یوم مئی 2022ء کا پیغام: چہرے نہیں سماج کو بدلو

|تحریر: زلمی پاسون|

یوم مئی کو دنیا بھر کے محنت کش طبقے کی عالمی یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کے لیے ہر سال لاکھوں مزدور اور نوجوان دنیا بھر میں سڑکوں پر نکل کر بڑی بڑی احتجاجی ریلیاں، جلسے اورجلوس نکالتے ہیں۔ سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے عالمی بحران کی روشنی میں ان احتجاجوں کی اہمیت اور انقلابی تنظیم کی حیثیت سے اپنے انقلابی کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ عالمی سطح پر محنت کش طبقے کی طبقاتی بنیادوں پر جڑت کبھی بھی اتنی ضروری نہیں تھی، جتنی آج اہمیت کی حامل ہے۔ سٹالنزم کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج کرۂ ارض پر واحد غالب سپر پاور بن گیا۔ مگر اسی امریکہ کے اندر ایک بہت طاقتور محنت کش طبقہ بھی وجود رکھتا ہے جو مستقبل میں اپنا جاہ و جلال دکھائے گا۔ جوں جوں عالمی معاشی بحران بڑھتا جا رہا ہے توں توں اس کے خلاف محنت کش طبقہ بھی فلپائن سے لے کر جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا سے ارجنٹائن، مشرقی یورپ سے ایشیاء، اور جنوبی یورپ سے لے کر آسٹریلیا تک اپنے دفاع کے لیے منظم ہورہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو کامیاب بنانے کیلئے آج محنت کشوں کو سوشلزم کے انقلابی نظریات کی اشد ضرورت ہے۔ سوشلزم کے انقلابی نظریات انہی کی جدوجہد کا تاریخی عرق ہیں، جن میں آج کے محنت کشوں کیلئے بے تحاشہ اسباق موجود ہیں۔

یوم مئی بھی مزدور تحریک میں تاریخی اہمیت کا حامل دن ہے۔ 1880ء کی دہائی میں امریکہ کے محنت کشوں نے 12 سے 16 گھنٹے تک کام کے اوقات کار کو کم کر کے 8 گھنٹے تک کرنے کا مطالبہ کیا۔ 1884ء میں امریکہ کی بڑی ٹریڈ یونینوں کے ایک مرکزی کنونشن میں یہ اعلان کیا گیا کہ، یکم مئی 1886ء سے امریکہ کے تمام مزدوروں کے اوقاتِ کار 8 گھنٹے ہوں گے۔ اس مطالبے کے گرد ایک جدوجہد کا آغاز ہوا۔ 1886ء کے آغاز سے محنت کشوں کی جدوجہد میں تیزی آنا شروع ہو گئی۔ یکم مئی 1886ء کو پورے امریکہ میں ایک ہڑتال ہوئی جس میں 13 ہزار سے زائد صنعتوں کے لاکھوں محنت کش شامل تھے۔ شکاگو ایک صنعتی شہر تھا اور اس تحریک کا مرکز تھا۔ شکاگو میں 40 ہزار سے زائد محنت کشوں نے جلوس نکالے۔ 3 مئی تک شکاگو کی سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں ایک لاکھ سے زائد مزدور شریک ہو رہے تھے۔ فیکٹری مالکان اور امریکی ریاست کے حکم پر نہتے مزدوروں پر سیدھی گولیاں چلائی گئیں جس کے نتیجے میں 6 مزدور موقع پر ہلاک ہو گئے اور کئی شدید زخمی ہوئے۔ اس جبر کے خلاف ملک بھر کے مزدوروں میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور اگلے دن پورے ملک میں احتجاج کی کال دے دی گئی۔ 4 مئی کو شکاگو میں ’ہے مارکیٹ‘ کے مقام پر ہزاروں مزدور احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے بزور طاقت ان کے احتجاج کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ اسی اثنا میں پولیس دستے پر ایک بم پھینکا گیا (جو درحقیقت پولیس یا فیکٹری مالکان کے کسی بندے نے ہی پھینکا تھا)۔ اس کو جواز بناتے ہوئے پولیس نے فائرنگ شروع کر دی۔ وہاں موقع پر موجود 8 مزدور شہید ہو گئے اور کئی شدید زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ مزدور یونینوں اور ان کے قائدین پر شدید کریک ڈاؤن شروع کر دیا گیا جس میں کئی ایک کو گرفتار کیا گیا،شدید جبر کا نشانہ بنایا گیا،اور پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں جنہیں بعد میں عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ مگر اس تمام تر ظلم و جبر کے باوجود اس تاریخی جدوجہد نے پوری دنیا کے سرمایہ داروں کو کام کے اوقات کار 8 گھنٹے کرنے پر مجبور کر دیا۔ 1889ء میں مزدوروں کے نمائندوں نے مزدوروں کی عالمی یکجہتی کے جھنڈے تلے دوسری انٹرنیشنل (محنت کشوں کی عالمی پارٹی) قائم کی۔ جولائی 1889ء میں پیرس میں اس پارٹی کی پہلی کانگریس منعقد ہوئی جس میں ایک اہم قرارداد یہ تھی کہ آئندہ سے ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منایا جائے گا جس میں مزدور 8 گھنٹے کے اوقات کار اور اپنے دیگر مطالبات کے لیے ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کرکے شکاگو کے محنت کشوں کی یاد تازہ کریں گے۔ تب سے آج تک پوری دنیا کے محنت کش اس دن کو جوش و خروش سے مناتے چلے آئے ہیں۔ یہ یومِ مئی کی تاریخ کا انتہائی مختصر ترین جائزہ تھا۔

