میانمار: فوجی کُو۔۔۔لبرلزم کے منہ پر ایک اور طمانچہ

|تحریر: ڈینیئل مورلے، ترجمہ: یار یوسفزئی|

میانمار کے جرنیلوں نے آنگ سان سو چی کے خلاف اچانک ’کُو‘ کر کے اس سراب کا خاتمہ کر ڈالا (جو پہلے سے ہی دم توڑ رہا تھا) کہ امریکی ریاست کی سرپرستی میں میانمار کی لبرلائزیشن ممکن ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

31 جنوری 2020ء بروزِ اتوار میانمار کی سٹیٹ کونسلر (وزارتِ عظمیٰ کی حیثیت رکھنے والا عہدہ) آنگ سان سو چی اور حکمران پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے وزراء اور قائدین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے بعد سو چی کی حکومت میں فوج کے ہاتھوں مقرر کیا گیا نائب صدر مائنٹ سو نے ’کُو‘ کا اعلان کر کے ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کی اور ایک سال بعد نئے الیکشن منعقد کرانے کا وعدہ کیا۔

2008ء میں فوج کی نگرانی میں لکھے گئے آئین کے تحت، جو اس طرح کی صورتحال کو سہارا دینے کے لیے لکھا گیا تھا، ملک بھر کا اقتدار فوج کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ انٹرنیٹ کا کنکشن منقطع کر کے بعد میں بحال کر دیا گیا، مگر موبائل سروسز ابھی تک بحال نہیں ہوئیں۔ پیر کے دن نومبر میں ہونے والے الیکشن کے بعد پارلیمنٹ کا پہلا اجلاس ہونا تھا، جس میں سو چی کی پارٹی کے ممبران کی اکثریت منتخب ہوئی تھی، مگر اس سے پہلے ’کُو‘ کر کے اجلاس کو روک دیا گیا۔

اس ’کُو‘ کی وجوہات کیا تھیں؟ فوج نے اچانک ایسا کیوں کیا؟ فوج نے 2008ء میں جو آئین بنایا تھا، اس کی مدد سے 2011ء میں آنگ سان سو چی کو محدود اختیارات دے کر اقتدار میں لایا گیا، جس کے ذریعے وہ ملک کے اندر مغربی سرمایہ کاری کو بڑھانا چاہتے تھے، اور امریکی ریاست کی سرپرستی میں ہونے والے کسی ’جمہوری انقلاب‘ کے نتیجے میں خود کو بے دخل ہوتا دیکھنے کی بجائے اپنی حیثیت برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ یہ آئین فوج کی حیثیت کا ضامن تھا اور بظاہر ان کے مفاد کے مطابق چل رہا تھا۔ در حقیقت یہ فوج کے لیے اتنا کار آمد تھا کہ مغربی ممالک کی نظر میں سو چی کا جمہوری سراب اپنا مقام کھونے لگا، جب اس نے روہنگیا میں ہونے والی نسل کشی کی حمایت کی، حتیٰ کہ 2019ء میں اقوامِ متحدہ کی عالمی عدالت کے اندر اس نے فوج کا دفاع کیا۔ اس نے ’قومی اتحاد‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو فوج کے ساتھ منسلک کیا، یہاں تک کہ قتلِ عام پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو بھی گرفتار کروایا۔ سنگاپور میں لیکچر دیتے ہوئے اس نے کہا کہ فوج کے ساتھ اس کا تعلق ”اتنا بھی برا نہیں“۔

