”آزاد“ کشمیر: ریاستی جبر کے رد عمل میں انقلابی بغاوت کے شعلے پھر بھڑک اُٹھے

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|

نام نہا د آزاد کشمیر میں بلا ٹیکس بجلی کے حصول اور آٹے پر سبسڈی کی بحالی جیسے بنیادی مطالبات کے حصول کی جاری پر امن تحریک آج 9 مئی 2024ء کو ریاست کے وحشیانہ تشدد کے باعث ایک عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گئی ہے۔

عوامی تحریک کو منظم کرنے والی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مظفر آباد کی جانب پر امن عوامی مارچ کی کال دے رکھی تھی جس کا آغاز 11 مئی کو ہونا تھا۔ کشمیر کے تمام اضلاع میں اس عوامی مارچ کی نہایت پر جوش تیاریوں کا سلسلہ جاری تھا۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمرانوں نے عوام کے مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے اس عوامی مارچ کو ریاستی جبر کے ذریعے کچلنے کی تیاریوں کے سلسلے میں گزشتہ ہفتے حکومت پاکستان سے بھی FC اور PC کے مسلح جتھے منگوانے کے لیے مکتوب ارسال کیے۔ ان اضافی جتھوں کو منگوانے کی خبر نے عوام میں مزید اشتعال پھیلا دیا اور 6 مئی کو کشمیر کے مختلف شہروں اور قصبوں میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔

9 مئی کو کشمیر کے حکمرانوں نے کشمیر کے جنوبی اضلاع بھمبر، میرپور اور کوٹلی سمیت مظفر آباد میں تحریک کے سرگرم کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارنے اور گرفتاریوں کے سلسلے کا آغاز کر دیا۔

میرپور سے عوامی ایکشن کمیٹی اور سیاسی تنظیموں کے درجن بھر سرگرم کارکنان کو گرفتار کیا گیا جن میں پروگریسو یوتھ الائنس کشمیر کے سابق صدر اور میرپور یونیورسٹی کے طالبعلم عبید ذوالفقار بھی شامل ہیں۔

مارچ کو روکنے کے لیے ضلع میرپور کی تحصیل ڈڈیال میں لگے عوامی کیمپ پر ریاستی غنڈوں نے حملہ کیا اور مارچ کی تیاریوں کو روکنے کی کوشش میں آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔ ریاستی غنڈوں نے عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے بلا تخصیص تمام ملحقہ علاقوں میں اندھا دھند آنسو گیس پھینکی جس سے ایک قریبی سکول کی درجنوں معصوم بچیاں بے ہوش ہو گئیں اور انہیں ہنگامی بنیادوں پر ہسپتال پہنچایا گیا جہاں دو بچیوں کی حالت کئی گھنٹوں تک اس حد تک تشویشناک رہی کے ان کے فوت ہو جانے کی غلط خبریں بھی پھیل گئیں۔

ریاست کے اس وحشیانہ جبر کے خلاف ڈڈیال کے مشتعل عوام سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر سمیت کئی پولیس اہلکاروں کی درگت بنا ڈالی۔ ڈڈیال کی عوام اور پولیس کے درمیان دوپہر کو شروع ہونے والا یہ تصادم دن بھر جاری رہا جس میں نہتے عوام نے شیروں کی طرح لڑتے ہوئے مسلح ریاستی غنڈوں کو مار بھگایا اور پورے شہر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔

اس تصادم کی بے شمار چھوٹی چھوٹی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں جن کو اب تک لاکھوں لوگ دیکھ چکے جن میں نہ صرف اسسٹنٹ کمشنر کو سڑکوں پر گھسیٹ کر ریاست کی فرعونیت کو خاک میں ملا دیا گیا بلکہ ریاست کی عزت کو بھی چوکوں میں ننگا کر دیا گیا۔

اسی طرح ضلع کوٹلی کے علاقوں سہنسہ اور تتہ پانی سے عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین اور کارکنان کی گرفتاریوں کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور اس ریاستی جبر کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ اس کے علاوہ ضلع کوٹلی سمیت کشمیر کے دیگر کئی علاقوں میں اس بربریت کے خلاف احتجاج کیے گئے۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے پہلے ہی یہ اعلان کر رکھا تھا کہ اگر عوام کے پرامن مارچ کو ریاستی جبر کے ذریعے روکنے کی کوشش کی گئی تو اسی لمحے سے پورے کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے مکمل پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کر دی جائے گی۔