موجودہ عہد میں یومِ مئی کے اسباق اور اس کا پیغام کیا ہوسکتا ہے؟ اس پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لینے کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں شدید تباہی و بربادی پھیلی ہوئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی شدید زوال پزیری کی وجہ سے غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی، قابل علاج بیماریوں سے موت میں اضافہ، سرمائے کے پجاریوں کی جانب سے لوٹ مار میں اضافہ، ظلم، جبر اور استحصال میں اضافہ ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ آج نام نہاد ترقی یافتہ دنیا کے حالات بھی ترقی پزیر ممالک جیسے بنتے جا رہے ہیں اور وہاں کے محنت کشوں سے تیزی کے ساتھ تمام تر حقوق چھینے جا رہے ہیں، جبکہ ترقی پزیر ممالک کے محنت کشوں کیلئے تو ایک وقت کی روٹی کا انتظام کر پانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ سمیت پورے یورپ میں پچھلے 40 سالوں کی مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ اس تمام تر معاشی بحران کا بوجھ حکمران طبقہ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈال رہا ہے۔ محنت کشوں کی جبری برطرفیوں، ڈاؤن سائزنگ اور نجکاری کے حملوں میں تیزی آرہی ہے۔ واضح رہے کہ عالمی معیشت کو چلانے والے یہی محنت کش ہیں، جس دن انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا تو سارا نظام رُک جائے گا۔ پھر بحری بیڑے چلیں گے نہ بلب جلے گا، جہاز اڑیں گے نہ کپڑا بنے گا، سڑکوں کی صفائی ہوگی نہ سٹاک مارکیٹوں کا شور شرابا ہوگا۔ کچھ دن پہلے جب برطانیہ میں ٹرک ڈرائیوروں نے کام کرنے سے انکار کیا تو عالمی طور پر تجارت رُک گئی تھی، جس سے برطانیہ سمیت پوری دنیا میں بنیادی ضروریات زندگی ناپید ہونے لگیں تھیں۔

