کی کاسہ لیسی کرتا ہے اور لیبر آفیسر سرمایہ داروں کے دلال بن کر مزدور دشمنی کی انتہا کو چھو رہے ہیں ۔ سوشل سیکیورٹی کے محکمے سے مزدوروں کو سوائے دھکوں کے اور کچھ نہیں ملتا۔ صنعتی لیبر میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی بھی ہے جن کا استحصال مرد مزدوروں سے بھی زیادہ شدت سے کیا جاتا ہے۔ نجی شعبے میں مزدوروں کی یہ حالت زارصرف مقامی صنعتوں تک محدود نہیں ہے۔بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والے ورکرز کے بھی یہی حالات ہیں۔ اکثریت ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے ذریعے پیداوار کی ذمہ داری کسی مقامی صنعت کو دی ہوتی ہے جہاں پر لیبر ٹھیکیدار کے ذریعے دیہاڑی پر مزدور رکھ کر ان کی محنت کا خوب استحصال کیا جاتا ہے۔ نجی شعبے میں ٹریڈ یونینز نہ ہونے کے برابر ہیں اور پاکستان میں بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے کا ایک فیصد سے بھی کم ٹریڈ یونینز میں منظم ہے۔ جو ٹریڈ یونینز موجود ہیں ان میں ایک بڑی اکثریت پاکٹ یونینز کی ہے جو کہ مزدوروں کی لڑائی لڑنے کی بجائے مالکان کی دلالی کرتی ہیں۔ قانون میں یونین سازی کی مشروط اجازت ہے لیکن عملاً یونین سازی پر پابندی ہے۔ کسی بھی فیکٹری کے مزدوروں کے لئے ایک نئی ٹریڈ یونین رجسٹر کرانا اور سی بی اے لینا عملاً تقریباً ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر مزدور کسی فیکٹری میں لڑ بھڑ کر ٹریڈ یونین بنا بھی لیں تو اسے ختم کرانے کے لئے سرمایہ دار ہر قسم کے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں۔ پہلے دلال لیبر ڈیپارٹمنٹ اور زر خرید لیبر عدالتوں کے ذریعے قانونی پیچیدگیاں کھڑی کی جاتی ہیں اور بکاؤ میڈیا کے ذریعے مزدوروں کے خلاف خوب زہریلا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اگر اس سب سے کام نہ بنے تو پھر فیکٹری مالکان کی ایما پر اپنے حق کے لئے جدوجہد کرنے والے محنت کشوں پر ریاستی طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مزدوروں پر جھوٹے فوجداری مقدمات بنانے سے لیکر بدترین پولیس تشدد تک تمام ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ بعض واقعات میں تو ریاستی آشیرباد کے ساتھ بغاوت کرنے والے مزدور راہنماؤں کو کرائے کے غنڈوں کے ذریعے قتل تک کرا دیا گیا۔ نجی شعبے کی طرح سرکاری سیکٹر کے محنت کش بھی سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ پی ٹی سی ایل، بینکوں، کے ای ایس سی سمیت بے شمار سرکاری اداروں کی نجکاری کی جا چکی ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں مزدور بیروزگار ہوئے ہیں۔ اسی طرح واپڈا، پوسٹ، اسٹیل مل، پی آئی اے، او جی ڈی سی ایل اور صحت اور تعلیم کے شعبوں سمیت کئی مزید سرکاری اداروں کی نجکاری IMFکی دلال حکومت کے مزدور دشمن معاشی پروگرام میں سرفہرست ہے۔ حال ہی میں پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف ہونے والی ریلی پر رینجرز کی فائرنگ سے پی آئی اے کے دو ملازمین کی شہادت اس حکومت اور ریاست کی مزدور دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سرمایہ دار طبقے اور ریاست کے جبر کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی اس کیفیت کی ذمہ داری روایتی ٹریڈ یونین قیادتوں اور پیشہ ور لیبر لیڈروں پر بھی عائد ہوتی ہے جن کی دلالی اور مکمل تعاون کے بغیر محنت کش طبقے کو کچلنا حکمران طبقات کے لئے ناممکن ہے۔ عام ورکرز کی جرات مندانہ لڑائیوں اور قربانیوں کے باوجود کئی سرکاری اداروں کی نجکاری میں حکومت کی کامیابی اور نجی صنعت میں جنم لینے والی بے شمار تحریکوں کی شکست کا سب سے اہم سبب یہی غدار اور بکاؤ مزدور قیادتیں ہیں جو کہ مزدوروں کے بھیس میں مزدوروں کی بدترین دشمن ہیں۔
