|تحریر: آفتاب اشرف|
پچھلے کچھ عرصے سے جنوبی ایشیا اور اس کے گردو نواح میں علاقائی اور عالمی سامراجی ریاستوں کے مابین تعلقات میں تیز ترین تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ ماضی کے اتحاد ٹوٹ رہے ہیں اور ’’نئی دوستیاں‘‘ ان کی جگہ لے رہی ہیں۔ پرانے تضادات کے بطن سے نئے تضادات کا جنم ہورہا ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی بالادستی کے تحت قائم ہونے والا یک قطبی(Unipolar) ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر چکا ہے اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا کی طرح جنوبی ایشیا میں بھی بین الریاستی تعلقات شدید اتھل پتھل کاشکار ہیں۔
یہ سب تبدیلیاں ایک نئے عہد کی غمازی کرتی ہیں جس کا آغاز 2008ء میں سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے بدترین بحران سے ہوا تھا۔ نوسال گزرنے کے باوجود عالمی معیشت اس بحران کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکی اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے کوئی آثار نظر آرہے ہیں۔ سرمایہ داری کے اس نامیاتی بحران کی شدت نے جہاں ایک طرف دنیا کے ہر سماج کی داخلی سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے وہیں عالمی تعلقات اور مختلف سامراجی قوتوں کے مابین طاقت کے توازن پر بھی اس کے نہایت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عالمی تعلقات میں اس بدلاؤ کی سب سے اہم وجہ امریکی سامراج کا ضعف ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اگرچہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت ہے لیکن یہ ایک زوال پذیر سامراج ہے جو کہ ماضی کا رعب و دبدبہ کھو چکا ہے۔ افغانستان اور عراق میں ناکامی، وسطی ایشیا سے بے دخلی، مشرق وسطیٰ میں لاغر پن، یوکرائن کے معاملے پر محض گیدڑ بھبھکیاں، ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ، مشرق بعید میں تناؤ اور ماضی کی اتحادی گماشتہ ریاستوں کا آنکھیں دکھانا؛ یہ سب عالمی سطح پر امریکی سامراج کی بتدریج کمزور ہوتی ہوئی پوزیشن کی ہی عکاسی کرتے ہیں۔ اس کمزوری کے نتیجے میں جنم لینے والے طاقت کے خلا کو پر کرنے کیلئے نئی سامراجی قوتیں سر اٹھا رہی ہیں جن میں چین اور روس سرفہرست ہیں جبکہ ترکی، سعودی عرب اور پاکستان جیسے پرانے اتحادی اپنی من مانیاں کر رہے ہیں اور نئے تعلقات استوار کرتے ہوئے اپنے سامراجی عزائم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسی کیفیت میں بھارت اور ایران جیسے ممالک کو بھی علاقائی سطح پر اپنے سامراجی کردار کو وسعت دینے کا موقع مل رہا ہے۔ غرض یہ کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک دنیا پر قائم رہنے والی امریکہ کی بے تاج بادشاہی کا دور ختم ہوچکا ہے اور آج کرہ ارض کے بے شمار خطے مختلف سامراجی قوتوں کے مابین بالادستی کے لئے لڑی جانے والی جنگوں کا اکھاڑہ بن چکے ہیں۔
پچھلی ایک دہائی میں چین عالمی سطح پر ایک اہم سامراجی طاقت کے طور پر ابھرا ہے۔ وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ اور لاطینی امریکہ سمیت دنیا کے بے شمار خطوں میں چینی سرمائے کی بڑے پیمانے پر برآمد اس حقیقت کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ اور انفرا سٹرکچر تعمیر کرنے کے اس جیسے دیگر بیرون ملک منصوبے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مقابلے میں مالیاتی اداروں اور انوسٹمنٹ بینکوں کا قیام، خام مال کے حصول اور اپنا صنعتی مال بیچنے کی غرض سے عالمی منڈیوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ داری کیلئے اختیار کی گئی جارحانہ پالیسیاں اور پوری دنیا میں پھیلی ہوئی اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کی خاطر فوجی طاقت اور سیاسی اثرورسوخ میں اضافے کی کوشش، یہی عوامل مل کر چین کے بڑھتے ہوئے سامراجی کردار کی غمازی کرتے ہیں۔ یہ سب عوامل مل کر چین کو امریکی سامراج کے چھوڑے ہوئے خلا کو پر کرنے کی کوشش کرنے والی سب سے اہم قوت بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور چین کے سٹریٹجک تضادات میں روز بروز شدت آرہی ہے اور دونوں سامراجی قوتوں کے اپنا حلقۂ اثر بڑھانے کی کوششوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔ چین کے علاوہ روس بھی اپنی کمزور معیشت کے باوجود ایک سامراجی قوت کے طور پر اپنی طاقت منوا رہا ہے اور وسطی ایشیا، یوکرائن اور شام میں امریکی سامراج کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اس تمام صورتحال میں یورپی سامراجی خصی پن کی منہ بولتی تصویر بن چکے ہیں۔ یورپی یونین اپنے معاشی تضادات کے بوجھ تلے دب کر تڑخ رہی ہے۔ برطانیہ اگرچہ آج بھی امریکہ کا قابل اعتماد اتحادی ہے لیکن بطور سامراجی قوت اپنی طاقت کھو چکا ہے۔ اسی طرح چاروں طرف سے یورپی یونین کے بحران میں گھری جرمن بورژوازی بھی کئی معاملات پر (خصوصاً روس سے متعلق) امریکی پالیسیوں سے شدید اختلاف رکھتی ہے۔ اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ کی مخالف سامراجی قوتوں کے کوئی آپسی تضادات اور اختلافات موجود نہیں ہیں لیکن امریکی سامراج کے ساتھ مخاصمت کی وجہ سے یہ آپسی اختلافات وقتی طور پر دب جاتے ہیں۔ بڑی سامراجی طاقتوں کے مابین ان تضادات کے نتیجے میں بھارت، پاکستان، سعودی عرب، ایران، ترکی اور ان جیسی دیگر دوسرے اور تیسرے درجے کی سامراجی قوتوں کو بھی علاقائی سطح پر اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کا موقع مل رہا ہے جس سے یہ تمام ریاستیں بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس مقصد کیلئے یہ ریاستیں بدلتے ہوئے حالات اور مفادات کے تحت بڑی سامراجی قوتوں کے ساتھ نئے اتحاد تشکیل دے رہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں مشترک قدر یہ ہے کہ ان تمام سامراجی ریاستوں کا حکمران طبقہ اپنے ملک کے محنت کش طبقے کی بغاوت سے خوفزدہ ہے اور سکیورٹی، ملک و قوم، اقدار، مذہب اور فرقے کے نام پر لڑی جانے والی ان سامراجی لڑائیو ں کو جواز بناتے ہوئے عوام پر ریاستی جبر بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
دنیا کے کئی دیگر خطوں کی طرح جنوبی ایشیا بھی مختلف سامراجی طاقتوں کے مابین کھیلی جانے والی اس نئی گریٹ گیم کا اکھاڑہ بن چکا ہے اور انہی تضادات کا بحیثیت کل مطالعہ کرتے ہوئے اس خطے کے مارکس وادیوں کو مستقبل کے تناظر سے مسلح کرنا اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔
افغانستان۔ ۔ ۔ خون ریزی کا لامتناہی سلسلہ
لینن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’’سرمایہ داری ایک نہ ختم ہونے والی وحشت ہے‘‘۔ افغانستان کی صورتحال لینن کی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ افغانستان پر سامراجی جارحیت کے 16سالوں میں سینکڑوں ارب ڈالر پھونکنے کے باوجود امریکہ افغانستان میں اپنا کوئی ایک بھی سٹریٹجک ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ طمانچہ ہے سرمایہ داری کے عذر خواہ ان لبرل دانشوروں کے منہ پر، جو یہ سمجھتے تھے کہ امریکی سامراج افغانستان میں استحکام کا باعث بنے گا۔ جبکہ مارکس وادیوں نے ہمیشہ یہ وضاحت کی تھی کہ سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کے عہد میں ایک زوال پذیر امریکی سامراج کی افغانستان میں فوجی مداخلت صرف اور صرف مزید خون ریزی، عدم استحکام اور بربریت کو ہی جنم دے سکتی ہے۔ امریکی سامراج کے ساتھ ساتھ خطے کی کئی علاقائی قوتوں نے بھی افغانستان کو ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کرنے کیلئے پراکسی جنگوں کا اکھاڑہ بنا رکھا ہے لیکن اس سلسلے میں سب سے بھیانک کردار پاکستان کی گماشتہ سامراجی ریاست کا ہے جس نے ایک طرف تو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں اتحادی بن کر امریکی سامراج سے خوب مال بٹورا ہے تو دوسری طرف طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کی حمایت بھی جاری رکھی ہے۔ رہی سہی کسر بھارت، ایران، سعودی عرب اور اب چین اور روس کی مداخلت نے پوری کردی ہے۔
