پاکستان: پینڈورا پیپرز، کرپشن اور سرمایہ داری

|تحریر: فضیل اصغر|

چند روز قبل پینڈورا پیپرز نامی عالمی صحافتی انکشافات منظر عام پر آئے۔ ان انکشافات میں دنیا بھر کے ارب پتیوں، جن میں مختلف ممالک کے صدور، وزرا، وزرائے اعظم، سیاست دان، حاضر سروس و ریٹائرڈ جرنیل، شوبز کے بڑے نام، کھلاڑی اور سرمایہ دار، اور ان کے خاندان شامل ہیں، کے مجموعی طور پر تقریباً 32 ہزار ارب ڈالر کی بیرون ممالک میں جائیدادوں کی تفصیلات سامنے لائی گئیں جو آف شور کمپنیوں اور دیگر ذرائع سے کنٹرول کی جا رہی ہیں۔ ان انکشافات میں کئی پاکستانی حکمرانوں کے بھی نام آئے ہیں جن میں کئی سیاستدان،میڈیا مالکان، جرنیل اور بڑے سرمایہ دار شامل ہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسے صحافتی انکشافات منظر عام پر آچکے ہیں جیسے 2013ء میں آف شور لیکس، 2016ء میں المشہور پانامہ پیپرز، 2017ء میں پیراڈائز پیپرز اور اب 2021ء میں پینڈورا پیپرز۔

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹیو جرنسلٹس نامی عالمی صحافتی ادارے کی جانب سے یہ انکشافات منظر عام پر لائے گئے۔ پینڈورا پیپرز اب تک کے سب سے بڑے انکشافات ہیں۔ ان کے ڈاٹاکا حجم 2.94 ٹیرا بائٹ کا ہے، جو کہ سابقہ تمام انکشافات سے زیادہ ہے۔ پینڈورا پیپرز میں مختلف ڈاکومنٹس، ایکسل فائز، آڈیو، وڈیو اور تصاویر وغیرہ کو ملا کر کُل 1 کروڑ 19 لاکھ دستاویزات بنتی ہیں۔

پینڈورا پیپرز نے ایک بار پھر امیروں کی کرپشن اور بے تحاشا دولت کا پردہ فاش کیا ہے۔ عالمی سطح پر مشہور ناموں میں اردن کا بادشاہ عبداللہ دوم، جس نے برطانیہ اور امریکہ میں خفیہ کمپنیوں کے ذریعے 10 کروڑ کی پراپرٹی خریدی؛ چیک ریپبلک کا وزیراعظم آندرے بابہس، جس نے 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی پراپرٹی فرانس میں ایک آف شور کمپنی کی مدد سے خریدی؛ آزر بائیجان کا صدر الہان الیئیو اور اس کا خاندان، جنہوں نے 40 کروڑ پاؤنڈ کی پراپرٹی خفیہ طور پر برطانیہ میں خریدی؛ کینیا کا صدر اُوہورو کینیاتا اور اس کے خاندان کے چھ افراد، جن کی 13 آف شور کمپنیاں ہیں؛ لیبر پارٹی کا سابقہ سربراہ اور 1997ء تا 2007ء تک برطانیہ کا وزیر اعظم رہنے والا ٹونی بلئیر، جس نے برٹش ورجن آئیلینڈز کے تحت 88 لاکھ ڈالر میں ایک بلڈنگ خریدی جس میں اب اس کی بیوی چیری بلیئر کی لاء فرم قائم ہے؛ روسی سرمایہ دار لیونیڈ لیبیدیف اور روسی صدر پیوٹن کے قریبی لوگ جیسے کونسٹینٹن ارنسٹ اور سویتلانا کریونو گِخ؛ ہندوستانی کرکٹر سچن ٹنڈولکر اور ہندوستانی سرمایہ دار انیل امبانی سمیت دیگر کئی لوگ شامل ہیں۔ اسی طرح آف شور کمپنیوں اور ٹرسٹوں وغیرہ کے جرائم کی دنیا کے ساتھ تعلقات بھی سامنے آئے مثلاً امریکی ریاست جنوبی ڈاکوٹا میں موجود ٹرسٹوں میں 360 ارب ڈالر کے اثاثے موجود ہیں، جن میں کافی اثاثے ان لوگوں اور تنظیموں کے بھی ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

آف شور کمپنیاں اور ٹرسٹ عمومی طور پر کالا دھن بیرون ممالک منتقل کرنے اور ٹیکس چوری کیلئے ہی بنائے جاتے ہیں۔ یہ تمام ممالک کے نام نہاد ’آئین و قانون‘ کی نظر میں بالکل جائز عمل ہے۔ در حقیقت یہ امیروں کی جانب سے اپنے اپنے ممالک میں کی گئی لوٹ مار کا پیسہ ایک محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اس میں پیسہ دنیا کے ان ممالک اور ریاستوں میں منتقل کیا جاتا ہے جہاں ٹیکس سمیت اور بھی کسی قسم کی کوئی قانونی پوچھ گچھ نہیں ہوتی کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے ہے، اگر کہیں ٹیکس لگتا بھی ہے تو وہ بھی انتہائی کم۔

