کوئٹہ: ایپکا بلوچستان کے زیرِ اہتمام بی ایم سی بحالی کے لیے صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی جلسہ!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|

بلوچستان اسمبلی کے سامنے تحریکِ بحالیٔ بی ایم سی کے لیے ایپکا بلوچستان کے زیراہتمام دھرنے کے 18 ویں دن بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی جلسہ ہوا، جس میں ایپکا کے مختلف یونٹس کے علاوہ دیگر مزدور تنظیموں نے شرکت کی۔ احتجاجی جلسے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان نے بھرپور شرکت کی۔
تحریکِ بحالی بی ایم سی کے احتجاجی جلسے سے صدر ایپکا بی ایم سی یونٹ سید عبدالباسط شاہ اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل یونیورسٹی کا قیام میڈیکل کی تعلیم و ترقی کے لیے کس قدر ناگزیر ہے یہ ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا ہے۔ یونیورسٹی کا قیام خوش آئند اقدام ہے جہاں میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے صوبے ہی میں مواقع میسر ہوں گے، اسی طرح صوبے میں میڈیکل کے شعبے میں میں تحقیقی کام کا منظم آغاز بھی کیا جاسکے گا۔ اس کے علاوہ میڈیکل کے امتحانات کا انعقاد کرانا ایک میڈیکل یونیورسٹی کی ذمہ داریاں ہیں بلوچستان میں صوبے کی پہلی میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کے حوالے سے صوبائی اسمبلی نے BUMHS ایکٹ 2017ء دسمبر میں پاس کر کے یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دی گئی جس پر صوبے بھر میں خاص کر بولان میڈیکل کالج کے ملازمین نے سراہا۔ مگر بدقسمتی کہیں یا بد دیانتی کے ایکٹ بناتے وقت ملازمین کو اعتماد میں نہیں لیا گیا بلکہ اس ایکٹ کو چھپایا گیا۔ اگست 2018کو ادارے میں وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔

صدر ایپکا بلوچستان داد محمد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اپریل 2019ء کو ایکٹ عملی طور پر نافذ العمل ہوا۔ میڈیکل کالج صوبائی حکومت کے زیر انتظام ادارہ تھا جسے خود مختار ادارے کے زیرانتظام دے دیا گیا۔ حقائق سامنے آئے جیسا کہ میڈیکل کالج کے کل ملازمین کی تعداد1414ہے جن میں چھ سو کے قریب نان ڈاکٹرز ہیں۔ کوئٹہ شہر کے تمام تدریسی ہسپتالوں میں بی ایم سی کے ملازمین اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ان میں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال، سول سنڈیمن ہسپتال، فاطمہ جناح ٹی بی سینیٹوریم، ہلیپرز آئی ہسپتال، ریجنل بلڈ سنٹر، تھیلیسیما سنٹر وغیرہ شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملازمین کی موجودہ تعداد ایک میڈیکل کالج کے امور کو بہ طریق احسن چلانے کے لیے ناکافی ہے۔ دوسرے صوبوں میں یہ تعداد تین تا چار ہزار تک ہے، جس کو یونیورسٹی میں ٹرانسفر کیا گیا۔جوکہ پاکستان کے سروس رولز کی سنگین خلاف ورزی ہے، دوم ایکٹ میں اٹھارویں ترمیم کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے جیسا کہ یونیورسٹی کو صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہونا چاہئے نہ کہ گورنر کے۔ اس کے علاوہ صوبائی صدر نے کوئٹہ میں پورے صوبے میں ایپکا کیجانب سے دو دن کے لیے جمعرات اور جمعہ کے لیے قلم چھوڑ ہڑتال کا اعلان کیا۔ جبکہ ہر ضلع میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی۔

