پشتون لانگ مارچ: ریاستی جبر کے خلاف پشتون عوام کا پھیلتا ہوا آتش فشاں

|تحریر: رزاق غورزنگ|

پشتون تحفظ موومنٹ(PTM) کے کوئٹہ میں جلسے کا منظر جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی

پاکستان کی ریاست کے فوجی جبر کے خلاف پشتون عوام کی پھیلتی ہوئی تحریک نے ریاست کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے ریاستی قتل کے خلاف ڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہونیوالا چھوٹا قافلہ منظور پشتین کی قیادت میں اب ایک بہت بڑی تحریک میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہ تحریک تھمنے کی بجائے پھیلتی ہی جارہی ہے۔ 9مارچ سے 11مارچ تک منظور پشتین اور پشتون تحفظ موومنٹ کی دیگر قیادت نے بلوچستان کے پشتون علاقوں کا تاریخی دورہ کیا۔ ژوب، قلعہ سیف اللہ، خانوزئی اور کوئٹہ میں ہزاروں کی تعد اد میں لوگوں نے منظور پشتین کا استقبال کیا۔ ان شہروں کے اندر فوجی و ریاستی جبر کے خلاف بہت بڑے جلسے اور اجتماعات منعقد کیے گئے۔ 

عوام کی جانب سے ان تاریخی استقبال اور جلسوں کو دیکھ کر ریاستی ادارے انتہائی بو کھلا ہٹ کا شکار ہوگئے۔ سیکیورٹی اداروں نے ان جلسوں کو ناکام کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن ان کو منہ کی کھانی پڑی۔ ژوب کے جلسے کو ناکام کرنے کیلئے پہلے ریاستی اداروں نے پشتون کلچر ڈے کا ڈرامہ رچایا جس میں صرف 8قبائلی ملک (سرداروں)کے علاوہ تمام عوام نے بائیکاٹ کر دیا۔ پھر جس گراؤنڈ میں منظورپشتین کیلئے جلسے کا انتظام کیا گیا تھا اسی گراؤنڈ میں ریاستی اداروں نے ژوب اور شیرانی کی فٹبال ٹیموں کے درمیان میچ کا اعلان کر دیا تاکہ جلسے کو ناکام بنایا جائے۔ لیکن فٹبال ٹیموں نے میچ کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم ریاستی اداروں کی طرف سے منعقد کردہ میچ سے بائیکاٹ کرتے ہیں اور منظور پشتین کے جلسے میں شرکت کریں گے۔

ان جلسوں کے اندر بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی ان نوجوانوں کے جذبات اور موڈ انتہائی جوش و جذبے سے بھرپورتھا۔ جلسوں کے اندر سب سے مقبول نعرہ یہ تھا کہ’’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘‘۔ جلسے میں جو بھی مقرر فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی اور ریاست پر شدید تنقید کرتا نیچے سے اتنی ہی تالیاں اور نعرے ان کیلئے لگتے۔ ژوب میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے منظور پشتین نے کہاکہ، ’’ یہاں پر لوگوں نے لاہور کا ذکر کیا۔ میں کہتا ہوں کہ ہماری بربادی کا ذمہ دار لاہور نہیں بلکہ GHQ ہے‘‘۔

منظور پشتین

اسی طرح کوئٹہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پشتون نے کہاکہ، ’’ یہاں پر بات ہوئی کہ میڈیا بھی کنٹرول ہے۔ سیاست بھی کنٹرول ہے۔ ہمیں نام لینا چاہیے کہ کس نے کنٹرول کیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم صاف صاف باتیں کر لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ساری چیزیں GHQسے کنٹرو ل ہوتی ہیں‘‘۔ نیچے سے سب نوجوانوں نے پر جوش نعروں میں جو اب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں جی ایچ کیو ‘‘۔ اسی طرح پشتین نے نئے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ، ’’ہمارے مطالبات پر ایک مہینہ گزرنے کے باوجود کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ 25مارچ کو ہم پشاور میں بڑا جلسہ کریں گے۔ اس کے بعد سوات اور وزیرستان میں جلسے کریں گے۔ اس کے بعد اسلام آباد میں پھر لانگ مارچ کریں گے‘‘۔

