سانحہ ماروار بلوچستان: 23 کان کن سرمائے کی بھینٹ چڑھ گئے!

|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ|

بلوچستان کے علاقہ ماروار میں5مئی کو ایک ہی دن دو مختلف واقعات میں کوئلہ کی دو کانیں بیٹھ گئیں، آخری اطلاعات آنے تک ان واقعات میں 23 مزدور ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ 13 شدید زخمی ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سے 21 محنت کش خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل الپوری کے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جب کہ دو کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ اطلاعات کے مطابق ایک کان لینڈ سلائڈنگ کی وجہ سے اور دوسری زہریلی گیس بھر جانے کے بعد دھماکے کے باعث بیٹھی۔

پاکستان میں ایسے واقعات ایک معمول بن چکے ہیں جن میں ہر سال ہزاروں محنت کش زندگی گنوا بیٹھتے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں کان کن کانوں میں ہونے والے حادثات میں جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔ مختلف ذرائع کے مطابق بلوچستان میں موجود کوئلے کی 400کانوں میں ایک لاکھ سے زائد محنت کش کام کرتے ہیں۔ یہاں پر کام کرنے والوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ کان میں کام کرنے والوں کے کام کا آغاز صبح 5 بجے ہوتا ہے۔ اوقات کار 16سے 18 گھنٹے تک بھی ہوتے ہیں اور اس کے عوض ان کانکنوں کو ہفتہ وار 1000روپے سے 1500روپے تک اجرت دی جاتی ہے۔ کان میں کام کرنے والوں میں سے اکثریت کی عمریں 13 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ اس لئے نہیں کہ 30 سال کے بعد انہیں پنشن دیکر فارغ کر دیا جاتا ہے، بلکہ اس عرصے میں کان کن مختلف جان لیوا امراض کا شکار ہو جاتے ہیں بالخصوص ان کے پھیپھڑے ضائع ہوجاتے ہیں۔ 90 فیصد دوران کام مہلک بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جس میں ٹی بی بہت عام ہے۔ اندازوں کے مطابق 60 فیصد کان کن 30 سال کی عمر کے بعد مرجاتے ہیں۔ غرض ان کانوں سے وابستہ محنت کشوں کی زندگیاں ہر لمحہ موت سے نبردآزما رہتی ہیں۔ 

اندازوں کے مطابق 60 فیصد کان کن 30 سال کی عمر کے بعد مرجاتے ہیں۔ غرض ان کانوں سے وابستہ محنت کشوں کی زندگیاں ہر لمحہ موت سے نبردآزما رہتی ہیں۔

اس سانحے کے بعد پاکستان سنٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کوئٹہ میں احتجاج کر رہی ہے، ان کا مطالبہ ہے کی جاں بحق ہونے والے محنت کشوں کے ورثا کو 20، 20لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان مائنز اینڈ منرلز ڈیپارٹمنٹ اس قتل عام میں برابر کا شریک ہے اور اس محکمے کی طرف سے کانوں کے متعلق کسی قانون پر عملدارآمد کو یقینی نہیں بنایا جاتا۔ حتیٰ کہ کانوں کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی ہے اور ان کو رجسٹر ڈتک نہیں کروایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ متعلقہ محکمے کے پاس کوئلے کی کانوں کی تعداد صرف 250 ہے اور ان میں کام کرنے والوں کی تعداد 12ہزار۔ اور ان اعداد و شمار کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ کانوں میں کام کرنا بے شمار خطرات سے بھرا ہوا ہے لیکن ان کانوں میں کام کرنے والوں کو بنا کسی حفاظتی اقدامات کے ہی ان کانوں میں اتار دیا جاتا ہے۔ 

مختلف رپورٹس کے مطابق پاکستان میں کانوں میں کام کرنے والوں کی کانوں کے اندر کام کی صلاحیت زیادہ سے زیادہ 20سال کی ہے۔ کانوں میں کام کے لئے آنے والے جوان خون کو عمومی طور پر گہری اور تنگ جگہوں پر کام کے لئے بھیجا جاتا ہے کیونکہ پہلے سے کام کرنے والے محنت کش بہت جلد پھیپھڑوں کے امراض کی وجہ سے سانس لینے میں مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گہرائی میں کام کے قابل نہیں رہتے۔ یہ نیا آنے والا خون بھی کچھ وقت کے بعد پرانے محنت کشوں کی صف میں شامل ہو جاتا ہے لیکن ملک میں شدید بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے ان وحشی کان مالکان کو نیا خون اور کم عمر کام کرنے والے محنت کش مسلسل دستیاب ہوتے رہتے ہیں جو کسی بھی قسم کی سیفٹی اور سیکیورٹی کی غیر موجودگی میں بھی اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے ان موت کے کنوؤں میں اترنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ 