2014ء کے بعد جہاں ایک طرف پاکستانی پشت پناہی کے ساتھ افغانستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی کاروائیوں میں تیزی آئی وہیں روس، چین، بھارت اور ایران کی افغانستان میں سامراجی مداخلت میں بھی اضافہ ہوا۔ ان سب سامراجی قوتوں کے افغانستان میں اپنے اپنے سٹریٹجک مقاصد ہیں جن کو حاصل کرنے کیلئے یہ سب افغان سماج کو مکمل طور پر برباد کر دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی گماشتہ سامراجی ریاست کابل پراپنی بالادستی چاہتی ہے تاکہ وہ جہاں ایک طرف خطے سے بھارتی اور ایرانی اثر و رسوخ کا خاتمہ کرسکے وہیں دوسری طرف پچھلی تین دہائیوں میں اس علاقے میں پروان چڑھنے والی سینکڑوں ارب ڈالر کی کالی معیشت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھ کر مزید مال بنا سکے۔ بھارت کابل پر پاکستانی ریاست کی بالادستی کا مخالف ہے اور کابل پر اپنا اثرورسوخ چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں طاقت کا توازن اپنے حق میں رکھ سکے اور بھارت میں پاکستانی انٹیلی جنس کی کاروائیوں کا جواب بذریعہ افغانستان دے سکے۔ اس کے علاوہ پچھلے چند سالوں میں افغانستان میں بھارتی دلچسپی بڑھنے کی ایک اور وجہ چین کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ پراجیکٹ(بشمول سی پیک) کی کامیابی کیلئے افغانستان کی سٹریٹجک اہمیت بھی ہے کیونکہ اس پراجیکٹ کے کئی بڑے اور اہم منصوبے افغانستان کے گردونواح میں واقع ہیں۔ سعودی عرب سرکاری طور پر تو اس جنگ میں امریکی سامراج کا حمایتی ہے لیکن ایک طویل عرصے سے بالواسطہ طور پر پاکستان کے ذریعے طالبان کو سپورٹ(خصوصاً مالی) کر رہا ہے۔ اس جنگ میں سعودی عرب کی سامراجی مداخلت کا اولین مقصد ایران کے اثرورسوخ کا خاتمہ کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی پراکسی جنگوں کو افغانستان اور پاکستان کے ذریعے ایران تک پہنچانا ہے۔ ایران کی بھی افغانستان میں مداخلت کی پرانی تاریخ ہے۔ 2001ء سے قبل ایران طالبان حکومت کے مقابلے میں بھارت کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد کو سپورٹ کرتا تھا۔ افغانستان میں امریکی سامراج کی موجودگی اگرچہ ایران کیلئے ایک تشویش ناک امر ہے لیکن آج بھی ایران کی ملا اشرافیہ اور حکمران طبقے کی افغان پالیسی کا بنیادی مقصد سعودی عرب اور پاکستان کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرتے ہوئے افغانستان پر ایران مخالف قوتوں کی بالادستی کے قیام کو روکنا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں چین اورر وس کی افغانستان میں مداخلت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ روس امریکی سامراج کی کمزوری کو بھانپتے ہوئے افغانستان پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ جہاں ایک طرف وہ وسطی ایشیا میں انتہائی کمزور پڑتے ہوئے امریکی اثرورسوخ کو مزید کم کرسکے، وہیں دوسری طرف افغانستان میں ایک ’’مستحکم حکومت‘‘ کے قیام میں اپنا ’’کردار‘‘ ادا کرکے عالمی سطح پر امریکی سامراج کے مقابلے میں اپنی طاقت کا لوہا منوا سکے۔
حالیہ سالوں میں چین کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کی بنیادی وجہ اس کے ’ون بیلٹ ون روڈ‘ منصوبے (بشمول سی پیک) کی کامیابی کیلئے افغانستان کی سٹریٹجک اہمیت ہے۔ چینی بیوروکریسی اور حکمران طبقہ یہ بخوبی جانتا ہے کہ افغانستان کا انتشار اور خانہ جنگی باآسانی اس کے منصوبوں کو متاثر کرسکتی ہے اور ان کی سرمایہ کاری خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کے ذریعے افغانستان میں اپنی مداخلت کو بڑھا رہے ہیں۔ اگرچہ وہ اس معاملے میں پاکستان کی ریاستی اشرافیہ پر مکمل بھروسہ تو نہیں کرتے لیکن طالبان اور حقانی نیٹ ورک پر پاکستانی ریاست کے بھاری اثر ورسوخ کی وجہ سے فی الحال ایسا کرنا ان کی مجبوری ہے۔
ان تمام سامراجی قوتوں کی مداخلت امریکی سامراج کو افغانستان میں اپنی فوجی جارحیت کو بڑھانے کا جواز فراہم کر رہی ہے۔ خاص طور پر افغانستان میں روسی مداخلت، چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور گوادر بندرگاہ پر چینی بحریہ کی ممکنہ تعیناتی کے پس منظر میں امریکی سامراج کیلئے افغانستان پھر سٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ بن گیا ہے۔ 13اپریل 2017ء کو امریکہ نے افغانستان کے صوبے ننگرہار پر 22ہزار پونڈ وزنی جی۔ بی۔ یو 43/B بم پھینک کر درحقیقت اپنی مخالف سامراجی قوتوں کو یہ وارننگ دی ہے کہ وہ ابھی کھیل سے باہر نہیں ہوا ہے۔ 2014ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے ایک بڑے حصے کے انخلا پر مارکس وادیوں نے یہ تناظر دیا تھا کہ امریکہ کے چھوڑے ہوئے اس خلا کو دیگر سامراجی قوتیں پر کرنے کی کوشش کریں گی اور نتیجتاً امریکی سامراج کو جلد یا بدیر افغانستان میں اپنی فوجی کاروائیوں میں پھر اضافہ کرنا پڑے گا۔ آج بالکل ایسا ہی ہورہا ہے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق نیٹو افغانستان میں ’’چند ہزار‘‘ مزید فوجی تعینات کرنے پر غور کر رہی ہے اور امریکی میڈیا میں گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ افغانستان میں بہت جلد 3سے 5 ہزار مزید فوجی تعینات کرے گا جس میں سپیشل فورسز بھی شامل ہوں گی۔
افغانستان میں بدلتی ہوئی صورتحال کے تحت مختلف سامراجی ممالک کے مابین نئے اتحاد بھی تشکیل پا رہے ہیں۔ پاکستان اگرچہ سرکاری طور پر ابھی بھی امریکہ کا اتحادی ہے اور افغانستان میں امریکی مداخلت کے دوبارہ شدت اختیار کرنے کی صورت میں امریکہ سے ملنے والی اربوں ڈالر کی ممکنہ امداد کے بارے میں سوچ کر یقیناً پاکستان کی فوجی اشرافیہ اور حکمران طبقے کی رالیں ٹپک رہی ہوں گی۔ یاد رہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں امریکہ کے اتحادی بن کر پاکستانی اشرافیہ اب تک کل ملا کر 25 سے 30 ارب ڈالر کی فوجی و سول امداد ہڑپ کر چکی ہے۔ لیکن امریکہ سے بھاری مال بٹورنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی حکمران اشرافیہ، خصوصاً اسٹیبلشمنٹ افغانستان پر بالادستی قائم کرنے کے سامراجی عزائم سے کسی صورت دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی ریاست کو درپردہ چین اور سعودی عرب کی پشت پناہی تو حاصل تھی ہی لیکن اب روس بھی اس معاملے میں پاکستان کے قریب آرہا ہے۔ 2016ء میں ہونے والی پاک روس مشترکہ فوجی مشقیں، فوجی ہیلی کاپٹروں کا سودا، حال ہی میں روس کے فوجی وفد کا دورہ شمالی و جنوبی وزیرستان اور روس کا افغان طالبان کے ساتھ رابطے میں ہونے کا اقرار، سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ افغانستان میں ایساف (ISAF) فورسز کے کمانڈر امریکی جنرل نکلسن نے حال ہی میں سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو دیے گئے اپنے بیان میں روس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر نہ صرف افغان طالبان کو سیاسی سپورٹ دینے بلکہ انہیں اسلحہ سپلائی کرنے کا بھی الزام لگایا ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں امریکہ اور بھارت کے مشترکہ مفادات انہیں ایک دوسرے کے قریب کررہے ہیں۔ 2001ء سے لے کر 2016ء تک بھارت افغانستان میں 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا تھا اور پچھلے سال اس نے افغانستان میں مزید 1ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھارت افغان حکومت کو فوجی امداد بھی دے رہا ہے۔ خطے میں امریکہ اور بھارت کے سٹریٹجک مفادات میں ہم آہنگی بھارت کی روس سے دوری کا سبب بن رہی ہے اور نتیجتاً روس پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا خواہشمند ہے۔ اس ساری صورتحال میں ایران قدرے تذبذب کا شکار ہے۔ وہ افغانستان میں امریکی موجودگی کو پسند نہیں کرتا لیکن پاکستانی اور سعودی پشت پناہی سے پلنے والے طالبان کو بھی اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ اسی طرح وہ افغانستان میں پاکستانی بالادستی کو چیلنج کرنے کیلئے بھارتی کوششوں کا حامی ہے لیکن روس اور خصوصاً چین سے تعلقات بھی خراب نہیں کرنا چاہتا۔ بعض اطلاعات کے مطابق ایران نے افغان طالبان کے بعض گروپوں کے ساتھ بھی خفیہ رابطے استوار کرنے شروع کیے ہیں۔ بھارت بھی ایران کی محدودیت کوسمجھتا ہے اور ایران کے بہت زیادہ قریب ہوکرامریکہ اور سعودی عرب سے اپنے تعلقات میں تناؤ پیدا نہیں کرنا چاہتا لیکن بہرحال بھارت اور ایران دونوں افغانستان میں پاکستانی ریاست کو چیلنج کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔
ان سامراجی تضادات کا اظہار بھرپور طریقے سے سفارت کاری کے میدان میں بھی ہورہا ہے جہاں ایک طرف چین، روس، سعودی عرب اور پاکستان افغان طالبان کو ایک طاقتور حصے دار کے طور پر افغان حکومت میں شامل کرانا چاہتے ہیں اور دوسری طرف امریکہ طالبان کو فوجی طور پر سرنگوں کرنے کے بعد ایک کمزور اور مطیع حیثیت میں افغان حکومت کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ ایک طرف روسی ایما پر فروری اور اپریل میں ماسکو میں ہونے والے مذاکرات اور دوسری طرف امریکی پشت پناہی کے ساتھ گلبدین حکمت یار کا ماضی کے تمام جرائم سے ’’پاک‘‘ ہوکر منظر عام پر آنا اور کابل میں اس کا شاندار استقبال، سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اس ساری صورتحال میں کابل کی کرپٹ، عوام دشمن اور نااہل حکومت امریکی سامراج کی ایک کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اسی طرح افغان فوج، پولیس اور انٹیلی جنس بھی امریکی بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر حالیہ پاک افغان کشیدگی بھی اوپر بیان کئے گئے انہی سارے سامراجی تضادات کا نتیجہ ہے۔ افغانستان کی عوام اس ساری کیفیت میں نہایت ہی کرب اور اذیت سے دوچار ہے اور مستقبل قریب میں ان کی سرزمین پر لڑی جانے والی یہ سامراجی چومکھی خانہ جنگی ان کے دکھوں اور آلام میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔
مشرق وسطی کی لڑائی جنوبی ایشیا میں
مشرق وسطی پچھلے 6 سالوں سے سامراجی جنگوں کی جس آگ میں جل رہا ہے وہ اب جنوبی ایشیا تک پہنچ چکی ہے۔ 26 اپریل 2017ء کو ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں 10سرحدی محافظوں کو دور مار رائفلوں سے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا گیا۔ ایرانی ذرائع کے مطابق یہ ایک سرحد پار حملہ تھا جس میں سنی انتہا پسند تنظیم جیش العدل کے دہشت گرد ملوث ہیں۔ ایران کے سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایران کی بارڈر پولیس کے ترجمان نے کہا ’’ اس حملے کی حتمی ذمہ داری پاکستانی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ‘‘ اس سے پہلے 2013ء اور 2015ء میں بھی اس قسم کے واقعات ہوچکے ہیں۔ اس حملے کے فوراً بعد جہاں ایک طرف ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے اسلام آباد کو تہران کے شدید تحفظات سے آگاہ کیا، وہیں ایرانی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہم اس صورتحال کا جاری رہنا برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم پاکستانی حکام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ سرحدوں پر اپنا کنٹرول بڑھائیں، دہشت گردوں کو گرفتار کریں اور ان کے اڈوں کو بند کریں۔ اگر دہشت گردی کے یہ حملے جاری رہے تو ہم دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر حملہ کریں گے، چاہے وہ کہیں پر بھی ہو۔ ‘‘ اس ساری صورتحال کے نتیجے میں پاکستان اور ایران کے تعلقات میں خاصی کشیدگی آچکی ہے لیکن یہ سب کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ مشرق وسطی میں سعودی عرب اور ایران کی پراکسی جنگوں اور پاکستان کی ان میں مداخلت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
ہمارے پاس یہاں جگہ نہیں ہے کہ ہم مشرق وسطی کے حالات کی تفصیل میں جاسکیں لیکن صورتحال کا ایک سرسری سا جائزہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ عراق اور شام کی خانہ جنگی میں ایران کا پلڑا بھاری ہے اور سعودی پالیسیوں کو پے درپے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نتیجتاً سعودی عرب کو خطے میں تنہائی اور شدید ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما حکومت کے آخری سالوں میں امریکی سامراج نے بھی سعودی پالیسیوں کی غیر مشروط حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا اور بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق مجبوراً ایران کی طرف اپنا جھکاؤ بڑھا دیا تھا۔ 2015ء میں ایران کے ساتھ ہونے والا ایٹمی معاہدہ ایران کی طرف امریکہ کے اس بدلتے ہوئے رویے کا ہی نتیجہ تھا۔ اس ساری صورتحال کے نتیجے میں شدید داخلی تضادات کا شکار سعودی ریاست انتہائی بے یقینی اور خوف کی کیفیت میں مبتلا ہوگئی۔ اس کیفیت سے نکلنے اور خطے میں ایران کی بالادستی کو چیلنج کرنے کی خاطر سعودی عرب نے مارچ 2015ء میں اپنے اتحادیوں (متحدہ عرب امارات، کویت، بحرین وغیرہ) کے ساتھ یمن پر حملہ کردیا جہاں ایرانی پشت پناہی رکھنے والے حوثی باغی سعودی پشت پناہی رکھنے والے صدر منصور ہادی سے اقتدار چھین چکے تھے۔ لیکن یہاں بھی سعودی پالیسی ناکام رہی اور وہ ایک تیز اور فیصلہ کن فتح حاصل کرنے کے بجائے ایک انتہائی مہنگی سامراجی جنگ میں الجھ گیا جوکہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث اس کی پہلے سے دباؤ کا شکار معیشت کیلئے ایک بوجھ بن گئی ہے۔
اپنی ہی سامراجی پالیسی کی پیدا کردہ دلدل سے نکلنے کیلئے سعودی عرب نے یمن پر حملے کے آغاز میں ہی پاکستان سے اس جنگ کے لئے فوجی مدد طلب کی۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اور جرنیل پچھلی کئی دہائیوں سے سعودی سامراج کے وظیفہ خوار ہیں اور ریاض کے تلوے چاٹتے آئے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب پاکستان کی گماشتہ سامراجی ریاست کو بھاری مالی امداد اور سستا تیل بھی فراہم کرتا آیا ہے تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کرائے کی ریاست کو اپنے سامراجی مقاصد کے لئے استعمال کرسکے۔ لیکن اس مرتبہ پاکستان کو سعودی عرب کے تمام تر ’’احسانات‘‘ فراموش کرتے ہوئے انکار کرنا پڑا۔ انکار کی بنیادی وجہ حکمرانوں یا جرنیلوں کے ضمیر کی بیداری ہرگز نہیں تھی۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ سعودی عرب سے مزید ڈالر کھاکر اسی وقت فوج بھجوا دیتے۔ لیکن سماج سے آنے والے شدید ردعمل، فوج کے عام سپاہیوں اور جونئیر افسروں کی ناپسندیدگی اور فوج کے شیعہ سنی بنیادوں پر تقسیم ہوجانے کے خوف نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اس کے علاوہ بعض اطلاعات کے مطابق چین بھی پاکستانی فوج کے یمن بھجوائے جانے کا مخالف تھا کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستانی ریاست میں پیدا ہونے والا عدم استحکام اور ایران کے ساتھ تصادم چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری (سی پیک) کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔
22 اپریل 2017ء کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا کو بتایا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف 41 ملکی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کیلئے سعودی عرب چلے گئے ہیں۔ سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اس نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد (IMAFT) کے قیام کا اعلان سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان نے 15 دسمبر 2015ء کو کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف لڑائی سے متعلق لفاظیوں سے قطع نظر اس فوجی اتحاد کا اصل مقصد خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی بالادستی کو چیلنج کرتے ہوئے ایران کے خلاف سعودی عرب کی پراکسی جنگوں کو مزید تیز کرنا ہے۔ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ کے اس فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے پر ایران کی طرف سے حسب توقع سخت ردعمل آیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مارچ 2015ء سے لے کر اپریل 2017ء تک وہ کون سی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے پاکستان کے حکمران طبقے اور فوجی اشرافیہ کو یہ فیصلہ کرنے کے قابل بنایا۔ پاکستانی اشرافیہ کے ماضی کو دیکھتے ہوئے یہ امر تو شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ اس فیصلے میں سعودی عرب سے ملنے والے ڈالروں نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی وجوہات ہیں۔ ستمبر 2015ء میں شام میں روسی مداخلت کے آغاز کے بعد امریکہ کو مسلسل ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے اور اسے شام کی خانہ جنگی اپنے ہاتھوں سے نکلتی دکھائی دے رہی ہے۔ روسی بالادستی کے ساتھ ساتھ خطے میں روس کے اتحادی ایران کی پوزیشن بھی مضبوط ہورہی ہے۔ ماضی قریب میں امریکہ سعودی ناکامیوں کی وجہ سے ایران کی جانب جھکنے پر مجبور ہوا تھا لیکن اب خطے میں روس اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ نے اسے پریشان کررکھا ہے اور اس کے پاس واپس سعودی عرب پر اعتماد کرنے اور اسے سپورٹ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فوجی اتحاد (IMAFT) کے قیام کو مکمل امریکی پشت پناہی حاصل ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب اور اس دورے میں ہونے والا اسلحے کا سینکڑوں ارب ڈالر کا معاہدہ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ یقیناً پاکستان کے اس فوجی اتحاد کا حصہ بننے کو امریکی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت نے بھی پاکستان کے اس کھلم کھلا ایرا ن مخالف اتحاد کا حصہ بننے کی راہ ہموار کی ہے۔ ایران اور بھارت کے مابین مئی 2016ء میں ہونے والا چاہ بہار پورٹ کی تعمیر نو کا معاہدہ، چاہ بہار۔ زاہدان ریلوے منصوبہ اور بھارتی سرمایہ کاری کے ایسے دیگر پلان اسلام آباد کے نزدیک پریشان کن ہیں۔ کیونکہ پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ بھارت چاہ بہار کو گوادر کی بندرگاہ کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے علاوہ خلیجی ممالک (خصوصاً سعودی عرب) ایران کی وجہ سے اور چین بھارت کی وجہ سے چاہ بہار پورٹ کے متعلق تحفظات رکھتا ہے۔ اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ گوادر اور چاہ بہار کی باہمی مقابلے بازی، پاکستان اور بھارت، سعودی عرب اور ایران کے تضادات کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ جلد یا بدیر چین اور بھارت کے مابین بھی نئے تضادات کو جنم دے گی۔ اس کے علاوہ ایران میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں اور مارچ 2016ء میں ایران کے ذریعے آپریٹ کرنے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی پراسرار حالات میں گرفتاری نے بھی پاکستان کو اس فوجی اتحاد میں شمولیت کے لئے جواز فراہم کیا ہے۔
