فلسطین: اسرائیلی فوج کے ہاتھوں خاتون صحافی کا قتل اور جنازے کی بے حرمتی

|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: جویریہ ملک|

مشہور فلسطینی-امریکی صحافی شیرین ابو اکلیح جو الجزیرہ کیلئے کام کرتی تھی، کو گزشتہ ہفتے قتل کرنے کے بعد اسرائیلی ریاست ان کی لاش کو سکون سے اپنی آخری آرام گاہ تک پہنچنے کی اجازت بھی نہیں دے رہی۔ افسوسناک واقعے میں اسرائیلی پولیس نے جمعہ کے روز مشرقی یروشلم کے ایک ہسپتال سے قریبی شہر کے پرانے قبرستان جاتے ہوئے ابو اکلیح کے جنازے پر حملہ کیا جس میں سوگواروں کے خلاف لاٹھیوں اور سٹن گرینیڈز کا استعمال کیاگیا۔

انگریزی یں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

ویڈیوفوٹیج میں پولیس افسران کو لوگوں کو قریبی پولیس سٹیشن کی طرف گھسیٹتے اور ان کے ہاتھوں سے فلسطینی جھنڈا پھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ مختلف مقامات پر پولیس کے حملے کے نتیجے میں تابوت کو کندھا دینے والے اپنی گرفت کھو بیٹھے جس کی وجہ سے وہ تقریبا زمین پر گر گیا اور مقتولہ صحافی کی آخری رسومات میں بے حرمتی ہوئی۔

پولیس نے جنازے پر ”قوم پرست اشتعال انگیزی“ اور ”پتھر اؤ کرنے“ کا الزام لگا کر اپنی کارروائیوں کا جواز پیش کیا۔ حیرت ہے کہ تابوت کو دونوں ہاتھ سے پکڑے ہوئے لوگ پتھر پھینکنے کے قابل کیسے تھے!

ان جھوٹوں کا پردہ فاش کرنے کیلئے ایک ویڈیو ہی کافی ہے جس میں واضح طور پر سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ دن دیہاڑے، کیمروں کے سامنے پولیس کی ڈھٹائی اور بربریت کی دو حقیقی وضاحتیں ہیں۔

پہلی یہ کہ اسرائیلی ریاست ابو اکلیح کے جنازے کو مشرقی یروشلم کے راستے سے لے جانے کے نتیجے میں عوامی احتجاج کے امکان سے خوفزدہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے ابو اکلیح کی موت کے فوراً بعد اس کے گھر پر چھاپہ مار کر فلسطینی جھنڈوں کو ہٹا دیا اور اس کے گھر کو مزاحمت کا مرکز بننے سے روکنے کی کوشش کی۔

اسرائیلی فورسزجنازے سے پہلے فلسطینی مزاحمت کے کسی بھی امکان کو دبانے کے لیئے سڑکوں پر گشت کرتے رہے، یہاں تک کہ خواتین کو فلسطینی پرچم کے رنگوں والے حجاب اتارنے کی ہدایت بھی کی۔ ان کا تابوت کو گاڑی کے ذریعے لے جانے کامطالبہ (جس کا انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ”خاندان کی خواہشات کے مطابق“ہے) ممکنہ طور پر عوامی مظاہرے کو روکنے کی کوشش تھی۔ آخر کار، ابو اکلیح کا قبرستان تک کا سفر گاڑی کے ذریعے ہی مکمل ہوا جہاں پولیس گاڑی سے فلسطینی جھنڈوں کو پھاڑکر پھینکتی رہی۔

’کیمروں سے مسلح‘

دوسری وجہ وہی ہے جس نے ایک آئی ڈی ایف سنائپر کو اتنا پراعتماد بنا دیا کہ اس نے عرب دنیا کی مقبول ترین صحافی کا قتل کر دیا۔ یعنی اسرائیل کو طاقتور ترین سامراجی ممالک، بالخصوص امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کا خیال ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف کسی بھی قسم کے ظالمانہ جبر کے نتائج سے بچ سکتا ہے۔

اس سنگدلانہ تکبر کا اظہاراسرائیلی فوج کے ترجمان ران کوچاو کی اس بات سے ہوتا ہے جب اس نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی صحافیوں کی ہلاکت کا جواز یہ پیش کیا کہ وہ ”کیمروں سے مسلح“ تھے۔ بظاہر، سچائی کی عکاسی کے لیے بنایا گیا یہ آلہ ایک مہلک ہتھیار ہے جسے اسرائیلی ریاست کی نظر میں ختم ہونا چاہئیے۔ ایک شدید ردعمل کے قابل ہے۔

