کشمیر: 5 اگست کی ظلمت کا ایک سال

|تحریر: یاسر ارشاد|

بھارت کی سرمایہ دارانہ ریاست نے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی غرض سے گزشتہ سال 5 اگست کو اس خطے کے عوام پر جو وحشیانہ ریاستی جبر اور لاک ڈاؤن مسلط کیا تھا وہ ایک سال سے جاری ہے۔ اس ایک سال کے دوران کشمیر کے عوام کو کن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، کتنے لوگوں کو قید و بند کی صعوبتیں اور اذیتیں برداشت کرنا پڑیں، کتنے گھر جلا دیے گئے، کتنے ماورائے عدالت قتل کیے گئے اور کتنی خواتین کی عصمتیں لوٹی گئیں اس کا کوئی شمار نہیں۔ کشمیر میں تاحال ہائی سپیڈ انٹرنیٹ سروس بحال نہیں ہو سکی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کو نام نہاد تحریر کی آزادی میسر آئی۔ گزشتہ چھ ماہ سے کھلی جیل میں قید کشمیری عوام کرونا وبا کے باعث دوہرے لاک ڈاؤن کی اذیت سے دوچار ہیں۔ کشمیر کی معیشت پہلے بھارتی فوجی جبر اور بعدازاں کرونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت بڑی تباہی سے دوچار ہوچکی ہے۔ تعلیمی سلسلے کو معطل ہوئے بھی ایک سال ہو چکا ہے اور بڑے پیمانے کی معاشی بربادی بیروزگاری کا ایک سیلاب لے آئی ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران مسلح جدوجہد کرنے والوں کے خلاف فوجی کاروائیوں کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے اور آئے روز کسی دیہات میں کاروائی اور انٹرنیٹ کی مکمل بندش کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اسی سال مئی میں کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لیے غیر کشمیریوں کو کشمیر کا ڈومیسائل جاری کرنے کا قانون بھی مسلط کر دیا گیا جس کے تحت الجزیرہ ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق یچیس ہزار ڈومیسائل جاری کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں چھ ہزار ایکڑ زمین بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے مختص کی جا چکی ہے۔

5 اگست کے جابرانہ فیصلے کو مسلط کرنے کے ساتھ ہی بھارتی ریاست نے کشمیر کی تمام ہند نواز اور آزادی پسند قیادتوں کو بھی گرفتار کر لیا تھا جن میں سے چند ایک کو بعدازاں سیاست سے دستبردار ہونے کی شرط پر رہا کر دیا گیا۔ حریت کانفرنس کے رہنما سید علی گیلانی نے رہائی کے بعد حریت کانفرنس کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جبکہ حریت کانفرنس کے ایک دوسرے رہنما میر واعظ عمر فاروق نے سیاست سے مکمل لا تعلقی اختیار کر لی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے مارچ میں رہائی پانے کے بعد فوری طور 5 اگست کے فیصلے پر تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی تھی لیکن گزشتہ دنوں اس نے 5 اگست کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے اور جب تک کشمیر کی ریاستی حیثیت بحال نہیں ہوتی اس وقت تک انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ عمر عبداللہ کے اس اعلان سے مستقبل میں کشمیر کی ریاستی حیثیت کو اسی جابر ہندوستانی ریاست کی عدلیہ سے بحال کراتے ہوئے کشمیری عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کی ایک منصوبہ بندی کا اشارہ بھی ملتا ہے۔ اگرچہ عمر عبداللہ نے واضح نہیں کیا کہ وہ کشمیر کی 5 اگست 2019ء سے پہلے والی خصوصی حیثیت کو بحال کرائیں گے یا محض نئے بھارتی غاصبانہ قوانین کے تحت اپنی ملازمت کی بحالی کی کو شش کریں گے جو کہ کشمیر کو یونین ٹیرٹری بناتے ہوئے مودی حکومت نے اعلان بھی کیا تھا کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت کو حالات معمول پر آنے کے بعد بحال کر دیا جائے گا۔

قوم پرستی، مسلح جدو جہداور مذاکرات کے ذریعے آزادی جیسے تمام طریقہ کا ر مکمل طور پر ناکام ہونے کی صورت میں اس وقت کشمیر میں ایک مکمل سیاسی خلا موجود ہے۔