ڈڈیال سمیت دیگر علاقوں میں ہونے والے ریاستی جبر کے خلاف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے 9 مئی کی رات 12 بجے سے پورے کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا با قاعدہ اعلان کر دیا ہے۔

کشمیر کے تمام علاقوں میں عوامی کمیٹیوں نے ہنگامی طور پر اجلاس منعقد کرتے ہوئے رات 12 بجے سے مکمل لاک ڈاؤن کی تیاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ تمام علاقوں میں طلبہ ایکشن کمیٹیوں کے بھی ہنگامی اجلاس منعقد کیے گئے جن میں اس لاک ڈاؤن کو منظم کرنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

کشمیر کے زیادہ تر اضلاع کی بار ایسوسی ایشن سمیت سپریم کورٹ بار ایسوایشن نے بھی اس لاک ڈاؤن کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔

حکومت نے جامع کشمیر مظفرآباد سمیت تمام تعلیمی اداروں کو اگلے تین روز تک بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

10 مئی سے شروع ہونے والے اس مکمل لاک ڈاؤن کے ساتھ ہی کشمیر میں ایک سال سے جاری عوامی حقوق کی تحریک بغاوت کے ایک نئے اور بلند مر حلے میں داخل ہو چکی ہے۔ تحریک کے ساتھ عوام کی وابستگی کے حوالے سے کشمیر کے حکمرانوں، ان کے آقاؤں اور پالیسی سازوں کے تمام اندازے خاک میں مل چکے ہیں۔

درحقیقت گزشتہ چند سالوں سے سستی بجلی اور سستے آٹے کی زیادہ تر احتجاجی تحریکیں پونچھ ڈویژن تک محدود رہیں جبکہ میرپور اور مظفر آباد ڈویژن میں کوئی خاص تحرک نہیں رہا۔ اس حالیہ جاری تحریک کا آغاز بھی گزشتہ برس مئی میں پونچھ سے ہی ہوا تھا جبکہ باقی دو ڈویژن جولائی میں اس تحریک کا حصہ بنے تھے۔ عمومی طور پر بھی پونچھ ڈویژن باقی دو ڈویژنز کے مقابلے میں زیادہ سیاسی تحرک اور مزاحمت کی تاریخ رکھتا ہے اسی لیے حکمرانوں کے سیانے ماہرین نے یہ حکمت عملی مرتب کی کہ اگر میرپور ڈویژن، جہاں سے اس مارچ کا آغاز ہونا تھا، سے عوامی ایکشن کمیٹی کے قائدین اور متحرک کارکنان کو گرفتار کر لیا جائے تو وہاں سے بڑی مزاحمت بھی نہیں آئے گی اور یوں مارچ کو بھی با آسانی روک لیا جائے گا۔ لیکن حکمرانوں کو ڈڈیال کے عوام، شائد بزدل اور کمزور سمجھ کر پہلے جن پر پہلا حملہ کیا گیا تھا، نے ہی دھول چٹا دی اور ڈڈیال کی سڑکوں پر پولیس آفیسران سمیت تمام مسلح جتھوں کو عوام نے جس طرح بھگا بھگا کر مارا وہ عوامی جرات کی عظیم مثالوں میں ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ اسی طرح تھوراڑ کے عوام نے ایک منفرد مثال قائم کرتے ہوئے پولیس کی اضافی نفری کو رہائش، کھانا اور دیگر اشیا ضروریات کی فروخت سے انکار کر دیا۔

جیسا کہ مارکس نے ایک بار کہا تھا کہ بسا اوقاات انقلاب کو آگے بڑھنے کے لیے رد انقلاب کے کوڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی قول کے مصداق کشمیر کی جاری اس تحریک میں ریاستی جبر نے انقلابی بغاوت کی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔

ان الفاظ کو ضبط تحریر میں لانے کے وقت کشمیر کے تمام تر علاقوں میں نوجوان ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر 12 بجنے کے منتظر ہیں کہ جس کے بعد فوری طور پر تمام چھوٹی بڑی شاہراہوں کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔

10 مئی کو کشمیر کے تمام دیہی و قصباتی مراکز سمیت تمام بڑے شہروں میں مجموعی طور پر لاکھوں لوگ اس ریاستی جبر کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کریں گے۔