اس سال یوم مئی پر پاکستان کے طول و عرض میں کئی تقریبات، ریلیاں اور جلسے جلوس ہوں گے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس یوم مئی پر شکاگو کے شہیدوں کی یاد کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کا ایک ٹھوس لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ محنت کش طبقے کو اپنی بقا کی جدوجہد لڑنے کے لئے ’’ایک کا دکھ۔۔۔ سب کا دکھ‘‘ کے نعرے کے تحت رنگ، نسل، مذہب، قومیت، ادارے اور پیشے کے پسماندہ تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر منظم ہونا پڑے گا۔ مزدوروں کو اپنی صنعتوں سے کالی بھیڑوں کا خاتمہ کرنا پڑے گا اور اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے غدار اور دلال مزدور لیڈروں سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ جہاں ایک طرف اس جدوجہد میں تمام اداروں اور نجی صنعتوں کے مزدوروں کا طبقاتی اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے وہیں محنت کشوں کو جبر کا شکار دیگر پرتوں کے ساتھ ایک تعلق میں آنے کی ضرورت ہے۔ خاص کر طلبہ اور چھوٹے کسان اس جدوجہد میں محنت کش طبقے کے اہم اتحادی ثابت ہو سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے طویل اور گہرے ہوتے ہوئے اس عالمی بحران کے عہد میں محض ٹریڈ یونین ازم اور ’’آنے، دو آنے‘‘ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کی بنیاد پر مزدور جدجہد کو آگے بڑھانا نا ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مزدور تنظیمیں اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ اور پروگرام کو وسیع کرتے ہوئے اسے عمومی سماجی اور معاشی مسائل کے ساتھ جوڑیں تاکہ منظم مزدور طبقے کو محنت کش عوام کی وسیع تر پرتوں کی حمایت مل سکے۔ لیکن یہ سب کرنے کے لئے مزدور تحریک کو سائنسی سوشلزم (مارکسزم) کے نظریات سے جڑنا پڑے گا کیونکہ ان مزدور نظریات کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام کی حرکیات اور سرمایہ دار طبقے کی چالوں کو واضح انداز میں سمجھنا نا ممکن ہے اور دشمن کو سمجھے اور جانے بغیر نہ تو کوئی جنگ کامیابی سے لڑی جا سکتی ہے اور نہ ہی جیتی جا سکتی ہے۔
محنت کش طبقے کی عالمی تاریخ بے شمار سرکشیوں، بغاوتوں اور انقلابی تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ روس میں 1917ء میں برپا ہونے والا عظیم سوشلسٹ مزدور انقلاب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ محنت کش طبقہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے ایک غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ آج پھر ایک نئے عہد کا آغاز ہو چکا ہے۔ امریکہ میں چلنے والی ’’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘‘ تحریک سے لیکر عرب انقلابات تک، لاطینی امریکہ میں چلنے والی عوامی تحریکوں سے لیکر یورپ کے محنت کش طبقے کی شاندار مزاحمت تک، پچھلے سال ہندوستان میں ہونے والی عام ہڑتال سے لے کر حال ہی میں ہونے والی فرانس کی عام ہڑتال تک، یہ سب اس نئے عہد کی ابتدائی علامات ہیں۔ پاکستان میں چلنے والی واپڈا اور پی آئی اے کے محنت کشوں کی نجکاری کے خلاف شاندار مذاحمتی تحریکیں بھی عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تیز ہوتی ہوئی اس طبقاتی جنگ کا ایک حصہ ہیں۔ یہ جنگ مستقبل قریب میں دنیا کے ہر سماج میں شدت اختیار کرے گی اور ہمیں اس کی تیاری کرنی ہے۔ آئیں! ہم اس سال 2016ء کے یومِ مئی کو اس طبقاتی لڑائی کی تیاریوں میں ایک اہم سنگ میل بنا دیں۔ آئیں! یہ عہد کریں کہ اس سال یومِ مئی پر شکاگو کے شہیدوں کے خون سے تجدید وفا کرتے ہوئے ہم سرمایہ داری کی اندھیری رات کو سوشلسٹ سماج کے روشن سویرے میں بدلنے کی قسم کھائیں گے۔
آگے بڑھو محنت کش ساتھیو! سچے جذبوں کی قسم فتح ہماری ہے۔

Comments are closed.