کشمیر: عوام کی انقلابی بغاوت کا آغاز!

|تحریر: یاسر ارشاد|

 

نام نہاد آزاد کشمیر کے تین میں سے دو، پونچھ اور میرپور (مظفرآباد ڈویژن میں اسی نوعیت کی ہڑتال 31 اگست کو ہو چکی ہے) ڈویژن کے سات اضلاع میں آج 5 ستمبر کو عوامی ایکشن کمیٹیز، انجمن تاجران اور ٹرانسپوٹرزکی مشترکہ کال پر کشمیر کی تاریخ کی پہلی اور سب سے بڑی عام ہڑتال کی گئی جس میں دیہی اور شہری مراکز میں احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی مجموعی تعداد کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو یہ شائد ایک لاکھ کے قریب قریب یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

ہڑتال کا پھیلاؤ اور محنت کش عوام اور نوجوانوں کی اس ہڑتال میں سرگرم شمولیت اس قدر وسیع تھی کہ اگرچہ خدمات کے شعبے سے تعلق رکھنے والی محنت کش طبقے کی تنظیموں نے باقاعدہ طور پر اس ہڑتال کی حمایت کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن مکمل طور پر پہیہ جام ہونے کی وجہ سے تقریباً سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، سرکاری دفاتر اور حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی کہیں کہیں مکمل اور بعض جگہوں پر جزوی ہڑتال کا ہی سماں رہا۔

آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف چار ماہ قبل راولاکوٹ سے شروع ہونے والی یہ احتجاجی تحریک آج کی عام ہڑتال کے ساتھ ایک عوامی انقلابی بغاوت میں تبدیل ہو گئی ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے دیہی مرکز سے لے کر بڑے بازاروں اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں لوگ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں احتجاجی ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کے ذریعے آٹے اور دیگر اشیائے خوردونوش پر سبسڈی، بجلی کی بلا تعطل اور مفت فراہمی جیسے مطالبات کی مانگ کر رہے ہیں۔

ان عوامی اجتماعات میں شریک عوام اور نوجوانوں کا صرف جوش و خروش ہی قابل دید نہیں بلکہ ان کا بلند سیاسی وشعوری معیار بھی قابل تعریف ہے۔ ہڑتال کی تیاریوں کے دوران ہر چھوٹے بازار کے گرد و نواح میں موجود دیہاتوں کی عوام نے مکمل پہیہ جام کرنے کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہوئے ان بازاروں میں بڑے احتجاجی مظاہرے اور جلسے منعقد کرنے کی زبردست منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ اسی طرح ضلعی مراکز میں زیادہ بڑے اور ہزاروں لوگوں پر مشتمل احتجاجی پروگرامات کا انعقاد کرنے کے لیے بھی اسی قسم کی حکمت عملی بنا رکھی تھی جس کے باعث تمام ضلعی مراکز میں ہزاروں افراد نے ریلیوں اور احتجاجی جلسوں میں شمولیت اختیار کی لیکن پہیہ جام ہڑتال بھی قائم رہی۔ یہ ایک انتہائی شاندار، قابل تعریف حد تک عوام کی اجتماعی منصوبہ بندی کے ذریعے منظم کی گئی ایک کامیاب ہڑتال تھی جس نے عوام کی زبردست اور بے پناہ طاقت کا اظہار انتہائی پرامن طریقے سے کیا جس نے حکمرانوں کے دل دہلا کر رکھ دیے ہیں۔

اس ہڑتال کی تیاریوں کے دوران ہی حکمرانوں اور انتظامیہ کو اس کی طاقت کا احساس ہو گیا تھا اور ہر ضلع کی انتظامیہ نے خوف کے مارے بیوروکریسی اور سرکاری افسران کے لیے ایک محکمہ جاتی سرکولر جاری کر دیا تھا کہ 5 ستمبر کو پونچھ اور میرپور ڈویژن میں سرکاری نمبر پلیٹ والی کوئی بھی گاڑی سڑک پر نہ نکالی جائے۔