اب کیا ہوا؟

تو پھر حالیہ ’کُو‘ کی آخر ضرورت کیا پڑی جس کے اتنے برے نتائج نکل سکتے ہیں؟ اس کے محرکات وہی بنے جو حد سے زیادہ اچھی کارکردگی دکھانے والے کسی بیوروکریٹ کے زیر تربیت شخص کے معاملے میں ہوتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سو چی نے کتنی ہی وفاداری دکھا کر اپنے سرپرستوں کی خدمت کی، وہ ان کا اعتماد جیتنے میں ناکام رہی، کیونکہ اس کی شہرت فوج سے بڑھ گئی تھی اور اس کی حیثیت ان سے زیادہ قانونی تھی، جس کو قوم کی اس ماں کے طور پر دیکھا جاتا تھا جو سب کے مطابق ابھی بھی ملک کے اصل مالکان کے ناجائز جبر کا شکار تھی۔ یہ اتحاد بنیادی طور پر عدم استحکام کا شکار تھا۔

سو چی اور فوج کے بیچ سمجھوتے کے لیے بنائے گئے قوانین و ضوابط کا مطلب یہ تھا کہ سو چی اور اس کی پارٹی کو آئینی ترامیم کے لیے کافی مشکلات کا سامنا تھا۔ بہرحال فوج کے خدشات بھی بالکل بے جا نہیں تھے۔ پچھلے سال مارچ کے مہینے میں سو چی کی پارٹی نے آئین میں ایسی ترمیم کی رائے دی جس کے ذریعے سو چی کو صدر بنایا جا سکے، ایک ایسی بات جو فوج کو قطعاً گوارا نہیں تھی کیونکہ انہوں نے آئین بنایا ہی اس قسم کا تھا جو اسے ہر گز صدر نہ بننے دے (آئین میں درج ہے کہ ایسا شخص صدر نہیں بن سکتا جس کے بچوں کی نیشنلٹی میانمار کی نہ ہو اور سو چی کے بچے برطانوی نیشنلٹی کے مالک ہیں)۔ البتہ یہ ترمیم فوج کو حاصل آئینی استحقاق کی وجہ سے عمل میں نہیں لائی جا سکی۔

Military blocked Mandalay Region Government Office Image Kantabon

منڈیلے میں حکومتی دفتر پر فوجی گھیراو۔

پچھلے سال مذکورہ ترمیم کو زیر بحث لانے کا مقصد ایک سوچی سمجھی چال تھی، کیونکہ چند مہینوں بعد نومبر میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ اس الیکشن میں آنگ سان سو چی اور اس کی پارٹی نے پچھلی دفعہ سے زیادہ کامیابی حاصل کی۔ الیکشن کے نتائج آئین میں ترمیم کی خواہش کا اظہار تھے اور بلاشبہ فوج اس خطرے سے واقف تھی۔ سو چی کی جیت نے نام نہاد اتحاد کے عدم استحکام کا کھل کر اظہار کیا۔ اس کی طاقت میں اضافہ ہو رہا تھا اور اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جاتی، فوج نے اس کا خاتمہ کرنا ضروری سمجھا۔

الیکشن کے بعد فوج تواتر سے یہ الزام لگاتی رہی کہ سو چی کی بھاری اکثریت سے جیتنے کی وجہ دھاندلی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ”یونین الیکشن کمیشن کو غیر فعال قرار دیا جائے؛ 8 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں ڈالے جانے والے سارے ووٹوں کی دوبارہ گنتی فوج کی نگرانی میں کی جائے؛ اور نئی پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس کو ملتوی کیا جائے۔“ (دی ایراواڈی، 29 جنوری 2021ء)

آخری نکتے سے کافی وضاحت ہو جاتی ہے، جیسا کہ ’کُو‘ کے دن سے واضح ہوتا ہے، جو پارلیمنٹ کے اجلاس سے بالکل ایک دن قبل کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ فوج ان آئینی ترامیم کو روکنا چاہ رہی تھی جو اس کی طاقت اور مراعات میں کمی کا باعث بنیں۔

