بلوچستان: جبری گمشدگیوں کے خلاف گوادر اور کوئٹہ میں احتجاجی دھرنے

|منجانب: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|

گوادر شہر اور گردونواح سے 14 اگست 2022ء کے بعد ایک ہفتے کے دوران خفیہ اداروں کے جانب سے کریک ڈاؤن میں 9 نوجوانوں کو اٹھائے جانے والوں کی بازیابی کے لیے حق دو تحریک کی جانب سے وارننگ دی گئی کہ شام چار بجے تک وہ نوجوان بازیاب نہ ہوئے تو حق دو تحریک عوامی طاقت کے ساتھ کوسٹل ہائی وے پر سربندن کراس پر مسلسل دھرنا دے گی۔

اسی طرح سرکاری اداروں کی جانب سے خاموشی نے تحریک کے سرگرم لوگوں پر یہ بات بالکل واضح کردی کہ بنا کسی عوامی طاقت کے مظاہرے کے حکمران کچھ نہیں کریں گے۔

حق دو تحریک کی جانب سے دھرنے کا جو ٹائم دیا گیا تھا بالکل اسی وقت عوام کا مجمع سربندن کراس پر جمع ہونا شروع ہوگیا اور دھرنے کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد ٹریفک کی لمبی قطاریں کوسٹل ہائی وے پر لگ گئیں۔

اس کے بعد مغرب کے وقت ایس ایس پی گوادر طارق مستوئی دھرنے کے مقام پر مذاکرات کے لیے آ پہنچا۔ اس نے تقریباً ایک گھنٹے کے طویل مذاکرات کیے جس کے بعد بھی عوام کو قائل نہ کرپایا۔ عوام اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ایس ایس پی صاحب مسنگ پرسنز کو فوراً رہا کیا جائے یا پولیس کے حوالے کیا جائے۔

جبکہ ایس ایس پی صاحب یہ تجویز پیپر پر لکھ کر آئے تھے کہ مسنگ پرسنز کو سی ٹی ڈی کے حوالے کیا جائے گا، جبکہ لوگ سی ٹی ڈی کے جرائم سے پہلے ہی واقف تھے جہاں انہوں نے زیارت میں 9 مسنگ پرسنز کا جھوٹا انکاؤنٹر کیا تھا۔ اس انکاؤنٹر میں ان کی شناخت کے بعد انہیں دفنا دیا تھا۔ مگر سی ٹی ڈی کے اس بزدلانہ عمل کے خلاف پچھلے 35 دنوں سے مسنگ پرسنز کے لواحقین کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں، جن کے مطالبات درج ذیل ہیں:

1۔ سانحہ زیارت کی شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔
2۔ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے، یا پھر انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
3۔ مستقبل میں مسنگ پرسنز کو اس طرح کے واقعات میں نہ مارنے کی ضمانت دی جائے۔

اس رات کو گیارہ بجے پولیس کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ان 9 نوجوانوں میں سے 3 کو رہا کردیاگیا ہے اور باقی 6 کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

اس کے بعد دھرنے کا اختتام ان شرائط کے ساتھ کیا گیا کہ آئندہ جب بھی خفیہ ادارے والے کسی کو بنا کسی اطلاع کے اٹھانے آئیں گے تو ہم پھر سے اسی روڈ اور اسی جگہ پر دھرنا دیں گے۔ کسی کا کوئی بھی جرم ہو تو خفیہ ادارے والے ہم سے رابطہ کریں، ہم خود انہیں پولیس کے حوالے کردیں گے۔

حق دو تحریک کی جانب سے کامیاب دھرنے پر ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ مگر اس ضمن میں عوامی سطح پر بہت سارے خدشات کا جنم لینا بھی ایک طرف حق بجانب ہے۔ ایک طرف کوئٹہ شہر کے ریڈ زون میں پچھلے 35 دنوں سے لواحقین کی جانب سے احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے جس پر حکومت اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے غیر سنجیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور مختلف وفود کو حکومت کی جانب سے احتجاجی دھرنے میں بھیجا جا رہا ہے جن کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہوتا جبکہ وہ ان احتجاجی مظاہرین کو سیلاب کی وجہ سے اخلاقی طور پر اُٹھنے کا کہہ رہے ہیں جو کہ انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت عمل ہے۔