کشمیری عوام کی اپنے بنیادی حقوق کی یہ جدوجہد مختلف نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی ایک انقلابی بغاوت کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس تحریک کا سب سے بڑا انقلابی اقدام گزشتہ دس ماہ سے بجلی بلوں کا بائیکاٹ ہے جس کے حوالے سے اب اکثریتی عوام کی رائے یہ ہے کہ تحریک اگر ناکام بھی ہو جاتی ہے تو حکومت ہم سے بجلی کے بل کیسے وصول کرے گی؟

بے شمار دیہاتوں کی عوامی کمیٹیوں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ اگر حکومت ان کے مطالبات مکمل طور پر تسلیم کرتی ہے تو پھر اس کے بعد وہ مستقبل میں بجلی کے بل ادا کرنے پر غور کریں گے وگرنہ کسی بھی دوسری صورت میں وہ بجلی کے بل ادا نہیں کریں گے۔

10 مئی کے لاک ڈاؤن سے تحریک کا یہ مرحلہ انتہائی فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکا ہے۔ ابھی سے یہ خبریں آنا شروع ہو چکی ہیں کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے عوامی ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کرنے کی رضامندی کا اعلان کر دیا ہے۔ درحقیقت پہلے بھی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے عوامی طاقت کے ذریعے مطالبات تسلیم کرانے کی بجائے تحریک کے عروج پر طویل مذاکرات کا راستہ اپنایا تھا جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

9 مئی کو ریاستی جبر کے خلاف ابھرنے والی بغاوت اور مزاحمت نے ایک بار پھر حکمرانوں کو فوراً ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اس لیے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو اپنے گزشتہ مذاکرات کے تجربے سے سیکھتے ہوئے حکومت کی اس پیشکش کو فوری طور پر ٹھکرا تے ہوئے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ اگر حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے عوام کے تسلیم شدہ جائز مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر فوری عملدرآمد کا حکومتی نوٹیفکیشن جاری کرنا چاہیے۔

جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی گزشتہ چھے ماہ کے دوران حکومت کے ساتھ درجنوں بار مذاکرات کر چکی ہے جن میں حکومت نے عوام کے ان مطالبات کو مکمل طور پر جائز تسلیم کرتے ہوئے ان کو پورا کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ مختلف معائدے بھی کر چکی ہے۔ اس لیے تسلیم شدہ مطالبات پر دوبارہ مذاکرات کی پیشکش محض ہڑتال کو ناکام بنانے کی ایک حکومتی سازش ہے۔

کشمیر کے عوام اپنی طاقت کے ذریعے دوسری بار ان حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکے ہیں اس لیے کمیٹی کو اب کی بار حکمرانوں کے مذاکرات کے جال میں پھنسنے سے یکسر انکار کرتے ہوئے عوامی طاقت کی بنیاد پر اس لڑائی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت عوام نے ریاست کو شکست فاش دے کر یہ لڑائی جیت لی ہے اور اب حکمران عوام کی اس جیتی ہوئی لڑائی کو مذاکرات کے ڈھونگ کے ذریعے ناکامی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔

عوامی تحریکوں کو کچلنے کے لیے ریاست کے پاس آخری ہتھیار ریاستی جبر ہوتا ہے اور ریاست اپنا یہ آخری ہتھیار بھی استعمال کر کے شرمناک شکست سے دوچار ہو چکی ہے۔ اس لیے اب اس تحریک کی کامیابی کا انحصار عوامی قیادت کی جرات اور دانشمندی پر ہے۔

اگر عوامی قیادت کشمیری عوام کی انتہائی جرات مندانہ اور انقلابی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے مذاکرات کو مسترد کرتی ہے تو حکمران جلد ہی مکمل گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن اگر عوامی قیادت ماضی کی طرح حکمرانوں کی اس پیشکش کو قبول کرتی ہے تو ایک بار پھر طویل مذاکرات کے ذریعے حکمران اس تحریک کو زائل کرنے کی کوشش شروع کر دیں گے۔ تمام متحرک کارکنان کا بھی یہی فریضہ ہے کہ وہ نیچے سے ان مذاکرات کو مسترد کر دینے کی ایک مہم کا آغاز کریں تا کہ ایکشن کمیٹی کی قیادت کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ عوام طاقت کے ذریعے اس تحریک کو کامیابی کے راستے کو اپنائیں۔

سچے جذبوں کی قسم آخری فتح محنت کش عوام کی ہو گی!

Comments are closed.