گلگت بلتستان کی سیاسی محرومی کا حل؛ انتخابات یا انقلاب؟

| تحریر: اعجاز ایوب |

گلگت بلتستان کو اپنی دلکشی، جغرافیے اور معدنیات سے مالا مال ہونے کی وجہ سے ساری دنیا میں مقبولیت حاصل ہے۔ دنیا کے عظیم چار پہاڑی سلسلے قراقرم، ہمالیہ، ہندو کش اور پامیر کا سنگم اور 7500 میٹر سے بلند بارہ چوٹیاں یہاں پر ہیں۔ دنیا کے طویل دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ یہیں سے نکلتا ہے جو کہ پاکستان کی زرعی آبپاشی کا بڑا ذریعہ ہے۔ کل رقبہ 72,496 مربع کلومیٹر ہے جو کہ ’ریاست‘ آزاد جموں و کشمیر سے آٹھ گنا بڑا ہے۔ گلگت بلتستان کی سرحدیں چین، انڈیا اور افغانستان سے لگتی ہیں۔

Kashmir Gilgit Baltistan India China Pakistan map
زمانہ قبل مسیح سے آباد یہ خطہ کئی تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ قدیم شاہراہ ریشم جو چین اور وسطی ایشیا تک رسائی دیتا تھا بعد ازاں اس کی افادیت کی وجہ سے 1840ء سے 1890ء تک پنجابی سکھوں اور کشمیری ڈوگرا راجاؤں نے قابض ہو کر یہاں حکومت کی۔ جب بر صغیر میں انگریز وں نے قدم جما لئے تو یہاں بھی اپنا تسلط قا ئم کر لیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1846ء میں تمام شمالی علاقہ جات مہا راجہ کشمیر کو بیچے۔ مگر روسی بادشاہت کے مداخلت کی پیش نظر 1891-92ء میں دوبارہ کنٹرول برٹش انڈین آرمی نے سنبھالا اور عوامی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں مقامی لوگوں کو شکست ہوئی۔ اس طرح 1890-1935ء تک گلگت ایجنسی کو چار انتظامی یونٹس گلگت، سکردو، لداخ اور کارگل میں تقسیم رکھا گیا۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانوی سامراج نے گلگت ایجنسی کو کشمیری مہاراجا کے سپرد کیا، جو کہ ایک مرتبہ پھر لوگوں کی مرضی کے خلاف تھا، نتیجتاً یکم نومبر 1947ء کو یہاں کی عوام نے ڈوگرا راج کو مار بھگایا اور انقلابی سرکشی کے ذریعے اس خطے کو آزادی دلائی۔ 15 دن تک عوامی اسمبلی نے انتظامی امور خود چلائے اور یوں آزادانہ حیثیت سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ مگر 68 سال گزرنے کے باوجود بھی آئینی حقوق سے محروم رکھا گیا اور اسے اب تک مسئلہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر کے متنازع قرار دیتے ہوئے کشمیر سے زیادہ پسماندہ اور محروم رکھنا عوامی امنگوں کا خون کرنے کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ کی بوگس قراردادوں میں بھی اس خطے کو آزادانہ حیثیت حاصل نہیں ہو سکی۔ انقلاب روس کے لیڈر ولادیمیر لینن نے اقوام متحدہ جیسے اداروں کو ’’چوروں کا باورچی خانہ‘‘ کہا تھا جو کہ سامراجی مفادات کو ہی مدنظر رکھتے ہیں نہ کہ عوامی امنگوں کو۔ متنازعہ ہونے کے باوجود 1970ء میں سٹیٹ سبجیکٹ رُول کا خاتمہ کیا گیا جس کی رو سے یہاں غیر مقامی افراد بھی زمین کی لین دین اور کاروبار کر سکتے ہیں اور اس کے لیے کوئی رائلٹی بھی نہیں دی جاتی۔ 1968-69ء کے انقلاب کے نتیجے میں محنت کش طبقے کی روایت بن کر ابھرنے والی پیپلز پارٹی کے عہد میں ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں گلگت بلتستان کا دورہ کیا جس میں باقاعدہ ریاستی اداروں کا قیام عمل میں لا یا گیا، مقامی راجہ مہاراجہ سسٹم کو ختم کیا اور گندم اور ٹرانسپورٹ کی مد میں سبسڈی دینے کا آغاز کیا گیا۔
گلگت بلتستان میں 2009ء سے سیلف گورننس آرڈیننس نافذ لعمل ہے اور عارضی صوبائی سیٹ اپ کے ذریعے GB Legislative Assembly اور GB Council تشکیل دی گئی ہے تا ہم قومی اسمبلی میں اس خطہ کی کوئی نمائندگی نہیں اور موجودہ گورنر وفاق سے تعینات شدہ ہے۔ 20 لاکھ آبادی والے اس خطے کا سالانہ بجٹ 27.5 ارب ہے جس میں 9 ارب ترقیاتی اور 18 ارب روپے صحت، تعلیم، معدنیات، سیاحت، زراعت، توانائی، ٹرانسپورٹ اور رہائش وغیرہ کے لئے مختص ہیں۔ فی فرد اوسط آمدن 350 ڈالر سالانہ ہے جو کہ ۱ یک ڈالر یومیہ سے بھی کم بنتی ہے۔ پانچ لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں۔ شرح خواندگی صرف 38 فیصد ہے اور 80 فیصد تعلیمی ادارے پرائیویٹ شعبے سے منسلک ہیں۔ صحت کا شعبہ بھی وسائل کی شدید کمی سے دو چار ہے۔ دوران زچگی ایک لاکھ میں سے ایک ہزار خواتین موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جبکہ یہ تناسب ملک کے دیگر حصوں میں 272 ہے۔ اموات کی یہ شرح شرمناک حد تک زیادہ ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ڈاکٹر اور آبادی کا تناسب 1:4100 ہے (زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف ہیں) جو کہ ملک کے دیگر علاقوں میں 1:1212 ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق کم از کم تناسب 1:1000 ہونا چاہئے۔ کیوبا میں یہ تناسب دنیا میں سب سے بہتر ہے جو کہ 1:170 ہے جہاں سو شلسٹ منصوبہ بند معیشت کے تحت تعلیم اور علاج کی فراہمی مفت ہے۔ مسائل کی نہ ختم ہونے والی فہرست میں فرقہ ورانہ فسادات اور دہشتگردی بھی شامل ہیں جس نے ہزاروں بے گناہ انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔ افغان ڈالر جہاد کے اثرات نے یہاں کے باسیوں کی زندگی میں زہر گھول کر رکھ دیا، صدیوں سے امن اور بھائی چارگی سے رہنے والوں کو ریاستی سرپرستی میں فرقہ واریت کی آگ میں جھونکا گیا ہے۔ 1988ء میں ضیاا لحق کے حکم پر ہونے والی جہادی یلغار میں اہل تشیع ہونے کی بنیاد پر 800 افراد کا قتل عام کیا گیا اور ان کی املاک کو لوٹا گیا، عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ اس کے بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے اور یہاں بد امنی، ڈر اور خوف کو مسلط رکھا گیا۔
اس غربت، بیماری، ناخواندگی، بیروزگاری، دہشتگردی اور استحصال کے خلاف سماج کی تہہ میں پکنے والا لاوا اپریل 2014ء کو امڈ آیا اور گندم کی سبسڈی کو لے کر اٹھنے والی اس تحریک نے تمام مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے گلگت بلتستان ایکشن کمیٹی کی شکل میں عوام کو طبقاتی بنیادوں پر منظم اور یکجا کیا۔ فرقہ واریت اور لسانیت کے مسلط شدہ اندھیروں کو چیرتے ہوئے محنت کشوں نے متحد ہو کر اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد کی اور گندم کی سبسڈی کی بحالی سمیت بیشتر مطالبات منوانے میں کامیاب ہوئے۔ اس موقع پر 2009ء الیکشن میں بھاری مینڈیٹ کے ساتھ جیتنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت روایتی موقع پرستی اور نظریاتی انحراف کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی آواز بننے کی بجائے الٹا ایکشن کمیٹی کے خلاف وفاقی حکومت کے ساتھ صف آرا ہو گئی۔ نہ صرف اس تحریک کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا بلکہ اسے منتشر کرنے کے حربے بھی استعمال کئے۔
پیپلز پارٹی کی مجرمانہ پالیسی کے نتیجے میں سیاسی خلا پیدا ہوا جس کی وجہ سے 8 جون 2015ء کو ہونے والے انتخابات میں دایاں بازو بشمول مذہبی پارٹیاں، اپنی جگہ بنانے کے لئے سرگرم ہیں۔ 24 رکنی اسمبلی کے انتخابات کے لئے 14 پارٹیوں کے 289 امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ تمام وفاقی سیاسی پارٹیوں کے عہدیداران اپنے اپنے پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم کے لئے چکر لگا رہے ہیں۔ کل تک جمہوریت کو لا دینیت سے تشبیہ دینے والے ملاں سب پر سبقت لے جانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں اور رنگ برنگی پارٹیاں بنا کر اور کروڑوں روپے مالیت کی بڑی گاڑیوں پہ جھنڈے سجائے دندناتے پھرتے ہیں۔ جیت کو یقینی بنانے کے لئے اب تک کروڑوں ریال بھی درآمد کئے جا چکے ہیں۔ دوسری طرف تمام کالعدم تنظیموں نے پرانا لبادہ اتار کر نیا اوڑھ لیا ہے اور ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے والوں کے شانہ بشانہ الیکشن کمپئین میں سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ خدا کی حاکمیت کی آڑ میں مساجد کو کمپئین آفس بنایا ہوا ہے جہاں سادہ لوح عوام کو مذہبی جال میں پھانسنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ سرمایہ درانہ نظام کے بحران سے لا تعلق یہ سیاسی جغادری تمام عوامی مسائل کو جادو کی چھڑی سے حل کرنے کے دعویدار ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کشوں نے جدوجہد کی ہے تب ملاں اشرافیہ نے سرمائے کی حاکمیت کے حق میں فتوے دئے ہیں۔ استحصال پر مبنی اس نظام زر کو جائز سمجھنے والے کیسے محنت کش طبقے کی نمائندگی کر سکتے ہیں؟ گلگت بلتستان کے نوجوان، طلبہ، مزدور اور کسان تذبذب کا شکار ہیں۔ انقلابی متبادل کی عدم موجودگی میں ہیجان کی کیفیت ہے۔
