برطانیہ: ہواؤں کا رخ کوربن کے حق میں، ٹوری کی شکست ممکن ہے!

|تحریر: ڈینئیل مورلے، انعم خان|

2 جون 2017ء

محض چند گھنٹوں کے نوٹس پر ہزاروں لوگ کوربن کے استقبال کے لئے موجود تھے جو کہ بی بی سی 1 کے پروگرام لیڈرز ڈیبیٹ کے لیے کیمبرج پہنچا تھا (وہ بھی وزیراعظم تھیریسا مے کی غیر موجودگی میں)۔ وہ منظر تو کسی راک سٹار کی آمد کی یاد دہانی کرا رہے تھے، یا جیسے کوئی انقلابی ہیرو کئی سالوں کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آرہا ہو۔ ہزاروں لوگوں کے ’’کوربن! کوربن!‘‘ کے نعروں کی گونج میں وہ مباحثے کے لئے مختص ہال میں داخل ہوا۔

(اس کا موازنہ اُن ذلت آمیز آوازوں سے بھی کریں جو کہ ٹوری پارٹی کی جانب سے آنے والی، ایمبررُوڈ کی آمد پر کسی گئیں )

مباحثے کے دوران مجمع عمارت کے باہر ہی موجود ر ہا اور باآوازِ بلند نعرے لگاتا رہا تاکہ بحث کے فریقین اسے سن سکیں، یہ نعرے کوربن کا حوصلہ بڑھانے اور ایمبر (جو کہ ٹوری کا متبادل ہے ) پر دباؤ ڈالنے کے لیے لگائے جا رہے تھے۔

ایک اور اتفاقیہ ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں کوربن کے نعرے لگا ئے جا رہے ہیں، یہ ویڈیو جنوب مشرقی لندن میں واقع لیویشم کے ایک سکول میں منعقد ہونے والی پروم پارٹی کی ہے، جس میں ’پروم کنگ‘نے اپنی تاج پوشی کی تقریر کو یہ کہنے کے لیے استعمال کرتا ہے کہ ’’اگر آپ کوربن کو ووٹ نہیں دیتے، مجھے سمجھ نہیں آتا پھر آپ کر کیا رہے ہو!‘‘۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سکول کا پورا سال کوربن کی حوصلہ افزائی اور حمایت کرتے گزرا ہوگا۔

رائے شماری میں تعصب

برطانیہ میں موجود بائیں بازو کے لوگ اپنی زندگی کے سب سے دلچسپ اور حوصلہ افزاء الیکشنز کا تجربہ کررہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ واقعات و حالات کا رخ لیبر پارٹی کے لئے سازگار ہے۔ یہ روز کا معمول بنتا جا رہا ہے کہ بائیں بازو کے لوگ ہر روز انتہائی مسرت سے تازہ رائے شماری کا موازنہ کرتے ہیں، اس اعتماد کے ساتھ کہ اس میں لیبر پارٹی کو مزیدکتنی حمایت ملی ہوگی، جو کہ ہر دن پوائنٹس میں ٹوری پارٹی کے قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے حلقوں میں اعتماد بڑھ رہا ہے۔

بہر حال کچھ لوگوں نے اس پر غور کیا ہوگا کہ ان رائے شماریوں میں ایک بڑا فرق موجود ہے، حالانکہ سبھی رائے شماریاں ہی مہم میں لیبر کی مسلسل بڑھوتری کا عندیہ دے رہی ہیں۔ جیسا کہ گارڈین کی ICM رائے شماری ہے، جو کہ دس فیصدی پوائنٹس کا کافی بڑا فرق بتا رہی ہے۔ گارڈین تو خاص طور پر کوربن کے گرد بننے والی امیدوں کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے، کیونکہ یہ بمشکل ہی رائے شماری کا مثبت پہلو سامنے لاتا ہے، حالانکہ یہ ٹوریز کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ درحقیقت، یہ چاہتے ہیں کہ لیبر پارٹی اچھی کارکردگی نہ دکھائے تاکہ کوربن کو باہر کیا جا سکے۔