اس عمل نے اس غلط خیال کا قلع قمع کر دیا کہ میانمار منظم طریقے سے بورژوا جمہوریت کی جانب گامزن ہے۔ دس سال پہلے میانمار میں رونما ہونے والی تبدیلی مغربی سامراجیوں کے لیے تاریک دنیا میں روشنی کی کرن ثابت ہوئی، جس کے بعد سمجھا جانے لگا کہ میانمار کا مستقبل امریکی ریاست کی سرپرستی میں لبرل جمہوریت اور آزاد تجارت (امریکہ کی مرضی کے مطابق) پر مشتمل ہوگا۔ مگر اس کے بعد آنے والے سالوں نے دھیرے دھیرے اس سراب کا پردہ چاک کرنا شروع کیا اور حالیہ ’کُو‘ کے واقعے نے اس کا مکمل خاتمہ کر ڈالا۔

بعض لوگ ’کو‘ کے پیچھے چین کا ہاتھ ہونے کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ ایسا ہونا مشکل لگتا ہے کیونکہ حکومت، بشمول آنگ سان سو چی، نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ چین کے حق میں ہے۔ ایک سال قبل شی جن پنگ نے سو چی کے ساتھ دارالحکومت نی پیداؤ میں ملاقات کی اور تعمیرات، تجارت اور صنعت سے متعلق 33 معاہدوں پر دستخط کیے۔ میانمار، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا باقائدہ رکن ہے۔ کچھ ہی ہفتے پہلے میانمار کی حکومت نے چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی سے ملاقات کی، جس نے روہنگیا کے معاملے میں چین کی جانب سے حمایت، اور اس کے ساتھ ساتھ کورونا کی 3 لاکھ چینی ویکسینیں دینے کا وعدہ کیا۔ اس کے بدلے میں سو چی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے تب کے صدر (جس کو اب ہٹا دیا گیا ہے)، ون مائنٹ نے وعدہ کیا کہ ہم تائیوان، تبت اور سنکیانگ کے معاملے میں چین کی حمایت جاری رکھیں گے۔

اس ملاقات میں سب سے ضروری بات یہ طے پائی کہ لمبے عرصے سے زیر بحث رہنے والے راخائن ریاست میں بندرگاہ کے منصوبے کا آغاز کیا جائے گا (جس جگہ پر روہنگیا لوگوں کی نسل کشی کی گئی تھی)، اور اس کے ساتھ وہاں پر سپیشل اکنامک زون (ایسا علاقہ جہاں پر کاروبار اور تجارت کے قوانین ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف اور نرم ہوتے ہیں) بھی قائم کیا جائے گا۔ ایسا ہونے سے چین کے لیے ملیشیا کے قریب واقع آبنائے ملاکا (آبی گزرگاہ) کا متبادل تجارتی راستہ میسر آ جائے گا جو امریکہ کی بحری فوج کے قبضے میں ہے، جس کے نتیجے میں خطے کے اندر امریکی سامراجیت کو بھاری نقصان پہنچے گا۔

چنانچہ اس بات کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے کہ اس ’کُو‘ کے پیچھے چین کا ہاتھ تھا، جس کے نتیجے میں چین کا وہ اتحادی عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے جو اس کی مرضی کے مطابق چل رہا تھا۔ بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ سو چی سے جان چھڑانے کے بعد اگر یہ نئی حکومت برقرار رہی تو یہ پہلے سے زیادہ چین کی حامی ہو گی۔ اس بات کا اندازہ ’کُو‘ کے متعلق چین اور امریکی ریاست کے متضاد بیانات سے لگایا جا سکتا ہے۔ امریکی ریاست اور تمام مغربی قوتوں نے اس کی مذمت کی ہے مگر چین نے اس حوالے سے محض ’نوٹس‘ لیا ہے، جو نئی حکومت سے مکمل قطع تعلق نہیں کرنا چاہ رہا، اور سو چی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں بھی اس کے ساتھ تعلقات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔

اوباما دور میں مشرقی ایشیا کے سفارتکار رہنے والے ڈینیئل رسل نے کہا، ”یہ ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، نہ صرف میانمار کی جمہوریت کے لیے، بلکہ امریکی ریاست کے مفاد لیے بھی۔ یہ واقعہ اس امر کی جانب مزید ایک یاددہانی ہے کہ خطے کے اندر امریکہ کی قابلِ بھروسہ اور باقاعدہ مداخلت کی عدم موجودگی میں جمہوریت مخالف قوتیں مضبوط ہوئی ہیں۔“
(دی گارڈین، یکم فروری 2021ء)