بورژوا لبرل دانشور پاک چین اقتصادی راہداری سے گلگت بلتستان کے مسائل کا حل وابستہ کئے ہوئے ہیں جو کہ سراسر خوش فہمی اور خود فریبی ہے۔ یہ ماؤ زے تنگ کا چین نہیں ہے جس میں منافع سے پاک منصوبہ بند معیشت استوار ہو۔ ان چینی منصوبوں کا مقصد بدترین لوٹ مار اور بلند شرح منافع ہے جس میں یہاں کے حکمران کمیشن ایجنٹ ہیں۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران سے قبل چین کے شرح نمو 14فیصد تھی جو اب کم ہو کر 6.8 فیصد تک گر رہی ہے۔ 2014ء میں محنت کشوں کی 1380 بڑی ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ آج چین خود ایک سامراجی کردار ادا کر رہا ہے اور افغانستان میں کئی طالبان گروہ چین کے پے رول پر ہیں۔ اس تجارتی راہداری سے ملک میں پہلے سے جاری پراکسی جنگ تیز ہو گی، انتشار اور قتل و غارت گری بڑھے گی اور سامراجی قوتوں کی آپسی لڑائی میں بے گنا عوام ہی لقمہ اجل بنیں گے۔ بے روزگاری اور غربت سمیت عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوگا۔
اب ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کو ’’متنازعہ‘‘ قرار دے کر اقتصادی راہداری منصوبوں کے راستے اپنے لئے صاف کئے جا رہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ وفاقی گورنر اور افسر شاہی کی تقرری سے لیکر عالمی نوعیت کے معاہدوں کی جب بات ہوتی ہے تو اس خطے کے پاکستان کی شہ رگ ہونے کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں مگر آئینی حقوق، حصہ داری اور عوامی مسائل کی بات آئے تو متنازعہ ہونے کا نوحہ سنا دیا جاتا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبوں پر عوامی تحفظات کو دور کرنے میں غیر سنجیدگی سے کام لیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے قومی سوال دن بہ دن سلگ رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے گلگت بلتستان کو اگر صوبہ بنا بھی دیا جائے تو یہاں کی محرومیاں کم نہیں ہو سکتیں۔ پاکستان کا معاشی نظام آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے احکامات پر ہی ترتیب پاتا ہے۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان کرپشن میں ساتواں، جنسی استحصال میں دوسرا، دہشتگردی کے لحاظ سے تیسرا اور خواندگی میں 180ویں نمبر پر ہے۔ یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق نائیجیریا کے بعد پاکستان دوسرا ملک بن گیا ہے جہاں 55 لاکھ سے زائد بچے ناخواندہ ہیں اور 33 لاکھ بچے چائلڈ لیبر پر موجود ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کو مرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام نے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جہاں دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے اور آبادی کا بڑا حصہ ذلت کی زندگی گزار نے پے مجبور ہے۔ 60 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر گلگت بلتستان کو صوبہ بنا بھی دیا جائے تو محرومیوں کا ازالہ ہونا نا ممکن ہے۔ شناخت یا انتظامی درجہ بدل جانے سے بنیادی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ مسئلہ طبقاتی ہے، قومی یا مذہبی نہیں۔ جب تک طبقاتی نظام کو اکھاڑا نہیں جاتا، ذرائع پیداوار اور معیشت کو سماج کے اشتراکی کنٹرول میں لے کر نسل انسان کی ضروریات کے تحت نہیں چلایا جاتا، تب تک کسی قوم اور خطے کے معاشی و سماجی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ سماج میں اس بنیادی تبدیلی کے لئے سوشلسٹ انقلاب درکار ہے۔

متعلقہ:

گلگت بلتستان میں عوامی تحریک: چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی

Comments are closed.