نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مار

|رپورٹ: انعم اشرف، نمائندہ ورکرنامہ، گوجرانوالہ|


سال 2020ء میں دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی کرونا وبا کی زد میں آ یا ہے۔ اور اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے فیس بٹورنے کے لیے آن لائن سٹڈیز متعارف کروائیں۔ اس کے لیے کچھ نامی گرامی نجی اداروں نے اپنے سکول کے صرف ان اساتذہ کو ملازمت پر بحال رکھا جو کہ ایک سال کا عرصہ سکول میں گزار چکے ہیں، باقی جو کم عرصے والے اساتذہ تھے ان کو فارغ کر دیا گیا۔ بر سر روزگار اساتذہ کو بھی صرف اتنے دن کی تنخواہ دی جا رہی ہے جتنے دن وہ کام کرتے ہیں کیونکہ سکول مالکان جو کہ کالی بڑی چمکتی ہوئی گاڑیوں میں سوار ہوکر آتے ہیں، کہتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں۔۔۔

حکومت کے فیسوں میں 20 فیصد کمی کے اعلان کے باوجود نجی سکول مالکان نے ان میں کمی نہیں کی۔ اب کچھ طالب علم ایسے ہیں جو کہ کام بند ہو جانے کی وجہ سے فیس ادا نہیں کر سکتے، کچھ کے والد بیرون ملک مقیم ہیں اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور بے شمار ایسے لوگوں کے بچے ہیں جن کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ اب ایسے طالب علموں کو فیس دینے میں مشکل پیش آ رہی ہے اور ان کی دو ماہ کی اوسط فیس 11520 روپے بن رہی ہے۔ اس سب کے بعد سکول انتظامیہ نے واٹس ایپ گروپ بنائے اور ان میں والدین کو شامل کیا گیا۔ ان میں سے چند ایک والدین ایسے ہیں جو کہ بچے کو پڑھا سکتے ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں جو کہ خود پڑھنا لکھنا نہیں جانتے جبکہ بعض لوگ ایسے ہیں جن کو جدید موبائل فون استعمال کرنا نہیں آتا۔ ویڈیو لیکچر کے بعد پنجاب گروپ آف کالجز سے منسلک سکولز نے پیپرز گھر بھجوائے ہیں اور پہلی اسسمنٹ کا آغاز کر دیا گیا۔

اب ایسے حالات میں جب نہ تو تمام ٹیکنیکل سہولیات ہر ایک کو میسر ہیں اور نہ ہی لوگوں کے روزگار بحال ہیں تو اس صورت میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی یہ تمام دھوکے بازیاں اور اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کے لیے مزور طبقے پہ یہ ظلم کسی بھی صورت قبول نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان جیسے پسماندہ انفرا سٹرکچر رکھنے والے انتہائی غریب ملک میں آنلائن کلاسز اور امتحانات کا جو سلسلہ ہے اس کی کمزوریاں صاف واضح کرتی ہیں کہ نہ تو ایسی کلاسز کسی علم کی فراہمی کا ذریعہ ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ایسے امتحانات کسی قابلیت کا جائزہ۔ یہ طریقہ کار نہ صرف مزدور طبقے کی جمع پونجی کا استحصال ہے بلکہ طلبہ کے تعلیمی کیرئیر کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے۔ ایسے کسی بھی تعلیمی تماشے کو صریحاً نہ مانتے ہوئے ہم اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کی طرف سے فیس وصولی کے ناجائز مطالبے کو روکا جائے، اساتذہ کی جبری بر طرفیوں کا خاتمہ کیا جائے اور آنلائن تعلیمی تباہ کاریوں سے طلبہ کا مستقبل بچایا جائے۔

Comments are closed.