جیسا کہ ٹراٹسکی نے بہت پہلے ہی وضاحت کی تھی کہ ترقی پسند بورژوازی نامی کوئی چیز نہیں ہے، کیونکہ وہ مشترکہ طور پر سرمایہ داری کو، اس میں موجود استحصال اور غربت کے ساتھ برقرار رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ سو چی نے خود اپنے الفاظ میں وضاحت کی تھی کہ وہ کسی ایسے انقلاب کی ہر گز حامی نہیں تھی جو پرانے نظامِ حکومت کا خاتمہ کر ڈالے، ”ہم اس قسم کے انقلابات کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہتے جو ہمارے ملک کو سر کے بل کھڑا کر دے۔ ہم صبر اور مستقل مزاجی سے کام لیں گے۔“

یہ کہنا بجا ہوگا کہ سو چی کو صبر کا پھل نہیں ملا۔ ہم نے پچھلے سال لکھا تھا کہ اس کے خیال میں ”فوج کی حمایت کے صلے میں شاید اسے (کم سطح کے) ان جمہوری اصلاحات کرنے کی اجازت دی جائے گی جس کی وہ خواہش مند ہے۔ مگر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ فوج ان جمہوری اصلاحات کو بالکل بھی برداشت نہیں کرے گی جن سے ان کا اقتدار اور مراعات خطرے میں پڑ سکتے ہوں، چنانچہ یہ لبرل طریقہ کار حکمران طبقے کی جانب سے یک مشت ہو کر عوام کو دھوکے میں رکھنے کی کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ فوج کو اقتدار سے ہٹانے کا واحد راستہ ایک ایسا انقلاب ہی ہے جو ’ملک کو سر کے بل کھڑا کر دے‘۔“

جوابی کارروائی کی تیاری

مذکورہ باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ حکمران لبرل مؤقف دراصل اس لیے اپناتے ہیں کیونکہ وہ انقلاب اور عوام سے خوف کھاتے ہیں۔ آنگ سان سو چی اور اس کی پارٹی بورژوا لبرل ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ محض تدریجی اصلاحات کے حق میں ہیں، جس کے ذریعے وہ ’آزاد منڈی‘ کو مزید فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ حالیہ واقعات میں بھی دیکھنے کو ملا جب نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کے ترجمان مایو نائنٹ نے ’کُو‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ”میں اپنے حامیوں کو یہ بتانا چاہوں گا کہ بنا سوچے سمجھے کوئی قدم نہ اٹھائیں اور قانون کی پاسداری کریں“، وہی مقدس قانون جو فوج نے اس طرز پر بنایا تھا کہ اس قسم ’کُو‘ کے لیے جواز فراہم کرے۔

بہرحال اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ اس ’کُو‘ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے سو چی عوامی تحریک یا بغاوت کا سہارا لینے کی طرف جائے گی، کیونکہ بصورتِ دیگر اس کی آزادی مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بیان دے کر ’کُو‘ کے خلاف احتجاجوں اور مزاحمت کی کال دی ہے۔

جیسا کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات نے ثابت کیا کہ لوگوں میں بڑے پیمانے پر فوج کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور سو چی کو اب بھی عوام میں کافی حد تک مقبولیت حاصل ہے۔ فی الحال کچھ ترقی پسند مزدور یونینیں، لڑاکا طلبہ یونینیں اور دیگر انقلابی قوتیں فوج کے خلاف متحرک ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر فوجی ’کُو‘ کے خلاف شعبہ صحت کے محنت کشوں نے ایک تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ موجودہ حالات سے شعبہ صحت کے محنت کش بہت اکتا چکے ہیں، خاص کر وباء کے اثرات کی وجہ سے۔