لیکن دوسری جانب حق دو تحریک کی جانب سے چوبیس گھنٹوں کے الٹی میٹم کی بنیاد پر جبری گمشدگی کا شکار 9 افراد کی بازیابی خوش آئند ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں کوئٹہ شہر کے ریڈ زون میں لواحقین کی جانب سے دیئے گئے احتجاجی دھرنے پر حکومت اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے غیر سنجیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے؟ ایک بات یہاں پر یہ کہی جا سکتی ہے کہ حق دو تحریک کے پاس افرادی قوت بہت زیادہ ہے اور اسے پورے مکران ڈویژن کے عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ مگر اس تحریک کی قیادت ریاست کی حمایت یافتہ دائیں بازو کی ایک مذہبی پارٹی کے تربیت یافتہ لیڈر کے پاس ہے جس سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کیا ان کو بلوچستان کے مظلوم عوام پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلط کیا جارہا ہے؟ اور احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے لواحقین کے ساتھ دانستہ طور پر غیر سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بتایا جا رہا ہے کہ آپ لوگوں کے احتجاج سے ہم خائف نہیں ہوں گے، اور یوں اگر لواحقین کے احتجاج کے بل بوتے پر ہم مسنگ پرسنز کو چھوڑ دیں گے تو اس سے بلوچ سماج کے اندر لواحقین کو حوصلہ مل جائے گا۔ اور مسنگ پرسنز کے لواحقین کو صوبے میں رائج روایتی سیاسی رجحانات سے مکمل طور پر بدظنی مل سکتی ہے اور اس ضمن میں ان کو اپنی قوت بازو کا ادراک ہوگا۔

دوسری جانب کوئٹہ شہر کے اندر جاری احتجاجی دھرنے کے حوالے سے اگر ہم مختصراً بات کریں، تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اس وقت اس دھرنے میں زیادہ تعداد شریک نہیں ہو رہی حالانکہ انہوں نے تین دفعہ کوئٹہ شہر کے مضافاتی علاقوں سے احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں۔ گوکہ اس میں عوام نے ایک حد تک شرکت کی تھی لیکن جس طرح اس حساس مسئلہ کے اوپر لوگوں کو نکلنا چاہیے تھا اتنی بڑی تعداد میں آج تک لوگوں نے شرکت نہیں کی ہے، جبکہ چند گنے چنے چہرے ہیں جو کہ ہر روز اس طرح کے احتجاجوں میں شرکت کرتے ہیں۔

اس حوالے سے بہت سارے اہم مسائل ہیں جن پر بات کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ بلوچستان میں جاری قومی جبر کے نتیجے میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ پچھلی ڈیڑھ دہائی سے شدت کے ساتھ جاری ہے جس میں روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے نوجوانوں اور سیاسی ورکرز کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے۔ اور جبری گمشدگی کی روک تھام کے سلسلے میں بہت سارے احتجاج بھی ہوتے ہیں جبکہ پچھلے 13 سالوں سے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ بھی جاری ہے جن کا کام اس وقت صرف رجسٹریشن تک ہی محدود ہو چکا ہے کہ بلوچستان کے طول و عرض میں جہاں پر جبری گمشدگی ہوتی ہے تو ان کے لواحقین ایک عرصے کے بعد یہاں پر اپنے پیارے کی رجسٹریشن کروا لیتے ہیں۔ بالخصوص پچھلے چار سالوں سے مسنگ پرسنز کے اوپر بلوچستان میں کئی احتجاجی مظاہرے اور بھرپور ریلیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی تحریکیں بھی چلی ہیں مگر مختلف طریقوں کے ذریعے ان احتجاجی مظاہروں اور چھوٹی چھوٹی تحریکوں کو اس کیمپ تک محدود کرنے میں بلوچ موقع پرست سیاسی پارٹیوں کا مجرمانہ کردار اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت کی معروضی و موضوعی کمزوریاں بھی شامل ہیں۔

مختصراً ہم اس ضمن میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بلوچ سماج کے اندر ریاست کے خلاف جتنی شدید نفرت موجود ہے اسی پیمانے سے ریاستی اداروں کی جانب سے پھیلائے گئے خوف کا موجود ہونا بھی ناگزیر عمل ہے۔ ریاست کی جانب سے ڈھائے گئے مظالم اور شدید خوف کے باوجود بلوچ سماج میں عوامی جدوجہد پر یقین رکھنے والے نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں نے اس خوف کی دیوار کو توڑنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ اور اس وقت بلوچ سماج میں جہاں ایک طرف موقع پرستی اور ریاستی دلالی کی انتہاء کو لوگ مسترد کر چکے ہیں، وہیں دوسری جانب مسلح جدوجہد سے بھی لوگ اُکتا چکے ہیں۔ اس سلسلے میں عوامی مزاحمت ہی راہ نجات تصور کیا جانے لگا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے مگر اس وقت بلوچستان سمیت پاکستان اور پوری دنیا میں سطح پر کوئی متبادل عوام کے پاس موجود نہیں ہے۔ یہ متبادل بھی کوئی آسمان سے اترنے والا نہیں ہے بلکہ جبر، بربریت اور استحصال سے تباہ حال اسی سماج کی کھوکھ سے ہی وہ متبادل جنم لے گا۔ یہ متبادل ایک ایسی انقلابی پارٹی ہی بن سکتی ہے جو بلوچستان سمیت پورے خطے کے محنت کش عوام کو منظم کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرے۔ ہم ایک ایسی ہی انقلابی پارٹی تعمیر کر رہے ہیں۔ ہم ان تمام نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں جبر اور استحصال کی ہر شکل کو ختم کرنے کے لیے اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کا حصہ بنیں تاکہ ہر طرح کے جبر و استحصال سے پاک ایک انسان دوست سماج تعمیر کیا جا سکے۔

Comments are closed.