میں نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کیوں جوائن کی؟

|تحریر: وریشہ خان، لاہور|

میں نے انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی ممبرشپ لینے میں کافی دیر کی تھی، میں کمیونزم کے نظریات کے بارے میں کافی پہلے سے جانتی تھی۔ کیونکہ میرا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے اور میرے خاندان کے کافی ممبر لال سلام تنظیم کے ممبر تھے۔ میرے خاندان کے افراد کے انقلابی پارٹی میں ہونے کی وجہ سے میں نے پانچویں کلاس میں اپنی زندگی کی پہلی کانگرس کی بحثیں بھی سنی تھیں۔ اس وقت کافی چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے مجھے اس کانگریس کی اتنی خاص سمجھ نہیں آئی لیکن وہاں روٹی کپڑا مکان کی نعرے بازی کی گئی اور اس کے بڑے گہرے اثرات مجھ پر پڑے۔

اس کے بعد میں نے کوئی بھی کانگریس نہیں سنی کیونکہ مجھے سیاست میں اتنی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت میرے سامنے آتی گئی۔ گو کہ میں لاہور میں رہتی ہوں لیکن میرا آبائی علاقہ کشمیر ہے جہاں تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع موجود نہیں ہیں۔ ہسپتال کے نام پہ وہاں پہ ایک قصائی خانہ بنایا گیا ہے، تعلیم صرف نام کی ہے۔ روزگار کا دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں سوائے سرمایہ کاری کے، وہ بھی جس کے پاس سرمایہ کاری کرنے کی قیمت موجود ہو۔

میرے اندر تھوڑا سا نیشنلزم بھی موجود تھا اور میں ہمیشہ وہاں کے مسائل کے حل کے بارے میں سوچتی رہتی تھی۔ یہ بھی سوچتی تھی کہ روٹی کپڑا مکان اور دیگر وہ بنیادی ضروریات جو ایک انسان کے اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں اور یہ انسان کو تمام بنیادی ضروریات حاصل ہونی چاہئیں۔ سرمایہ داروں کی ساری سیاسی پارٹیوں سے تنگ آ کر اور ان کے جھوٹے دعوے سننے کے بعد بالآخر 2019ء میں، میں نے دوسری دفعہ کانگرس میں شرکت کی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2019ء میں کامریڈ پارس جان نے خواتین کے سوال پر لیڈ آف دی تھی۔

خواتین کے سوال کی ہمیشہ سے میرے لیے ایک خاص اہمیت رہی ہے اور معاشرے میں خواتین پر ہونے والے مظالم کے مجھ پر بہت گہرے اثرات پڑتے تھے۔ اس لیڈ آف کے بعد خواتین کے مسائل کے حوالے سے جو بھی میرے سوالات تھے وہ حل ہو گئے اور سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے جو بھی خوش فہمیاں تھیں وہ بھی اس کانگریس میں دور ہو گئیں۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ میں نے مستقبل میں لال سلام کا حصہ بننا ہے کیونکہ تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے میں ابھی لال سلام کا ممبر نہیں بننا چاہتی تھی۔

لیکن پھر 2020ء کے شروع میں سندھ میں کم عمر ہندو لڑکی کا ایک سانحہ پیش آیا۔ جس میں چند غنڈے پیسوں کے لین دین کی وجہ سے اس لڑکی کو اٹھا کر لے گئے۔ میرا کزن جس کا تعلق لال سلام سے تھا، میری اس کے ساتھ سندھ والے واقعے پر تفصیلی ڈسکشن ہوئی۔ اس نے مجھے مارکسسٹ ڈاٹ پی کے (Marxist.pk) پر خواتین کے مسائل پر لکھے ہوئے مضامین پڑھنے کا مشورہ دیا اور اپنی پارٹی کا مؤقف سامنے رکھا۔ میں نے خواتین کے مسئلے کے حوالے سے اس ویب سائٹ سے بہت کچھ پڑھا، لیکن وہی بات کہ میں ابھی ممبر شپ میں نہیں آنا چاہتی تھی۔

بالآخر میں اس نظام سے تنگ آ چکی تھی اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے میں نے 2020ء کے وسط میں لال سلام میں باقاعدہ ممبر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی جبکہ اس وقت کرونا چل رہا تھا۔ کرونا وبا کے اندر سرمایہ دارانہ نظام بالکل فیل ہو چکا تھا۔ شمولیت کے بعد جب میں عملی کام میں آئی تو میں نے پہلی دفعہ ایسی تنظیم دیکھی جو عوام کے حقوق کی بات کرتی اور اس کے کارکن عوام کے پاس جا کر سرمایہ دارانہ نظام کہ بحران سے نکلنے کا حل بتاتے۔

اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے تقریباً لوگوں کا کاروبار تباہ ہو چکا تھا اور ہر جگہ مایوسی چھائی ہوئی تھی لیکن ہماری پارٹی اس مایوسی میں بھی اپنے نظریات کے اوپر کوئی سمجھوتہ نہیں کر رہی تھی اور عوام کے پاس جا کر وہ اپنا مؤقف رکھتی رہی۔ مجھے اس پارٹی کی ایک بات بہت خوبصورت لگی کہ یہ نئے آنے والے ساتھیوں کی نظریاتی تربیت پر بہت زور دیتے رہے اور ہفتے میں ایک دفعہ برانچ میٹنگ کے ذریعے نئے آنے والے ساتھیوں کی نظریاتی تربیت کرتے اور ہمیشہ سے وہ کسی نہ کسی کتاب پر سٹڈی سرکل کا پلان بناتے رہتے۔

مجھے یہ سب دیکھ کے بہت خوشی ہوئی کہ آج کے دور میں بھی کوئی ایسی پارٹی موجود ہے جو اپنے ساتھیوں کے بارے میں سوچتی ہے اور اس سے بھی اچھی بات کہ اس میں سب مل کر کام کرتے۔ یہاں پر کوئی بھی لیڈر نہیں تھا اور کوئی بھی کسی پر کام کا بوجھ نہیں ڈال رہا تھا۔ سب مل جل کر کام کر رہے تھے۔ نظریاتی طور پر جو جتنا صحیح طریقے سے سمجھتا اور سیکھتا اسے اتنی ہی اہم ذمہ داری دی جاتی۔ سب سے خوبصورت بات کہ اپنے نظریات کے اوپر کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا گیا اور آج نظریات پر سمجھوتہ نہ کرنے کی وجہ سے ہم 2024ء میں باقاعدہ پارٹی کو لانچ کرنے جا رہے ہیں۔

یہ وہ پارٹی ہے جو مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی ہے اور ایک پُر امن طریقے سے اس نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ اس پارٹی کے پاس اس نظام سے نکلنے کے بعد منصوبہ بندی کے ذریعے اس دنیا سے بے روزگاری ختم کرنے کا حل موجود ہے۔ یہ پارٹی کمیونسٹ نظریات کو ہر گلی، محلے، کھیت، سکولوں، کالجوں، ہسپتالوں، فیکٹریوں تک پہنچا رہی ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی ممبر ہوں اور میں ہر اس شخص کو دعوت دیتی ہوں جو اس نظام سے تنگ ہے۔ جو بھی انقلاب کے لیے لڑنا چاہتا ہے وہ فوری طور پر RCP (Revolutionary Communist Party) کا ممبر بنے اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کو منظم کرے۔

انقلابی پارٹی کا ممبر بننے کے لیے یہاں کلک کریں

Comments are closed.