پاکستانی ریاست اور فوج نے پچھلے 16سال سے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر فاٹا اور پشتونخواہ کے مظلوم عوام پر ایک سامراجی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ اس غلیظ ریاستی جنگ میں فاٹا اور پشتونخواہ کے عوام پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے۔ فاٹا بالخصوص وزیرستان کے تمام گھروں کوپاکستانی فوج نے بمباری کر کے مسمار کردیا۔ وانا اور میر علی کی مارکیٹوں، دکانوں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا گیا۔ ہزاروں مظلوم و معصوم پشتونوں کا ریاستی قتل عام کیا گیا۔ لاکھوں لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال کر ہجرت کرنے پر مجبور کیا گیا۔ پھر ظلم یہ ہوا کہ ریاست کی مسلط کردہ جنگ سے بھاگ کر پناہ ڈھونڈنے والے مظلوم و محکوم پشتون عوام پر دہشت گردوں کا لیبل لگا کر پنجاب اور سندھ میں ان کا داخلہ روکا گیا۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور ملک کے دوسرے بڑے شہروں میں پشتون نوجونوں اور عوام کی شدید نسلی پروفائلنگ کی گئی۔ ان تمام تر برباد یوں اور معصوم پشتونوں کے خون کی قیمت پاکستانی فوج اور جرنیلوں نے اربوں ڈالر کی شکل میں اپنے عالمی آقاؤں سے وصول کی۔ پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ درحقیقت یہ دہشت گرد اور طالبان پاکستانی فوج کے سٹرٹیجک اثاثے ہیں جس کو فوج تاریخی طور پر افغانستان میں سامراجی قبضے کیلئے استعمال کرتے ہیں ۔ 

PTMکے ژوب میں جلسے کا منظر

آج بھی ان اثاثوں کو یہ حکمران پوری شدت سے استعمال کر رہے ہیں لیکن تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ پاکستانی ریاست نے جن طالبان اور دہشت گردوں کو امریکہ اور سعودی عرب کے پیٹرو ڈالر سے افغانستان اور خطے میں آزادی پسند اور ترقی پسند کو کچلنے کیلئے بنائے تھے، آج انہی دہشت گردوں کی سرپرستی پر خونی امریکی سامراج کی جانب پاکستان کی شدید تذلیل کی جارہی ہے۔ امریکہ کا صدر پاکستانی جرنیلوں پر الزام لگا رہا ہے کہ آپ کو جتنے ڈالر ز دئیے جاتے ہیں آپ ان کے مطابق کام نہیں کر تے۔ ایسے میں پاکستانی ریاست امریکی غلامی میں شدید گھٹن محسوس کر رہی ہے۔ ان پر دائرہ تنگ کیا جارہاہے۔ علاقائی اور عالمی سیاست میں تیز ترین تبدیلیوں کی بدولت ریاستِ پاکستان عالمی و سامراجی طاقتوں کے بیچ ہچکولے کھا رہی ہے لیکن دوسری طرف یہی پاکستانی ریاست فاٹا، پشتونخواہ، بلوچستان اور سندھ میں سامراجی جکڑ کو مضبوط کرنے اور اپنی لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے فوجی و ریاستی جبر میں شدت سے اضافہ کر رہی ہے۔ مظلوم قوموں کے بنیادی حقوق کو سلب کیا جارہا ہے۔ بلکہ مظلوم قوموں کے انتہائی بنیادی جمہوری حقوق کے زخموں کو بھرنے کی بجائی ریاست پاکستان ا نہیں کرید کرید کر ناسور بنارہی ہے۔ اس تمام تر ریاستی جبر کے خلاف مظلوم قوموں کے اندر غصہ اور نفرت شدت سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں قومی سوال پاکستان کے اندر ایک انتہائی دھماکہ خیز شکل اختیار کر چکا ہے اور مظلوم قوموں کے مظلوم عوام کی تحریکیں اس ریاست کے وجود کیلئے شدید خطرہ ہیں۔ پشتون عوام کی حالیہ تحریک، اسی عمل کا آغاز ہے جس سے ریاست اپنی بنیادوں تک ہل گئی ہیں۔

PTMکے قلعہ سیف اللہ میں جلسے کا منظر

پشتون عوام کی حالیہ تحریک پشتون معاشرے کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اگر ہم تھوڑا سا مشاہدہ کر یں تو پوری دنیا کے اندر بڑی تبدیلیاں اور سیاسی زلزے ہمیں نظر آتے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، یونان، سپین، اٹلی، مشرق وسطیٰ اور ہر جگہ نئی قیادتیں ابھر اور پرانے سیاسی ڈھانچے منہدم ہو رہے ہیں۔ عوام کے اندر ان سیاسی قیادتوں کی حمایت بڑھ رہی ہے جو سب سے جرأت مند اور اپنی سیاسی لائین میں سب سے ریڈیکل ہو۔ ایسے میں پشتون معاشرہ خطے اور انٹر نیشنل کی تیز تر تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی و سماجی صورتحال سے بالکل کٹا ہوا نہیں ہے بلکہ آج کے گلو بلائزیشن کے تیز تر عہد میں علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کے اثرات بلا واسطہ پشتون سماج اور اس کی سیاست پر پڑرہے ہیں۔ 

