بلوچستان میں معصوم محنت کشوں کے قابلِ مذمت قتل عام کا ذمہ دار کون؟

|تحریر: زلمی پاسون|

بلوچستان کے ضلع گوادر میں 9 مئی 2024ء کی رات نامعلوم مسلح افراد نے سربندر کے علاقے میں فش ہاربر جیٹی کے قریب رہائشی کوارٹر پر حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 7 افراد موقع پر ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوگیا۔

پولیس نے بتایا کہ لاشیں اور زخمی افراد کو گوادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) گوادر نے بتایا کہ گوادر فش ہاربر جیٹی کے قریب رہائشی مکان پر حملہ رات 3 بجے کیا گیا۔ یہ واقعہ (کراچی کی جانب جانے والی کوسٹل ہائی وے کی طرف واقع) گوادر شہر سے 25 کلو میٹر دور پیش آیا۔ ہلاک و زخمی افراد کا تعلق پنجاب کے ضلع خانیوال (کبیر والا) سے بتایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ان ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا اور یہ گوادر میں حجام کا کام کرتے تھے۔

13 اپریل کو بلوچستان کے ضلع نوشکی کے شہر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تقریباً 10 سے 12 مسلح افراد نے نوشکی کے قریب سلطان چڑھائی کے قریب کوئٹہ تفتان ہائی وے N-40 کی ناکہ بندی کی اور ایک بس سے نو مسافروں کو اغوا کر لیا۔ مسلح افراد نے تفتان جانے والی بس سے مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے اور انہیں اغوا کر لیا۔ بعد میں انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اغوا کیے گئے مسافروں کی لاشیں ڈیڑھ گھنٹے کے بعد قریبی پل کے نیچے سے ملی تھیں۔ ہلاک ہونے والے نو متاثرین کا تعلق پنجاب سے تھا۔ شناختی دستاویزات کے مطابق ہلاک شدگان کا تعلق وزیر آباد، منڈی بہاؤالدین اور گوجرانوالہ سے تھا۔

مصدقہ اطلاعات اور شواہد کے مطابق قتل شدہ نو افراد، جنہوں نے بہتر زندگی گزارنے کے لیے یورپ پہنچنے کا ارادہ کیا تھا، بلوچستان میں ہفتے کی صبح ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مسلح افراد نے انہیں ان کی نسل کی بنیاد پر تفتان جانے والی بس سے اغوا کیا اور ان کی لاشیں نوشکی کے پہاڑی علاقے میں ایک پل کے نیچے پھینک دیں۔

ممکنہ طور پر انہی بندوق برداروں کے اسی طرح کے حملے میں کوئٹہ-نوشکی شاہراہ N-40 پر حملہ آوروں کی طرف سے لگائے گئے محاصرے سے فرار ہونے کی کوشش کے بعد مزید دو افراد ہلاک ہو گئے۔

گزشتہ سال 15 اکتوبر کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے ہیڈ کوارٹر تربت شہر میں دو واقعات کی آڑ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے دس مزدور مارے گئے تھے۔ چھ مزدوروں کے قتل کی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ ریاستی آلہ کار تھے۔ مگر اب تک آزادی پسند مسلح تنظیم کی جانب سے اُن پر لگے الزامات کے شواہد منظرعام پر نہیں آئے ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے بے شمار واقعات ہوئے ہیں جن میں مسلح آزادی پسندوں کی جانب سے یہی الزام لگا کر غیر مقامی محنت کشوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔

دوسرا واقعہ تربت شہر کے پولیس تھانے میں پیش آیا، جہاں ایک پولیس اہلکار سمیت چار مزدور مارے گئے۔ مگر اُن کے حوالے سے بھی الزامات کے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ صادق آباد اور مظفر گڑھ کے دیہاتوں سے تعلق رکھنے والا ان پڑھ غریب مزدور کیسے ریاستی مخبر ہوسکتا ہے؟ کیا اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب دے سکتا ہے؟