آف شور کمپنیاں اور ٹرسٹ عمومی طور پر کالا دھن بیرون ممالک منتقل کرنے اور ٹیکس چوری کیلئے ہی بنائے جاتے ہیں۔ یہ تمام ممالک کے نام نہاد ’آئین و قانون‘ کی نظر میں بالکل جائز عمل ہے۔ در حقیقت یہ امیروں کی جانب سے اپنے اپنے ممالک میں کی گئی لوٹ مار کا پیسہ ایک محفوظ مقام پر منتقل کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ اس میں پیسہ دنیا کے ان ممالک اور ریاستوں میں منتقل کیا جاتا ہے جہاں ٹیکس سمیت اور بھی کسی قسم کی کوئی قانونی پوچھ گچھ نہیں ہوتی کہ یہ پیسہ آیا کہاں سے ہے، اگر کہیں ٹیکس لگتا بھی ہے تو وہ بھی انتہائی کم۔ پانامہ، برٹش ورجن آئیلینڈز اور ایسے کئی دیگر مقامات ہیں جہاں دنیا بھر کے امیر زادے اپنی آف شور کمپنی یا ٹرسٹ کھولتے ہیں اور پھر اس کے ذریعے دنیا بھر میں پراپرٹی سمیت ہر طرح کے اثاثے بناتے ہیں۔ یہ تو وہ انکشافات ہیں جو منظر عام پر آئے ہیں، یا اس سے پہلے کچھ آ چکے ہیں، درحقیقت ابھی بھی بے تحاشہ لوٹی ہوئی دولت عام عوام کی نظروں سے اوجھل ہی ہے۔ یہ 32 ہزار ارب ڈالر تو محض ایک معموملی سی جھلک ہے۔ اس سے ایک بار پھر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ریاست اور آئین و قانون حکمران طبقے کا ایک آلہ ہے جس کے ذریعے وہ صرف محنت کش طبقے کو کنٹرول کرتا ہے اور اپنی چوریوں کو قانونی جواز فراہم کرتا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پینڈورا پیپرز میں شامل 700 پاکستانی حکمران بھی وہی شخصیات ہیں جو ملک و قوم کی ترقی کیلئے ہمیشہ ”وطن پرستی“ کا درس دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں کرپشن، منی لانڈرنگ اور نا انصافی کے خلاف اعلان جنگ کرنے والی پی ٹی آئی حکومت کے کئی وزراء؛ ملک کی نظریاتی و زمینی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے جرنیلوں کے ساتھ ساتھ کرپٹ سیاست دانوں، بیوروکریٹوں، ججوں اور دیگر ریاستی اہلکاروں پر کرپشن کی روک تھام اور ملک کی سالمیت اور ترقی کیلئے ”کڑی“ نظر رکھنے کے دعوے دار افراد؛ ملک میں جمہوریت، اداروں کے استحکام اور آئین و قانون کی بالادستی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے سیاست دان؛ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی مول لے کر عام عوام تک سچ پہنچانے اور ملک میں جمہوری ماحول پیدا کرنے کا راگ الاپنے والے اور اپنے آپ کو مظلوم پیش کرنے والے میڈیا مالکان؛ اور ملک کی ریڑھ کی ہڈی یعنی معیشت کو چلانے، مزدوروں کو روزگار فراہم کرنے اور دن رات فیکٹریوں میں مزدوروں کو فلاح کا درس دے کر انتہائی کم تنخواہ، مہینوں تک تنخواہ کی عدم ادائیگی، جرمانوں کے نام پر تنخواہوں میں کٹوتی اور سیفٹی کی مکمل عدم دستیابی کے باوجود چُپ چاپ اپنا کام کرنے کی تلقین کرنے اور انہیں روزگار کی دستیابی پر اللہ اور فیکٹری کے مالک کا شکر ادا کرنے کا درس دینے والے سرمایہ دار شامل ہیں۔

چند مشہور نام درج ذیل:

پی ٹی آئی حکومت کی کابینہ

1۔ وزیر خزانہ شوکت ترین اور اس کا خاندان
2۔ وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور اس کے خاندان کے دو مزید افراد (2012ء میں ایک آف شور کمپنی بنائی جس کے ذریعے وہ برطانیہ میں پراپرٹی خریدتا تھا)
3۔ علیم خان (موجودہ وزیر خوراک)
4۔ وفاقی وزیرخسرو بختیار کا بھائی عمر بختیار (تا حال صنعت و پیداوار کا وزیر۔ اس نے 2018ء میں اپنی آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں 10 لاکھ ڈالر کا ایک اپارٹمنٹ اپنی والدہ کو منتقل کیا)
5۔ مونس الٰہی (وفاقی وزیر آبی وسائل)

