تاریخ کا خاتمہ؟ اور سوشلزم پر چند اعتراضات کے جواب

|تحریر: صبغت وائیں |

 

 

ایک بہت سیانے بندے نے کسی حکیم کو کہتے سُن لیا کہ کھجور پیٹ کے لیے بہت فائدے مند ہے، لیکن یہ دانتوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ اور ناشپاتی دانتوں کے لیے بہت اچھی ہے، لیکن پیٹ کے لیے مضر ہے۔ تو وہ گھر آ کر کہنے لگا کہ اس نے تمام حکمت کا راز پا لیا ہے۔ وہ آج سے ناشپاتی چبا کر پھینک دیا کرے گا، اور کھجوریں ہمیشہ سالم نگلا کرے گا۔ (ہزاروں سال پرانی ایک چینی حکایت)

”سوشلزم پر“ آج کے ”سوال“

سوشلزم اور لبرلزم کی بحث میں ہمیں کئی طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ ان میں کئی قسم کے طعنے اور الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے بہتان بھی جن پر غور کریں تو اگر وہ واقعی کچھ جاننے کے بارے سنجیدگی سے سوچتا ہے تو الزام لگانے والا خود شرمندہ ہو جائے گا۔

مثلاً ہمیں کہا جاتا ہے کہ ”تم لوگ سو سال پیچھے کے نظام کو لانا چاہتے ہو“۔

”سوشلزم کا فلسفہ پرانا ہے“۔ اگر پوچھیں کہ نیا کیا ہے، تو جواب ملتا ہے، ”لبرلزم، جمہوریت“ وغیرہ۔

بہت سے لوگ دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”تم لوگ دونوں نظاموں کو جوڑ کر ایک تیسرا نظام کیوں نہیں بنا لیتے؟ تیسرا ایسا نظام جس میں دونوں نظاموں کی اچھائیاں ہوں۔ جیسے سوشل ڈیموکریسی وغیرہ“۔

اس کے علاوہ جو لوگ نظام کو قائم دائم رکھنے میں حکمرانوں کے ہم نوا ہیں، ان میں سے بعض کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ سرمایہ داری مقابلے کا نظام ہے اور اس میں کوئی بھی اچھی زندگی پا سکتا ہے، بس اس کو اپنا کام لگن اور محنت سے کرنا چاہیے۔ جتنی زیادہ وہ محنت کرے گا اتنا ہی کامیاب ہو جائے گا۔

اور اس کے علاوہ چند ایک نے تو بات ہی ختم کر دی، کہ تم سوشلسٹ جانے کس دنیا میں رہتے ہو، ”تاریخ کا تو خاتمہ ہو چکا ہے“۔ جی درست سنا آپ نے۔ خاتمہ ہو چکا ہے! تو یہ کیا ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کا ان معنوں میں خاتمہ ہو چکا ہے کہ اب یہی سرمایہ دارانہ نظام جو یورپ اور امریکہ میں رائج ہے، حرفِ آخر ہے۔ دنیا اس سے آگے کہیں نہیں جائے گی۔ جو سمجھتا ہے، کہ دنیا اس سے آگے کہیں جا سکتی ہے، بے وقوف ہے، احمق ہے، جاہل ہے۔ ان سے پوچھیں کہ ایسا کہاں لکھا ہے، تو فوکویاما کی کتاب ”تاریخ کا خاتمہ“ کا نام دے دیتے ہیں۔

”سوشلزم کے“ آج پر سوال

ان سوالات کا ہم ان گنت بار جواب دے چکے ہیں کہ محنت کش کے نجی استحصال پر کوئی سمجھوتا یا کوئی سودے بازی ہم کو قبول نہیں ہے۔ لیکن یہاں ہم کوشش کرتے ہیں کہ تاریخ اور فلسفے کے ذریعے آسان ترین الفاظ میں اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ:

کیا سرمایہ داری انسان کی فطرت کے عین مطابق ہے، یا سوشلزم فطرت کے خلاف ہے؟

سرمایہ داری کو کیوں اکھاڑ کے پھینکنا ضروری ہے؟

سوشلزم کیوں ضروری ہے؟

اور یہ کہ کیا کوئی درمیانی راہ یا پھر دونوں نظاموں کو ملا کر نئے سرے سے کسی تیسرے نظام کے خدوخال تراشنا درست ہے؟

کیا واقعی تاریخ کا خاتمہ ہو گیا ہے؟

سوالات کا تضاد

سوشلزم”پر“ اوپر کیے گئے سوال کرنے والوں کو چاہیے کہ آج ہم جس مقام پر پہنچے ہیں وہاں تک موجود سائنس، سماجی سائنس اور فلسفے نے جہاں تک کی منزلیں طے کی ہیں اس کے کسی حد تک عمومی نتائج کو جان لیا جائے۔ یعنی اگر ان سوالوں کے جواب پہلے ہی موجود ہیں تو پھر یہی بہتر ہے کہ کوئی اور سوال کیا جائے۔

تھوڑا سا غور کرنے پر معلوم ہو جاتا ہے کہ ہمارے مخالفین کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات خود تضادی کا شکار ہیں۔ آج انتھروپولوجی کی جدید تحقیقات کی وجہ سے سبھی جانتے ہیں کہ انسان نے دس لاکھ سال سے زائد عرصہ قدیمی کمیونزم میں گزارا ہے۔ جہاں نہ تو نجی ملکیت تھی، نہ کسی قسم کا کوئی ادارہ تھا، نہ ہی حکومت تھی اور نہ کسی ریاست کا وجود تھا۔ ان تمام چیزوں کا آغاز طبقاتی نظام کے ساتھ ہوا۔ اگر فطرت کی بات کرنی ہے تو قدیم سماج میں انسان کی فطرت سوشلسٹ ہی ثابت ہوتی ہے، جس کے ذریعے اس نے بغیر کسی خاص شعوری نظریات یا تحقیقات کے اپنی بقا پذیری کی جنگ لڑی ہے اور اجتماعی محنت سے دیگر تمام جانداروں میں سب پر فوقیت حاصل کی ہے۔ لیکن ایسی صورت میں مخالفین فطرت سے فوراً دست بردار ہو کر ”نئے اور پرانے“ پر آ جاتے ہیں، یہ جاننے کی زحمت کیے بغیر کہ قدیمی کمیونزم اور سائنسی سوشلزم میں کیا فرق ہے۔ تمام سوالات کا جائزہ لینے کے ہمیں تاریخ پر سرسری سی نظر ڈالنی ہو گی۔

سرمایہ داری اور لبرلزم کے ارتقا میں فلسفے، ادب، فن اور سائنس کا کردار

مختصراً دیکھیں تو طبقاتی نظام کے ساتھ ہمیں جن فلسفوں کا ارتقا ملتا ہے، ان میں سے ایک لبرلزم ہے جو کہ اپنے دور کے سماجی، سیاسی اور پیداواری نظام سے مکمل مطابقت میں تھا۔ ہمارے لوگ لبرلزم کو مارکسزم (جدید سائنسی سوشلزم۔ ہم سوشلزم، مارکسزم اور کمیونزم کو تقریباً ایک ہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ گو کہ سوشلزم اور کمیونزم سرمایہ داری کے خاتمے کے بعد کے دو مختلف مرحلے ہیں، لیکن اگر زیادہ گہرائی میں بات نہیں کرنی تو ایک ہی معنے میں استعمال میں مضائقہ نہیں ہے) سے نیا فلسفہ سمجھتے ہیں۔ جب کہ مارکسزم کے نظریات انیسویں صدی میں تشکیل دیے جاتے ہیں اور بیسویں صدی میں اس کو پہلی بار عملی طور پر آزمایا جاتا ہے۔ لبرلزم کی داغ بیل تھامس ہابس اور جان لاک کے ہاتھوں سولہویں صدی کے آخر اور سترھویں صدی میں ڈالی گئی تھی۔ ٹھیک اس وقت جب پرانا فرسودہ جاگیر داری نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، اور نیا ترقی پسند اور شان دار طبع پیداوار سرمایہ دارانہ نظام ابھر رہا تھا۔ لبرلزم اس دور میں پیدا ہوا جب یورپ دس صدیاں جہالت کی تاریکی میں گزار چکا تھا۔ حقیقت میں لبرلزم کے بیج تو پادری مارٹن لوتھر ہی اپنے سوالات کے ذریعے ڈال چکا تھا۔

 

