سانحہ جڑانوالہ کے بعد مسیحی کمیونٹی پر جاری ریاستی و مذہبی جبر۔۔نامنظور!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، فیصل آباد/لاہور|

16 اگست 2023ء کو فیصل آباد کے نواحی علاقے جڑانوالہ میں ایک اندوہناک سانحہ رونما ہوا تھا جس میں توہین قرآن کے بوگس الزامات کو بنیاد بناتے ہوئے مقامی ملاؤں اور مذہبی تنظیموں کے غنڈوں نے پولیس کی نظروں کے سامنے مسیحی کمیونٹی کے درجنوں چرچ اور گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا جبکہ علاقے کے ہزاروں مسیحیوں کو اپنی جان بچانے کی خاطر گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا۔

روز اول سے ہی اس پورے معاملے میں مذہبی غنڈوں کو حاصل ریاستی پشت پناہی واضح نظر آرہی تھی لیکن چونکہ اس ظلم و ستم کے خلاف ایک شدید عوامی رد عمل سامنے آیا تھا لہٰذا ریاست، حکومت اور انتظامیہ کو وقتی طور پر معاملات پر مٹی ڈالنے کی غرض سے ظلم کا شکار بننے والے مسیحیوں کے ساتھ ہمدردی دکھانے کا ناٹک کرنا پڑا۔ لیکن جونہی چند دن گزرے اور غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر معاشی مسائل کا شکار عوام کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہوئی تو ریاست اور حکومت نے اپنے اصل رنگ دکھانے شروع کر دیے۔ مسیحی کمیونٹی کو خوفزدہ کرنے کی خاطر ان پر بڑے پیمانے کے ریاستی کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا جو اب تک جاری ہے، اگرچہ کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اس کا مکمل بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے اور مسیحی کمیونٹی میں پھیلے زبردست خوف و ہراس کے کارن سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بہت کم بات ہو رہی ہے۔

ہم تک پہنچنے والی زمینی اطلاعات کے مطابق یہ ریاستی کریک ڈاؤن وسطی اور شمالی پنجاب کے کئی شہروں میں جاری ہے لیکن فیصل آباد اور اس کے گردو نواح کی مسیحی کمیونٹی خاص طور پر اس کا نشانہ بن رہی ہے۔ مسیحی بستیوں سے بڑی تعداد میں محنت کش نوجوانوں کو مقررہ حد سے زائد شراب رکھنے، بیچنے اور منشیات کا دھندا کرنے جیسے گھسے پٹے بوگس الزامات میں گرفتار کیا جا رہا ہے اوران پر تھانوں میں شدید تشدد کیا جا رہا ہے۔ پورے کے پورے علاقوں کی پولیس ناکہ بندی کر کے وہاں گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں جس میں بدتمیزی اور ریاستی غنڈہ گردی کی ہر حد کو عبور کیا جا رہا ہے۔

مزید برآں بھر پور ریاستی پشت پناہی میں مسیحی کمیونٹی پر مذہبی جبر کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔ کئی ایک علاقوں میں ”نامعلوم“ افراد کی جانب سے بینرز آویزاں کئے گئے ہیں جس میں مسیحی کمیونٹی کو جڑانوالہ جیسے مزید واقعات کی ننگی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ کئی ایک مسیحی بستیوں سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ وہاں ”توہین اسلام کی روک تھام“ کا جواز گھڑ کر پولیس کی آشیر باد کے ساتھ غنڈہ گرد مذہبی تنظیموں نے باقاعدہ گشت شروع کر رکھا ہے۔

اسی طرح مختلف جگہوں پر نام نہاد مقامی با اثر افراد کی جانب سے لین دین کے چھوٹے موٹے معاملات کو جواز بنا کر مسیحیوں پر بڑھتے تشدد کے واقعات بھی سامنے آ رہے ہیں جبکہ فیصل آباد کے نواحی علاقے 8 چک میں ایسے ہی ایک معاملے میں ایک معذور مسیحی محنت کش کا قتل بھی کیا گیا ہے۔ مختلف شہروں میں مسیحی بستیوں میں واقع مسجدوں سے ملا آئے روز دھمکیوں سے بھری اشتعال انگیز تقاریر کر رہے ہیں اور واضح پتا چلتا ہے کہ انہیں یہ سب کرنے کے لئے بھر پور ریاستی پشت پناہی حاصل ہے۔