دیگر سیاست دان

1۔ اسحاق ڈار کا بیٹا (مسلم لیگ -ن)
2۔ شرجیل میمن (پی پی پی)
3۔ چوہدری پرویز الٰہی کی بیوی (مسلم لیگ -ق)

جرنیل

1۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل شفاعت اللہ شاہ کی بیوی (مشرف کا مشیر رہا اور اس نے 2007ء میں 12 لاکھ ڈالر کا ایک اپارٹمنٹ آف شور کمپنی کی مدد سے لندن میں خریدا۔ یہ آف شور کمپنی مشہور ہندوستانی فلم ڈائریکٹر کے آصف کے بیٹے اکبر آصف کی ہے۔ طالاح لمیٹڈ نامی یہ کمپنی برٹش ورجن آئیلینڈ میں رجسٹرڈ تھی)

2۔ راجہ نادر پرویز (ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل، ستارہ جرأت، اب پی ٹی آئی کا رکن ہے، ن لیگ میں بھی رہ چکا ہے، برٹش ورجن آئیلینڈ میں انٹرنیشنل فنانس اینڈ ایکوئپمنٹ لمیٹڈ کمپنی کا مالک ہے۔ اس کمپنی کی کاروباری سرگرمیاں ہندوستان، تھائی لینڈ، چین اور روس میں ہوتی ہیں۔ 2003ء میں راجہ نادر پرویز نے اس کمپنی کے اپنے حصص ایک ٹرسٹ کو منتقل کر دیے جس کے تحت متعدد آف شور کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ اس ٹرسٹ کا ایک بینیفشری برطانوی اسلحے کا کاروبار کرنے والا ہے۔ برطانوی عدالت کی دستاویزات کے مطابق ٹرسٹ کے تحت کام کرنے والی ایک اور کمپنی نے بیلجئین کمپنی ایف این ہرسٹل ایس اے اور ہندوستان ائیروناٹکس لمیٹڈ نامی ہندوستان کی سرکاری دفاعی کمپنی کے درمیان ایک ڈیل بھی کروائی۔

3۔ ریٹائرڈ میجر جنرل نصرت نعیم (جو آئی ایس آئی کا سابقہ ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس بھی رہ چکا ہے۔ اس کی برٹش ورجن آئیلینڈز میں افغان آئل اینڈ گیس لمیٹڈ نامی ایک آف شور کمپنی ہے، جو 2009ء میں اس کے ریٹائر ہونے کے کچھ ہی عرصے میں بنی تھی)

پی ٹی آئی کے فنانسر

1۔ عارف نقوی (پی ٹی آئی کا ڈونر جس نے 2013ء کی الیکشن کمپئین میں پی ٹی آئی کی بھرپور مالی امداد کی تھی)
2۔ طارق شفیع

میڈیا مالکان

1۔ میر شکیل الرحمن (جنگ گروپ، جیو ٹی وی کا مالک)
2۔ حمید ہارون (ڈان میڈیا گروپ کا مالک)
3۔ سلطان احمد لاکھانی (ایکسپریس میڈیا گروپ کا مالک)
4۔ مرحوم عارف نظامی (پاکستان ٹو ڈے اخبار کا مالک)
5۔ دی گورمے گروپ (جی این این ٹی وی چینل بھی اسی گروپ کا حصہ ہے)

سرمایہ دار

1۔ شعیب شیخ (سی ای او ایگزیکٹ AXACT)
2۔ یاور سلمان (سابقہ ایف بی آر کا چیئر مین اور فنانس سیکرٹری سلمان صدیق کا بیٹا)
3۔ عارف عثمانی (نیشنل بینک آف پاکستان کا صدر)
4۔ جاوید آفریدی (پشاور زلمی کا مالک)

