پانی کو ترستا پاکستان

|تحریر: عرفان منصور|

آج سے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل مارکس نے سرمائے کے متعلق لکھا تھا کہ جب اسکا ظہور ہوا تو اسکے پور پور سے انسانی خون بہہ رہا تھا۔ یہ خون اس قتل عام، لوٹ مار، استحصال، بیماری اور موت کی بھینٹ چڑھتی ان عام روحوں کا تھا جنہیں ایندھن بنا کر سرمائے نے ظہور پایا تھا۔ آج سرمایہ، اس کا پھیلایا ہوا نظام اور تشکیل دی گئی ریاست اور دیگر ادارے جن انتہاؤں پر وحشت، ظلم اور استحصال کو پہنچا چکے ہیں ان کے سامنے تو مارکس کے الفاظ کی شدت بھی کم پڑچکی ہے۔ کیا زندگی کا کوئی ایک ایسا رنگ باقی ہے کہ جس کو سرمایہ داری کے زہر آلود ناخن کھرچ کھرچ کر بدرنگ نہ کرچکے ہوں؟ امیر اور غریب کی بڑھتی ہوئی تقسیم کو دیکھیے، دنیا میں بڑھتے ہوئے حادثات و آفات کودیکھیے یا پھر زمین کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت۔ قصہ مختصر کہ اک عمر چاہیے اس بحر بیکراں کے بیاں کے لیے۔

پاکستان میں جاری پانی کے بحران کو ہی لے لیجیے۔ جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں حالیہ شدید پانی کی کمی کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ یہاں کے آرسینک ملا پانی پیتے بچے، میلوں پانی کی تلاش میں برتن اٹھائے چلنے والی مائیں، پانی کی پیاس سے مرتے جانور اور پانی کی کمی کے سبب خریف کی کاشت نہ کرسکنے والے کسان اپنی معاشی بربادی اور زندگی کے قتل کا لہو تلاش کرنے نکلیں تو اس سرمائے، اس کی تشکیل کردہ ریاست اور جہالت کے لفظ اگلتی اشرافیہ کے سوا کوئی ذمہ دار نظر نہیں آتا ہے۔

گزشتہ اپریل، 1961ء کے بعد پاکستان کی تاریخ کا سب سے خشک اور گرم اپریل گزرا ہے کہ جس میں پاکستان کے ڈیموں میں پانی کی آمد متوقع اعدادوشمار سے کہیں زیادہ کم رہی اور بارشوں میں بھی شدید کمی دیکھنے کو ملی۔ اور ان دو عوامل نے ملک کے پانی کی ترسیل اور منیجمنٹ کے ملکی نظام کی پول کھول کے رکھ دی ہے کہ بارشوں کے غیر متوقع طور پر کم ہونے کے سبب اور گزشتہ موسم سرما میں برفباری کم ہونے کے سبب پورے ملک کا زرعی نظام پانی کی کمی کا شکار ہوگیا۔ اسی باعث اس سال جہاں زرعی اجناس کی پیداوار کم ترین سطح تک جانے کے امکانات موجود ہیں وہاں زراعت سے وابستہ آبادی کا ایک بڑا حصہ معاشی دیوالیہ پن اور بربادی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ملک میں بھوک، بیماری اور غربت میں تیز ترین اضافہ بھی متوقع ہے اور درحقیقت ملک میں جاری بحرانوں میں ایک اور خوفناک اضافہ ہوگا۔ پہلے ہی کھاد کی قیمتوں میں تاریخ کے سب سے بڑے اضافے اور قلت، سودی قرضوں کے گھن چکر، آڑھتیوں اورملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے جاگیر داروں کی لوٹ مار نے زراعت کو تباہ کر دیا ہے اور اب رہی سہی کسر پانی کے بحران نے پوری کر دی ہے۔