اس کے ساتھ ہی چند دن پہلے تک اس ہڑتال کی کھلے عام یا خاموش مخالفت کرنے والی تمام پارلیمانی پارٹیوں کے بعض قائدین کو بھی مجبوراً اس ہڑتال کی حمایت میں بیان جاری کرنے پڑے۔ درحقیقت پارلیمانی پارٹیوں کے عام کارکنان بھی اس احتجاجی تحریک میں پورے جوش و خروش کے ساتھ شریک تھے اور ان کے دباؤ کے ساتھ عام عوام اور نوجوانوں کی جانب سے ان پارٹیوں اور قائدین پر کی جانے والی تنقید اور لعن طعن کے باعث وہ یہ بیان جاری کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ لیکن عوام کی بڑی اکثریت اور بالخصوص نوجوان اب ان پارٹیوں اور قائدین کے گماشتگی کے کردار کا مکمل ادراک حاصل کر چکے ہیں اور جب بھی ان میں سے کوئی ہڑتال کی حمایت میں بیان جاری کرتا ہے اس کے ساتھ ہی نوجوان سوشل میڈیا پر ان کی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کردیتے ہیں۔

حکمرانوں اور ان کے گماشتوں کی تمام پارٹیوں سے نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ 31 اگست کو مظفرآباد ڈویژن اور 5 ستمبر کی پونچھ اور میرپور ڈویژن کی عام ہڑتالوں میں کسی بھی جگہ ان میں سے کسی بھی پارٹی کا کوئی مرکزی قائد یا پارلیمانی ممبر احتجاجوں میں شرکت کی جرات نہیں کر سکا۔

ہڑتال کی وسعت کا اندازہ محض اس بات سے نہیں لگایا جا سکتاکہ چند مرکزی شہروں میں ہزاروں لوگوں نے احتجاجی پروگراموں میں شرکت کی بلکہ ہڑتال کی اصل وسعت یہ ہے کہ تمام بڑے شہری مراکز میں ہزاروں کے اجتماعات کے ساتھ دیگر سینکڑوں دیہاتوں میں مکمل ہڑتال رہی۔

ابھی تک سوشل میڈیا کے ذریعے جن مقامات پر احتجاجوں کی تفصیلات حاصل کی جا سکی ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے:

ضلع پونچھ

راولاکوٹ، کھائیگلہ، ہجیرہ، بنجونسہ، چھوٹاگلہ، ٹانڈہ گھمیر، عباس پور، علی سوجل، کہوکوٹ، حسین کوٹ، پانیولہ، داتوٹ، بیڑیں، تھلہ، تھوراڑ، میرالگلہ، جنڈالی، بن بہک سمیت دیگر کئی مقامات پر احتجاجی پروگرام منعقد ہوئے۔

ضلع سدھنوتی

پلندری، تراڑکھل، منگ، پتن شیر خان، قلعاں، بلوچ سمیت کئی دیگر مقامات پر احتجاج کیے گیے۔ ضلع باغ میں باغ شہر، دھیرکوٹ، شجاع آباد، ارجہ، ریڑہ سمیت کئی مقامات پر احتجاج منعقد ہوئے۔

ضلع کوٹلی

کوٹلی شہر، سہنسہ، سرساوہ، پنجیڑہ، چڑہوئی، نکیال، گلپور، ہولاڑ، پوٹھہ سہر منڈی، ناڑ، راجدھانی، دماس، مہدہ ٹاؤن، برائے نام، ڈونگی، کھوئیرٹہ، سیری، گوئی، ڈانواں، تتہ پانی اور پینڈا بازار سمیت دیگر کئی مقامات پر احتجاج منعقد کیے گیے۔

ضلع بھمبر

بھمبر شہر، سماہنی چوک بھمبر، برنالہ اور میرپور چوک بھمبر میں بڑے احتجاج کیے گیے۔

ضلع میرپور

شہید چوک کے مقام دن کو میرپور بار ایسوسی ایشن کی کال پر مرکزی احتجاجی پروگرام منعقد کیا گیا جس میں میرپور کے مضافاتی چھوٹے شہروں، چکسواری اور جاتلاں سمیت دیگر علاقوں سے ہزاروں لوگوں نے احتجاجی ریلیوں کی صورت میں شرکت کی۔ جبکہ میرپور ایکشن کمیٹی نے شہید چوک میں شام کو اپنا الگ احتجاجی پروگرام منعقد کیا۔

