|تحریر: آدم پال|
جنگ خود ایک مسئلہ ہے‘ یہ مسئلوں کا حل کیا دے گی؟
انڈیا اور پاکستان کی چار روزہ جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے حکمران جنگ جیتنے کے دعوے کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب محنت کش عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ دونوں ملک کے عوام بھوک، بیماری، بیروزگاری اور ذلت کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ دونوں ملکوں کے حکمران دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ دونوں جانب نئے جنگی جہاز، میزائل اور دفاعی سامان خریدنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں جبکہ علاج، تعلیم اور بنیادی ضروریات سے محروم عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ مسلط کیا جا رہا ہے۔ مزدوروں کی تنخواہیں پہلے ہی انتہائی کم ترین سطح پر ہیں اور اب ان پر مزید حملے کیے جا رہے ہیں اور انہیں پہلے سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سرمایہ دار طبقے کے منافعے دونوں جانب بڑھ رہے ہیں۔ انڈیا میں امبانی، اڈانی، ٹاٹا اور دیگر سرمایہ دار طبقے کی دولت میں تیز ترین اضافہ دیکھا جا رہا ہے جبکہ پاکستان میں بھی یہی صورتحال ہے۔ یہاں بھی بینکوں، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مقامی سرمایہ داروں کی دولت نئی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے حکمرانوں نے جنگ کے حوالے سے جو اہداف طے کیے تھے انہیں بھی حاصل نہیں کیا جا سکا بلکہ ایک نئی جنگ کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔انڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کر دے گا اور اس کی بنیادیں ختم کر دے گا لیکن اس حوالے سے اسے مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے حکمران مودی کو سبق سکھانے کا دعویٰ کر رہے تھے لیکن اب مودی پہلے سے بھی زیادہ دھمکیاں دے رہا ہے اور اس کی تمام تقریروں میں جنگی جنون پہلے سے کہیں زیادہ شدت اختیار کرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ جنگ بالکل بھی ان ظاہری مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے نہیں لڑی گئی تھی جن کا دعویٰ کیا گیا تھا بلکہ پس پردہ مقاصد کچھ اور تھے۔
انڈیا میں مزدور تحریک پر حملے
درحقیقت اس جنگ کے ذریعے دونوں ملکوں کے حکمران اپنے اپنے ملک میں موجود عوامی تحریکوں اور مزدور طبقے پر مزید جبر مسلط کرنا چاہتے تھے اور جنگ کے بعد کیے جانے والے اقدامات میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ یہ عمل دونوں جانب پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔ انڈیا میں 20 مئی کو ملک گیر سطح پر عام ہڑتال کی تیاری کی جا رہی تھی جس میں 25 کروڑ سے زائد مزدور شرکت کے لیے سرگرم تھے۔
اس عام ہڑتال کے بنیادی مطالبات میں کم از کم اجرت میں اضافہ اور نجکاری کی پالیسیوں کا خاتمہ تھا۔ اس کے علاوہ مودی کی جانب سے مسلط کردہ مزدور دشمن لیبر کوڈ کی مذمت کی جانی تھی اور اس کے خاتمے کی جدوجہد تیز کرنی تھی۔ اس لیبر کوڈ کے ذریعے مزدور یونینوں پر بد ترین پابندیاں لگائی گئی ہیں، مزدوروں کو جبری برطرف کرنے سمیت ہڑتال کرنے کے حق اور دیگر حقوق پر حملے کیے گئے ہیں جس سے مزدوروں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عوامی اداروں کو بڑے پیمانے پر بیچا جا رہا ہے جن میں لائف انشورنس، ریلوے، ائرپورٹ، بینک اور دیگر اہم ادارے شامل ہیں۔ مودی سرکار اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے مزدوروں پر بد ترین حملے کر رہی ہے۔ خاص طور پر امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ کے بعد چین میں موجود امریکی کمپنیوں کو اپنی سرمایہ کاری انڈیا میں منتقل کرنے کے لیے واضح پالیسی بنائی گئی ہے جس میں ایپل اور دیگر بڑی کمپنیاں اس حوالے سے اقدامات بھی کر رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں پہلے بھی چین میں سستی لیبر کے حصول کے لیے گئی تھیں اور اب انہیں انڈیا کا حکمران طبقہ اپنے مزدوروں کے بدترین استحصال کی دعوت دے رہا ہے اور اس کے لیے مزدور دشمن قوانین مسلط کر رہا ہے۔ اس عمل سے انڈیا کے سرمایہ دار طبقے کی دولت میں تو تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے اور انڈیا کا جی ڈی پی بھی بڑھ رہا ہے اور وہ دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے لیکن دوسری جانب مزدور طبقے کی زندگیاں بد ترین استحصال کا شکار ہو رہی ہیں اور طبقاتی کشمکش شدت اختیار کر رہی ہے۔
اس طبقاتی جنگ کی اٹھان کو کچلنے کے لیے اس جنگ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس جنگ کے دوران پورے ملک میں جنگی جنون مسلط کیا گیا، جس میں میڈیا کا غلیظ کردار بھی کھل کر واضح ہوا لیکن دوسری جانب تمام اپوزیشن پارٹیوں کی مزدور دشمنی بھی کھل کر عیاں ہوئی۔ کانگریس سمیت تمام اپوزیشن مودی کے پیچھے کھڑی ہو گئی اور اس جنگی جنون کو ہوا دی گئی۔ خاص طور پر کمیونسٹ پارٹیوں کا گھناؤنا کردار کھل کر سامنے آیا، جس میں ان پارٹیوں کی قیادت نے مزدور طبقے سے بد ترین غداری کرتے ہوئے مودی کی حمایت کی اور اس جنگی جنون کو درست قرار دیا۔ ان پارٹیوں نے کمیونسٹ نظریات کے بنیادی ستون کو ہی گرا دیا جس کے تحت لینن نے واضح کیا تھا کہ مزدور طبقے کا سب سے بڑا دشمن اس کا اپنا حکمران طبقہ ہوتا ہے اور سامراجی جنگوں میں اس کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑنی ہوتی ہے۔ لیکن اس چار روزہ جنگ میں تمام کمیونسٹ پارٹیوں نے مودی جیسے عوام دشمن حکمران کا ساتھ دے کر اپنا رہا سہا بھرم بھی چکنا چور کر دیا اور حکمران طبقے کی گماشتہ بن گئیں۔
اسی سلسلے میں انہوں نے ٹریڈ یونین قیادت کے ساتھ مل کر 20 مئی کی عام ہڑتال کو بھی مؤخر کر دیا اور حکمران طبقے کا جنگی جنون مسلط کرنے کا اصل مقصد حاصل کرنے میں سب سے بڑی معاونت کی۔ اب اسی جنگی جنون کو استعمال کرتے ہوئے مزدور طبقے پر مزید حملے کیے جائیں گے اور لوٹ مار کا نیا بازار گرم کیا جائے گا۔ 20 مئی کی ہڑتال کی اہم خصوصیت یہ بھی تھی کہ مزدوروں کے ساتھ کسان بھی اس جدوجہد میں شانہ بشانہ شامل ہو رہے تھے اور پہلی دفعہ وہ بھی اپنے مطالبات ساتھ لے کر اس ہڑتال میں شریک ہونے جا رہے تھے جس کے باعث اس ہڑتال کا حجم اور اس کی قوت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی تھی۔ جنگ کے دوران اگر اس ہڑتال میں سیاسی مطالبات بھی شامل کر لیے جاتے اور جنگی جنون کی مذمت کرتے ہوئے کشمیر کے لیے حق خود ارادیت اور دیگر جمہوری حقوق پر حملوں کی مذمت کی جاتی تو یہ عام ہڑتال مودی کے خلاف ایک فیصلہ کن شکل اختیار کر سکتی تھی۔ لیکن قیادت کی نظریاتی غداری کے باعث اب یہ مؤخر ہو چکی ہے لیکن سماج میں ابلتے لاوے کو زیادہ عرصے تک نہیں روکا جا سکتا اور آنے والے عرصے میں یہ کسی نہ کسی شکل میں دوبارہ اپنا اظہار کرے گا۔
پاکستان میں عوامی تحریکوں پر حملے
پاکستان کے حکمران طبقے نے بھی یہاں موجود عوامی تحریکوں پر بد ترین حملوں کا آغاز کر دیا ہے اور اس جنگ کے بعد ابھرنے والی صورتحال میں زیادہ بڑے حملے کر دیے ہیں۔ ایک طرف فوجی بجٹ میں بڑے پیمانے پر اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف آئی ایم ایف کے احکامات کے تحت مہنگائی اور بیروزگاری کے بد ترین حملے کیے جا رہے ہیں۔ لاکھوں ملازمین کو سرکاری نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے اور پنشنوں اور تنخواہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں جبکہ دوسری جانب مہنگائی اور بیروزگاری کی پالیسی مسلط کی جا رہی ہے۔ اس دوران حکمرانوں کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں پر بد ترین ریاستی جبر مسلط کیا جا رہا ہے اور ہر اٹھنے والی آواز کو بزور طاقت کچلا جا رہا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اس جنگ کی ضرورت مودی سے زیادہ تھی کیونکہ اِس وقت ملک کے طول و عرض میں بہت سی عوامی تحریکیں جاری ہیں جن کو تمام تر جبر کے باوجود حکمران کنٹرول نہیں کر پا رہے تھے۔