پچھلے ماہ میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق اس سال انڈس واٹر ایریگیشن سسٹم میں 2.102 ملین ایکڑ فٹ پانی کی بجائے 1.831 ملین ایکڑ فٹ پانی آیا جوکہ 13 فی صد کم ہے جبکہ بحیثیت مجموعی اس سال پانی کی آمد میں 40 سے50 فیصد تک کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں منگلا اور تربیلا ڈیم کی جھیلیں پچھلے دو ماہ سے ڈیڈ لیول پر ہیں اور یہ صورتحال ابھی تک برقرار ہے۔ اور اگر بات کی جائے سندھ کی تو سندھ ابھی تک بھی تقریباً 60 فیصدکے لگ بھگ پانی کی کمی کا سامنا کررہا ہے۔ پانی کی کمی خصوصاً سرائیکی پٹی یعنی جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں انتہائی شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ جہاں ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی ہے اور غریب لوگ مر رہے ہیں، مویشی مررہے ہیں، لوگ نقل مکانی کررہے ہیں اور خریف کی فصلوں کی بیجائی شدید حد تک متاثر ہورہی ہے۔ اس بحران سے جہاں ایک طرف میڈیا صرف نظر کررہا ہے وہیں دوسری طرف مختلف حلقوں کی جانب سے اس کے حل کے لیے کافی سارے خیالی منصوبے بھی تجویز کیے جارہے ہیں جن میں پنجاب سے حق مانگنے، ٹینکرز بھیجنے، نئے صوبے کی تشکیل، نئے ڈیموں کی تعمیر جیسے منصوبے شامل ہیں۔ مگر درحقیقت سب بارشوں کا ہی انتظار کررہے ہیں اور کچھ عاقل وزیروں نے تو یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ اب ہم کچھ نہیں کرسکتے بس دعا ہی آپ کو بچا سکتی ہے یا پھر یہ کہ کسان کپاس سوچ سمجھ کر کاشت کریں کیونکہ پانی کا مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ گویا کپاس کاشت کرنا ایک مشغلہ ہے جس کو کسان چھوڑ کر کوئی اور مشغلہ اپنا لیں۔ یہ سب کچھ سوشلسٹوں کے اس دعوے کا عملی نمونہ ہے کہ یہ ریاست عوام کو کسی بھی قسم کی سہولت دینے سے قاصر ہے اور لوٹ مار میں مگن حکمران طبقہ اس سماج کو نوچ نوچ کر برباد کر رہا ہے۔ لیکن صرف مسئلے کی نشاندہی کرنا کافی نہیں بلکہ ہمارے لیے ضروری ہے کہ تلاش کریں کہ اس بحران کی وجوہات کہاں موجود ہیں، یہ کیسے اس سطح تک پہنچا ہے، اس کے پیچھے ماحولیاتی تبدیلی کس حد تک شامل ہے اور اس کے تدارک کے لیے درست پالیسی کیا ہوسکتی ہے اور اس کو عمل میں کیسے لایا جائے گا۔

پانی کے بحران کی بنیادیں

فالکن مارک اشاریے کے مطابق اگر فی کس پانی کی موجودگی کسی ملک میں 1700 مکعب میٹر سے کم ہو تو وہ ملک واٹر سٹریسڈ شمار کیا جائے گا اور اگر یہ کمی 1000 مکعب میٹر فی کس تک پہنچ جائے تو ایسا ملک پانی کی شدید کمی کے شکار ممالک میں شامل کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں فی کس مکعب میٹر 1017 ہے۔

فالکن مارک ایک اشاریہ ہے جس کے ذریعے کسی جگہ پر موجود پانی اور آبادی کے درمیان تعلق دیکھا جاتا ہے۔ یہ اشاریہ بیان کرتا ہے کہ اگر فی کس پانی کی موجودگی کسی ملک میں 1700 مکعب میٹر سے کم ہو تو وہ ملک واٹر سٹریسڈ شمار کیا جائے گا اور اگر یہ کمی 1000 مکعب میٹر فی کس تک پہنچ جائے تو ایسا ملک پانی کی شدید کمی کے شکار ممالک میں شامل کیا جائے گا۔ کیا آپکو پتہ ہے کہ پاکستان میں فی کس کتنے مکعب میڑ پانی دستیاب ہے؟ صرف 1017 مکعب میٹر۔ ایک طرف آبادی میں 1972ء سے 2020ء تک 2.7 فی صد سالانہ کی رفتار سے اضافہ ہوا اور پانی کے ہمارے استعمال میں بھی 0.7 فی صد سالانہ اضافہ ہوا مگر کیا پانی کے دستیاب وسائل میں کوئی اضافہ کیا گیا؟ بالکل نہیں۔ 1972ء میں بھی ہمارے پاس پانی کے وسائل 246.8 بلین کیوبک میٹر کے تھے اور 2020ء میں بھی۔

آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ آبی وسائل میں کسی بھی قسم کے اضافے کی کوئی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے اس کو بھی دیگر معاملات کی طرح مملکت خداداد نے ایک سکیورٹی ایشو کے طور پر ڈیل کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2025ء تک پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1000 مکعب میٹر سے بھی کم ہوجائے گی اور مستقل طور پر پانی کی طلب اور رسد میں فرق 30 فی صد کو بھی عبور کرجائے گا۔ اور موجودہ ضرورت پوری کرنے کے لیے اضافی 20 ملین ایکڑ فٹ پانی درکار ہوگا۔

اگر آپ اس کو ایک سال کے اندر برپا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ سمجھ رہے ہیں تو آپ غلط ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات نے پہلے سے موجود بحران کو سطح پر لے آنے کا کام کیا ہے کیونکہ پاکستان کونسل آف ریسرچ آن واٹر ریسورسز کے مطابق پانی کا بحران پاکستان میں بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے ہی شروع ہوگیا تھا جو کہ 1999ء میں واٹر سٹریس کی حد تک پہنچ گیا اور 2005ء میں اس نے واٹر سکارسٹی کی حد بھی عبور کر لی تھی۔ مگر ریاست اور اس کے اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور وہ مسلسل اس مسئلے کی نزاکت کو نظر انداز کرتے رہے اور سیاسی کھلواڑ میں مصروف رہے۔

جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی زراعت کے لیے پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ بارشیں اور دریائی پانی ہے۔ پاکستان میں انڈس واٹر ایریگیشن سسٹم لگ بھگ 95 فی صد زراعت کی آبی ضروریات پوری کررہا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی زراعت کے سبب پانی کو ذخیرہ کرنے کی ضرورت بڑھتی گئی مگر اس ضرورت کے لیے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ بارشوں کا نیچرل سلسلہ چلتا رہے گا، گلیشئرز پگھلتے رہیں گے اور دو ڈیم ہی ضرورت کو پورا کرلیں گے۔ ہماری سٹوریج کپیسیٹی سالانہ بہنے والے پانی کا 9 فی صد ہی رہی جبکہ عالمی طور پر یہ اوسط 40 فی صد ہے۔ اس کا پھر بڑا بوجھ انڈر گراؤنڈ واٹر پر آ پڑتا ہے کہ جس میں لوگ ٹیوب ویل اور موٹریں لگا کر بے ہنگم طور سے زیر زمین پانی کو استعمال کرتے ہیں اور یہ شرح اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ دنیا کا دوسرا بڑا انڈس بیسن ایکوئفائر انتہائی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ واٹر ٹیبل سینکڑوں فٹ کے حساب سے نیچے چلا گیا ہے اور پانی بہت تیزی سے نمکین ہوتا چلا جارہا ہے جو اپنے طور پر فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

اب یہ بالکل درست ہے کہ دریائی پانی سے بھرے جانے والے بڑے ڈیم زبردست ماحولیاتی اتھل پتھل، ڈیلٹا میں پانی کی کمی اور دیگر کئی مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے نئے بڑے ڈیموں کی تعمیر مسئلہ حل کرنے کی بجائے اس کی شدت میں اضافہ کریں گے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی سنگین کرنے کا باعث بنیں گے۔ حکمران طبقے کی ایما پر جو لوگ ایسے حل پیش کرتے ہیں یا تو وہ اس مسئلے کی بنیادوں سے لاعلم ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے تنازعات ابھار کر اپنی سیاست کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کے موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر ایسا کوئی نیامنصوبہ ویسے بھی ناقابل عمل ہے۔ اس حوالے سے جنوبی پنجاب اور خصوصاً سندھ کا شکوہ بھی بالکل جائز ہے لیکن ان مسائل کا حل بارش کے پانی سے بھرنے والے چھوٹے، درمیانے ڈیموں کی تعمیر سے کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں صوبوں کی مشترکہ رضامندی اور کنٹرول کے تحت دریاؤں پر ایسے چھوٹے، درمیانے آبی ذخائر بھی بنائے جا سکتے ہیں جنہیں بھرنے کے لئے صرف سیلابی ریلوں کا پانی استعمال کیا جائے تا کہ دریا کے روٹین کے قدرتی بہاؤ میں کوئی خلل نہ پڑے، پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو اور سیلابوں سے بچاؤ بھی۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کا بنیادی مقصد پانی ذخیرہ کرنا ہوتا ہے جبکہ پن بجلی کی پیداوار ان کا ثانوی کام ہوتا ہے۔ محض پن بجلی کے لئے ڈیموں کی تعمیر غلط ہے اور اس مقصد کے لئے ”رن آف دی ریور“ پن بجلی کے پراجیکٹس ہوتے ہیں جو دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں خلل نہیں ڈالتے۔