اسی سولہویں صدی کے آخری عشروں میں ہمیں شیکسپیئر اور بیکن ابھرتے نظر آتے ہیں اور دوسری جانب سترھویں صدی کے پہلے عشرے میں ناول کی ابتدائی ترین شکل سروانتس کے ڈان کیخوٹے میں ملتی ہے جس کو دنیا کا عظیم ترین طنزیہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ یقیناً ہم ان کے کاموں میں موجود جیفری چوسر کے باریک طنزوں کو کبھی بھی نہیں جھٹلا سکتے جو کہ چودھویں صدی میں اپنی کہانیوں کے ذریعے تشکیک اور روشن خیالی کی بنیادیں رکھ رہا تھا۔ سولہویں صدی ہی میں ہمیں کرسٹوفر مارلو کا ڈاکٹر فاسٹس ملتا ہے اور پندرھویں صدی میں ہمیں ہائرونوموس بوش کی پینٹنگز ملتی ہیں، جب کہ انہی کے تسلسل میں ہمیں سولہویں صدی میں پیٹر بریوگل کی پیٹنگز ملتی ہیں، جن کو روشن خیالی اور سرمایہ داری کے ابھاراور ٹوٹتے ہوئے جاگیرداری کے ڈھانچے کی علامت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ہمیں ہر جانب سے ادب اور فلسفے میں بغاوت، مزاحمت اور احتجاج نظر آنے لگتا ہے۔ صدیوں تک خاموش رہنے والے سوادِ اعظم کو زبان مل جاتی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے والٹیئر، روسو اور دیدرو فرانس میں سولہویں صدی کے ڈیکارٹ کا تسلسل تھے اور ہالینڈ کا سپی نوزا، جرمن لیبنتز، برطانیہ کے، برکلے، ہیوم وغیرہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں اپنے پیشروؤں ہی کا تسلسل تھے۔ ایک جانب جوناتھن سوِفٹ ہے تو دوسری جانب والتیئر اسی کا تسلسل ہے۔ غرض فلسفے اور ادب میں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے کوئی چیز قطعی طور پر نئی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت یورپ اندھیروں میں ڈوبا پڑا تھا تب مشرقِ وسطیٰ کے فلسفیوں نے علم اور روشن خیالی کی وہ مشعل پکڑ کر یہ دوڑ جاری رکھی اور اس مشعل کو بجھنے سے بچائے رکھا جو انہوں نے یونانی فلسفیوں سے ارسطو تک اور اس کے بعد تھکی ہاری آخری فلسفی ہائی پیشیا نے مذہب کے نام پر وحشیوں کے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے سے پہلے آگے تھمائی تھی۔ اور مشرقِ وسطیٰ سے یہ مشعل بجھنے والی تھی کہ یورپ نے اس کو دوبارہ تھام لیا۔

سولہویں صدی کے آخری عشروں میں ہمیں شیکسپیئر اور بیکن ابھرتے نظر آتے ہیں۔

اس ایک آدھ پیرے میں لیے گئے فلسفے اور ادب کی تاریخ کے مختصر ترین جائزے سے ایک بات صاف نظر آتی ہے، کہ ”قطعی نیا“ کچھ نہیں ہے۔ تمام نظریات ایک دوسرے کے ساتھ نتھی ہیں۔ اور یہ گنجھل ایسے ہیں، کہ ان کو سیدھے طریقے سے بیان کرنا خود غلط ہو جائے گا۔ تاریخ اور ارتقا کا سفر سیدھی لکیر میں نہیں ہوا۔ ٹراٹسکی اس کو”یکساں اور ناہموار ترقی“ کا اصول بتاتا ہے۔ فرانسس بیکن اسی اصول کو اپنے مضامین (Orpheus, or philosophy) میں ادبی رنگ میں دکھاتا ہے۔ کبھی کسی جگہ علم ابھر آتا ہے، اور دوسری جگہ جہاں وہ عروج پر ہوتا ہے، صدیوں تک اندھیر چھایا رہتا ہے۔ اور اس کے بعد وہ ایسی جگہ طلوع ہو جاتا ہے، جہاں پہلے کبھی کچھ بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک بات سے سوائے پوسٹ ماڈرنسٹوں کے کوئی انکار نہیں کر سکتا، کہ دنیا کے تمام موجود علوم: سائنس، آرٹ، ادب اور فلسفے میں پچھلے گزر چکے تمام انہی علوم کی وہ باقیات ہیں جو کہ درست اور قائم رہنے کی صلاحیت کی حامل تھیں۔ جو نئے نظریات کا مقابلہ نہیں کر سکیں، یا عدم سچائی ثابت ہوئیں، ان کا خاتمہ ہو گیا۔

جس طرح ہم نے ادب اور فلسفے کو مختصراً دیکھا ہے اسی طرح سے سائنس کی بھی تاریخ کو دیکھیں تو یہ فلسفے سے بہت پرانی ہے۔ کیوں کہ فلسفے میں زیادہ پیچیدہ، زیادہ عمومی (general) اور زیادہ تجریدی (abstract) تصورات میں سوچا اور کام کیا جاتا ہے، جب کہ سائنس میں چیزیں نسبتاً سادہ، مخصوص، اور مقرونی (concrete) ہوتی ہیں۔

آگ میں کسی چیز کو جلا کر اس کا کارآمد ہونا جاننے کے بعد اس کے تصور بنانے کو اگر فلسفے کا بنیادی جراثیم لیں، تو اس سے پہلے آگ میں جلا کر کارآمد بنانا سائنس ہے۔ پکی مٹی کا برتن پہلی کیمیائی تبدیلی تھی جو اتفاق سے ہوئی ہو گی۔ پہیہ ایک ایسی ایجاد تھی کہ جس کے بعد انسان کا سفر رکا نہیں۔ ہم دنیا کی کسی بھی ایجاد کو دیکھیں اس ایک آج کی ایجاد میں ہمیں آگ اور پہیہ بھی مل جائے گا۔

چیزوں کو اس طرح سے دیکھنے کا انداز جدلیاتی ہے۔ جدلیات میں ہر چیز کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ تاریخ کو جدلیاتی انداز میں دیکھنا، یا چیزوں کو جدلیاتی تاریخی تناظر میں دیکھنا تاریخی مادیت کہلاتا ہے؛ جو مارکسزم کی سائنس ہے، یا مارکسزم کو خود تناظر کی سائنس کہا جاتا ہے۔ کسی بھی چیز پر غور کر لیں اس میں اس کی تاریخ، یعنی اس کا ماضی اور مستقبل بھی کسی حد تک نظر آتا ہے، تبھی تو ہم ”پیش گوئی“ کرنے کے قابل ہوتے ہیں، جو کہ انسانی بقا کی علامت ہے۔ لیکن نئے فلسفے اس تناظر اور جدلیاتی انداز میں سوچنے کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے گھڑے جا رہے ہیں، تاکہ انسانی فہم کو رجعت پرستی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں زبردستی دھکیلا جائے۔ اور حکمران طبقے کی جانب سے شعوری طور پر شعور کے خلاف یہ ”جدوجہد“ طبقاتی سماج کا لازمی خاصہ ہے۔اس کام میں آج بھی اربہا ڈالر غرق کیے جا رہے ہیں۔ صرف پوسٹ ماڈرنزم ہی کو دیکھیں تو دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں اس کی اشاعت کے لیے کارندے تعینات ہیں۔ آج تمام سوشل سائنسزاور ادب وغیرہ پوسٹ ماڈرنزم کے مطابق ڈھالے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی چیز اس کے مطابق نہیں بھی ہے تو بھی یونیورسٹی میں پڑھانے والا پوسٹ ماڈرنزم ہی پڑھا جاتا ہے، پھر نوٹس دے دیتا ہے کہ اس کو یاد کر کے پرچہ دے دینا۔ آج کل کی تعلیم کا حال آج کل کی تعلیمی پراڈکٹ کو دیکھ کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ بات بھی ایک جدلیاتی مادیت پسند ہی جان سکتا ہے، کہ سیکھنے والا، یا طالب علم محض مفعول نہیں ہے، وہ فعال بھی ہے۔ جس کو تعلیم دی جا رہی ہے، وہ عمل کرتا ہے تو ہی اس کو حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر ایسے طلبہ بھی پیدا ہو جاتے ہیں، جو ایسے عقل دشمن اور انسان دشمن فلسفوں پر سوال رکھتے ہیں۔ اور جب ان نوجوانوں کو ایسے لوگ ملتے ہیں، جن کا تعلق سوچنے والے اور سوال اٹھانے والے قبیلے سے ہوتا ہے، تو وہ اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل جانا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ اور ان کو شاید پہلی بار حقیقی مسرت کا احساس ہوتا ہے کہ ہمارے علاوہ اور لوگ بھی ہیں، جو سماج پر اور اس نظام پر سوال رکھتے ہیں۔

جب ادب، فلسفہ، نفسیات، معیشت، سیاست، تاریخ، سائنس اور عمومی انسانی خیالات اپنے تصور کی طرح حقیقت میں ایک دوسرے سے اور ان کے تصورات اپنے اندر کے تصورات سے اپنے خود کے اندر خلط ملط ہیں، الگ الگ نہیں ہیں (گو کہ ہم سوچ میں ان کو الگ الگ کر کے کسی حد تک سوچ بھی سکنے کے قابل ہیں، کہ یہ تاریخ ہے اور یہ معیشت ہے۔۔ وغیرہ، مگر عملی طور پر ہرگز نہیں) تو کیا ہمارے اس سماج کی کوئی تاریخ نہیں ہوگی؟ کیا سماج ایسے بے معنی و بے در تجریدی حقائق کا نام ہے، جو کہ ایک دوسرے سے لاتعلق ہیں، کٹے ہوئے ہیں جیسا کہ یہ پوسٹ ماڈرنزم اور دیگر ”جدید“ فلسفے ہمیں پڑھاتے ہیں؟