ضلعی حویلی سے ابھی تک صرف حویلی شہر کے احتجاج کی خبر موصول ہو سکی باقی کسی پروگرام کی تصاویر یا خبریں سوشل میڈیا پر نہیں آسکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کنٹرول لائن کے ساتھ ملحقہ علاقوں پر مشتمل ایک ایسا ضلع ہے جہاں ابھی تک موبائل کی سروس بھی موجود نہیں ہے اور صرف ایس کام (SCOM) کی انتہائی ناقص موبائل سروس نام کی حد تک موجود ہے جس کے خلاف اکثر مقامی لوگ احتجاج منعقد کرتے رہتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے ذریعے حاصل ہونے والی یہ معلومات اس ہڑتال کی وسعت کی کسی حد تک ایک حقیقی جھلک فراہم کرتی ہیں لیکن درحقیقت یہ بھی ایک جھلک ہی ہے۔ اصل میں اس ہڑتال کی مسحور کن مہک چند روز قبل سے ہی اس خطے کے عمومی ماحول اور فضا میں موجود تھی۔ چند روز قبل سے ہی ہر دکان، ہوٹل، گاڑی اور ہر گھر میں، غرضیکہ ہر اس جگہ پر جہاں کچھ لوگ ایک ساتھ جمع ہوتے تھے وہاں اس کے بارے میں گفتگو ہونا شروع ہوگئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ سے لے کر حکمرانوں کے ایوانوں تک یہی ہڑتال موضوع سخن بن گئی تھی۔ جہاں عام لوگ، محنت کش اور نوجوان اس ہڑتال کو منظم کرنے اور اپنے علاقائی پروگرام منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے وہیں حکمران اس ہڑتال کے دوران متوقع عوامی غیض و غضب سے خود کو اور بیوروکریسی کو محفوظ رکھنے کی حکمت عملی بنا رہے تھے۔

درحقیقت حکمران طبقات نے نام نہاد آزاد کشمیر کے عوام کو سیاسی پارٹیوں کے ذریعے ایک جانب اور علاقائی بنیادوں پر دوسری جانب طویل مدت تک تقسیم کر کے رکھا لیکن گزشتہ چند سالوں کے دوران پہلے پونچھ ڈویژن کی عوام نے کسی حد تک حکمرانوں کی اس تقسیم کا خاتمہ کرتے ہوئے مہنگائی اور ناجائز ٹیکسوں کے خلاف جدوجہد کے ذریعے اپنا ایک اتحاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی اور چار ماہ سے جاری اس تحریک کے دوران مظفرآباد اور میرپور ڈویژن کے عوام نے بھی اس تقسیم کو ختم کر دیا ہے اور اب عوام کا یہ اتحاد پورے کشمیر تک پھیلتا جا رہا ہے۔

چار ماہ سے جاری اس احتجاجی تحریک کے دوران حکمران طبقات کی گماشتہ پارٹیوں اور تاجران میں اپنے گماشتوں کے ذریعے حکمران اس ہڑتال کو توڑنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ عوام اور نوجوانوں کا یہی اتحاد اس ہڑتال کی کامیابی کی اصل کنجی ہے۔ عوامی تحریک کے ہر بڑھتے ہوئے قدم کے ساتھ عوامی اتحاد مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور عوام اپنی طاقت کے شعوری احساس سے روشناس ہوتے جا رہے ہیں۔

