پاکستان: آئی ایم ایف کے احکامات پر سرکاری ملازمین کی نوکریوں اور پنشن پر ڈاکہ

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

اطلاعات کے مطابق پاکستانی ریاست آئی ایم ایف پروگرام کے تحت حاضر سروس سرکاری ملازمین کو جبری طور پر قبل از وقت ریٹائر کرنے، پینشن اور مستقل ملازمت کو ختم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ اس ضمن میں تین کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں جو گریڈ 1 تا 16، گریڈ 17 تا 20 اور گریڈ 21 تا 22 کے سرکاری ملازمین و افسران کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی۔ یہ کمیٹیاں سفارشاتِ، طریقہ کار بمعہ اخراجات مرتب کر کے حکومت کو پیش کریں گی جس کے بعد چند مہینوں میں جبری برطرفیوں اور قبل از وقت ریٹائر منٹس کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ وفاقی محکموں میں خالی اسامیوں کے خاتمے کا اعلان پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔اب پہلے مرحلے میں 58 سال کی عمر کے ملازمین کو 2 سال کی جبری چھٹی پر گھر بھیج دیا جائے گا۔ اس کے بعد 30 سال اور 25 سال سروس والے ملازمین کی باری آئے گی۔ قبل از وقت جبری ریٹائر منٹ کا نشانہ بننے والے ملازمین کی خالی اسامیوں کو زیادہ تر ختم کر دیا جائے گا اور جو بچیں گی ان پر آئندہ کسی کو مستقل ملازمت نہیں دی جائے گی۔ سروس قوانین میں تبدیلی لا کر ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کر دی جائے گی۔

جبری طور پر قبل از وقت ریٹائر کئے جانے والے ملازمین کے واجبات یکمشت ادا کر کے ان کی پینشن ختم کر دی جائے گی اور آئندہ کے لئے بھی وفاقی اور صوبائی سطح پر پینشن کو سرے سے ختم کر دیا جائے گا۔ جبکہ مستقل ملازمتیں بھی ہمیشہ کے لئے ختم کر دی جائیں گی۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ نشانے پر کنٹریکٹ ملازمین ہوں گے جن کے سالانہ کنٹریکٹ کی تجدید نہیں ہو گی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ان تمام اقدامات سے 45 لاکھ ملازمین متاثر ہوں گے جس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ 45 لاکھ خاندان کا مستقبل ہمیشہ کے لئے تاریک ہو گیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ خبریں پچھلے دو سال سے گردش کر رہی ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام کی پیشگی شرائط میں ان کو امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ اس کا جواز یہ ہے کہ اگلے 5 سالوں میں ریاستی اخراجات کم کئے جائیں۔ لیکن اس سارے پلان میں ججز، جرنیلوں، بیوروکریٹوں، ممبران پارلیمنٹ کی عیاشیوں، مراعات اور پینشنوں کا ذکر نہیں ہے جو ریاستی اخراجات پر ایک بڑا بوجھ ہیں۔ اس وقت سالانہ بجٹ کے چار سب سے بڑے اخراجات بیرونی و داخلی قرضہ جات کی واپسی، نام نہاد دفاعی اخراجات،سرمایہ داروں کو دی جانے والی سبسڈیاں اور ریاستی افسر شاہی و دیگر اعلی حکام کی عیاشیاں ہیں۔ بالفرض ریاستی اخراجات کم کرنا ہی مقصد ہے تو ان تمام کی موجودہ تنخواہوں، مراعات اور پینشنوں کو ایک عام ملازم کے برابر لایا جانا چاہئے،سرمایہ داروں کو دی جانے والی سبسڈیوں کا مکمل خاتمہ ہونا چاہئے،فوجی بجٹ میں ایک بڑی کٹوتی ہونی چاہئے کیونکہ اس کا ایک بڑا حصہ درحقیقت فوجی اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر قرض واپسی کا تمام تر بوجھ سرمایہ دار طبقے پر ڈالنا چاہئے کیونکہ یہ تمام قرضے نہ تو عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے۔ اس ساری صورتحال میں ستم ظریفی یہ ہے کہ اس بجٹ میں ان اخراجات کی مد میں رقم کا حجم بڑھاتے ہوئے غریب عوام کی جیبوں پر مزید بڑے ڈاکے ڈالے جا رہے ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔ اضافہ تو درکنار کورونا وائرس کا بہانہ کر کے تنخواہوں میں کٹوتیاں کر دی گئی ہیں جس کے بعد نجی شعبہ بھی دیکھا دیکھی خوفناک کٹوتیاں اور جبری برطرفیاں کر رہا ہے۔

