اقتدار کی ہوس اور حکمران طبقے کی پھوٹ

|تحریر: آدم پال|

گزشتہ ایک مہینے میں ملکی سیاست میں انتہائی ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور حکمران طبقے کی باہمی پھوٹ اور تضادات اب سطح پر ابھر کر عیاں ہو گئے ہیں۔ ہر روز حکمران طبقے کی لڑائی میں نئے موڑ آتے دکھائی دے رہے ہیں اور متحارب فریق ایک دوسرے پر شدید حملے کر رہے ہیں۔ اس سارے عمل میں عوام محو تماشا ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیوں کی قلابازیاں، جھوٹ، فریب، ناٹک اور عوام دشمن کاروائیاں بغور دیکھتے ہوئے تمام فریقین کو ایک دوسرے کو سر عام ننگا کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

عمران خان کی حکومت کے خلاف مارچ کے مہینے کے آغاز میں جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اس وقت سے لے کر حکومت کی تبدیلی تک اور عمران خان کے بطور سابق وزیر اعظم مختلف شہروں میں جلسے منعقد کرنے تک ملکی سیاست کے منظر نامے پر بہت سے اتار چڑھاؤ آ چکے ہیں اور ملک میں شدید بحرانی کیفیت مسلسل شدت اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔ لیکن حکمران طبقے کی باہمی لڑائی کا کوئی انت دکھائی نہیں دے رہا۔ اس لڑائی میں تمام فریق ہر قسم کا حربہ اور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں لیکن یہ احتیاط بہرحال موجود ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل اورسلگتے ایشوز کسی بھی طور سیاست کا موضوع نہ بن پائیں اور تمام تر بہتان تراشی اور گالی گلوچ نان ایشوز اور فروعی مسائل کے گرد گھومتی رہے تاکہ یہ سیاست حکمران طبقے کے مختلف حصوں کے کنٹرول میں ہی رہے اور کسی بھی طرح عوام سیاسی میدان میں قدم رکھنے اور یہاں پر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔ عمران خان اپنے خلاف ایک نام نہاد امریکی سازش کا راگ الاپ رہا ہے جسے ثابت کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے ہی ایک سفیر کا اپنے ہی ملک کولکھا ہوا کوئی خط موجود ہے۔ شروع سے لے کر آخر تک یہ تمام تر کہانی جھوٹ پر مبنی نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود عمران خان اس سازش کا الزام لگا کر نئی حکومت کے خلاف عوامی تحریک بنانے کی کوششیں کر رہا ہے جس میں اس کا مطالبہ جلد از جلد عام انتخابات کروانے کا ہے۔ اس دوران امریکہ کے خلاف دائیں بازو کی بھرپور نعرے بازی، سطحی تقریریں اور الزام تراشی زور و شور سے جاری ہیں اور اپنی حکومت گرانے کے لیے رات کے اندھیرے میں کیے گئے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب حکمران طبقے کے آزمودہ فریق ہیں جو عوام دشمن حکومتوں کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں اور اب انہیں دوبارہ ریاستی اداروں کے حاوی دھڑے کی پشت پناہی سے اقتدار میں لایا گیا ہے اور عمران خان کو اس کے حامی ریاستی دھڑے سمیت اقتدار سے باہر کر دیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے بہت سے ایسے اعلانات کیے جن سے وہ دو ہی دن میں مکر بھی گیا ہے اور اپنے عوام دشمن گھناؤنے چہرے کے ساتھ سامراجی پالیسیاں پوری قوت سے مسلط کرنا شروع کر دی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کے اعلان کو یہ کہہ کر مؤخر کر دیا گیا کہ اس کا فیصلہ آئندہ بجٹ میں کیا جائے گا جبکہ کم ازکم تنخواہ پچیس ہزار روپے تک بڑھانے کا اعلان بھی شہباز شریف کی ہی طرح کھوکھلا ہے اور اس پر بھی عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ محنت کش طبقے کو یہ تمام حقوق ایک لڑائی میں چھین کر ہی حاصل کرنا ہوں گے۔

حکمرانوں کی آپسی لڑائی اور اقتدار کی ہوس

حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی لڑائی میں یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ کوئی بھی دھڑا عوام کی وسیع تر حمایت نہیں رکھتا اور نہ ہی کسی بھی دھڑے کو عوام کے مسائل حل کرنے سے رتی برابر بھی دلچسپی ہے۔ اس تمام تر لڑائی میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ اقتدار کی ہڈی کو حاصل کرنا اوراس کے ذریعے لوٹ مار کی لڑائی میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنا ہی تمام فریقین کا بنیادی مقصد ہے اور اس کے لیے وہ ہر حد پھلانگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس تمام تر لڑائی میں آئین، قانون، جمہوریت اور ادارہ جاتی حدود کی حیثیت وہی ہے جو کسی چکلے میں عزت اور غیرت کی ہوتی ہے۔ آئین اور قانون کی جتنی پامالی ہوتی چلی جاتی ہے اور جتنے وہ ارزاں ہوتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی زیادہ ان کا ذکر تقریروں اور بیانات میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے گزشتہ ایک مہینے کے اخبارات اور ٹی وی کے تبصرے اٹھا کر دیکھ لیں تو ان اصطلاحات کا استعمال بکثرت دکھائی دے گا اور ہر فریق دوسرے پر الزام تراشی کرتے وقت اسے آئین اور قانون کا دشمن قرار دے گا جبکہ خود ویسے ہی تمام تر اقدامات کی کوششیں بھی کر رہا ہو گا تا کہ کسی طرح اقتدار تک رسائی حاصل ہو سکے۔ عمران خان کے مطابق اس نے کوئی بھی ماورائے آئین اقدام نہیں اٹھایا اور سب کچھ قانون کے دائرے میں رہ کر کیا۔ اس کے مطابق قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو رد کرنا اور پھر اسمبلی کی تحلیل اور نئے انتخابات کا اعلان سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق تھا اور اس کے پاس ریاستی اداروں کے سربراہ کو ہٹانے سمیت دیگر تمام اقدامات کے اختیارات آئین اور قانون کے مطابق موجود ہیں جنہیں وہ استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ وہ سب کچھ اقتدار سے کسی طور بھی چمٹے رہنے کے لیے کر رہا تھا اور اپنی مرضی کے افراد کو ریاستی اداروں کے سربراہ کے طور پر لانا چاہتا تھا جس کا واحد مقصد اپنے اقتدار کو طول دینا اور گزشتہ ساڑھے تین سال سے جو لوٹ مار کا بازار گرم تھا اس کو مزید قوت اور شدت کے ساتھ آگے بڑھانا تھا خواہ اس دوران عوام کی وسیع اکثریت بھوک، بیماری اورذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ہی کیوں نہ غرق ہو جاتی۔ دوسری جانب نئی حکومت اپنے اقتدار کی ہڈی کو حاصل کرنے کے لیے کئے گئے تمام اقدامات کو عین قانونی اور آئینی قرار دے رہی ہے جبکہ ہر خاص و عام جانتا ہے کہ یہ ڈاکوؤں اور چوروں کا ٹولہ اقتدار میں آنے کے لیے کسی بھی حد کو پھلانگ سکتا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ اور کروڑوں روپے کے ووٹ خریدنے کے بعد عدم اعتماد کی تحریک میں کامیابی، عدالتوں کی رات کی تاریکی میں کیے گئے فیصلوں اور ریاستی اداروں کے سربراہان کی براہ راست مداخلت کی تمام رپورٹیں منظر عام پر آ چکی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ریاست پر حاوی دھڑے کی بھرپور مداخلت کے ذریعے ہی حکومت کی تبدیلی ممکن ہوئی ہے۔ یہی تمام تر قوتیں بشمول عدلیہ اور فوج کے سربراہان کے 2018ء میں عمران خان کی کھل کر حمایت کر رہے تھے اور تمام تر انتخابات ایک فراڈ اور دھوکے پر مبنی تھے۔ لیکن اب وہ حمایت اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال کر شہباز شریف کی حکومت بنائی گئی ہے۔ اس تمام تر عمل میں واضح ہو چکا ہے کہ آئین کا تقدس، قانون کا احترام اور جمہوریت کی بالادستی جیسے جملے صرف عوام کو دھوکہ دینے اور ان پر حکمرانوں کی پالیسیاں مسلط کرنے کے بہانے ہیں جبکہ حکمران طبقے کے لیے ان کی اہمیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔ حکمران طبقے کی اس لڑائی میں جہاں ملک میں جاری معاشی اور سماجی بحران کی شدت بڑھتی جا رہی ہے وہاں سیاسی و ریاستی بحران بھی شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں جس کے باعث حکمران طبقے کی آپسی لڑائی بھی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے آخری حد تک پہنچ رہی ہے۔ در حقیقت یہ اس سرمایہ دارانہ نظام کا ہی بحران ہے جس نے اس پورے سماج کو بحرانوں کی دلدل میں دھکیل دیا ہے اوراس نظام میں رہتے ہوئے یہاں سے باہر نکلنے کا رستہ کسی کو بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ افراط زر اورمہنگائی میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے جبکہ بیروزگاری، بیماری اور بھوک مسلسل بڑھ رہی اور عوام کی اکثریت کو موت کی کھائی میں دھکیل رہی ہے۔ اسی بحران کی شدت نے حکمران طبقے کے مابین موجود اختلافات کو ایک کھلی لڑائی میں تبدیل کر دیا ہے اور اس وقت لوٹ مار کی لڑائی میں تمام فریق ایک دوسرے کو شکست فاش دینے کی کوشش کر رہے ہیں خواہ اس کے لیے انہیں کوئی بھی اقدام اٹھانا پڑے۔

امریکہ دشمنی کی نعرے بازی

سب سے بڑھ کر اس ملک میں ایک سیاسی بحران پوری شدت کے ساتھ اپنا اظہار کر رہا ہے جس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس معاشی بحران اور سماجی مسائل کا سرے سے کوئی بھی حل موجود نہیں۔ عمران خان ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ بر سر اقتدار رہا اور اس دوران مہنگائی اور بیروزگاری تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جبکہ صحت کے شعبے کی نجکاری سے لے کر ادویات کی قیمتوں اور تعلیمی اداروں کی فیسوں میں ہوشربا اضافے تک تمام تر اقدامات اس کے عوام دشمن کردار کا اظہار تھے جبکہ سرمایہ دار طبقے کو بڑے پیمانے پر ٹیکس چھوٹ، مراعات اور سبسڈیاں دی جا رہی تھیں اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت تمام سامراجی اداروں کے احکامات کی بجا آوری کی جا رہی تھی۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے وقت عمران خان امریکہ کے تمام احکامات پر ایک زر خرید غلام کی طرح عمل کر رہا تھا یہاں تک کہ امریکی فوجیوں کو ہنگامی طور پر اسلام آباد میں کئی دنوں تک ٹھہرانے کا تمام تر بندو بست بھی اسی نے کیا۔ اس کے علاوہ کابل میں طالبان کی مسلط کر دہ نئی حکومت کے لیے ڈالروں کی بھیک اور امریکہ سے رحم کی اپیل کرنے کا سلسلہ بھی عمران خان کے دور میں ہی شروع ہوا۔ اس سے بھی بڑھ کر اس کی سامراجی غلامی اس وقت کھل کر سامنے آئی جب وہ ٹرمپ کے سامنے ایک غلام کی طرح بیٹھ کر نہ صرف اس کا بھاشن سنتا رہا بلکہ واپسی پر کشمیر پر مودی کے ناجائز قبضے اور سامراجی اقدامات کو بھی خاموش حمایت فراہم کی۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ کر اس کی تمام تر شرائط قبول کرنے میں بھی عمران خان کا ماضی میں کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ پہلے اپنا وزیر خزانہ آئی ایم ایف کے حکم پر تبدیل کیا اور پھر انتہائی سخت شرائط پر قرضے کی بھیک کو بھی قبول کیا اور تمام تر سامراجی پالیسیاں اس ملک کے غریب عوام کے کندھوں پر ٹیکسوں میں اضافے اور نجکاری کی شکل میں منتقل کر دیں۔ اسی طرح امریکی سامراجی آقاؤں کے احکامات پر سی پیک کے منصوبے کو بھی پس پشت ڈا ل دیا جو چین کا سامراجی منصوبہ تھا لیکن اس کا خطے میں امریکی مفادات سے براہ راست تصادم بن رہا تھا۔ اسی طرح گورنر اسٹیٹ بینک کی تعیناتی سے لے کر اس ریاستی ادارے کو آئی ایم ایف کے براہ راست کنٹرول میں دینے اور رات دن امریکی صدر کی ایک فون کال کا انتظار کرنے تک عمران خان کی حکومت نے امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کی ایک نئی تاریخ رقم کی لیکن اب وہ پورے ملک میں امریکہ مخالف نعرے بازی میں سب سے آگے ہے اور اس بنیاد پر دوبارہ اقتدار میں آنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ عوام مہنگائی اور بیروزگاری کو بھول کر صرف امریکہ کی دشمنی کے نعرے پر اس کی حمایت کریں اور یہ جھوٹ تسلیم کر لیں کہ اس کو اقتدار سے اس لیے نکالا گیا کیونکہ اس نے روس کا دورہ کیا تھا اور ملک کی خارجہ پالیسی کو امریکہ کی بجائے روس اور چین کی جانب موڑرہا تھا۔ یہ درست ہے کہ سماج میں امریکہ کی سامراجی پالیسیوں کے خلاف شدید نفرت موجود ہے اور عوام ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اس نفرت کی وجوہات مختلف طبقات کے لیے مختلف ہیں۔ عمران خان کے لیے امریکہ کی مخالفت کی وجہ اقتدار چھن جانے کا وقتی غصہ ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح امریکہ کے حکمران اس پر دوبارہ نظر کرم کریں اور اس کے حمایتی ریاستی دھڑے کو کسی طرح برسر اقتدار لے کر آئیں جس کے بعد وہ امریکہ کی پہلے سے بھی زیادہ خدمت کرنے کے لیے تیار ہو گا۔ اس کی تمام تر تقریروں اور بیانات میں امریکہ کی کسی بھی مالیاتی پالیسی پر کوئی تنقید موجود نہیں اور وزیر اعظم بننے سے پہلے والی آئی ایم ایف کے خلاف اس کی تقریریں ابھی تک دوبارہ سنائی نہیں دی ہیں۔ وہ ڈرون حملوں اور افغانستان میں مداخلت پر تھوڑی بہت تنقید کرتا ہے۔ اس تنقید کی اجازت ڈیڑھ دہائی قبل پاکستان کے حکمرانوں نے خود امریکہ سے لی تھی جس کاثبوت وکی لیکس میں منظر عام پر آ گیا تھا جس میں یہ طے ہوا تھا کہ امریکی ڈرون حملے جاری رکھیں گے اور پاکستان ان پر تنقید کرتا رہے گا۔ اسی طرح افغانستان میں براہِ راست امریکی مداخلت ختم ہو چکی ہے اور فی الحال امریکہ کا ادھر واپسی کا کوئی ارادہ نہیں۔ لیکن خود عمران خان اس مداخلت کو ختم کرنے کے خلاف تھا اور امریکی اخباروں میں بطور وزیر اعظم مضامین لکھ رہا تھا کہ امریکی فوجوں کے انخلا سے حالات خراب ہو جائیں گے اس لیے امریکی افواج کو افغانستان میں اپنی موجودگی جاری رکھنی چاہیے۔ اس کا حتمی مقصد امریکی ڈالروں کی سپلائی کو جاری رکھنا تھا تاکہ حکمران طبقات کی جھولیاں بھرتی رہیں خواہ اس سامراجی مداخلت سے انسانوں کے خون کی ہولی کا کھیل جاری رہے۔ اسی طرح روس کے دورے کے دوران بھی اس نے امریکی سامرج کے دنیا بھر میں کیے جانے والے مظالم کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کی اور نہ ہی امریکہ کی سامراجی پالیسیوں پر ابھی تک کوئی واضح تنقید اس کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ جبکہ عوام میں امریکی سامراج سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ اس کی مالیاتی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں اس ملک کے محنت کش عوام کی پیدا کردہ دولت کا بڑا حصہ سودی قرضوں کی مد میں لٹ کر عالمی مالیاتی اداروں کی جیب میں چلا جاتا ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس ملک کو چلانے کے لیے آئی ایم ایف بھیک دے رہا ہے۔ درحقیقت امریکی سامرا ج کی سربراہی کے تحت چلائے جانے والا عالمی سرمایہ دارانہ نظام ہی وہ جڑ ہے جس کے خلاف دنیا بھر کے محنت کش عوام میں شدید نفرت پائی جاتی ہے اور وہ مختلف شکلوں اور طریقوں سے اس نظام کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ امریکی کمپنیوں کی دنیا بھر میں اجارہ داری ہو یا اس کی سامراجی جارحیت کے نتیجے میں بہنے والا معصوموں اور بے گناہوں کا خون، اس تمام تر ظلم اور استحصال کی بنیادیں سرمایہ دارانہ نظام میں پیوست ہیں جس کی سربراہی دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کے پاس ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام یہاں اس ملک میں بھی موجود ہے جو نہ صرف یہاں کے محنت کشوں کا بد ترین استحصال کر رہا ہے اور ان کی پیدا کردہ دولت نچوڑ کر سرمایہ د اروں اور سامراجی آقاؤں کی تجوریوں میں بھرتا ہے بلکہ یہاں اس نظام کو جاری رکھنے کے لیے سرمایہ دارانہ ریاست بھی موجود ہے جس کو قائم رکھنے کے لیے ماضی میں امریکی سامراج ہر قسم کی فوجی اور مالی پشت پناہی کرتا آیا ہے۔ یہاں کی عدالتیں، قوانین، انتظامی و سیاسی ادارے اور سیاسی پارٹیاں اپنی بنیاد اس مزدور دشمن نظام پر رکھتی ہیں جس کا مقصد ہی سامراجی طاقتوں کی گماشتگی کرنا اور سرمایہ دار طبقے کی دولت اور حاکمیت کو مضبوط کرنا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں، بینکوں اور سٹاک ایکسچینجوں کے اس نظام میں قومی خود مختاری اور سا لمیت کے نعرے صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور سرمایہ داروں کی لوٹ مار کو حب الوطنی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس ملک کا حکمران طبقہ کبھی بھی سامراجی غلامی کا طوق اتار کر نہیں پھینک سکتا اور نہ ہی ان کی ایسی کوئی خواہش موجود ہے۔ عراق اور افغانستان پر سامراجی جارحیت کے وقت پوری دنیا میں ان سامراجی جنگوں کے خلاف نفرت موجود تھی اور یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں لاکھوں لوگ احتجاج کر رہے تھے لیکن اس ملک کے حکمرانوں سمیت دنیا کے اکثر سرمایہ دارانہ ممالک کے حکمران اس سامراجی جنگ کی نہ صرف حمایت کر رہے تھے بلکہ اس میں براہ راست شریک بھی تھے۔ آج بھی حکمران طبقہ اپنی باہمی لڑائی میں امریکہ دشمنی کے نعرے کو عوام کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن کبھی بھی اس نظام اور ان بنیادوں پر تنقید نہیں کرتا جو ان مظالم کو جنم دیتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ان کی اپنی حاکمیت اور اقتدارخطرے میں پڑ جاتا ہے۔ عمران خان گزشتہ کچھ ہفتوں سے اپنا موازنہ بھٹو سے بھی کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس کا اقتدار بھی امریکہ نے ختم کروایا تھا لیکن یہاں بھی وہ جھوٹ اور فریب کا استعمال کر رہا ہے اور یہ نہیں بتا رہا کہ بھٹو نے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور اسے ادھورا چھوڑدیا تھا۔ اسی وجہ سے انقلاب کو مکمل نہ کرنے کے باعث جب اس کی عوامی حمایت میں بڑے پیمانے پرکمی آئی اور دوسری طرف رد انقلابی قوتوں کو اپنی صفیں درست کرنے کا موقع ملا، تو امریکی سامراج نے سوشلسٹ نعرے بازی اور نیشنلائزیشن جیسے اقدامات کرنے پر اسے سبق سکھانے کے لئے فیصلہ کن مداخلت کی تھی۔ اس سے قبل عمران خان واضح طور پر بھٹو کی نیشنلائزیشن کی شدید مخالفت کر چکا ہے اور نجکاری کے عوام دشمن ایجنڈے پر نہ صرف ایمان رکھتا ہے بلکہ صحت جیسے بنیادی نوعیت کے شعبے کی تیزی ترین نجکاری کر کے عوام پر بیماری اور موت مسلط کر چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے نہ صرف اپنا موازنہ بھٹو سے کرتا ہے بلکہ اپنے جلسوں کا موازنہ بھی ماضی کے ان جلسوں سے کرنے کی جرات کرتا ہے جب ایوب خان کی انتہائی سرمایہ نواز آمریت کے خلاف ایک انقلابی تحریک ابھری تھی اور محنت کشوں نے فیکٹریوں اور جاگیروں پر قبضے شروع کر دیے تھے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی کوششیں کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں مقید کر دیا اور امریکی سامراج سے سمجھوتے بازی کرتے ہوئے اس کے سرمایہ دارانہ نظام کی غلامی قبول کر لی جس کی سزا بھٹو اور بینظیر کو بھی ملی اور جس کا خمیازہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔

سیاسی اور ریاستی بحران

عمران خان کی حمایت درمیانے طبقے کے ایک محدود حصے میں ہے جو معاشی اور سماجی بحران کی وجہ سے شدید دباؤ اور تناؤ کی کیفیت میں ہے اور اسے نجات کا کوئی رستہ نظر نہیں آرہا جس کی وجہ سے اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی کیفیت میں یہ افراد ریاستی اداروں پر شدید ترین تنقید سے بھی باز نہیں آ رہے اور اس ملک کی مقتدر قوتوں کو تمام تر صورت حال کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن اس عمل میں بھی انہیں لگتا ہے کہ وہاں پر چند افراد کو تبدیل کر دیا جائے اور ان کے حامی اہم عہدوں پر تعینات ہو جائیں تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن مسئلہ چند افراد اوراہم شخصیات کا نہیں بلکہ اس نظام کے بحران کا ہے جو تمام تر ریاستی اور سیاسی بحرانوں کو جنم دے رہا ہے اور کوئی بھی شخصیت یا دھڑا برسر اقتدار آ جائے یہ بحران ہر صورت میں شدت ہی اختیار کرے گا اور نظام کے زوال کو گہرا کرتا جائے گا۔ مزدور طبقے میں عمران خان کی حمایت پہلے بھی کسی قابل ذکر پیمانے پر موجود نہیں تھی اور اب بھی وہ محنت کش عوام کی وسیع ترین اکثریت کو متوجہ نہیں کر سکا۔ درحقیقت کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کی بڑی حمایت حاصل نہیں کر سکتی اور تمام پارٹیاں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی ہی نمائندہ بن کر رہ گئی ہیں اور زمینی حقائق سے مکمل طور پر کٹ چکی ہیں۔ نئی حکومت کے پاس عوامی حمایت حاصل کرنے کے وسیع تر مواقع موجود تھے اور اپنے عوام دشمن ماضی اورمظالم کے باوجود عمران خان کے ساڑھے تین سال کی بربادی نے انہیں پھر سے ایک متبادل بننے کے لیے موقع فراہم کیا تھا۔ لیکن ان کے پاس بھی مہنگائی اور بیروزگاری کا کوئی حل موجود نہیں اور اب بھی ان کا حتمی مقصد اپنی لوٹ مار کو نئی انتہاؤں تک لے جانا ہے۔ اس دوران وہ اس ملک کے سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کو مراعات اور سبسڈیاں فراہم کرنے کے بڑے پیمانے پر اقدامات کریں گے اور لوٹ میں اپنا حصہ بڑھاتے چلے جائیں گے جبکہ عوام کو غربت اور ذلت کی نئی گہرائیوں میں دھکیلیں گے۔ اس دوران اقتدار کی بندر بانٹ پر ان کی لڑائیاں بھی شدت اختیار کریں گی اور عوام میں ان کی نفرت بھی نئی انتہاؤں تک پہنچتی چلی جائے گی۔ عالمی سطح پر طاقتوں کے بدلتے ہوئے توازن میں یہ بھی ایک انتہا سے دوسری کی طرف لڑکھڑائیں گے اور عالمی ہاتھیوں کی لڑائی میں یہ بھی خام مال کی طرح استعمال ہو کر اپنی تمام تر سیاسی ساکھ خرچ کرتے چلے جائیں گے اور عوام کے سامنے ان کی حقیقت بھی عیاں ہوتی چلی جائے گی۔ سامراجی بیساکھیوں اور زوال پذیر نظام پر مسلط یہ حکمران بھی عوام کو غربت کی دلدل میں دھکیلنے کا ہی سبب بنیں گے اور ان کے خلاف بھی عوامی غم و غصہ جلد ہی ابلنے لگے گا۔ تنخواہوں میں اضافے کے جھوٹے بیانات کے خلاف پہلے ہی احتجاج کی منصوبہ بندی کاآغاز ہو گیا ہے جو آنے والے دنوں میں پھیلتے چلے جائیں گے۔ اس دوران ریاستی بحران بھی شدت اختیار کرتا جائے گا اور مختلف دھڑوں کی لوٹ کے مال پر لڑائی نئی انتہاؤں کو چھوئے گی۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ آنے والے مہینوں میں فوج کے سربراہ کی تعیناتی کے اعلان کے ساتھ ہی یہ لڑائی ختم ہو جائے گی تو اسے سماج کے بحران کی شدت کا علم نہیں۔ درحقیقت عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے زوال نے اس ریاست کی بنیادوں کو بھی کمزور کر دیا ہے اور مختلف سامراجی طاقتوں کے درمیان ہچکولے کھانے کا یہ عمل جلد ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا جو ان بنیادوں کو مزید کمزور کرتا چلا جائے گا۔ کچھ حصے اس پرانے طرزعمل اور انتہا پسند طریقوں پر ہی چلنے پرزور دیں گے جن کے تحت گزشتہ چار دہائیوں سے امریکہ کی افغانستان میں مداخلت کے دوران چلا گیا ہے جبکہ دوسرے حصے طرز عمل کو سامراج کے نئے تقاضوں کے تحت تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے اور انتہا پسندی کی بجائے میانہ روی اختیار کرنے کا درس دیں گے۔ لیکن دونوں ہی حصے انتہائی کمزور بنیادوں کے حامل ہیں اور فیصلہ کن اقدام کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ اس لیے یہ کشمکش نہ صرف یہ کہ جاری رہے گی بلکہ ایک ودسرے پر حملوں کی شدت میں بھی اضافہ کرتی چلی جائے گی جس سے ریاستی بحران شدید تر ہوتا چلا جائے گا۔ اس دوران عالمی سطح پر طاقتوں کا توازن بھی مسلسل تبدیل ہوتا رہے گا اور امریکہ اور یورپ کی چین اور روس سے کشمکش بھی شدت اختیار کرے گی جس کے براہ راست اثرات پاکستان کے سیاسی اور ریاستی بحرانوں پر بھی مرتب ہوں گے اور حکمران طبقہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا۔ ایسے میں نئے عام انتخابات بھی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے مزید ابھارنے کا باعث بنیں گے اور حکمرانوں کے باہمی تضادات پھٹنے کی جانب بڑھیں گے۔

مزدور طبقہ اور سوشلسٹ انقلاب

اس سارے عمل میں محنت کش طبقے کی حکمرانوں کی سیاست سے بیگانگی اور نفرت بڑھتی چلی جائے گی اور وہ پہلے بھی اس کھیل میں کسی بھی دھڑے کو سیاسی حمایت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی مزدوروں کے مسائل میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہ تمام ترسماجی، معاشی اور سیاسی بحران حتمی طور پر محنت کش طبقے کو سیاست کے میدان میں دھکیل سکتے ہیں اور یہی اس پورے سماج کے لیے ایک فیصلہ کن مرحلہ ہوگا۔ جب محنت کش خود سیاست کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو وہ پورے سماج کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ان کی قسمتوں کے فیصلے بڑے بڑے سیاستدان، جرنیل، جج اور بیوروکریٹ کرتے رہتے ہیں اور وہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ زندگی کے تلخ حالات انہیں اتنی فرصت ہی نہیں دیتے کہ وہ اس عمل کا حصہ بن سکیں لیکن جب بھی محنت کش بطور طبقہ سیاست کے میدان میں عملی قدم رکھتے ہیں تو تمام ترصورتحال اوپر سے لے کر نیچے تک یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ اقتدار حکمرانوں کے ایوانوں سے نکل کر گلیوں، چوراہوں، فیکٹریوں اور کھیتوں کھلیانوں میں آ جاتا ہے۔ سامراجی طاقتوں کے متعلق فیصلے ہوں یا معیشت اور تجارت کے بارے میں پالیسیاں، وہ عوامی اسمبلیوں میں طے ہوتی ہیں۔ انصاف کی فراہمی کے لیے کسی مہنگے وکیل اور جج کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ عوامی عدالتوں میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے سنائے جاتے ہیں۔ جموریت کی اصطلاح کی بے مصرف جگالی کرنے کی بجائے حقیقی جمہوریت عوام کے درمیان میں پروان چڑھتی ہے اور مزدور یکجہتی کا عملی نمونہ سماج کے ہر حصے میں نظر آتا ہے۔ اس تمام تر عمل میں اگر ایک انقلابی پارٹی موجود ہو جس کے پا س سوشلسٹ نظام کا مکمل پروگرام اور انقلابی نظریات پر قائم تنظیم موجود ہو تو سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور ظلم اور استحصال پر مبنی نظام کا خاتمہ کر کے نہ صرف غربت، ذلت، محرومی اور طبقاتی سماج کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے بلکہ سامراجی طاقتوں اور ان کی سودی قرضوں کی جکڑ بندی سے بھی نجات مل سکتی ہے۔

Comments are closed.