ہم تاریخ کا مارکسی نقطہ نظر سے، مارکسی سائنس ”تاریخی مادیت“ سے مطالعہ کریں، یا پھر یونیورسٹیوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ سے، ہمیں یہی نظر آتا ہے، کہ سماج ارتقا کے ایسے مرحلوں سے گزرا ہے، جو کہ آپس میں جڑے ہوئے بھی ہیں، اور اس میں معیاری جستیں بھی موجود ہیں۔ یہ وہ بات ہے جس کو یونیورسٹیاں بتاتی ہیں اور نہ ہی ان کے موضوعی عینیت کے پرچارک، پروفیسرز۔

تاریخ میں انقلابات کا کردار

ان معیاری جستوں کو انقلابات کہتے ہیں۔ تاریخ اور سماج کا ارتقا بھی حیاتیاتی ارتقا ہی کی طرح کسی سیدھی لکیر میں نہیں ہوا۔ غور کریں تو آگ کی دریافت خود ایک انقلاب تھی۔ اس سے پہلے انسان جیسے بھی گزر بسر کر رہا تھا، اس سے معیاری طور پر آگے نکل گیا۔ معیاری تبدیلی وہ ہوتی ہے، جس کے بعد واپسی کا سفر ناممکن ہو جاتا ہے۔ معیاری تبدیلی انقلاب کے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتی۔ ہم جدلیاتی فلسفے میں اس پر تفصیل سے بات کیا کرتے ہیں۔ ہر انقلاب ایک معیاری تبدیلی ہوا کرتا ہے۔ پتھر کا اوزار خود ایک معیاری تبدیلی تھی، جس نے انسان کو وہ پورا سماج دیا جس کو آج ہم پتھر کے دور کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ پتھر کے اوزاروں کا بنایا جانا ہو سکتا ہے آج ہمیں معمولی چیز لگے، لیکن یہ بھی بذاتِ خود انسانی ترقی کے سفر میں انقلاب تھا۔

دورِ غلامی کے دوران سپارٹکس نامی غلام کی بغاوت سر فہرست ہے۔

تاریخ کا بغور جائزہ لینے سے بے شمار انقلابات میں ایک بہت بڑا انقلاب ہمیں ”زرعی انقلاب“ کے نام سے ملتا ہے جس کو ماہرین انتھروپولوجی neolithic revolution کہتے ہیں۔ پھر دورِ غلامی میں ہمیں بغاوتیں نظر آتی ہیں، جن میں سپارٹیکس کا انقلاب سرِ فہرست ملتا ہے۔ دوسری جانب ہزارہا سال کی غلامی نے بعض انسانوں کو ایسی فرصت کے لمحات دیے جس میں اس نے خود پر اور کائنات پر تفکر و تفلسف کیا۔ جس کے نتیجے میں سائنس اور فلسفے کو معیاری جستیں لگیں۔ اس دور کے عظیم سمبولِک آرٹ کے ایسے ”آرکی ٹیکچر“ نظر آتے ہیں جن کو دیکھ کر ہم آج بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد کلاسیکل آرٹ میں خاص طور پر خداؤں کے مجسمے، اور رومانٹک آرٹ میں پینٹنگ، موسیقی اور شاعری۔ ان تمام آرٹس میں ظاہر ہے کہ سمبولک دور میں پینٹنگ کے آثار بھی ملتے ہیں، اور کلاسیک کے بھی، اور یقیناً دیگر میں دوسرے بھی بنائے جاتے رہے، لیکن اپنے دور کی مناسبت سے بنیادی آرٹ وہی رہے جو بتائے گئے ہیں۔ دیگر آرٹس کے آگے جانے میں کن حالات سے گزرنا پڑا، انسانی پیداوار کے طریقوں اور خود پیداوار کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے، کہ ان آرٹس کے ارتقا میں بھی انقلابات کا ہی کردار رہا ہوگا۔ لیکن ان آرٹس کے لیے انسان کو جو فرصت درکار تھی اس میں غلامی کا کردار اہم رہا تھا۔ انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلامی اپنی تمام تر برائی اور غیر انسانی عنصر کی حامل ہونے کے باوجود انسان کا ترقی کی جانب اہم ترین قدم ثابت ہوئی۔ آج ہم کچھ بھی سوچیں لیکن یہ اپنے دور کا ایک ترقی پسندانہ قدم تھا۔ اسی لیے مارکس لکھتا ہے: ”انسان نے غلامی سے نہیں، بلکہ غلامی میں سے گزرتے ہوئے آزادی حاصل کی ہے“۔ وہ غلامی جو خود نیولِتھِک انقلاب کے نتیجے میں جنمی تھی۔

غلامانہ طبع پیداوار Mode of Production سے جاگیر داری میں تبدیلی خود ایک معیاری تبدیلی تھی۔ باوجود اس کے کہ کہیں کہیں غلاموں کا رواج یا ذکر ہمیں ملتا ہے، لیکن وہ صرف شوقیہ قسم کی غلامی تھی، جو کسی بادشاہ نے یا کسی رئیس آدمی نے خرید لیے۔ تو جس طرح غلامانہ موڈ آف پروڈکشن میں ہمیں یونان وغیرہ کے ساحلوں پر تجارتی سرمایہ دار ملتا ہے، اسی طرح جاگیر داری میں اور بعد ازاں ہم دیکھیں گے کہ سرمایہ داری میں بھی غلامی مل جاتی ہے، جو کہ ایک درجہ پیچھے کا قدم تھا جو کہ انسانی سماج میں آگے بڑھنے کے لیے ہمیں جگہ جگہ پر لیا گیا نظر آتا ہے۔ لیکن غلامی بطور طبع پیداوار ہمیں یورپ ہی میں نظر آتی ہے۔

جہاں سماج دھیرے دھیرے اس مقام پر پہنچا کہ پہلا سماج ٹوٹ کر بکھر جائے اور نئے کی تعمیر ہو۔ وہیں ہمیں انسان کے شعور میں جو ارتقا ملتا ہے وہ پچھلے لکھوکھا سال میں نظر نہیں آتا۔ غلامی کا دور جہاں ہزار ہا سال تک چلا تھا اور وہ جاگیر داری میں مجبوراً تبدیل ہوا۔ کیوں کہ غلام کو رکھنا اور اس کی دیکھ بھال پر جو خرچ اٹھتا تھا، اس سے کہیں بہتر تھا کہ زمین پٹے پر دے دی جائے اور مزارعے سے ایک مخصوص حصہ وصول کر لیا جائے۔ باقی وہ جانے اور اس کا کام۔ دیکھا جائے تو جاگیر داری بھی خود ایک ترقی پسند قدم تھا۔ جو غلامی سے آگے کا تھا اور اس میں ہمیں اجتماعی شعور کی سطح غلامی کے دور سے بلند نظر آتی ہے۔ مارکس کا یہ کہنا بالکل درست نظر آتا ہے: ”جس طرح یہ سمجھنا غلط ہے کہ سرمایہ دار مزدور کو اس کے کام کی پوری اجرت دے دیتا ہے، اسی طرح یہ سمجھنا بھی اتنا ہی غلط ہے کہ غلام کو اس کے کام کی اجرت نہیں ملا کرتی تھی“۔ ایک طریقے سے دیکھیں تو غلام باوجود غلامی کے بہت سی فکروں سے آزاد بھی ہوا کرتا تھا۔ مزدور کے مقابلے میں دیکھیں تو انتہا کا آزاد۔ کیوں کہ اس کا کھانا پینا، کپڑے، رہائش وغیرہ سب کا ذمے دار مالک تھا۔ اور وہ مالک کے پاس ایک بیل یا گھوڑے کی طرح سے تھا۔ جس کی حفاظت مالک کو اپنی دولت کی طرح بھی کرنی پڑتی تھی۔ تو ترقی یافتہ انسانی تعقل نے اس ذمہ داری سے، بلکہ گلے پڑی مصیبت سے چھٹکارا پانا ہی بہتر سمجھا تھا اور یہی عقل مندی بھی تھی۔

اسی دوران میں بہت سی ایسی جنگیں دیکھنے کو ملی ہیں جہاں ان طبقاتی سماجوں کو ان یورشوں نے تاخت و تاراج کر دیا جو کہ غیر طبقاتی سماج کے حامل تھے۔ ڈورینز Dorians اور پھر Huns سے شروع ہو جائیں اور آگے کو دیکھتے جائیں۔ غلاموں کے انقلابات یا بغاوتوں کا ہمارے پاس ریکارڈ بہت کم ہے۔ لیکن جوں جوں شعور نے ترقی کی، ویسے ویسے انقلابی شعور نے بھی ارتقا کیا ہے۔ ورنہ کہا جاتا ہے کہ سپارٹیکسؔ کی بغاوت میں غلاموں کا شعور غلامی کے خاتمے کے بجائے زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے ان آقاؤں کو غلام بنا لیں یا پھر افریقہ کی طرف بھاگ نکلیں۔