پاکستان کی سعودی سربراہی میں قائم ہونے والے اس فوجی اتحاد میں شمولیت اور جنرل راحیل شریف کی کمان، مشرق وسطی کی جنگ کو جنوبی ایشیا کی دہلیز پر لے آئی ہے۔ مڈل ایسٹ آئی کی مارچ 2017ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ایک بریگیڈ فوج سعودی عرب بھیجنے پر آمادہ ہے جسے یمن سے متصل سعودی عرب کی جنوبی سرحدوں پر تعینات کیا جائے گا۔ مستقبل میں یہ سامراجی تضادات مزید شدت اختیار کریں گے۔ سعودی عرب پہلے ہی پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں اسلام آباد کی اجازت کے ساتھ سنی دہشت گردوں کا پورا نیٹ ورک قائم کرچکا ہے۔ اس مقصد کیلئے اسے درپردہ امریکی آشیرباد بھی حاصل ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ایرانی مقبوضہ سیستان بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کو بھی سپورٹ کرنا چاہتا ہے جس کیلئے اسے امریکی حمایت تو حاصل ہے لیکن پاکستان کو اپنے مقبوضہ بلوچستان کے حوالے سے اس پالیسی پر تحفظات ہیں۔ دوسری طرف بھارت امریکہ کی درپردہ آشیرباد کے ساتھ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں کئی علیحدگی پسند گروپوں کو سپورٹ کررہا ہے تاکہ ایک تو پاکستان کو بھارت میں دہشت گردی کے واقعات کرانے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کا جواب دے سکے اور دوسرا سی پیک منصوبے(خصوصاً گوادر پورٹ) کے حوالے سے چین کو تنگ کرسکے۔ کلبھوشن یادیو کا معاملہ اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔ چین فی الحال ایک تشویش ناک خاموشی کے ساتھ یہ سارے معاملات دیکھ رہا ہے اور پاکستان کی جانب سے دی جانے والی ’’ہم سب دیکھ لیں گے‘‘ کی طفل تسلیوں پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہے لیکن جلد یا بدیر اسے امریکی اور بھارتی مداخلت کی وجہ سے اس دلدل میں کودنا پڑے گا۔ اس ساری صورتحال کے پاکستانی سماج پر بھی بھیانک اثرات مرتب ہوں گے۔ دہشت گردی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوگا اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ابھار کر اپنے سامراجی مقاصد پورے کرنے کی بھرپور کوششیں ہوں گی۔ یہ سارے تضادات پہلے سے لڑکھڑاتی ہوئی پاکستانی ریاست کے انہدام کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنیں گے۔ آنے والے دن اس خونی کھیل کو مزید وسعت اور وحشت اختیار کرتا ہوئے دیکھیں گے لیکن اشرافیہ کے مفادات کیلئے کھیلے جانے والے اس سامراجی کھلواڑ کی قیمت اس خطے کے عوام کو ادا کرنی پڑے گی۔
پاک بھارت کشیدگی
جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کی باہمی مخاصمت کی ایک طویل تاریخ ہے جس کی تفصیلات میں جانے کیلئے ہمارے پاس جگہ نہیں ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح یہ دونوں ریاستیں بھرپور سامراجی کردار کی حامل ہیں۔ بھارت کے سامراجی کردار کو سمجھنا تو نسبتاً آسان ہے۔ رقبے اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے۔ دنیا کی چھٹی بڑی معیشت رکھتا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں کا مقروض نہیں ہے اور نہ ہی اپنی معاشی پالیسیاں بنانے کیلئے ان کا تابع ہے۔ انہی سب عوامل کے حوالے سے بھارت کا حکمران طبقہ خطے پر بالادستی قائم کرنے کا خواہشمند ہے اور سامراجی عزائم رکھتا ہے۔ لیکن پاکستان کا معاملہ پیچیدہ، متضاد اور ایک حد تک مضحکہ خیز ہے۔ یہ ایک گماشتہ سامراجی ریاست ہے۔ ایک ایسی ریاست جو اپنے جنم سے ہی عالمی سامراجی طاقتوں کے ٹکڑوں پر پلتی آئی ہے، عالمی سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں پر چل رہی ہے، انتہائی کمزور معیشت رکھتی ہے اور اپنے بنیادی ترین معاشی فیصلوں کیلئے بھی عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات کی پابند ہے۔ لیکن اس سب کے باوجو دیہ اپنے کردار میں تیسرے درجے کی ہی سہی، لیکن ایک خون آشام اور درندہ صفت سامراجی ریاست ہے۔ افغانستان میں سامراجی عزائم رکھنے سے لے کر پاکستانی مقبوضہ کشمیر، گلگت بلتستان اور بلوچستان میں ننگے فوجی جبر کے ساتھ اپنا تسلط قائم رکھنے کی کوششیں، سب اسی حقیقت کی غمازی کرتی ہیں۔ بیک وقت عالمی سامراجی طاقتوں کی گماشتگی اور اپنے سامراجی عزائم رکھنے کی وجہ سے ہم پاکستان کو ایک گماشتہ سامراجی ریاست کہتے ہیں۔ پاکستانی ریاست کی عالمی سامراجی قوتوں کی گماشتگی اور اس کے اپنے سامراجی عزائم میں ایک سیدھی لکیر کا تعلق نہیں ہے۔ جہاں حتمی تجزیے میں اس ریاست کا غالب کردار ایک گماشتہ ریاست کا ہے، وہیں کئی دفعہ اس کے اپنے سامراجی عزائم عالمی قوتوں کے سامراجی عزائم کے ساتھ ٹکراؤ میں آجاتے ہیں اور نتیجتاً دونوں کام بیک وقت کرنے کی کوشش میں ریاست شدید اندرونی تضادات اور خلفشار کا شکار ہو تی جا رہی ہے۔ 2001ء سے لے کر اب تک، ایک طرف امریکی سامراج کے ’’اتحادی‘‘ اور دوسری طرف افغانستان میں اپنی پراکسیوں کی پشت پناہی، پاکستانی ریاست کے اسی دوہرے کردار کی ایک واضح مثال ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ لائن آف کنٹرول پر آئے روز ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری کے واقعات اسی حقیقت کا ایک اظہار ہیں۔ اس کشیدگی کی ایک فوری وجہ تو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے تقریباً پچھلے ایک سال سے چلنے والی عوامی تحریک ہے۔ اس تحریک سے بھارت کا حکمران طبقہ اور ریاستی حکام شدید خوفزدہ ہیں کیونکہ جہاں دہلی کو کشمیر پر اپنا کنٹرول ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، وہیں وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ یہ تحریک بھارت کے مختلف حصوں میں آزادی کی تمنا رکھنے والی دیگر محکوم اقوام کیلئے بھی ایک مثال بنتی جا رہی ہے۔ اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ اس تحریک میں کشمیر کے عوام نے دہلی یا اسلام آباد کی پشت پناہی رکھنے والی تمام روایتی قیادتوں کو مسترد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ پاکستان کا حکمران طبقہ اور فوجی اشرافیہ بھی اس تحریک سے پریشان ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ جہاں یہ تحریک لائن آف کنٹرول کے دوسری طرف پاکستانی مقبوضہ کشمیر تک پہنچ کر پاکستانی ریاست کیلئے ایک چیلنج بن سکتی ہے، وہیں کشمیر کی آزادی(بھارتی مقبوضہ کشمیر کی) کا بہت زیادہ شور مچانے سے پاکستانی مقبوضہ کشمیر، بلوچستان اور فاٹا پر پاکستانی ریاست کے فوجی جبروتسلط پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ اسی لئے دونوں ممالک کے حکمران طبقات کیلئے ’’ قیادت کے قابو سے باہر ہو جانے والی‘‘ اس تحریک کا خاتمہ ضروری ہے اور اس مقصد کیلئے ماضی کی طرح سرحد کے آر پار قومی شاؤنزم اور جنگی جنون کو ابھار کرعوام کی توجہ اس تحریک سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ستمبر 2016ء میں ہونے والے اڑی حملے سے لے کر لائن آف کنٹرول پر آئے روز ہونے والی جھڑپوں اور مودی کی دھمکیوں سے لے کر پاکستانی جرنیلوں کی بڑھکوں تک، یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
لیکن پاکستان اور بھارت کی باہمی مخاصمت کو مکمل طور پر پرانے تضادات کی روشنی میں دیکھنا غلط ہوگا۔ صورتحال کی مکمل تصویر کشی کیلئے خطے میں امریکہ اور چین کے شدت پکڑتے سٹریٹجک اختلافات کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان پر چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت چین کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری (سی پیک اور خصوصاً گوادر پورٹ) کی وجہ سے خطے میں مختلف سامراجی طاقتوں کے مابین سٹریٹجک تصادم کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے خطے میں نئے سٹریٹجک اتحاد بھی تشکیل پا رہے ہیں جس میں چین اور پاکستان ایک طرف ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے خاصے قریب آرہے ہیں۔ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے امریکہ اور بھارت کے مفادات مشترکہ ہیں اور یہی چیز دہلی اور واشنگٹن کو غیر رسمی طور پر ایک دوسرے کا سٹریٹجک اتحادی بنا چکی ہے۔ لیکن دوسری طرف بھارت، روس اور ایران سے بھی دوری نہیں چاہتا اور ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات اور امریکہ کی طرف بڑھتے ہوئے جھکاؤ میں توازن قائم رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسی طرح وہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کے ساتھ بھی اپنے تعلقات میں بگاڑ نہیں چاہتا۔ دوسری طرف پاکستانی ریاست بھی ہر طرف کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان واضح طور پر چین کا سٹریٹجک اتحادی بن چکا ہے لیکن امریکہ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بحال رکھنا چاہتاہے۔ اس کی بنیادی وجہ کوئی سٹریٹجک مفاد نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں میں امریکی کا فیصلہ کن کردار ہے، جن کی بیساکھیوں کے سہارے پاکستانی معیشت چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی ڈالروں کی سدا بہار کشش بھی پاکستانی اشرافیہ اور جرنیلوں کو واشنگٹن سے ایک حد سے زیادہ دوری پر نہیں جانے دیتی۔ پاکستان سے قطع تعلقی اور اس کے نتیجے میں پاکستان کا مکمل طور پر چین کے زیر اثر چلا جانا امریکہ کے سٹریٹجک مفاد میں بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے چین کے سٹریٹجک اتحادی بننے کے باوجود امریکہ پاکستان پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کی کوشش جاری رکھے گا۔ اس ساری صورتحال میں پاکستانی حکمران طبقہ دونوں طرف سے مال بٹورنے اور فائدے حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس کی یہ پالیسی پہلے سے کمزور ریاست کے اندرونی تضادات مزید تیز کرنے کا باعث بن رہی ہے جس کے نتیجے میں جہاں ایک طرف آنے والے دنوں میں سماج مزید قتل و غارت گری اور انتشار کا شکار ہوگا وہیں ان اندرونی تضادات کی وجہ سے پاکستانی ریاست کا انہدام بھی ہوسکتاہے۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات لمبے عرصے سے ’’نہ جنگ نہ امن‘‘ کی کیفیت میں چل رہے ہیں لیکن یہ صورتحال ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ بات درست ہے کہ جہاں امن قائم کرنا ان دونوں ممالک کی حکمران اشرافیہ کے مفادات کے خلاف ہے، وہیں ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح ان ریاستوں کا فوجی تصادم بھی حکمران طبقے کے مفادات کو شدید نقصان پہنچائے گا۔ مگر چیزیں ہمیشہ حکمران طبقے کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اور وہ بھی خاص کر سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے گہرے معاشی بحران کے دور میں۔ خطے کی نازک صورتحال کے پیش نظر اور تہہ در تہہ پیچیدہ تضادات کی وجہ سے یہ کشیدگی حکمران طبقات اور ریاستی حکام کے قابو سے باہر بھی جاسکتی ہے اور ایسی صورتحال میں پاکستان اور بھارت کے مابین ایک محدود نوعیت کی جنگ کے تناظر کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بحیرۂ عرب میں بالادستی کی لڑائی
اپریل 2017ء میں حکومت پاکستان نے گوادر پورٹ کو چالیس سالہ لیز پر چین کی ایک سرکاری کمپنی کے حوالے کردیا۔ چینی سامراج کیلئے گوادر بندرگاہ کی معاشی اہمیت اپنی جگہ ہوگی لیکن بہت سے سنجیدہ تجزیہ کاروں کے نزدیک گوادر کی بندرگاہ چین کیلئے معاشی سے زیادہ سٹریٹجک اہمیت کی حامل ہے۔ یہ بات خاصی حد تک درست ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گوادر بندرگاہ پر جلد یا بدیر چینی بحریہ کا تعینات ہونا ایک ناگزیر امر ہے۔ اسی ضمن میں نومبر 2016ء میں بحیرۂ عرب میں پاکستانی اور چینی بحریہ کی مشترکہ مشقوں کے بعد پاکستانی نیوی کے بعض سینئر حکام نے نام نہ لینے کی شرط پر میڈیا کو بتایا کہ چین اور پاکستان بہت جلد گوادر بندرگاہ پر ایک مشترکہ بحری بیڑہ تعینات کریں گے۔ یہ ساری صورتحال امریکہ اور بھارت کیلئے نہایت پریشان کن ہے لیکن اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں پہلے ان تمام سامراجی قوتوں کیلئے بحیرہ عرب کی سٹریٹجک اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔
بحیرۂ عرب دنیا میں تجارتی جہاز رانی کی اہم ترین گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ اس کے شمال مغرب میں خلیج فارس ہے جس کے اردگرد موجود ممالک دنیا میں تیل کی کل پیداوار کا تقریباً 30 فیصد بناتے ہیں اور اس پیداوار کا تقریباً 85 فیصد جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق بعید کے مختلف ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ یہ سارا تیل خلیج فارس سے آبنائے ہرمز کے ذریعے بحیرۂ عرب کے راستے اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے۔ بحیرہ عرب کے جنوب مغرب میں خلیج عدن ہے جو آبنائے باب المندب کے ذریعے بحیرۂ احمر کے ساتھ منسلک ہے، جو پھر سویز کینال کے ذریعے بحیرۂ روم کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یوں بحیرۂ عرب یورپ اور ایشیا کے مابین ہونے والی زیادہ تر بحری تجارت کی گزرگاہ بھی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحیرۂ عرب مختلف عالمی اور علاقائی سامراجی قوتوں کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس کی یہ اہمیت اس سمندر پر بالادستی قائم کرنے کیلئے مختلف قوتوں کے مابین سٹریٹجک تصادم کو جنم دے رہی ہے۔
اس کھیل میں بڑے کھلاڑی امریکہ اور چین ہیں۔ دونوں بحیرۂ عرب پر اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ 1995ء سے اس خطے میں تعینات ہے جس کاکمانڈ سینٹر بحرین میں ہے۔ کسی بھی نوعیت کی سامراجی جارحیت کیلئے تیار اس بحری بیڑے میں ہر وقت کم از کم دو طیارہ بردار جہازوں کی موجودگی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ چین کیلئے خطے میں امریکی بحریہ کی اتنی بھاری موجودگی ایک نہایت پریشان کن امر ہے کیونکہ بحیرۂ عرب میں ہونے والی دوسری بحری تجارت کے ساتھ ساتھ چین کی تیل کی 70فیصد درآمدات خلیج فارس اور بحیرۂ عرب سے گزرتی ہیں۔ لیکن چین اور امریکہ کے مابین ایشیا میں بحری تجارتی راستوں پر بالادستی کی لڑائی صرف بحیرۂ عرب تک محدود نہیں ہے۔ جنوبی کوریا اور جاپان میں کمانڈ سنٹر رکھنے والے امریکی بحریہ کے ساتویں بحری بیڑے کی مشرقی اور جنوبی چینی سمندروں میں مسلسل موجودگی بھی چین کیلئے ایک سٹریٹجک خطرہ ہے۔ یوں بحرالکاہل کے شمال مغربی حصے اور پورے بحر ہند پر اپنا سامراجی کنٹرول قائم کرتے ہوئے امریکہ ضرورت پڑنے پرچین کو بلیک میل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن چینی سامراج کیلئے بھی اس ساری صورتحال کو چپ چاپ قبول کئے رکھنا ممکن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی ایک دہائی سے زائد عرصے میں جہاں ایک طرف چین نے اپنی بحری قوت کو جارحانہ انداز میں کئی گنا بڑھایا ہے، وہیں دوسری طرف جنوبی چینی سمندر میں فوجی مقاصد کیلئے مصنوعی جزیروں کی تعمیر سے لے کر برما (کیپیو)، بنگلہ دیش(چٹاگانگ)، سری لنکا(ہمبنٹوتا)، پاکستان(گوادر)، سوڈان(پورٹ سوڈان) میں نئی بندرگاہوں کی تعمیر اور پرانی بندرگاہوں کو وسیع کرنے کے منصوبے بھی شروع کئے ہیں جن کو جلد یا بدیر متعلقہ ممالک کے ساتھ سٹریٹجک اتحاد بناتے ہوئے فوجی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے گا۔ چین کی اس حکمت عملی کو امریکہ کے سٹریٹجک حلقوں میں ’’سٹرنگ آف پرلز‘‘ پالیسی کہا جاتا ہے اور ’’موتیوں‘‘ کی اس لڑی میں گوادر کی بندرگاہ کا ایک نہایت اہم سٹریٹجک کردار ہے۔
بحیرۂ عرب پر بالادستی قائم کرنے کی اس لڑائی میں چین اور امریکہ کے بعد دوسرے کھلاڑی بھی ہیں جن میں بھارت، پاکستان اور ایران سرفہرست ہیں۔ بھارت چین کے توسیع پسندانہ عزائم سے پریشان ہے اور خلیج بنگال اور بحیرہ عرب میں چین کو چیلنج کرنے کیلئے امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرچکا ہے۔ بھارتی بحریہ میں ایٹمی آبدوزوں اور طیارہ بردار جہازوں کی شمولیت، جنوبی بھارت اور انڈیمان۔ نکوبار جزائر پر نئے بحری اڈوں کی تعمیر، یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ بحیرۂ عرب اور خلیج بنگال میں امریکی اور بھارتی بحریہ کئی مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں کرچکے ہیں جن میں جاپان اور آسٹریلیا کے جنگی بحری جہازوں نے بھی حصہ لیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے گوادر کے مقابلے پر ایران کی چاہ بہار پورٹ کی تعمیر نو کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے لیکن اس منصوبے کے حوالے سے بہت سے تضادات موجود ہیں۔ بھارت اور ایران جہاں پاکستان(گوادر پورٹ) کے مقابلے میں چاہ بہار کی سٹریٹجک اہمیت سے آگاہ ہیں، وہیں ایک طرف بھارت خلیج فارس میں امریکہ، خلیجی ممالک اور ایران کی چپقلش سے بھی واقف ہے اور دوسری طرف ایران بھی چین کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اور ایران چاہ بہار پورٹ کے منصوبے کے معاملے میں نہایت محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں تاکہ متضاد مفادات رکھنے والی قوتوں کے ساتھ اپنے خارجہ تعلقات میں توازن قائم رکھ سکیں۔
مستقبل میں یہ تمام تضادات مزید شدت اختیار کریں گے۔ خطے میں بالادستی کیلئے جہاں ایک طرف روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ میں بے تحاشا پیسہ پھونکا جائے گا، وہیں یہ تضادات خطے میں پراکسی جنگوں کو بھی مزید تیز کرنے کا باعث بنیں گے اور مختلف سامراجی قوتوں کے مابین لڑی جانے والی ان جنگوں میں سب سے زیادہ نقصان پورے خطے کے محنت کش طبقے کو اٹھانا پڑے گا۔ خاص کر پاکستانی مقبوضہ بلوچستان، ایران کے سرحدی علاقوں (بشمول ایرانی مقبوضہ بلوچستان) اور افغانستان کے عوام اس سارے کھلواڑ میں بری طرح سے تاراج ہوں گے۔
عہد نو میں بدلتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات کا کردار
