”آزاد“ کشمیر: پُر امن احتجاجی تحریک پر ریاستی کریک ڈاؤن۔۔۔ہزاروں افراد کا مظفر آباد لانگ مارچ شروع!

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|

بجلی بلوں کے خلاف ایک سال سے جاری عوامی تحریک اب فیصلہ کن موڑ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کا گماشتہ حکمران طبقہ مکمل طور پر حواس باختہ ہو چکا ہے۔

پہلے تو عوام کے مسائل اور موڈ کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ پھر مزاکرات کے نام پرمسلسل دھوکہ دہی اور تاخیری حربوں کی ناکامی بعد اب جبر، چھاپوں اور گرفتاریوں سے تحریک کو توڑنے کی کوشش نے عوامی موڈ زیادہ لڑاکا اور جارہانہ کر دیا ہے۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ 11 مئی کو مظفر آباد کی جانب لانگ مارچ کیا جائے گا۔ لہٰذا اس لانگ مارچ کو روکنے اور سبوتاژ کرنے کیلئے 9 مئی کو میرپور ڈویژن میں ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کھلی ریاستی غنڈہ گردی کی گئی۔

متعدد گرفتاریوں، آنسو گیس شیلنگ اور ڈڈیال شہر میں اسسٹنٹ کمشنر اور پولیس کے مظاہرین پر تشدد سے عوام آگ بگولہ ہو گئے اور جوابی حملے میں پولیس کو پسپہ ہونا پڑا اور عوام نے کمشنر ڈڈیال کی سر بازار دھلائی کرتے ہوئے اسے چڈی بنیان میں واپس بھیجا۔

مظفرآباد اور میرپور ڈویژن میں ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں اور ریاستی جبر کے جواب میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 10 مئی سے ”آزاد“ کشمیر بھر میں غیر معینہ مدت تک پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کا اعلان کر دیا۔

10 مئی کو آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنز میں تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ دسیوں میل پیدل سفر کر کے شہروں میں جمع ہوئے اور کامیاب جلسے اور ریلیاں منعقدکیں۔

حکومت نے پہلے ہی تمام تعلیمی ادارے پیر تک بند کر دیے تھے، تاہم سرکاری اداروں میں بھی ملازمین کی حاضری نہ ہونے کے برابر رہی اور نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔

مظفرآباد میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان پورا دن جھڑپوں کاسلسلہ جاری رہا تاہم ایکشن کمیٹی پرامن انداز میں ریلی اور بھرپور جلسہ عام کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ مجموعی طور پر 10 مئی کے کامیاب احتجاجی جلسے کرتے ہوئے ایکشن کمیٹی نے حکومت اور ریاست کو یہ باور کرایا ہے کہ جبر کے استعمال سے آواز خلق کو دبایا نہیں جا سکتا۔

مظفرآباد کے علاوہ باغ، دھیرکوٹ، تھوراڑ، منگ راولاکوٹ، کھائیگلہ، جبوتہ، ہجیرہ، تراڑکھل، پلندری اور میرپور ڈویژن کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں منعقد کی گئیں جن میں مجموعی طور پر لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔

ایف سی، پی سی سمیت ریاستی مسلح جتھوں نے عوام کا جم غفیر دیکھ کر منظر سے غائب رہنے میں ہی عافیت جانی۔ کچھ شہروں میں دیر گئے تک مطالبات کے حق میں انقلاب اور آزادی کے نعرے گونجتے رہے۔

حکومت ایک طرف ریاستی طاقت کا استعمال کرنے کے جابرانہ حربے اختیار کر رہی ہے اور آج رات بھی مظفرآباد سے کم ازکم چھے لوگوں کو گرفتار کیا ہے، تو دوسری طرف عوامی موڈ اور تحریک کی شدت سے خوفزدہ ہو کر مزاکرات کی منافقانہ پیشکش کر کے تحریک کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے۔ ایکشن کمیٹی کی قیادت نے درست طور پر اب کسی مزاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک، یعنی حکومتی نوٹیفیکیشن تک، غیر معینہ مدت پہیہ جام و شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی جاری رہے گی اور آج مظفرآباد لانگ مارچ بھی ہو رہا ہے۔ اب تک کی اطلاعارت کے مطابق میرپور ڈویژن سے قافلے مظفر آباد کی جانب روانہ ہوچکے ہیں اور رستے میں حائل ہر رکاوٹ کو پرے دھکیلتے ہوئے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

عوام اپنی اجتماعی طاقت اور اتحاد سے اس جدوجہد میں سرخرو ہو چکے ہیں۔ ایک سال سے جاری اس تحریک کے ہر احتجاج اور ہر کال کو قیادت کی توقعات سے زیادہ کامیاب بنایا ہے۔ طویل وقت سے جاری تحریک کی کامیابی کا انحصار اب قیادت کی درست حکمت عملی، حوصلے اور جرات پر ہے۔

ریاستی حملوں اور جبر کا راستہ روکنے کیلئے کچھ علاقوں میں دفاعی کمیٹیاں بھی بن رہی ہیں۔ یہ سلسلہ پورے خطے میں آگے بڑھنا ضروری ہے۔ نجی اور پبلک سروس اداروں کے محنت کشوں سے تحریک کیلئے یکجہتی معیاری طور پر تحریک کے کردار کو تبددیل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔

خواتین نے اس تحریک میں دلیرانہ کردار ادا کیا ہے۔ ان کی شمولیت کے حوالے سے قبائلی اور قدامت پسندانہ پراپیگنڈے سے خائف ہوئے بغیران کی حوصلہ افزائی سے تحریک کو مزید توانا کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ تحریک نوے فیصد غریب محنت کش طبقے کی تحریک ہے، اسی لئے حکمران طبقے کی پارٹیاں پہلے ہی کھل کر عوامی تحریک کی مخالفت پر میدان میں اتر چکی ہیں۔ لیکن ابھی بھی تحریک کے ساتھ چل رہی کچھ دائیں بازو کی پارٹیاں، جو تاریخی طور پر ریاست اور حکمران طبقے کی دلال ثابت ہوئی ہیں، سے ہوشیا رہنے کی ضرورت ہے۔ وہ سیاسی قیادت جو اس استحصالی نظام اور ریاست پر یقین رکھتی ہو، کبھی محنت کشوں عوام کی وفادار نہیں ہو سکتیں۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو عوام نے اعتماد اور طاقت فراہم کی ہے، قیادت عوامی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے فیصلہ کن لڑائی کیلئے آگے بڑھے۔ آخری فتح محنت کش عوام کی ہو گی۔ حکمرانوں اور عوام کے اس معرکے میں محنت کش عوام کی جیت خطے بھر کے استحصال زدہ طبقے کے لئے باعث تقویت ہو گی۔ مہنگائی، بیروزگاری، استحصال اور سرمایہ دارانہ جبر کے خاتمے کی یہ جنگ ایک انقلابی فتح پر ہی منتج ہو گی۔

Comments are closed.