لیکن جاگیر داری سے سرمایہ داری بلا شبہ انقلابات ہی کے ذریعے سے آئی تھی۔ مگر یہ انقلابات ایک مخصوص دور میں الگ تھلگ ہونے کے باوجود اپنے اندر ایک تسلسل بھی رکھتے تھے۔ جدلیاتی فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح سے تسلسل کے اندر رخنے یا جستیں ہوتی ہیں، اور ان رخنوں یا جستوں کا ایک تسلسل ہوتا ہے۔ جو اوپر سے نیچے تک جاتا ہے۔ اس پر تفصیل سے بات جدلیاتی فلسفے ہی میں ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اتنا کہنا ضروری ہے کہ جاگیر داری سے سرمایہ داری کے درمیان ایک عبوری دور تھا۔ جہاں انسانی پیداوار کے طریقے، ذرائع اور پیداواری صلاحیتیں اس مقام پر پہنچ چکی تھیں کہ جاگیر داری میں رہتے ہوئے انسان کا مزید آگے کا سفر کرنا اسی طرح سے ناممکن ہو چکا تھا جیسا کہ ایک وقت پر غلامی میں رہتے ہوئے انسان کا مزید ترقی کرنا ناممکن ہو چکا تھا اور نتیجتاً انسان کو جاگیر داری کی جانب اپنا ترقی پسند قدم مجبوراً اٹھانا پڑا تھا۔ ورنہ جیسے ہم نے ذکر کیا ہے کہ نیولیتھک انقلاب کے بعد اکیلے زمین کاشت کرنے کی نسبت غلاموں کے مشترکہ پیداوار کے فارمز میں کی گئی پیداوار بذاتِ خود ایک ترقی پسند قدم تھا جس سے پیداوار ایک دم سے کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ کیوں کہ ایک ساتھ کام کرنے سے تقسیمِ کار Division of Labour خود بخود شروع ہو جاتی ہے۔ اور تقسیمِ کار بھی شعور کو معیاری جست لگاتے ہوئے کئی درجے اوپر لے جاتی ہے۔

جاگیر داری سے سرمایہ داری میں آنے کے لیے انسان کو سب سے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔ جہاں پچھلے دور میں غلام مالکوں نے کسی حد تک غلاموں سے خود جان چھڑوائی تھی، یہاں جاگیر دار آسانی سے اپنی جگہ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔ نتیجتاً پے در پے انقلابات رونما ہوئے۔خاص طور پر اٹھارہویں صدی میں انتہا ہو گئی۔ جب گلوٹِن چلا کر کئی کئی دن تک سرمایہ داری کے نمائندوں نے جاگیر داروں کے سر اتارے۔ محنت کش طبقے نے اپنی آزاد مزدوری کرنے کے حق اور مزارعت کی بندش سے نجات کے لیے، اور سرمایہ داروں نے جاگیرداروں کی اپنی جاگیروں پر از خود قایم کی ہوئی محصول چونگیوں وغیرہ سے نجات کے لیے، آزاد مزدوروں کی دست یابی کے لیے، اور ناپ تول و لین دین کے یکساں نظام کے حصول وغیرہ کے لیے پے در پے انقلابات کیے۔ ان محصول چونگیوں کی وجہ سے مال کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہو جاتا تھا جس سے مال کی کھپت بہت کم ہوتی تھی اور دوسرا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا تھا۔ اس طرح آزاد کاروبار اور آزاد نقل و حمل کے مطالبات بھی مذہب کی تشریح کرنے کے حق، اور قومی ریاست کی تشکیل کی طرح لبرلزم اور سرمایہ داری کی ترقی پسند کاوشیں تھیں جن کی حاصلات سے دنیا کی ترقی کو گویا پر لگ گئے۔ اور انسانی تاریخ میں ہونے والے ہر ایک انقلاب کے بعد ترقی کا سفر دسیوں، بیسیوں یا سینکڑوں، ہزاروں گنا تیز ہوتا گیا۔ ایسا ہمیں کتابوں میں بھی ملتا ہے، اور عجائب گھروں میں جا کر انسان کے بنائے اوزاروں کو غور سے دیکھنے سے بھی پتا چل جاتا ہے، اور اگر اچھی کتب نہیں ملتیں تو بھی مطالعے کے ساتھ سوچ بچار کرنے سے پتا چل ہی جاتا ہے کہ ترقی اور انقلابات کا آپس میں کیا رشتہ ہے۔

کیا سرمایہ دارانہ نظام حرفِ آخر ہے؟

اب تک ہم نے یہی دیکھا ہے کہ جب آلاتِ پیداوار اور پیداوار کرنے کے طریقے، پیداوار کرتے ہوئے، اور انسان کے سیکھنے کی صلاحیت میں اضافے کی وجہ سے ترقی کر جاتے ہیں، جن کو مارکس ”پیداواری قوتیں“ کہتا ہے، تو وہ طرز پیداوار یا طبع پیداوار جو کہ رائج ہوتی ہے (جیسے کہ غلامی یا جاگیر داری تھی) ان کے ساتھ نہیں چل سکتی، دقیانوسی ہو جاتی ہے، پیچھے رہ جاتی ہے۔ اس کو ہم نے قدیمی کمیونزم سے لے کر سرمایہ داری تک ہر جگہ دیکھا ہے۔ اس مضمون میں تو اتنی گنجائش نہیں تھی لہٰذا تفاصیل سے گریز کیا ہے، لیکن تاریخی مادیت انسان کے سفر کو جس طرح سے دیکھتی ہے، جدید انتھروپولوجی کی تحقیقات ان کی تصدیق کرتی ہیں، اور ان تصدیقات کے ساتھ یہ سائنسیں تاریخی مادیت کواپنی آگے کی نت نئی تحقیقات سے سیراب بھی کرتی چلی جارہی ہیں۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے۔ بلکہ اس سے بھی بہتر الفاظ میں ”کثیر پہلو انسانی عمل“ کہنا درست ہو گا۔

اب تک ہم نے جس طرح سے تاریخ میں گزرنے والے ہر نظام کو پرانا ہوتے ہوئے دیکھا ہے، اسی طرح سے یہ سرمایہ داری نظام بھی فرسودہ اور کہن زدہ ہو گیا تھا۔ بہت جلد گلنے سڑنے لگ گیا۔ دوسری جانب انسان کے فکری ارتقا کے ساتھ ساتھ طبقاتی شعور بھی اسی حساب سے جستیں لگا کر ارتقا پذیر ہوا جس شرح سے انسان کے باقی شعور نے ترقی کی ہے۔ یہاں تک کہ مارکس اینگلز کے زمانے تک آتے آتے دیگر سائنسوں کی طرح طبقاتی شعور بجائے خود ایک سائنس بن چکا تھا۔ مارکس اور اینگلز نے اس سائنس کو مربوط کیا اور لینن اور ٹراٹسکی نے اس خیال کو عملی جامہ پہنا کر اس کی سچائی کا ثبوت دیا۔

کوئی بھی پوچھ سکتا ہے کہ جب پرانے نظام اتنی زیادہ دیر چلے، جیسے لاکھوں سال تک قدیمی کمیونزم چلا۔۔۔گویا بیس لاکھ سال تک نہ تو طبقات موجود تھے اور نہ ہی ریاست یا ریاست کا کوئی ادارہ، اور انسان نے ان کے بغیر ہی اپنی زندگی گزاری، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ترقی بھی کی جو کہ آج ہمیں ہر ایجاد میں نظر آتی ہے۔ جیسے چاقو، ہتھوڑا، کلہاڑا، آگ وغیرہ۔۔۔تو سرمایہ داری اتنی جلدی کیوں گلنے سڑنے لگ گئی۔ تو ہم اس کو یہی جواب دیں گے کہ ہر نظام کا مطالعہ کرنے سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے، کہ ہر آنے والے اگلے نظام میں پہلے سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ترقی ہونے لگ گئی تھی۔ اس طرح جدلیاتی اصول کے مطابق جس قدر تیز رفتاری سے اس نظام میں ترقی اور ارتقا ہوتا تھا اسی تیزی کے ساتھ وہ اپنے الٹ میں بھی تبدیل ہوتا چلا جاتا تھا۔ محنت اور استعمال کے ساتھ آلاتِ پیداوار ترقی کرتے، اور اس کے ساتھ ساتھ پیداواری قوتیں بھی ترقی کر جاتیں۔ لیکن طبع پیداوار وہی پرانے والی ہے، جیسے غلام داری، جاگیر داری یا سرمایہ داری؛ اور پیداواری تعلقات بھی پرانے، جیسے آقا، غلام؛ جاگیردار، مزارع؛ اور کارخانے دار، مزدور۔