رائے شماریوں کا فرق، گزشتہ الیکشنوں کے مقابلے میں کافی بڑا ہے، کیونکہ کوربن کی مہم نے اسے عوامی تحریک میں بدل کر رکھ دیا ہے، خاص کر نوجوانوں کے سلسلے میں ۔ سفر کی رفتار بہت زیادہ ہے اور رائے شماریاں، خاص کر ICM کی بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ درحقیقتICM کی جو تازہ رائے شماری کل گارڈین نے شائع کی ہے، اس میں پوائنٹس کا فرق بہت زیادہ ہے، یہ رائے شماری سکائی نیوز پر نشر ہونے والے تھریسا مے اور کوربن کے مشترکہ انٹرویو کے بعد اورگزشتہ شب بی بی سی پر ہونے والے مباحثے سے پہلے کی گئی تھی، سو یہ پہلے ہی پرانی ہو چکی ہے۔

رائے شماریاں گمراہ کن ہیں کیونکہ یہ محض دکھاوا کرتی ہیں کہ ہم براہ راست اور بغیر کسی تعصب کے بتاتے ہیں کہ کتنے لوگ کس پارٹی کی حمایت کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ رائے شماریوں کو نتائج کے مخصوص مفروضوں کی بنیاد پر ترتیب دیتی ہیں۔ ایسی بہت ساری ہیں، خاص کر ICM ،جو کہ نوجوانوں کے حصے کو کم بتا رہی ہے، اس کے مطابق صرف45% نوجوان ووٹ دیں گے، جبکہ 80% نوجوان کہہ رہے ہیں کہ وہ لازمی ووٹ دیں گے۔ جیسا کہ پولسٹر زComRes وضاحت کرتا ہے:

’’ موجودہ صورتحال میں 18-24 سال کے ساٹھ فیصد سے زائد نوجوان کہہ رہے ہیں کہ وہ ’یقینی طور پر‘ ووٹ دیں گے، جبکہ 2015ء میں یہ تعداد محض 44% تھی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نوجوانوں کی ووٹ کرنے کی خواہش کو بڑھا چڑھاکر پیش کرنے سے لیبر پارٹی کے ووٹوں کے حصے کی مبالغہ آرائی کرنا کتنا آسان ہے۔ اگر نوجوانوں نے ویسا ہی رویہ اپنایا جیسا کہ 2015 ء میں اپنایا تھا یا جیسا کہ اس سے بھی پہلے اپنایا تھا ۔‘‘

دوسرے لفظوں میں پولسٹرز ایک مخصوص میکانکی اور تنگ نظر ’’سائنسی‘‘ زاویے کا شکار ہے۔’’پچھلی مرتبہ کم نوجوانوں نے ووٹ دیے تھے، ہمارے پاس بس یہی ایک ٹھوس دلیل ہے ، اسی لیے ہمارا اندازہ ہے کہ اس بار بھی ویسا ہی ہوگا۔ ‘‘

لیکن یہ 2015 ء نہیں ہے، معاشرہ ایک پیچیدہ شے ہے۔ نوجوانوں کے مستقبل کو فوری طور پر بدلنے والی واضح اور ٹھوس پالیسیوں کے ساتھ کوربن ایک عوامی تحریک کی قیادت کر رہا ہے، اور نوجوان یہ جانتے ہیں، جیسا کہ اوپر والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہم نتائج کی پیش بینی تو نہیں کر سکتے لیکن دیگر رائے شماریاں جیسا کہYouGov نے ایک مرتبہ تو محض تین پوائنٹس کا فیصدی فرق بتایا، جو کہ حقائق پر مبنی اندازہ ہے جس کامطلب نوجوانوں کا زیادہ ٹرن آؤٹ ہے جس کا فائدہ لیبر کو ہوگا۔Huffington پوسٹ نے آسانی کے لیے ایک ٹیبل مہیا کیا ہے جس میں ردوبدل ہونے کے بعد دونوں پولز کا فرق بتایا گیا ہے۔