21ویں صدی کی دوسری دہائی میں بدلتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات اور نئے ابھرتے ہوئے اتحادوں کا کردار بعض حوالوں سے ماضی کے ایسے مظاہر سے خاصا مختلف ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل یا پھر سرد جنگ کے دوران تشکیل پانے والے مختلف بین الاقوامی سٹریٹجک اتحاد ایک نسبتاً مستحکم کردار کے حامل تھے۔ ان میں جہاں ایک طرف اتحادی ممالک کے سٹریٹجک تعلقات کی مختلف جہتوں میں نسبتاً کم تضادات پائے جاتے تھے، وہیں دوسری طرف اتحادی ممالک کے سٹریٹجک اور تجارتی و معاشی تعلقات میں بھی نسبتاً ہم آہنگی موجود تھی۔ جبکہ مخالف اتحاد کے ممالک کے ساتھ کسی معاملے پر سٹریٹجک تعاون تو دور کی بات، ان کے ساتھ تجارتی اور معاشی تعلقات بھی نہایت محدود نوعیت کے ہوتے تھے۔ آسان الفاظ میں دنیا واضح طور پر مختلف کیمپوں میں بٹی نظر آتی تھی۔ حتمی تجزیے میں یہ صورتحال عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے نسبتاً استحکام اور تحفظاتی پالیسیوں کی وجہ سے عالمی تجارت کے کم تر پھیلاؤ (انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں بننے والے اتحاد) یا پھر سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے طویل معاشی ابھار اور دنیا کے دو مختلف معاشی نظام رکھنے والے کیمپوں میں بٹا ہونے (سرد جنگ کے دوران) جیسی ٹھوس مادی حقیقتوں کا ہی اظہار کرتی تھی۔ اس کے برعکس، آج تشکیل پانے والے اتحاد ایک ایسے عہد کی پیداوار ہیں جس میں ایک طرف تو عالمی سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے تو دوسری طرف بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں عالمی تجارت کے تیزترین پھیلاؤ نے عالمی معیشت کو ایک اکائی میں بدل دیا ہے جس میں تمام ممالک کے تجارتی و معاشی مفادات کسی نہ کسی حوالے سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ عہد کے بین الاقوامی تعلقات میں ہمیں بے حد پیچیدگی، ناہمواریت اور تہہ در تہہ تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثلاً امریکہ اور چین جہاں ایک دوسرے کے سٹریٹجک مخالف ہیں، وہیں ایک دوسرے کے انتہائی اہم تجارتی پارٹنر بھی ہیں۔ 2016ء کے اعداد وشمار کے مطابق دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم قریباً 648ارب ڈالر تھا۔ امریکہ، چین کیلئے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ اسی طرح چین، امریکی مصنوعات کیلئے دنیا کی تیسری بڑی برآمدی منڈی ہے۔ اسی طرح جہاں ایک طرف بے شمار امریکی کمپنیوں نے چین میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف چین دنیا میں جاپان کے بعد امریکی ٹریژری بلز (حکومتی بانڈز) کا دوسرا بڑا خریدار ہے اور اس وقت لگ بھگ 1120ارب ڈالر مالیت کے امریکی بانڈز رکھتا ہے۔ یوں ان دونوں مخالف سامراجی ممالک کی معیشت ہزاروں تانوں بانوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہے۔ اسی طرح چین اگرچہ پاکستان کا سٹریٹجک اتحادی ہے لیکن بھارت کے ساتھ اس کی باہمی تجارت کا حجم (70ارب ڈالر) پاکستان کے ساتھ ہونے والی تجارت(14ارب ڈالر) سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح جہاں ایک طرف بھارت اور ایران کے خطے میں بہت سے سٹریٹجک مفادات یکساں ہیں، وہیں دوسری طرف بھارت کا ایران کے سٹریٹجک مخالف خلیجی ممالک کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم (125ارب ڈالر) ایران کے ساتھ ہونے والی باہمی تجارت (14ارب ڈالر)کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ مزید برآں تقریباً65 لاکھ بھارتی شہری بسلسلہ روزگار خلیجی ممالک میں مقیم ہیں جن کی ترسیلاتِ زر بھارتی معیشت کیلئے نہایت اہم ہیں۔ امریکہ اور بھارت خطے میں اگرچہ سٹریٹیجک اتحادی بن چکے ہیں لیکن ان دونوں ممالک کے باہمی تجارتی و معاشی تعلقات امریکہ و چین کے باہم تجارتی و معاشی تعلقات کے مقابلے میں بہت کمزور ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمیں وسطی ایشیا میں دیکھنے کو ملتی ہے جہاں اگرچہ امریکی مخالفت میں چین اور روس اتحادی بن چکے ہیں لیکن یہ اتحاد اپنے اندر شدید تضادات رکھتا ہے کیونکہ اس خطے میں اگر روس فوجی بالا دستی رکھنے کا دعویدار ہے تو وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کی باہمی تجارت کا حجم اور ان میں چین کی سرمایہ کاری شدید معاشی بحران کا شکار روس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین روس کے تیل اور قدرتی گیس کیلئے انتہائی اہم برآمدی منڈی بھی ہے اور یہ تعلق دونوں ممالک کے حکمران طبقات کے فائدے میں جاتا ہے۔
سٹریٹیجک تعلقات کے معاملے میں بھی ہمیں یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ پاکستان چین کا سٹریٹیجک اتحادی ہے لیکن امریکہ کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتا۔ امریکہ بھارت کا سٹریٹیجک اتحادی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ قطع تعلقی بھی اس کے مفادات کے خلاف ہے۔ روس پاکستان کے قریب آ رہا ہے لیکن بھارت کے ساتھ بھی تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے اور بھارت امریکہ کا سٹریٹیجک اتحادی بن چکا ہے لیکن روس کے ساتھ اپنے پرانے تعلقات برقرار رکھنے کا خواہش مند بھی ہے۔ بھارت ایران کے ساتھ سٹریٹیجک تعلقات بڑھانے کا خواہش مند ہے لیکن اس حوالے سے امریکہ اور خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات میں تناؤ نہیں چاہتا تو دوسری طرف ایران بھارت کے ساتھ مل کر چاہ بہار پورٹ کی تعمیرِ نو کر رہا ہے لیکن چین کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کا خواہاں بھی ہے جس کے ساتھ اس نے 2016ء میں سٹریٹیجک تعاون کے 25 سالہ معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ پاکستان کھلم کھلا ایران مخالف سعودی فوجی اتحاد کا حصہ بن چکا ہے لیکن ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک حد سے زیادہ بگاڑ سے بھی خوفزدہ ہے اور کچھ ایسی ہی کیفیت ایران کی بھی ہے۔ مستقبل میں چین بھی اپنے سٹریٹیجک اور معاشی مفادات کے تحت پاکستان اور ایران کے مابین مخاصمت کو قابو میں رکھنے کی کوشش لازمی کرے گا۔ ۔ اسی طرح فی الحال تو چین افغانستان میں اپنے اتحادی پاکستان کی پراکسیوں کی حمایت کرتا ہے اور مسئلہ کشمیر پر بھی پاکستان کے سرکاری موقف کا حامی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستانی ریاست کی جانب سے مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت اور ان عناصر کو بطور پراکسی ہمسایہ ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی پر تحفظات بھی رکھتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی یہ پالیسیاں کل کو پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں اور پاکستانی ریاست کے پالے ہوئے یہ دہشت گرد عناصر قابو سے باہر ہو کر سنکیانگ میں اس کیلئے مزید مسائل پیدا کر سکتے ہیں جہاں پہلے ہی یوغور مسلم آبادی میں ایک علیحدگی پسند تحریک چل رہی ہے۔
مارکسزم اقتصادی جبریت پسندی (Economic Determinism) کو رد کرتا ہے لیکن ہر مارکس وادی کو یہ ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ حتمی تجزیئے (اور صرف حتمی تجزیئے میں ہی )میں یہ معیشت ہوتی ہے جو کہ ایک مجتمع شدہ شکل میں داخلی اور بین الاقوامی سیاست میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مختلف ممالک کے معاشی اور سٹریٹیجک مفادات میں بظاہر جتنا بھی تفاوت نظر آئے، حتمی تجزیئے میں یہ معاشی مفادات ہوتے ہیں جو کہ سٹریٹیجک مفادات کا تعین کرتے ہیں۔ موجودہ عہد کی پیچیدہ بین الاقوامی سیاست اور گنجلک سٹریٹیجک تعلقات بھی حتمی تجزیئے میں ایک بحران زدہ معیشت کا ہی مجتمع شدہ اظہار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ماضی کی طرح عالمی سامراجی طاقتوں کے مابین ایک تیسری عالمی جنگ کو خارج از امکان سمجھتے ہیں کیونکہ اس سے پھیلنے والی تباہی تمام سامراجی طاقتوں کے حکمران طبقات کی ملکیت کو تہس نہس کر دے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کر دیتے ہیں کہ آنے والے دن پر امن بھی ہر گز نہیں ہوں گے اور سرمایہ داری کے اکھاڑ پھینکے جانے تک نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں محدود جنگوں، خانہ جنگیوں اور پراکسی جنگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہے گا۔
داخلی تضادات اور خارجہ پالیسی