درج بالا جتنے بھی نام ہیں یا باقی وہ تمام لوگ جن کے نام یہاں نہیں لکھے گئے اور سب کے سب تا حال کسی بھی قانونی شکنجے میں نہیں لائے گئے اور ابھی بھی خوب مال بنا رہے ہیں۔ نہ ہی اس معاملے کے حوالے سے میڈیا پر کوئی بہت زیادہ شور مچایا گیا ہے۔ محض دو یا تین دن ہی یہ معاملہ میڈیا پر زیر بحث رہا وہ بھی انتہائی مضحکہ خیز انداز سے، مثلاً اے آر وائے نیوز پر ارشد شریف کے ایک شو میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل راجہ نادر پرویز جس کا نام پینڈورا پیپرز میں آیا ہے، کی جانب سے یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ سب انڈین پروپیگنڈا ہے اور دوسری طرف سے میزبان ارشد شریف نے بھی پورے پروگرام میں ایسا ماحول بنایا ہوا تھا جیسے پاکستان کی سرحد پر حملہ ہو گیا ہے اور راجہ صاحب کی وجہ سے انڈین فوج ملک کے اندر داخل نہیں ہو پارہی، لہٰذا ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، اور پوری قوم کو مشکل کی اس گھڑی میں ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل صاحب کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ اسی طرح ما سوائے عمران خان کی بیان بازی کے کسی بھی سیاست دان، میڈیا مالک یا سرمایہ دار سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی اور نہ ہی کسی حکومتی وزیر کو اس کے عہدے سے فارغ کیا گیا ہے۔ اس سے تبدیلی حکومت اور ریاست کے تمام اداروں کی منافقت اور ان کا عوام دشمن کردار عیاں ہوتا ہے۔ دوسری طرف اگر کسی فیکٹری کے مزدور ہڑتال کریں یا پھر کسی تعلیمی ادارے بالخصوص پرائیویٹ ادارے کے طلبہ احتجاج کریں تو فوراً پولیس اور عدالتیں حرکت میں آجاتی ہیں احتجاج کرنے والوں کو مالکان کے ایماء پر عبرت کا نشان بنایا جاتا ہے تا کہ مستقبل میں کوئی ایسا کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں آئین و قانون کی مزدور دشمن حقیقت پر یہ مشہور مقولہ ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں لیکن بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“ بالکل صادر آتا ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ نواز شریف کے خلاف بھی کاروائی کا ڈرامہ لوٹ مار کے مال پر اپنے اپنے حصے کی لڑائی کا نتیجہ تھا جو بہت جلد بے نقاب ہو گیا جب اسے با حفاظت بیرون ملک جانے دیا گیا۔

یہ تمام وہی منافق ہیں جو تنخواہوں میں کٹوتی، نجکاری، مہنگائی، فیسوں میں اضافے، لوڈ شیڈنگ، ریاستی غنڈہ گردی اور دیگر جمہوری حقوق کیلئے احتجاج کرنے والی محنت کش عوام کو یہ درس دیتے ہیں کہ تھوڑا صبر کریں مستقبل میں حالات بہتر ہو جائیں گے، ابھی ملک بحران سے گزر رہا ہے۔ اسی طرح ٹی وی پر آنے والے ان کے پالتو دانشوروں سے لے کر یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے ان کے سدھائے ہوئے پروفیسروں اور مدرسوں کے ملاؤں تک سب یہی ورد کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان میں مہنگائی سے لے کر باقی تمام تر مسائل کی جڑ کرپشن ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ عام آدمی کو گالی دینا شروع کر دیتے ہیں کہ کرپشن کی بنیاد عام عوام ڈالتے ہیں۔ آپ نے یہ جملہ تو کئی بار سنا ہوگا کہ ”جیسی عوام، ویسے حکمران“، یہ جملہ درحقیقت کرپٹ، منافق اور وحشی و ظالم حکمران طبقے کی جانب سے عام عوام میں یونیورسٹیوں، مدرسوں اور میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا ہے۔ اس جملے کے ذریعے حکمران طبقہ اپنی چوریوں اور ظلم و جبر پر پردہ ڈال کر سارا الزام عام عوام پر لگا دیتا ہے۔

درحقیقت موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں میں ہی لوٹ مار موجود ہے جو پھر آگے چل کر ہر شعبے میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ پیداواری عمل کے دوران ایک مزدور کی لوٹی گئی محنت سے شروع ہونے والی یہ لوٹ مار آگے چل کر ہزاروں اربوں ڈالر کی لوٹ مار کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔اس لوٹ مار میں عالمی و ریاستی ادارے پھر لوٹ مار کرنے والے سرمایہ داروں کے سہولت کار کا کردار ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے سامنے امیر اور غریب کے درمیان خلیج اپنی انتہاؤں کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔ روٹی، بجلی، پانی، کپڑا، مکان، تعلیم اور صحت سمیت دیگر بنیادی سہولیات آج محنت کش طبقے کیلئے آسائشیں بن چکی ہیں۔ سماج کی اکثریت کیلئے ایک وقت کی روٹی پوری کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ مہنگائی میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف چند لوگ بے تحاشہ دولت سے بھری ندی میں غوطے لگا رہے ہیں۔ نا انصافی سے بھرپور اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینک کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہوگا جس میں نجی ملکیت کا ہی خاتمہ کر دیا جائے گا۔ یعنی کہ اس بنیاد کا جو دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ بنتی ہے، اور ایک منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر سماج میں موجود تمام وسائل کو پورے سماج کی فلاح کیلئے استعمال کیا جائے گا۔

Comments are closed.