مے کاغیر متاثر کن پیغام

اس ہفتے ہونے والا لیڈرز کا مباحثہ خود کوربن کے نقطہ نظر سے کچھ خاص اہمیت کا حامل نہیں تھا، جب سات لوگ بحث کر رہے ہوں تو بہت کچھ کہہ پانا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اس سے جو چیز واضح ہوئی وہ ٹوریز کی تضحیک تھی۔

تھریسا مے کا شریک نہ ہونا، اپنے آپ میں ایک انتہائی منفی تاثر تھا اور جس نے اسے اپنی عمومی کارکردگی سمیت ایک مضحکہ خیز شخص بنا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن یہ کوئی شخصی حادثہ نہیں ہے بلکہ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ کنزرویٹوز کا مقصد محنت کشوں پر حملے کرنا ہے تاکہ برطانوی سرمایہ داری کے منافعے بحال کیے جا سکیں۔ کیونکہ ان کے پاس دینے کے لیے کوئی مثبت چیزہے ہی نہیں۔

تمام بحث کے دوران ہم سب کے لیے کنزرویٹوز کا نقطہ نظر ان کی نمائندہ ایمبر روڈ کی مخصوص لائن میں بس یہی تھا کہ یہاں ’’پیسوں کا کوئی جادوئی درخت نہیں ہے‘‘ اور ہم سب کو ’’اپنے جیب کے حساب سے رہنا چاہیے‘‘۔ کافی متاثر کن ہے۔ اصل میں کوربن کو یہاں ایک خاص طریقہ استعمال کرنا چاہیے تھا اور گرینز کی کیرولین لوکس کی طرح جارحانہ انداز اپناتے ہوئے یہ کہنا چاہیے تھا کہ ’’ یہاں پیسے بہت زیادہ موجود ہیں لیکن وہ غلط ہاتھوں میں ہیں،سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہیں اور ہم ان سے چھیننے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔
انڈیپنڈنٹ اخبار کی ایک سرخی کا دعویٰ ہے کہ تھریسا مے، ایک بار پھر اپنا طریقہ کار بدلنے لگی ہے۔ وہ کاربن پر کوئی ذاتی حملہ نہیں کرے گی(صرف ایک دن پہلے ہی اس نے کہا کہ کوربن کوآپ میرے سامنے برہنہ کھڑا کریں )، لیکن اب وہ بریگزٹ کے بارے میں مثبت سوچے گی۔ بظاہر تو برگزٹ کا مطلب متحد اور آگے کی سوچ رکھنے والا جدید برطانیہ کا متاثر کن زاویہ نظر ہے!

بے معنویت پر مبنی اس دعوے سے اس پُر پیچ کیفیت کا اندازہ ہوتا کہ جس کا شکار ٹوریز ہو چکے ہیں، وہ محض مے کی شخصیت کی وجہ سے ناقص کارکردگی نہیں دکھا رہے، بلکہ جس مظہر کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، اس میں کچھ بھی مثبت اور متاثر کن ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ گندگی کو پالش نہیں کر سکتے، آپ یہ دکھاوا نہیں کر سکتے کہ بریگزٹ کا مطلب لوگوں کو ایک ساتھ لانا تھا۔
اس کے برعکس لیبر کا مثبت، واضح اور بائیں بازو کا مینی فیسٹو اسے اس قابل بناتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کے سلگتے ہوئے مسائل کا جواب دے سکے، اسی وجہ سے اس کے لیے مثبت اور پسندیدہ نظر آنا آسان ہے۔