ہیگل کے جدلیاتی طریقہ کار سے متاثر مشہور پروشین جنرل اور فوجی نظریہ دان وان کلاز ویٹز نے کہا تھا کہ ’’جنگ سیاست کے بطن میں پرورش پاتی ہے ‘‘۔ اور روس کے بالشویک انقلاب کے لیڈر اور عظیم مارکسی استاد لینن نے کہا تھا کہ ’’سیاست معیشت کا مجتمع شدہ اظہار ہوتی ہے ‘‘۔ ان دونوں اقوال سے ہمیں معیشت، سیاست اور جنگ (یا خارجہ پالیسی) کے باہم تعلق کا نہایت خوبصورت اظہار ملتا ہے لیکن موجودہ عہد کے بورژوا نظریہ دانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ رسمی منطق کے تحت ایک میکانکی انداز میں مختلف عوامل کو ایک دوسرے سے بالکل کاٹ کر دیکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ درخت دیکھنے کی کوشش میں جنگل نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور جنگل کو دیکھنے کی کوشش میں درخت نظر آنا بند ہو جاتے ہیں۔ خارجہ پالیسی، بین الاقوامی تعلقات اور سٹریٹیجک اختلافات کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی بورژوا نظریہ دان یہی غلطی کرتے ہیں۔ جہاں وہ ایک طرف مختلف سامراجی ممالک کے مابین تضادات کو عالمی معیشت اور سیاست کی صورتحال سے کاٹ کر دیکھتے ہیں، وہیں کسی بھی سامراجی ملک کی سٹریٹیجک پالیسی کو اس کے داخلی معاشی، سماجی اور سیاسی تضادات سے کوئی الگ تھلگ چیز سمجھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور اس حقیقت کی جدلیاتی سمجھ بوجھ ہی مارکس وادیوں کو وہ تناظر تخلیق کرنے میں مدد دیتی ہے جو وقت کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔
اس حوالے سے اگر ہم موجودہ صورتحال کا مارکسی نقطہ نظر سے تجزیہ کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تمام سامراجی ممالک کی خارجہ پالیسی اور ان کے سٹریٹیجک مفادات کا ان کے سماج کے داخلی تضادات کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے۔ مثلاً اگر ہم چینی سامراج کی بات کریں تو اس کی سامراجی پالیسیوں کے پیچھے اسکی گرتی ہوئی معیشت اور اس سے جنم لینے والے سماجی تضادات کا گہرا عمل دخل ہے۔ 2008ء کے مالی بحران سے قبل 2007ء میں چین کے جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 14 فیصد تھا جو کم ہو کر 2016ء میں 6.7 فیصد تک گر چکا ہے۔ چین کا صنعتی سیکٹر عالمی معیشت کی سست روی کی وجہ سے زائد پیداواری صلاحیت کے شدید بحران کا شکار ہے۔ چینی ریاست اور حکمران طبقہ اس بحران کا سارا بوجھ محنت کش طبقے پر منتقل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور محنت کشوں پر دن رات ڈاؤن سائزنگ، اجرتوں میں کٹوتی اور جبری برطرفیوں کی صورت میں حملے ہو رہے ہیں، جن کی وجہ سے سماج میں بڑے پیمانے پر غربت، افلاس اور بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ساری صورتحال نا گزیر طور پر سماج میں شدید بے چینی کو جنم دے رہی ہے جس کا ایک اظہار ہر سال بڑھتی ہوئی صنعتی ہڑتالوں کی صورت میں ہو رہا ہے۔ اس ساری صورتحال سے نکلنے کیلئے چینی ریاست نے پہلے تو کینشینسٹ طریقہ کار کے تحت اندرونِ ملک کھپت بڑھانے کیلئے سرکاری سرپرستی میں بڑے پیمانے پر بیکار اور فالتو انفراسٹرکچر کے منصوبوں کا آغاز کیا۔ اس سے وقتی طور پر چینی معیشت کی تیز گراوٹ میں کچھ کمی تو ضرور ہوئی لیکن دوسری طرف زائد پیداواری صلاحیت کا بحران پہلے سے بھی زیادہ شدت اختیار کر گیا اور چین کا کل قومی قرضہ (کل سرکاری اور نجی قرضہ جات ملا کر ) جی ڈی پی کے 280 فیصد تک جا پہنچا۔ اسی لیے چینی ریاست کو یہ طریقہ کار ترک کرنا پڑا اور متبادل کے طور پر چینی سرمائے کی بڑے پیمانے پر برآمد کا آغاز کیا گیا تاکہ ایک طرف جہاں اس سرمائے کو بیرونِ ملک انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منصوبوں میں لگا کر بلند شرحِ منافع حاصل کی جا سکے، وہیں دوسری طرف ان منصوبوں کی بنیاد پر متعلقہ ممالک کی منڈیوں پر چینی غلبہ قائم کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان بیرونِ ملک منصوبوں کی تعمیر میں چینی مزدوروں کو بڑے پیمانے پر کھپا کر اندرونِ ملک بیروزگاری کے دباؤ کو بھی کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ ایک عوامی بغاوت کے خطرے کو ٹالا جا سکے۔ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چینی ریاست اور حکمران طبقے کی انہی سامراجی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ بورژوا تجزیہ نگاروں کے عمومی نقطہ نظر کے برعکس چین کی سامراجی پالیسیاں اس کے معاشی و سماجی استحکام کی نہیں بلکہ معاشی گراوٹ، مالی بحران اور سماجی خلفشار کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چینی سامراج کا کردار انیسویں صدی کے برطانوی سامراج اور بیسویں صدی کے امریکی سامراج سے مختلف ہے۔ یہ ایک ایسا سامراج ہے جس کا جنم ہی سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ کے سب سے گہرے اور نامیاتی بحران میں ہوا ہے اور اسی لیے یہ کبھی بھی اس طاقت اور رعب و دبدبے کا نصف بھی حاصل نہ کر پائے گا جو اپنے عروج کے ادوار میں برطانوی اور امریکی سامراج کو حاصل تھا۔
پچھلی ایک دہائی سے زائد عرصے میں بتدریج عیاں ہوتا امریکی سامراج کا خصی پن بھی حتمی تجزیئے میں اس کی داخلی معاشی و سماجی صورتحا ل سے جڑا ہو اہے۔ عالمی معاشی بحران کا امریکی معیشت پر بھی نہایت گہرا اثر ہوا ہے جس کا ایک اندازہ ہمیں اس امر سے ہوتا ہے کہ اس وقت امریکہ کا کل قومی قرضہ جی ڈی پی کے 310 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ بیسویں صدی کے اوائل میں جب امریکہ نے بطور ایک عالمی سامراجی طاقت سر اٹھانا شروع کیا تھا تو اس کا کل قومی قرضہ جی ڈی پی کے بمشکل 20 فیصد کے قریب تھا۔ گرتی ہوئی معیشت اور امارت اور غربت کے بیچ انتہاؤں پر پہنچے ہوئے تفاوت نے امریکی سماج میں شدید بے چینی کو جنم دیا ہے جس کا اظہار ہمیں اکوپائی وال سٹریٹ، بلیک لائیوز میٹر جیسی تحریکوں، برنی سینڈرز کو ملنے والی عوامی مقبولیت اور ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حلف اٹھانے کے بعد امریکہ کے درجنوں شہروں میں ہونے والے لاکھوں کے ٹرمپ مخالف مظاہروں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ معیشت، سماج اور سیاست کی یہ بحران زدہ داخلی صورتحال جہاں ایک طرف عالمی سطح پر امریکہ کی سامراجی طاقت کے زوال کا سبب بن رہی ہے، وہیں دوسری طرف امریکی ریاست کے اپنے اندر تضادات کو بڑھا کر اس میں دراڑیں بھی ڈال رہی ہے۔ حال ہی میں خارجہ پالیسی کے معاملات اور خصوصاً روس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت پر ٹرمپ انتظامیہ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ (خصوصاً سی آئی اے ) کے مابین منظرِ عام پر آنے والے اختلافات اسی حقیقت کی غمازی کرتے ہیں۔
وسطی ایشیا پر فوجی بالادستی کے دعوے دار اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج کو چیلنج کرنے والے روس کی معاشی حالت بھی بہت پتلی ہے۔ 2014ء میں روسی معیشت کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ صرف 0.6 فیصد تھا جو عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے 2015ء میں منفی میں چلا گیا جس کے نتیجے میں روسی معیشت کے حجم میں 3.7 فیصد کی کمی ریکارڈ ہوئی۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے تمام تر بلند و بانگ دعووں کے برعکس 2016 ء میں بھی روسی معیشت کا جی ڈی پی گروتھ ریٹ بمشکل 0.3 فیصد رہا۔ 1991 میں سوویت یونین کے انہدام اور روس میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد سماج کی حالت مسلسل ابتری کی جانب جا رہی ہے۔ سرمایہ داری کی بحالی نے جہاں چند انتہائی کرپٹ اور غنڈہ گرد کاروباری خاندانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے وہیں عوام کی وسیع اکثریت کو غربت و افلاس کی بھیانک دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ روس کے اس مافیائی حکمران طبقے کا شخصی اظہار ولادیمیر پیوٹن کی ذات میں بخوبی ہوتا ہے، جو سیاستدان کم اور بدمعاش زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ پیوٹن کی غنڈہ گرد حکومت اور مافیائی سرمایہ دار طبقے کے خلاف نفرت روسی سماج میں شدید ہوتی جا رہی ہے۔ 26 مارچ 2017 ء کو ماسکو، سینٹ پیٹرز برگ اور دیگر شہروں میں حکومتی کرپشن کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہرے اسی حقیقت کا ایک اظہار ہیں۔ اس سماجی بے چینی سے نمٹنے کیلئے پیوٹن جہاں ایک طرف ریاستی جبر کا سہارا لے رہا ہے، وہیں انتہائی کمزور معیشت کے باوجود اس کی جارحانہ خارجہ پالیسی اور ’آئرن مین ‘ بننے کی کوششوں کا حقیقی مقصد بھی سماج کی درمیانی پرتوں میں موجود قومی شاونزم کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔
کچھ ایسی ہی صورتحال سعودی عرب اور ایران کی بھی ہے۔ 2014ء میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے سعودی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔ فی الحال سعودی حکومت اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کیلئے دھڑا دھڑ اپنے فارن کرنسی ریزرو کو استعمال کر رہی ہے لیکن یہ صورتحال زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتی۔ عالمی مالیاتی اداروں کے ایک اندازے کے مطابق موجودہ شرح استعمال پر سعودی عرب کا فارن کرنسی ریزرو 2019ء تک جواب دے جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں سعودی عرب نے بڑے پیمانے پر معاشی ’’اصلاحات‘‘ کا آغاز کیا ہے جن میں مختلف سرکاری تعمیراتی منصوبوں کو معطل کرنے سے لے کر سرکاری ملازمین کی اجرتوں اور بونس میں کٹوتی، ٹیکسوں کا نفاذ اور عوامی فلاح و بہبود پر سرکاری اخراجات میں کمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں تارکین وطن (خصوصاً مزدوروں) کو ملک سے بیدخل کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی جگہ سعودی نوجوانوں کو روزگار دیا جا سکے جن میں بیروزگاری کی بلند شرح کی وجہ سے شدید بے چینی پھیل رہی ہے۔ معاشی گراوٹ کی وجہ سے مہنگائی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ماضی کی خوشحالی اب ایک خواب و خیال بن چکی ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے جہاں ایک طرف سعودی سماج میں شاہی خاندان اور ریاست کے خلاف غم و غصہ بڑھ رہا ہے، وہیں یہ معاشی و سماجی تضادات سعودی شاہی خاندان کے اندر بڑھتے ہوئے اختلافات اور دھڑے بندیوں کی صورت میں بھی اپنا اظہار کر رہے ہیں۔ ولی عہد شہزادے (اور وزیر داخلہ) محمد بن نائف اور ڈپٹی ولی عہدشہزادے (اور وزیردفاع) محمد بن سلیمان کے گرد مخالف دھڑے بندیوں کی تشکیل کی خبریں اب زبان زدعام ہو چکی ہیں۔ سماج میں اپنے خلاف موجود نفرت اور اپنے اندرونی اختلافات کی وجہ سے سعودی شاہی خاندان شدید خوف کا شکار ہے۔ اسی خوف سے باہر نکلنے کی خواہش اور سماج پر اپنی گرفت اور سیاسی اتھارٹی مضبوط کرنے کی کوشش ہی شاہی خاندان کو خطے میں ایک جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ خاص کر خطے میں قائم ہونے والی ایرانی بالادستی کو چیلنج کرنا سعودی عرب کے تیل سے مالا مال شیعہ آبادی رکھنے والے مشرقی حصے پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔ لیکن IMAFT نامی فوجی اتحاد بنانے اور اس میں نہ صرف پاکستان کو شامل کرنے بلکہ اس کی سربراہی ایک پاکستانی جرنیل کے ہاتھوں میں دینے کا واحد مقصد صرف خطے میں ایران کو چیلنج کرنا ہی نہیں ہے۔ سعودی شاہی خاندان ایک عوامی بغاوت سے شدید خوفزدہ ہے اور مستقبل میں ایسی کسی صورتحال سے نپٹنے کیلئے اپنی فوج اور سیکیورٹی اداروں سے زیادہ بھروسہ پاکستانی فوج پر کرتا ہے۔ بدلے میں وہ پاکستانی جرنیلوں اور حکمران اشرافیہ کی جیبیں ڈالروں سے بھرتا رہے گا۔ یہ امر جہاں ایک طرف پاکستان کی سول و ملٹری حکمران اشرافیہ کی گماشتہ خصلت کو عیاں کرتا ہے وہیں دوسری طرف سعودی شاہی خاندان کے کھوکھلے پن کی بھی غمازی کرتا ہے۔
خطے میں سعودی عرب کے سٹریٹیجک مخالف ایران کی ملا اشرافیہ بھی اپنے عوام پر جبر کرنے اور خطے میں اپنے سامراجی عزائم کے حوالے سے کسی سے کم نہیں ہے۔ طویل عرصے سے لگی ہوئی عالمی پابندیوں کے باعث ایرانی معیشت پہلے ہی خستہ حال تھی کہ رہی سہی کسر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ نے پوری کر دی۔ 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ایران کی حکومت نے عوام کو بہت سبز باغ دکھائے تھے۔ معاہدے کے نتیجے میں ہونے والی عالمی پابندیوں میں نرمی سے ایران کے حکمران طبقے کا تو فائدہ ہوا ہے لیکن عوام کے حصے میں کچھ خاص نہیں آیا۔ افراط زر کی شرح ابھی بھی نہایت بلند ہے اور بیروزگاری نے نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت کا مستقبل تاریک کر رکھا ہے۔ سرکاری اداروں کی بڑے پیمانے پر نجکاری نے جہاں ایک طرف بیروزگاری کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے، وہیں عوام کو ملنے والی سہولیات میں بھی شدید کمی آئی ہے۔ اس سارے عمل کے دوران ملا اشرافیہ، سینئر ریاستی حکام (پاسداران کے کمانڈرز وغیرہ) اور سرمایہ دار طبقے نے تو خوب دولت اکٹھی کی ہے لیکن معاشی بحران کا سارا بوجھ عوام پر لاد دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی سماج میں ملاؤں، ریاستی عہدیداروں اور سرمایہ دار طبقے کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے جو کہ ایک طرف وقتاً فوقتاً ہونے والی ہڑتالوں اور احتجاجوں جبکہ دوسری طرف حکمران اشرافیہ کے ’سخت گیر‘ اور ’اصلاح پسند‘ دھڑوں کے مابین بڑھتے ہوئے تضادات کی شکل میں اپنا اظہار کر رہی ہے۔ ریاستی جبر کے ذریعے سماجی بے چینی کو قابو میں رکھنے کیلئے ایرانی اشرافیہ کو جس سیاسی اتھارٹی کی ضرورت ہے اسے حاصل کرنے کیلئے خطے میں مخالف سنی فرقے سے تعلق رکھنے والی سعودی ریاست کو چیلنج کرنا اور اسے شکست دینا نہایت اہم ہے۔ اس کے علاوہ ملا اشرافیہ کی نام نہاد ’’امریکہ دشمنی‘‘ کے پیچھے بھی ایک اہم وجہ ایک بیرونی دشمن کا ہوّا کھڑا کر کے سماج پر ریاستی جبر کو جواز مہیا کرنا ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح پاکستان اور بھارت کی ’’روایتی دشمنی‘‘ بھی ان دونوں ممالک کے داخلی حالات سے الگ تھلگ کوئی چیز نہیں ہے۔ پچھلے 20سالوں میں ان دونوں ممالک کا تاخیر زدگی کا شکار سرمایہ دار طبقہ اپنا کوئی ایک بھی تاریخی فریضہ پورا کرنے سے قاصر رہا ہے۔ دونوں ممالک کی آبادی کا ایک وسیع حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے۔ سماجی انفراسٹرکچر اور عوامی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ عوام غربت کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے کرپٹ، نااہل اور تاریخی پسماندگی کے شکار حکمران طبقے کی دولت میں دن رات اضافہ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں سماجوں میں اپنے حکمران طبقے کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ اس حقیقت کا ادراک حکمران اشرافیہ کو بھی ہے اور وہ اس سے خوفزدہ ہیں۔ اس سماجی بے چینی کو قابو میں رکھنے اور عوام کے غیض و غضب سے بچنے کی خاطر دونوں ممالک کا حکمران طبقہ قومی شاونزم کو ابھارتا ہے اور سماج پر ایک جنگی جنون کی کیفیت مسلط کئے رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس کی آڑ میں ریاستی جبر میں اضافہ کیا جا سکے۔ محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک میں بسنے والی محکوم قومیتوں کی حق خود ارادی کی جدوجہد کو بھی اسی زہریلے شاونزم اور ’’روایتی دشمنی‘‘ کا سہارا لے کر مسخ کرنے اور کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عالمی معاشی بحران کے اثرات کے تحت دونوں ممالک میں طبقاتی تفاوت اور طبقاتی جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ طبقاتی جدوجہد میں بھی تیزی آئی ہے۔ بھارت میں ہونے والی ملک گیر ہڑتالیں، طلبہ تحریک اور پاکستان میں آئے روز احتجاجوں اور مظاہروں کا بڑھتا ہوا سلسلہ اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ دونوں ممالک کا حکمران طبقہ مستقبل میں ایک انقلابی تحریک کے امکانات کو بھانپ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والے دنوں میں وہ اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر قومی شاونزم اور جنگی جنون کو سماج پر مسلط کرنے کی کوششوں میں مزید اضافہ کرے گا۔
نجات کا واحد راستہ۔ ۔ ۔ سوشلسٹ انقلاب!
حتمی تجزیئے میں اس تمام قتل و غارت گری، پراکسی جنگوں اور خانہ جنگیوں کی وجہ حکمران سرمایہ دار طبقے کے مالی مفادات ہیں۔ اپنی طبقاتی حکمرانی کی بقا اور اپنے منافعوں میں اضافے کیلئے تمام سرمایہ دارانہ ممالک کا حکمران طبقہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ اپنی دولت میں اضافے کیلئے وہ پورے کے پورے سماجوں کو تاراج کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ طبقاتی جبر، قومی جبر، صنفی جبر، مذہبی جبر، غربت، افلاس، بیروزگاری، سامراجی جارحیت، خانہ جنگیاں، دہشت گردی؛ یہ سب سرمایہ داری کی پیداوار ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی بحرانی کیفیت کی وجہ سے ان تمام میں شدت آ رہی ہے۔ اگر سرمایہ داری کا خاتمہ نہ کیا گیا تو یہ اپنے منافعوں کی ہوس میں بنی نوع انسان کو واپس عہد بربریت میں دھکیل دے گی۔ اس ظلم و استحصال سے نجات پانے کیلئے بنی نوع انسان کے پاس صرف ایک راستہ ہے اور وہ سوشلسٹ انقلاب کا راستہ ہے۔ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ذرائع پیداوار کو محنت کشوں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے بنی نوع انسان کو اس دکھ اور تکلیف سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔ لیکن سماج کی سوشلسٹ تبدیلی خودبخود وقوع پذیر نہیں ہو گی۔ اس کیلئے دنیا کے ہر سماج میں مزدوروں، نوجوانوں، چھوٹے کسانوں، محکوم قومیتوں اور دیگر مظلوم پرتوں کو مارکسزم کے نظریات سے روشناس کراتے ہوئے لینن اسٹ بنیادوں پر انقلابی پارٹیاں تعمیر کرنی پڑیں گی تاکہ مستقبل میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں کو درست پروگرام اور نعروں سے مسلح کیا جا سکے۔ جدید ترین مواصلاتی ٹیکنالوجی کے اس دور میں کسی ایک سماج میں بھی محنت کش طبقے کا اقتدار پر قبضہ اور مزدور ریاست کا قیام پوری دنیا کے محنت کشوں کے لئے ایک مثال بن جائے گا جس کے اثرات 1917ء کے روسی انقلاب سے بھی کئی زیادہ وسیع اور گہرے ہوں گے۔ ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ‘‘ کا نعرہ عملی روپ دھارنے لگے گا اور بنی نوع انسان ایک روشن مستقبل کا یقین لئے ایک عالمگیر سوشلسٹ سماج کے قیام کی جانب بڑھے گی۔