ٹنڈو محمد خان: سندھ آبادگار شوگر ملز سے برطرف محنت کش سراپا احتجاج!
ٹنڈومحمدخان کے سندھ آبادگارشگرملز سے جبری طور پر برطرف ملازمین انصاف کے حصول کے لیے گذشتہ سات دن سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں
ٹنڈومحمدخان کے سندھ آبادگارشگرملز سے جبری طور پر برطرف ملازمین انصاف کے حصول کے لیے گذشتہ سات دن سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں
ریڈ ورکرز فرنٹ بلوچستان بھر کی مزدور تنظیموں کے ایک پیج پر آنے کو خوش آئند قرار دیتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سامراجی عالمی مالیاتی ادارے کی منظورِ نظر تبدیلی سرکار کی جانب سے ملک بھر کے محنت کش طبقے پر ہونے والے معاشی حملوں کا جواب بلوچستان سے لیکر ملک بھر کے محنت کش طبقے کے طبقاتی بنیادوں پر اتحاد اور اتفاق کے ذریعے ہی ممکن ہے
پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ عوام کی جمہوری آزادیوں پر ہر قسم کے حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام جبری طور پر اغوا کیے گئے سیاسی و سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو فی الفور بازیاب کیا جائے اور آئندہ کے لیے اس طرز کی غیر آئینی اور آمرانہ پالیسیوں کا سلسلہ ختم کیا جائے
|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ،بلوچستان| نیشنل بینک آف پاکستان جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب کے سامنے نیشنل بینک کی مجوزہ نجکاری کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھارکھے تھے جن پر مختلف نعرے اور مطالبات درج تھے۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے […]
ہانگ کانگ کے محنت کشوں اور نوجوانوں بہت تلخ سبق ملا ہے۔ انہیں یہ نتیجہ لازمی اخذ کرنا چاہیے کہ آزادی کا واحد راستہ چین سے ہو کر گزرتا ہے۔ وہ واحد طاقت جو بیجنگ میں سرمایہ دارانہ آمرانہ حکومت کو شکست دینے میں ان کی مدد کر سکتی ہے وہ چین کا مزدور طبقہ ہے
بلوچستان میں کول مائنز اونرز، ٹھیکیدار، نام نہاد لیبر قیادت سمیت ان تمام تر حادثات اور واقعات میں ریاستی غفلت، نااہلی اور بے حسی میں برابر کے شریک ہیں۔ حادثے کے بعد کچھ وقت کے لیے یہ تمام لوگ مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، مگر درحقیقت ان حادثات کی روک تھام نہ کرنے پر ان تمام لوگوں کا گٹھ جوڑ واضح ہے
لائن مینوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے موجودہ لائن مینوں سے 12 سے 16 گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ لگاتار کام اور تھکاوٹ کی وجہ سے بھی حادثات جنم لیتے ہیں۔ صارفین کی تعداد اور نئی یارڈ سٹک کے مطابق نئی بھرتیاں کرکے حادثات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔
چند روز قبل مٹھی شہر، ضلع تھرپارکر میں بھیل برادری نے دو دن زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں دو ہزار سے زائد لوگ شریک ہوئے جن میں اکثریت محنت کش خواتین کی تھی
چاروں صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے محنت کشوں نے بھی اس احتجاج اور قلم چھوڑ ہڑتال میں شرکت کی۔پنجاب کے 36 اضلاع میں احتجاج و ہڑتال ہوئی۔لاہور شہر کے تقریباًً تمام سرکاری دفاتر میں قلم چھوڑ ہڑتال کی گئی
ایک طرف تبدیلی سرکار ملک میں سیاحت کے فروغ اور سیاحت سے زرمبادلہ کمانے کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے اور وزیر اعظم یہ بتاتا نہیں تھکتا کہ پاکستان میں سیاحت سے کتنا پیسہ کمایا جاسکتا ہے مگر دوسری جانب پی ٹی ڈی سی موٹلز کی نجکاری کا اقدام اس سب کی نفی اور حکومتی عزائم کا پردہ چاک کرتا ہے۔
حالیہ معاشی اعداد و شمار کے مطابق عالمی معیشت کے زوال کی شرح میں کمی آئی ہے جس کو دیکھ کر سرمایہ داروں اور سٹاک مارکیٹوں نے سکھ کا سانس لیا۔ تاہم کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوا اور لاک ڈاؤن میں نرمی سے آنے والی ناگزیر بہتری سے گہرے معاشی، سماجی اور سیاسی بحران کا منظر نامہ تبدیل نہیں ہوگا۔
ریل مزدوروں کے بنیادی مطالبات میں تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ، نجکاری اور جبری چھانٹیوں کا خاتمہ، ٹیکنیکل الاؤنس کا حصول، سکیل اپ گریڈیشن اور کنٹریکٹ ملازمین کی مستقلی شامل ہیں۔ جلسے کے آخر میں اعلان کیا گیا کہ اگر 5 اگست تک مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو پورے ملک میں ریل کا پہیہ جام کر دیا جائے گا۔
برصغیر سے غربت، بھوک کے خاتمے اور کرونا وبا سے مقابلے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے لیکن ایسا کرنے کے لیے درکار دولت اور سائل مٹھی بھر لوگوں کی ملکیت میں ہیں۔ یہ ہوشربا دولت محنت کشوں کے خون اور پسینے سے نچوڑی گئی ہے۔ بھارت کا حکمران طبقہ اس نابرابری کو قائم و دائم رکھنے کی خاظر ہر حد تک جانے کو تیار ہے۔
ریلوے میں اس وقت 76ہزار کے قریب محنت کش اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں جبکہ اب بھی 28 ہزار کے قریب خالی آسامیاں موجود ہیں جن کو پر نہ کرنے کی وجہ سے ایک مزدور چار سے پانچ آدمیوں کا کام کرتا ہے