بینک مالکان ارب پتی، ملازمین کی زندگیاں عذاب

|نمائندہ ورکرنامہ|

پاکستان میں پچھلی ایک دہائی میں کھمبیوں کی طرح ہر گلی محلے میں نئے بینک بنتے اور ان کی شاخیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ بظاہر تو اس عمل سے لوگوں کو بڑی تعداد میں نوکریاں ملتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں اور ایک بہترسطح کا روزگار بھی ملتا نظر آتا ہے، یعنی سارا دن اے سی میں کرسی پر بیٹھ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ مگر حقیقت اس سے کئی زیادہ بھیانک ہے اور ان بینکوں میں کام کرنے والے لاکھوں محنت کش ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔ اس معاملے پر جب ورکر نامہ کے نمائندگان نے بینک میں کام کرنے والوں سے بینکوں میں کام کے حالات پر تبادلہ خیال کیا تو پتہ چلا کہ پاکستان میں بینکنگ سیکٹر میں کام کرنے والے محنت کش شدید ظلم اور استحصال کا شکار ہیں۔

بینکوں میں کام کے اوقات صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوتے ہیں اور ایک لمبے عرصہ سے Non stop بینکنگ کے نام سے شروع ہونے والے نظام کے ذریعے بینک ملازمین کو ساڑھے پانچ بجے تک مسلسل کام کرنا پڑتا ہے، جس دوران میں ان کو کھانا کھانے کا وقت بھی نہیں ملتا۔ بظاہر ملازمین پر کھانا کھانے کی پابندی نہیں ہے لیکن کیونکہ بینک کے دروازے بند نہیں ہوتے اس وجہ سے صارفین کا مسلسل تانتا بندھا رہتا ہے اور اپنی جگہ چھوڑنا حقیقی معنوں میں ناممکن ہو جاتا ہے۔ شروع میں یہ اوقات چار بجے تک تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساڑھے پانچ بجے تک پہنچ چکے ہیں۔ یہی نہیں یہ اوقات پبلک ڈیلنگ کے ہیں۔ اس کے بعد بینک ملازمین کو ڈیڑھ سے دو گھنٹے مزید کام کرنا پڑتا ہے۔ اور اب بینک مالکان اس ظلم اور استحصال کو اگلے مرحلے میں لے جانے کی تیاری میں ہیں اور کچھ برانچوں میں پبلک ڈیلنگ کے اوقات کو رات ساڑھے آٹھ بجے تک کر دیا گیا ہے۔ ان برانچوں میں ان اوقات پر ملازمین کو عادی کرنے کے بعد ان کو دیگر برانچوں پر بھی نافز کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ملازمین صبح ساڑے آٹھ بجے سے لے کر رات ساڑھے آٹھ بجے تک صارفین کو نمٹاتے ہیں اور اس کے بعد ڈیڑھ دوگھنٹے closing کرنے کے بعد دس ساڑھے دس بجے گھر جاتے ہیں۔

کچھ ایسی برانچیں بھی ہیں جن پر تنخواہ میں کسی تبدیلی کے بغیر اتوار کے روز بھی کام کرنے کی پابندی ہے جن میں اگر لاہور کی بات کی جائے تو ایم سی بی کی مال روڈ اور امپوریم مال، جوہر ٹاؤن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سپیشل ڈیوٹی کے نام پر کسی بھی بینک کے ملازمین کو بغیر کوئی اوور ٹائم دیے اتوار کو بلانا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ مزیدیہ کہ اگر کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہے تو اسے فوراً نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے۔ ان غیر انسانی کام کے اوقات کار کی اصل وجہ پچھلے لمبے عرصے میں ہونے والی ڈاؤن سائزنگ ہے۔ 1997ء سے لے کر آج تک بینکنگ سیکٹر میں سٹاف کی تعداد کو ایک تہائی تک کم کر دیا گیا ہے یعنی جہاں چوبیس لوگ کام کرتے تھے وہاں آج آٹھ افراد کام کر رہے ہیں۔