”آزاد“ کشمیر اور گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت میں تحریکیں موجود ہیں، جنہیں بد ترین ریاستی جبر کے باوجود کچلا نہیں جا سکا۔ ان دونوں جگہوں پر ان تحریکوں نے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں جس نے عوام کے حوصلے بلند کیے اور رائج الوقت تمام پارٹیوں کی عوام دشمنی بھی بے نقاب کی ہے جبکہ ریاستی جبر کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کا طریقہ کار بھی عوام کے سامنے ابھر کے آیا ہے۔ ان تحریکوں کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ عوام کو اپنی طاقت پر یقین آنے لگ گیا ہے جو حکمرانوں کے لیے سب سے زیادہ خوف کا باعث ہے۔ اسی لیے جنگ کے بعد کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان تحریکوں پر حملوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ گلگت میں عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت پر جھوٹے مقدمات بنا کر انہیں قید کیا گیا ہے اور قید کے دوران ان پر بد ترین مظالم کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح پوری تحریک پر حملے کیے جا رہے ہیں اور خوف اور دہشت کا ماحول بنایا گیا ہے جس میں سیاسی کارکنان کے گھروں پر چھاپے اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی دوران عوام دشمن لینڈ ریفارمز بل بھی پیش کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح دیگر عوامی تحریکوں پر بھی جبر مسلط کیا جا رہا ہے۔ بلوچ عوامی تحریک کی قیادت کو بھی پابند سلاسل کیا گیا ہے اور جعلی مقدمات میں پھنسا کر ایک طرف قیادت کو تحریک سے کاٹا گیا ہے تو دوسری جانب تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس تحریک کو جہاں ریاستی جبر اور فوجی آپریشنوں سے کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں اس کے نام نہاد مسلح ہمدرد دہشت گردی کے حملوں سے اس تحریک کی پیٹھ میں چھُرا گھونپتے ہیں اور عام مزدوروں کے قتل اور دیگر مسلح کاروائیوں سے اس عوامی تحریک کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ اس لیے اس تحریک کے کارکنان کو دونوں محاذوں پر لڑنے کی ضرورت ہے اور دونوں کو شکست دینی ہو گی۔ اسی طرح سندھ میں ابھرنے والی عوامی تحریک پر بھی حملے کیے گئے ہیں اور اس کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہی صورتحال پشتون عوامی تحریک کے ساتھ بھی ہے۔
جنگی جنون اور تلخ حقائق
جنگ کے بعد میڈیا اور سیاسی لیڈروں کی تقریریں دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان نے تاریخی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ بلکہ ایسا شائبہ ہونے لگا کہ شاید کشمیر آزاد کروا لیا گیا ہے، انڈیا پر قبضہ کر لیا گیا اور دیگر تمام اہداف حاصل کر لیے گئے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور درحقیقت ایک نئی جنگ کی بنیادیں استوار ہو چکی ہیں جو کسی بھی وقت یہاں کا امن و امان پوری طرح تباہ کر سکتی ہیں۔ پہلے ہی مئی میں ہونے والی چار روزہ جنگ دونوں ملکوں کو نیو کلئیر حملوں کے قریب لے آئی تھی جو پوری انسانیت کے لیے ہی خطرہ تھی اور اس خطے کے عوام کے لیے قیامت کا سماں ہونا تھی۔ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کے جنگی جنون نے اس خطے میں بسنے والے اربوں انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کے لیے ہی خطرے کی گھنٹیا بجا دی ہیں۔ یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں اور جب تک یہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے یہ خطرہ موجود رہے گا۔