ایسے حالات میں سو چی کی دی ہوئی کال پر ایک ایسی احتجاجی تحریک کا آغاز ہو سکتا ہے جس کے اندر اس کے محتاط سرمایہ دارانہ ایجنڈے سے آگے کا پروگرام ابھر کر سامنے آئے۔ پہلے سے ہی نوجوانوں کے اندر انقلابی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے جو سو چی کے محدود پروگرام سے آگے جانا چاہتے ہیں۔ اس کا اظہار اس بات سے بھی ہوا جب ان میں سے بعض نے ماضی میں 1988ء کی بغاوت کے سٹوڈنٹ لیڈر مین کو نائنگ کے گرد منظم ہونے کی رائے دی۔ نوجوانوں کے اندر یہ خیال بھی عام ہو رہا ہے کہ ہمارے بیچ کوئی ”عالی مرتبت نجات دہندہ“ نہیں پایا جاتا۔

فوج کے قائدین نے کھل کر ’کُو‘ کی حمایت میں راہبوں سمیت غیر انقلابی پرتوں اور انتہائی دائیں بازو کے عناصر کو متحرک کیا ہے۔ اس اقدام کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں اور یہ رد انقلاب کا وہ کوڑا ثابت ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے عوامی تحریک کو مزید ابھار ملے گا۔

چنانچہ سو چی کی مقبولیت، اور فوج کی غیر مقبولیت اور جواز نہ ہونے کی وجہ سے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ عوامی مظاہرے دیکھنے میں آئیں گے۔ ان مظاہروں میں عوام برائے نام نہیں ہوں گے۔ بلکہ یہ ان لاکھوں غریب اور مظلوم لوگوں، مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہوں گے جو اس سرمایہ دارانہ نظام کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ بات واضح ہے کہ میانمار بورژوا جمہوریت کی جانب ہموار اور منظم سفر طے نہیں کرسکتا۔ اس کا مستقبل عوامی جدوجہد اور ہنگامہ خیز واقعات سے بھرا پڑا ہے۔ بحران سے نجات پانے کے لیے میانمار کے عوام کو سوشلزم کے خیالات ساتھ لے کر اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑھنا ہو گا۔

میانمار کا روایتی بایاں بازو سٹالنزم کی جکڑ بندیوں کی وجہ سے اس خام خیالی کا شکار ہے کہ حکمران طبقے میں ایک ترقی پسند پرت پائی جاتی ہے اور عوامی تحریک کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ رجعتی پرت کے مقابلے میں اس کا دفاع کرے۔ اس خیال کی وجہ سے میانمار کا بایاں بازو حقیقت پر مبنی ایک آزادانہ مؤقف اپنانے سے قاصر ہے، جس کے ذریعے مزدوروں اور کسانوں کے حق میں آواز بلند کی جا سکے۔ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ محنت کش طبقے کی ایک آزادانہ عوامی پارٹی ہے۔

مارکس وادی فوجی ’کُو‘ کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ تمام جمہوری حقوق کا دفاع کرتے ہیں، مگر اس کے ساتھ وہ یہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ان حقوق کو آسانی سے پامال کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حالیہ’کُو‘ سے ثابت ہوا۔ فوج کے اقتدار کا حقیقی معنوں میں خاتمہ کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اس نظام کا خاتمہ کیا جائے جو اس کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ مراعات یافتہ اشرافیہ، سرمایہ داروں اور زمینداروں کے اقتدار کی جگہ ایک ایسا نظام قائم کرنا ہوگا جس میں فیصلے محنت کش خود کریں۔ میانمار میں آج اگر کسی چیز کیلئے جدوجہد کی جاسکتی ہے تو وہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد ہے۔

(اس مضمون میں درج بعض معلومات میانمار کے اندر موجود ہمارے ہمدردوں نے مہیا کی ہیں۔)

Tags: × × × ×

Comments are closed.