تاہم، مسلح پولیس کے غیر مسلح سوگواروں پروحشیانہ حملے اورآئی ڈی ایف کے قتل کے شکار کوپرامن تدفین سے انکار کے مناظر، اسرائیل کے ظالمانہ معیارات کے سامنے بھی چونکا دینے والے تھے۔ ان تصاویر نے پوری دنیا کے لوگوں کو مشتعل کر دیا اور اسرائیل کے سب سے پرجوش معذرت خواہوں کو مذمت کے شرمندگی بھرے الفاظ جاری کرنے پر مجبور کر دیا۔

برطانوی لیبر پارٹی کے بلیرائٹ ایم پی ویس اسٹریٹنگ، جو ان واقعات کے وقت اسرائیل کے پی آر ٹور پرتھے، نے پولیس کے اقدامات کو ”خوفناک اور پریشان کن“ قرار دیتے ہوئے تنقید کی۔

اس کے ساتھ لیبر لیڈر کیئر سٹارمر بھی شامل ہوا، جس نے ”اسرائیلی فورسز کے تشدد“ کی مذمت کی اور ابو اکلیح کی موت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا، یاد رہے کے سٹارمر کئی مہینوں سے اسرائیل کے لیے اپنی ”غیر مشروط“ حمایت کا اعلان کر رہا تھا اور پارٹی میں فلسطین کے حامیوں کویہود دشمن قرار دے رہا تھا۔

دریں اثنا، ڈیموکریٹک پرائمری مہم کے دوران اسرائیل کوغیر مشروط امریکی حمایت کا وعدہ کرنے کے بعد صدر جو بائیڈن نے جمعہ کے مناظر کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ مزید برآں، سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ابو اکلیح کے جنازے پر حملے نے انہیں ”گہری پریشانی“ میں ڈال دیا، جب کہ محکمہ خارجہ نے قتل کی ”فوری اور مکمل“ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ان پرجوش ’جمہوری اقدار کے محافظوں‘ کے یہ مذموم بیانات دراصل اپنے اہم اتحادی کی بربریت عالمی سطح پر منظر عام پر آنے کی شرمندگی ظاہر کرتے ہیں۔

گمراہ کن الفاظ

اسرائیلی ریاست نے ابتدائی طور پر ابو اکلیح کے قتل کا الزام فلسطینی بندوق برداروں کی طرف سے ”اندھا دھند فائرنگ“ پر لگایا، اورپھریہ دعوی کیا کہ یہ ”یقین سے کہنا ناممکن ہے“ کہ قصور کس کا تھا، لیکن ابو اکلیح کے قاتل کے بارے میں کوئی بھی شک میں نہیں ہے۔

اس ابہام کو مغربی میڈیانے مدد فراہم کی، جس نے اسرائیل کے قصور کو کم کرنے کے لیے ہر لفظی چال کا استعمال کیا۔

دی گارڈین نے مبہم اور متضاد سرخیاں جاری کیں (”الجزیرہ کا اسرائیلی فورسز پر مغربی کنارے میں صحافی کو قتل کرنے کا الزام“)، فاکس نیوز (”مغربی کنارے میں متنازعہ واقعے کے نتیجے میں الجزیرہ کی صحافی ہلاک“)، ایسوسی ایٹڈ پریس (”الجزیرہ کی صحافی، مغربی کنارے میں اسرائیلی چھاپے کے دوران ہلاک“)، اور نیو یارک ٹائمز (”الجزیرہ صحافی مغربی کنارے میں جھڑپوں کے دوران ہلاک“)۔

آخر الذکر نے ایک سفیدجھوٹ چھاپ دیا کہ الجزیرہ نے اسرائیلی فوج اور فلسطینی بندوق برداروں کے درمیان ”جھڑپوں“ کو بیان کیا، جب کہ حقیقت میں الجزیرہ نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے واضح طور پر (اور درست طریقے سے) اطلاع دی کہ جب ابو اکلیح کا قتل ہوا تو وہاں کوئی فلسطینی بندوق بردار موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے نیویارک ٹائمز کو منہ کی کھانی پڑی اور مجبوراً تصحیح جاری کرنی پڑی۔

ابو اکلیح کے جنازے کی رپورٹنگ بھی کچھ بہتر نہیں تھی، فاکس نیوز نے سرخی چلائی، ”الجزیرہ کی صحافی شیرین ابو اکلیح کا تابوت اٹھائے سوگواروں سے اسرائیلی پولیس کی جھڑپ“، اور برطانیہ میں ڈیلی میل نے لکھا کہ پولیس کی جانب سے ابو اکلیح کے تابوت کو ”دھکا دیا گیا“۔