بجلی بلوں کے بائیکاٹ کا دائرہ کار بھی پھیلتا جا رہا ہے اور رواں ماہ اس بائیکاٹ کو نوے سے سو فیصد تک لے جانے کی مہم کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ اس احتجاجی تحریک کو زیادہ موثر اور طاقتور بنانے کے لیے ہر دیہات اور علاقے کے لوگ اپنی جانب نئے اقدامات متعارف کراتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں راولاکوٹ کے مضافاتی دیہات دریک کے عوام نے وفد کی صورت میں محکمہ برقیات کے ایکسین کو درخواست دی کہ وہ ان کی زمینوں میں نصب بجلی کے کھمبے، تاریں اور ٹرانسفارمرز اکھاڑ کر لیے جائیں اور جب وہ یہ چیزیں اکھاڑنے آئیں تو گزشتہ 42 سالوں سے ان کھمبوں کا جو کرایہ بقایا ہے اس سمیت لوگوں کی زمینوں سے کاٹے جانے والے درختوں اور فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا تمام تر معاوضہ ساتھ لے کر آئیں۔ اس درخواست کا مقصد کھمبے اکھاڑنے کی مہم کا آغاز نہیں تھا بلکہ محکمہ برقیات سے کھمبوں کا کرایہ اور دیگر ہونے والے نقصانات کامعاوضہ طلب کرنا تھا۔ اگرچہ اس درخواست سے الیکٹرانک میڈیا نے بھی کھمبے اکھاڑنے کی بات اچک کر ایک سنسنی پھیلانے کی کوشش کی لیکن آج کی ہڑتال میں لوگوں نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ یہ کھمبے بھی ہمارے ہیں، تاریں بھی ہماری، زمینیں بھی ہماری ہیں اور بجلی بھی ہماری ہے۔ ہم مفت بجلی حکمرانوں سے چھین کر لیں گے اور ساتھ ہی ان کھمبوں کا اب کرایہ بھی وصول کریں گے۔

اسی طرح میرپور ڈویژن کے لوگوں نے اپنے احتجاجی کیمپوں سمیت گھروں، گاڑیوں اور دکانوں پر حکمرانوں کی اس اندھی لوٹ مار کے خلاف سیاہ پرچم لہرانے شروع کر دیے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہم اپنے مطالبات تسلیم نہیں کرا لیتے اور جب تک ہماری یہ احتجاجی تحریک جاری رہے گی اس وقت تک ہم یہ سیاہ جھنڈے لگائے رکھیں گے۔

سول نافرمانی کی تحریک کو مزید آگے بڑھانے کے حوالے سے ٹرانسپورٹرز کے درمیان چونگی اور دیگر ٹیکس دینے سے انکار کے حوالے سے بھی مشاورت کا عمل جاری ہے۔

یہ احتجاجی تحریک مسلسل اور تیزی کے ساتھ سماج کی ہر پرت کو اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے۔ ابھی تک اس تحریک میں خواتین کی بڑے پیمانے پر شمولیت نہیں ہے اگرچہ راولاکوٹ دھرنے سے لے کر مظفرآباد کی ہڑتال اور آج کوٹلی کی احتجاجی ریلی میں سیاسی طور پر متحرک اور وکلا خواتین نے شرکت کی ہے۔ اسی کے ساتھ گزشتہ دنوں میں سہنسہ گرلز کالج کی بچیوں نے کم وولٹیج کے خلاف ایک باقاعدہ احتجاجی دھرنہ بھی دیا۔ یوں سست رفتاری سے ہی سہی مگر خواتین بھی اس تحریک کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔

یہ تحریک کشمیر کے اندر ہی اپنی جڑت کو مضبوط کرنے کے مراحل میں تھی مگر اس کے باوجود اس کے جرات مندانہ اقدامات نے پورے پاکستان میں اپنے اثرات مرتب کیے اور پاکستان کے تقریباً ہر علاقے میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف چھوٹے یا بڑے احتجاجی مظاہرے منعقد ہوئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس تحریک کی طاقت اور شدت میں ہونے والا اضافہ اور اس کے باغیانہ اقدامات زیادہ بڑے پیمانے پر اپنے اثرات مرتب کریں گے۔

کشمیر کے بعض تنگ نظر قوم پرست اور لبرل دانشور لبرل ازم کے نظریات کے زیر اثر یہ موقف اپنا رہے ہیں کہ کشمیر کی اس تحریک کو پاکستان کے غریب عوام کی تحریک سے نہیں جوڑنا چاہیے۔ محنت کش عوام کی اس جڑت کے خلاف ان کی دلیل یہ ہے کہ کشمیری ڈیموں کی حق ملکیت کی بنیاد پر مفت بجلی کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کے غریب عوام غربت کے باعث بجلی کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کر رہے ہیں اس لیے ہماری تحریک کو پاکستان کے غریب لوگوں کی تحریک کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔ لیکن وہ یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ گزشتہ نصف صدی سے کشمیر کے غریب عوام مفت بجلی کا مطالبہ کیوں نہیں کر رہے تھے؟ ڈیموں کی ملکیت کی بنیاد پر مفت بجلی کا مطالبہ کشمیر کی سبھی قوم پرست تنظیموں کے مطالبات میں شامل رہا لیکن کشمیری قوم پرست تنظیموں کی یوٹوپیائی قوم پرستی کے پروگرام پر کی جانے والی سیاست کے باعث ان کی سیاست اور پروگرام کو کبھی بھی عوام میں پذیرائی نہیں مل سکی۔