پچھلے تین سالوں سے کرونا وبا نے ایک طرف اگر سرمایہ دارانہ نظام کے خصی پن کو واضح کر دیا تو دوسری طرف اس نظام کی وحشت میں اضافہ کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ پوری دنیا میں محنت کش طبقہ انتہائی غیر انسانی حالات کا سامنا کرتے ہوئے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ مگر تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ دنیا بھر کا محنت کش طبقہ بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف عَلم بغاوت بلند کر چکا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے میں اگر ہم محنت کش طبقے کی نئی اٹھان کا ذکر کریں تو یہ تحریر محض تعارف ہی تصور ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا میں محنت کش طبقے نے حکمران طبقے کی نیندیں حرام کر کے اپنی طاقت کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس ضمن میں اگر پاکستان جیسی سامراج کی گماشتہ اور سامراجی بیساکھیوں پر کھڑی ریاست کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر باآسانی پہنچا جاسکتا ہے کہ یہ ریاست ان سامراجی بیساکھیوں کے بغیر زیادہ دیر تک اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ معیشت کے حوالے سے اگر ہم مختصراً بات کریں تو اس غیر فطری ریاست کے پاس چند ایسے بڑے معیشت کے پہیے تھے جن میں اب نہ صرف ہوا کم ہوچکی ہے بلکہ پنکچر ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں صنعت اور زراعت کی شرح ترقی مزید کم ہوتی جارہی ہے جبکہ سروسز کی مد میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غیر رسمی یا کالی معیشت کے عنصر میں بھی بدستور تیزی آرہی ہے۔ اس وقت اگر دیکھا جائے تو صنعتی شعبہ جی ڈی پی کا 17 فیصد کے قریب ہے، جبکہ زراعت جو کہ ایک وقت میں معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی تھی اس وقت 23 فیصد تک گر چکی ہے۔ جبکہ خدمات کے شعبے کا جی ڈی پی میں حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے جو کہ اب 54 فیصد کے قریب ہے۔ زراعت کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کپاس، گندم، چینی میں خودکفیل زراعت کو 1990ء کی دہائی کے بعد پہلی بار کپاس، چینی اور گندم درآمد کرنا پڑی۔ جس میں واضح طور پر حکمران طبقے کی نااہلی عیاں ہوئی ہے۔ یہاں کا حکمران طبقہ ایک خونخوار طفیلیے کی مانند ہے جو ذخیرہ اندوزی سے لے کر کرپشن اور ہر قسم کے جرائم میں لتھڑاہوا ہے۔ اس کے علاوہ معیشت کا ایک اہم عنصر سامراجی ممالک کی طرف سے گماشتگی کے عوض ملنے والے ڈالرز تھے مگر یہ سلسلہ بھی اب بند ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں ریاست کو اربوں ڈالر ملے، جس کی وجہ سے ملک کی اندرونی معیشت خصوصاً صنعت کاری کے فروغ کیلئے کسی بھی قسم کے سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی کوشش ہی نہیں کی گئی، اگرچہ بالفرض کوشش کی بھی جاتی تو کوئی خاص فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ اپنی تاریخی دیری کے سبب پاکستانی سرمایہ داری انتہائی پسماندہ ہے اور عالمی سرمایہ داروں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ معیشت کے حوالے سے مختصر جائزہ اس لیے ضروری تھا کیونکہ اس کا براہ راست محنت کش طبقے کی زندگیوں سے تعلق ہے۔ معاشی بحران کے نتیجے میں سرمایہ دار مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتیاں کر رہے ہیں، حقیقی اجرتیں تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہیں، عالمی مالیاتی اداروں کی ایما پر سینکڑوں کے قریب منافع بخش عوامی اداروں کو اونے پونے داموں سرمایہ داروں کو بیچا جارہا ہے جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جبری برطرفیوں اور ڈاؤن سائزنگ میں تیزی سے اضافہ کیا جا رہا ہے۔ صنعتوں میں چونکہ یونین سازی پر عملاً پابندی ہے جس کی وجہ سے محنت کشوں کو نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی اور سرمایہ داروں کے پاس بیروزگاروں کی ایک لمبی لائن کھڑی ہوتی ہے جنہیں وہ کسی بھی وقت اپنی شرائط پر رکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا مزدوروں پر جبر میں بے تحاشہ اضافہ کیا جا رہا ہے اور ان کا شدید ترین استحصال کیا جا رہا ہے۔ مہنگائی کے طوفان میں اگر قسمت سے کسی محنت کش کی نوکری لگی ہوئی ہے تو اس کی بھی ماہانہ تنخواہ سے محض ایک ہفتہ ہی گزارا ہو پاتا ہے۔