لیکن دوسری طرف اس جنگ نے اس نظام کے بہت سے تضادات بھی عوام پر واضح کیے ہیں اور جنگیں مسلط کرنے والے اس نظام کے خلاف نفرت بھی سلگ رہی ہے۔ عوام پر واضح ہو چکا ہے کہ یہ حکمران مکمل امن قائم نہیں رکھ سکتے جبکہ دوسری جانب جنگ کی آڑ میں مزدور طبقے پر حملے بھی مزید شدت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں کا اصل دشمن سرحد کے دوسری جانب موجود نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے عوام ہیں جنہیں یہ سات دہائیوں سے لوٹ رہے ہیں اور آنے والے عرصے میں مزید لوٹیں گے۔
اس دوران آرمی چیف کی فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی نے بھی بہت سے نئے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ اس شان و شوکت اور نئے عہدے سے کیا عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل ہو گا۔ کیا بجلی، پٹرول اور دیگر ضروریات سستی ہوں گی، بلکہ وہ تو پہلے سے بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ دوسرا اس عہدے سے کیا حکمران اپنے آپسی تضادات حل کر لیں گے اور ریاست مضبوط ہو گی۔ اگرچہ بظاہر ایسا لگ رہا ہے لیکن ان ترقیوں کی حقیقت یہی ہے کہ اپنی اندرونی کمزوری کو چھپانے کے لیے ظاہری شان و شوکت کا دکھاوا کیا جا رہا ہے۔ داخلی تضادات اور ریاست کا بحران پہلے سے زیادہ شدت اختیار کر چکے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ اور چین کی سامراجی لڑائی جہاں عالمی سطح پر شدت اختیار کر رہی ہے وہاں پاکستان میں بھی یہ دونوں سامراجی طاقتیں اس ریاست کو اپنی جانب کھینچ رہی ہیں جس میں ٹوٹ پھوٹ مزید بڑھ رہی ہے۔ جنگ کے بعد یہ تضاد مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل ایوب اور 1968-69ء کا انقلاب
اس صورتحال میں اس ملک کے پچھلے فیلڈ مارشل کے اقتدار کو بھی یاد کرنا ضروری ہے۔ 1965ء کی جنگ کے بعد جنرل ایوب اپنے آپ کو بہت زیادہ طاقتور محسوس کر رہا تھا اور خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی بھی دے دی تھی۔ لیکن اس دوران ہی اس ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی انقلابی تحریک سماج میں پنپ رہی تھی جس نے 1968-69ء میں کھل کر اپنا اظہار کیا۔ اس ملک کی سب سے طاقتور عام ہڑتال کے نتیجے میں وہ 24 مارچ 1969ء کو استعفیٰ دے کر جانے پر مجبور ہوا۔ اُس وقت پورے میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت موجود تھی۔ مزدور فیکٹریوں پر قبضے کر رہے تھے جبکہ کسانوں نے جاگیروں پر قبضے شروع کر دیے تھے۔ پورے ملک میں، مغربی اور مشرقی حصوں میں سوشلزم کا نعرہ گونج رہا تھا اور عوام نے پورے ملک کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا۔
ایوب خان نے اپنی ڈائری میں خود لکھا تھا کہ پولیس، ڈپٹی کمشنر اور دیگر ریاستی مشینری مفلوج ہو چکی ہے اور پورا ملک عوام کے کنٹرول میں ہے۔ اُس وقت اگر کمیونسٹ قیادت درست لائحہ عمل دیتی تو سرمایہ دارانہ نظام ختم کر کے ایک سوشلسٹ انقلاب کامیاب کیا جا سکتا تھا۔ لیکن سٹالنزم اور ماؤازم کی نظریاتی غداریوں کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔ آج یہ سماج چھ دہائیوں کا چکر کاٹ کر پھر اسی صورتحال کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اِس وقت مارکس، اینگلز، لینن اور ٹرا ٹسکی کے نظریات سے مسلح انقلابی کمیونسٹ پارٹی اگر درست سمت میں آگے بڑھتی ہے تو آنے والے عرصے میں ابھرنے والی انقلابی صورتحال میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اِس ملک کا سوشلسٹ انقلاب درحقیقت خطے کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کا آغاز ہو گا اور پورے خطے سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جائے گی، جو ان تمام مصنوعی سرحدوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ان جنگوں اور لوٹ مار کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی اور ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کا نقطہ آغاز بنے گی۔