ناقابل یقین

لیبر اور کوربن کے پیچھے معاشرے کی تمام زندہ قوتیں موجود ہیں۔ ٹوریز بمشکل ہی اپنی ریلیوں میں تھوڑے بہت لوگ اکٹھا کر پاتے ہیں، جبکہ کوربن چند گھنٹے پہلے نوٹس دیتا ہے اور ہزاروں چہکتے ہوئے مداح پہنچ جاتے ہیں۔ ٹوریز کی حمایت بھی یقیناًوجود رکھتی ہے لیکن یہ غیر متحرک، پسماندہ اور خوف زدہ پرتوں میں ہے۔

یہ سب کچھ جس طرح سے ہوتا چلا گیا، وہ ناقابل یقین ہے۔ کوربن کی پہلی انتخابی مہم کے دن سے ہی، اسے باہر سے آیا ہوا، بے امید اور منتخب نہ ہو سکنے والا کہا جا رہا تھا۔ بلیرائٹس کی یہ باتیں اب انہیں ڈرا نے والی ہیں۔ عوام کے سامنے انتہائی گھٹیا اور غیر جمہوری انداز میں غداری کرتے ہوئے، یہ کوربن پر مسلسل حملے کرتے اور اسے کم ترثابت کرنے میں انہوں نے اپنی ساری طاقت لگا دی، یہ جتاتے ہوئے کہ ان کا ہونا ہی پارٹی کے لیے سب کچھ ہے۔ اس سوال پر انہوں نے اپنی عزت خطرے میں ڈال لی ہے۔ اور اب تمام تر نقصان پہنچانے کے بعد، یہ مکمل طور پرٖغلط ثابت ہو رہے ہیں۔ لیبر کے زیادہ تر ممبران کے ذہنوں میں ا ب یہ سوال ابھر ے گا کہ ’’کیا ہوتا اگرہم دو سال پہلے ہی پارٹی کو کوربن کی قیادت میں منظم کر لیتے، ہم اسے مزید بائیں جانب جھکنے، زیادہ جرات مند ہونے اور زیادہ مضبوط ہونے کی آ زادی دے دیتے؟ تو ہم اب کس پوزیشن میں ہوتے ؟

ہنگ پارلیمنٹ

کچھ دن پہلے YouGov نے، ہرامیدوارکے حلقے پر مبنی ماڈل شائع کیاہے جس میں دکھایا گیا کہ دونوں پارٹیاں کتنی سیٹیں جیتیں گی۔ ان الیکشنوں کے لیے یہ اپنی طرز کا پہلا خاکہ ہے۔ قدرتی طور پر ’’فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ ‘‘نظام کے ذریعے سیٹوں کی پیش گوئی کرنا واقعاتاً ناممکن ہے، اسی لیے اس کے نتائج کسی طور بھی پیش گوئی پر مبنی نہیں ہیں۔ لیکن یہ لیبر کی بڑھتی ہوئی حمایت کے پیش نظر ، یہ ضرور دکھاتا ہے کہ ایک ہنگ پارلیمنٹ کے بننے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایک دھماکہ خیز ترکیب ہے۔

اس ماڈل کے تحت اگر لیبر پارٹی SNP،Plaid Cymru اور گرینز کے ووٹ لینے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ پارلیمنٹ میں ٹوریز سے آگے نکل جائے گی۔ اس کے بدلے میں SNPایک اور ریفرنڈم کرانے کے مطالبے کی ضمانت لے گی اور لیبر پارٹی کو یہ دینا پڑے گی۔ اس سے لیبر کی اقلیتی حکومت بننے کا امکان ابھر ے گا۔ اور یہ بھی امید کی جا رہی ہے کہ اگلے ہفتے لیبر کی حمایت میں کوئی اضافہ نہیں ہونے والا، خاص کر تھریسا مے کی لیڈرزمباحثے میں قابل تحقیر عدم موجودگی کو لے کر۔