PCRWR کے چئیرمین محمد اشرف کا کہنا ہے کہ انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم کی پانی کی تقسیم کی کل صلاحیت تقریباً 128 بلین مکعب میٹر ہے اور ہر سال تقریباً 35 بلین مکعب میٹر پانی بنا استعمال کیے سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس صورتحال میں حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی اور مفاد پرستی کھل کر اظہار کررہی ہے کہ اب ان کے پاس کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نظر ہی نہیں آتی ہے۔

پانی کا بے ہنگم استعمال

جہاں پانی کے ذخائر کی کمی کا مسئلہ ہے وہیں اتنی ہی اہم بات یہ بھی ہے کہ پانی کے استعمال اور خصوصاً زراعت میں اس کے ضیاع کو روکنے کے لیے ریاست کی طرف سے کسی قسم کی کوئی عملی کاوش نظر ہی نہیں آتی۔ پانی کی تقسیم، ہیڈورکس اور نہروں پر پانی کے ضیاع اور زمین کی سیرابی تک مسلسل فرسودہ سائنسی یا غیر سائنسی تکنیکوں کے استعمال کا ہی یہ شاخسانہ ہے کہ زراعت کو مہیا کیے جانے والے 143 بلین کیوسک میٹر میں سے 87 بلین کیوسک میٹر مختلف طریقوں سے ضائع ہوجاتا ہے اور پانی کے استعمال کی ایفیشنسی صرف 39 فی صد ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں پانی کے استعمال کی شدت کے حوالے سے پہلے نمبر پر آتا ہے جس کی بنیادی وجہ ملک کی فرسودہ زراعت اور نہری نظام ہے۔ قیمتی دریائی پانی کا اس طرح سے ضیاع واٹر لاگنگ کے کارن بڑے پیمانے پرزرعی زمینوں کی تباہی کا موجب بھی بنتا ہے۔ پانی کے استعمال کی ایفیشنسی کو بڑھانے کے لئے پورے نہری نظام کی اوور ہالنگ اور زراعت میں آبپاشی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال درکار ہے مگر پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری ایسا کوئی فریضہ سر انجام دینے سے بالکل قاصر ہے۔ اسی طرح کسان کو جدید زرعی تعلیم مہیا کرنے کے حوالے سے بھی کسی قسم کی ٹھوس حکمت عملی نہ ہونے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کسان غیر موزوں زمینوں پر وہ فصلیں کاشت کرتے ہیں کہ جو نہ صرف پانی کے ضیاع کا سبب بنتی ہیں، زراعت کی پیداوار کو کم کرتی ہیں بلکہ کسان کی کمر پر بھی بوجھ ثابت ہوتی ہیں۔

پانی کا مسئلہ اور قوم پرستی!