کان کنی کا پیشہ پاکستان میں نسل در نسل چلنے والے پیشہ ہے، جس میں باپ کی کام کی صلاحیت کے خاتمے پر بیٹا اس کی جگہ لیتا ہے اور پھر اس کے بعد اس کا بیٹا۔ یوں یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ ملک میں روزگار کی نایابی اور حد سے بڑھی ہوئی غربت سے تنگ غریب محنت کش کسی بھی قسم کے روزگار کے مواقع کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کانوں میں غیر انسانی حالات کار کے باوجود یہ محنت کش کام پر مجبور ہوتے ہیں مبادہ ان کیخلاف آواز اٹھانے پر انہیں اس غیر انسانی روزگار سے ہاتھ بھی دھونا پڑ سکتا ہے اور پھر سے بیروزگاری کا عفریت ان کے سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہو گا۔ دوسری طرف یہ ریاست محنت کشوں کو کسی بھی قسم کی مراعات اور حقوق دینے سے ناصرف قاصر ہے بلکہ قانونی مراعات پر عمل درآمد یقینی بنانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ بلکہ ایسے سرکاری ادارے جن کی یہ ذمہ داری ہے وہ سرمایہ داروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ہمیشہ محنت کشوں کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں۔ محکمہ محنت اب محکمہ ردِ محنت کا روپ دھار چکا ہے۔ ہر طرف جنگل کا قانون ہے جس میں واحد طاقت دولت اور سرمایہ ہے۔ سرمایہ دار اپنی دولت کے بلبوتے پر حکومتی افسران کو خریدتے ہیں اور محنت کشوں کے خون پسینے کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتے ہیں۔ 

جدید ٹیکنالوجی کہیں بھی استعمال نہیں کی جاتی۔ حالت یہ ہے کہ نمایاں ترین اداروں میں جہاں 1960ء سے مائننگ انجینئرنگ کرائی جاتی ہے وہاں پروفیسرز طلبہ کو فیلڈ کے کام کے حالات ایسے بتاتے ہیں جیسے جگتوں کا پروگرام چل رہا ہو۔ زیر زمین کان کنی میں ہونے والے حادثات کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول میتھین گیس (Methane) کا کان میں بھر جانا اور دوسرا کان کا بیٹھ جانا۔ زیر زمین کان کنی میں حادثات کے حوالے سے حکومت نے اگر کوئی قوانین وضع کیے بھی ہیں تو ان کی حیثیت محض کاغذ کے ٹکڑوں کی جیسی ہے۔ مثلاً کان کے اندر حادثہ کی صورت میں کان کا مالک ہلاک ہونے والے کو معاوضہ ادا کرنے کا پابند ہوگا، لیکن اگر کوئی حادثہ ہوتا بھی ہے تو کان مالک اپنے کارندوں کے ذریعے کان کنوں کی لاشوں کو کان سے باہر نکالتا ہے اور ان کی موت کو کسی اور کہانی سے جوڑدیتا ہے اورمعاوضہ ادا کرنے سے بچ جاتا ہے۔ حادثہ کی صورت میں ریسکیو کا کام بھی عمومی طور پر ساتھی مزدور ہی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے موٹے واقعات جن میں ایک دو محنت کش جاں بحق ہوں، ان کی خبر تک باہر نہیں آنے دی جاتی۔ حتیٰ کہ کئی محنت کش جو کانوں کے باہر ٹرانسپورٹنگ کے دوران یا دیگر فرائض سرانجام دیتے حادثات کا شکار ہوتے ہیں ان کا کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں ہوتا اور عمومی طور پر ان کی موت کو طبعی قرار دے کر معاملہ نپٹا دیا جاتا ہے۔ 

جب معاملہ ان کے کنٹرول سے باہر ہو جائے تو کان مالک ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دیتا ہے اور اسی کو مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، اسی حکومت سے جس نے انہیں کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ حالانکہ ان کان مالکوں کا یہ مطالبہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور کان کنوں ، ٹھیکہ داروں پر حکومت کی جانب سے ان کے کاموں میں مداخلت نہ کرنے کے اصول اول سے بھی متصادم ہے۔ لیکن یہ محنت کش ان غیر انسانی حالات میں ہمیشہ کام کے لئے تیار نہیں رہیں گے۔ ایسے میں ان ہزاروں کان کن مزدوروں کی جدوجہد کا تناظر بھی باقی محنت کش طبقے کی عمومی جدوجہد سے جڑا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کانکنوں کو تیزی سے منظم کیا جائے اوردیگر شعبوں کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر ان کے بنیادی مطالبات کے حقوق کی جدوجہد کو تیز کیا جائے۔ صرف ایک منظم مزدور تحریک ہی محنت کشوں کو اس جان لیوا اذیت سے چھٹکارا دلا سکتی ہے۔ یہ مزدور تحریک صرف چند حاصلات کے حصول تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ آگے بڑھ کر سرمایہ دارانہ نظام کو بھی چیلنج کرے گی اور ایک سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھے گی جس میں محنت کش خود ذرائع پیداوار کے مالک ہوں گے اور جو دولت وہ پیدا کرتے ہیں وہ ان ہی کی فلاح و بہبود پر خرچ کی جائے گی۔ منافع کے نظام سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا ملے گا اور محنت کشوں کی زندگیاں بھی کیڑے مکوڑوں کی بجائے حقیقی انسانوں کی طرح خوشیوں سے منور ہو سکیں گی۔

Comments are closed.