احتجاجی جلسے سے ریڈ ورکرز فرنٹ کے صوبائی آرگنائزر کریم پرھر نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی ایم سی کو نام نہاد خودمختار ادارے کے نام پر نجکاری کی طرف لے جایا جارہا ہے، جس کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت ہم ریاست کے دو بنیادی اداروں (عدلیہ اور اسمبلی) کے درمیان بیٹھے ہیں مگر یہ بات واضح ہے کہ یہ دونوں ادارے اور بیوروکریسی سمیت سب اس گھناؤنے جرم میں شریک ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں مزدور کے طاقت سے ہٹ کر کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حالیہ بجٹ اور نجکاری کے معاملے پر سب سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر ہیں۔ یہاں سندھ حکومت کی جانب سے بجٹ میں 10 فیصد اضافے کی بات کی جا رہی ہے، تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس وقت کراچی پریس کلب پر روزانہ مزدور برسرِ احتجاج ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیو ورکرز کو بیروزگار کیا جارہا ہے، جبکہ ہیلتھ سیکٹر کے ملازمین کی تنخواہوں میں کٹوتی ہورہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کہ ہمیں بلوچستان کے محنت کش طبقے سمیت پورے ملک کے محنت کش طبقے کو ایک پیج پر لانے کے لیے ملک گیر عام ہڑتال کی طرف جانا ہوگا تاکہ ہم محنت کش طبقے کی طاقت ان نااہل حکمرانوں کو دکھا سکیں۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے بی ایم سی کے ایکٹ میں تبدیلی کی حمایت اور ادارے کو خودمختاری کے نام پر نجکاری کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اور ہماری تنظیم مزدور طبقے کے معاشی و سماجی استحصال کیخلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کرے گا۔

اس کے بعد ایپکا کے ضلعی صدر رحمت اللہ زہری نے کہا کہ ہم پچھلے آٹھ مہینوں سے برسراحتجاج ہیں مگر ان نااہل حکمرانوں کو کوئی پرواہ تک نہیں ہے بلکہ وہ آئین و قانون کو اپنے پاوں تلے روند رہے ہیں جسکا اظہار ہمیں اس بی ایم سی ایکٹ کی شکل میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالانکہ آئین و قانون کے مطابق کسی بھی سرکاری ملازم کو خودمختار یا کسی بھی دوسرے ادارے میں ان کی مرضی کے خلاف نہیں بھیجا جا سکتا ہے۔جبکہ یہاں پر یہ سب چیزوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہو رہی ہے جس کے خلاف ہم ایپکا کے پورے ملک میں احتجاج کی کال دینگے۔

تحریک کے چیئرمین عبداللہ صافی نے خطاب کرت ہوئے کہا کہ بولان میڈیکل کالج ایک قدیم اور کامیاب ادارہ ہے۔ یہاں ہر سال تقریباً تیس سے چالیس ملازمین ریٹائر ہورہے ہیں اور یونیورسٹی کے پاس ان کے واجبات کی ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں ہے۔ اسی طرح میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی، سکالرشپ، فیس کے مسائل فرد واحد کی منشا پر ہونا، سینٹ، سینڈیکٹ سے دھوکہ دہی کے ذریعے منظوری لینا جس کاثبوت خود یونیورسٹی کے سینٹ کے ممبر زمرک اچکزی ہیں جنہوں نے فیسوں میں کئی گنا اضافہ پر اجلاس میں کہا کہ ہمیں غلط بریف کیا گیا ہے، فیس بڑھانے کی منظوری میں دستخط لیتے ہوئے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

اس سے قبل بھی دیگر صوبوں میں اسی طرح کے مسائل سامنے آئے ہیں۔ خیبر میڈیکل کالج کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی کا حصہ بناتے وقت اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کا حصہ بناتے ہوئے ہوا۔ وہاں پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے نئے میڈیکل کالج یونیورسٹیز کو دیے گئے،کوہاٹ میڈیکل کالج اور گوجرانوالہ میڈیکل کالج جب کہ یونیورسٹیاں صوبائی دارالخلافہ میں آئے اور اپنے تمام امور بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ صوبوں کے بنیادی میڈیکل کالجز صوبوں کے اثاثہ جات ہیں۔ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز انتظامیہ ایک طرف فنڈ نہ ہونے کا رونا رو رہی ہے اور دوسری طرف کنٹریکٹ پر بھاری تنخواہوں کے عوض افسران بھرتی کیے جارہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ یونیورسٹی نے اب تک اعلیٰ تعلیم اور امتحانات کے حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق یونیورسٹی کی بلڈنگ پانچ سو ایکڑ زمین پر تعمیر ہونی چاہیے اور ہر ملازم کی جاب ڈسکرپشن جاری ہونی چاہیے۔ صوبے کے بنیادی اور بہترین میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی حکومت بلوچستان کے پاس ہونی چاہے نہ کہ فرد واحد کے پاس۔ جو اپنی خواہش کے مطابق اوپن میرٹ کی سیٹوں میں کمی نہ کرتااور نہ ہی طلبہ کے سکالرشپ کی بندش ہوتے اور نہ ہی فیس میں کئی گنا اضافہ کیا جاتا۔اسی طرح سلف فنانس کی سیٹوں کا اجرا نجی کاری کی طرف ایک اور قدم ہے اور غریب محنتی طلبہ پر میڈیکل کی تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔

Tags: × ×

Comments are closed.