اس کے برعکس، یوکرینی جنگ میں روس کے تمام جرائم اور مظالم (حقیقی اور مبینہ) کی بغیر کسی ثبوت کے مذمت کی گئی اور انہیں تنازع میں نیٹو کی شمولیت کو جواز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ روس کواقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر، مغربی پریس نے واضح طور پراطلاع دی کہ امریکی فوٹو جرنلسٹ، برینٹ ریناؤڈ کو مارچ میں ارپن میں روسی فوجیوں نے ہلاک کیاتھا۔ دی گارڈین نے کیف ریجن کے پولیس چیف کا ایک بیان چھاپ کر روس پر”یوکرین میں روسی فوجیوں کے مظالم کے بارے میں سچائی دکھانے کی کوشش کرنے والے انٹرنیشنل میڈیا کے صحافیوں کو بے دردی سے قتل کر نے“ کا الزام لگایا۔

یہ واضح ہے کہ ریناؤڈ ایک گاڑی میں تھا اور بظاہر اسائنمنٹ پر نہیں تھا جب وہ مارا گیا، جبکہ ابو اکلیح کھلے عام باہر تھی، اوراس پر واضح طور پر ایک صحافی کا لیبل لگا ہوا تھا۔

ان دو مختلف طرز کی کوریج کی وضاحت اس حقیقت سے کی جا سکتی ہے کہ مغربی حکمران طبقہ یوکرین کی سرزمین پر روس کے ساتھ پراکسی جنگ (اب اس بات کو کھلے عام تسلیم کر رہے ہیں) کو جاری رکھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ نتیجتاً، وہ جنگ کو جواز فراہم کرنے کے لیے امریکہ میں غم و غصے کو ہوا دینے کے لیے ہر موقعے کا استعمال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، انہیں اسرائیل پر پابندیاں لگانے یا فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

یہ دوہرا معیار 2022ء یوروویژن گانے کے مقابلے کے حالیہ فائنل میں بھی واضح تھا۔ روس کو یوکرین پر حملے کی وجہ سے خارج کر دیا گیا، اور یوکرین سمیت مختلف ممالک کی پرفارمنس میں یوکرین کے جھنڈے اور رنگ نمایاں طور پر آویزاں تھے۔ لیکن تل ابیب میں منعقدہونے والے 2019ء کے فائنل میں آئس لینڈکے ہتاری بینڈ کو فلسطینی یکجہتی کے طور پر پرچم آویزاں کرنے پر جرمانہ کیا گیا۔ اس سال، مقابلے کے دوران اسرائیل کو جنگی جرم کا ارتکاب کرنے کے باوجود بھی کسی نتیجے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

پروپیگنڈا اور غلط معلومات

آئی ڈی ایف کے ابو اکلیح کے قتل کے بے پناہ شواہد موجود ہیں۔ اس کے قتل کے وقت اسرائیلی فوجی رینج میں تھے، اس نے ایک بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر واضح طور پر ’پریس‘ کا لیبل لگا ہوا تھا، اس نے حفاظتی ہیلمٹ پہنا ہوا تھا اس لیے اسے کان کے نیچے گولی مار ی گئی-مبینہ طور پر ایم 16 رائفل سے جو اسرائیلی فوج استعمال کرتی ہے۔

اس کا خطے میں ایک معروف شخصیت ہونا اس کے ٹارگٹ اور شعوری طور پر قتل ہونے کے امکان بڑھا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ مبینہ طور پر اسرائیلی فوج ایک اہلکار سے پوچھ گچھ کر رہی ہے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ شوٹر ہے۔

لیکن اسرائیل نے معاملات کو پیچیدہ کرنے کے لیے یہ شکایت کی کہ فلسطینیوں نے ابو اکلیح کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ آیا ان کے کسی آدمی نے اس پر گولی چلائی تھی۔ یہ دلیل مغربی پریس میں واقعہ کے عینی شاہدین کی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے بار باردہرائی گئی۔

مغربی کنارے جہاں ابو اکلیح کو قتل کیا گیا تھا، میں فلسطینیوں کی مرکزی نمائندہ، فلسطینی اتھارٹی، نے کہا کہ اسے غیر جانبدارانہ تحقیقات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے اسرائیل پر بھروسہ نہیں ہے۔

اسرائیل کی جانب سے گمنام فلسطینی بندوق برداروں کو قتل کامورد الزام ٹھہرانے کی مضحکہ خیز کوشش کے پیش نظر یہ شاید ہی غیر معقول بیان ہے۔ یہاں تک کہ اس الزام سے پیچھے ہٹنے کے بعد اسرائیل یہ کہہ کر بچنے کی کوشش کر رہا ہے کہ، ممکن ہے کے گولی زمین یا دیوار سے ہٹ کر ابو اکلیح کو لگ گئی ہو۔