اس صورت میں لیبر پارٹی کا دائیاں بازو کیا کردار اداکرے گا؟ وہ ہر حال میں ایسی کسی کیفیت کو بننے سے روکنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہوں گے۔ خاص کر اس بات کولے کر کہ SNP کیساتھ کوئی معاہدہ نہ ہو، یا پھر ایسی حکومت شاید بننے تو دیں لیکن اندر سے اسے مسلسل ضربیں لگاتے رہیں کہ جس سے مینی فیسٹو کی حاصلات ناممکن ہوجائیں۔

ایسے پارلیمانی الحاق سے لیبر کی SNP سے سپلٹ کی راہ بھی ہموا ر ہوسکتی ہے، کیونکہ SNPکے دائیں بازوکولیبر پارٹی کی کٹوتیوں کی مخالفت اور نیشنلائیزشن کے لیے بننے والی پالیسیوں کا حصہ بن کرزیادہ خوشی نہیں ہوگی۔ لیکن ا س کی بائیں بازو کی بنیاد بڑی گرم جوشی سے اس طرح کے پروگرام کی حمایت کرے گی۔

آگے بڑھ کر حملہ کرو!

خیر، اس کا امکان موجود ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، لیکن حقیقت میں ایسا ہو بھی سکتا ہے کیونکہ بائیں بازو کے نظریات پر مبنی ایسے مینی فیسٹو کے اثرات کا اندازہ ہم لگا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کئی بار دلیل دی ہے کہ لیبر کو معاشرے اور محنت کشوں کی زندگیوں کو بدلنے کے لیے ایک سوشلسٹ پروگرام کے لیے لڑ کر جیت سکتی ہے اور اسے ایسا کرنا بھی چاہیے۔

برطانیہ کو بدلنے کے لیے اس مینی فیسٹو میں انقلابی سوشلسٹ پروگرام کی کمی ہے اور اگر اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی گئی تو حکمران طبقہ اس کو برباد کرنے کے در پے ہو جائے گا۔ لیکن یہ اس کی محض ایک جھلک ہے جو ہوسکتا ہے اور ہونا چاہیے، اور یہ بڑے عوامی انداز میں ثابت کرتا ہے کہ سوشلسٹ نظریات مقبول ہیں اور ان کی بنیاد پر الیکشن بھی جیتا جا سکتا ہے۔

اب کیونکہ بڑی تیز ہوا ہمارے بادبانوں میں موجود ہے، کوربن کو جارحانہ انداز اپنانا چاہیے۔ لیبر کے لیے محض الیکشن جیتنا کافی نہیں رہے گا، انہیں اپنے بائیں بازو کے نظریات پر مبنی مینی فیسٹو پر عمل درآمد بھی کرنا ہوگا اور ایسا کرتے انہیں سرمایہ داری کی طرف سے بے تحاشا رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جو اپنی پوری طاقت سے اس کی مخالفت کرے گی۔

کوربن کو اس بربادی کے لیے تیار ہوتے ہوئے اپنی عوامی بنیادوں کو متحرک کرنا چاہیے، محض الیکشن جیتنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے مینی فیسٹو پر عمل در آمد کروانے کے لیے۔ اسے اس قسم کی مخالفت اور ان دُکھڑوں کا جواب نیشنلائیزیشن کی دھمکی سے دینا ہوگا کہ یہاں پیسہ نہیں ہے‘‘، یا پھر کاروبار ملک سے چلے جائیں گے‘‘۔ اسے یہ وضاحت کرنا ہوگی کہ یہ ارب پتی سرمایہ دار کافی لمبے عرصے سے ہمارا استحصال کررہے ہیں اور انہیں ہمارے مستقبل کا مزید تعین کرنے کا حق نہیں دینا چاہیے۔
کاربن کی فتح معاشرے کی سوشلسٹ تبدیلی کو وقت کا سب اہم تقاضا بنا دے گی۔

Comments are closed.