 

ایک دہائی سے زائد عرصہ قبل مارکسزم کے انقلابی نظریات اور محنت کشوں کی بین الاقوامی تنظیم عالمی مارکسی رحجان(IMT) سے وابستہ ہونے والے نوجوانوں نے جب محنت کشوں اور عوام کے طبقاتی مسائل پر احتجاج منظم کرنے کے عمل کا آغاز کیا تھا تو انہی قوم پرست پارٹیوں کی قیادت انہیں یہ طعنے دیتی تھی کہ یہ ہماری قومی آزادی کی مقدس لڑائی کو آنے ٹکے کی لڑائی بنانا چاہتے ہیں۔ مارکس وادیوں کا اس وقت بھی یہی موقف تھا کہ قومی آزادی کی جدوجہد زندگی کے حقیقی مسائل کے گرد عوام اور محنت کشوں کی ایک ایسی منظم لڑائی میں تبدیل ہو کر کامیابی حاصل کر سکتی ہے جو اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہو ایک مزدور ریاست کے قیام پر منتج ہو۔

آج یہ قوم پرست قیادتیں بھی قوم پرستی کے فرسودہ نظریات کی عملی ناکامی اور بانجھ پن کے باعث عوام کے حقیقی مسائل کے حل کی لڑائیوں میں شرکت اختیار کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ لیکن دوسری جانب یہ دلیل کہ کشمیر کے غریب عوام غربت کی وجہ سے نہیں بلکہ حق ملکیت کے باعث مفت بجلی کا مطالبہ کر رہے ہیں، درحقیقت تحریکوں کے ابھرنے کے سیاسی تاریخی عمل سے مکمل طور پر بے بہرہ ہونے کی علامت ہے۔ کشمیر، بالخصوص پونچھ ڈویژن کے عوام نے 2019ء میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف پہلی بار عوامی ایکشن کمیٹیوں کی بنیاد رکھتے ہوئے احتجاجی تحریکوں کا آغاز کیا تھا۔ حالانکہ کشمیری عوام کے پاس گندم کے کھیتوں کی ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی زیادہ تر غریب عوام کو اقوام متحدہ کے متنازعہ علاقوں کے حوالے سے کسی چارٹر کی شقوں کا کوئی زیادہ علم ہے پھر بھی عوام نے آٹے کی قیمتوں میں اضافے کی خلاف ایک زبردست تحریک چلائی جو جزوی طور پر کامیاب رہی تھی۔

درحقیقت گزشتہ چند سالوں کے دوران ہونے والی بے پناہ عمومی مہنگائی کے باعث جنم لینے والا غم و غصہ ہی ہے جو ان تحریکوں کو جنم دے رہا ہے۔ کشمیر کے عوام کی شدید خواہش ہے کہ ان کی تحریک کے حق میں پاکستان بھر کے غریب عوام اٹھ کھڑے ہوں اور اس ظالم سرمایہ دارانہ ریاست کا تختہ الٹ دیں چونکہ اس خطے میں اختیارات اور طاقت کا مرکز پاکستان کی ریاست اور حکمران طبقات کے ہاتھ میں ہے۔

ان لٹیرے حکمرانوں کی ریاست، جس نے کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ مسلط کر رکھا ہے اور کشمیر سمیت پورے پاکستان کے غریب عوام اور محنت کشوں کا خون نچوڑ رہی ہے، سے یہ امید وابستہ کرنا کہ وہ کشمیریوں کے بورژوا حق ملکیت کی بنیاد پر ان کا مفت بجلی کی فراہمی کا مطالبہ تسلیم کر لے گی، یہ تصور ہی احمقانہ ہے۔ پاکستان کے لٹیرے حکمران کشمیری عوام کو مفت یا سستی بجلی صرف اس صورت میں فراہم کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں جب کشمیری عوام کی کسی تحریک سے ان کے ایوان اور اقتدار لرزنا شروع ہو جائیں، جب ان کو یہ خطرہ ہو کہ اگر کشمیری عوام کے مطالبات تسلیم نہ کیے گیے تو ان کا پورا لوٹ مار کا نظام ہی خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ ایسی تحریک صرف وہی ہو سکتی ہے جو کشمیر سے نکل کر پورے پاکستان میں پھیل جائے۔