سندھ حکومت نے محنت کشوں کے دیوہیکل غصے اور عظیم الشان احتجاجوں کے پریشر تلے وقتی طور پر صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی کم از کم اجرت 25 ہزار روپے کرنے کا اعلان کیا تھا مگر ساتھ ہی عدالتی احکامات کے ذریعے اس 25 ہزار روپے تنخواہ کے فیصلے پر عملدرآمد کو روک دیا گیا جس سے عدالتوں سمیت پوری ریاست کا مزدور دشمن چہرہ ایک بار پھر عیاں ہو گیا۔ اسی طرح تمام سیاسی پارٹیاں بھی ویسے تو ایک دوسرے سے کتوں کی طرح لڑتی ہیں پر جب معاشی بحران کا بوجھ محنت کشوں پر ڈالنے کی بات آتی ہے تو اس پر سب متفق ہیں۔ اب شو باز شریف نیا وزیر اعظم منتخب ہوا ہے اور آتے ہی اس نے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے تنخواہوں میں معمولی اضافے کا اعلان کیا ہے۔ اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ سابقہ متحدہ اپوزیشن اب متحد ہو کر عوام کی زندگی بہتر بنانے کی تگ و دو میں لگ جائے گی اور عمران خان کے دور میں ہونے والی مہنگائی کا خاتمہ کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں یہ ایک فراڈ ہے۔ اول تو یہ اعلان شدہ اضافہ کبھی حقیقی شکل اختیار ہی نہیں کر پائے گا، اور اگر ہو بھی جاتا ہے تو دوسری طرف مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوگا جس سے تنخواہوں میں ہونے والا اضافے کی کوئی افادیت نہیں رہ جائے گی۔ مہنگائی، ٹیکسز کی بھرمار، جبری برطرفیاں اور بیروزگاری کے عفریت میں مزید شدت آئے گی۔ عدم اعتماد کے نام پر ہونے والی لڑائی درحقیقت لوٹ مار کے مال کی بندر بانٹ پر لڑائی ہے۔ کیک چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور حکمران زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کیلئے کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں۔ بظاہر تو نئی حکومت بن گئی ہے اور لڑائی کا اختتام ہوتا دکھائی دے رہا ہے مگر وہ تمام تضادات جن کی وجہ سے یہ لڑائی ہوئی تاحال اسی طرح موجود ہیں۔ لہٰذا یہ لڑائی مستقبل میں مزید شدت اختیار کرے گی۔ حکمران طبقے کی اس لڑائی کے نتیجے میں نقصان آخرکار پھر محنت کشوں کو ہی اٹھانا پڑے گا۔

اب ذرا پاکستان میں محنت کش طبقے کی تحریک پر نظر ڈالتے ہیں کہ کیا پاکستان میں محنت کش طبقہ حکمرانوں کی ہیرا پھیری اور نااہلی کے جواب میں چپ ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ صرف پچھلے تین سالوں سے اگر ہم مختصراً جائزہ لیں تو پورے پاکستان میں ہر شعبے سے جڑے ہوئے محنت کشوں نے احتجاج کے ذریعے اپنے حقوق کے لئے زبردست جدوجہد کی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ سماج میں ایسے کون سے عوامل کار فرما ہیں جو کہ محنت کشوں کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ وہ احتجاج کا راستہ اپنائیں؟ اس میں سب سے اہم عنصر تو سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور حکمرانوں کی نااہلی، کرپشن اور مزدور دشمنی ہے جس کے نتیجے میں شدید ترین مہنگائی اور تنخواہوں میں کمی ہوئی ہے۔ لہٰذا محنت کش اپنی بقا کی خاطر لڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک اور اہم عنصر ٹریڈ یونین قیادت کی مسلسل مزدوروں کو دھوکہ دینے اور حکمرانوں کی دلالی کرنے کی وجہ سے مزدوروں میں ان کے خلاف جنم لینے والی نفرت ہے۔ پی آئی اے، سٹیٹ لائف، ریلوے، محکمہ صحت، پوسٹ آفس سمیت ایسے بے شمار عوامی ادارے نجکاری کے دہانے پر کھڑے ہیں جن کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے بیچا جارہا ہے مگر آج تک ٹریڈ یونین قیادت کی جانب سے کوئی سنجیدہ جدوجہد نظر نہیں آئی ہے۔ اگر کہیں سے کوئی آواز اٹھتی ہے تو ریٹ لگوا کر اس تحریک کو زائل کر دیا جاتا ہے۔ کافی لمبے عرصے تک یہی ٹریڈ یونین قائدین محنت کشوں کو جدوجہد سے روکے ہوئے تھے، مگر اب بالآخر محنت کشوں میں جنم لینے والے شدید غصے کی وجہ سے انہیں مجبوراً احتجاجوں کی کالیں دینا پڑ رہی ہیں۔ یہ محنت کشوں کے سیاسی شعور میں اہم تبدیلی ہے کہ اب وہ ٹریڈ یونین لیڈروں کو لیڈر ماننے سے انکاری ہیں، اور جلد یا بدیر پاکستان میں ہم نئی اور لڑاکا مزدور قیادتیں ابھرتی ہوئی دیکھیں گے۔ اسی طرح محنت کشوں کے سیاسی شعور میں اضافے کا ایک اور اظہار حکمران طبقے کی ریاست کے تمام اداروں اور سیاسی پارٹیوں پر عدم اعتماد ہے۔ اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر ملک بھر میں محنت کشوں کی جانب سے نئے اتحادوں کا وجود دیکھنے کو ملا ہے اور ان نئے اتحادوں نے نئی قیادتوں کو بھی تراشا ہے جو کہ خوش آئند بات ہے۔ مگر ان قیادتوں کے پاس بھی محنت کش طبقے کی جدوجہد کو کامیابی کی طرف بڑھانے کا کوئی پروگرام اور حکمت عملی نہیں ہے۔ بہر حال ان نئے اتحادوں نے محنت کشوں کو ملک گیر سطح پر ایک کڑی میں پرویا ہے جس سے محنت کش طبقے کو ایک نیاعزم و حوصلہ ملا ہے۔ بالخصوص اگر ہم آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس (اگیگا) یا دیگر صوبوں میں محنت کش و ملازمین کے اتحادوں کو دیکھیں تو ان میں ایک حوصلہ افزا کیفیت موجود ہے۔ مگر اب بھی ان نئے الائنسز کی قیادت میں ٹریڈ یونین اشرفیہ کے نمائندگان موجود ہیں جو کہ کسی بھی وقت محنت کشوں کو دھوکا دے سکتے ہیں۔ مگر اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان قیادتوں کی دھوکہ دہی کے تجربے نے ہی محنت کشوں کو سکھایا ہے کہ نئی قیادتوں کو تراشا جائے۔ وہ دن اب انتہائی قریب ہے جب ان قیادتوں کے خلاف یہی محنت کش سڑکوں پر ہوں گے۔