ورکرنامہ کے نمائندگان کے مزید سوالات کے نتیجے میں پتہ چلا کہ تنخواہوں کے معاملے میں بھی بینکنگ سیکٹرکے حالات انتہائی خراب ہیں۔ دس سے بارہ گھنٹے کام کرنے والے ایک کیشیئر کی تنخواہ سولہ سترہ ہزار ہے، یہاں تک کہ ایک آپریشن منیجر کی ماہانہ تنخواہ بھی 23 ہزار سے 27 ہزار کے درمیان ہے اور کیشیئرسے نیچے والا سارا سٹاف جس میں آفس بوائے، کلینر وغیرہ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر کے ذریعے رکھے جاتے ہیں اور مستقل ملازم نہیں ہوتے۔ ان ٹھیکے پر رکھے گئے ملازمین کی تنخواہیں دس سے بارہ ہزار تک ہوتی ہے۔ جبکہ اکثریت بینک ملازمین کو کسی قسم کا کوئی الاؤنس، اوور ٹائم، بونس یا پینشن نہیں دی جارہی سوائے سیلز سٹاف کے جنہیں سیل کے حساب سے تنخواہ کے علاوہ کچھ بونس دیا جاتا ہے اور تنخواہ آٹھ سے نو ہزار ہے۔ بینک ملازمین کو کوئی میڈیکل فیسیلیٹی بھی نہیں دی جاتی صرف انتہائی خطرناک بیماریوں کے لئے ڈسکاؤنٹ مل جاتا ہے۔ بینک ملازمین کے لئے رسمی طور پر چھٹیوں کی گنجائش موجود ہے لیکن ان چھٹیوں کو حاصل کرنا ایک انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ ان سب مسائل کے علاوہ ملازمین کے ساتھ اعلیٰ افسران کا رویہ انتہائی توہین آمیز ہوتا ہے۔

گفتگو کے دوران ایک انتہائی بھیانک واقعہ بھی معلوم ہوا جس کی خبر کسی میڈیا چینل یا اخبار پر نہیں آنے دی گئی۔ کچھ مہینے پہلے حبیب بینک لمیٹڈ کے پنڈی۔اسلام آباد ریجن میں ان تمام بینک منیجروں کو اکٹھا کیا گیا جو اپنے ٹارگٹ حاصل نہیں کر سکے تھے۔ ان تمام منیجروں کو مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں لے جایا گیا اور چڑھائی چڑھنے کو کہا گیا۔ ان منیجروں میں سے ایک نے التجاء کی کہ ان کو دل کا مسئلہ ہے اور ڈاکٹر نے چڑھائی چڑھنے سے منع کیا ہے لیکن ان کی نہیں سنی گئی اور چڑھائی کے دوران ہی انہوں نے زندگی کی بازی ہار دی۔ آج بینکنگ سیکٹر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔

بینکنگ سیکٹر کے حالات ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے۔ نوے کی دہائی میں ہونے والی بنکوں کی نجکاری نے اس سیکٹر کے ملازمین کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ ماضی میں پاکستان کی بڑی بڑی یونینیں بینکوں کی تھیں لیکن مشرف کے دور میں باقاعدہ قانون سازی کر کے ان سے یہ حق چھین لیا گیااور بینک ملازمین کو سرمایہ کے سامنے نہتا اور کمزور کر دیا۔ جہاں ایک طرف ہم نجکاری کوبینکنگ ملازمین کے لئے ذلت کے طور پر دیکھتے ہیں وہاں بینک مالکان کے لئے یہ کسی جنت سے کم نہیں ہے۔ بینکنگ کا شعبہ اس وقت سب سے منافع بخش شعبوں میں شمار ہوتا ہے۔ بینکوں کی نجکاری کے بعد اس شعبے سے منسلک ملازمین کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں مگر بینک مالکان کے منافع بڑھتے جا رہے ہیں۔ آج تمام محنت کشوں کو اپنے اور اپنی نسلوں کے مستقبل کے لئے نجکاری اور مزدور دشمن پالیسیوں کیخلاف ایک مسلسل لڑائی لڑنی ہو گی اور کسی بھی طرح سے حکمرانوں کو جیتنے کا موقع نہیں دینا ہوگا۔ آج بینکنگ سیکٹر کے ملازمین کو محرومیاں دور کرنے کے لئے بھی متحد اور منظم ہوکر طبقاتی بنیادوں پر ایک لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.