کشمیری عوام اور محنت کشوں کے مسائل اور دکھ درد وہی ہیں جو پاکستان کے غریب عوام اور محنت کشوں کے دکھ درد اور مسائل ہیں اور ان مسائل اور دکھوں کی وجہ بھی ایک ہی ہے اور وہ ہے پاکستان کی سرمایہ دارانہ ریاست اور نظام۔

کشمیر میں بجلی بلات کے بائیکاٹ کے جرات مندانہ اقدامات نے پورے پاکستان کے غریب عوام کو ایک راستہ دکھایا ہے اور اس تحریک سے جرات اور شکتی حاصل کرتے ہوئے پاکستان کے غریب عوام بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور وہ ہماری تحریک کے لیے ایک تقویت کا باعث بن رہے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے بعض رہنما اور دانشور ہمیں یہ مشورہ دے رہے کہ اگر پاکستان کی عوام کے ساتھ ہماری تحریک جڑ گئی تو ہمیں بڑا نقصان ہو گا۔ کشمیر کے عوام ان نام نہاد دانشوروں اور قائدین کی ایسی نصیحتوں سے بے نیاز پاکستان کے غریب عوام کے احتجاجات کو بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں اور یہ سمجھ بھی رہے ہیں کہ ان کی تحریک کی اصل طاقت ہی اس کا یہ پھیلاؤ ہے۔ درحقیقت آج کے عہد میں قوم پرستی کے نظریات کا تاریخی اور آخری کردار ہی تحریکوں کو قومی اور علاقائی بنیاد پر محدود رکھتے ہوئے ان کو کمزور کرنا اور یوں بلاواسطہ حکمران طبقات اور اس نظام کی معاونت کرنا رہ گیا ہے۔

ہمارے ان قوم پرست قائدین اور دانشوروں کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں جن کی یہ شدید خواہش ہے کہ کشمیر کی تحریک پاکستان بھر میں نہ پھیلے اور وہ ہیں اس خطے کے حکمران طبقات اور ریاست۔ اب یہ مشترکہ خواہشات کوئی حادثہ نہیں ہیں بلکہ مشترکہ نظریات یعنی قوم پرستی سے جنم لینے والی سوچ کی پیداوار ہیں۔

ہر سرمایہ دارانہ ریاست کے حکمران طبقات بھی قوم پرستوں کی طرح یہی چاہتے ہیں کہ عوام اور محنت کش قومی بنیادوں پر سوچیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات پاکستان کے کروڑوں غریبوں کو یہی درس دیتے ہیں کہ ہم ایک قوم ہیں اور قومی مفاد وہی ہے جو اس ملک کی ریاست اور حکمران کرتے ہیں اس لیے قومی سالمیت کا تقاضا یہی ہے کہ قومی مفاد کے لیے ہر قربانی دی جائے۔ یہ قومی مفاد درحقیقت ہر ملک کے حکمران طبقات اور ریاست کا مفاد ہوتا ہے۔ عوام اور محنت کشوں کے انقلابی نظریات قومی نہیں طبقاتی ہوتے ہیں۔ طبقاتی نظریات کا یہ تقاضا ہے کہ پورے سماج اور ہر سیاسی و معاشی پالیسی سے لے کر قانون اور ریاست کا تجزیہ اس بنیاد پر کیا جائے کہ اس سماج میں دو مخالف طبقات وجود رکھتے ہیں جن کے مفادات باہمی طور پر یکسر مختلف اور متضاد ہیں۔ ہر وہ پالیسی یا قانون جو عوام کے خلاف ہو گا وہ حکمرانوں کے حق میں ہوگا اور اسی طرح ہر وہ معاشی یا سیاسی اقدام جس کا فائدہ محنت کشوں کو ہو گا اس کا نقصان حکمرانوں کو ہوگا۔ یہی وہ بنیاد ہے جو کشمیر سمیت پاکستان کے تمام محنت کشوں اور غریبوں کو اس نظام اور حکمران طبقات کے خلاف ایک مشترکہ لڑائی میں جوڑتی ہے۔