5 اگست 2019ء کو مسلط کیے جانے والے جبر کو بھارتی ریاست لا متناہی طور پر جاری نہیں رکھ سکتی تھی اور جلد یا بدیر کشمیر میں دوبارہ ایک سیاسی فریب کا آغاز کرنا ناگزیر تھا اور اسی لیے ہمیں نظر آ رہا ہے کہ دوبارہ نیشنل کانفرنس کے گماشتوں کو ہی اس عمل میں کشمیریوں کا نجات دہندہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کے ساتھ صحافتی تنظیموں کے ایک فورم نے بھی کشمیر میں ہائی سپیڈ انٹرنیٹ کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے جو ایک دوسرے ذریعے سے بھارتی عدلیہ کے ذریعے چھینی گئی بنیادی سہولیات کی واپسی کی اسی طرح کی ایک کوشش ہے۔ آزادی پسند تنظیموں اور قیادتوں پر اگرچہ جبر جاری ہے لیکن یہ سبھی تنظیمیں اور قیادتیں پہلے ہی مسترد ہو چکی تھیں اور ان کی رہی سہی ساکھ جبر کی اس لہر نے ختم کر دی ہے۔ سید علی گیلانی نے بھی مستعفی ہونے کی مختصر وجہ حریت کانفرنس میں مالی بد عنوانی اور احتساب نہ ہونے کو قرار دیا ہے اگرچہ اس کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔ بھارتی ریاست نے کشمیر پر گزشتہ ایک سال سے جو خصوصی جبر مسلط کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ کشمیر میں جس پیمانے کی معاشی بربادی آچکی ہے اس کے باعث کشمیری نوجوانوں کے کچھ حصے لازمی طور پرمسلح جدوجہد کی جانب راغب ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں ہے۔ قوم پرستی، مسلح جدو جہداور مذاکرات کے ذریعے آزادی جیسے تمام طریقہ کا ر مکمل طور پر ناکام ہونے کی صورت میں اس وقت کشمیر میں ایک مکمل سیاسی خلا موجود ہے۔بھارتی سٹالنسٹ بھی اپنی نظریاتی غداریوں اور دیوالیہ پن کے باعث قومی مسئلے پر درست مارکسی موقف نہ اپنانے کی وجہ سے کشمیری عوام اور نوجوانوں کی تحریک کو انقلابی نظریات سے روشناس کرانے میں مکمل طور پر نہ صرف ناکام ہو چکے ہیں بلکہ مستقبل میں بھی اس کے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔اس قسم کی صورتحال اور بھیانک جبر کے امتزاج کی کیفیت میں چند سو نوجوانوں کا مسلح جدوجہد جیسے غلط طریقہ کار کو اپنالینا حیران کن نہیں ہے۔لیکن دوسری جانب کشمیری نوجوانوں کی اکثریت کا اس طریقہ کار کو نہ اپنانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ کشمیر کی تحریک محض اپنے تجربات کی بنیاد پر بے پناہ قیمت ادا کر کے نہایت اہم سیاسی اسباق حاصل کر چکی ہے۔