ہم نے ادب اور فلسفے میں بھی یہی دیکھا ہے کہ مافیہا (Content) مسلسل تبدیلی کے زیر اثر رہتا ہے، اور تبدیل ہوتا رہتا ہے، جب کہ بنتر (Form) قائم رہنا چاہتی ہے۔ یہاں بھی نئی پیداواری قوتیں کیوں کہ پیداوار زیادہ کرنے لگتی ہیں، تو ان کو پیداوار کھپانے اور مزید ترقی کی خاطر ضرورت ہوتی ہے کہ تعلقات کی بنتر اور طبع پیداوار تبدیل ہو جائے۔ لیکن طبع پیداوار قائم رہنا چاہتی ہے۔ سماج کو دیکھیں تو طبقاتی سماج میں پرانے سماج کے حکمران طبقے کا مفاد اسی سے وابستہ ہوتا ہے، کہ جو جس طرح سے چل رہا ہے، وہ اسی طرح سے چلتا رہے قائم رہے۔ کچھ نہ بدلے۔ جب کہ پیداوار کا اور محنت کش طبقے کا، اور سب سے بڑھ کر ترقی اور ارتقا کا دارو مدار ہی اس بات پر ہوتا ہے کہ تبدیلی آ جائے اور نظام نئی ترقی یافتہ شکل اختیار کرے۔ تاریخ میں ہم جس کو انقلابات کی صورت میں بار بار پاتے ہیں۔

سرمایہ داری آج اپنے دورِ آخر میں داخل ہو چکی ہے۔ ابھی ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا منہ پھاڑے اس کے استقبال کو تیار کھڑا ملتا ہے۔ تمام سرمایہ دارانہ معاشیات کے ماہرین اور جرائد کم از کم اس بات پر تو متفق ہیں، کہ بحران موجود ہیں۔ ورنہ بحرانوں کے باوجود ہمارے ”دوست“ تو ماننے کو تیار ہی نہیں ہوا کرتے کہ بحران موجود ہیں۔ لیکن بھیتر کی بات جو ہم بتاتے ہیں اور اس پر مسلسل لکھتے بھی رہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ تمام بحران زائد پیداوار کے بحران ہیں اس پر دیگر ماہرین خاموش رہتے ہیں۔ زائد پیداوار کا صاف مطلب ہے کہ پیداواری قوتیں سرمایہ داری نظام سے بہت آگے نکل چکی ہیں۔ ترقی اور ارتقا کا تقاضا اب یہی ہے کہ اس کہن زدہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔

لیکن جس طبقے کا اس سے مفاد جڑا ہے اس کو انسانی ارتقا یا انسانی بقا سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ انسان کو اگر آگے کو جانا ہے تو اس کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے سوشلزم کا۔ اور کوئی ہے بھی نہیں، اور نہ ہی مارکس اور اینگلز کے علاوہ اور کسی نے کوئی دوسرا راستہ بتایا ہے۔

وہ راستے جہاں تک بورژوا فلسفیوں اور دانش وروں کی سوچ کی حدیں پہنچ سکی ہیں، وہ وہی ہیں جہاں سے ہم نے اپنی بات شروع کی تھی۔ اچھا ہے کہ اب ان سبھی پر بھی باری باری بات ہو جائے۔ لیکن اس سے پہلے مجھے یہ بتانے کی اجازت چاہیے کہ ہم مارکسسٹ اس طرح سے خوابوں میں محل نہیں بناتے اور نہ ہی ہوا میں تیر چلاتے ہیں، جیسے کہ بورژوا دانش وروں کا خیال ہے۔ ہم جو بھی بات سیاسی یا سماجی حوالے سے کر رہے ہوتے ہیں اس کے پیچھے تاریخ، یا ایک گہرا تاریخی تناظر ہوتا ہے، جس کو مارکسسٹ سائنس تاریخی مادیت سے تقویت ملتی ہے، اور پھر اس کے پیچھے فلسفے کی ساری تاریخ ہے۔ ایک متحرک اور ہر علم کو، ہر سائنس کو خود میں سمو لینے والا گہرا فلسفہ جدلیاتی مادیت ہے، جس میں ساری دنیا کے فلسفوں کی ”ردونمو“ (Sublation) ہو چکی ہے۔ ہماری اس بات کی جڑیں آج تک کی معاشیات، نفسیات، سماجیات، بشریات، ادب اور فطرتی سائنسوں کی آخری دریافتوں سے لے کر دور ماقبل تاریخ کے اندر تک دھنسی ہیں۔ ہمارے ہر مارکسسٹ کیڈر پر لازم ہے کہ وہ اپنے زمانے میں موجود ہر سائنس اور ہر آرٹ کا جوھر جانتا ہو۔ اس کے لیے اس کو ہر روز جہاں دیگر سماجی کام ہوتے ہیں وہیں کڑے مطالعے کی بھٹی سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔

اپنی بات سمجھانے کے لیے مجھے ہیگل کی فنامینالوجی کی معروف مثال پھر سے دوہرانے کی اجازت دیجیے:

”کلی پھول کے کھلنے میں غائب ہو جاتی ہے، اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ پھول کلی کی تنسیخ ہے۔ بالکل اسی طرح جب پھل سامنے آ جاتا ہے تو پھول کی سچائی اس کی باری ختم ہو جانے پر عدم سچائی میں تبدیل ہو جاتی ہے کیوں کہ اب پودے کی سچائی پھول نہیں رہی، بلکہ پھل ہے۔ یہ مرحلے محض ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ یہ دوسرے کو ہٹا کر اس کی جگہ ہی آ سکتے ہیں کیوں کہ یہ ایک دوسرے کے نقیض ہیں [نقیض، متضاد سے تھوڑا مختلف لفظ ہے۔ نقیض یعنی اس طرح کے تعلق میں ہیں کہ اگر ان میں سے ایک موجود ہو تو دوسرا نہیں رہ سکتا]۔“ (خیال کی مظہریات، ہیگل)

جو لوگ ہمیں دھڑلے سے بتاتے ہیں کہ لبرلزم سوشلزم سے نیا فلسفہ ہے، تو ان کو تاریخ کو دوبارہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ ہم مختصراً مگر کافی بتا چکے ہیں کہ لبرلزم کی ابتدا سولہویں صدی میں ہو رہی ہے۔ اور مارکسزم یا سائنسی سوشلزم جس کی ہم بات کر رہے ہیں، انیسویں صدی کا فلسفہ ہے، جس کو پہلی بار بیسویں صدی میں تجربہ کر کے دیکھا گیا ہے۔ دونوں کے درمیان تین سو سال کا فرق ہے۔

کیا جمہوریت سوشلزم کے مقابلے میں ایک نظام ہے؟

جمہوریت: جس کو سوشلزم کے ”مقابلے میں“ ایک ”نیا نظام“ بتا کر سامنے لایا جاتا ہے، تو اس کے لیے بھی تاریخ ہی کو دیکھنا مناسب ہو گا۔ جو کہ جمہوریت کو تین ہزار سال سے سیاسی نظام چلانے کے ایک طریق کار کے طور پر دکھا رہی ہے۔ ہم جمہوریت کو یونان اور روم کے غلامانہ دور میں بھی پاتے ہیں۔ سرمایہ داری میں بھی اور سوشلزم کے متعلق تو کہا جا سکتا ہے، کہ اگر اس میں جمہوریت نہیں تو وہ سوشلزم نہیں ہو سکتا۔ ”پرولتاریہ کی آمریت“ یا ”اکثریت کی آمریت“، جس کو عقل کے مارے پیٹی بورژوا کوئی ”آمریت“ تصور کر کے تنقید کے نشتر چلاتے ہیں، اس کا یہی مطلب ہے۔ بلکہ سوشلسٹ جمہوریت اگر اصلی والی شکل میں دیکھیں تو یہ تھی کہ جو لوگ کسی کو اگر چننے کا اختیار رکھتے ہیں، تو انہی لوگوں کے پاس اس کو ”کسی بھی وقت“ عہدے سے سبک دوش کرنے کا اختیار بھی ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر وہ جمہوریت نہیں ہے۔ اور لوگوں میں معاشی برابری ہی اس بات کا اعتماد دلا سکتی ہے، کہ لوگ صرف اچھا اور اہل بندہ بطور اپنے قائد کے چنیں گے۔ ورنہ کوئی بھی ان کے ووٹ خرید سکتا ہے، یا ان کی رائے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ہم جس جمہوریت کو دیکھتے ہیں اس میں تو عوام کے پاس صرف یہ حق ہے کہ وہ اپنے گلے پر چھری پھیرنے کو قصائی کا انتخاب کریں، ”وہ ہینڈسم ہے“، یا ”مہنگے کپڑے پہنتا ہے“ وغیرہ۔