 اس یوم مئی پر ہم محنت کشوں اور محنت کش طبقے کی سیاست کرنے والی ترقی پسند قوتوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ طبقاتی جڑت کی بنیاد پر سوشلزم اور مارکسزم کے انقلابی نظریات،اور اپنی عظیم تاریخکی جانب رجوع کریں۔

اس وقت سب سے زیادہ خوفناک صورتحال کا سامنا صنعتی مزدوروں کو ہے۔ ماسوائے چند صنعتوں کے ملک بھر میں ان کے پاس یونین سازی کا حق ہی موجود نہیں۔ اس وقت صرف دو فیصد کے قریب محنت کش مختلف یونینوں میں موجود ہیں۔ مگر ماسوائے چند یونینوں کے، وہ یونینیں بھی برائے نام ہی ہیں اور ان کی قیادتیں بھی روایتی ٹریڈ یونین اشرفیہ کی طرح مقامی سرمایہ داروں کی دلال ہیں۔ ان صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے سرمایہ داروں کے ہاتھوں غیرانسانی حالات سے گزرتے ہیں مگر ان صنعتوں کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کی جانب سے جدوجہد بھی جاری ہے، اگرچہ حکمرانوں کا زر خرید میڈیا اسے سامنے نہیں آنے دیتا۔ اس کے علاوہ کھیت مزدور اور کان کنی کے شعبے سے منسلک محنت کشوں کی بھی کوئی نمائندہ آواز موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ شدید ترین استحصال اور جبر کا شکار ہیں۔ برائے نام ایسی چند این جی اونما فیڈریشنز ہیں جو کہ ان محنت کشوں کے استحصال اور جبر کے اوپر سیاست کرتے ہوئے اپنی جیبیں بھرتی ہیں۔ صرف بلوچستان میں کان کنی کے شعبے سے منسلک ہزاروں محنت کش آئے روز موت کا سامنا کرتے ہوئے اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔ مگر ان کی حادثاتی اموات جو کہ روزانہ کے حساب سے ہوتی ہیں، پر یہ نام نہاد لیبر تنظیمیں مجرمانہ خاموشی برقرار رکھتے ہوئے صرف اخباری بیانات اور لفاظی تک محدود رہتی ہیں۔

اس یوم مئی پر ہم محنت کشوں اور محنت کش طبقے کی سیاست کرنے والی ترقی پسند قوتوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ طبقاتی جڑت کی بنیاد پر سوشلزم اور مارکسزم کے انقلابی نظریات،اور اپنی عظیم تاریخکی جانب رجوع کریں۔ 1871ء کے پیرس کمیون اور 1917ء کے عظیم انقلاب روس سے اسباق حاصل کریں اور موجودہ دور میں جدوجہد کو ان کی روشنی میں آگے بڑھائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشلزم کے انقلابی نظریات سے لیس ہو کر ایک ایسی انقلابی پارٹی کی تعمیر کریں جو سرمایہ دارانہ نظام کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے انقلابی مشن کے تحت کام کرے۔

مزدور راج زندہ باد! سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.