گو کہ ان تمام تر واقعات کے رونما ہونے کا ذمہ دار بلاواسطہ ریاست اور ریاستی جبر ہے۔ غیر پیداواری یا با الفاظ دیگر دفاعی بجٹ اس وقت پاکستان کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ ہوتا ہے مگر ان تمام تر بجٹ اور دیگر کاروباری ذریعے سے پیسے کمانے کے باوجود یہاں پر عام محنت کشوں کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے جن کے تمام تر واقعات کی ذمہ داری ریاستی سیکورٹی اداروں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ ایک طرف سیکورٹی اداروں کی بے تحاشہ موجودگی، فوجی آپریشنز اور جبری گمشدگی معمول بنتا جا رہا ہے، دوسری جانب یہاں پر ریاستی پشت پناہی میں ڈیتھ سکواڈز جوکہ پچھلے 20 سالوں سے یہاں پر سرگرم عمل ہیں، کے ذریعے بھی بلوچ نوجوانوں اور محنت کشوں کو نہ صرف جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ اسی ڈیتھ سکواڈ کے نمائندگان کو صوبائی اسمبلیوں تک پہنچانے اور انہیں گدی نشین بنانے میں بھی ریاست ہی ذمہ دار ہے۔

پچھلے 76 سالوں سے بلوچستان کو جس سامراجی قبضے کے اندر رکھا گیا ہے، یہاں کے وسائل کی بے دردی سے نہ صرف لوٹ مار کی جا رہی ہے بلکہ یہاں کے لوگوں سے زندگی کا حق بھی چھینا جا چکا ہے۔ یہاں پر عام بلوچ محنت کش عوام کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے علاج، تعلیم اور دیگر انفراسٹرکچر تو بہت دور کی بات ہے۔ دوسری جانب ریاستی جبر میں بھی شدید تیزی آ رہی ہے۔ اس ضمن میں کسی بھی جبر اور بربریت کے خلاف لڑنے کا جذبہ فطری ہوتا ہے مگر اس جذبے کو جدید اور سائنسی نظریات کے ساتھ جوڑنا وقت کی ضرورت ہوتی ہے جس پر ہم آگے جا کر بات کریں گے۔

جس طرح ہم ریاستی جبر اور بلوچ قوم پر ہونے والے قومی جبر کی غیر مشروط مذمت کرتے ہیں اسی طرح اپنے طبقے پر جبر اور اُن کے قتلِ عام کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ اپنی محنت بیچنے والے معصوم محنت کشوں کا قتل عام 70ء کی دہائی میں مسلح آزادی پسند تنظیموں کا شیوہ نہیں تھا، اب ایسا کیا ہوا کہ وہ اس سافٹ ٹارگٹ کو اپنا نشانہ بناتے ہیں؟ کیا اس پر کبھی مسلح آزادی پسند تنظیموں نے سوچا ہے؟

ریاستی جبر کی آڑ لے کر اگر معصوم محنت کش مارنا ریاستی جبر کو کم کر سکتا ہے تو یہ محض مسلح جہدکاروں کی خام خیالی اور فرسٹریشن کا واضح اظہار ہے۔ ہم اُن تمام آزادی پسندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنی آزادی کے لیے معصوم محنت کشوں کا قتل عام نہ کریں۔ کیونکہ اس طرح سے آزادی کی جنگ کی حمایت میں اضافے کی بجائے کمی آنا ایک فطری عمل ہے۔

دوسری جانب گزشتہ سال کے آخر میں بالاچ بلوچ کے ریاستی قتل کے خلاف ”بلوچ لانگ مارچ“ کے نام سے ایک عوامی تحریک کا آغاز ہوا، اور اس تحریک کے جتنے بھے مطالبات تھے وہ ریاستی جبر کے نتیجے میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، جبری گمشدگی کے خاتمے اور ریاستی جبر کے خاتمے پر مشتمل تھے۔ اس تحریک نے بلوچستان، اندرونِ سندھ، کراچی، پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب کی بلوچ آبادی اور خیبرپختونخواہ میں انتہائی پذیرائی حاصل کرتے ہوئے اسلام آباد کا رُخ کیا۔ اسلام آباد میں قیام کے دوران ریاست نے شروع میں جبر کا راستہ اپنایا مگر پورے پاکستان بالخصوص پنجاب کے محنت کش عوام کی جانب سے ملنے والی ہمدردی اور حمایت کی وجہ سے ریاست گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی۔