گوجرانوالہ کے نواحی علاقے منڈیالہ ورڑچ میں چرچ اور مسیحی کمیونٹی کے گھروں پر دن دیہاڑے ”نامعلوم“ افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی ہے۔

اسی طرح فیصل آباد کے نواحی گاؤں خانوانہ میں پہلے مقامی چرچ کی دیوار پر مذہبی انتہا پسندانہ نعرے لکھے گئے اور بعد ازاں چرچ کے پادری کو قاتلانہ حملے میں شدید زخمی کر دیا گیا۔

ایسے ہی لاہور (چونگی دوگیچ) میں توہین اسلام کے انتہائی مشکوک الزامات کی بنیاد پر ایک مسیحی خاتون پر دفعہ 295B کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جس سے پوری بستی میں خوف و ہراس پھیل گیا اور بڑی تعداد میں مسیحی خاندان وقتی طور پر علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ یہاں واضح رہے کہ ریاستی کریک ڈاؤن اور ریاستی پشت پناہی میں ہونے والے اس مذہبی جبر کا نشانہ بننے والے مسیحیوں میں 99 فیصد کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔

اسی طرح سانحہ جڑانوالہ کے اصل ملزمان، جو مختلف مذہبی تنظیموں کے غنڈے اور ملا ہیں، دن دیہاڑے علاقے میں دندناتے پھر رہے ہیں اور کھلے عام وہاں کی مسیحی کمیونٹی کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ پنجاب پولیس اپنی نام نہاد تفتیش میں پورے واقعے کا ملبہ کبھی تو انڈین خفیہ ایجنسیوں پر ڈال رہی ہے تو کبھی اسے مسیحی کمیونٹی کے ہی دو افراد کی ذاتی رنجش کا شاخسانہ بتا رہی ہے۔

یاد رہے کہ سانحے کے فوراً بعد ”نامعلوم“ افراد کی جانب سے چلائے جانے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانب سے واقعے کا ملبہ بذات خود شدید مذہبی جبر کا شکار احمدی کمیونٹی پر ڈالنے کی مضحکہ خیز کوشش بھی کی گئی تھی اور غالباً اسی امر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پچھلے تین ہفتوں میں کراچی اور لاہور میں احمدی کمیونٹی کی دو عبادت گاہوں کو پولیس کی نگرانی میں مسمار بھی کیا گیا ہے۔

ایک اور ظلم یہ بھی کیا گیا ہے کہ مسیحی کمیونٹی کے بار بار اصرار کے باوجود سانحہ جڑانوالہ کی ایف آئی آر میں ایک تو حقیقی ملزمان کو نامزد نہیں کیا گیا اور دوسرا یہ ایف آئی آر پولیس کی مدعیت میں کاٹی گئی ہے اور وہ لوگ جن کے گھر بار اور عبادت گاہیں جلائی گئی ہیں، انہیں مدعی تک نہیں بنایا گیا۔