محنت کشوں کی یہ جڑت صرف ملک تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ عالمی نوعیت کی ہے۔ اس بنیاد پر محنت کشوں کی کسی بھی تحریک کو کسی علاقے تک محدود رکھنے کی سوچ حکمران طبقات کی سوچ ہے اور محنت کشوں یا عوام میں بھی اگر کوئی اس سوچ کا مالک ہے تو وہ حکمرانوں کے مفادات کا ترجمان بن جاتا ہے۔ حکمران طبقات عوام کو تقسیم کرنے کے لیے صرف قومی منافرت کا ہی استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ ہر قسم کی علاقائی، نسلی، مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی تفریق کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ حال ہی میں گلگت میں ایک بار پھر مذہبی فسادات کو بھڑکا کر عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی جس کے خلاف وہاں کی عوام نے زبردست مزاحمتی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے سے کشمیر کے عوام کی اس تحریک کو آنے والے دنوں میں بھی سب سے بڑا خطرہ اس کی کسی بھی بنیاد پر تقسیم ہو سکتا ہے۔

عوامی تحریک میں شامل سبھی با شعور عوام اور نوجوانوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ہر قسم کے تعصب اور تقسیم کے خلاف سخت ترین لڑائی کرتے ہوئے تحریک کی جڑات اور اتحاد کو برقرار رکھیں۔ یہ تحریک پاکستان کیا ہندوستان سمیت دیگر خطوں تک بھی اپنے اثرات مرتب کرے گی۔ حکمرانوں نے اس تحریک کے اثرات کو پاکستان پر پڑنے سے روکنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا پر سخت ترین پا بندیاں عائد کر دی ہیں لیکن پھر بھی وہ اس تحریک کے اثرات کو روک نہیں پائے اور نہ ہی روک پائیں گے۔ حکمران طبقے کا دلال میڈیا کشمیر کے عوام کی اس زبردست تحریک کی خبریں نشر کرنے سے اسی لیے خوفزدہ ہے کہ یہ تحریک پورے پاکستان میں پھیل رہی ہے۔

کشمیر کے عوام کو اپنے اتحاد کو مضبوط بناتے ہوئے تحریک کے اگلے اقدام، جو کہ کشمیر بھر کی مکمل اور غیر معینہ مدت کی ہڑتال ہو سکتی ہے، کی تیاری اور حکمت عملی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کے محنت کشوں کی تنظیموں کے ساتھ جڑت استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام دیہی علاقوں میں عوامی ایکشن کمیٹیز کے جمہوری ڈھانچے قائم کرتے ہوئے ہڑتال کو مزید وسعت دینے اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

تحریک کا اگلا مرحلہ بہت اہم اور فیصلہ کن ہو گا جو اس عوام دشمن نظام اور حکمران طبقات کے خلاف جدوجہد کو نئی مہمیز دے گا۔ کشمیر کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کی تحریک کی وسعت، پھیلاؤ اور مضبوطی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رہی ہے۔ ان کے ایوان عوامی نعروں کی گونج سے لرز رہے ہیں۔ کشمیر کی یہ تحریک وہ آگ بھڑکائے گی جو حکمرانوں کی لوٹ مار کے اس استحصالی نظام کو جلا کر راکھ کرتے ہوئے اس کی جگہ ایک مزدور راج قائم کرے گی جس میں تمام وسائل پر محنت کشوں کا اجتماعی کنٹرول ہوگا اور انہیں عوام کی اجتماعی بھلائی اور ترقی کے لیے استعمال کرتے ہوئے سبھی لوگوں کو تمام بنیادی سہولیات کی مفت فراہمی کو یقینی بناتے ہوئے ایک حقیقی انسانی سماج کی تعمیر کے سفر کا آغاز کیا جا سکے گا۔

محنت کش عوام زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاو!

Comments are closed.