جمہوریت ہمیں ہر شکل میں نظر آتی ہے۔ برطانیہ میں بادشاہ کے ہمراہ دو پارٹیوں کی پارلیمانی صورت میں اور امریکا میں ایک ایسی پارٹی کی صورت صدارتی نظام میں جس کے دو بازو ہیں، جو دونوں ہی دائیں ہیں۔ پھر چین کی، ایک پارٹی کے سسٹم میں، اور انڈیا و پاکستان کی سو دو سو پارٹی سسٹم میں۔ پاکستان میں یہ ایوبی دور میں الگ، ضیا میں الگ مشرف دور میں الگ اور باجوہ دور میں الگ صورت میں نظر آتی ہے۔ غرض جمہوریت کو سوشلزم کے یا سرمایہ داری کے مقابلے میں پیش کرنا غلط ہے۔ سرمایہ داری سعودی بادشاہت میں بھی خوش ہے، افغان طالبان دور میں بھی، ترکی اور ایران میں بھی، پاکستان، لیبیا اور شام میں بھی۔ سکنڈے نیویا میں بھی، اور امریکا و یورپ میں بھی اسی طرح خوش ہے جیسے افریقہ، روس، چین، کوریا اور جاپان میں۔

کیا سرمایہ داری اور سوشلزم کو جوڑ کر کوئی ”نیا راستہ“ زیادہ اچھا نہ ہو گا؟

دوسری یہ بات کہ سوشلزم میں دیگر کچھ پرانی چیزیں شامل کر لیں تو کیا ہو گا؟ کوئی ”درمیانی راستہ“ تو ہو گا؟ جواب ہمیشہ کی طرح آج بھی یہی ہے کہ نہیں۔ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہی بات لینن اور ٹراٹسکی نے کہی تھی، یہی بات مارکس اور اینگلز بھی کہتے رہے ہیں، اور بعینہٖ یہی بات ہیگل بھی سمجھا رہا ہے۔ کہ کلی کے پھول بننے کے بعد واپس کلی بننا ناممکن ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ مرحلہ گزر چکا ہوتا ہے۔ پوری طبعی سائنس میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جب ایک نوع ارتقا کر چکتی ہے، تو پھر وہ واپس چلی جائے۔ یہ ایک معیاری جست ہوتی ہے، اس کے بعد واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ سماج میں بھی ایسا ہی ہے۔

پیچھے کو جانا یا جانے کی کوشش کرنا۔ کسی پچھلے نظام کا احیا یا پھر اس کی باقیات کو سنبھالنے کی بات کرنا ویسا ہی ہے جیسے فرینکنسٹائن لاش کو سنبھالے رکھتا ہے کہ اس کو زندہ کرے گا۔ ایسا نہیں کہ سوشلزم کی طرح اس کے بھی تجربے نہیں ہوئے۔ ہم نے ماضی قریب کی تاریخ میں اس کی بہت بڑی مثالیں دیکھی ہیں۔ میں سعودی عرب کی بات نہیں کر رہا جہاں احیا کے بہت سے طریقے اپنائے گئے، اور اب باری باری ان کو چھوڑا جا رہا ہے۔ میں امریکا کی بات کر رہا ہوں جہاں سرمایہ داری آ جانے کے بعد سترھویں صدی کی پہلی دوسری دہائی میں غلامی دوبارہ واپس آ گئی تھی لیکن اس دفعہ یہ سرمایہ دارانہ طرز پیداوار کے تحت موجودتھی۔اس وقت موڈ آف پروڈکشن غلام داری نہیں تھا بلکہ سرمایہ داری تھا اور غلاموں کو کموڈٹی پروڈکشن کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ سرمایہ داری میں غلامی کو اس لیے ختم نہیں کیا گیا کہ یہ غیر انسانی یا غیر مہذب عمل تھا بلکہ یہ غیر منافع بخش تھا اس لیے اس کا خاتمہ ناگزیر تھا۔جب برطانوی سامراج نے 1833ء میں اپنی کالونیز میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا تو دو کروڑ پاؤنڈز ہرجانہ ادا کیا گیا۔ یہ رقم غلاموں کو ادا نہیں کی گئی تھی بلکہ ان تین ہزار خاندانوں کو ادا کی گئی تھی جو غلاموں کے مالک تھے اور ان کی ”ملکیت“ ان سے چھین لی گئی تھی۔ آج کے اعداد و شمار میں یہ رقم 16.5 ارب پاؤنڈز بنتی ہے۔ امریکہ میں ایک طویل خانہ جنگی کے بعد 1865ء میں ابراہام لنکن نے غلامی کے مستقل خاتمے کا اعلان کیا۔ یہ بھی امریکہ میں سرمایہ دار طبقے کی کامیابی تھی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور ترقی کے لیے ضروری تھی۔جہاں امریکہ کی 1776ء کی جنگ آزادی کو وہاں کا پہلا سرمایہ دارانہ انقلاب کہا جاتا ہے وہاں 1865ء کی خانہ جنگی کو امریکہ کا دوسرا سرمایہ دارانہ انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ اس ترقی پسندانہ اقدام کی کارل مارکس کی جانب سے بھی پذیرائی کی گئی۔ مارکس کا لنکن کے نام خط بھی موجود ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

غرض دو نظاموں کو اس طرح سے جوڑنے کا تجربہ ممکن ہی نہیں۔ اگر قدیم دور کا کوئی عمل دوبارہ سامنے آئے گا بھی تو موجودہ نظام اور اس کے سماجی رشتوں کے تابع ہی ہوگا اور بالکل نئی طرز پر اپنا اظہار کرے گا۔

لیکن کوئی یہ بھی کہ سکتا ہے، اور لوگ اکثر کہتے پائے جاتے ہیں، کہ سوشلزم اچھا ہے، لیکن اس میں سرمایہ داری کی اچھی اور ترقی پسند چیزوں کو شامل کر لیں تو ایک ”نیا“ نظام بن جائے گا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے۔ ہم نے اوپر جو مثال ہیگل کی دی ہے، اس کے مطابق بیج کے کونپل اور پھر پودا بننے کے عمل میں بیج کی نفی ہو جاتی ہے۔ یعنی بیج صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا ہے۔ لیکن بیج کہیں نہیں گیا۔ بیج کے تمام لازمی اجزا پودے کے اندر ہی موجود ہوتے ہیں۔ جو چیز مِٹی میں مِٹی ہو جاتی ہے، وہ فالتو ہے، جو لازمی یا ناگزیر نہیں تھا۔ یہ بھی جدلیات کا ہی اصول ہے، کہ بقا اسی کی ہے، جو ضروری ہے۔ اس طرح ضرورت یہ طے کرتی ہے، کہ کیا چیز رہنی ہے۔ بیج کا چھلکا ضروری نہیں تھا۔ سو مٹ گیا۔ جو حصے ضروری تھے، انہوں نے شکل تبدیل کی، اور خود کو مٹا کر آنے والے میں اس طرح سے گُم ہو گئے کہ صرف ”نیا“ نظر آتا ہے اور پرانا معدوم ہو جاتا ہے۔

یہی مثال سوشلزم یا سرمایہ داری وغیرہ کی ہے۔ جب جب کوئی نیا نظام آتا رہا ہے، پرانا معدوم تو ہو جاتا ہے، لیکن اس پرانے کی ہر چیز کا خاتمہ نہیں ہو جایا کرتا۔ پرانے کے جو جو عناصر لازمی یا ضروری ہوتے ہیں، وہ بعض اوقات اپنی شکل تبدیل کر کے اور بعض اوقات بغیر شکل تبدیل کیے، آنے والے کا اس طرح سے حصہ بن جاتے ہیں، کہ علم ہی نہیں ہو پاتا یہ پرانے کا کبھی حصہ تھے۔ جب غلام داری آئی تو پرانے کمیونزم کی ”ہر چیز“ کا خاتمہ لازمی طور پر نہیں ہوا تھا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو انسان کو دوبارہ سے بیس لاکھ سال کا نہ سہی دس لاکھ سال یا اس سے کچھ کم کا چکر لگا کر آنا پڑتا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔

یعنی جو لوگ یہ کہتے یا یہ سمجھتے ہیں کہ لڑائی ختم کر دینی چاہیے اور ان دونوں نظاموں کو ملا کر ایک ”اچھا“ نظام بنا لینا چاہیے۔ بعض لوگ تو مجھے گجرانوالے میں بھی ملے ہیں، جو اس بات کے دعوے دار ہیں کہ انہوں نے ان دونوں نظاموں کی برائیوں کو ختم کر کے صرف اچھائیوں کو لے کر تیسرا نظام بنا لیا ہے۔ ان حضرات و خواتین کے لیے اتنی عرض کافی ہے، کہ قدرت، سماج اور انسانی سوچ کا کام ہی یہی ہے۔ فالتو کو جھاڑنے کا، اور لازمی کو محفوظ کرنے کا۔ اس طرح جو جو خامیاں پرانے نظاموں میں تھیں، وہ یا تو ختم ہوتی گئیں، یا پھر نئی پیداواری قوتوں کے سامنے آنے سے عود کر آئیں۔ جس کی وجہ سے ان کا خاتمہ ناگزیر نظر آنے لگتا۔ جب تک تسلسل میں نظام چلتا ہے، اس کے اندر کے تضادات، جو آغاز ہی سے موجود ہوتے، اس کو تبدیل کرتے اور تبدیلی کے لیے مجبور کرتے رہتے ہیں۔ جہاں مزید تبدیلی اس طرح سے ممکن نہیں رہتی کہ اس کی شکل بھی قائم رہے، اور تبدیلی بھی ہو جائے، وہاں انقلاب ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ جو کہ نظام کو سرے سے یا قطعی طور پر ایک معیاری جست سے اس طرح تبدیل کر دیتے ہیں، کہ واپس جانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ تاریخ میں ایسا بار بار ہوا ہے۔ اور قدرتی سائنس سے لے کر فطرت اور سماج کی تمام چیزوں، مظاہر اور عوامل میں یوں ہی ہوتا ہے۔

سائنسی سوشلزم ہوا میں نہیں بنایا گیا۔ سرمایہ داری کی تمام حاصلات اس میں موجود ہیں، بس اس کی لعنتوں کو جھاڑا گیا ہے۔ وہی جدلیاتی اصول اس میں بھی کاربند ہے جو کہ تمام فطرت میں موجود ہے بیج کا فضول حصہ ختم ہو جاتا ہے اور لازمی محفوظ۔ اس طرح سرمایہ داری کی کوئی لعنت سوشلزم میں نہیں رہ سکتی۔ ”اعشاریہ صفر ایک فیصد نجی ادارہ“ بھی نہیں، خواہ ایسا چاہنے والا کوئی سوشلسٹ ہو یا کتنا ہی بڑا عالم فاضل۔ سیدھی بات ہے، اچھائی بطور لازمی اچھائی کے اسی طرح سامنے آ سکتی ہے کہ وہ سب کے لیے اچھائی ہو۔ صرف تعلیم کی مثال لے لیں، تو بھی کوالٹی ایجوکیشن پوائنٹ صفر ایک فیصد کے لیے کیوں ہو؟ یہاں تو جتنے صفرے لگاتے جائیں گے، ہم اچھائی سے اسی قدر دور ہوتے جائیں گے۔

کیا تاریخ کا خاتمہ ہو گیا ہے؟

1991 ء میں جب سوویت یونین کا اپنے اندرونی تضادات اور جزیریاتی سطح پر رہنے کے غلط فیصلے کی بنا پر انہدام ہوا۔ تو سوویت یونین سے پارٹی لائن لینے والے سوشلسٹ تو پریشان تھے ہی بورژوا نظریہ ساز بھی مخبوط الحواس ہوئے بیٹھے تھے۔ اور ادھر ادھر کی ہانک رہے تھے۔ وہیں فرانسس فوکو یاما نے ایک ”تاریخ ساز“ کتاب لکھ ماری۔ جس کا نام تھا ”تاریخ کا خاتمہ“۔ اس کتاب میں اس نے نہایت ہی مکاری سے کام لیتے ہوئے اپنے اس کام کو اس نے کانٹ، ہیگل اور مارکس ہی کے کام کا تسلسل قرار دے دیا۔

یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور مقالہ لکھنے والوں میں یہ چلن عام ہے۔ کہ وہ بھی اسی طرح کسی بھی ”فیکٹ“ کو سچ بتانے کے لیے ”رائے“ کو بطور ہتھیار کے استعمال کرتے ہیں۔ اور رائے بھی ضروری نہیں ہے کہ اس بندے کی رائے ہی ہو جس سے کہ یہ اٹھا رہے ہیں، بس اس کی کسی تحریر میں سے وہ جملے اٹھا لینا کافی ہے، جو کہ ان کے مؤقف کے مطابق ”نظر آ رہے ہوں“۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ جائے اور جا کر سیاق و سباق دیکھے یا پھر اس بات پر غور کرے کہ جس پر ”رائے دینے“ کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ واقعی یہی بات کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ دوسری جانب حوالے اتنے دے دیے جاتے ہیں کہ لکھنے والے کا اپنا کیا ہے، کہیں کھو کے رہ جاتا ہے۔ ”فلاں“ یہ کہتا ہے، اور ”فلاں یہ یہ کہتا ہے“، سے تحریر بھری ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق کے لیے زیادہ مغزماری یا تحقیق کی ضرورت نہیں کوئی بھی ”جدید“ یا خاص طور پر ”مابعد جدید“ تحریر اٹھا کر دیکھ لی جائے یہ پروفیسر لوگ جہاں چاہیں کسی کو بھی حرفِ آخر بتا دیتے ہیں ”فلاں نے یہ کہا ہے“ کافی ہوتا ہے۔ اور اسی طرح سے جہاں چاہیں کسی اور کے ذریعے اس کو رد کر دیتے ہیں۔ رد کرنے کے لیے بھی اتنا ہی کافی ہوتا ہے، ”فلاں نے کہا ہے۔۔۔“۔

اس طرح ہمارے فوکو یاما صاحب نے بھی بجائے اس کے کہ اپنی دانش مندی سے کام لے کر اپنے مؤقف کو لکھیں، ان کو اپنے قارئین کی حماقت اور جہالت سے کام لینا آسان لگا۔ انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ اور خوب اٹھایا۔

ان کی کتاب کی باقی تفاصیل چھوڑ دی جائیں تو مغز یہی ہے، کہ تاریخ کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ انسان اپنی لکھوکھا سال کی طویل جدوجہد کے بعد ایک منزل پر پہنچ چکا ہے جس کو ”لبرل جمہوریت“ کہتے ہیں۔ اب اس سے آگے جانے کی راہ ممکن نہیں ہے۔ جب کہ لبرل جمہوریت وہ ”سرمایہ دارانہ جمہوریت“ ہے، جس میں عوام اپنے اوپر حکمرانی کرنے کے لیے ان افراد میں سے کسی کو چنتے ہیں جن کو ”حکمران طبقہ“ خود میں سے ان پر حکومت کرنے کے لیے تجویز کرتا ہے۔

اگر کوئی یہ پوچھے کہ بھیا تاریخ کیسے ختم ہو گئی۔ زمانہ تو ابھی چل رہا ہے۔ کس کو خبر ہے کہ آگے کیا ہو گا۔ جس طرح تاریخ میں دیگر نظام اور بادشاہتیں سینکڑوں سال تک چلتی رہیں۔ اور ختم ہونے کو آئیں تو رومن ایمپائر کا بھی انہدام ہو گیا تھا۔ تو مسٹر فُوکو یاما بجائے دلیل دینے کے، جس کا ہم آگے ذکر کرتے ہیں، فرماتے ہیں کہ کانٹ، ہیگل اور کارل مارکس ہمیں بتاتے ہیں کہ جب بھی آزاد معاشرہ قائم ہو گا تاریخ ختم ہو جائے گی۔ تاریخ کے خاتمے میں ہیگل اور کانٹ متفق ہیں، اور مارکس بھی اگرچہ کمیونزم پر تاریخ کا خاتمہ کرتا ہے، لیکن خاتمے پر تو بہرحال متفق ہے۔ کوجیوؔ انتہا کا ذہین ہے جو کہ مارکس اور اینگلز کے بعد بھی ہیگل کو درست قرار دیتا ہے، کہ ہیگل نے بورژوا سماج کے کام کو دیکھتے ہوئے تاریخ کا خاتمہ قرار دیا تھا، اور مارکس کا کمیونزم چوں کہ ”ناکام ہو گیا“ ہے، اس لیے اس سے پچھلا نظام جیت جانے کے کارن درست قرار پاتا ہے، اور یورپی کمیونٹی کا قیام ہی انسان کی آخری منزل ہے۔

ہمیں فوکو یاما کو بہت زیادہ سنجیدہ لینے کی اس لیے بھی بہت زیادہ ضرورت نہیں ہے، کہ 2018ء میں فوکویاما نے دنیا کی حالت دیکھ کر ازخود شرم کھاتے ہوئے اپنی ”تاریخ کے خاتمے“ کی تھیوری کو مؤخر کرنے کا اعلان کر دیا تھا، کہ ابھی اس نے تاریخ کو ختم کرنے کا اپنا ارادہ تبدیل کر دیا اور ابھی تاریخ کچھ دیر اور چلتی رہے گی۔ لیکن ہم کئی مرتبہ پہلے بھی اپنے پاکستانی پروفیسروں اور دانش وروں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں کہ یہاں ایک تو ہر نظریہ امپورٹ کیا جاتا ہے۔ دوسرے یہاں نظریہ آتے آتے دیر ہو جاتی ہے کئی بار نظریات گھڑنے والی فیکٹری پہلے نظریے کو باطل قرار دے کر دو چار ”نئے“ نظریات بھیج چکی ہوتی ہے، تب یہاں پہلا نظریہ آتا ہے۔ تیسرا یہ کہ یہاں ہر نظریہ چوں کہ پروفیسر پڑھاتے ہیں اور پروفیسر لوگوں پر کیوں کہ عقل استعمال کرنے پر سرکار کی جانب سے حد نافذ تھی۔ تو پروفیسر لوگ احتیاط کرتے کرتے اس قدر محتاط ہو گئے ہیں، کہ انہوں نے اپنی عقل کا استعمال روزِ آخر تک مؤخر کر دیا ہے۔ انہوں نے انسان کے ارتقا کی آخری منزل سرکاری نوکری کا ملنا، انکریمنٹ کا لگنا اور اے سی آر کا اچھا ہونا مان لیا ہے۔