ہمیں یاد ہے کہ جب یوکرینی حکومت نے بوچا پر قبضے کے دوران روس پر جنگی جرائم کے الزامات لگائے تو روسیوں نے تحقیقات کی درخواست کی جس میں کہانی کا اپنا رخ پیش کرنے کی اجازت مانگی۔ اس سے انکار اس بنیاد پر کیا گیا کہ روس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا–لیکن الزامات کی صداقت کی دوبارہ جانچ بھی نہیں کی گئی۔

ابو اکلیح کے قتل اور اس کے جنازے پر ہونے والی بربریت نے دنیا بھر میں غم و غصے کو بھڑکا دیا، ساتھ ہی ہفتے کے آخر میں ’نقبہ‘ (1984ء میں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بڑے پیمانے پر بے دخل کیا گیا) کی 74 ویں برسی کے موقع پرمظاہرے جاری تھے۔

فلسطین (جہاں سب سے بڑا مظاہرہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ہوا) اور اسرائیل (جہاں تل ابیب میں تین فلسطینی طلبہ کو گرفتار کیا گیا) سمیت بین الاقوامی سطح پر یکجہتی کے نمایاں مظاہرے دیکھے گئے۔

مشرق وسطیٰ (بشمول شام، ترکی اور لبنان) میں بڑے مظاہروں سمیت مغرب میں ریلیاں نکالی گئیں، لندن میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ بہت سے لوگوں نے ابو اکلیح کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اوروہ انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے۔

کچھ جگہوں پر ریاست نے مظاہروں کو دبانے کے لیے مداخلت کی۔ مثال کے طور پر برلن میں حکومت نے فلسطینی جھنڈوں کی نمائش اورابو اکلیح کے لیے یکجہتی مارچ پر اس بنیاد پر پابندی لگا دی کہ ان سے یہود دشمن نعروں، دھمکیوں اور تشدد کا ”فوری خطرہ“ لاحق ہو گا!

بالآخر، جرمن پولیس نے برلن میں فلسطین حامی 170 کارکنوں کو ”فلسطین کو آزاد کرو“ کے نعرے لگانے، فلسطینی پرچم اٹھانے اور کیفیہ پہننے جیسے ’جرائم‘ کے لیے حراست میں لے لیا۔

ننگی منافقت

ابو اکلیح کے قتل نے سامراجیوں کی ننگی منافقت کو بے نقاب کردیا ہے۔ جوخود تو خوشی سے جنگی جرائم کا ارتکاب، ان کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں، لیکن اپنے مخالفین کے بالکل ایسے ہی جرائم پر چیخ اٹھتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ابو اکلیح کے قتل کی مذمت کی ہے اور ”آزادانہ تحقیقات“ کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن یہ خالی الفاظ ہیں کیونکہ امریکہ کو اس ادارے کی جانب سے اپنے قریبی اتحادیوں میں سے کسی کو نشانہ بنانے والی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کرنے کا حق حاصل ہے۔

اگر اقوام متحدہ جیسے ’بین الاقوامی اداروں‘ پر سب چھوڑ دیا جائے تو ہم معقول طور پر یہ فرض کر سکتے ہیں کہ اس کیس کو تحقیقات کے بعد ’غیر نتیجہ خیز‘ کانتیجہ نکالنے سے پہلے ہی ختم کر دیا جائے گا۔ یہ ہی سرمایہ دارانہ سامراج کی بنیاد پر ’انصاف‘ ہے۔

ابو اکلیح اور مجموعی طور پر فلسطین کو کبھی بھی ’بین الاقوامی قانون‘کی بنیاد پر انصاف نہیں دیا جائے گا۔ کئی دہائیوں سے ظالم کو مالی امداد اور اسلحہ فراہم کرنے والی حکومتوں اور اداروں کے مگرمچھ کے آنسو اور ہمدردی کے جھوٹے الفاظ فلسطینی عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتے۔

صرف محنت کشوں، نوجوانوں اور پورے خطے کے غریبوں کی متحد انقلابی جدوجہد کے ذریعے ہی فلسطینی عوام کو قبضے اور جبر کے طوق سے آزادی مل سکتی ہے۔

پوری دنیا میں محنت کش طبقے اور اس کی تنظیموں کا فرض ہے کہ وہ آزادی اور باوقار وجود کی اس جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار کریں، جس کی آنے والی نسلوں کے لیے ضمانت صرف مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کی سوشلسٹ فیڈریشن کی صورت میں ہی دی جا سکتی ہے۔

اس جدوجہد کو آگے بڑھانا ہی ابو اکلیح اور تمام فلسطینی شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

Comments are closed.