سندھ: سرکاری ملازمین و محنت کشوں کی ہڑتال کو کیسے کامیاب بنایا جا سکتا ہے؟

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی، حیدر آباد|

اس وقت پوری دنیا میں معاشی بحران شدت اختیار کر چکا ہے اور یہ معاشی بحران سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی نامیاتی بحران ہے جس کے باعث حکمراں طبقہ آئے روز اجرتوں میں کمی، پینشن میں کٹوتیوں، ملازمتوں کا خاتمہ، عوامی اداروں کی نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور جبری ریٹائرمنٹ جیسے اقدامات کرنے پر تلا ہوا ہے اور یہ پالیسیاں پوری دنیا کے ملکوں کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ملکوں کے حکمران طبقے نے بھی بھرپور جبر کے ساتھ لاگو کی ہیں۔ یہ نام نہاد اصلاحات پروگرام آئی ایم ایف جیسے سامراجی اداروں کا تشکیل شدہ ہوتا ہے جن کو اپنے پیسے کی واپسی سے غرض ہے نہ کہ عوام سے۔ جو قرضہ جات حکمران طبقہ آئی ایم ایف سے لیتا ہے اس کے معاہدے ہمیشہ عوام سے پوشیدہ رکھے جاتے اور ان قرضوں کی واپسی محنت کش عوام کا خون نچوڑ کر کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ عوام کو یہ بھی باور کروایا جاتا ہے کہ ملک بحران میں ہے اس لیے اب عوام کو مزید اور پہلے سے بڑی قربانی دینی پڑے گی۔

اسی طرح ان سامراجی معاشی پالیسیوں کا سارا بوجھ پاکستان کے غریب عوام پر پڑا ہے جس کے باعث پورے ملک میں عوام سمیت سرکاری ملازمین و محنت کش بھی سراپا احتجاج ہیں۔ جب بھی محنت کش طبقہ اپنے مطالبات کے حصول کے لیے لڑتا ہے تو اس لڑائی میں عام ہڑتال یعنی کام چھوڑ ہڑتال ایک ناگزیر عمل بن جاتا ہے جس کے ذریعے محنت کش طبقہ، چاہے وہ ایک عام صنعتی محنت کش ہو یا سروسز سیکٹر کا مزدور، استاد ہو یا فیکٹری ورکر سب مل کر سماج کا پہیہ روک دیتے ہیں کیوں کہ یہی وہ طبقہ ہے جو اس پورے سماج کو چلاتا ہے۔ فرض کریں اگر ہسپتالوں میں کام کرنے والے سارے ورکرز، ینگ ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ہڑتال کر دیں تو کیا ہو گا؟ اگر واپڈا میں کام کرنے والے سارے لائن مین اور دیگر محنت کش ہڑتال پر چلے جائیں تو بجلی کا نظام کون چلائے گا؟ اگر سینیٹری ورکرز یا صفائی کرنے والا عملہ ہڑتال پر چلا جائے تو ہمارے شہر رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

محنت کش طبقے کی یہی طاقت ہوتی ہے جو ان کو یہ باور کرواتی ہے کہ وہ ہی اس سماج کی اصل طاقت ہیں جو جب چاہیں اس سماج کا پہیہ جام کر سکتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پورے پاکستان سمیت سندھ بھر کے ملازمین اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں جس میں پینشن اصلاحات کی واپسی، ڈی آر اے سمیت دیگر الاؤنسز کا حصول اور تنخواہوں میں اضافے جیسے مطالبات شامل ہیں۔ سندھ بھر کے ملازمین کی قیادت کرنے والی تنظیم سندھ ایمپلائیز الائنس نے دو روز پہلے کراچی میں یہ اعلان کیا تھا کہ 23 ستمبر سے سرکاری اداروں و دفاتر کی تالا بندی کی جائے گی جو کہ انتہائی اہم اور بروقت فیصلہ ہے لیکن یہ تالابندی غیر معینہ مدت کے لیے نہیں ہے۔