اس عوامی تحریک کے حوالے سے ہم نے شروع میں ہی یہ وضاحت کی تھی کہ بظاہر اگر یہ عوامی تحریک اپنے مطالبات کو حاصل کرنے میں ناکام بھی ہو لیکن اس تحریک نے بلوچ سماج کے اندر ایک اہم بحث کا آغاز کیا۔ اس احتجاجی تحریک کی بدولت مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کی بجائے بلوچ عوام سیاسی عمل کا حصہ بنی۔ بالخصوص 27 جنوری کو کوئٹہ شہر میں ہونے والے عوامی احتجاجی جلسے نے اس عوامی تحریک کی عوام میں مقبولیت کو مزید دوام بخشا۔ اس تحریک کی عوامی سطح پر مقبولیت نے ان تمام تر سٹیک ہولڈرز کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی جو کہ یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ بلوچستان میں صرف اور صرف ریاستی جبر کے خلاف مسلح جدوجہد ہی راہ نجات ہے۔ جبکہ اپنے طریقہ کار کو اور وجود کو درست ثابت کرنے کے لیے مچھ، گوادر اور تربت جیسے واقعات کا سہارا لینا پڑا۔

اس وقت بلوچ سماج میں عوامی جدوجہد کے حوالے سے ایک بہت بڑی حمایت موجود ہے، مگر اس عوامی حمایت کو ایک درست لائن آف ایکشن دینے کی ضرورت ہے اور اس وقت تحریک کی قیادت کے پاس اس کا شدید فقدان نظر آ رہا ہے۔ بالخصوص اگر سانحہ نوشکی کے ضمن میں بات کی جائے تو 27 جنوری کو کوئٹہ شہر میں ہونے والے احتجاجی جلسے میں بلوچ عوامی تحریک کی قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ بلوچستان میں ہونے والے بے گناہ و معصوم مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتی۔ اس طرح کے واقعات کے رونما ہونے کے نتیجے میں پاکستان سمیت پورے پنجاب کے محنت کش عوام کی ملنے والی ہمدردی اور حمایت پر کوئی زک نہیں لگتی۔ دوسری جانب بلوچستان میں ہونے والے اس طرح کے واقعات کے سلسلے میں کوئی واضح موقف بھی اپنایا جاتا تاکہ بلوچ سماج میں غیر مقامی محنت کشوں کے حوالے سے جو ابہام پایا جاتا ہے وہ بھی دور ہو۔

سانحہ نوشکی کے بعد پاکستان بھر کے محنت کش عوام سے ملنے والی ہمدردی اور حمایت کو کاٹنے کے لیے ریاست اس واقعے کو بطور ایک اوزار استعمال کرنے میں کبھی بھی نہیں ہچکچائی۔ کیونکہ ریاست کو اس وقت بلوچ عوامی تحریک کے ساتھ پنجاب سے ملنے والی ہمدردی اور حمایت پر بہت زیادہ تشویش تھا اور ہے۔ اس حمایت کو کم کرنے کے لیے ریاست نے بلوچ لانگ مارچ کے دوران بھی مزدوروں کے قتل کے مسئلہ کو بہت زیادہ اٹھایا تھا مگر تحریک کے دباؤ کی وجہ سے ان سوالات کو زیادہ کوریج نہیں ملی۔ اب مسلسل یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں جس کی بروقت ایک واضح لائن آف ایکشن کے ساتھ مذمت کرنے سے موجودہ حمایت گھٹنے کی بجائے کم از کم جاری رہ سکتی ہے۔

سانحہ نوشکی کے بعد پورے بلوچستان میں قومی شاہراہوں پر دوبارہ (ایف سی) کی چیک پوسٹوں کو بحال کرنے اور سواری بسوں کی سخت سرویلنس کرنے جیسے اقدامات کا دوبارہ آغاز کیا گیا ہے جبکہ جبری گمشدگیوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہونے لگا ہے۔ گزشتہ ایک مہینے میں کم از کم 40 کے قریب مختلف افراد کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پورے بلوچستان کے اندر فوجی آپریشنز معمول بنتا جا رہا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی کا کوئی بھی راستہ بے گناہ و معصوم محنت کشوں کے خون سے ہو کر نہیں گزرتا، بلکہ اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے سے ہی آزادی مل سکتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آزادی کا کوئی بھی راستہ بے گناہ و معصوم محنت کشوں کے خون سے ہو کر نہیں گزرتا، بلکہ اس ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے سے ہی آزادی مل سکتی ہے۔ لہٰذا ہم بلوچ حریت پسند مسلح گروہوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بے گناہ اور معصوم محنت کشوں کو مارنے کا سلسلہ ترک کریں۔ کیونکہ اس طرح کے واقعات سے ایک طرف اگر ریاست کو مزید جبر کرنے کا موقع ملتا ہے تو دوسری جانب اس وقت بلوچ سماج میں موجود ریاستی جبر کے خلاف عوامی تحریک کے ساتھ پنجاب کے محنت کش طبقے کی حمایت کم ہو سکتی ہے۔