اس ایک سال کے دوران کشمیر ی عوام اور نوجوانوں کو ایک اور جھوٹے فریب سے نجات پانے کا موقع میسر آیا اور وہ پاکستان کی سامراجی ریاست کی حمایت کا دھوکہ تھا۔ پاکستان کی ریاست پانچ اگست کے فیصلے کی منافقانہ مخالفت کا ناٹک بھی ٹھیک طور پر نہیں کر پائی اور نہ ہی انہیں کوئی سفارتی حمایت میسر آ سکی۔ آغاز میں ہر جمعے کو دن بارہ بجے آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر احتجاج کا مضحکہ خیز اعلان کیا گیا جس پر خود پاکستانی عوام نے اس ریاست اور حکومت کا سوشل میڈیا پر اس قدر مذاق اڑایا کہ انہوں نے دوبارہ کچھ بھی کرنے کی جرات نہیں کی۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے قوم پرست بھی محض چند ایک روایتی اور علامتی نوعیت کے احتجاجوں سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے۔ اگرچہ اس فیصلے کے فوری بعد پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے عوام اور نوجوانوں میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ موجود تھا اور قوم پرستوں کے احتجاجوں میں کافی بڑی تعداد میں نوجوانوں اور عوام نے شرکت بھی کی لیکن یہ قیادت اپنی تنگ نظری اور نظریاتی دیوالیہ پن کے باعث اس سیاسی تحرک کو منظم کرنے میں ناکام رہی۔ 5 اگست کو ایک سال پورا ہونے پر پاکستانی ریاست اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے قوم پرست پھر سرگرم ہو رہے ہیں تا کہ اس دن کی مناسبت سے احتجاج کی رسم ادا کی جا سکے۔ان قوم پرستوں اور پاکستانی ریاست کے کیلنڈر میں ”یوم یکجہتی کشمیر“ یا ”یوم شہدا جموں“ جیسے دیگر چند ایک ایام کے ساتھ ایک اور دن 5 اگست کا اضافہ ہو گیا ہے جب پاکستانی ریاست اپنی طرز کا ڈھونگ رچائے گی اور قوم پرست ماتمی احتجاج کریں گے۔ان قوم پرستوں پر تو فکر کی محدودیت ظاہر کرنے والا یہ محاورہ کہ ”یہ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے“ بھی اس لیے غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ تو اپنی ناک کی حد تک دیکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔

کشمیر پر بھارتی ریاست کے اس جبر کی نوعیت ہی الگ ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارت کی رجعتی سرمایہ دارانہ ریاست باقی علاقوں کے عوام پر جبر نہیں کر رہی۔ اس سال کے آغاز پر شہریت کے کالے قانون کو بھارت کے تمام غریب عوام اور محنت کشوں پر مسلط کر کے مودی حکومت نے اپنا عوام دشمن چہرہ پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا۔ان کالے قوانین کے خلاف ایک زبردست احتجاجی تحریک ہندوستان کے طول و عرض پر پھیلتی جا رہی تھی اور اسی دوران ہندوستان کے طاقتور محنت کش طبقے کی عام ہڑتال ہوئی جس میں ان قوانین کے خلاف بھی آواز بلند ہونا شروع ہو چکی تھی لیکن اس سلسلے کو عالمی سطح پر پھیلنے والی کرونا وبا نے منقطع کر دیا۔

ٹوٹتی بکھرتی عالمی سرمایہ داری، کرونا وبا اور لداخ تنازعہ

سرمایہ داری نظام عالمی سطح پر تاریخ کے بدترین بحرانوں کے بھنور میں دھنستا جا رہا تھا اور اس عمل کو اس سال کے آغاز پر چین سے شروع ہونے والی کرونا وبا کے دنیا بھر میں برق رفتاری سے پھیلاؤ نے ایک معیاری جست فراہم کی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں دنیا کے بیشتر ممالک میں جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن نے پہلے سے گراوٹ کا شکار عالمی معیشت کو تقریباً ڈبو دیا ہے۔ اگرچہ دنیا کے ہر ملک میں سرمایہ داروں کے گرتے ہوئے منافعوں اور ڈوبتے ہوئے کاروباروں کو سہارا دینے کے لیے کھربوں ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج دیے گئے جبکہ اس بحران کا تمام بوجھ دنیا بھر کے محنت کشوں کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ کروڑوں لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں اور پہلے بمشکل دو وقت کی روٹی پر گزارا کرنے والے فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں اور یہ صورتحال ایک مستقل معمول بنتی جا رہی ہے۔ہر ملک میں سرمایہ دارانہ ریاستوں کے خلاف عوامی غیض و غضب اور نفرت پھٹ کر ان لٹیروں کو نیست و نابود کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص کے پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہونے کے واقع کے خلاف امریکی عوام کی زبردست احتجاجی تحریک نے امریکی سامراج کے ساتھ دنیا بھر کے حکمرانوں کو شدید خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ عوامی تحریکوں کے اس ممکنہ خطرے کو ٹالنے کے لیے ہر ملک کے حکمران طبقات وحشیانہ ریاستی جبر مسلط کرنے کے ساتھ ہر قسم کے تعصبات اور رجعتی نظریات کو بھی فروغ دے رہے ہیں تا کہ محنت کشوں اور عوام کو ان فروعی تقسیموں اور جھگڑوں میں الجھایا جا سکے۔نظام کے بحران میں اضافے کے ساتھ بڑے سامراجی ممالک کے مابین تجارتی جنگیں بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں جبکہ منڈیوں پر تسلط کی نئی لڑائیوں کے ساتھ پرانے دبے ہوئے تنازعات بھی تیزی کے ساتھ سر اٹھا رہے ہیں۔اسی قسم کا ایک تنازعہ چین اور ہندوستان کے درمیان شدت پکڑتا جا رہا ہے۔ بظاہر یہ ہمیں لداخ کے بیابان پہاڑوں میں سرحدی تنازعہ کے طور پر دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے ابھرنے کی وجوہات بھی اسی تبدیل شدہ عہد میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