اس پس منظر کو مدِنظر رکھتے ہوئے اگر ہم پشتون عوام کی حالیہ تحریک کا تجزیہ کریں تو یہ تحریک ماضی کی پشتون قومی تحریک سے یکسر طور پر مختلف ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پشتون عوام کی حالیہ تحریک کی قیادت کسی روایتی قوم پرست پارٹی کے پاس نہیں اور نہ اس تحریک کا آغاز ان روایتی پارٹیوں کے ڈھانچے سے ہوا ہے۔ بلکہ اس تحریک نے ان روایتی سیاسی پارٹیوں اور ان کے ڈھانچوں کوچیرتے ہوئی موجودہ عوامی شکل اختیار کی ہے۔ 

دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ 60ء اور70ء کی دہائی میں پشتون قومی آزادی کی تحریک پر ریڈیکل اور بائیں بازو کے نظریات کی واضح چھاپ موجود تھی اور ان کے اندر علیحدگی پسندی کے رومانوی جذبات بھی شدت سے پائے جاتے تھے جبکہ حالیہ تحریک علیحدگی پسندی اور مجرد نعروں کے بجائے ٹھوس مسائل اور ٹھوس مطالبات پر پاکستانی ریاست کے آئین و قانون کے اندر فی ا لحال گھوم رہی ہے۔ لیکن پاکستانی ریاست کا بحران اتنا شدید ہے کہ اس کے اندر یہ صلاحیت ہی موجود نہیں کہ وہ تمام مظلوم قوموں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی محرومی کا خاتمہ کرے۔

تیسرا اہم پہلو یہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام اور افغان ثور انقلاب کی ناکامی کے بعد پشتون قوم پر ست پارٹیاں شدید نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی زوال پذیری کا شکار ہوگئیں۔ ریاستی جبر کیخلاف مزاحمت اور نظریاتی جدو جہد کی بجائے ان پارٹیوں نے مصالحت اور سمجھوتوں کی سیاست شروع کی۔ نظریات کو پچھلی نشستوں پر رکھا گیا جس کی وجہ سے یہ پارٹیاں عوام اور سنجیدہ کا رکنوں سے دور ہوتی چلی گئیں ۔ ماضی میں ان کا جو سامراج مخالف اور ترقی پسند کر دار تھا وہ آج مکمل طور پرختم ہو چکا ہے۔ 

اس میں چوتھا اہم پہلو یہ ہے کہ حالیہ پشتون تحریک کی قیادت روایتی خان یا ملک کی بجائے عام نوجوان کررہے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پشتون سماج گزشتہ30سالوں میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی حوالے سے بہت بڑی تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ 

اس کے علاوہ آخری اہم پہلو یہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں آج کی پشتون مڈل کلاس پہلے کی نسبت پاکستان کے ریاستی، سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں زیادہ پیوست ہے۔ ان کے لئے پشتون قوم پرست پارٹیوں کے مجرد نعرے شاید اتنے پر کشش نہیں رہے۔ لیکن دوسری طرف پاکستان کا ریاستی، سماجی، معاشی اور سیاسی بحران اتنا شدید ہے کہ حکمران طبقہ محنت کشوں، کسانوں کے ساتھ ساتھ اب مڈل کلاس پر بھی شدید حملے کررہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں ہر جگہ مڈل کلاس ہیجان کا شکار ہے اور احتجاجوں پر نکل رہی ہے۔ ریاستی جبر کے خلاف حالیہ پشتون قومی تحریک کے اندر سر گرم نوجوان کارکنوں کے لئے یہ سوالات انتہائی اہمیت اختیار کر جاتے ہیں کہ آگے جا کر یہ تحریک کیاسیاسی شکل اختیار کرے گی؟ کیا یہ تحریک آگے جا کر ریاستی جبر کے خلاف منظم تنظیمی ڈھانچے اور واضح نظریاتی و تنظیمی لائحہ عمل کی شکل اختیار کرے گی؟ اس تحریک کا ملک کے دوسرے مظلوم قوموں، محنت کشوں اور کسانوں کے ساتھ کیا سیاسی و نظریاتی تعلق کیا بنے گا؟ یہ وہ سوالات اور بحثیں ہیں جو آگے جا کر مزید شدت سے اُبھریں گی۔ 

لیکن اس تمام عرصے میں یہ تحریک سماج کی وسیع تر پرتوں کو اپنے اندرسمیٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ریاست کے ظلم و جبر کیخلاف مظلوموں کی للکار بن کر ابھری ہے۔ اس کو ریاستی جبرو تشدد، جعلی مقدمات اور قتل و غارت سے روکنا اب ممکن نہیں۔ بلکہ یہ ریاست کے تمام اداروں، اس کے آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے آگے بڑھتی چلی جائے گی۔ یہ تمام عمل یقیناًسیدھی لکیر میں نہیں ہو گا لیکن یہ واضح ہے کہ اس ظالم ریاست کی شکست نوشتۂ دیوار ہے۔ سچے جذبوں کی قسم جیت محنت کش طبقے کی ہو گی!