کوئٹہ: اساتذہ کی احتجاجی ریلی پر پولیس تشدد اور گرفتاریاں۔۔پولیس گردی مردہ باد!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|

22 مارچ 2021ء کو گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن کے اساتذہ کی جانب سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی کا آغاز کوئٹہ پریس کلب سے ہوا جبکہ اس کا اختتام صوبائی اسمبلی کے سامنے جا کر ہوا۔

گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن کے تحت 2015ء میں بلوچستان میں 1400 اساتذہ کی بھرتیاں ہوئیں۔ ان بھرتیوں میں زیادہ تر تعداد خواتین اساتذہ کی تھی جن کا تعلق بلوچستان کے مختلف اضلاع سے ہے۔ 2016ء میں ان اساتذہ کو کنٹریکٹ دیئے گئے۔ معاہدے کے مطابق، ایک سال کے بعد ان اساتذہ کو مستقل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن 5 سال گزر جانے کے بعد تاحال ان اساتذہ کو نہ صرف یہ کہ مستقل نہیں کیا گیا بلکہ پچھلے دس ماہ سے ان کی تنخواہیں بھی روک دی گئی ہیں۔

مستقلی اور تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے نکالی گئی احتجاجی ریلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے اور ہراساں کرنے کیلئے پولیس کی بھاری مسلح نفری پریس کلب کے سامنے تعینات تھی۔ مگر بغیر کسی خوف کے اساتذہ پریس کلب کے سامنے اکٹھے ہوئے اور ایک کامیاب ریلی کا انعقاد کیا۔

ریلی پر پولیس کی جانب سے شدید تشدد کیا گیا۔ مرد و خواتین اساتذہ پر لاٹھی چرج کیا گیا، ان پر تھپڑ اور مکے برسائے گئے اور گرفتار کیا گیا۔ اس تشدد کی وجہ سے متعدد اساتذہ کی حالت کافی تشویش ناک ہو گئی اور انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا۔ یاد رہے کہ اساتذہ پچھلے تین ماہ سے سراپا احتجاج ہیں اور ایک ماہ سے پر امن احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بار بار جھوٹے وعدے کیے گئے اور کسی قسم کا عملی اقادم نہیں اٹھایا گیا۔

18 مارچ 2021ء کو اساتذہ کی جانب سے سول سیکریٹریٹ کے ساتھ ہاکی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کے نتیجے میں حکومتی عہدیداروں نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ 22 مارچ کو بلوچستان اسمبلی کی کابینہ کے اجلاس میں ان اساتذہ کے مطالبات کو ایجنڈے میں شامل کیا جائے گا۔

بلوچستان اسمبلی کی کابینہ کے اجلاس میں اس مدعے کو ایجنڈے میں 40ویں نمبر پر رکھا گیا۔ جس پر بحث ہی نہ ہو پائی۔ جس کے نتیجے میں اساتذہ نے کوئٹہ پریس کلب سے بلوچستان اسمبلی کی جانب ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت کوئٹہ پریس کلب کے سامنے چار علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ لگے ہوئے ہیں جن میں تین کیمپ اساتذہ کے ہیں۔ جن کے مطالبات کم و بیش ملتے جلتے ہی ہیں مگر اس کے باوجود ان میں کوئی آپسی رابطہ موجود نہیں۔یہ تمام کیمپ ایک دوسرے سے الگ تھلگ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ یقینا انتہائی غلط پالیسی ہے جس کا فائدہ صرف حکمرانوں کو ہی ہو رہا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کی روز اول سے یہ کوشش کر رہی ہے کہ ان تمام تر احتجاجی اساتذہ کے درمیان آپسی رابطہ و تعلق قائم کرے اور انہیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر منظم کرے تا کہ ان کی طاقت میں اضافہ کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ صوبے کے دیگر ملازمین اور مزدور تنظیموں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اخباری اور سوشل میڈیا پر مذمتی بیانات سے ہٹ کر اساتذہ کی اس جدوجہد میں عملی طور پر شامل ہوں۔

اب محکمہ جاتی تعصب اور ملازمین کی تنظیموں کی قیادت کے آپسی تضادات اور ہر موقع پر اپنا نام بنانے کی روایت کو ختم کرنا ہوگا۔ اگر اب بھی مزدوروں کی قیادتیں یہ نہیں چھوڑتیں تو نیچے مزدوروں کو منظم ہو کر ان پر ہلہ بولنا ہوگا، کیونکہ مزید خاموشی سے نقصان عام مزدور کا ہی ہے۔ اب نا صرف یہ کہ صوبے بھر کے محنت کشوں کو متحد ہونا ہوگا بلکہ اس اتحاد کو وسعت دیتے ہوئے ملک گیر سطح تک لے کر جانا ہوگا۔ پچھلے عرصے میں محنت کشوں کے ملک گیر سطح کے چند اتحاد تشکیل پائے ہیں جو انتہائی خوش آئند امر ہے، مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے اتحادوں کو وسعت دی جائے اور ان تمام اداروں کے محنت کش بھی اس میں شامل ہوں جو فی الحال ان میں شامل نہیں ہیں۔ اسی طرح ملک گیر سطح پر منظم ہو کر ایک ملک گیر عام ہڑتال کی جانب بڑھنے کا وقت بھی آگیا ہے۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد میں محنت کشوں کی انتہائی اہم جیت ہوگی جو مستقبل میں محنت کشوں کی حکومت (سوشلزم) کی راہ ہموار کرے گی۔

Comments are closed.