اسلام آباد: سرکاری ملازمین و محنت کشوں کا عظیم الشان احتجاج۔۔نتائج و اسباق

|منجانب: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

6اکتوبر کو رات گئے آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے زیر اہتمام ہونے والے احتجاجی دھرنے کے قائدین اور حکومتی نمائندوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بعد قیادت کی جانب سے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ مذاکرات کامیاب ہوئے یا ناکام؟ اس بات پر بحث کرنے سے قبل لازمی ہے کہ ہم اس احتجاج کی اہمیت کا درست ادراک حاصل کریں تا کہ ایک متوازن تجزیہ کیا جا سکے۔

شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہاؤس کے ٹھیک سامنے ہونے والا یہ احتجاجی دھرنا پچھلی کم از کم دو دہائیوں میں کسی ایک جگہ پر ہونے والا سرکاری ملازمین و محنت کشوں کا سب سے بڑا اکٹھ تھا اور اس اعتبار سے یہ ملک کی حالیہ مزدور تحریک میں ایک سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق چاروں صوبوں، جی بی، اے جے کے اور وفاقی دارالحکومت سے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 20 ہزار سرکاری ملازمین و محنت کشوں نے اس احتجاج میں شرکت کی۔ احتجاجی ملازمین میں خاص طور پر سرکاری سکولوں کے اساتذہ اور کلرکس نمایاں تھے۔ احتجاجی ملازمین کے اسلام آباد پہنچنے کے راستے میں انتظامیہ نے ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے بڑھتے قدم نہ روک سکے۔ جب ملازمین ایک ریلی کی شکل میں ریڈ زون میں داخل ہونے لگے تو ان پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا اور لاٹھی چارج کی کوشش کی گئی مگر ملازمین و محنت کشوں کے جم غفیر کے سامنے پولیس کے دستے تنکوں کی طرح بکھر گئے۔ اپنے اتحاد کی طاقت کے بلبوتے پر ملازمین آناً فاناً پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ تک پہنچ گئے اور ان کے پیروں کی دھمک اور فلک شگاف نعروں سے بالا ایوانوں کے در ودیوار ہل کر رہ گئے۔ یہ تعداد، یہ جرات، یہ جوش وخروش، ملک کے طول وعرض سے آئے مختلف محکموں کے ملازمین و محنت کشوں کا یہ اتحاد، یہ وہ سب عوامل ہیں جو کہ نہ صرف اس امر کا عندیہ دیتے ہیں کہ ملک کی مزدور تحریک ایک بلند تر مرحلے میں داخل ہو چکی ہے بلکہ سماج میں جاری طبقاتی جنگ کی ایک نئی اٹھان کا جنم بھی ہو چکا ہے۔ اور بلاشبہ جہاں اس احتجاج کی طاقت و جرات کے پیچھے کلیدی کردار اس میں شامل محنت کشوں کا تھا وہیں اپنی تمام تر سیاسی و نظریاتی کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود اس احتجاج کو منظم کرنے کے حوالے سے قیادت نے بھی ایک قابل تحسین کردار ادا کیا ہے۔ اس دھرنے کے مطالبات میں تنخواہوں میں اضافہ اور تفریق کا خاتمہ، روزگار کی مستقلی، سروس سٹرکچر اور نجکاری و پنشن ریفارمز سمیت آئی ایم ایف کی تمام مزدور دشمن پالیسیوں کا خاتمہ شامل تھے۔

یہ دھرنا اپنے فوری مطالبات منوانے میں کس حد تک کامیاب ہوا ہے؟ اس سوال کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اس بحث میں حکمرانوں کے دل دہلا دینے والے اس شاندار احتجاج کے نتیجے میں مزدور تحریک کو لگنے والی مہمیز اور اس کے مثبت دور رس اثرات کو نظر انداز کر دینا سراسر تنگ نظری اور حماقت ہو گی۔