محنت کش طبقے کی تحریک میں تالابندی و ہڑتال ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن مرحلہ ہوتی ہے۔ سندھ ایمپلائز الائنس کی جانب سے کچھ دن کی تالابندی کا کہا جا رہا ہے جس کے بعد کراچی میں ایک بار پھر بلاول ہاؤس پر دھرنا دیا جائے گا۔ الائنس کی جانب سے پہلے بھی دو مرتبہ ایک روزہ ہڑتال اور تالا بندی کی جا چکی ہے جس میں ملازمین کو ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کا بھی سامنا رہا اور ان ہڑتالوں میں زیادہ تر تعداد اساتذہ کی تھی۔ لیکن یہ ہڑتالیں مؤثر ثابت نہ ہو سکیں۔ تحریک کو بار بار بیک فٹ پر لے جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ الائنس میں شامل دیگر تنظیموں کی قیادت تالا بندی و ہڑتال کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر ہڑتال کا دورانیہ نہ بڑھایا گیا تو یہ محنت کشوں اور تحریک، دونوں کو شکست اور مایوسی کی طرف لے جائے گا۔

سندھ ایمپلائز الائنس کو چاہیے کہ سندھ سے آغاز کرتے ہوئے پورے ملک میں ملازمین و محنت کشوں کی تنظیموں سے رابطے کیے جائیں کیونکہ یہ تحریک محض ایک صوبے میں نہیں چل رہی بلکہ کے پی کے، پنجاب اور بلوچستان میں بھی جاری ہے اور رنگ، نسل اور زبان کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر اس تحریک کو ایک طبقاتی جڑت کی بنیاد پر جوڑا جائے اور ایک ہی وقت میں ملک گیر عام ہڑتال کی طرف بڑھا جائے۔ اس سے ملازمین و محنت کشوں کی طاقت میں نہ صرف اضافہ ہو گا بلکہ وہ اپنے مطالبات منوانے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے۔

اس کے علاوہ الائنس میں شامل ساری قیادت سے پہلے تحریری معاہدہ کیا جائے کہ کوئی بھی حکومت کے دباؤ میں آ کر ہڑتال ختم نہیں کرے گا۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تنظیمی اصول و ضوابط کے مطابق کاروائی کی جائے گی۔ تالا بندی اور ہڑتال کو مضبوط کرنے اور وسعت دینے کے لیے ہر شہر میں عوامی اداروں اور سرکاری محکموں کے اندر ملازمین و محنت کشوں کی ہڑتالی کمیٹیاں بنائی جائیں اور یہ کمیٹیاں مرکزی سطح پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوں۔ بھرپور کوشش کی جائے کہ نجی صنعتوں کے محنت کشوں کے مطالبات کو بھی پروگرام کا حصہ بناتے ہوئے انہیں بھی ہڑتال میں شامل کیا جائے۔ اسی طرح وسیع تر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے لیفلیٹس کے ذریعے عوامی رابطہ مہم چلائی جائے جس میں خاص کر عوام کو پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کے عوامی نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔

کچھ دن کی مختصر تالا بندی حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے مگر اسے جھکا نہیں سکتی۔ ملازمین و محنت کشوں کے مطالبات کی منظوری کے لیے ضروری ہے کہ بھرپور حکمت عملی کے ساتھ غیر معینہ مدت تک ملک گیر عام ہڑتال کو جاری رکھا جائے اور یہ عمل جب ایک دفعہ شروع ہو گیا تو پھر صرف فوری مطالبات کی منظوری پر رکنا نہیں چاہیے بلکہ محنت کشوں کو حق حکمرانی اور ذرائع پیداوار پر حق ملکیت کا نعرہ بھی بلند کرنا ہو گا۔ اس سارے عمل میں اگر موجودہ قیادت رکاوٹ بنے تو محنت کشوں کو چاہیے کہ وہ اس قیادت کو پیچھے ہٹائیں اور جمہوری طریقے سے نئی اور لڑاکا قیادت کا انتخاب کریں جو اپنے ہر عمل کے لیے محنت کشوں اور ان کی کمیٹیوں کے آگے جوابدہ ہو۔ حتمی فتح کے لیے اس تحریک کو معاشی مطالبات سے آگے بڑھا کو سیاسی مطالبات اور نظام کی ناکامی اور اس کی انقلابی بنیادوں پر تبدیلی کے ساتھ جوڑنا ہو گا۔

Comments are closed.