عالمی طور پر اگر ہم قومی جبر اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد دیکھیں تو اس میں جابر اقوام کے محنت کش طبقے کی جانب سے مظلوم اقوام کو ملنے والی حمایت سے حکمران طبقے کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے اور قومی جبر کے شکار عوام کو حوصلہ ملتا ہے۔ اس کی واضح مثال اس وقت فلسطین پر جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں امریکہ سمیت پورے یورپ کی یونیورسٹیوں اور محنت کشوں میں جو یکجہتی اور حمایت مل رہی ہے اس سے حکمرانوں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ حتیٰ کہ امریکہ اور یورپ کی سیاست ہی تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔

اسی طرح بلوچ قومی سوال پر بھی ہمیں پاکستان سمیت دنیا بھر کے محنت کش طبقے کی حمایت درکار ہے۔ مگر اس حمایت کو حاصل کرنے اور مزید ان کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ہمیں درست نظریات پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ نظریات مارکسزم کے ہی نظریات ہیں۔ کیونکہ قوم پرستی کے فرسودہ نظریات سرمایہ دارانہ نظام کے ہی نظریات ہیں اور نظام کی زوال پذیری کے ساتھ قوم پرستی کے نظریات بھی اب متروک ہو چکے ہیں۔ آج قوم پرستی کے نظریات لوگوں کو جوڑنے کی بجائے تقسیم کر رہے ہیں۔ مظلوم و محکوم عوام کو جوڑنے کے لیے مارکسزم کے نظریات ہی وہ جدید اور سائنسی نظریات ہیں جو کہ تمام تر مصنوعی و تعصبی لکیروں سے بالاتر ہو کر محنت کش طبقے یا مظلوم و محکوم عوام کو طبقاتی لائن آف ایکشن کی بنیاد پر جوڑ سکتے ہیں۔ مارکسزم کے نظریات نہ صرف مظلوم و محکوم عوام کو اپنے دشمن کا واضح پتہ بتاتے ہیں بلکہ دشمن کے خلاف لڑنے کے لیے اپنی صفوں کو جدید اور سائنسی نظریات کی بنیاد پر ان تمام تر مروجہ اور ممکنہ تحریکوں کو منظم بھی کرتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی کونے میں مارکسزم کے درست نظریات پر عملی جدوجہد کرنے والا کوئی انقلابی متبادل موجود ہے؟ تو اس سوال کا جواب ”ہاں“ ہے۔

اس وقت ہم پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں انقلابی کمیونسٹ پارٹیاں بنا چکے ہیں، اور پاکستان میں بھی بننے جارہی ہے۔ یہ تمام پارٹیاں ”انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل“ کا حصہ ہوں گی جس کی بنیاد ہم جون کے مہینے میں رکھنے جا رہے ہیں۔ اس انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کے نظریات ہی ہمیں وہ طاقت اور توانائی بخشتے ہیں جس کی بنیاد پر ہم سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہوگا تو یہاں پر قومی جبر، معاشی جبر، استحصال، مذہبی جبر، صنفی جبر، سمیت جبر کی دیگر تمام اقسام کا مکمل طور پر خاتمہ ہوگا اور صحیح بنیادوں پر ایک صحت مند انسانی سماج کی تعمیر ممکن ہوگی۔

لہٰذا جن کے دلوں میں اس جبر کے خلاف لڑنے کی ذرا بھی چاہت موجود ہے وہ آئیں اور ہماری صفوں میں شامل ہو کر اپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے اس دوزخ نما سیارے کو جنت میں تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کو مزید تیز کریں!

قومی جبر مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد!
سامراجیت مردہ باد!
سوشلسٹ انقلاب زندہ باد!

Comments are closed.