پاکستان میں جب بھی آبی وسائل کی تقسیم کا مسئلہ ابھرتا ہے تو صوبائیت اور قوم پرستی اپنے اس مؤقف کے ساتھ ضرور بحث میں شریک ہوتی ہے کہ پنجاب استحصال کر رہا ہے لہٰذا پنجاب سے حق چھینا جائے اور آج کل قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے آبی وسائل کی میٹنگز میں بھی اسی بات پر جھگڑا کیا جارہا ہے کہ سندھ کو اس کا حصہ نہیں دیا جارہا اور باقی صوبے بھی پنجاب کے حوالے سے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب کے دانشور یہ بات کررہے ہیں کہ ان کو الگ صوبے کی پہچان دی جائے تاکہ وہ اپنے الگ حصے کا مطالبہ کرسکیں۔ ان الزامات میں کسی حد تک صداقت بھی موجود ہے اورریاست کی عملداری میں پنجاب کے حکمران طبقے کا ایک سامراجی کردار بھی واضح طور پر موجودہے۔ اس کے علاوہ جنرل ایوب کے دور میں جب ملک کے دریاؤں کو انڈس واٹر معاہدے کے تحت انڈیا کو بیچا گیا تو اس کے نتیجے میں مشرقی دریا سوکھنے لگے۔ ان سوکھنے والے مشرقی دریاؤں کے سبب جنوبی پنجاب اور سندھ کے مشرقی حصوں کو پانی کی کمی کا اپر پنجاب کی نسبت زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان علاقوں میں سدا بہار نہروں کی تعداد بھی کم ہے جبکہ انڈر گراؤنڈ پانی بھی کوئی خاص قابل استعمال نہیں۔ اسی طرح چولستان کی طرف بہنے والی سب نہریں سیلابی نہریں ہیں جنہیں پانی تب دیا جاتا ہے جب ڈیموں میں سیلابی کیفیت آنے لگتی ہے۔ لیکن یہاں پر اس تمام مسئلے کو طبقاتی نقطہ نظر سے دیکھنا بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں سندھ کے حصے کے چوری شدہ پانی کو جنوبی پنجاب میں فوجی اشرافیہ کو الاٹ کردہ زمینوں کی سیرابی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسی جنوبی پنجاب میں عام لوگ آلودہ پانی کے سبب ہیضے سے مر رہے ہیں۔ اسی طرح سندھ میں وڈیروں کے لئے پانی کی کوئی کمی نہیں اور اس قلت کا شکار ہمیشہ غریب لوگ اور چھوٹے، درمیانے کسان ہی ہوتے ہیں۔ مگر ان حقائق کی کسی کو پروا نہیں کیونکہ ”پانی اور ڈیموں کی سیاست“ جہاں ایک طرف قوم پرستوں کو اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کا موقع فراہم کرتی ہے وہیں دوسری طرف ریاست پاکستان بھی قومی تضادات کو ہوا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی کیونکہ اس کی اپنی بقا اسی قومی جبر کو قائم رکھنے میں ہے۔

پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1991ء میں صوبوں میں پانی کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت پانی کی تقسیم یوں کی گئی تھی کہ 48 فی صد پنجاب، 42 فی صد سندھ، 7 فی صد خیبر پختونخوا اور 3 فی صد بلوچستان کو دیا جائے گا۔ مگر اس معاہدے میں جہاں بہت سے ابہام موجود ہیں وہاں نہ تو پانی کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا اور نہ ہی پانی کے استعمال کو جدید تکنیکی بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے کوئی کوشش کی گئی۔ بلکہ پانی کی فراہمی میں مسلسل کمی ہورہی ہے جس کے باعث یہ معاہدہ از سر نو کرنے کی ضرورت ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے باعث اس کے لیے دستیاب سیاسی استحکام موجود نہیں اور نہ ہی حکمران طبقے میں اقتدار کی رسہ کشی کے باعث پڑنے والی پھوٹ کے باعث ایسے کوئی امکانات آنے والے عرصے میں دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ اس بحران کے شدت اختیار کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

لہٰذا یہ تنگ نظر صوبائیت کی لڑائی اس قلت کی پیدا کردہ ہے کہ جس میں ان تمام صوبوں کی اشرافیہ و انتظامیہ برابر کی شریک ہے اور ابھی بھی ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے یا پانی کے ذخائر کو بڑھانے، استعمال کو منصوبہ بندی کے تحت لانے کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل موجود نہیں۔

اس ساری صورتحال سے نجات کا واحد راستہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اور منصوبہ بند معیشت کا قیام ہی ہے جو نہ صرف اس مسئلے کے حل کے لئے پلاننگ کے تحت وسائل مہیا کر سکتی ہے بلکہ قومی جبر و استحصال کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے خطے کی تمام اقوام کے لئے تعمیر وترقی کی مساوی راہیں بھی کھول سکتی ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کے اثرات

پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ شمالی علاقہ جات میں اپریل کے مہینے میں تین ہزار سے زائد نئی جھیلیں بنی ہوں۔ ان جھیلوں نے شمالی علاقہ جات میں سیلابی صورتحال کو جنم دیا ہے جس سے جانی اور مالی نقصان الگ ہوا ہے۔ بڑھتے ہوئے اس درجہ حرارت (گلوبل وارمنگ) کے میدانی علاقوں اور زراعت پر بھی شدید نقصان دہ اثرات ہورہے ہیں۔ میدانی علاقوں کی زمینوں میں ایک سال کے اندر گرمی کی شدت کے باعث نمی میں 5 فی صد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔گلیشئرز کے پگھلنے کے سبب ہر سال سمندر کی سطح میں 1.1 ملی میٹر کا اضافی ہورہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ہر دو سال بعد تقریباً 7500 مربع کلومیٹر انڈس ڈیلٹا کی زمین کم ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ موسموں کی شدت اور دورانیے میں تبدیلی، بے ربط بارشوں کے سلسلے، بارشوں میں کمی، برفباری میں کمی، سیلابوں میں افراط جہاں ایک طرف زمینی کٹاؤ کا سبب بن رہی ہے وہیں پہلے سے موجود ڈیموں میں تہ اندوزی کی رفتار کو بھی بڑھا رہی ہے جس سے ان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

پاکستان میں زراعت اور زندگی کے لیے پانی کا بحران ایک مستقل نوعیت اختیار کرچکا ہے جو کہ ہر سال لوگوں کے لیے تباہی کا پیغام لاتا رہے گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے حوالے سے فوری اقدامات کا آغاز کیا جائے مگر اس وقت یہ ریاست مکمل طور پر ہی عوام اور عوام کے وسائل سے بیگانہ ہوچکی ہے۔ کچھ عوام دشمن لوگ تو یہ تک کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ زراعت کا حصہ جی ڈی پی میں ویسے ہی کم ہورہا ہے تو اس پر اتنا سر کون کھپائے؟ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ زراعت پاکستان میں 42 فی صد روزگار فراہم کرتی ہے اور زراعت پاکستان کی برآمدات کا ایک اہم حصہ ہے جسے اگر سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو ملک میں خوراک کی کمی سے لے کر دیگر کئی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ 42 فیصد آبادی زراعت کی بدولت دو وقت کی روٹی کھا پاتی ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست پاکستان اور اس کی پسماندہ سرمایہ داری میں اپنی تاریخی متروکیت کے سبب اتنی سکت نہیں کہ وہ تمام وفاقی یونٹوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے نئے آبی ذخائر تعمیر کر سکے یا ملکی زراعت اور نہری نظام کو جدید خطوط پر استوار کر سکے۔ اسی طرح ماحولیاتی تبدیلی اور گلوبنگ وارمنگ صرف برصغیر پاک و ہند کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے حتمی تجزئیے میں صرف عالمی سطح پر نظام کی تبدیلی کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ مگر یہ ریاست تو چند درخت لگانے کی صلاحیت بھی کھو چکی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان میں جنگلات کل ملکی رقبے کا صرف ایک فیصد رہ گئے ہیں۔ اس ساری صورتحال سے نجات کا واحد راستہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ اور منصوبہ بند معیشت کا قیام ہی ہے جو نہ صرف اس مسئلے کے حل کے لئے پلاننگ کے تحت وسائل مہیا کر سکتی ہے بلکہ قومی جبر و استحصال کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے خطے کی تمام اقوام کے لئے تعمیر وترقی کی مساوی راہیں بھی کھول سکتی ہے۔ ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت منافع خوری کا خاتمہ ہوگا اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی حاکمیت ختم کر کے اقتدار عوام کو منتقل کیا جائے گا۔ جہاں امیر اور غریب کی تقسیم ختم ہو گی وہاں تمام منصوبہ سازی کا مقصد حکمران طبقے اور سامراجی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ نہیں بلکہ سماج کی عمومی فلاح و بہبود اور عوام کی خوشحالی ہو گا۔ اس کے تحت پانی اور زراعت جیسے بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے ہوئے نہ صرف کسانوں اور زراعت سے جڑے دیگر محنت کشوں کو ان مسائل سے نجات دلائی جائے گی بلکہ اس سیارے کو برباد کرنے والی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بھی نپٹنے کی کوششو ں کا آغاز ہوگا۔ ان مسائل کو کسی ایک ملک کی حدود میں رہتے ہوئے حل نہیں کیا جا سکتا، لہٰذاعالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا۔ کسی بھی ایک ملک میں ہونے والا انقلاب سرحدوں کو چیرتا ہوا عالمی انقلاب کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اسی صورت ہی پوری دنیا سے سرمایہ د ارانہ نظام کے کینسر کا خاتمہ کر کے ہم انسان دوست ماحول حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے سیارے کو تباہی سے بچا سکتے ہیں۔

Comments are closed.