ان کو جو کچھ بتایا جاتا ہے، اور جس طرح سے پڑھانے کو بتایا جاتا ہے مِن و عَن اسی طرح نہ صرف پڑھا دینا، بلکہ خود بھی مان لینا انہوں نے فرض مان لیا ہے۔ اسی لیے ہمیں یہ عجیب و غریب ماجرا نظر آتا ہے، کہ ہمارے پروفیسر حضرات ”محدود ہو جانے“ سے بچنے کی خاطرسارے کے سارے نظریات کو بیک وقت درست مان کر پڑھا رہے ہوتے ہیں۔

ان کو یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ درست کو غلط قرار دینے کے لیے نظریہ ساز ایک ہی نظریے کو بار بار مختلف نام دے کر بھیجے جا رہے ہیں۔ ان میں جو چیزیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں وہ لازمیت کے حامل خاصے ہیں ہی نہیں۔ حادثاتی یا اتفاقی عوامل کے ایک دوسرے کے ”متضاد“ ہو جانے سے نظریات نہ تو سرے سے اپنے مخالف میں اس طرح سے تبدیل ہو جاتے ہیں کہ ان کا اثر ہی بدل جائے، اور نہ ہی انسان دوست نظریے سے حادثاتی یا اتفاقی پہلوؤں کے مماثل ہونے سے ایک انسان دشمن نظریہ، انسان دوست ہو جاتا ہے۔

غرض سٹڈی سرکلز کا رواج چوں کہ بہت ہی کم ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ اب تو نام نہاد بائیں بازو کی تنظیمیں بھی اس کو کم کر چکی ہیں۔ تو ساری ذہن سازی یونیورسٹیوں ہی میں ہو رہی ہے۔ وہ بھی حکمران طبقے کی آسائشوں سے مستفید ہونے اور ہونے کی خواہش رکھنے والے پروفیسروں کی جانب سے۔ تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت سے وہ فلسفے بھی یہاں ابھی تک نئے سمجھ کر ”اپنائے“ جاتے ہیں جو باہر متروک ہو چکے ہیں، جیسے کہ وجودیت وغیرہ۔ اور دوسرے بہت سے فلسفوں میں سے ایک جدلیاتی مادیت ”بھی“ ہے، کر کے اس کو اگر سچا کر کے بھی پڑھا دیا جائے تو مطلب یہی نکلتا ہے کہ جس طرح باقی سارے درست ہیں، اسی طرح سے یہ ”بھی“ ”ایک“ درست فلسفہ ہے۔ تو اس کی بھی کوئی دو چار چیزیں ”تھیسز، اینٹی تھیسز، سنتھسز“ کا رٹا مار لو، اس کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

ان حالات میں جب 2023ء میں بھی ہمیں ”تاریخ کا خاتمہ“ کی بات سننی پڑتی ہے، تو باوجود حیرت سے مر جانے کا مقام ہونے پر، کہ ساری ”لبرل دنیا“ اس وقت شدید قسم کے بحرانوں کی لپیٹ میں ہے، اور ”کہیں مارکس ہی تو درست نہیں تھا؟“ کے بارے سوچ رہی ہے، پاکستان میں امریکا اور یورپ کے نظام کے گُن گانے والے تو ایک طرف، اس برطانیہ ”عظمیٰ“ کے قصیدہ گو بھی مل رہے ہیں، اور یہ قصیدہ گو بھی وہ لوگ ملیں گے جن کو علامہ اقبال کے ملکہ برطانیہ پر لکھے گئے اس قصیدے پر اعتراض ہے، جب برطانیہ کی سلطنت پر واقعی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اور اب یہ عالم ہے کہ اس کی بدترین اکانومی پر گروتھ کے منفی میں بھی نیچے جانے کی پیش گوئی آئی ایم ایف کر رہا ہے، اور واقعی مودی جی اتنے پاجامے نہیں تبدیل کر رہے جتنے برطانیہ عظمیٰ کے وزرائے اعظم خراب معیشت کے باعث تبدیل ہو رہے ہیں۔

کیا ہماری دنیا میں انسان کے مصائب کا خاتمہ ہو چکا ہے؟

”جھوٹ ہے یہ! سب کی زندگی بری نہیں ہے! اگر ایسا ہوتا تو اتنا برا نہ ہوتا۔ آدمی اس کی اتنی پرواہ بھی نہ کرتا۔“ (پاتال۔ از گورکی)

مارکس نے کہا تھا کہ ”بہت سے کچے مکان ہوں تو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ان میں ایک پکا مکان بنا دیا جائے تو باقی مکان ایک دم سے چھوٹے ہو جاتے ہیں“۔

پھر بھی ہم فوکویاما اور اس کے نظریے کے مدح سراؤں سے ایک سوال تو پوچھیں گے ہی، وہ یہ کہ وہ ہمیں بس اتنا بتا دیں، کہ مارکس اور ہیگل وغیرہ کا کہنا تو یہ ہے کہ ”کمیونزم یا ایبسولیوٹ میں تضادات کا خاتمہ ہو جاتا ہے“۔ اور جیسا کہ اینگلز ہیگل کے اس کہے کی جانب اشارہ کرتا ہے، کہ ”حقیقی ہونے کے لیے ضروری ہونا لازم ہے“ تو ان دونوں صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے وہ ہمیں بتا دیں، کہ کیسے تضادات کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ اور کیسے سوشلزم اور کمیونزم کی ”ضرورت“ کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے؟

اس چیز کو ہم ایک جانب تو ملکوں ملک گھوم پھر کر دیکھ سکتے ہیں، کہ کیا کوئی ایسا ملک ہے، جہاں تضادات کا خاتمہ ہو چکا ہے، اور وہاں ”امیر اور غریب کے درمیان خلیج موجود نہیں؟“ یا کسی دیگر ملک کے مقابلے میں ”کم“ ہے؟ کیوں کہ سوال ہے ہی اس خلیج کا۔ ورنہ انسان تو ایک ساتھ بھوک کاٹ کر بھی خوش رہتا ہے۔

دوسرا ہمیں اگر دھوکے سے منوا بھی لیا جائے کہ دنیا میں ایک یا دو ملک ایسے ہیں، جہاں تضادات کا واقعی خاتمہ ہو گیا ہو، تو بھی کیا انسان صرف وہیں بستے ہیں؟ اب ان ملکوں کا اور دیگر دکھی دنیا کا تضاد کیا موجود نہیں رہا؟ کیا دنیا میں غربت، بے روزگاری، لاعلاجی، جرائم، بدامنی، دہشت گردی، بدمعاشی، بے گھری، قتل و غارت، جنگیں، نسل کشی، مذہبی، نسلی، صنفی، لسانی اور علاقائی جبر کا خاتمہ ہو چکا ہے؟ اگر نہیں، تو تاریخ کا خاتمہ ہم صرف اس لیے مان لیں کہ مارکس نے کہ دیا تھا کہ کمیونزم میں چوں کہ انسانوں کے درمیان اور ان کے مفادات کے مابین تضادات کا خاتمہ ہو جائے گا، اور فلاں جزیرے پر ایسا ہو چکا ہے۔ یا پھر چوں کہ اب کمیونزم تو ”ناکام ہو گیا ہے“ تو اس لیے سمجھ لیں کہ تاریخ کا خاتمہ چلیں ایسے ہی ہو گیا ہے۔ مارکس، ہیگل اور کانٹ کے ارشادات سنا کر دنیا میں موجود تضادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے ہمیں مسٹر فوکویاما یا ان کے ماننے والے منوا لیں گے، کہ ہم بھی ان کے ہم نوا ہو کر کہیں اب سوشلزم تو آیا نہیں لہٰذا یہی بربریت ہی انسان کا مقدر ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ سوشلزم کی جتنی ضرورت اور جتنی ناگزیریت آج محسوس ہو رہی ہے، کبھی نہیں تھی اور یہ ضرورت ہر گزرتے دن شدید تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور ہمیں اس بات کا یقین بھی پختہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے کہ طبقاتی سماج کی تاریخ کا خاتمہ سوشلزم سے ہوتے ہوئے کمیونزم ہی پر ہو گا۔

Comments are closed.