یہ حکمران طبقے کی عمومی مزدور اور عوام دشمن پالیسی ہے جس کے تحت عوامی اداروں کی نجکاری اور ملازمین کی جبری برطرفیاں کی جا رہی ہیں جبکہ دوسری طرف حکمران کورونا وائرس بیل آوٹ پیکج کے نام پر سرمایہ داروں کو 1200 ارب روپے کا”تحفہ“ دے چکے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں سرمایہ دار طبقے کو دی جانے والی ٹیکس کٹوتیاں اور چھوٹیں اس کے علاوہ ہیں۔ سرمایہ دار حکمران طبقے کی تاریخی نا اہلی، کرپشن اور سامراجی غلامی کی قیمت محنت کش طبقے سے وصول کی جا رہی ہے۔ روزانہ کھربوں روپوں کے گھپلوں اور کرپشن کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہوتی ہیں جبکہ اشیاء خوردونوش اور ضروریات زندگی میں ہوشرباء لوٹ مار نے عوام کی پسلی توڑ کر رکھ دی ہے۔

اس وقت پورا ملک خوفناک معاشی بربادی میں گھرا ہوا ہے جس کی قیمت عوام سے جبراً وصول کی جا رہی ہے۔ آٹے، چینی اور پٹرول سے لے کر صحت، تعلیم اور رہائش عام شہری کی دسترس سے باہر ہو چکے ہیں جبکہ ٹیکسوں کے پہاڑ لاد دیے گئے ہیں اور مزید لادے جا رہے ہیں۔ محتاط ترین اندازوں کے مطابق بھی پچھلے دو سالوں میں ملک میں بیروزگار ہونے والوں کی تعداد میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کا اضافہ ہو چکا ہے جبکہ اتنے ہی افراد غربت کی لکیر سے نیچے گر چکے ہیں۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ایک عام شہری کی تدفین کے اخراجات حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں جبری برطرفیوں اور پینشنوں کو ختم کرنے کا مطلب ملازمین اور ان کے خاندانوں کے ہاتھ پیر باندھ کر ان گلے پر چھری پھیرنا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ ان عوام دشمن قاتل اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے لاگو ہونے کی شدید مخالفت کرتا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ ان کمیٹیوں کو فوراً ختم کرتے ہوئے جبر ی بر طرفیوں،قبل از وقت ریٹائر منٹس،ڈاؤن سائزنگ،نجکاری اور پینشنوں کے خاتمے جیسے تما م مزدور دشمن اقدامات کا فوری خاتمہ کیا جائے اور معاشی بحران کا تمام تر بوجھ سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ پر ڈالا جائے۔لیکن سرکاری ملازمین اور دیگر تمام محنت کشوں کو یہ بالکل واضح ہونا چاہئے کہ یہ حکمران طبقہ لاتوں کا بھوت ہے اور باتوں سے نہیں مانے گا لہذا ان مزدور دشمن حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پورے ملک کے محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہونا پڑے گا اور مشترکہ مطالبات کے عمومی پروگرام کے گرد ایک ملک گیر عام ہڑتال کی تیاری کرنا ہو گی۔صرف اس عام ہڑتال کے ذریعے ہی محنت کش حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے ان کے مذموم ارادوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔

Comments are closed.