جہاں تک 6 اکتوبر کی رات کو ہونے والے مذاکرات کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دھرنا اپنے فوری مقاصد کے حصول میں ناکام ہوا ہے۔ دھرنے کے اولین مطالبے یعنی تنخواہوں میں اضافے اور تفریق کے خاتمے کے متعلق حکومت نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس بارے میں ضرور کچھ نہ کچھ کرے گی۔ لیکن نہ صرف مارکس وادی بلکہ ہر شعور یافتہ محنت کش بھی بخوبی جانتا ہے کہ حکومت جھوٹ بول رہی ہے اور اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسی طرح حکومت نے احتجاج کے دباؤ میں آ کر سالانہ انکریمنٹ کے مستقل خاتمے، پنشن کے خاتمے اور ریٹائر منٹ کی عمر گھٹانے جیسے اقدامات اٹھانے کا سرے سے انکار دیا ہے۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ بھی ایک دھوکہ ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کے احکامات پر تیزی سے اس ضمن میں کام کر رہی ہے اور موقع ملتے ہی ان مزدور دشمن اقدامات کو عملی جامہ پہنائے گی۔ مزید برآں تمام مذاکراتی کاروائی کا کوئی بھی باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری نہیں ہوا ہے اور اس سارے معاملے کا واحد دستاویزی ثبوت قومی اسمبلی کے لیٹر پیڈ پر ہاتھ سے لکھی گئی ایک تحریر ہے۔ اس ساری صورتحال میں یہ کہنا بالکل درست ہے کہ احتجاج کی قیادت کے ایک حصے، خاص کر آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس کے پی کے کی لیڈر شپ نے، بس مذاکرات کے لئے ”بلائے جانے“ کو ہی کافی گردانتے ہوئے جلد بازی میں دھرنا ختم کرنے کا کمزور فیصلہ کیا جس کی اکٹھ میں موجود ملازمین و محنت کشوں نے بھر پور مخالفت بھی کی۔ جبکہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس پر مبنی قیادت کے ایک دوسرے حصے نے جرات مندانہ موقف اختیار کرتے ہوئے مذاکرات کو ایک ڈھونگ قرار دیا اور دھرنا جاری رکھنے کی حمایت کی۔ لیکن جب باقی لیڈر شپ اس بات پر قائل نہیں ہوئی تو انہوں نے دھرنے کے خاتمے کے بعد بھی اپنا سلسلہ وار احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ موقع پر موجود محنت کشوں کی جانب سے فیڈرل ایمپلائز کی قیادت کے دلیرانہ موقف کو خوب پذیرائی ملی جس سے ان کے دلی جذبات کی بخوبی عکاسی ہوتی ہے۔ مزید برآں قیادت کی سیاسی و نظریاتی خامیاں اس وقت بھی عیاں ہوئیں جب انہوں نے ”اظہار یکجہتی“ کے لئے آنے والے مختلف مزدور دشمن اپوزیشن راہنماؤں کو تقاریر جھاڑنے کا موقع فراہم کیا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ دھرنے میں شامل شاید ہی کوئی ایسا عام محنت کش یا ملازم ہو گا جس نے ان فراڈیوں کے مگر مچھ کے آنسوؤں پر ایک فیصد بھی یقین کیا ہو۔ اگر اس ساری صورتحال کو بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو قیادت کے ایک حصے کی کمزوری کے کارن دھرنے کی فوری مقاصد کے حصول میں ناکامی کے باوجود اس احتجاج کے ذریعے محنت کشوں نے حالیہ دہائیوں میں پہلی دفعہ حکمران طبقے کو یہ چیتاؤنی دی ہے کہ اگرتم ہم پر ظلم کرو گے تو ہم تمہارا گریبان پکڑنے تمہارے ایوانوں میں پہنچ جائیں گے۔ ہم یقین سے یہ بات کہہ سکتے ہیں محنت کشوں کے اس عظیم الشان اکٹھ کی طاقت آنے والے عرصے میں حکمرانوں کی نیندیں حرام کئے رکھے گی اور ہر مزدور دشمن اقدام اٹھاتے وقت انہیں دسیوں ہزاروں محنت کشوں کے پیروں کی دھمک اپنے کانوں میں گونجتی محسوس ہو گی۔

یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ دھرنے کی اپنے فوری مقاصد کے حصول میں ناکامی جہاں ایک طرف سرمایہ داری کے بدترین عالمی نامیاتی بحران کے عہد میں بنیادی مطالبات کے حصول کے لئے بھی مزدور تحریک کے مزدور دوست نظریات یعنی سائنسی سوشلزم سے مسلح ہونے کی ضرورت و لازمیت کا اظہار ہے وہیں یہ دھرنوں کے احتجاجی طریقہ کار کی محدودیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ بالفرض اگر دھرنے کی تمام قیادت مذاکرات کو مسترد کر کے دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کر بھی دیتی، تب بھی ہزاروں افراد کے لئے زیادہ دنوں تک گھروں سے سینکڑوں میل دور کھلے آسمان تلے دھرنے پر بیٹھنا ناممکن تھا۔ اگرچے دھرنے کے جاری رہنے سے ابتدا میں تو حکومت پر موجود دباؤ قائم رہتا لیکن حکومت وریاست کے لئے ”دیکھو اور انتظار کرو“ کی پالیسی کے تحت چند دن گزارنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں تھا۔ لیکن دوسری طرف گزرتے وقت کیساتھ اکٹھ کی تعداد کم پڑنے لگتی اور اس کی طاقت بکھرنا شروع ہو جاتی۔ ایسی صورتحال میں محنت کشوں کو تمام تر جدوجہد کے بعد یا تو دھرنے کے ایک انتہائی مایوس کن اختتام کا سامنا کرنا پڑتا یا پھر ننگے ریاستی جبر کا۔ بائیں بازو کے لبادے میں چھپے، دھرنے کا باقاعدہ بائیکاٹ کرنے والے بعض موقع پرست وفرقہ پرور نوسربازوں کی ”ریڈیکل“ بڑھک بازی کے بر عکس دھرنے کو زیادہ سے زیادہ ایک دن مزید جاری رکھنا تو فائدہ مند ثابت ہو سکتا تھا کہ اس سے محنت کشوں کو اپنی طاقت دکھانے کا مزید موقع ملتا جس سے پورے ملک کے محنت کش عوام حوصلہ پکڑتے لیکن اس سے آگے جانا الٹا نقصان پہنچانے کا سبب بنتا۔ یہاں قیادت کی جلد بازی اور کمزوری سے بھی بڑا مسئلہ بذات خود دھرنے کے احتجاجی طریقہ کار کی محدودیت کا ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ سمجھتا ہے کہ اب جب کہ احتجاجی دھرنوں کی محدودیت عملی طور پر بھی ثابت ہو چکی ہے، مزدور تحریک کے پاس آگے بڑھنے کا واحد راستہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کا ہے۔ تمام عوامی اداروں، سرکاری محکموں اور نجی صنعتوں کے ملازمین و محنت کشوں کی شمولیت کے ساتھ ہونے والی ایک ملک گیر عام ہڑتال ہی سماج و معیشت کا پہیہ جام کر کے اور ریاست کو ہوا میں معلق کرکے نہ صرف حکمران طبقے کے تابڑ توڑ حملوں کا منہ توڑ جواب دے سکتی ہے بلکہ محنت کش طبقے کو ملک کے سیاسی و سماجی افق پر ایک فیصلہ کن طاقت کے طور پر ابھار سکتی ہے۔ ایک مرتبہ جب محنت کشوں کو بطور طبقہ اپنی طاقت کا احساس ہونے لگے گا تو پھر بات بنیادی مطالبات تک نہیں رکے گی بلکہ اس سے کہیں آگے جا کر سماج پر سیاسی و معاشی حکمرانی کے حق کا سوال اٹھے گا جس کا جواب محنت کش طبقہ ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں دے گا۔

Comments are closed.