بظاہر چند میل کے علاقوں پر تسلط کی یہ لڑائی درحقیقت اپنی بنیاد میں ایک وسیع سامراجی لڑائیوں اور بڑھتے ہوئے تضادات کا محض اظہار ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے دوران عالمی سطح پر حالات کی مکمل تبدیلی اور پرانے ورلڈ آرڈر کی ٹوٹ پھوٹ نے جس دیوہیکل اتھل پتھل کی راہ ہموار کی ہے یہ واقعات اسی کا اظہار کر رہے ہیں

لداخ کی متنازعہ سرحد کا آغاز بھی اس خطے میں برطانوی سامراج کے تسلط کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے باعث ہوا تھا۔ 1914ء میں برطانوی سامراج نے مقبوضہ ہندوستان کی شمال مشرقی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی خاطر جمہوریہ چین اور تبت کی نیم خومختار راجدھانی کے نمائندوں کے ساتھ شملہ میں مذاکرات کیے۔ جمہوریہ چین کے نمائندوں نے تبت کے حکمرانوں کی خومختار حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یوں تبت اور لداخ کی تقسیم کے معاہدے کو بھی نہیں مانا جو برطانوی سامراج اور تبت کی راجدھانی کے نمائندوں کے درمیان طے پایا تھا۔اس معاہدے میں برطانوی ہندوستان اور چین کے مابین 550 میل لمبی سرحد کا فیصلہ کیا گیا جو برطانوی آفیسر ہنری میکماہون کے نام منسوب ہو کر ’میکماہون لائن‘ کہلائی جسے برطانوی سامراج کے براہ راست تسلط کے خاتمے کے بعد ہندوستانی مقامی حکمران طبقات من و عن ہند چین سر حد مانتے ہیں جبکہ چین نے کبھی بھی اس کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی بنیاد پر ہمیں ہند چین سرحدی تنازعات آسام سے ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں میں لداخ تک پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ 2017ء میں بھوٹان سے ملحقہ ڈوکلام وادی میں چین و ہند کی افواج کے مابین اسی قسم کا ایک چھوٹا تصادم ہوا تھا جس طرح ابھی ہمیں لداخ میں نظر آیا۔ لداخ میں تناؤ سے بھر پور عارضی امن کے بعد آسام میں اسی قسم کے تصادم کے خدشات بڑتے جا رہے ہیں۔ بظاہر چند میل کے علاقوں پر تسلط کی یہ لڑائی درحقیقت اپنی بنیاد میں ایک وسیع سامراجی لڑائیوں اور بڑھتے ہوئے تضادات کا محض اظہار ہے۔

گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے دوران عالمی سطح پر حالات کی مکمل تبدیلی اور پرانے ورلڈ آرڈر کی ٹوٹ پھوٹ نے جس دیوہیکل اتھل پتھل کی راہ ہموار کی ہے یہ واقعات اسی کا اظہار کر رہے ہیں۔اس خطے میں امریکی سامراج کی پشت پناہی سے چین کے مد مقابل امریکی سامراج کے مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری لے کر ہندوستان نے چین کے ساتھ نئے کئی تصادموں کے بیج بو دیے ہیں۔ امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ مختلف نوعیت کے نئے تصادموں کی صورت میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ یہ تصادم بڑے پیمانے پر پہلے سے تقسیم کا شکار خطہ کشمیر سے منسوب علاقوں کی صورتحال پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں اور اس عمل میں کشمیر کے تمام علاقوں میں قابض ریاستوں کے جبر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے علاقے پہلے ہی سی پیک کی تعمیر کے باعث پاکستانی ریاستی جبر اور چینی سامراج کی شدید لوٹ مار کا شکار ہیں۔ وادی اور جموں کے علاقے گزشتہ ایک برس سے وحشیانہ بھارتی جبر کا شکار ہیں جس کے ذریعے ان علاقوں کے وسائل کی لوٹ مار کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کا علاقہ پہلے ہی سے چینی کمپنیوں کی لوٹ مار اور پاکستانی ریاست کے جبر کا شکار ہے۔ بھارتی ریاست کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے حکمران طبقات بھی نام نہاد آزاد کشمیر پر اپنی گرفت کو زیادہ سخت کرنے کی غرض سے اس لولی لنگڑی ریاست پر مسلط ایکٹ 1974ء میں ترامیم کا ایک نیا مسودہ تیار کر رہے ہیں۔ نام نہاد آزاد کشمیر میں بہنے والے دریاؤں کا بڑے پیمانے پر رخ موڑ کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں جس کے باعث اس خطے کے دارلحکومت مظفرآباد کی تمام آبادی بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ منگلا ڈیم کی اپریزنگ کے باعث میر پور کی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں جہاں عمارات کی بنیادوں کی زمین میں زبردست کٹاؤ کی وجہ سے بغیر کسی زلزلے کے عمارات دھڑام سے گرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔درحقیقت سرمایہ داری نظام کی تاریخی متروکیت کے باوجود اس کو زندہ رکھنے کی کوششوں میں حکمران طبقات اس پورے کرہ ارض کو تباہی کے دھانے پر لے آئے ہیں۔جوں جوں نظام کا زوال گہرا ہوتا جا رہا ہے ریاستیں اور حکمران طبقات وحشی درندوں میں بدلتے جا رہے ہیں۔ اس نظام کی ہوس ہی تھی جس نے کرونا جیسی معمولی بیماری پر تحقیق کے عمل کو روک کر اس کو ایک ہلاکت خیز وبا میں تبدیل کر دیا اور اب اس وبا کی ویکسین تیار کرنے کی مقابلہ بازی میں ادویات کی کمپنیاں اپنی تحقیقا ت کو دوسری کمپنیوں سے خفیہ رکھ کر لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں۔ اس کے ساتھ منڈیوں پر تسلط کی نئی لڑائیوں میں کئی ایک خطوں کو بربریت میں دھکیلا جا چکا ہے اور نئے خطوں کو اس کھائی میں دھکیلنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

انقلابات اور ردِ انقلابات کا عہد

درحقیقت نسل انسانی مجموعی طور پر ایک فیصلہ کن اور انتہائی نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔یہ عہد نظام سرمایہ داری کے خاتمے کا عہد ہے جس کا آغاز اس نظام کے عالمی سطح پر ٹوٹ پھوٹ اور بدترین بحرانوں کے ساتھ اس کے خلاف ابھرنے والی محنت کشوں، نوجوانوں اور عوام کی سرکش مزاحمتی تحریکوں کے ابھار کی صورت میں ہو چکا ہے۔ہر تاریخی نظام کے خاتمے کے عہد کی طرح ہی یہ عہد بھی ہر قسم کے واقعات، جنگوں، وباؤں،تحریکوں کے ابھار اور پسپائیوں سے بھر پور ہے لیکن اپنی بنیاد میں یہ ماضی کے تمام ایسے ادوار سے یکسر مختلف ہے اور اس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ہمارے اس عہد کی سب سے بنیادی خصوصیت اس نظام کے ایک نا قابل تقسیم عالمی اکائی ہونے کے باعث اس کی بین الاقوامیت ہے۔