سانحہ جڑانوالہ کے بعد مسیحی کمیونٹی پر جاری یہ ریاستی جبر بلاوجہ نہیں ہے، بلکہ سوچے سمجھے مخصوص مذموم مقاصد کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات تو یہ ہے کہ حالیہ تاریخ میں سانحہ جڑانوالہ پہلا ایسا واقعہ تھا جس میں متاثرہ اقلیتی کمیونٹی نے خوفزدہ ہو کر چپ کر جانے کی بجائے واقعے میں ملوث مذہبی غنڈہ گرد عناصر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی کوشش کی۔ علاوہ ازیں اس سانحے کے بعد فیصل آباد جیسے اہم صنعتی شہر میں مسیحی کمیونٹی نے اپنے اوپر عرصے سے جاری ظلم و ستم کے خلاف ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ کرنے کی تیاریاں بھی شروع کر رکھیں تھیں جو کہ اگر ہو جاتا تو پھر یہ سلسلہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی چل نکلتا۔ مزید برآں یہ احتجاج ایک ایسے وقت میں ہوتے جب بجلی کے ظالمانہ بلوں اور کمر توڑ مہنگائی کے خلاف پہلے ہی ملک کے طول و عرض میں عوامی احتجاج ہو رہے تھے اور چونکہ پاکستان میں مسیحی کمیونٹی کی بھاری ترین اکثریت کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے لہٰذا اس کے احتجاج میں ریاست کی جانب سے مسلط کردہ مذہبی جبر کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے کی انتہائی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کے خلاف مجتمع غم و غصے کا اظہار ہونا بھی یقینی تھا۔ اسی طرح کچھ اطلاعات کے مطابق مسیحی آبادی رکھنے والے بعض دیہاتوں میں نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت منظم و مسلح ہو کر اپنی کمیونٹی کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دیا اور ملا عناصر کی جانب سے غنڈہ گردی کی کئی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ یہی وہ سب عوامل ہیں جن سے خوفزدہ ہو کر ریاست اور اس کے پالتو ملاؤں نے ضروری سمجھا کہ مسیحی کمیونٹی کو ننگے جبر کے ذریعے خوفزدہ کر کے ان کی آوازوں کو دبایا جائے۔

یہاں پر لازمی ہے کہ اس تمام صورتحال میں مائینارٹیز الائنس پاکستان کے کردار بھی کچھ بات کی جائے جو کہ ایک نیم این جی او ہونے کے ناطے اس ساری صورتحال کو مغربی ممالک سے مسیحی کمیونٹی کے نام پر ڈونیشنز اور پیسے بٹورنے کے لئے بھرپور استعمال کر رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نام نہاد مائینارٹیز الائنس نے ہمیشہ ایسا ہی گھناؤنا کردار ادا کیا ہے اور مسیحی کمیونٹی پر ہونے والے ریاستی و مذہبی ظلم و جبر کے ہر واقعے کے بعد اس کی قیادت کے بنک بیلنس میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں کون نہیں جانتا کہ مائینارٹیز الائنس کی قیادت پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ بھی ہمہ وقت رابطے میں ہوتی ہے جو اس دھوکے باز قیادت کو مذہبی جبر کے ہر واقعے کے بعد مسیحی کمیونٹی کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی کردار چرچ کے زیادہ تر پادری حضرات کا بھی ہے جو اپنی مذہبی دکان داری قائم رکھنے کے لئے مسیحی کمیونٹی کو عمومی سماجی دھارے سے مزید کاٹنے اور انہیں اپنے ہی خول میں مقید رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔

ریڈ ورکرز فرنٹ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کے مسیحی محنت کش عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور ان پر ہونے والے ریاستی و مذہبی ظلم و جبر کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مسیحی محنت کشوں کی ریاستی و مذہبی جبر اور معاشی استحصال کے خلاف لڑائی کو پاکستان کے محنت کش طبقے کی جبر واستحصال کے خلاف عمومی جدوجہد سے الگ تھلگ رہ کر نہیں بلکہ اس کا حصہ بن کر ہی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح محنت کش طبقے اور اس کی ٹریڈ یونینز، ایسو سی ایشنز وغیرہ کا بھی فریضہ ہے کہ وہ مذہبی اقلیتوں پر ریاستی پشت پناہی میں ہونے والے مذہبی جبر کے خلاف ایک واضح موقف لیں تا کہ اقلیتی کمیونٹیز کے محنت کشوں کو بھی بھر پور طریقے سے مزدور تحریک کے عمومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔ صرف ایسے ہی پاکستان کا محنت کش طبقہ مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالاتر ہو کر سرمایہ دار حکمران طبقے کے معاشی، سماجی و سیاسی جبر واستحصال کے خلاف متحد ہو کر اپنے فوری حقوق کے حصول اور سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

Comments are closed.