سرمایہ داری نظام نے پوری دنیا کو جس طرح ایک معاشی اکائی میں تبدیل کر کے سارے جہاں کی تقدیر کو باہم منسلک کر دیا ہے ماضی کے کسی دور میں بھی اس کا تصور ہی محال تھا۔اس عہد کے معاشی بحرانوں سے لے کر وباؤں تک اور سیاسی جد وجہدوں سے لے کر انقلابات تک ہر مظہر کا جوہر بین الاقوامی ہے۔ ماضی کی تقسیمیں اور علیحدگیاں قصہ پارینہ بن چکی ہیں اور بظاہر قومی ریاستوں اور سرحدوں کی موجودگی کے باوجودہر ملک کلیدی طور پر عالمی ڈھانچوں سے اس طرح جڑا ہو ہے کہ اس کی تقدیر کا تعین عالمی معیشت کے اتار چڑھاؤ اور عالمی واقعات سے متعین ہوتا ہے۔کشمیر سمیت قومی محرومی میں پسنے والے بے شمار خطے بھی اس نظام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہے ہیں اوران کی آزادی کی تحریکیں بھی اس نظام کے خلاف ابھرنے والی جدوجہدوں سے منسلک ہو چکی ہیں۔ اس عہد میں سب سے بھیانک اور خطرناک رحجان ماضی کی قومی تنگ نظری اور محدودیت ہے جس میں کسی بھی ملک اور قوم کو باقی دنیا سے الگ کر کے دیکھا جاتا ہے۔ قومی تنگ نظری پر مبنی نظریات سمیت سرمایہ دارانہ نظام کی حدود تک محدود سبھی نظریے مستقبل کی رہنمائی کرنا تو درکنار موجودہ عہد کی اتھل پتھل کی درست سائنسی وضاحت سے ہی قاصر ہیں۔ گزشتہ صدی میں تیسری دنیا کے صنعتی طور پر پسماندہ اور نیم نو آبادیاتی ممالک میں کسی حد تک اور محدود پیمانے کا ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے والے قومی سوشلزم کے سٹالنسٹ نظریات بھی اب مکمل طور پر رجعتی کردار کے حامل ہو چکے ہیں۔ان نظریات کی حامل چھوٹی یا درمیانے درجے کی پارٹیاں جہاں بھی باقی ہیں ان کا کردار انقلابی تحریکوں کی بڑھوتری میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے۔ قومی مسئلے کا حل ان نظریات کی بنیاد پر نہ صرف ناممکن ہو چکا ہے بلکہ یہ پارٹیاں اسی سرمایہ دارانہ اسٹیٹس کو کو قائم رکھنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ اس بنیاد پر کشمیر میں جاری ظلم و جبر کے وحشیانہ سلسلے کو محض ہند و پاک کے حکمران طبقات کے توسیع پسندانہ عزائم یا وسائل کی لوٹ مار کی غرض تک محدود کر کے دیکھنااور یہ احمقانہ خوش فہمی کہ کشمیر پر ہند وپاک کا قبضہ کسی بھی جادوئی طریقے سے ختم ہو جائے تو کشمیر ایک خوشحال ریاست بن جائے گی، ایک مجرمانہ سوچ کی پیداوار ہے۔

کشمیر کی مزاحمتی تحریک کو کسی بھی جبر کے ذریعے مکمل طور ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کو ایک حقیقی انقلابی تحریک میں تبدیل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے درست اور سائنسی نظریات کی بنیاد فراہم کی جائے۔ ہمارے عہد میں مارکسزم واحد سائنسی نظریہ ہے جو عالمی سطح پر سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کی جدوجہد کا طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔مارکسی بین الاقوامیت ہی کشمیر سمیت اس خطے کے سبھی مظلوموں اور محکوموں کو حقیقی آزادی اور نجات کا راستہ فراہم کر سکتی ہے۔کشمیر کے باشعور نوجوانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ مارکسزم کے سائنسی نظریات اور محنت کش طبقے کی طبقاتی و انقلابی یکجہتی کی بنیاد پر اپنی آزادی کی جدوجہد کو برصغیر سے سرمایہ داری کے مکمل خاتمے کی جدوجہدسے جڑت استوار کرتے ہوئے آگے بڑھائیں۔آخری فتح مارکسزم کے سائنسی نظریات کی بنیاد پر منظم کی جانے والے محنت کشوں کی انقلابی تحریک کا مقدر ہے۔

Comments are closed.